اعجاز قرآن کے بعض پہلو
’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں ‘‘
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا، ہمارا چاند قرآں ہے
اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم الشان فضل و احسان ہے کہ اس نے انسانو ں کی رشد و ہدایت کے لیے اپنی حکمت کا ملہ سے قرآن کریم فرقان حمید جیسی رفیع الشان کتاب اپنے رسول امی ﷺ پر نازل فرمائی جو علم و حکمت کا ایک بے مثل اور بے بہا خزانہ ہے۔اس کلامُ اللہ کی معجزانہ شان اس کے ہر لفظ اور اس کی ہر عبارت سے ظاہر ہو تی ہے۔قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات پر غور و فکر اور تدبرسے ایک طرف تو اس کے معنی و مضامین، اس کے اسلوب و انداز، اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی حلاوت و لطافت سے آگاہی ہو تی ہے اور دوسری جانب اس کلام الٰہی کے نازل کرنے والے علیم وخبیر خدا کی معرفت کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے کیونکہ یہ قرآن اللہ تعا لیٰ کے حسن و جمال اور کمال کا آئینہ ہے۔ اور کلام اللہ ہونے کے باوصف علم و حکمت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں ہر دَور اور ہر زمانے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس دَور میں بھی مسلسل لکھا جا رہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا کیونکہ قرآن مجید علم و حکمت کا ایک ایسا سرچشمہ اور فی ذاتہٖ ایک ایسا معجزہ ہے جس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہو ں گے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام معجزات قرآن کریم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و لطائف و نکات ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہو ئے ہیںاس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدّ و مد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام جنّ و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو ان کے لیے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجودیکہ قرآن شریف کی منادی دنیا کےہر ایک نواح میں ہو رہی ہے اور بڑے زور سے ھَلْ مِنْ مَعَارِضٍ کا نقارہ بجایا جاتا ہے مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی۔ پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوںمیں سے صرف اس خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البنیان سے یہ بھی نا ممکن ہے کہ اس ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے…۔‘‘( ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد4صفحہ472)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف سرمہ چشم آریہ میں تحریر فرماتے ہیںکہ’’معجزات اور خوارق قرآنی چار قسم پر ہیں (1) معجزات عقلیہ (2) معجزات علمیہ (3) معجزات برکات روحانیہ (4) معجزات تصرفات خارجیہ۔
نمبر اوّل دو و تین کے معجزات خواص ذاتیہ قرآن شریف میں سے ہیںاور نہایت عالیشان اور بدیہی الثبوت ہیں جن کو ہر یک زمانہ میں ہر یک شخص تازہ بتازہ طور پر چشم دید ماجرا کی طرح دریافت کر سکتا ہے لیکن نمبر چار کے معجزات یعنی تصرفات خارجیہ یہ بیرونی خوارق ہیں جن کو قرآن شریف سے کچھ ذاتی تعلق نہیں۔ انہیں میں سے معجزہ شق القمر بھی ہے۔اصل خوبی اور حسن و جمال قرآن شریف کا پہلے تینوں قسم کے معجزات سے وابستہ ہے بلکہ ہر ایک کلام الٰہی کا یہی نشان اعظم ہے کہ یہ تینوں قسم کے معجزات کسی قدر اس میں پائے جائیں اور قرآن شریف میں تو یہ ہر سہ قسم کے اعجاز اعلیٰ و اکمل و اتم طور پر پائے جاتے ہیںاور انہیں کو قرآن شریف اپنی بے مثل و مانند ہو نے کے اثبات میں بار بار پیش کرتا ہے۔ ‘‘(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد2صفحہ60)
قرآن کریم کی سورتوں میں تقسیم بھی علمی معجزہ ہے
جیسا کہ گذشتہ سطور میں قرآنی معجزات کی اقسام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک علمی معجزات کا تعلق ہے تو قرآن کریم کے علمی معجزات میں سے قرآنی سورتوں کی تقسیم بھی عظیم الشان علمی معجزہ ہے۔ یعنی قرآن کریم جو ایک صحیفہ اور کتاب کی صورت میں ہے اس کی اندرونی تقسیم خود اس کے نازل کرنے والے حکیم مطلق نے دو طرح سے یعنی آیات اور سورتوں کی صورت میں فرمائی ہے۔اور دو نو ں ہی الفاظ سورت اور آیت کو واحد اور جمع کی صورت میں خود قرآن کریم میں بھی استعمال فرمایا ہے۔لفظ سورت قرآن کریم کی پانچ سورتوں میں 9 بار آیا ہے۔(ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ :24، سورۃ التوبہ : 127,124,86,64، سورت یونس :39، سورۃ النور:2، سورت محمد:21) سورۃ النور کا تو اللہ تعا لیٰ نے آغاز ہی سورت کے لفظ سے یہ کہہ کر فرمایا ہے کہ سُوْرَۃٔ اَنْزَلْنٰھَایہ ایک ایسی سورت ہے جو ہم نے اتاری ہے۔سورت کی جمع سُوَرٌ(یعنی سورتیں) کا لفظ صرف ایک بار سورت ھود کی آیت14 میں استعمال ہوا ہے۔
سورت کا لفظ عربی میں سُؤَ رٌ سے نکلا ہے جس کے معنی فصیل یعنی شہر پناہ کے ہو تے ہیں۔ان معنوں کی رو سے سورت اپنی آیتوں کا اس طرح احاطہ کر لیتی ہے جیسے شہر پناہ کی دیوار اس کے مکانات کو گھیر لیتی ہے۔ یا سورت القرآن سُؤَرُالْمَدِیْنَۃِ سے ماخوذ ان معنوں میں ہے کہ سورت بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کریم کا احاطہ کیے ہو ئے ہے اس لیے اسے سورۃ القرآ ن کہا جا تا ہے۔ جس طرح شہر اپنی فصیلو ں کے ذریعہ اپنی مستقل شناخت ظاہر کرتا ہے اور دوسرے شہروں سے ممتاز ہو تا ہے اسی طرح قرآن کریم کی ہر سورت ایک مستقل موضوع اور مضمون رکھتی ہے جس میں دیگر مضامین ضمناً آجاتے ہیں۔ اس طرح ہر سورت اپنے مرکزی مضمون کے لحاظ سے دوسری سورتوں سے ممتاز ہو جاتی ہے۔ سورت کے ایک معنی عمارت کے ایک حصہ کے ہیں یعنی جس طرح مکان منزل بمنزل بنتا ہے اسی طرح سورتوں سے مل کر قرآن یا مصحف مکمل ہو تا ہے۔ یا سورت بمعنی مَنْزِلَۃٌ( بلندمرتبہ) سے مشتق ہے۔ اس طرح قرآن کریم کی ہر سورت چاند کی منازل کی طرح ایک منزل ہے۔ یا سورت کا لفظ سُؤْرَۃٌ سے ہے جس کے معنی ٹکڑے کے ہو تے ہیں۔ سورت بھی چونکہ قرآن کریم کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہو تی ہے اس لیے اس کو سورت کہا جا تا ہے۔( اَلْاِتْقَانُ فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْآن از امام جلال الدین سیوطیؒ 911-849 ہجری،النوع السابع عشرالجز الاول، دار ابن حزم بیروت2015ء۔اَلْمُفْرَادَاتْ فِی غَرِیْبِ الْقُرْآن از امام راغب ؒ الاصفہانی زیر حروف: س ور)
حضرت مصلح موعودؓ کے مطابق سورت کے عربی میں چھ معنی ہیں : منزلۃ یعنی درجہ، شَرَفٌ یعنی بزرگی و بڑائی، عَلَامَۃٌ یعنی نشان، اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو، بقیہ، ایسی شے جو پوری اور مکمل ہو۔ قرآن کریم کی سورتوں کو سورت اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ (1) قرآن کریم کا حصہ ہیں (2) ہر ایک سورت میں مکمل اور پورا مضمون بیان ہوا ہے۔ (3) وہ بلند اور خوبصورت روحانی تعمیرپر مشتمل ہیں (4) جن میں داخل ہو نے والا اعلیٰ مرتبہ (5) اور بزرگی پاتا ہے۔ (6) ان پر عمل کرنے والے کو ایک خاص امتیاز حاصل ہو جا تا ہے۔(تفسیر کبیر، جلد اوّل، صفحہ اوّل)
تمام سورتوں کے نام توقیفی ہیں یعنی اللہ تعا لیٰ یا اس کے رسولﷺ نے رکھے ہیں جو سب ثابت ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کلام اللہ ہے جس کے آغاز میں ہی یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور اسی سورۃ البقرہ میں جو دوسری سورت ہے یہ چیلنج بھی کیا گیا ہے کہ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِثْلِہٖاس جیسی ایک سورت لے آؤ۔ اور پھر دس سورتیں مکمل ہونے کے بعد گیارھویں سورت (سورت ھود کی آیت:14)میں دس سورتوں کے بنانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ یہ بھی قرآن کریم کے ربط اور نظم کی ایک اعجازی شان ہے کہ جہاں دس سورتوں کے بنا کرلانے کا چیلنج دیا گیا ہے وہ گیارھویں سورت ہے اس سے پہلے دس سورتیں موجود ہیں کہ ان جیسی دس سورتیں بنا کر لے آؤ۔
اسی طرح سب سے پہلی وحی قرآنی : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، سورۃ العلق ہے۔ اور اس کے بعد جو سورت آتی ہے وہ سورۃ القدر ہے۔ اس کی ابتدائی آیت ہی میں یہ اعلان کردیاگیا ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِہم نے یقیناً اس کو ایک عظیم الشان قدر والی رات میں اتارا ہے۔ یعنی جو وحی سورۃ العلق میں نازل ہو ئی اس سے اگلی سورت میں بتا دیا گیا کہ یہ لیلۃ القدر میں اتاری گئی ہے۔اس تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں ایک روایت کا ذکر فرمایا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓسے سوال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں، کچھ کسی مہینہ میں، کچھ کسی مہینہ میں نازل ہوا ہے۔ اس سوال کے جواب میں حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓنے جواب دیا: اِنَّہٗ اُنْزِلَ فِیْ رَمَضَانَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِفِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍجُمْلَۃً وَّاحِدَۃً ثُمَّ اُنْزِلَ عَلیٰ مَوَاقِعِ النُّجُوْمِ تَرْتِیْلًا فِیْ الشُّہُوْرِ وَالْاَیَّامِ کہ قرآن کریم سب کا سب ایک ہی بار رمضان کے مہینہ اور لیلۃ القدر کی رات میں جو لیلہ مبارکہ بھی کہلاتی ہے اترا تھا۔ مگر زمین میں مختلف مہینوں اور دنوں میں آہستہ آہستہ نازل ہوا۔(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ299کالم1)
قرآن کریم کی سورتوں کا ذکر کرتے ہو ئے نویں صدی ہجری کے مجدد امام جلال الدین سیوطی ؒ( 849-911 ہجری) نے اپنی تصنیف اَلاِْتْقَانُ فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْآن میں علامہ جاحظ (ابو عثمان عمرو بن بحر الکنانی البصری، 162-255 ہجری) کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ اہل عرب نے اجمالاً اور تفصیلاً اپنے کلام کے جو نام رکھے تھے خداوند کریم نے اپنی کتاب کے نام ان کے برخلاف مقرر فرمائے۔یعنی خدا نے جملۃً اپنی کتاب کا نام ’قرآن ‘ رکھاجس طرح اہل عرب مجموعی کتاب کو دیوان کہتے تھے۔ اور خدا نے اپنی کتاب کے حصہ کا نام ’سورۃ‘مقرر فرمایاجیسا کہ اہل عرب’قصیدہ ‘ نام رکھتے تھے۔اور چھوٹے سے جملہ کا نام ’آیۃ‘بیت کے مقابلہ میں رکھا۔ پھر آیۃ کے آخری حصہ کو ’فا صلۃ‘کا نام قافیہ کی بجائے عطا کیا۔امام ابو بکر الانباری ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت جبریلؑ آنحضرتﷺ کو آیت اور سورت کا مقام بتاتے تھے۔ سورتوں کا جوڑ آیتوں اور حروف کے جوڑ کی طرح ہے اور ہر ایک بات نبی ﷺ کی طرف سے ہے۔ جس نے کسی سورت کو اپنے مقام سے آگے یا پیچھے کیا اس نے نظم قرآن کو بدل ڈالا۔(اَلْاِتْقَانُ فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْآن از امام جلال الدین سیوطیؒ 911-849ہجری،النوع السابع عشرالجز الاول، دار ابن حزم بیروت2015ء)
قرآن کریم کوسورتوں میں تقسیم کرنے کی حکمت
قرآن کریم جو کلام اللہ ہے اس کے تازہ معارف، حقائق اور علوم ربانی جو وقت کے ساتھ وابستہ ہیں ہمیشہ اپنے وقت پر ظاہر ہو تے رہتے ہیں اور ہو تے رہیں گے۔اس کلام الٰہی کا ایک عظیم الشان معجزہ اس کی ترتیب اور نظم ہے۔قرآن کریم نہایت بہترین اور عمدہ ترتیب اور تناسب کے ساتھ اتارا گیا ہے۔ اس کی ترتیب نزولی بھی بہترین تھی جو اس وقت کے لوگوں کے لیے ضروری تھی۔اور بعد کی (موجودہ) ترتیب توقیفی یا ترتیب رسولی بھی اپنے اندر ایک حسن رکھتی ہے جو بہت سی حکمتوں کو اپنے اندر سموئے ہو ئے ہے۔ اس کی موجودہ ترتیب، شریعت مکمل ہو نے کے بعد آنے والے لوگو ں کے لیے ضروری تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓقرآن کریم کی موجودہ ترتیب کی حکمت بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’کلام حکیم کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو۔ جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دنیا کو دینا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیب تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ں کی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل نا واقف ہو ں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت ہو گی ان باتو ں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی جبکہ لو گ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہو ں گے۔ پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب اَور ہے اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اَور ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ52)
حضرت مصلح موعود ؓمزید تحریر فرماتے ہیں کہ’’آیتیں جس ترتیب سے نازل ہو تی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا۔ بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہیں نہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ52)
قرآن کریم کو سورتوں میں تقسیم کرنے کی یہ حکمت بھی بتائی گئی ہے کہ اس طریق پر ہر سورت کو معجزہ اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ثابت کیا جا سکے یعنی جس طرح سورۃ البقرہ منجانب اللہ نازل ہو نے کی وجہ سے معجزہ الٰہی ہے تو سورۃ الکوثر بھی اسی طرح معجزہ ہے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہر سورت ایک مستقل (نوشتہ) تحریر ہے جیسے کہ سورت یوسف جو کہ حضرت یوسف ؑکا پورا قصہ بیان کرتی ہے یا جیسے سورت توبہ جو منافقین کے حالات اور ان کے مخفی رازوں کا پردہ کھولتی ہے۔
سورت اور صحف میں باہمی ربط اور تعلق
قرآن کریم کا ایک صفاتی نام صُحُفہے جیسے فرمایا:فِی صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ(عبس:14)یہ قرآن عزت والے صحیفوں میں ہے۔
صحف کے معنی لکھنے کے ہو تے ہیں۔جب یہ باب افعال سے آئے تو اس کے معنی منتشر صفحات کو جمع کر کے ایک جگہ لکھنے کے ہیں۔مصحف باب افعال سے اسم مفعول ہے۔ نبی کریم ﷺ پر جو بھی آیات قرآنیہ نازل ہو تیں آپﷺ انہیں ان کی مناسبت سے ان کے متعلقہ صحیفہ میں لکھوا دیتے تھے۔صحیفہ تحریری مجموعہ کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کے لیے صحیفہ کی بجائے اس کی جمع صحف بیان کی گئی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کے مقابلہ میں بہت سے زائد احکام اور اوامر بیان فرمائے گئے ہیں۔ قرآن کریم سے پہلے کی تعلیمات کے لیے بھی اللہ تعا لیٰ نے لفظ صحف استعمال فرمایا ہے کیونکہ وہ بھی قرآن کریم کی اصولی تعلیمات پر مشتمل تھیں اس لیے انہیں بھی صحیفہ یا صحف کہا گیا جیسے صحف ابراہیم ؑیا صحف موسیٰؑ۔مراد اس سے یہی ہے کہ جو اصولی تعلیمات قرآن نے پیش کیں وہ ان میں بھی موجود تھیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورت کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور قرآن ان سورتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ بالفاظ دیگر قرآن کی جو سورتیں ہیں یہی دراصل صحیفے ہیں اور ہر سورت ایک صحیفہ ہی ہے اس لیے قرآن کو مصحف بھی کہا جاتا ہے۔ سورت عبس میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے بارے میں فرماتا ہے: فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ(عبس:15-14)یہ (قرآن) ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے، بلند شان اور پاک ہیں۔اورایک دوسرے مقام پر فرمایا: رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃًفِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ( البینۃ: 3) اللہ کی طرف سے آنے والا رسول جو پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سناتا ہے جن میں کئی حتمی کتابیں ہیں۔
قرآنی سورتوں کے آغاز کے مختلف انداز
قرآن کریم کی ایک معجزانہ شان اس طریق پر بھی نظر آتی ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے قرآن کریم کی 114سورتوں کا آغاز ایک ہی طریق پر اور ایک ہی انداز سے نہیں فرمایا بلکہ مختلف سورتیں مختلف کلمات و الفاظ سے شروع ہو تی ہیں اور یہ دس اقسام پر مشتمل ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
حمد و ثنا سے شروع ہو نے والی سورتیں
قرآن کریم کی 14سورتیں اللہ تعا لیٰ کی حمد وثنا سے شروع ہو تی ہیں۔ان میں سے پانچ( 5)سورتیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہو تی ہیں یعنی سورۃ الفاتحہ،سورۃ الانعام، سورۃ الکہف،سورۃ السبا اور سورۃ الفاطر۔جبکہ دو(2) سورتیں تَبَارَکَ الَّذِیْکے ساتھ شروع ہو تی ہیں یعنی سورۃ الفرقان اور سورۃ الملک۔
اسی طرح 7 سورتیں لفظ سُبْحَانیا اُس سے متعلق لفظ سے شروع ہوتی ہیںیعنی سورت بنی اسرائیل سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰیسے شروع ہو تی ہے۔ تین سورتیں یعنی سورۃ الحدید، سورۃ الحشر اور سورۃ الصف سَبَّحَ لِلّٰہِکے الفاظ سے شروع ہو تی ہیں۔ جبکہ سورۃ الجمعہ اور سورۃ التغابن یُسَبِّحُ لِلّٰہِکے الفاظ سے شروع ہو تی ہیں۔ سورۃ الاعلیٰ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَسے شروع ہوتی ہے۔ ان میں ایک سُبْحٰن مصدر ہے، تین سَبَّحَ لِلّٰہِ ماضی کے صیغے ہیں، دو مضارع یُسَبِّحُ لِلّٰہِاور ایک فعل امر سَبِّحِ اسْم ہے۔ اس طرح یہ کل 14 سورتیں بنتی ہیں جن کا آغاز اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا سے ہو تا ہے۔
حروف مقطعات یعنی حروف تہجی سے شروع ہونے والی سورتیں
قرآن کریم کی 29سورتیں حروف مقطعات یا حروف تہجی سے شروع ہوتی ہیں۔ان تمام سورتوں میں حروف مقطعات کی تعداد 87 ہے۔زبان عربی کے حروف تہجی کی تعداد28ہے جبکہ مقطعات میں سے نصف یعنی صرف 14 حروف استعمال ہوئے ہیں۔ بعض حروف مکرر یعنی ایک سے زیادہ باربھی آئے ہیں۔ حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
٭…الٓمّسے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد چھ (6) ہے یعنی سورۃ البقرہ، سورت آل عمران، سورۃ العنکبوت، سورۃ الروم، سورت لقمان اور سورۃ السجدہ۔
٭…الٓرٰ سے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد پانچ (5)ہے یعنی سورت یونس، سورت ھود، سورت یوسف، سورت ابراہیم اور سورت الحج۔
٭…طٰسٓمّ سے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد دو(2) ہے یعنی سورۃ الشعراء اور سورۃ القصص
٭…حٰمٓ سے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد سات (7)ہے یعنی سورۃ المومن یا سورۃ الغافر، سورت حٰم السجدۃ یا سورت فصلت، سورۃ الشوریٰ، سورۃ الزخرف، سورۃ الدخان، سورۃ الجاثیہ، سورۃ الاحقاف۔
٭…باقی نو(9) سورتیں مختلف حروف مقطعات یا حروف تہجی سے شروع ہوتی ہیں یعنی سورۃ الاعراف چار حروف الٓمّٓٓصٓ سے شروع ہوتی ہے۔ سورۃ الرعد تین حروف الٓمّرٰٓ سے شروع ہو تی ہے۔ سورت مریم پانچ حروف کٓھٰیٰعٓصٓسے شروع ہو تی ہے۔ سورت طہ دو حروف طٰہٰ سے شروع ہو تی ہے۔ سورۃ النمل دو حروف طٰسٓسے شروع ہو تی ہے۔ سورت یس دو حروف یٰسٓسے شروع ہو تی ہے۔ سورت ص حرف صٓ سے شروع ہوتی ہے۔ سورت ق حرف قٓ سے شروع ہو تی ہے۔ سورۃ القلم حرف نٓ سے شروع ہو تی ہے۔ سورۃ الشوریٰ کا ذکر حٰم سے شروع ہو نے والی سورتوں میں کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ سورت پانچ حروف سے شروع ہو تی ہے یعنی حٰمٓ عٓسٓقٓ۔
٭…یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہو تی ہیں ان میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم سے متعلق کوئی بات بیان کی گئی ہے جیسے کہ سورۃالبقرہ میں فرمایاگیا: الٓمّ۔ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ۔یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی طرح ہر سورت میں حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم کی کسی خصوصیت کا ذکر موجود ہے سوائے تین سورتوں کے یعنی سورۃ العنکبوت، سورۃ الروم اور سورۃ القلم، ان سورتوں میں حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم سے متعلق کوئی بات بیان نہیں ہو ئی ہے۔
٭…حروف مقطعات سے شروع ہونے والی چار سورتیں ایسی ہیں جن کے نام حروف مقطعات پر رکھے گئے ہیں یعنی طٰہٰ، یٰسٓ، صٓاور قٓ۔
٭…حروف مقطعات سے شروع ہو نے والی سورتوں کے مضامین سے متعلق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اپنی تحقیق سورۃالبقرہ کی تفسیر میں بیان فرمائی ہے۔ آپؓ تحریر فرماتے ہیں کہ’’میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے۔ اور جب کسی سورۃ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کیے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہو تے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے۔ اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہو تی ہیں۔‘‘( تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 65)
اسی طرح حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓتفسیر صغیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ ان حروف کے ذریعہ اللہ تعا لیٰ کی ان صفات کی طرف اختصاراً اشارہ ہو تا ہے جو اس سورت میں بیان ہو تی ہیں جس کے ابتدا میں یہ حروف لائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات بیان شدہ صفت کا پہلا حرف لے لیا جاتا ہے اور بعض اوقات کوئی اور اہم حرف۔بعض سورتیں ایسی بھی ہیں جن سے پہلے کوئی مقطعہ نہیں رکھا گیا، ایسی سورتیں اپنے سے پہلی سورت کے تابع ہو تی ہیں جن میں کوئی مقطعہ ہو تا ہے۔‘‘(تفسیر صغیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓصفحہ5 حاشیہ1)
حرف ندا سے شروع ہونے والی 10سورتیں
قرآن کریم میں دس سورتیں ایسی ہیں جن کے آغاز میں یٰاَیُّھَاکے الفاظ کے ساتھ خطاب کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں :
٭…(قسم اوّل): پانچ سورتیں جن میں نبی کریم ﷺ کو مختلف پہلوؤں سے خطاب کے ذریعہ آغاز کیا گیا ہے یعنی:
سورۃ الاحزاب کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ کے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ التحریم کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ الطلاق کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ کے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ المدثر کا یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ المزمل کا یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
٭…(قسم دوم) :پانچ سورتیں جن میں امت کو یٰٓاَیُّھَا کے الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے یعنی :
سورۃ النساء :یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ
سورۃ المائدہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا
سورۃ سورۃ الحج: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا
سورۃ الحجرات: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
سورۃ الممتحنہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا
عربی زبان میں یَا حرف ندا کے لیے یعنی دور سے کسی کو پکارنے یا بلانے کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ اس کے ساتھ اَیُّھَا کو بھی زیادہ کیا جاتا ہے جو تاکید کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جو خطاب اس کے بعدآنے والا ہے وہ نہایت قابل توجہ اور قابل لحاظ ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے توخطاب کے بعد پہلی تین سورتوں کے آغاز میں حکم امر موجود ہے اور دو سورتوں کے آغاز میں حکم نہی موجود ہے۔
٭…یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کے الفاظ کے ساتھ دو سورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک سورۃ قرآن کریم کے نصف اوّل (پہلے پندرہ پارے)میں ہے اور دوسری نصف دوم میں(آخری پندرہ پارے) میں ہے۔ جو پہلے نصف حصہ قرآن میں ہے یعنی سورۃ النساء، اس میں مبدأ (دنیوی زندگی)کا بیان و تشریح ہے اور دوسرے حصہ نصف میں آنے والی سورت یعنی سورۃ الحج، اس میں عالم معاد(آخروی زندگی،قیامت اور حشر) کا بیان و تشریح ہے۔
٭…یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کے الفاظ سورۃ البقرہ میں دو جگہ آئے ہیں یعنی آیت 22یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ اور آیت 169یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا۔اسی طرح سورۃ النساء میں بھی یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کے الفاظ دو جگہ آئے ہیںیعنی آیت 2 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْاور آیت: 134اِنْ یَّشَأْ یُذْھِبْکُمْ اَیُّھَا النَّاسُ۔
جملہ خبریہ سے شروع ہو نے والی 23سورتیں
قرآن کریم کی تئیس (23) سورتیں ایسی ہیں جو خبریہ جملوںسے شروع ہو تی ہیںجو حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ الانفال: یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ
2۔سورۃ التوبہ : بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ
3۔سورۃ النحل : اَتٰیٓ اَمْرُ اللّٰہِ
4۔سورۃ الانبیاء: اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ
5۔سورۃ المومنون: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ
6۔سورۃ النور : سُوْرَۃٔ اَنْزَلْنٰھَا
7۔سورۃ الزمر: تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ
8۔سورت محمد:اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا
9۔سورۃ الفتح : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا
10۔سورۃ القمر: اِقْتَرَبَتِ السَّا عَۃُ
11۔سورۃ الرحمٰن : اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ
12۔سورۃ المجادلہ: قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ
13۔سورۃ الحاقہ:اَلْحَآقَّۃُ مَاالْحَآقَّۃُ
14۔سورۃ المعارج : سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ
15۔سورت نوح: اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا
16۔سورۃ القیامۃ:لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ
17۔سورۃ البلد: لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ
(مذکورہ بالا دو سورتوں سورۃ القیامۃ اور سورۃ البلد کا آغاز گو کہ قسم سے ہو تا ہے لیکن ان دونو ں سورتو ں کو خبریہ جملو ں کی اقسام میں رکھا گیا ہے۔)
18۔سورت عبس : عَبَسَ وَ تَوَلّٰی
19۔سورۃ القدر:اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ
20۔سورۃ البینہ: لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
21۔سورۃ القارعہ:اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ
22۔سورۃ التکا ثر : اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ
23۔سورۃ الکوثر:اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ
قَسموں سے شروع ہو نے والی15سورتیں
قرآن کریم میں پندرہ (15) ایسی سورتیں ہیں جن کا آغاز اللہ تعا لیٰ نے مختلف قسمیں کھا کر فرمایا ہے۔ یہ سورتیں قرآن کریم کے آخری سیپاروں میں ہیں جن کا آغاز تئیسویں سیپارہ سے ہو تا ہے اور آخری سیپارہ یعنی تیسویں سیپارہ میں سب سے زیادہ ایسی سورتیں ہیں۔ان سورتوں کے نام حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ الصافات :وَالصّٰفّٰتِ صَفًّا
2۔سورۃ الذاریات:وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا
3۔سورۃ الطور:وَالطُّوْرِ وَ کِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ
4۔سورۃ النجم : وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی
5۔سورۃ المرسلات:وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا
6۔سورۃالنازعات:وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا
7۔سورۃ البروج:وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ
8۔سورۃالطارق:وَالسَّمَاءِوَالطَّارِقِ
9۔سورۃ الفجر:وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ
10۔سورۃ الشمس:وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا
11۔سورۃ الیل:وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی
12۔سورۃ الضحی:وَالضُّحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی
13۔سورۃ التین:وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ
14۔سورۃ العادیات:وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا
15۔سورۃ العصر:وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ
(علاوہ ازیں دو سورتیں ،سورۃ القیامۃ اور سورۃ البلد کا آغازبھی قسم سے ہو تا ہے لیکن ان دونو ں سورتو ں کو خبریہ جملوں کی اقسام میں رکھا گیا ہے۔)
عربی زبان میں قسم کے لیے تین حرف استعمال ہوتے ہیں؛ حرف ِ باء، حرفِ تاء اور حرفِ واؤ۔ حرف باء کو قسم کے لیے اصلی حرف مانا گیا ہے جیسے کہا جائے باِللہ؛ یعنی اللہ کی قسم۔ جبکہ حرف واؤ حرف باء کے بدل کے طور پر قسم کے لیے استعمال ہوتی ہے قرآن کریم میں اس کی مثال مشرکین کا قول ہے قَالُوْا وَاللّٰہِ رَبِّنَا(الانعام: 24)اسی طرح حرف تاء، واؤ کا بدل ہے اور قسم کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ لیکن حرف تاء صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑکا قرآن کریم میں قول ہے کہ وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ۔(الانبیاء: 58) قرآن کریم کی سورتوں کے آغاز میں جو قسمیں آئی ہیں وہ سب حرف واؤ سے شروع ہو تی ہیں۔
حرف شرط سے شروع ہو نے والی7سورتیں
قرآن کریم میں سات(7) ایسی سورتیں ہیں جن کا آغاز اللہ تعا لیٰ نے حرف شرط (اِذَا)کے ساتھ فرمایا ہے۔یہ سات سورتیں حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ الواقعہ : اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ
2۔سورۃ المنافقون:اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ
3۔سورۃ التکویر:اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ
4۔سورۃ الانفطار:اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ
5۔سورۃ الانشقاق:اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ
6۔سورۃ الزلزال:اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ
7۔سورۃ النصر: اِذَا جَآ ءَ نَصْرُاللّٰہِ
عربی زبان میں اِذَا کا لفظ حرف شرط کے طور پر آتا ہے اور اس کا جواب یا تو فعل میں دیا جاتا ہے اور اسے حرف فاء کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ النصر میں اِذَا جَآءَ نَصْرُاللّٰہِ کا جواب فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ، کے جملے میں دیا گیا ہے۔ یا جملہ اسمیہ میں جواب دیا جاتا ہے۔
صیغہ امر (یعنی کسی حکم )سے شروع ہو نے والی 6سورتیں
قرآن کریم میں چھ (6) ایسی سورتیں ہیں جن کا اللہ تعا لیٰ نے صیغہ امر یعنی کسی حکم کے ساتھ آغاز فرمایا ہے۔ یہ چھ سورتیں حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ الجن: قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ أَنَّہٗ
2۔سورۃ العلق:اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ
3۔سورۃ الکافرون:قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ
4:سورۃ الاخلاص:قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ
5۔سورۃ الفلق: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
6۔سورۃ الناس: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
سوالیہ اندازسے شروع ہو نے والی 6سورتیں
قرآن کریم میں 6 ایسی سورتیں ہیں جن کا اللہ تعا لیٰ نے سوالیہ انداز میں صیغہ ا ستفہام کے ساتھ آغاز فرمایا ہے۔ یہ چھ سورتیں حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ الدھر:ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ
2۔سورۃ النبا:عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ
3۔سورۃ الغاشیہ : ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغٰشِیَۃِ
4۔سورۃ الم نشرح:اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ
5۔سورۃ الفیل:اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ
6۔سورۃ الماعون:اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ
بد دعا سے شروع ہو نے والی 3سورتیں
قرآن کریم میں اللہ تعا لیٰ نے مختلف سورتوں میں اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی زبان سے کم و بیش بانوے (92)دعاؤں کا تذکرہ فرمایا ہے۔جبکہ تین سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز بد دعا کے ساتھ فرمایا ہے۔ یہ تین سورتیں حسب ذیل ہیں
1۔سورۃ المطففین:وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ
2۔سورۃ الھمزہ: وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ
3۔سورۃ اللہب:تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّتَبَّ
حرف تعلیل سے شروع ہو نے والی سورتیں
قرآن کریم میں حرف تعلیل سے شروع ہو نے والی صرف ایک سورت ہے یعنی سورۃ القریش:لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ
پانچ کا عدد اور قرآنی سورتیں
قرآن کریم کی سورتوں کی ایک تقسیم کا تعلق پانچ کے عدد کے ساتھ ہے۔ اس تقسیم کی چار قسمیں بنتی ہیں جو ذیل میں درج کی جارہی ہیں
الحمد للہ سے شروع ہو نے والی پانچ سورتیں
اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مسلمانو ں پر ایک دن میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ سورۃ الفاتحہ یا الحمد نماز کا ایک لازمی اور اہم جز ہے کہ جس کے بغیر نماز نہیں ہو تی۔یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ قرآن کریم میں پانچ سورتوں کا آغاز بھی اللہ تعا لیٰ کی حمد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے ہو تا ہے یعنی:سورۃ الفاتحہ،سورۃ الانعام، سورۃ الکہف،سورۃ السبا اور سورۃ الفاطر۔
نبی کریم ﷺ سے خطاب کے ساتھ شروع ہونے والی پانچ سورتیں
قرآن کریم کی پانچ ہی ایسی سورتیں ہیں جن کے آغاز میں اللہ تعا لیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مختلف پہلوؤں سے حرف ندا کے ذریعہ خطاب فرمایا ہے یعنی:
سورۃ الاحزاب کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ کے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ التحریم کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ الطلاق کا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ کے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ المدثر کا یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
سورۃ المزمل کا یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُکے الفاظ سے آغاز کیا گیا۔
امت مسلمہ سے خطاب کے ساتھ شروع ہو نے والی پانچ سورتیں
قرآن کریم کی پانچ ہی ایسی سورتیں ہیں جن کے آغاز میں امت مسلمہ کوحرف نداء یٰٓاَیُّھَا کے الفاظ کے ساتھ پانچ بار مخاطب کیا گیا ہے یعنی :
سورۃ النساء: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ
سورۃ المائدہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا
سورۃ الحج:یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا
سورۃ الحجرات: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
سورۃ الممتحنہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا
لفظ قُلْ سے شروع ہو نے والی پانچ سورتیں
قرآن کریم میں کل 114 سورتیں ہیں اور لفظ قُلقرآن کریم کی نصف سورتوں یعنی ستاون (57) سورتوں میں332 دفعہ آیا ہے۔ صرف سورۃ الانعام میں ہی یہ لفظ قل 44بار وارد ہوا ہے۔ جبکہ قرآن کریم کی پانچ ہی ایسی سورتیں ہیں جن کا آغاز لفظ قُلْ سے بھی ہوا ہے:
1۔سورۃ الجن: قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ أَنَّہٗ
2۔سورۃ الکافرون: قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ
3۔سورۃ الاخلاص:قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ
4۔سورۃ الفلق:قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
5۔سورۃ الناس:قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
مکی و مدنی لحاظ سے سورتوں کی تقسیم اور ان کی پہچان
قرآن مجید کی114 سورتوں میں سے 87سورتیں مکی ہیں اور 27سورتیں مدنی ہیں۔مکی و مدنی سورتوں کی تعریف دو طرح سے کی جاتی ہے
اوّل یہ کہ مکی سورتیں وہ ہیں جو مکہ میں نازل ہو ئیں خواہ ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے بعد۔ او رمدنی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ میں نازل ہو ئیں۔ دوسری تعریف یہ ہے کہ مکی سورت وہ ہے جو ہجرت سے قبل نازل ہو ئی خواہ مکہ میں یا کسی اور جگہ۔ اور مدنی سورت وہ ہے جو ہجرت کے بعد مدنی زندگی میں نازل ہو ئی مقام نزول مدینہ ہو یا کوئی اور جگہ۔ سورۃ الحج ایک ایسی سورۃ ہے جس میں ہر طرح کی آیتیں موجود ہیں یعنی مکی و مدنی اور لیلی و نہاری،سفری و حضری اور حربی و سلمی (جنگ و امن و صلح)وغیرہ۔
مکی سورتوں میں سے جو آخری سورۃ نازل ہو ئی وہ سورت المطففین ہے جبکہ مدنی سورتوں میں جو آخری سورۃ نازل ہو ئی وہ سورت المائدہ ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آخری مدنی سورۃ، سورۃ النصر ہے۔ اور اس کے نزول کے 81 دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو گیا تھا۔
مکی سورتوں کی پہچان اور ان کی خصوصیات
٭…مکی سورتوں کا موضو ع زیادہ تر عقائد ہیں یعنی ہستی باری تعالیٰ، صفات باری تعالیٰ، انبیاء اور رسولوں کی بعثت،کتب سماوی کا نزول، ملائکہ اور قیامت و حشر و نشر جیسے مضامین۔
٭…مکی سورتوں کا انداز بیان مناظرانہ ہے۔
٭…مکی سورتوں میں مقابلہ و مخاصمہ اہل مکہ یا مشرکین سے ہے۔
٭…مکی سورتوں میںپوری نوع انسانی کو خطاب ملتا ہے اور بالعموم یٰٓاَیُّھَا النَّاس اور یٰٓا بَنِیْ آدَمَ کے الفاظ میں خطاب فرمایا گیا ہے سوائے سورۃ البقرہ اور سورۃ الحج کے۔
٭…مکی سورتوں میں پہلے مخاطب اہل مکہ تھے جنہیں اپنی عربی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا اس لیے ان کو اس کلام اللہ کا مقابلہ کرنے اور انہیں عاجز کرنے کے لیے مکی سورتوں کی زبان میں فصاحت و بلاغت سے پُر انداز اختیار فرمایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان سورتوں کی زبان قدرے مشکل اور اعجازی شان رکھتی ہے۔
٭…مکی سورتیں مدنی سورتوں کی نسبت زیادہ طویل نہیں ہیںتاہم دو سورتیں سورۃالاعراف اور سورۃ الشعراء، طویل سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد بالترتیب: 207 اور 228ہے۔
٭…قرآن کریم میں کل 14 مقامات پر سجدہ تلاوت کیا جاتا ہے۔یہ سجدہ تلاوت مکی سورتوں کی خاص پہچان ہے۔سوائے سورۃ الحج کے جو کہ مدنی سورت ہے اور اس میں بھی ایک سجدہ تلاوت آتاہے۔
٭…کَلَّاکا لفظ پورے قرآن کریم میں 33 بار آیا ہے جو کہ صرف15مکی سورتوں میں ہی ملتا ہے یعنی سورت مریم، المومنون، الشعراء، السبا، المعارج، المدثر، القیامہ، النبا، عبس،الانفطار، المطففین، الفجر، العلق، التکاثر، الھمزہ۔
٭…قرآن کریم کی 29سورتیں حروف مقطعات یا حروف تہجی سے شروع ہوتی ہیں جن میں سے 27سورتیں مکی ہیں سوائے سورۃ البقرہ اور سورت آل عمران کے۔
٭…مکی سورتوں میں انبیائے ؑسابق کا تذکرہ ملتا ہے۔
٭…مکی سورتوں ہی میں قصہ آدم ؑو ابلیس کا ذکر ملتا ہے سوائے سورۃالبقرہ کے جو کہ مدنی ہے۔
مدنی سورتوں کی پہچان اور ان کی خصوصیات
٭…مدنی سورتوں میں اسلامی حدود و فرائض،اخلاق و اعمال،عبادات اور معاملات جیسے مضامین ملتے ہیں۔اوامر و نواہی، معاشرتی و تمدنی قوانین اورحلال و حرام کی تفصیلات و احکامات مدنی سورتوں کا موضوع ہیں۔
٭…مدنی سورتوں کا انداز بیان حکیمانہ اور ناصحانہ ہے۔
٭…مدنی سورتوں میں مقابلہ و مخاصمہ یہود و نصاریٰ سے ہے۔
٭…مدنی سورتوں میں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکے الفاظ میں خطاب فرمایا گیا ہے۔ بعض مقامات پر یٰآ اَہْلَ الْکِتٰبِ سے بھی خطاب موجود ہے۔
٭…مدنی سورتوں میں چونکہ اوامر و نواہی احکامات و قوانین کا تذکرہ ہے لہٰذا ان سورتوں کی زبان سلیس اور سادہ ہے۔
٭…مدنی سورتیں مکی سورتوں کی نسبت زیادہ طویل ہیں۔ دو سورتیں سورۃ البقرہ اور سورت آل عمران طویل ترین سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد بالترتیب 287 اور 201ہے۔
٭…مدنی سورتوں میں کوئی سجدہ تلاوت نہیں ہے۔ سوائے سورۃ الحج کے جو کہ مدنی سورت ہے اور اس میں بھی ایک سجدہ تلاوت آتاہے۔
٭…مدنی سورتوں میں ہی منافقین کا ذکر ملتا ہے سوائے سورۃ العنکبوت کے جو مکی سورت ہے۔
ایک ہی دفعہ پوری نازل ہو نے والی سورتیں
قرآن کریم کا نزول تو تدریجاً23سالوں میں ہوا ہے تاہم بعض سورتیں ایسی بھی ہیں جو ایک ہی دفعہ میں پوری کی پوری نازل ہو ئی ہیں مثلاً: سورۃ الفاتحہ، سورۃ الانعام، سورۃ الکہف، سورۃ الصف، سورۃ المرسلات، سورۃ البینہ، سورۃالکوثر، سورۃ النصر،سورۃ اللہب، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔
اس مضمون کی تیاری میں حسب ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے :
(1)اَلْبُرْہَانُ فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْآنِ از علامہ بدر الدین ابو عبد اللہ محمد بن بہادر بن عبد اللہ الزرکشیؒ (794-745 ہجری ) اَلنَّوعُ السَّابِع فِیْ اَسْرَارِ الْفَوَاتِحِ وَالسُّوَرِ صفحہ 117تا 128،دار الحدیث قاہرہ2006ء)
(2)اَلْاِتْقَانُ فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْآنِ از امام جلال الدین سیوطیؒ(911-849 ہجری) اَلنَّوعُ السِّتُّون فِیْ فَوَاتِحِ السُّوَرِ دار ابن حزم بیروت2015ء
(3) اَلْمُفْرَدَاتْ فِی غَرِیْبِ الْقُرْآن از امام راغب الاصفہانیؒ (المتوفی 502 ہجری)، دارالمعرفۃ بیروت لبنان۔
(4) المعجم المفہرس لالفاظ القرآن کریم از محمد فؤاد عبد الباقی،دار الفکر1992ء
( 5) تفسیر صغیرو تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثا نی ؓ
(6) اردو ترجمہ قرآن کریم از حضرت مرزاطا ہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒ
(7) The Holy Quran, English Translation & Short Commentary
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چو موں
قرآںکے گرد گھو موں کعبہ میرا یہی ہے
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، وَ صَلّی اللّٰہ تَعَا لیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ آمیْن یٰٓا رَبَّ الْعٰلَمِیْن!
٭…٭…٭