سُچی بوٹی
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘اس زمانے میں ایسے معجزات ہم نے دیکھے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے کہ چیز۔ بولتی دکھائی دی اور اس کی بات سچی نکلی۔ ہمارے بشارت بشیر صاحب سندھی مرحوم ، ان کے والد مغل نام تھا ان کا ، بہرحال ان کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرایمان لے کے آئے اور بہت مخلص اورفدائی انسان، بہت دعا گو اور سچے رؤیا اور کشوف دیکھنے والے۔ ان کی بیوی کو رحم کا کینسر ہوا۔اس زمانے میں جلدی چونکہ پتا نہیں لگا کرتا تھا آخرپر ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا اور کہا ایک ہفتے سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔کیونکہ یہ کینسر پھیل گیا ہے۔ اس وقت انہوں نے دعا کی رات کو تہجد کے وقت اور گریہ و زاری سے کی کہ ڈاکٹروں کا کہناکیا ہے۔میں تو صرف تجھ پر ایمان لاتا ہوں ۔ ‘تو چاہے تو اچھا کرسکتا ہے ’مجھے یقین ہے اور اسی حالت نماز میں کشفاً وہ بوٹی جو اس علاقے میں عام پائی جاتی تھی جسے ہم سُچی بوٹی کہتے ہیں وہ بوٹی سا منے آکر رقص کرنے لگی اور کہہ رہی تھی مجھے ہی استعمال کروشفا ہوجائے گی۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے یہ فرضی بات ہے، نفسیاتی تجربہ ہے۔ لیکن شفا ہوکیسے گئی پھر؟ وہی بوٹی انہوں نے لی۔ایک ہفتے کے اندر بجائے اس کے کہ وہ مرتیں وہ زندہ ہوگئیں، تمام زندگی کے آثار واپس لوٹ آئے اور پھر لمبا عرصہ تک نہ صرف خود زندہ رہیں بلکہ ان کا یہ جو اعجاز تھا دعا کا وہ کثرت سے لوگوں کی زندگی کا موجب بنا۔ اور United Nations میں جوریسرچ ہورہی تھی اس زمانے میں کینسر میں اس کو اس ریسرچ سیل کے سامنے میرے بڑے بھائی مرحو م حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے ہسپتال کے اپنے تجربے کی گواہی لکھ کر اس کے نمونے بھیجے اور کہا کہ میں بطور ڈاکٹر اس بات کا گواہ ہوں کہ بہت سے ایسے کیسز میں جہاں طبی نقطہ نگاہ سے مریض کے بچنے کا کوئی سوال نہیں وہاں یہی بوٹی ہر دفعہ ایسے مریضوں کو بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تو آپ بھی تجربہ کریں۔چنانچہ اس کے اوپر پھر lifeمیں بڑا زبردست article چھپا اور انہوں نے تسلیم کیا کہ اس میں کوئی بات ہے ضرور۔اب یہ کشف تھا۔ ایک بوٹی کھڑی ہوکرسامنے بول رہی تھی اور یہ رسول کریم ﷺ کے غلاموں کے غلام کا ایک قصہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب غلاموں میں سب سے آگے بڑھ گئے ان کے ایک ادنیٰ غلام کا قصہ ہے۔’’
(درس القرآن ماہ رمضان مؤرخہ10 رمضان بمطابق11 فروری 1995ء سورۃ آل عمران)
٭…٭…٭