افریقہ کی ترقی و استحکام کی جانب خلفائے احمدیت کی نظرِ التفات(قسط اوّل)
’’افریقہ میں بہت potentialہے۔خوراک کی کمی، ناقص منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری اور دیانتداری کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر درست منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ ذاتی مفادات کو بیچ میں لائے بغیر کام کیا جائے تو افریقہ میں بہت potential اور وسائل موجود ہیں جن کو جانچ کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)
اسلام کی نشأة ثانیہ کلام الٰہی اور وحیٔ ربانی سے مشرف بانیٔ اسلام سیدنا محمدﷺ کی متعدد پیشگوئیوں کا مظہر ہے۔ خدا تعالیٰ نے جہاں مسیح الزماں اور مہدیٔ دوراں حضر ت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکو امام الزماں کا منصب عطا فرمایا وہیں یہ وعدہ فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اس کے ساتھ ہی موعود بیٹے سے قوموں کے برکت پانے کی عظیم الشان پیشگوئی بھی عطا فرمائی۔ پوری دنیا اور چشم فلک نے اس امر کا مشاہدہ کیا کہ کس شان سے یہ پیشگوئی وقوع پذیر ہوئی۔ افریقہ کےتربیتی و تبلیغی میدان میں خلافتِ احمدیہ کی نظر شفقت اور کمال توجہ کے سبب احمدیت کا بیج اب متعدد مقامات پر اپنے سو سال مکمل کر کے تن آور درخت بن چکا ہے۔ یہ موضوع ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑنے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے جہاں روحانی و مذہبی جماعت قائم فرمائی وہاں اس جماعت کو یہ سبق بھی دیا کہ
مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
خلافت احمدیہ نے اس براعظم کی ترقی و تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سو سال سے زائد عرصے پر محیط یہ محنت شاقہ کا ثمر ہے کہ آج ہر افریقن ملک میں ہر کس و ناکس کو احمدیت کا نام معلوم ہے۔ قطع نظر عقائد کے یہ قوم بحیثیت جماعت جماعت احمدیہ کی انسانیت کے لیے کی گئی تعلیمی، طبی، تعمیری ترقیات کو سراہتے ہوئےنظر آتی ہے۔ اس مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا افریقہ میں ترقی و استحکام کے لیے جماعت کی کاوشیں اور دوسرا خلفائے احمدیت کی جانب سے خداداد بصیرت کے باعث افریقہ سے متعلق مشاہدات اور راہنمائی کا بیان۔
افریقہ میں تعمیر و ترقی کا ایک جائزہ
خلافت ثانیہ میں مغربی افریقہ میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، لائبیریا، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، ٹوگو لینڈ جبکہ مشرقی افریقہ کینیا، ٹانگا، یوگنڈا، ماریشس، جنوبی افریقہ میں مشن قائم ہوا۔ مساجد، مشن ہاؤسز اور سکولز کا قیام عمل میں آیا۔
خلافتِ ثالثہ میں نصرت جہاںسکیم کے قیام نے افریقہ میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ خلافتِ رابعہ میں 1984ء میں 14ممالک میں سکولز کی کل تعداد 68 تھی جبکہ 2003ء میں 25ممالک میں تعداد 656 ہو چکی تھی۔مجلس نصرت جہاں کے تحت 1985-86ء میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، لائبیریا، یوگنڈا میں 31ہائر سیکنڈری سکولز تھے۔سیکنڈری کے علاوہ پرائمری اور نرسری سکولوںکی مجموعی تعداد 174 تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دَورمبارک میں کانگو اور آئیوری کوسٹ میں بھی سکولز کا قیام عمل میں آیا۔2003ء میں افریقہ کے 8ممالک میں 40ہائر سیکنڈری سکولز، 37جونیئر سیکنڈری سکولز، 238پرائمر ی سکولزاور 58نرسری سکولز کام کر رہے تھے۔کل تعداد 373تھی۔ گویا کہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دور ہجرت میں 199 سکولز کا اضافہ ہوا ۔
مجلس نصرت جہاں کے تحت سال 86-1985ءمیں 7ممالک غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا،لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور یوگنڈا میں 24ہسپتال کام کر رہے تھے۔ اللہ کے فضل سے ان ممالک کے علاوہ درج ذیل ممالک میں ہسپتالوں کا اضافہ ہوا۔بورکینا فاسو، بینن، کانگو، کینیا اور تنزانیہ۔ اور یوں خلافت رابعہ میں افریقہ کے ان 12 ممالک میں اللہ کے فضل سے احمدیہ کلینکس اور ہسپتالوں کی تعداد 36ہو گئی۔21؍اگست 1992ء سے MTA کے ذریعہ خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذریعہ چار براعظموں میں نشر ہونا شروع ہوئے یعنی یورپ،ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا۔(الفضل ربوہ سیدنا طاہر نمبر 27؍دسمبر 2003ء)
’ایچ ایم طارق‘ کے ایک مضمون سے خدمتِ خلق کے حوالے سے تازہ اعداد و شمار پیش ہیں۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی جاری فرمودہ نصرت جہاں سکیم کے تحت بھی مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں گذشتہ 19 سالوں میں بھی دکھی انسانیت کی امداد کی جا رہی ہے ۔چنانچہ اس کے تحت بارہ ممالک میں 37 ہسپتالوں اور کلینکس میں 50 سے زائد ڈاکٹرز خدمت خلق کا مقدس فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ خلافت خامسہ میں 300 سے زائد نئے سکول کا قیام عمل میں آیا اور اب اس سکیم کے تحت 680 سے زائد سکولز غریب ممالک میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
ہیومینٹی فرسٹ کا آغاز خلافت رابعہ میں 1995ء میں ہوا تھا۔خلافت خامسہ کے 19 سالوں میں اس ادارے نے بھی خدمت انسانیت میں نئی منازل طے کی ہیں۔ IAAAEجہاں امدادی اور فنی ضروریات مہیاکرتی ہے ہیومینٹی فرسٹ ان منصوبوں کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ اس وقت ہیومینٹی فرسٹ 60ممالک میں رجسٹرڈ ہو کر خدمت انسانیت کے کاموں میں عالمی سطح پرغیر معمولی خدمت کی توفیق پا رہی ہے چنانچہ اس عظیم الشان ادارہ کے ذیلی 8 شعبہ جات1۔نالج فار لائف2۔واٹر فار لائف3۔فوڈ سیکیورٹی4۔گلوبل ہیلتھ 5۔آرفن کیئر6۔دنیاوی آفات میں امداد7۔گفٹ آف سائٹ8۔کمیونٹی کیئر کے تحت لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر کی دکھی انسانیت کی مدد کی جا چکی ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹ اینڈ انجینئرز کا قیام خلافت ثالثہ میں ہوا اور یہ ایسوسی ایشن بعض دوسری چیریٹی آرگنائزیشن اور کمپنیوں کے ساتھ مل کر خدمت خلق کے کاموں میں مصروف عمل ہے۔ عہد خلافت خامسہ کے 19 سالوں کے دوران اس تنظیم نے حیرت انگیز طور پر تر قی کی نئی منازل طے کی ہیں۔ جس کے تحت افریقہ بھر میں خدمت خلق کے کاموں کو انجام دینے کے لیے یوکے، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، گھانا، نائیجیریا، پاکستان اور دیگر ممالک سے انجینئرز اور آرکیٹکٹس، الیکٹر یشنز، پلمبرز اور دوسرے مختلف شعبوں کے ماہرین اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ خلافت خامسہ میں باقاعدہ طور پر IAAAE کا ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل دے کر اس کی مختلف کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ یہ ایسوسی ایشن چار کمیٹیوں 1۔آرکیٹکٹس 2۔ماڈل ولیج 3۔واٹر فار لائف 4۔متبادل انرجی (Alternative Energy) کے تحت افریقہ کے دور دراز علاقوں میں خدمتِ انسانیت میں فنی اور تکنیکی امداد مہیا کرنے کے لحاظ سے مصروف عمل ہے ان کمیٹیوں کے مختلف پراجیکٹس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ ماڈل ولیج MODEL VILLAGE IAAAE کے اس پراجیکٹ کے ذریعہ نئی بستیوں کا قیام عمل میں لایا جا تا ہے گو یہ کام حکومتوں کے بجٹ اور ذمہ داری کا متقاضی ہوتا ہے۔لیکن جماعت احمدیہ وہ پہلی دینی جماعت ہے جس نے اس کام میں نئے تاریخی سنگ میل نصب کیے ہیں۔
عہد خلافت خامسہ میں جماعت احمدیہ نے خدمت خلق کے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔اور ماڈل ویلیج کا یہ تصور روشناس کروایا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں انہیں مہیا کی جائیں۔چنانچہ افریقہ میں ان مخلص انجینئرز، آرکیٹکٹس اور کارکنان کی محنت کے نتیجہ میں 19 ماڈل ویلیجز کا قیام ہوچکا ہے۔جن میں شمسی توانائی کے ذریعہ بجلی اور پینے اور زراعت کےلیے پانی فراہم کیا جاتاہے اسی طرح ان ولیجز میں شمسی و دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کر کے علاقہ مکینوں کو بجلی کی سہولت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ان علاقوں میں گلیوں اور سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
2۔واٹر فار لائف کمیٹی (Water for Life committee) :افریقہ کے دور دراز علاقوں میں صاف پانی علاقہ مکینوں کے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہوتی ہے۔چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نےآغاز خلافت ہی میں براعظم افریقہ میں پانی کی سہولت کی فراہمی کے لیے 2005ء میں واٹر فار لائف کمیٹی کا اجرا فرمایا۔اس کمیٹی کے تحت پانی کی سہولت کی فراہمی کے لیے افریقہ کے دور دراز گاؤں میں نئےنلکے لگانے کا کام کیا جاتا ہے۔چنانچہ گذشتہ انیس سالوں میں اس کے تحت 2 ہزار 8 سو سے زائد پانی کے نلکے لگ چکے ہیں جن کے ذریعہ سے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد مستفید ہو ئے۔اس کمیٹی کے تحت IAAAE کے انجینئرز شدید گرم موسم میں کام کرتے ہیں اور جب کسی علاقہ میں پانی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے تو وہاں علاقہ مکینوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
3۔متبادل انرجی کمیٹی (ALTERNATIVE ENERGY COMMITTEE) :اس کمیٹی کا قیام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کی روشنی میں 2005ءمیںہوا۔ اس کمیٹی کے تحت شمسی اور بجلی کے دیگر ذرائع بروئے کار لاکر افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں بجلی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کمیٹی کے تحت گھانا، بینن، نائیجر، مالی، گیمبیا، سیرالیون، بورکینافاسو وغیرہ میں 250 سے زائد مقامات پر بجلی کی سہولت فراہم کی جاچکی ہے اسی طرح ان تمام مقامات پر سولر سسٹم کی مینٹیننس (maintenance) کا کام بھی جاری ہے۔ اس اقدام سے علاقہ مکین جہاں بجلی کی سہولت سے مستفیض ہوتے ہیں وہاں ان کے لیے MTA کی سہولت کا بھی انتظام ہوتا ہے اور وہ براہ راست اپنے پیارے امام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکتے ہیں۔
4۔آرکیٹکٹس(ARCHITECTS) کمیٹی:IAAAEکی یہ کمیٹی افریقہ بھر میں ہونے والی تعلیم،صحت،کمیونٹی سنٹرزاورمساجد کی تعمیرات میں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کمیٹی کے تحت بورکینا فاسو میں مسرور انٹر نیشنل ٹیکنیکل کالج قائم کیا گیا ہے۔اس کالج کے قیام کا مقصد نوجوانوں کو ٹیکنیکل کورسز کی تعلیم دے کر انہیں معاشرہ کا مفید وجود بنانا ہے۔یہاں سے تعلیم حاصل کر کے نوجوان باعزت طور پر روزگار کا انتظام کر سکیں گے۔
ذیلی تنظیموں کے ذریعہ خدمات
خلافت احمدیہ کے بصیرت افروز ارشاد پر انصار اللہ بھی افریقہ میں خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ انصار اللہ برطانیہ کی طرف سے Masroor Eye Institute بورکینا فاسو قائم کیا جا رہا ہے جس پر اب تک ڈیڑھ ملین پاؤنڈز خرچ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انصار اللہ کومندرجہ ذیل فلاحی کاموں میں مالی خدمات پیش کرنے کی توفیق ملی:
1: منی ماڈل ویلج پراجیکٹ (Mini Model Village project)۔2:عطیۂ نذر(Gift of Sight)۔ 3:واٹر پمپ افریقہ (Water Pump Africa)۔4:افریقہ میں مرمت واٹر پمپ (Water pump Repair Africa)
انصار اللہ امریکہ کی جانب سے چھہترہزار امریکی ڈالر عطیہ سےافریقہ میں پانی کی قلت کے پیش نظر کنویںکھدوائے گئے۔ افریقہ کے لیے ساڑھے تین سو350بائیسکل اوربیس ٹرائی سائیکل عطیہ کیے گئے۔بورکینافاسو میں مختلف رفاہی کاموں کی مد میں اڑتالیس ہزار امریکی ڈالر کی رقم خرچ کی گئی۔افریقہ میں ماڈل ولیج کے قیام کے لیے اسّی ہزارڈالر عطیہ کیے گئے۔2013ء میں مجلس انصار اللہ کینیڈا نے افریقہ میں دو کنویں لگانے کےلیے ہیومینٹی فرسٹ کو دس ہزار کینیڈین ڈالرز عطیہ دیے۔ مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈکواڑتالیس ہزارسوئس فرانک کے عطیہ سےافریقہ میں کنویں کھدوانے کی توفیق ملی۔(ماخوذ از مضمون ایچ ایم طارق۔روزنامہ الفضل آن لائن لندن)
یورپ کی لجنات نے افریقہ اور تھرپاکر میں کنووں کی کھدائی کےذریعہ واٹر پمپس تعمیر کروائے۔ لجنہ اماءاللہ یوکے کی جانب سے سیرالیون میں ایک گائنی ہسپتال زیرِ تعمیر ہے۔
وقفِ جدید کے مصارف
وقف جدید کے چندے کا ایک بڑا مصرف افریقہ کے ممالک پر ہے۔ جیساکہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک سو ستاسی مساجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کےعلاوہ افریقہ میں ایک سو پانچ105 مساجد زیر تعمیر ہیں۔ اسی طرح ایک سو چوالیس144 مشن ہاؤس قائم ہوئے جن کی اکثریت افریقہ میں ہے اور پینتالیس 45 مشن ہاؤس زیر تعمیر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں فوری طور پر ہم مشن ہاؤس بنا نہیں سکتے وہاں کرائے پر عمارتیں لی جاتی ہیں۔ افریقہ کے ممالک میں سات سو اکتیس 731 مشن ہاؤسز اور مربی ہاؤس کرائے پر لیے ہیں۔ دوسرے ایشین ممالک میں بھی چھ سو بتیس 632 مشن ہاؤسز کرائے پر ہیں تو بہت حال بتادوں کہ عموماًوقف جدید کے چندے کا اکثر حصہ افریقہ کے ممالک پر خرچ کیا جاتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍جنوری 2022ء)
خلفائے احمدیت کےبصیرت افروز، دور اندیش اور قابلِ تقلید ارشادات
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے اس تاریک خطے میں تعمیر و ترقی ہو یا مذہبی و روحانی اصلاح جماعت احمدیہ میں قائم بابرکت نظام خلافت ہمیشہ دنیا کی راہنمائی کرتا رہا ہے۔
خلافتِ ثانیہ
غیر متمدن اقوام میں بیداری کی لہر قرآن کریم کی ایک زبردست پیشگوئی
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطاب فرمودہ 13؍جنوری 1947ء بمقام قادیان میں فرمایا:’’قرآن کریم میں مسیح موعودؑ کی بعثت کی خبر دیتے ہوئے جو علامات اس زمانہ کی بتائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم علامت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ واذا الوحوش حشرت۔ اس وقت وحشی قومیں، غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب قومیں، وہ قومیں جن کا متمدن دنیا کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔ ان میں بھی خدا تعالیٰ بیداری کے سامان پیدا کردے گا۔ دنیا میں ہمیشہ ہی ایسے زمانے چلے آئے جبکہ مختلف وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہوئی…مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ خبر دی گئی تھی۔ واذاالوحوش حشرت۔ اس زمانہ میں تمام وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔
پس یہ علامت صرف موجودہ زمانہ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ادنیٰ اقوام بھی بیدار نظر آتی ہیں…دیکھو واذاالوحوش حشرت کی پیشگوئی کس شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی ہے کہ وہ اقوام جن کا سڑکوں پر چلنا بھی دشوارتھا آج ان کے افراد حکومت کے کاموں میں شریک ہورہے ہیں یہی معنے اس آیت کے تھے کہ واذاالوحوش حشرت ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں تمام کی تمام وحشی اور ادنیٰ اقوام بیدار ہو جائیں گی اور ان میں بھی زندگی کے آثار نظر آنے لگ جائیں گے…۔
بیرونی ممالک میں سے افریقہ کے باشندے ایسے ہیں جو تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھے۔ اور جن میں ہزاروں سال سے کوئی بیداری نہیں پائی جاتی تھی۔ تہذیب کا لہریں مارتا ہوا دریا جب افریقہ کی سنگلاخ زمین تک پہنچتا تو یوں معلوم ہوتاہے کہ وہ دریا اس کی ریت میں غائب ہو گیا ہے۔ چنانچہ 1872ء تک مسلمان پہلو بہ پہلو رہتے ہوئے اس میں داخل نہ ہوسکے اور انہوں نے یہاں کی جہالت اور تاریکی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ بے شک عیسائیت نے اس طرف رخ کیا مگر عیسائیوں نے اس لئے رخ نہیں کیا کہ وہ ان اقوام میں اپنے حقوق کے حصول کے متعلق بیداری پیدا کریں بلکہ اس لئے کہ وہ اقوام عیسائیوں کے پیچھے چلتی چلی جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ عیسائیت کے ماتحت سو سال میں بھی افریقن لوگوں میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ یہ حالات اسی طرح چلتے چلے آرہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے وَاِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے (مربی) افریقہ میں بھجوائیں۔ چنانچہ نائیجیریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کرچکے ہیں۔ اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں (مبلغ) بھجوائے جائیں گے۔ اس طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہورہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی…۔
پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے واذاالوحوش حشرت کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ہمیں بھی ایک ذریعہ بنا لیا اور ایسے زمانہ میں بنایا جبکہ ہماری تعداد صرف چند لاکھ ہے۔ ہمارے مقابلہ میں … مسلمانوں کی تعداد چالیس کروڑ ہے۔ چالیس کروڑ بدھ ہیں، تیس کروڑ ہندو ہیں اور یہ لوگ اگر چاہتے تو اس طرف توجہ کرسکتے تھے مگر نہ چالیس کروڑ مسلمانوں کو اس امر کی توفیق ملی کہ وہ افریقہ کی اقوام کو تہذیب و شائستگی سے آشنا کریں نہ چالیس کروڑ بدھوں کو اس امر کی توفیق ملی نہ تیس کروڑ ہندوؤں کو اس امر کی توفیق ملی کہ وہ ان ادنیٰ اقوام کو اٹھانے کی کوشش کریں۔ توفیق ملی تو ہماری جماعت کو چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے افریقہ میں متعدد مدارس کھل چکے ہیں اور افریقن لوگوں میں بیداری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ بہر حال واذاالوحوش حشرت کی پیشگوئی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کے ظہور کی مثال اس سے پہلے اور کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر ایک زائد بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنیں۔
بہر حال ایک بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ سارے افریقہ کی آبادی تیس کروڑ کے قریب ہے۔ اس تیس کروڑ آبادی میں سے 25 کروڑ کے قریب حبشی ہیں۔ کچھ عربوں اور حبشیوں کی مخلوط نسلیں ہیں اور کچھ خالص حبشی ہیں۔ جو مغربی ساحل سے مشرقی ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس آئے اور انہیں ہدایت کا رستہ بتائے۔ عیسائی بے شک ان میں تبلیغ کرتے ہیں۔ مگر عیسائیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کو غلام بنائیں اور ہماری غرض یہ ہے کہ وہ ترقی کریں اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو فائدہ پہنچائیں۔
…یہ سامان ہے جو اللہ تعالیٰ نے افریقن لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس سامان سے فائدہ اٹھائیں اور افریقہ میں علم اور تہذیب اور شائستگی نہایت وسیع طور پر پھیلادیں۔ دنیا میں ہر نیک سے نیک کام کی توجیہ ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم افریقہ میں تہذیب و تمدن قائم کردیں۔ اگر ہم افریقہ میں علوم وفنون کے چشمے جاری کردیں۔ اگر ہم افریقہ میں ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی پیدا کردیں تو دنیا ہمارے اس کام کی سوائے اس کے اور کوئی توجیہ نہیں کرسکے گی کہ افریقہ میں کام کرنے والی ایک مومن جماعت تھی جس نے اپنے نفسوں کو فدا کرکے ایک نئی دنیا پیدا کردی…دنیا میں ایک بہت بڑا بر اعظم خالی پڑا تھا اور اس پر تہذیب و تمدن کا دور کبھی نہیں آیا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے چاہاہے کہ اس براعظم میں بھی تہذیب وتمدن کا دور قائم کرے۔
زندگی وقف کرنے کی تحریک
اس موقعہ پر میں ایک بار پھر جماعت کے نوجوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم الشان کام میں حصہ لینے کے لئے جس کا قرآن کریم کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے اور ان برکات اور فیوض سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں اپنی زندگیاں وقف کریں تا کہ افریقہ کی مختلف اقوام میں بھی بیداری پیدا ہو اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئی جو وَاِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡکے الفاظ میں بیان کی گئی ہے بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہو…اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر کام کرنے والوں کو ایسے رنگ میں کام کرنے کی ہمت بخشے کہ وہ اپنا گزارہ بھی آپ ہی پیدا کرسکیں وہ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں جو اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر یہ اندازہ لگا تے ہیں کہ ان کے پاس خرچ کے لئے کس قدر رقم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کا گزارہ اس کے دماغ میں پیدا کیا ہے اگر وہ اس خزانہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو کامیاب ہو جاتا ہے اور اگر وہ اس خزانہ کی طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھاتا تو ناکام رہتا ہے۔ اس کے گھر میں سامان موجود ہوتا ہے مگر وہ اپنی نادانی سے ادھر ادھر بھاگتا پھر تا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ نہ صرف وہ اپنے گزارے چلاسکیں بلکہ دوسرے ممالک کے (مبلغین) کی بھی امداد کرسکیں اور ان کے (تبلیغی) کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔‘‘(روزنامہ الفضل25؍مارچ1960ء)
ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ وابستہ ہے
فرمایا:’’خدا نے ان افریقین ممالک کو احمدیت کے لئے محفوظ رکھا ہو اہے اور اسلام کی ترقی کے ساتھ ان کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ افریقین ممالک میں دس پندرہ کروڑ کی آبادی ہے جو انہی حالات میں سے گزر رہی ہے جن میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب گزر رہا تھا۔ وہ خشک لکڑیاں ہیں یا سوکھے ہوئے پتوں کے ڈھیر ہیں جو میلوں میل مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر ضرورت ان ہاتھوں کی ہے جو دیا سلائی لیں اور ان خشک لکڑیوں اور پتّوں کے ڈھیر وںکو جلا کر راکھ کر دیں ایسی را کھ جو دنیا کی نظر میں تو راکھ ہوگی لیکن خداتعالیٰ کی نظر میں تریاق جوایسے کیمیاوی مادے اپنے اندر رکھتا ہو گا کہ نہ صرف ان لوگوں کی زندگی کا باعث ہوگا بلکہ ساری دنیا کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ دراصل خداتعالیٰ نے عین وقت پر مجھے اس طرف توجہ دلائی اور پھر اس نے محض اپنے فضل سے غیرمعمولی ترقی کے دروازے اس ملک میں ہمارے لئے کھول دیئے…خداتعالیٰ نے یہ راز مجھ پر کھول دیا کہ یہ وہ ملک ہے جس میں ہمارے لئے غیر معمولی طور پر ترقی کے راستے کھلے ہیں۔ اور جن کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔… اگر ہمارے نوجوان جلد جلد اس ملک میں تبلیغ کے لئے نہیں جائیں گے اور قلیل سے قلیل عرصہ میں سارے علاقہ کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہمارے لئے ترقی کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ خدانے یہ علاقہ ہمارے لئے ہی رکھا ہے۔مگر ہو سکتا ہے کہ ڈاکو آئیں اور اس علاقہ کو ہم سے چھین کر لے جائیں… اگر ہم کچھ بھی کوشش کریں تو چونکہ حق ہمارے ساتھ ہے اس لئے نہ صرف حق کے لحاظ سے میں غلبہ حاصل ہو گا بلکہ افریقین فطرت بھی ہماری تائید کرے گی۔ اور یہ حریف پر ہمیں فضیلت حاصل ہوگی کہ وہ توصرف طاقت کے زور سے چھیننا چاہے گا مگر ہمیں سچائی کی طاقت حاصل ہوگی۔ا ورا فریقین فطرت بھی ہماری تائید کرے گی۔ اس لئے وہ قومیں بہر حال ہماری طرف آئیں گی ۔ان کی طرف نہیں جائیں گی…پس ہمارے لئے یہ بہت بڑی ہوشیاری اور بیداری کا وقت ہے۔ انتہائی سرعت اور تیزی کے ساتھ کام کرنے کا وقت ہے۔دنوں اور مہینوں کے اندر اندرہمیں تمام افریقہ پر چھا جانا چاہئے…اورتثلیث کی بجائے خدائے واحد کی بادشاہت اس ملک میں ہمیشہ کے لئے قائم کر دینی چاہیے۔‘‘(خطاب 18؍فروری 1945ء مطبوعہ الفضل 8؍فروری 1961ء صفحہ3)
وقفِ جدید کے لیے افریقہ سے واقفین
حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1957ء پر جماعت کے سامنے وقف جدید کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کرکراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر۔ یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو۔ یا دکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیرملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہرحال ابتداءدس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘(الفضل 16؍فروری1958ء)
٭…٭…٭