مضامین

جنگ عظیم اوّل اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بصیرت افروز راہنمائی

(ابو نائل)

جنگوں کے بارے میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے بصیرت افروز اصولی ارشادات

پہلی جنگ عظیم دنیا کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔اس کے نتیجے میں عالمی منظر پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ان تاریخ ساز سالوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو راہنمائی فرمائی وہ ایک وسیع مضمون ہے۔ محض چند صفحات میں ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔اس مضمون میں ان میں سے صرف چند نصائح کا پس منظر پیش خدمت ہے۔سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس عالمی جنگ کا نقطہ آغاز کیا تھا؟

28؍جون 1914ءکو آسٹریا کے ولی عہد آرک ڈیوک فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ ایک قاتلانہ حملہ میں سربین قوم پرستوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ 1908ءسے بوسنیا ہرزوگووینا کا علاقہ آسٹریا ہنگری کی سلطنت کا حصہ بنا دیا گیاتھا۔ اس علاقے میں سربین نسل کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ سربین قوم پرستوں کا دعویٰ تھا کہ یہ علاقہ سربیا کا حصہ ہونا چاہیے۔اور قتل کی اس سازش کی پشت پناہی بلیک ہینڈ نامی ایک سربربین قوم پرست تنظیم کر رہی تھی۔ اور قاتل Gavrilo Princip بوسنیا کے علاقہ کا رہائشی تھا لیکن نسلی طور پر سربین تھا۔ اس وجہ سے آسٹریا ہنگری کی حکومت کو شک پیدا ہوا کہ یہ قتل سربیا کی سازش سے کرایا گیا ہے۔بدقسمتی سے یہ اس عالمی جنگ کی پہلی چنگاری ثابت ہوئی۔آسٹریا نے سربیا کو سنگین نتائج کی دھمکی دے دی۔سربیا اور آسٹریا کی سرپرستی مختلف عالمی طاقتیں کر رہی تھیں۔ روس سربیا کا حامی تھا اور جرمنی آسٹریا کا اتحادی۔ اس لیے یہ خدشات تو تھے کہ یہ تنازع عالمی امن کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے لیکن مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

سیاست کو چھوڑ کر تم دین کی طرف لگ جائو

اس وقت ہر طرف سیاسی سرگرمیاں اور بحث مباحثے عروج پر تھے۔اکثر لوگ کسی نہ کسی گروہ کی حمایت میں میدان میں اتر رہے تھے۔ہر ملک اور ہر گروہ اس تاک میں تھا کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ ایسے تموج کی حالت میں وہ لوگ بھی سیاست میں گہری دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں جنہیں عام زندگی میں سیاست سے دور کا فائدہ بھی نہیں ہوتا۔اور ابھی تو یہ صرف نقطہ آغاز تھا۔

لیکن خدائی جماعتوں کے مقاصد دنیا کی باقی تنظیموں اور حکومتوں اور عام لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اور انہیں دنیا کی رو سے الگ ہو کر اپنے مقاصد پر ہی توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے۔اس مرحلے پر 3؍جولائی 1914ءکے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی:’’صلح حدیبیہ میں مسلمانوں میں بعض کمزور ایمان والوں کوٹھوکر لگی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ ایک موقع تھا جو ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس میں اگر جنگ کرتے تو فتح کر لیتے مگر اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو وہ نہیں سمجھ سکتے تھے۔دیکھو آخر کار وہی صلح فتح کا موجب ہوئی۔ ہماری جماعت میں بھی بعض لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے۔اور وہ ٹھوکر سیاست کے متعلق لگی ہے۔حضرت صاحبؑ کی تعلیم یہ ہے کہ سیاست کو چھوڑ کر تم دین میں لگ جائو۔ اسی سے متعلق تم کو سیاست بھی حاصل ہو جائے گی۔ مگر لوگوں نے اسے سمجھا نہیں۔ دین میں لگنے سے وہ باتیں جو سیاست سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھیں مل سکتی ہیں۔ مسلمانوں نے زیادہ سے زیادہ اگر سیاست میں کچھ حصہ لیا تو انہیں یہی کچھ ملا کہ وہ معمولی عہدوں پر رکھ لئے گئے۔ کوئی بڑا عہدہ ان کو نہیں ملا لیکن اس کے مقابل پر اگر انبیاء کی تعلیم پر چلا جاوے تو تھوڑے دنوں میں کامیابی حاصل ہو جاوے۔

برخلاف اس کے دیکھ لو کہ جو لوگ سیاست میں مشغول ہوتے ہیں وہ دین سے غافل ہو جاتے ہیں۔ سیاست دراصل کوئی بری چیز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت وہ ہمارے لئے ترقی کی راہ میں روک ہے۔اس لئے دین میں ہمہ تن لگ جانا چاہیے۔سیاست میں پڑنے والوں کی بعینہ وہی حالت ہے کہ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ۔ دین جو بالکل خیروبرکت تھا اسے چھوڑ کر دنیاوی معاملات میں پڑ گئے اور دین سے غافل ہو گئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جولائی 1914ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 4 صفحہ 125)

بے شک کسی حد تک دنیاوی امور کی طرف بھی توجہ کرنی پڑتی ہے لیکن اصل مقصد کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔حضورؓ کے اس ارشاد کا ایک طویل پس منظر تھا لیکن یہ راہنمائی عین اس وقت کی گئی جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

ایک غلطی جس نے پوری دنیا میں آگ لگا دی

بہر حال یہ تو پہلی جنگ عظیم کی پہلی چنگاری تھی۔ اس کے بعد مختلف ممالک نے پہلے ایک دوسرے کو الٹی میٹم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر ایک کے بعد دوسرا ملک میدان جنگ میں چھلانگ لگاتاگیا۔جولائی 1914ءکے آخر میں آسٹریا نے سربیا پر حملہ کر دیا۔ سربیا کے اتحادی روس نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔اگست کے شروع میں جرمنی نے پہلے روس اور پھر فرانس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اور فرانس پر حملہ کرنے کے لیے غیر جانبداربیلجیم کو راستے کے طور پر استعمال کیا۔کینیڈا نے برطانیہ کی مدد کے لیے میدان جنگ کا رخ کیا۔یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ اور آخر کار جو تنازعہ جنوب مشرقی یورپ میں شروع ہوا تھا وہ پہلی جنگ عظیم کی صورت اختیار کر گیا۔ ایک کروڑ کے قریب انسان ہلاک ہو گئے اور دیگر نقصان کا تو کوئی حساب نہیں۔بے شک کسی بھی انسان کا قتل ایک دردناک واقعہ ہوتا ہے اور اس شہزادے کے قتل کی تحقیقات ہونی ضروری تھیں لیکن سزا اس کو ملنی چاہیے تھی جو قصوروار تھا۔ اس ایک قتل کی سزا پوری دنیا کے انسانوں کو دی گئی۔ اس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’بعض تمدنی غلطیاں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں بہت بڑےخطرناک نتائج کا باعث ہوجاتی ہیں اور بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں ابتداءََ انسان چھوٹا سمجھتا ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت بڑے ہوتے ہیں موجودہ جنگ ہی کو دیکھو اس کا محرک جو بظاہر دنیا کو بتایا جاتا ہے(واللہ اعلم اصلیّت کیا ہے) ایسا خفیف سا ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ایسا معمولی امر بھی ایسی خطرناک جنگ کا باعث ہو سکتا ہے۔ایک ملک(آسٹریا) کے شہزادہ کو اپنے ملک اور اپنی رعایا کے لوگوں نے قتل کر دیا۔ اس قتل پر آگ بڑھنی شروع ہوئی چونکہ وہ ولی عہد تھا اس لئے اس کے قاتلوں کا بڑا سخت جرم تھا۔لیکن اس کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ ان کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتیں۔ قتل کئے جاتے۔جائیدادیں ضبط کی جاتیں۔ قید کئے جاتے خواہ وہ ہزاروں ہی ہوتے۔تب بھی اس واقعہ کی یہی شکل ہو سکتی تھی لیکن اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اس سلطنت کو یہ خیال پیدا ہوا کہ پاس کی جو چھوٹی ریاست ہے اس کی تحریک سے یہ قتل ہوا ہے۔ اس لئے اس کو دبانا چاہا۔ایک اور سلطنت کے اس ریاست سے تعلقات تھے۔ اس نے کہا کیا تم نے اس کو کمزور سمجھ کر دبانا چاہا ہے ہم اس کے مددگار موجود ہیں۔ جب ادھر سے ایسا ہوا تو ایک اور سلطنت اس کے مقابلہ کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسی طرح کچھ سلطنتیں ایک طرف ہو گئیں اور کچھ دوسری طرف۔ اور اس طرح تمام دنیا میں آگ لگ گئی۔ دیکھو ایک آدمی کا قتل تھا۔ گو وہ آدمی بہت بڑا تھا۔ ایک سلطنت کا ولی عہد تھا۔ لیکن پھر بھی ایسا نہیں تھا کہ تمام دنیا میں اس کےلئےآگ لگا دی جاتی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جون1916ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5 صفحہ117تا118)

آرک ڈیوک فرڈیننڈ کا قتل کس نے کرایا اور کون کون اس میں ملوث تھا یا اس کا محرک بنا ؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔لیکن آج تک اس بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا کہ سربیا کی حکومت اس میں ملوث تھی۔ گویا محض ایک مفروضہ پر بغیر مناسب تحقیق کے دنیا کا امن برباد کر دیا گیا اور ایک کروڑ انسان ہلاک ہو گئے۔یہ اس دَور کی بات ہے جبکہ پورے سربیا کی آبادی صرف 46 لاکھ تھی۔ گویا جس ملک کی حکومت پر قتل کا الزام تھا، اس کی دوگنا آبادی سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے زیادہ بعید از عقل رویہ کیا ہو سکتا ہے۔

(The Responsibility for the Sarajevo Assassination, byVASO TRIVANOVITCH, Current History (1916-1940) Vol. 29, No. 6 (MARCH, 1929), pp. 987 to 992)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی یہ راہنمائی آج تک اتنی ہی اہم ہے جتنی آج سے سو سال قبل تھی۔ بلکہ اس دَور میں اس کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔آج کے دَور میں بھی بغیر کسی تحقیق کے ایک ملک پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے اور اس بنا پر اسے ایک الٹی میٹم جاری کیا جاتا ہے۔ اور پھر حملہ شروع ہوجاتا ہے۔دونوں فریقوں کے اتحادی اپنے اتحادی کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہیں اور مدد دیتے ہیں اور ہر ایک اسے حق اور باطل کی جنگ قرار دے کر اپنے برحق ہونے کا اعلان کرتا ہے۔اس دَور میں بہت سے محققین نےان عوامل کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔پہلے تو عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مزید علاقے حاصل کرنے کے لیے اور دیگر فوائد کے لیے جنگیں لڑی جاتی ہیں۔فاتح فوائد اٹھاتا ہے اور مفتوح نقصان برداشت کرتا ہے۔ بالعموم یہ سمجھا جاتا تھا کہ اکثر ایک جارح ملک علاقے یا دوسرے فوائد حاصل کرنے کے لیے جنگ شروع کرتا ہے اور دوسرے فریق کو اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جیسا کہ آج سے سو سال قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ، یہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں ہے۔ جنگوں کے آغاز کا مطالعہ اب اپنی ذات میں ایک سائنس بن چکا ہے۔ اور ماہرین اس پر اپنی اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔صرف ایک پہلو کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ماہرین کے نزدیک سابقہ ادوار کی نسبت اس دَور میں جنگ شروع کرنے والے فریق کی کامیابی کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور ہتھیاروں کی ترقی کے ساتھ جنگ پر ہونے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بنیادی طور پر جنگ شروع کرنے والے غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی وجہ سے جنگ کا آغاز کرتے ہیں۔

(Is War Rational or Miscalculation and Misperception Matter? By Md Abul Hasan, H. M. Towhidur Rahman. International Journal of Scientific and Research Publications, Volume 10, Issue 8, August 2020, p 96 to100)

اسی موضوع پر ایک ماہر Lebow, Richard Ned اپنی کتاب Why Nations Fight میں ساڑھے تین صدیوں کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عمومی خیال کے برعکس نسبتاََ کم جنگیں مفادات کے لیے لڑی گئی ہیں۔ زیادہ تر جنگوں کا مقصد یا تو عالمی منظر پراپنا مقام پیدا کرنا یا اسے برقرار رکھنا تھا یا پھر انتقام لینا تھا۔اگر کوئی فریق مفادات کے لیے جنگ کرے تو یہ بھی بالکل نا جائز اور خود غرضی ہے۔لیکن اگر صرف اپنے مقام کے لیے اور کسی انتقام کے لیے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ہلاک کروا دیا جائے تو جیساکہ حضور نے فرمایا تھا یہ ہماری تہذیب کی تمدنی خرابی ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے متعلق پیشگوئی

اس دَور میں مسلمانوں کی جونسبتاََ طاقتور سلطنت تھی اور وہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ تھی۔برطانیہ اور اس کے اتحادیوں یعنی فرانس اور روس کی کوشش تھی کہ یہ سلطنت کم از کم غیر جانبدار رہے۔اس غرض کے لیے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے سلطنت عثمانیہ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ اس جنگ میں شریک نہ ہو تو اس کی آزادی اور سالمیت کی ضمانت دی جائے گی۔اور جرمنی اور اس کے اتحادی آسٹریا کوشش کر رہے تھے کہ یہ سلطنت ان کے ساتھ مل جائے۔اس کوشش کو آگے بڑھانے کے لیے جرمن نیوی کے دو جنگی جہاز سلطنت عثمانیہ کے بحری بیڑے میں شامل کیے گئے۔ اور اس کے ساتھ جرمنی کے بحریہ کے ایک افسر Souchonبھی سلطنت عثمانیہ کی بحریہ میں شامل کر لیے گئے۔اور ان کے ذریعہ بھی دبائو بڑھایا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ بحیرہ اسود میں خاص طور پر روسی بحری جہازوں پر حملے کرے اور مالی مدد دینے کا آغاز ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ انور پاشا اس بات کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے کہ ان کی حکومت برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دے۔اور وزیر اعظم سمیت اکثر وزراء اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ بہرحال جو بحری جہاز جرمن افسر کے تحت کام کر کر رہے تھے انہوں نے اکتوبر 1914ءکو برطانیہ کے اتحادی روس پر حملہ کر دیا۔ اور اس طرح ترکی بھی جنگ کی آگ میں کود پڑا۔

(Turkey’s Entry into World War I: An Assessment of Responsibilities by Ulrich Trumpener , The Journal of Modern History Vol. 34, No. 4 (Dec., 1962), pp. 369 to 380)

ترکی کی سلطنت عثمانیہ بڑی امیدوں سے اس جنگ میں اپنی شرکت کا آغاز کر رہی تھی۔ان کی طرف سے برطانیہ، فرانس اور روس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جارہا تھا۔اور جرمنی کے افسران ترکی اور شام اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو بھڑکا رہے تھے کہ وہ اتحادیوں کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ظاہر ہے ان کے پیش نظر مسلمانوں کی بجائے جرمنی کے مفادات زیادہ تھے۔مصر اور ہندوستان میں فتوے تقسیم کیے جا رہے تھے کہ مسلمان برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیں۔

(Evening star, November 02, 1914, Page 2, The Seattle star, November 02, 1914, Page 3)

یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کو ایک عالمی طاقت رہنے کا صدیوں کا تجربہ حاصل تھا۔ یوں تو جنگ کے آغاز میں ہر فریق یہی دعویٰ کرتا ہے کہ فتح اس کی ہو گی اور اس کا دشمن تباہ ہوگا۔ لیکن اس مرحلے پر یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ جنگ میں کون سا گروہ کامیاب ہوگا۔1914ءاور 1917ءکے درمیان کے عرصے میں تو یورپ کے چھ سو میل لمبے محاذ جنگ پر دونوں گروہوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہیں اور باوجود لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے کوئی بھی فریق پیش قدمی کرنے میں ناکام رہا۔ لیکن اس ابتدائی مرحلے پر ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ راہنمائی فرما دی تھی کہ اس جنگ میں کودنے کے بعد اب تباہی سلطنت عثمانیہ کے سر پر آن کھڑی ہوئی ہے۔حضورؓ نے 6؍نومبر 1914 ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’اور اب اس خدائی فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔چند ہی دن ہوئے کہ مجھے ایک خط آیا ہے جس میں لکھا ہوا تھا کہ آپ کا ٹریکٹ پڑھا ہے(یہ بنگالی زبان میں لکھا ہوا تھا) جس میں آپ نے لکھا کہ مسیح اور مہدی آگیا لیکن جب تک قسطنطنیہ کی بادشاہت تباہ نہ ہولے اس وقت تک مسیح اور مہدی نہیں آ سکتا۔اس خط کو آئے ہوئےابھی پانچ ہی دن ہوئے تھے کہ خدائی حکم صادر ہو گیا کہ لو جو یہ مسلمانوں کی نام کی حکومت باقی تھی اس کو بھی ہم مٹا دیتے ہیں۔

سو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے اور خدا کا غضب ہے جو مسلمانوں پر نازل ہونے والا ہے۔ وہ انسان بڑا احمق ہے جو خدائی فیصلہ پر اعتراض کرتا ہے اور وہ انسان ہے جو خدا کے حکم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔خدا تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے انصاف سے کیا ہے اور ترکوں سے جو ان کی نادانی کی وجہ سے سلوک ہونے والا ہے وہ اس کے پورے طور پر حقدار تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍نومبر1914ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 4صفحہ210)

حضور ؓکا مندرجہ بالا ارشاد اس وقت کا ہے جب ابھی جنگ کا آغاز ہی ہوا تھا اور نومبر 1914ءکے بعد وقتی طور پر ترکوں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ 1915ء کے آغاز میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک عظیم منصوبے کے تحت سمندر کے راستے سلطنت عثمانیہ کے دارالحکومت پر حملہ کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے روح ورواں ونسٹن چرچل تھے جو کہ اس وقت فرسٹ لارڈ آف ایڈمرلٹی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے ذریعہ ایک ہی ہلے میں سلطنت عثمانیہ کو جنگ سے باہر کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ منصوبہ بہت بری طرح ناکام ہوا اور اس میں اتحادیوں کو بہت زیادہ جانی نقصان اور شرمندگی اٹھا کر پسپا ہونا پڑا۔ لیکن آخر کار وہی ہوا جس کی پیش گوئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی۔ اس جنگ نے سلطنت عثمانیہ کو تباہ کر دیا۔اور ان کے تمام مقبوضہ علاقے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے۔

پہلی جنگ عظیم میں پہلے ترکی پر حملہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے خود حملہ کر کے جنگ میں شرکت کا آغاز کیا تھا۔ اور یہ شرکت اس سلطنت کے خاتمےکا باعث بنی۔ اور یہ غلطی کوئی اتفاقی غلطی نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کی صداقت کا ثبوت تھا۔1897ءمیں کراچی میں سلطنت عثمانیہ کے ایک سفارت کار نے بہت اصرار سے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ترکی کے سلطان کے لیے خاص دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جو فرمایا وہ بعد میں 24؍مئی 1897ءکے اشتہار میں شائع بھی ہوا۔ آپؑ نے اسے فرمایا :’’سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے۔اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔‘‘(تذکرہ صفحہ301،ایڈیشن چہارم)

جب سلطنت عثمانیہ نے از خود جنگ میں شرکت کی غلطی کی، اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اسی پیشگوئی کا ذکر کر کے فرمایا:’’مگر ہمیں ہرگز کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں مسیح موعود نے قبل از وقت بتا دیا ہوا ہے کہ مجھے ترکوں کے امراء اور حکمرانوں کی حالت اچھی نظر نہیں آتی۔یہ لوگ گندے اور بد کار ہو گئے ہیں اور میں ان کی تباہی دیکھ رہا ہوں…۔

تمہیں مسیح موعود کی وہ پیشگوئی نہیں بھول سکتی جوآپ نے 1897ء میں کشف کے ذریعہ بیان فرمائی تھی کہ میں ترکوں کی حالت اچھی نہیں دیکھتا وہ بدکاریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍نومبر1914ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 4 صفحہ214)

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 9؍نومبر 1914ءکو اسی مضمون کا ایک کتابچہ ’’جماعت احمدیہ کا حکومت کی اطاعت کے بارے میں صحیح موقف‘‘ تحریر کر کے شائع فرمایا۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل فلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور جب سلطنت عثمانیہ تحلیل ہوئی تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ مغربی طاقتوں کے زیر نگرانی آگیا۔ اور اس تاریخی تبدیلی کے نتیجے میں صیہونی تنظیم اسرائیل کی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔حضرت مسیح موعود علیہ نے 1897ءمیں سلطنت عثمانیہ کی تباہی کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی۔اور یہی سال تھا جب سوئٹزرلینڈ میں پہلی صیہونی کانگرس (First Zionist Congress)منعقد ہوئی اور اس میں اسرائیل بنانے کی قرارداد منظور کی گئی اور اس غرض کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ خدا تعالیٰ کے مامور نے اس کانگرس سے چند ماہ پہلے اس سلطنت کو انتباہ کر دیا تھا کہ وہ توبہ کریں اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آ جائیں لیکن افسوس انہوں نے توجہ نہ کی اور عالم اسلام کو یہ عظیم نقصان برداشت کرنا پڑا۔

سود دینے اور لینے والی مسلمان سلطنتوں کو انتباہ

جب پہلی جنگ عظیم جاری تھی تو حضورؓ نے مسلمان ممالک کو ایک نہایت اہم انتباہ فرمایا اور یہ انتباہ سود کے بارے میں تھا۔حضورؓ نے فرمایا :’’چنانچہ مسلمان حکومتیں اکثر سود لے کر یا دے کر ہی تباہ ہوئی ہیں۔ دوسری حکومتیں بھی سود لیتی اور دیتی ہیں مگر ان کو اس سے نقصان نہ پہنچنے اور مسلمانوں کے تباہ ہوجانے کی وجہ یہ ہے۔ جو شخص کسی مذہب کی صداقت کا ہی قائل نہیں اس پر اس مذہب کے کسی حکم کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں ہوتی۔مگر جو لوگ قائل ہوں ان کو ضرور سزا دی جاتی ہے۔

عیسائی سود لیتے ہیں ان پر اس کی بناء پر عذاب نہیں آسکتا۔ کیونکہ وہ اسلام کو مانتے ہی نہیں۔اور یہ اسلام کا ایک حکم ہے کہ سود نہیں لینا چاہیے۔مگرمسلمان کہلانے والے توا س کے خلاف کرنے سےسزا سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ وہ اسلام کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے پھر اس کےخلاف کرتے ہیں…۔

پس یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی سلطنتیں جنہوں نے سود دیا یا لیا سب کی سب مٹ گئیں۔ دوسری قوموں کی سلطنتوں کوبھی زوال آئے۔ مگر وہ سیاسی طور پر تھے اور ان کے وجوہات کچھ اور تھے۔لیکن اسلامی سلطنتیں اسی طرح فنا ہوئی ہیں کہ انہوں نے سود پر قرض لیا یا دیا۔ اگر لیا تو روپیہ دینے والی سلطنتوں نے ان کے ملک میں آہستہ آہستہ اپنا تسلط جمانا شروع کیا۔کبھی ریلوں کا ٹھیکہ لیا۔ کبھی کانوں کو کفالت میں رکھا۔ کبھی کسی اور صیغہ پر قبضہ کر لیا۔آخر مسلمانوں کو سلطنت سے دستبردار ہونا پڑا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مئی 1917ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5 صفحہ 471)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں اُس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت یعنی سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی بن کر شامل ہوئی تھی۔اس عظیم سلطنت کے زوال کا آغاز بھی سود پر قرضے لینے سے ہوا تھا۔1854ءمیں سلطنت عثمانیہ نے قرضہ لینے کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ بھی ایک جنگ یعنی کریمیا کی جنگ میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے شرکت کی۔ گویا قرضہ اور بلاضرورت جنگوں میں شرکت نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس عظیم سلطنت کو تباہ کر دیا۔1854ء میں یورپی اداروں سے سود پر قرض لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔اور 1875ءتک قرض کا بوجھ بیس کروڑ پائونڈ تک پہنچ چکا تھا۔ اورقرضوں کی ادائیگی اور ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی پر ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ پائونڈ خرچ ہو رہے تھے۔اور یہ رقم مختلف ٹیکسوں سے حکومت کی سالانہ آمد کے نصف سے بھی زیادہ تھی۔1875ءمیں یہ سلطنت اپنی مالی ذمہ داریاں بھی اٹھانے کے قابل نہیں رہی اور پھر 1877ءکی جنگ میں روس کے ہاتھوں توہین آمیز شکست کے بعد رہا سہا وقار بھی مٹتا نظر آ رہا تھا اور یورپ کے بہت سے علاقے ہاتھوں سے نکل گئے۔پھر 1880ءمیں قرض کا بوجھ کم کرنے کے لیے اس سلطنت کے بہت سے ٹیکس وصول کرنے کا اختیار قرضداروں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ یعنی اب یہ آمد سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ قرضداروں کے ہاتھ میں جاتی تھی۔اور1900ءکے آغاز پر یہ حالت ہو چکی تھی کہ اس سلطنت کی تمام آمد قرضے واپس کرنے یا ان پر سود کی ادائیگی میں ہی صرف ہو جاتی تھی۔

(https://www.researchgate.net/publication/329809070_The_Ottoman_Public_Debt_Administration_OPDA_in_Debt_Process_of_Ottoman_Empire)

بد قسمتی سے اب تک مسلمانوں نے اس نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں حاصل کیا اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک سودی قرضوں کی دلدل میں پھنس کر دینی اور دنیاوی نقصان اٹھا رہے ہیں۔

مالی وسائل کے بغیر جنگ نہیں جیتی جا سکتی

ان حالات میں جب کہ اپنی مالی حالت ہی مستحکم نہ ہوکوئی بھی ملک اگر دوسرے ملک پر حملہ کر ے تو اپنے مسائل میں اضافہ ہی کرے گا۔جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بھی مالی وسائل درکار ہوتے ہیں اور اگر جنگ سے قبل ہی کسی ملک کی مالی اور اقتصادی حالت مستحکم نہ ہو تو خواہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو ، جنگ کےبعد پہلے سے بھی ابتر حالت میں چلا جائے گا۔اور اگر مد مقابل ملک یا ممالک کی مالی حالت زیادہ مستحکم ہو تو اس پس منظر میں خاص طور پر طویل جنگ میں کامیابی حاصل کر نے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ طویل جنگ میں مالی وسائل کی ضرورت کم مدت کی جنگ کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جنگ کا ایسی صورت حال اختیار کرنا جس میں مالی وسائل فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگ جائیں اس ملک کے لیے تباہ کن ہو گا جس کے پاس مالی وسائل کا فقدان ہے۔ دعا کے ہتھیار کی توجہ دلانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’ان سامانوں کے ذریعہ غلبہ نہیں ہوا کرتا جو دشمن کے پاس زیادہ ہو۔مثلاًایک قوم جس کے پاس کروڑ روپیہ ہے وہ کہے کہ ہم اپنے دشمن پر جس کے پاس تیس کروڑ روپیہ ہے مالی رنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو یہ بالکل غلط بات ہے کیونکہ پیشتر اس کے کہ اس کے دشمن کا روپیہ ختم ہو اس کا اپنا ختم ہو جائے گا۔ اس لئے اس کے لئے کامیابی حاصل کرنے کا یہ ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس موجودہ جنگ میںمتحدہ سلطنتوں کے مدبر اس بات پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں کہ جرمن پر جلد فتح پانے کا کون سا ذریعہ ہو سکتا ہے اس کے لئے وہ ہر ایک قسم کے سامانوں کو دیکھتے ہیں اور پھر اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کون سی چیز جرمن کے پاس کم ہے تا اس کے ذریعہ اس پر فتح حاصل کی جائے تو کسی دشمن پر فتح پانے کے لئے وہ ذریعہ نہایت کار آمد مفید اور جلد فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے جو دشمن کے پاس نہ ہو یا کم ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جون1916ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5صفحہ 150تا151)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ سلطنت عثمانیہ تو جنگ میں شرکت سے قبل ہی بری طرح مقروض تھی۔جنگ کے دوران اس کے پاس اپنے سرپرست ساتھیوں پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ آسٹریا، ہنگری کے سونے کے ذخائر جو جرمنی منتقل ہو رہے تھے ، وہ عملی طور پر سلطنت عثمانیہ کو پہنچ رہے تھے تا کہ وہ جنگ میں شامل رہ سکے۔ لیکن جرمنی اور آسٹریا ہنگری نے بھی تو کہیں سے اپنے مالی وسائل پیدا کرنے تھے۔اتحادیوں نے ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی تھی اور جرمنی اور آسٹریا ہنگری نہ تو اپنی برآمدات کر کےآمد پیدا کر پا رہے تھے اور نہ ان کے جہاز آزادانہ سمندروں میں نقل و حرکت کر پا رہے تھے۔اس کے علاوہ جرمنی کی نصف سرکاری اور نجی بیرونی سرمایہ کاری ان ممالک میں تھی جو اب جنگ میں اس کے مد مقابل تھے اور ان ممالک نے یہ سرمایہ کاری ضبط کر کے جرمنی کو نقصان پہنچایا لیکن اس کے برعکس برطانیہ اور فرانس کی بہت کم سرمایہ کاری جرمنی اور اس کے ساتھیوں کے ممالک میں تھی۔ان وجوہات کی بنا پر جرمنی اور اس کے ساتھیوں کی اقتصادی حالت زیادہ مجبوریوں میں جکڑی ہوئی تھی۔

دوسری طرف برطانیہ، فرانس اور روس کے پاس یہ سہولت تھی کہ وہ امریکہ کی مارکیٹ سے قرض اٹھا سکتے تھے۔چنانچہ ان اتحادیوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران جو سولہ ارب ڈالر کے قرض لیے ان میں سےسات ارب ڈالر کے قرضے امریکہ سے حاصل کیے گئے تھے۔بہر حال بہتر مالی پوزیشن کا نتیجہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی اور جرمنی اور دوسری محوری طاقتوں کی ناکامی میں نکلا۔

(https://encyclopedia.1914-1918-online.net/article/war_finance)

عوام اور حکومت کے باہمی تعلقات

جنگ میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک حکومت اور ملک کے عوام کے باہمی تعلقات پر بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک میں حکومت خود اپنے عوام کے حقوق ہی ادا نہیں کر رہی اور دوسری طرف عوام بھی اپنی حکومت کے خیر خواہ نہیں ہیں تو خاص طور پر طویل جنگ میں فتح کی امید محض ایک خام خیالی ہے۔بہت ہی کم مدبرین ایسے ہوں گے جو کہ کسی جنگ کے آغاز سے قبل اس اہم پہلو کی طرف توجہ کر کے تجزیہ کرتے ہوں کہ اس پہلو میں بہتری کے لیے کیا کرنا چاہیے۔اس عظیم جنگ کے آغاز پر اور بعد میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے اس اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی۔ 1914ءمیں آپ نے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں فرمایا:’’اب ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو ان کی حکومت اس وقت تک قائم ہے۔ اس کو بھی مٹا دیا جاوے۔موجودہ وقت کے پیدا شدہ اسباب سے معلوم ہوتا ہےکہ خدا کی مرضی ہے کہ ان ظالم ہاتھوں سے حکومت لے کر امن دینے والے ہاتھوں کودے دی جائے۔ اہل یورپ نے باوجود عیسائی ہونے کے دنیا سے نیک سلوک کیا۔چنانچہ یورپین قوموں کے تحت جو رعایا ہے وہ بہت آرام اور آسائش میں ہے۔لیکن جو مسلمان کہلانے والے ہیں ان کی رعایا کو کوئی آرام نہیں ہے۔ ان مسلمانوں کے اخلاق اور اعمال گندے ہو گئے ہیں۔اور وہ جو خلیفۃ المسلمین کہلاتے ہیں ان کی نسبت عیسائی لوگ رعایا کے لئے بہت زیادہ مفید اور مہربان ہیں۔مذہب کو ایک طرف رہنے دو۔کچھ اخلاق ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سارے انسان مشترک ہو سکتے ہیں۔ اسی لحاظ سے عیسائی بادشاہوں اور امراء کا مقابلہ مسلمان بادشاہوں اور امراء سے کرو اور دیکھ لو کہ ان عیسائی بادشاہوں کی حالت ان سے بدرجہا اچھی اور اعلیٰ ہے۔ جس قسم کی بدکاریاں ان مسلمان بادشاہوں اور امراء میں پائی جاتی ہیں عیسائی بادشاہوں اور امراء میں وہ نہیں ہیں۔مسلمان غفلت اور خود فراموشی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی اپنی رعایا کو سکھ دینے اور دکھ دور کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔مسلمان اپنے محلوں میں بیٹھے اپنے لئے روپیہ جمع کرتے اور عیش و عشرت میں دن گذارتے ہیں۔ اس لئے جو ازل سے مقدر ہو چکا ہے اس کا ظہور ہو چکا ہے۔اور اب اس خدائی فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍نومبر 1914ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 4 صفحہ209تا210)

ابھی پہلی جنگ عظیم شروع ہی ہوئی تھی۔ اور کسی کو علم نہیں تھا کہ اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ سلطنت عثمانیہ ابھی قائم تھی۔ آج کی دنیا کے کئی آزاد ممالک اس کے ماتحت تھے۔اسی وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس کی تباہی کی پیش گوئی فرما دی تھی کیونکہ اس سلطنت کے حکام رعایا سے حسن سلوک نہیں کرتے تھے۔اسی طرح کچھ فرائض عوام کے بھی ہوتے ہیں۔وہی قوم بڑے معرکوں میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے جس کے عوام اپنے فرائض سمجھتے ہوں اور انہیں ادا کرتے ہوں۔اس کے متعلق آپؓ نے فرمایا:’’اس وقت مسلمانوں کی عملی زندگی بتلا رہی ہے کہ ان کے اخلاق بگڑ چکے اور جھوٹ۔ دغا۔فریب اور بد عہدی کے جراثیم ان میں سرایت کر چکے ہیں۔وہ غلط کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اطاعت نہیں کرتے اگر مسلمان حکمران ہوں تو ان کی کریں۔ یہ کسی کی بھی اطاعت نہیں کریں گے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمرؓ۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت علی ؓکی بھی حکومت ہوتی اور یہی آج کل کے مسلمان ہوتے تو ان سے بھی بغاوت اور بد عہدی ہی کرتے۔خواہ کوئی حکمران ہوتا یہ کسی کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان میں امانت۔ دیانت۔ وفاداری اور اطاعت کا مادہ ہی نہیں رہا۔اگر ان میں یہ مادہ ہوتا اور یہ سچے دل سے مسلمان بادشاہوں کے وفادار اور اطاعت شعار ہوتے تو ترکوں میں ایک سے ایک بڑھ کر غداری کرنے والے اور اپنے ملک اور قوم کو تباہ وبرباد کرنے والے دکھائی نہ دیتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ستمبر1916ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5صفحہ 270)

اگر پہلی جنگ عظیم کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو عرب عوام اور سلطنت عثمانیہ کے تعلقات اس کی ایک واضح مثال ہے۔ جنگ سے قبل شریف مکہ حجاز کے علاقہ پر حکمران تھے لیکن سلطنت عثمانیہ کے تحت اپنے علاقے پر حکومت کرتے تھے۔ اسی طرح آل سعود کا بھی سلطنت عثمانیہ کے نمائندوں سے تصادم ہوا تھا لیکن چونکہ کوئی حکومت ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی تھی ، اس لیے انہوں نے بھی 1913ء میں کویت جا کر سلطنت عثمانیہ کے گورنر سے والی ہونے کا پروانہ حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شیکسپیئر جیسے برطانوی ایجنٹ کے سامنے یہ اظہار بھی کرتے تھے کہ میں سب سے زیادہ ترکوں سے نفرت کرتا ہوں۔ مختصر یہ کہ نہ سلطنت عثمانیہ میں یہ اخلاق موجود تھے کہ وہ اپنے ماتحت علاقوں کے لوگوں کا خیال رکھتے اور ان کی خوشحالی کی فکر کرتے۔ اور نہ آل سعود اور شریف مکہ میں وفاداری کا یہ وصف تھا کہ وہ اس عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کے دشمنوں سے ساز باز نہ کرتے ۔ اس کا یہ المناک نتیجہ نکلا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران عربوں نے برطانوی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور اس کا اتحادیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اور اس عالمی جنگ کے بعد آل سعود کی افواج نے شریف مکہ کی ریاست پر حملہ کر کے کافی خون خرابے کے بعد حجاز پر بھی قبضہ کر لیا۔

(The Kingdom, by Robert Lacey, published by Hutchinson Company 1981p 106 to 121)

یہ نصیحت صرف آج سے ایک صدی قبل تک کی حکومتوں اور ان کے عوام تک محدود نہیں تھی۔آج بھی جس ملک کے عوام اور حکومت ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کر رہے ہوں ، وہ کسی جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیںکر سکتے ۔

مسلمانوں کو تفرقہ سے بچنے کی نصیحت

خواہ امن کی حالت ہو یا جنگ کی حالت ہو ، مسلمانوں کو تفرقہ بازی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مختلف فرقے غیر معمولی حالات میں بھی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے اکٹھے نہ ہو سکے بلکہ ان نازک مواقع پر دشمنوں کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔اور پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد کے سالوں میں بھی یہ تفرقہ اپنا رنگ دکھاتا رہا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اکثر چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کے نتائج خطرناک ہوا کرتے ہیں۔ حکومت بغداد کی تباہی کی ابتدائی ایک معمولی بات سے ہوئی تھی، شہر میں ایک گروہ تھا جن کو عیار کہتے تھے۔ وہ گویا پولیس کے قائم مقام ہوتے تھے۔ان کا کام بدمعاشوں کی فہرستیں تیار کرنا ہوتا تھا، ایک دن دو عیاروں میں سے ایک نے کہا کہ چلو بھئی کباب کھائیں۔ دوسرے نے کہا کباب کیا کھانے ہیں ذرا لڑائی کا تماشہ دیکھیں۔ شیعہ سنّی کو لڑوائیں اور تماشہ دیکھیں۔یہ کہہ کر ایک شیعوں کے محلہ میں چلا گیا اور دوسرا سنیوں کے محلہ میں اور وہاں جا کر کچھ ایسی باتیں بنائیں کہ دونوں گروہوںکو لڑوا دیا۔وزیر اعظم شیعہ تھا۔ اس نے سنیوں کی گرفتاری کے احکام نافذ کئے۔ اس پر سنّی ولی عہد کے پاس گئے اور کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے ہم امن میں نہیں ہیں۔ اس نے ہماری گرفتاری کے لئے فوج کو بھیج دیا ہے۔ ہمیں بچائیے اور شیعوں کے مظالم سے ہماری حفاظت کیجئے۔ولی عہد سنی تھا۔ اس نے خاص اپنے باڈی گارڈ کو بھیج دیا کہ اگر سنیوں کو کوئی گرفتار کرے تو مزاحم ہو۔ اس طرح دونوں فوجوں میں کچھ جنگ بھی ہوئی اور وزیر اعظم کے دل میں کینہ اور بغض بیٹھ گیا۔ اس نے ہلاکو خان کو لکھا کہ آپ حملہ کریں میں آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ہلاکو خان چڑھ آیا…۔بغداد تباہ ہوا۔ 18 لاکھ آدمی قتل ہوا۔ اس میں شیعہ سنی کی تمیز نہ کی گئی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍جولائی 1917ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5صفحہ515)

پہلی جنگ عظیم کے موقع پر بھی مختلف مسلمان گروہوں نے ایک دوسرے کے خلاف فوج کشی کی اور غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ اتحاد کر کے مسلمانوں پر حملے کیے اس کے پیچھے مختلف مفادات کے علاوہ مختلف فرقوں کا ایک دوسرے سے شدیداختلاف بھی کارفرما تھا۔آل سعود وہابی مسلک سے وابستہ تھے۔اور پہلی جنگ عظیم سے بھی ایک سو سال قبل انہوں نے نجد اور حجاز میں اپنی حکومت قائم کی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد وہابی مسلک تھا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ نے حملہ کر کے اس حکومت کو ختم کیا تھا اور ان کے کئی مذہبی لیڈروں کو موت کے گھاٹ بھی اتاردیاتھا۔ اور پہلی جنگ عظیم میں آل سعود نے ایک بار پھر اپنی حکومت اس علاقہ میں قائم کی اور اس کے لیے مغربی طاقتوں کے ایجنٹوں کے ساتھ ساز باز کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔اس بارے میں حضورؓ نے نصیحت فرمائی :’’اسی جنگ میں دیکھو فرانس۔روس اور انگلینڈ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو لڑ رہے ہیں۔حالانکہ ان میں مدتوں سے رنجشیں چلی آ رہی تھیں۔اب یہ کیوں اکٹھے ہو گئے ہیں۔اس لئے کہ ایک عظیم الشان خطرہ سے انہیں مقابلہ آ پڑا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو اسلام کے لئے اس وقت اس سے بھی زیادہ خطرہ درپیش ہے۔اس لئے اس کے دور کرنے کے لئے ہمیں تو بہت ہی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو پہلی عداوتیں یا رنجشیں ہوں ان کو بھی بھول جانا چاہیے نہ کہ اور پیدا کرنی چاہئیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 1917ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 5صفحہ477تا478)

موجودہ حالات میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس نصیحت سے بہتر مضمون کا اختتام نہیں ہو سکتا کیونکہ ایران اور عرب ممالک کا تنازعہ ہو یا پاکستان میں دہشت گردی ہو یا یمن کی خانہ جنگی ہو۔ان سب کے پیچھے فرقہ وارانہ تعصب کارفرما نظر آتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button