اداریہ

خلافت ہی دنیا کی حقیقی راہنما ہے

(حافظ محمد ظفر اللہ عاجزؔ)

خلافت بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان انعام ہے۔ خلیفہ خدا تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرنے اور اسی کو جوابدہ ہونے کی بدولت دنیاوی لیڈروں یا سربراہانِ مملکت سے منفرد اور بالاتر ہوتا ہے، کیوں نہ ہو، خدا کے نبی کی نیابت میں دنیا کی سیادت کے مقدّس فریضے کو جو سرانجام دیتا ہے! ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیاوی لیڈروں کے مقابل خلیفۂ وقت کا عالی مقام بیان کرتے ہوئے واضح فرماتے ہیں کہ آخر کیوں خلافت ہی دنیا کی آخری امید، دنیا کی سچی، مخلص اور حقیقی راہنما ہے۔

حضورِ انور فرماتے ہیں:مَیں یہاں ہر احمدی اور ہر نئے آنے والے اور ہر نوجوان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امامت اور خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے۔ خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے اور ہر ماننے والا یہ عہد کرتا ہے کہ ہم خلافت کے نظام کو جاری رکھیں گے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ جب اپنی خوشی سے دین کو مان لیا تو پھر دین کے قیام کے لئے اس عہد کو نبھانا بھی ضروری ہے جو خلافت کے قیام کے لئے ایک احمدی کرتا ہے اور جو قومی یکجہتی کے لئے، وحدت کے لئے ضروری ہے۔ خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے۔ دوسرے مسلمان جو ہیں وہ بغیر امام کے ہیں اور جماعت احمدیہ کی کوششیں جو ہیں وہ خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں۔ یہ سب کوششیں جو خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں ان کی کامیابی کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ (حقیقی تعلیم دوسرے مسلمانوں کے پاس بھی ہے لیکن اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ) ان نتائج کا حصول، کامیابی کا حصول خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کی وجہ سے ہے۔

پھر خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہے۔ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے۔ یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے۔ توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش یہ بھی خلافت کا کام ہے۔ جبکہ دنیاوی لیڈروں کے تو دنیاوی مقاصد ہیں۔ ان کا کام تو اپنی دنیاوی حکومتوں کی سرحدوں کو بڑھانا ہے۔ اسی کی ان کو فکر پڑی رہتی ہے۔ ان کا کام تو سب کو اپنے زیر نگیں کرنا ہے۔ دنیا میں آپ دیکھیں اپنے ملکوں کی حدوں سے باہر نکل کر بھی دوسرے ملکوں کی آزادیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں ہوں۔ دنیاوی لوگوں کا تو یہ کام ہے۔ ان کا کام تو جھوٹی اَناؤں اور عزتوں کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے جو ہمیں مسلمان دنیا میں بھی اور باقی دنیا میں بھی نظر آتی ہے۔

کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیاوی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ویسے ہی غلط ہے۔ بعض دفعہ دنیاوی لیڈروں سے باتوں میں جب مَیں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط مَیں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی توحیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون ۲۰۱۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جون ۲۰۱۴ء صفحہ۷)

اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کا سچا اطاعت گزار بنائے کہ اسی سے ہماری نجات اور ترقی وابستہ ہے۔ آمین

جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر شائع کیا جانے والا الفضل انٹرنیشنل کا سالانہ نمبر بعنوان ’’خلافتِ احمدیہ…دنیا کی راہنما‘‘ 80صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک خوبصورت تصویر حضورِ انور کے بابرکت دستخط کے ساتھ الگ سے A4سائز کے کاغذ پر شائع کر کے خریدارانِ الفضل انٹرنیشنل کو تحفۃً بھجوائی جا رہی ہے۔ مزید برآں 96 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی ضمیمہ ’’مختصر تاریخ مجلس مشاورت‘‘ بھی شائع کر کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔

اس سالانہ نمبر کے لیے الفضل انٹرنیشنل کے چار شماروں (جلد 29، شمارہ 59 تا 62۔ 26؍ جولائی تا 08؍ اگست 2022ء) کو یکجا کیا گیا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ادارے کی اس کاوش کو قبول فرماتے ہوئے اسے افادۂ عام کا موجب بنائے۔ آمین

(مدیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button