حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہےعکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
جب کمیونزم کی ہیبت سےکیامذہبی اشرافیہ اورکیادنیاوی ارباب بست وکشادلرزہ براندام تھےایک وجودجس کےحصہ میں امام زمانہ کےفیض سےقرآنی علوم ومعارف آئےتھےاعلان کرتاہےکہ یہ نظام پچاس سال کےاندرنقش برآب ہوجائےگااوراس کےسنبھالنےوالےبھی نہ رہیں گے…
یہ الفاظ حرف بہ حرف پورےہوئےاور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خیال کی تائید نہ صرف عالمی مؤرخ بلکہ واقعاتی شہادتیں بھی کر رہی ہیں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دسمبر 1942ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ’’نظام نَو‘‘ جبکہ 26؍فروری 1945ء کو ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘کے عنوان سے ایک معرکہ آراء تقریر احمدیہ ہوسٹل واقع ڈیوس روڈ لاہور میں مختلف لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔سامعین کی اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرزاور طلبہ سے تعلق رکھتی تھی۔طلبہ نے ایک عالم شوق سے اس تقریر کو سنا۔اس سے پہلے کہ ہم اُن تاثرات کا جائزہ لیں جو اس تقریر نے اس تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے طبقہ پر چھوڑے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تناظر کا جائزہ لیں جس میں یہ معرکہ آراء لیکچر کمیونزم کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ۔
پس منظر
1095ء میں یورپ کے عیسائیوں نے پوپ اربن کی تحریک پر صلیبی جنگوں کا آغاز کیا۔ مسلم دنیا میں اس کے خلاف جو ردّ عمل پیدا ہوا اس کےنتیجہ میں بالآخر 1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح پر منتج ہوا جس سےیورپ اور ایشیا کا زمینی راستہ منقطع ہو گیا۔چنانچہ جب یورپ نے دیکھا کہ وہ خشکی پر عثمانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو وہ سمندر میں اترگئے۔اور 1488ء سے 1530ء کے درمیان کولمبس امریکہ اور واسکوڈے گاما انڈیا پہنچ گیا۔ سمندری راستے کی اس دریافت کے نتیجے میں دنیا کا تجارتی مرکز جو پہلے وسط ایشیا میں تھا اب لندن بن گیا۔
چنانچہ 1442ء سے 1700ء تک دنیا کی دولت لندن پہنچنا شروع ہوگئی۔ یہاں سرمایہ داری نظام کی بنیاد پڑی۔ صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔1700ء سے 1780ء تک گلڈز کے مالکان نے بڑی بڑی عمارتیں بنا کر مزدوروں کو اکٹھا کر کے مشینوں پر کام کروانا شروع کیا۔(کارل مارکس۔ داس کیپیٹل۔ اردو ترجمہ محمد تقی)
اس دَور میں آدم سمتھ (Adam Smith)جیسے معیشت دان سامنے آئے جن کے خیال میں معاشی معاملات فطری قوانین کے تحت چلتے ہیں لہٰذا حکومتوں کو معاشی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔(داس کیپیٹل۔ اردو ترجمہ سید محمد تقی)
اس کے نتیجے میں مزدوروں کا استحصال شروع ہوگیا۔ ان کی محنت کا پورا معاوضہ انہیں نہیں دیاجاتا تھا۔ لیکن سرمایہ دار معیشت دانوں کی راہنمائی میں یہ سمجھتے تھے کہ سرمایہ کا اجتماع معاشی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا مزدور کو صرف گزارے کے مطابق ہی مزدوری ملنی چاہیے تاکہ سرمایہ جمع کیا جاسکے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ مزدوروں کو بھی سائنس اور صنعت کے برکات میں برابر کا شریک کر لیا جاتا۔ لیکن صنعت کاروں کی ہوس زر مانع ہوئی اور مزدوروں کا استحصال جاری رہا۔ (علی عباس جلالپوری:خردنامہ:جہلم پاکستان صفحہ 34)
اس تناظر میں ایسے مفکر سامنے آئے جنہوں نے ذاتی املاک کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا۔چنانچہ موریلی لکھتا ہے کہ’’شخصی املاک کو صرف ان اشیاء تک محدود کر دیا جائے جو کسی فرد کی ذاتی ضروریات ہوں اور ہر قسم کی پیداوار کو ذخیرہ کر کے اسے شہریوں میں ان کی ضروریات کے مطابق بانٹ دیا جائے اور ہر صحت مند شخص سے کام لیا جائے۔‘‘(Ibid.40)
اس تناظر میں کارل مارکس جیسا مفکر پیدا ہوا جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سرمایہ دار جو دولت اکٹھی کرتا ہے وہ مزدوروں کی محنت ہے اور قدر زائد ہے۔ اور سرمایہ دار مزدور کی کشید کی گئی محنت کو استحصال کے ذریعے اکٹھی کرتا ہے۔
کارل مارکس نے 1867ء میں اپنی مشہور کتاب داس کیپٹل (Das Kapital) لکھی جس میں ان نظریات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔(داس کیپٹل : ترجمہ سید محمد تقی)
داس کیپیٹلنے گہرے اثرات چھوڑے۔چنانچہ یورپ میں بعض ممالک میں مزدوروں کے حق میں تحریکات چلیں ان کو بہتر حقوق ملے لیکن جو ملک اصلاح کرنے پر تیار نہیں تھے وہاں پر پُرتشدد تحریکات چلیں۔
چنانچہ 1917ء میں روس میں انقلاب آیا اور کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی جو ایک سپر پاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھری۔ چنانچہ کمیونسٹ دنیا بھر میں مقبول ہوگئی اور نوجوانوں کا آئیڈیل بن گئی۔ ہندوستان جو اس وقت برطانیہ کے ماتحت تھااس تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر جن میں جواہر لعل نہروبھی شامل تھے کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھے اور اسے آئیڈیل سمجھتے تھے۔
اور تو اور ایک دیو بندی عالم مولانا عبیداللہ سندھی جو کہ مولانا محمود الحسن کے شاگرد تھے اور جنہیں مولانا محمود الحسن نے جنگ عظیم اوّل کے آغاز پر کابل بھجوایا تاکہ کابل کی مدد سے ہندوستان کو فتح کیا جاسکے۔ 7 سال کابل میںرہے بعد ازاں روس چلے گئے، وہاں جب انہوں نے کمیونسٹ انقلاب کا مشاہدہ کیا تووہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔انہوں نے اسلام کی تعبیر کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہو کر کرنی شروع کر دی۔ مولاناسندھی کمیونسٹ انقلاب کی ہیبت سےاس قدرمتاثرہوئےکہ اسے طوفان نوح سےمشابہت دینےلگے۔مولانا نے فرمایا کہ ’’میں ایک عالمگیر انقلاب کے سیلاب کو اپنی آنکھوں سے اٹھتا دیکھ آیا ہوں۔…یہ سیلاب سب کو خس و خاشاک کی طرح بہاکے لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفان نوح سے دو چار ہوا چاہتی ہے۔‘‘(پروفیسرمحمدسرور،خطبات مولاناعبیداللہ سندھی،سندھ ساگراکیڈمی…)انہوں نے پروفیسرمحمدسرورکوانتباہ کیاکہ یہ گھروندے جو تم نے بنا رکھے ہیں اور انہیں تم فلک الافلاک سے بلند سمجھتے ہو، یہ گھروندے زمانے کے ہاتھ سے اب بچ نہیں سکتے۔ تمہارا تمدن، تمہارا سماج ، تمہارے افکار، تمہاری سیاست اور تمہاری معاشرت سب کھوکھلی ہو چکی ہے۔ …بدلو ورنہ زمانہ تمہارا نشان تک بھی نہ چھوڑے گا۔ سنبھلو، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔ (پروفیسر سرور، مولانا عبید اللہ سندھی)اب مولاناسندھی کےنزدیک راہِ نجات یہی تھی کہ مذہبی نظریات کو کمیونسٹ نظریہ سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ اعلان کرتے ہیں:’’میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک کے ہندو، مسلمان اور سکھ جماعتوں میں ایسے عالموں کی کمی نہیں کہ وہ اپنی مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ یورپ کے اقتصادی نظریات کو تطبیق دے لیں۔ اس سے وہ اپنے عوام کو جلد بیدار کرسکیں گے۔‘‘(پروفیسر محمد سرور ، مولانا عبیداللہ سندھی، سندھ ساگر اکیڈمی۔ لاہور۔ 1945ءصفحہ 371)
یہ تو مذہبی طبقے کا حال تھا جن پر کمیونزم کی ہیبت طاری تھی اور دوسری طرف مسلمانوں کا وہ طبقہ جو جدید تعلیم سے آراستہ تھا۔ اس کی حالت فیض احمد فیض کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔
’’34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور 35ء میں مَیں نے ایم اے او کالج امرتسر میں ملازمت کر لی یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصر لکھنے والوں کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے…….پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔‘‘(فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفاصفحہ 305، 306)
یہ وہ تناظر تھا جب ایک وجود جس کے حصے میں جدید یونیورسٹیوں کے ایوان نہیں بلکہ مسجد کا گوشہ آیا تھا اعلائے کلمة الحق کےلیے کھڑا ہوا۔ آپ نے اس خوبی سے کمیونزم کا تجزیہ کیا اور اس کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی خوبیوں کو واضح کیا کہ سننے والے جو کہ جدید تعلیم سے آراستہ تھے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’بعض کمیونزم کے حامی طلباء نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی سوشلزم کے قائل ہوگئے۔……یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ایم اے کے بعض طلباء نے حضور کی اس تقریر کے متعلق یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجنا چاہیئے۔‘‘(سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب: اسلام کا اقتصادی نظام۔2017ء۔ قادیان )
آپؓ نے اس تقریر میں اسلام کی جامع تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’اسلام نے شروع میں ہی کہہ دیا تھاکہ جہاں اسلام فرد کی آزادی اور اس کی شخصی ترقی کے لئے جدوجہد کو جائزرکھتا ہے وہاں وہ اِس امر کی بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ کچھ لوگ توعیش و آرام کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ تکالیف اور دکھ کی زندگی بسر کریں۔‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 28)
آپؓ مزید آیت اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا۔(النساء:59)کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اسلام نے حکومت کو امانت قرار دیا ہے ۔فرمایا:’’پس اسلام کسی نسلی بادشاہت کا قائل نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک حکومت انتخابی اصول پرقائم ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ غور و فکر کے بعد اپنی قوم میں سے بہترین شخص کے سپرد حکومت امانت کیاکریں۔‘‘(صفحہ 9)
قرآن کی اس تعلیم اور روح کی جھلک بعدکے ادوار میں بھی نظر آتی رہی۔ چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک مشہور عیسائی مؤرخ گبن کا حوالہ دیتے ہیں جو اپنی مشہور کتاب میں الپ ارسلان کے بیٹے ملک شاہ کا واقعہ بیان کرتا ہے۔ جب اس شہزادے کے والد کا انتقال ہوگیا تو شہزادہ ابھی نوجوان تھا۔ اس کے مقابل پر ایک سگے بھائی نے بھی بادشاہت کا دعویٰ کر دیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ نظام الدین طوسی جو ملک شاہ کے وزیر تھے ملک شاہ کو امام موسیٰ رضا کی قبر پر دعا کے لیے لے گئے۔ دعا کے بعد ملک شاہ نے وزیر سے پوچھا آپ نے کیا دعا کی؟ وزیر نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ آپ کو فتح بخشے۔ملک شاہ نے کہا اور میں نے خدا سے یہ دعا کی ہے اے میرے رب اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو اے میرے ربّ!آج میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے۔ گبن جو ایک متعصب عیسائی مؤرخ ہے لیکن اس واقعہ کے سلسلے میں لکھتا ہے:’’اس ترک (مسلمان) شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظریہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا مشکل ہے۔‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 10)
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ روح کہاں سے آئی؟ وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دماغوں میں شروع سے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ بادشاہت ایک امانت ہے اور یہ امانت حقدار کو بعد انتخاب دینی چاہیے۔(صفحہ 11)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسلامی اقتصادی نظام کا خلاصہ بیان فرماتے ہیں۔اسلام کا اقتصادی نظام مبنی ہے:
(1)دولت جمع کرنے کے خلاف وعظ پر۔
(2)دولت حد سے زیادہ جمع کرنے کے محرکات کو روکنے پر۔
(3)جمع شدہ دولت کو جلد سے جلد بانٹ دینے یا کم کردینے پر۔
(4)حکومت کے روپیہ کے غرباء اور کمزوروں پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات کو مہیا کرنے پر۔
اور یہی نظام حقیقی اور مکمل ہے۔ کیونکہ اس سے:
(1)اخروی زندگی کے لیے سامان بہم پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔
(2)سادہ اور مفید زندگی کی عادت پڑتی ہے۔
(3)جبر کا اس میں دخل نہیں۔
(4)انفرادی قابلیت کو کچلا نہیں گیا۔
(5)باوجود اس کے غرباء اور کمزوروں کے آرام اور ان کی ترقی کا سامان مہیا کیا گیا۔
(6)اور پھر اس سے دشمنیوں کی بنیاد بھی نہیں پڑتی۔ (صفحہ79)
اس کے مقابلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کمیونزم کے بنیادی اصولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کمیونزم نظام کا دعویٰ ہے کہ ہر ایک سے اس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچ دیا جائے۔باقی روپیہ حکومت کے پاس رعایا کے Trustee کی صورت میں جمع رہے۔ اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات ہونی چاہیے۔ کوئی شخص زائد دولت اپنے پاس رکھنے کا حقدار نہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’جہاں تک اس نتیجہ کا سوال ہے اسلام کی تعلیم کو اس سے کلی طور پر اتفاق ہے۔وہ سو فیصدی اس بات پر متفق ہے کہ پبلک کا اقتصادی نظام ایسا ہونا چاہئے اور اسلام کے نزدیک بھی وہی حکومت صحیح معنوں میں حکومت کہلا سکتی ہے جو ہر ایک کے لئے روٹی مہیا کرے، ہر ایک کے لئے کپڑا مہیا کرے، ہر ایک کے لئے مکان مہیا کرے، ہر ایک کی تعلیم کا انتظام کرے اور ہر ایک کے علاج کا انتظام کرے۔ پس اس حد تک اسلام کمیونزم کے نظریہ سے بالکل متفق ہے۔ ‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 80)
لیکن حضورؓ فرماتے ہیں کہ اسلام اور کمیونزم میں یہ فرق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرنا چاہے تو کمیونزم کے ماتحت وہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس میں انفرادی جدوجہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا۔
اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود ؓسب سے اہم بات یہ فرماتے ہیں کہ اس میں مذہب اور انبیاء کی کوئی جگہ نہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’مَیں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر مَیں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ نہیں خدا کی قسم ! اُس میں میری بھی جگہ نہیں۔ہم اُسی ملک اور اُسی نظام کو اپنا نظام سمجھ سکتے ہیں جس میں ان لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے۔ وہ ملک اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بند ہے تو یقیناً ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بند ہے۔ ‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 94)
اس تحریر کا لفظ لفظ عشق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وقت جب کمیونزم کے طوفان کی تند و تیز ہوا دامان خیال یار چھوٹا جا رہا تھا اور لوگ اس طوفان کی ہولناکیوں سے سہمے جاتے تھے اُس وقت صرف ایک فرزند دلبند گرامی وفا کرتے ہوئے درِ مصطفیٰ ؐکو چھوڑ نے پر تیار نہیں تھا۔
موج خوں سر سے گزرہی کیوں نہ جائے
آستان یار سے اٹھ جائیں کیا
سچ کہا ہے کہ
یا صدق محمدؐ عربی ہے یا احمد ہندی کی ہے وفا
باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو
لیکن اس کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ اس نظام کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کی خامیوں کو واضح کرتے ہیں کہ اس نظام میں عائلی نظام کو تہ وبالا کر دیا گیا۔ زمینداروں سے زمین چھین کر انہیں محض مزدور بنا دیا گیا۔ فصل کو کاشت کرنے کے حوالے سے ان کے تجربہ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ دماغ ترقی کرتے ہیں جب مختلف ممالک کے لوگ کثرت سے باہم ملتے ہیں تبادلہ خیال کرتے ہیں اس نظام میں یہ راستہ مسدود کر دیا گیا۔ اس نظام کے ماتحت ڈکٹیٹر شپ قائم ہوجائے گی۔ جس کے نتائج خطرناک نکلیں گے۔ کمیونزم اقتصادیات میں جبر کو جائز سمجھتی ہے اور اس سے کام لیتی ہے۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:’’اس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے۔جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی، جب اس کے نقوش دُھندلے پڑگئے اگر اُس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تب ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ لیکن دنیا یاد رکھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جاسکتیں۔‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ115تا116)
حضورؓ یہ تقریر 1944ء میں ارشاد فرمارہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر حضورؓ کی پیش گوئی کے مطابق پچاس سال کے اندر ہی روس کے ہتھوڑے اور درانتی والا جھنڈا 25؍دسمبر 1991ء کوگرتا ہے اور اس کی جگہ روسی ترنگا لے لیتا ہے۔اس زمانے میں جب حضورؓ یہ تقریر فرمارہے تھے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
آپؓ نے ایک اور خرابی اس نظام کی واضح کی ہے کہ اس میں قابلیت کو مٹا کر دما غ کو ضائع کر دیا۔بیرونی ملکوں سے میل جول کے بند ہونے کی وجہ سے روسی دماغ میں کمزوری آنی شروع ہوجائے گی۔(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 117)
اس حقیقت کا اعتراف گوربا چوف کمیونزم کے زوال کے وقت اپنی کتاب Perestroika میں کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
A Slowing economic growth in the last fifteen years national income growth rates had declined by more than a half and by the beginning of the eighties had fallen to level close to economic stagnation.(Mikhail Gorbachev, Perestroika, New York p.19)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ گہرائی میں جا کر اس نظام کا تجزیہ فرماتے ہیں کہ اس نظام میں روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کے لیے کوئی سنجیدہ طریقہ کار نہیں ہے۔ فرمایا:’’تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کر کے سینما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام قرار دیتا ہے،وہ فوٹوگرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا۔‘‘(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 93)
جس خامی کی طرف حضورؓاشارہ فرماتے ہیں اس کے روسی معاشرہ کے اخلاق پر پچاس سال کے اندر جو اثرات پڑے اس کے بارے میں گوربا چوف لکھتا ہے۔
Decay began in public morals: the great feeling of solidarity with each other that was forged during the heroic time of the Revolution, the first five years plan, …Was weakening; alcoholism, drug addiction and crime was growing.(Mikhail Gorbachev: Perestroika)
گویا گوربا چوف جس کے دَور میں روس میںکمیونزم کا زوال ہوا وہ اعتراف کررہا ہے کہ اخلاقی سطح میں تنزل آیا ہے۔ شراب نوشی اور نشہ اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ تھی جس کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓنے نشاندہی فرمائی تھی کہ اس نظام میں روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیا گیا۔ چنانچہ کمیونزم کے نظام میں پائی جانے والی جن خامیوں کی طرف حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے نشاندہی کی اس کی تائید مشہور مؤرخ ٹائن بی بھی کرتا ہے:’’جب کبھی بھی لوگوں نے اپنے مذہب پر اعتقاد کھو دیا تو ان کی تہذیب سماجی تشت و افتراق کاشکار ہوگئی۔‘‘
(Toynber Choose life p.288)
اس تناظرمیں جب کمیونزم کی ہیبت سےکیامذہبی اشرافیہ اورکیادنیاوی ارباب بست وکشادلرزہ براندام تھے۔ایک وجودجس کےحصہ میں امام زمانہ کےفیض سےقرآنی علوم ومعارف آئےتھےاعلان کرتاہےکہ یہ نظام پچاس سال کےاندرنقش برآب ہوجائےگااوراس کےسنبھالنےوالےبھی نہ رہیں گے۔اس زمانےمیں کوئی اس کاتصوربھی نہیں کرسکتاتھا۔یہ الفاظ حرف بہ حرف پورےہوئےاور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خیال کی تائید نہ صرف عالمی مؤرخ بلکہ واقعاتی شہادتیں بھی کر رہی ہیں۔ گویا وہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا…اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘(اشتہار 20؍فروری1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ101مطبوعہ لندن)
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دِل میں ہے خوفِ کردگار
٭…٭…٭