اسلامی تہوار کس طرح منایا جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ بیلجیم کے تبلیغی پروگرامز
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بیلجیم کو تمام ریجنز میں رمضان اور عید کے حوالہ سے تبلیغی پروگرام منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ ان پروگرام کی تیاری اور کامیابی کے لیے مرکزی سطح اور لوکل جماعتوں میں احباب کی کمیٹیز بنائی گئی۔ تقریباً ایک ماہ قبل دعوت نامے چھپوا کر پورے ریجن کی جماعتوں میں تقسیم کیے گئے۔ اس کے علاوہ لوکل شہر کے مئیر وسیاسی و سماجی اور مذہبی شخصیات کو ذاتی طور پر مل کر اس پروگرام میں شمولیت کے لیے دعوت دی گئی ۔
مرکزی طور پر ایک پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اس کے مطابق ہرریجن میں پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد محترم امیر صاحب جماعت بیلجیم کی طرف سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا نیز اپنی گزارشات میں آئے ہوئے مہمانوں کو رمضان اور عید کی اہمیت و فضیلت بیان کی۔ بعدازاں مقررین نے جماعت احمدیہ کا تعارف اور جماعت بیلجیم کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیاں پریزنٹیشن کی صورت میں پیش کیں۔ پریزنٹیشنز کے بعد مہمانوں میں سے آئے ہوئے بعض مہمان مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں انہوں نے جماعت کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے آئندہ بھی جماعت کو لوگوں کے لیے ایسے پروگرام جاری رکھنے کا اظہار کیا۔
آخرپر خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت المجیب ’’اوکل‘‘ Uccle میں بھی پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کومدعو کیا گیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے شاملین میں مختلف چرچ کے نمائندگان، یہودی جماعت کے نمائندگان، دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد، سیاست دان اور اوکل شہر کے مئیر بھی شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد امیرصاحب نے فرنچ اور ڈچ زبان میں مہمانان کو خوش آمدید کہا اور موجودہ عالمی حالات کے سلسلہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رمضان اور عید کے حوالہ سے ایک presentation دکھائی گئی۔ اس کے بعد مکرم مشنری انچارج صاحب نے جماعت کا تعارف کروایا اور خدمتِ خلق کے حوالہ سے جماعت کی مختلف سرگرمیوں کی تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ پروگرم کے اختتام پر بعض شاملین کو بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیا گیا۔ شاملین پر اس پروگرام کا بہت اچھا تاٴثر رہا ہے جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا ہے۔ عام تاٴثر یہ تھا کہ اتنے مختلف طبقات اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا نہایت ہی حیرت انگیز کام ہے۔ اسی طرح بعض کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا منعقد کیا جانا اور اس کا انتظام ان کی امیدوں سے بڑھ کر ثابت ہوا ہے اور بہت محبت اور بھائی چارہ والا ماحول دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک مسلمان مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ آج کل کے مسلمان تعلقات بنانے کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن جماعت پختگی سے اسلامی تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے یہ سب کام سر انجام دے رہی ہے۔
یہودی جماعت کے صدر نے بھی جماعت احمدیہ کے ان پروگراموں کو پسند کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ مسجد کے قیام سے قبل ان کو مسلمانوں کی بننے والی مسجد اور اس کی نتائج کا خوف تھا۔ لیکن اب جماعت کا بہترین نمونہ دیکھ کر ان کے تمام خوف دور ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ان کی بیوی نے بھی بڑے جذباتی انداز میں اپنے خیالات و احساسات کا اظہار کیا کہ ماضی میں ان کا مسلمانوں سے اچھا تجربہ نہیں رہا لیکن جماعت احمدیہ کی تعلیمات سننے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ان کو لگتا ہے کہ وہ اپنے گھر آگئی ہیں نیز یہ کہ اسلامی تعلیمات اور ہماری تعلیمات آپس میں بہت مماثلت رکھتی ہیں۔
اس پروگرام کا اختتام اجتماعی دعا کےساتھ ہوا۔ اس کے بعد مہمانوں کی خدمت میں جماعت کی طرف سے عشائیہ پیش کیا گیا۔ کھانے کے دوران مہمانوں کے ساتھ احباب جماعت کی خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوتی رہی اورسب نے اس بات کا اظہارکیا کہ جماعت احمدیہ امن و محبت اور بھائی چارے کی خوبصورت تعلیم پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پروگرام ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ الحمدللہ