جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے (تیسرے دن صبح) چوتھے اجلاس کی مفصل رپورٹ
جلسہ سالانہ کے تیسرے اور آخری روز کا پہلا اور جلسہ سالانہ کا چوتھا اجلاس 8؍ اگست کو ٹھیک صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزرصاحب امیر جماعت جرمنی نے کی۔ تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ مکرم حافظ فضل ربی صاحب نے سورۃالروم آیات21تا24سے کی۔بعد ازاں مکرم حفیظ احمد صاحب مربی سلسلہ نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے درج ذیل اشعار پیش کیے:
ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے
کرو کوشش اگر صدق وصفا ہے
کہ یہ حاصل ہو جو شرطِ لقا ہے
ہر اک نیکی کی جڑھ یہ اتّقا ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو! ہے حاصل اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم فضل الرحمان ناصر صاحب مربی سلسلہ و استاذ جامعہ احمدیہ یوکے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’عائلی زندگی میں میاں بیوی کو صبر اور برداشت کی عادت ڈالنے کی ضرورت‘‘۔
مقرر نے سورۃ الروم کی آیت 22کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ پیش کیا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نشانات میں سے(یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لیے جاؤ اوراس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔
اس آیت میں میاں بیوی میں محبت و پیار اور وفاداری کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم الشان نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا ہے۔ اگر میاں بیوی کے تعلقات میں نیک نیتی اور اخلاص پایا جائے تو وہ ایک دوسرے کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ الحمدللہ ہماری جماعت میں ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں جہاں ماں باپ دونوں نے صبر و تحمل کے ساتھ قربانیاں دیں اور پھر اولاد نے بھی ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سےبچاؤ۔(التحریم :7) پس میاں بیوی دونوں کا فرض ہے کے ایک دوسرے کی چھوٹی موٹی لغزشوں پر بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گھر کو جہنم نہ بنائیں۔
حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس موقع پر ارشادات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضورفرماتے ہیں کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے ان کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں۔اس لیے مَیں ماں باپ سے بھی کہوں گا کہ اپنی ذاتی اناؤں اور ادنیٰ خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کرکے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں۔
پھر فرمایا: بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتدا میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔ چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے۔ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھ سکتے تو گھر کی باتیں باہر نکلتی ہیں اور لوگ مزے لینےکےلیے یاعادتاً غلط مشورے دیتے ہیں۔ ایک احمدی کا فرض ہے کہ ایسے مشورے دیں جن سے گھر جڑیں نہ کہ ٹوٹیں۔
ایک دفعہ حضرت عائشہؓ رسول اللہﷺ کے گھر میں کچھ تیز بول رہی تھیں کہ ان کے والد حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے۔ آپؐ یہ دیکھتے ہی باپ بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت عائشہؓ کو سزا سے بچالیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تو حضورﷺ نے ازراہِ تفنن فرمایا دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابّا سے کیسے بچایا۔
قرآن کریم کی ابتدا میں ہی آدم اور اس کی بیوی کو جہاں جنت کے باغوں سے لطف اٹھانے کی ترغیب دی گئی ہے وہیں شیطان کے حملوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین بھی فرمائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے بہت دفعہ حسنِ معاشرت پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، ایک موقعے پر فرمایا میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور کچھ صدقہ بھی دیا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے گھروں کو جنت بنانے کی راہیں بتلائی ہیں، فرمایا اللہ کا نُور ایسے گھروں میں اترتا ہے جہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے ایسے میاں بیوی کےلیےرحم کی دعا کی ہے جو رات کو نماز کے لیے بیدار ہو اور اپنے خاوند یا بیوی کو جگائے اور اگر وہ نہ جاگے تو اس کے چہرے پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے۔اسی طرح حضورﷺ نے عورت سے نکاح کے وقت دین داری کے پہلو کو ترجیح دینے کا حکم دیا۔ فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تیرا گھر تیرے لیے کافی ہو، اپنی خواہشات کو محدود رکھو اور چادر سے زائد پاؤں پھیلانے کی کوشش نہ کرو اوراپنی خطاؤں پر روتے رہو۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکر کرتا ہےجو اہل و عیال سمیت جنت میں داخل کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یقیناً ہم تو اس سے پہلے اپنے اہل و عیال میں بہت ڈرے ڈرے رہتے تھے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہیے۔ اگر اس کی ایک بات اسے ناپسندہےتو دوسری بات پسندیدہ ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں لباس زینت اور خوب صورتی کا باعث بنتا ہے اور سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے۔ پس مرد اور عورت کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں اور عیب چھپائیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی ہمیں یہی تلقین فرمائی ہے،آپؑ اور حضرت اماں جانؓ نے بائیس تئیس سال کی رفاقت میں ہمیں یہی سبق دیا ہے۔ اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :اس الہام میں تمام جماعت کےلیے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سےر فق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔
حضرت مسیح موعودؑ ہرروز جو دعائیں التزاماً مانگا کرتے اس میں اپنےنفس کے بعد دوسرے نمبر پر اپنے گھر کے لوگوں کے لیے دعا کرتے کہ ان سے قرة العین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم ایاز محمود خان صاحب مربی سلسلہ ایڈیشنل وکالتِ تصنیف یوکےکی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان’’اطاعت خلافت کے حقیقی معانی اوراس کی برکات‘‘تھا۔
آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ محبت کیا ہے؟ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ہمیں انسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ہر بات کو اہمیت دیتا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد اپنے محبوب کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی نہیں بنتا۔ اسی طرح، محبت اور اطاعت کے درمیان خاص طور پر خدا اور اس کے چنے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلق میں گہرا رشتہ ہے۔
آج اس بابرکت محفل میں مجھے ایک ایسے موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا ہے جو شاید بار بار دہرایا جا سکتا ہے لیکن وہ ایسا ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بحیثیت مسلمان ہماری زندگی کا مرکز ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہماری تمام روحانی اور دنیاوی ترقی کی بنیاد رکھتا ہے۔ میری آج کی تقریر کا موضوع ہے۔’’خلافت کی اطاعت کا حقیقی مفہوم اور اس کی برکات۔‘‘
قرآن پاک کا وہ حصہ جو میں نے ابھی پڑھا ہے وہ سورہ آل عمران آیات 32-33کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف کر دے گا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
پھر اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرماتا ہے کہو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کافروںکو پسند نہیں کرتا۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک ہم رسول کی اطاعت نہیں کریں گے، ہم نہ تو اپنے اس دعوے میں سچے ہو سکتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی ہم خدا کی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری زندگی کا آخری مقصد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کو جاری رکھنے کے لیے خلافت قائم کی۔ قرآن پاک فرماتا ہے:
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا۔
لہٰذا جب خلیفہ مقرر کرنے والا خود اللہ ہے تو اس کے برگزیدہ کی مکمل اطاعت کے بغیر اللہ کی خوشنودی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ خلافت کے بارے میں اس آیت سے پہلے آنے والی چار آیات میں اللہ تعالیٰ چار مرتبہ رسول کی اطاعت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اور ایسا کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خلافت کی اطاعت درحقیقت اطاعت ہے اللہ کے رسول کی طرف۔ جو اصل میں خود اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں کو اللہ اور اس کا رسول پکارتے ہیں تووہ کہتے ہیں: سمعنا و اطعنا ہم سنتے ہیں اور اطاعت کرتےہیں۔ واولئک ھم المفلحون اور وہی فلاح پائیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے: و ان تطیعوا تھتدوا۔اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو تم ہدایت پا جاؤ گے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ اطاعت ہماری خاطر ہے، تاکہ ہم راہ راست پر رہیں، تاکہ ہم فلاح پائیں۔
حدیث میں بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشینوں کی اطاعت کی تاکید فرمائی ہے: فرماتے ہیں: علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین یعنی تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم میری سنت کی پیروی کرو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے عمل کی۔
ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
تلزم جماعة المسلمین و امامھمکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی جماعت یا جماعت اور ان کے امام سے جوڑےرکھو۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام زمانہ علیہ السلام سے بیعت کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: فاذا رأیتموہ فبایعوہ ولو حبوا علی الثلج، فانہ خلیفة اللہ المھدی۔ یعنی جب تم اسے دیکھو تو اس کی بیعت کرو، چاہے آپ کو اپنے گھٹنوں کے بل برف کے گلیشیئرز کو بھی عبور کرنا پڑے۔ کیونکہ وہ اللہ کے خلیفہ مہدیہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنی امت کے اندر امام زمانہ کی اطاعت اور خلافت کے خدائی نظام کی اہمیت کا گہرا احساس پیدا کرنے پر زور دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔‘‘
(ماخوذاز تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 246 تا 247 زیر آیت سورۃ النساء :60)
آج واحد جماعت جسے خلافت کی صورت میں قیادت کا خدائی نظام نصیب ہوا ہے، وہ احمدیہ مسلم جماعت ہے۔ اور اگرچہ خلافت کا حقیقی محافظ اللہ تعالیٰ خود ہے لیکن جس طریقے سے ہم اللہ کی اس نعمت کو اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھ سکتے ہیں وہ ہے غیر متزلزل عزم کے ساتھ خلیفہ وقت کی مکمل اطاعت۔ یہی ہماری دنیاوی اور روحانی کامیابی کا راز ہے۔ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے عالمی عدالت انصاف کے صدر اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور مخلص احمدی تھے۔ جب ان سے زندگی میں کامیابی کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے فوراً جواب دیا: ’’کیونکہ میں ساری زندگی خلافت کا اطاعت گزار رہا۔‘‘
بحیثیت احمدی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرتے ہیں۔ اپنے حلف کی دسویں شرط میں ہم اقرار کرتے ہیں:
یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیردنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو، وہی عقیدت جس کا عہد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کرتے ہیں، خلافت کے ساتھ تعلق میں ہمارا امتیازی معیار ہونا چاہیے، ورنہ ہم مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں مخلص نہیں ہو سکتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
… خلافت کے تو معنی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کو ئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔ (ماخوذاز خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جنوی 1936ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 17صفحہ71تا72)
مقرر موصوف نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مختلف خطرات اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی اطاعت رسول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر دشمن مدینہ منورہ پر جمع ہو جائے اور ہمارا گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا۔
تمام صحابہؓ نے دل و جان سے اس کی اطاعت کی جو کسی دنیا دار کے نزدیک ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے نے اسلام کی کشتی کو ان کی بے پناہ محبت اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت بغاوت کے طوفانوں سے بچایا وہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے پناہ محبت کی وجہ سے اسلام کی کشتی کو بغاوت کے طوفانوں سے بچا لیا۔ نے بھی خلیفہ اول کی اطاعت کے اعلیٰ معیار کا مظاہرہ کیا۔ اور ایسا کرتے ہوئے، صحابہ کرام نے آنے والی تمام نسلوں کو جو پہلا سبق دیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ قوت اتحاد، اور اتحاد خلافت کی اطاعت کے چشمے سے پھوٹتا ہے۔ درحقیقت خلافت ایک ڈھال ہے جو ہمیں ان تمام خطرات سے بچاتی ہے جو ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ کتنی سچی بات ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الامام جُنَّة: کہ امام ایک ڈھال ہے۔
اس سے ان لوگوں کی سنگین غلط فہمی بھی دور ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ان پر صرف خلیفہ کے منتخب فیصلوں کی تعمیل ضروری ہے۔ گویا انہیں یہ اختیار ہے کہ وہ چننے اور چننے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ کون سی ہدایات پر عمل کریں گے اور کون سی ہدایات پر عمل نہیں کریں گے۔ جو مثال میں نے ابھی پیش کی ہے، اگرچہ شروع میں صحابہ کرام نے ان کے خیال کو سختی سے محسوس کیا، لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واضح کر دیا، تو تمام صحابہ نے اپنے اپنے تحفظات کو ترک کر دیا اور خلیفہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ سچی اطاعت ہے۔
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت سے نوازا ہے جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے سے معمور ہے۔ حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب رحمہاللہ علیہ کی مثال ہی الگ ہے۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ہرایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولانا نور الدین صاحب سے قادیان ہجرت کر نے اور بھیرہ کو بھول جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں: اس دن کے بعد سے میرے ذہن میں کبھی بھیرہ کا خیال نہیں آیا۔
تو اطاعت، صرف ہمارے اعمال تک محدود نہیں ہے۔ اطاعت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خیالات کو بھی ڈھالیں اور تبدیل کریں، اور اپنی خواہشات کو خلیفہ کے مطابق بنائیں اور جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے، ہم خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔
مقرر موصوف نے حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ کے اطاعت خلافت کے واقعات بیان کر کے کہا کہ
حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں سے ہی ہم اپنے روحانی اور دنیاوی دونوں کاموں میں فلاح پا سکتے ہیں۔ اور یہ احساس کہ ہمیں اپنی تمام توانائیاں خلافت کے ذریعے خرچ کرنی ہیں، یہ بھی اطاعت کے درخت کی ایک شاخ ہے جو اللہ کی رضا اور فضل کی صورت میں میٹھا پھل دیتا ہے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ سپہ سالار مقرر کرنے پر حضرت خالد بن ولید کا فقید المثال نمونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ
یہ اطاعت کا اعلیٰ معیار تھا جس کا مظاہرہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس وقت کے خلیفہ کے لیے کیا تھا اور وہ بھی ایک جاری فوجی مہم کے دوران۔ اللہ کی یہ تلوار جس کا نام پیغمبر اسلام ؐنے رکھا تھا وہ جانتے تھی کہ ان کی تمام طاقت اور عظمت اپنے آپ کو خلیفہ کے سپرد کرنے میں ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس مہم کے دوران ایسے مواقع بھی آئے جب ایک مسلمان 100 کے تناسب سے مخالفین کے خلاف کھڑا ہوا لیکن مسلمانوں کی فوج ان کفار کے مقابلے میں فتح یاب ہوئی جنہوں نے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ خلافت کی اطاعت کی برکات ہیں۔
خلیفہ وقت کی اطاعت کی یہ مثالیں ہماری تاریخ میں بکھرے ہوئے جواہرات کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ مقرر موصوف نے حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب مبلغ احمدیت کے سیرا لیون کے سفر کا واقعہ بتایا۔جبکہ آپ کے بیٹے بیمار اور ناقابلِ سفر حالت میں تھے۔ لیکن خلیفة المسیح کے ارشاد کے مطابق سفر کیا اور ڈاکٹر نے باقاعدہ دستخط لیے کہ اگر بچہ فوت ہو جائے تو جہاز میں سرد خانہ نہ ہونے کے سبب سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔ لیکن آپ کو کامل یقین تھا کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ وہ 11 سالہ بچہ مولانا مبارک احمد نذیر تھا، جو 87 سال کی عمر تک زندہ رہے اور اپنی طویل اور مثالی خدمت کے دوران مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کرتے رہے۔
ہمیں ان لوگوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ کیونکہ آج ہم جس چیز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ ان کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ خلافت کی مکمل اطاعت نے نہ صرف انہیں ان کی تمام کوششوں میں کامیابی عطا کی بلکہ خاندان اور عزیزوں کی بھی حفاظت کی۔ اب ہمارا وقت ہے۔ اگر ہم ان معیارwN سے پیچھے رہ گئے تو ہم نہ صرف اللہ کی محبت اور خوشنودی سے محروم ہو جائیں گے بلکہ ہم اپنے بزرگوں اور ان کی قربانیوں کی توہین کر رہے ہوں گے۔
میاں بیوی کے درمیان جو تعلق ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ جب دو روحیں اپنی باقی زندگی ایک ساتھ گزارنے کے لیے اکٹھی ہو جاتی ہیں، جہاں محبت، پیار اور صداقت ہوتی ہے، دونوں گویا یک قالب اور دو وجود ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی ایک اس دنیا سے چلا جاتا ہے، تو دوسرا اس سے جاملنے کی خواہش میں زندگی بسر کردیتا ہے۔
اس کے بعد مقرر موصوف نے حضرت عمر ؓ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں تدفین کی اجازت طلب کرنے اور حضرت عائشہؓ نے جو جگہ اپنے لیے مخصوص کی ہوئی تھی خلیفة الرسول کی خواہش کے احترام میں فوراً فرمایا کہ میں حضرت عمرؓ کو اپنے اوپر فوقیت دیتی ہوں۔
جس طرح خلافت سے محبت، اطاعت اور عقیدت کی یہ مثالیں اسلام کی ابتدائی تاریخ کو رات کے آسمان کے ستاروں کی طرح مزین کرتی ہیں، اسی طرح اس دور میں بھی مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ خدائی جماعت کے ذریعے وہی تاریخ جاری ہے۔
ہر دور خلافت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت مرد، عورتیں اور بچے ہمیشہ خلیفہ کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے آگے بڑھے ہیں، خواہ وہ اسلام کی خدمت ہو، انسانیت کی خدمت ہو، مالی قربانیاں ہوں، یا کچھ اور۔ اور اب بھی، کچھ نہیں بدلا ہے۔ اس وقت ہم پانچویں خلافت کے دور میں بس رہے ہیں۔ آج جو شخص ہمارا دل و جان ہے یعنی ہمارا خلیفہ ہے وہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت کہ وہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ ہیں، خود اللہ تعالیٰ کی ناقابل تردید، عملی گواہی ہے، جو ہمارے خلیفہ کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے تمام مقاصد میں اس کی حمایت کرتا ہے۔ وہ خدا کے وعدے کا مصداق ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وحی کے ذریعے نازل ہوا کہ انی معک یا مسرور
آج ان کی الٰہی قیادت میں حقیقی اسلام کی تبلیغ پوری دنیا میں ہو رہی ہے ۔ دور دراز علاقوں میں چھپے ہوئے دیہاتوں سے لے کر دنیا کی مشہور ترین قوموں کی پارلیمنٹ تک ۔ اور یہ جماعت سختی، مخالفت اور وحشیانہ ظلم و ستم کے باوجود چھلانگیں لگا کر آگے بڑھ رہی ہے۔
ان کی دعاؤں کے معجزات پوری دنیا میں لاکھوں احمدی اپنی ذاتی زندگی میں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ مثالیں لامتناہی ہیں۔ بعض اوقات ڈاکٹر کسی بچے کو جان لیوا حالات کے ساتھ تشخیص کرتے ہیں، لیکن خدا کا یہ بندہ پریشان حال والدین کے دل کو سکون بخشتا ہے ۔ پرسکون اور نرم لہجے کے ساتھ جو کہ اس کا امتیاز ہے ۔ یہ کہہ کر: فکر نہ کریں، آپ کے بچے کو کچھ نہیں ہوگا۔ اور اس کی دعاؤں سے بیمار معجزانہ طور پر شفا پاتے ہیں، مالی مشکلات میں مبتلا افراد کو خوشحالی عطا کی جاتی ہے، بعض تمام مشکلات کے باوجود اپنے تعلیمی میدان میں نمایاں امتیازات حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مختلف قوموں اور ثقافتوں کے لوگ، زمین کے کونے کونے میں مختلف رنگوں اور زبانوں کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو رہے ہیں اور اسلام کے بارے میں گہرا فہم پیدا کر رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ سے گہری محبتحاصل کر رہے ہیں۔ شدید مخالفت اور ظلم و ستم کے باوجود یہ تمام لوگ خلیفہ کے ہاتھ میں ایک ہو کر متحد ہیں ۔ یہ ہماری طاقت ہے۔ اور جب تک ہم خلافت کی چادر کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ کریں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں توڑ نہیں سکے گی۔ اگرچہ ہم ایک چھوٹی سی برادری ہیں، لیکن ہمارے مخالفین یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ہم ایسے شاندار کارنامے کس طرح حاصل کر سکتے ہیں جن کا دوسرے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ تو آج میرے پیارے بھائیو اور بہنو، آئیے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں خلافت کی صورت میں جو عظیم نعمت عطا کی ہے۔ خدا کے اس فضل کو کبھی معمولی نہ سمجھیں۔ ہم دنیا کی واحد جماعت ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ہے۔ ہمیں اپنی جانوں کے ساتھ اس نعمت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ آج جب ہم عنقریب منعقد ہونے والی بین الاقوامی بیعت کی تقریب میں اپنے عہد کی تجدید کریںگے، تو آئیے پورے دل و جان سے اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے خلیفہ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے اور ان کے ساتھ اپنی بے لوث عقیدت آخری سانس تک پیش کریں گے۔ تاکہ ہمارے اعمال صالحہ اور اطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے اس انعام کا مستحق سمجھتا رہے۔ کبھی یہ نہ سمجھو کہ ہماری اطاعت خلافت پر احسان ہے۔ خلیفہ کی ہدایات پر عمل کرنا ہمیں ان پھندوں سے بچاتا ہے جو ہمیں پھنسانا چاہتے ہیں۔ خلیفہ اللہ کےنور سے دیکھتا ہے۔اور اس کے ہاتھ میں چراغ ہے۔ اگر ہم اس کے پیچھے چلیں گے تو ہم ان درندوں سے محفوظ رہیں گے جو اندھیرے میں ہمارے ارد گرد چھپے رہتے ہیں۔ ہم محفوظ طریقے سے اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے؛ لیکن اگر ہم اس راستے سے ہٹ جائیں گے جس پر وہ ہماری راہنمائی کرنا چاہتا ہے تو ہم کھو جائیں گے۔
ہمیں اپنے بچوں کو اپنے نمونے کے ذریعے یہ دکھانا چاہیے کہ آج احمدی کی حیثیت سے ہماری زندگی میں جو واحد سب سے قیمتی خزانہ ہے وہ خلافت کا بابرکت ادارہ ہے۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو یقین کر سکتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد ہمارے بچے، ان کے بچے اور ان کے بعد ان کے بچے ایک ایسے راہنما کے ہاتھ پر محفوظ ہوں گے جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو۔ اور جب ہم انہیں الوداع کہیں گے تو ہم دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری کے ساتھ ان سے کہنے والے ہوں گے کہ ہم نے خلافت کے ادارے کی حفاظت اور دفاع کے لیے اپنا ہر ایک ذرہ وقف کر دیا۔ ہمارے پیارے بچو، یاد رکھیں کہ جس خاک میں ہم پڑے ہیں وہ آپ کو پکارے گی اور پوچھے گی کہ کیا آپ نے اس خزانے کی حفاظت کی؟ وہ خزانہ جس کا نام ہےخلافت ۔
اس تقریر کے بعد مکرم …صاحب نے حسب ذیل نظم خوش الحانی سے پیش کی
ضرور مہدیٔ دوراں کا ہو چکا ہے ظہور
ذرا سا نُورِ فراست نکھار کر دیکھو
خزانے تم پہ لُٹائے گا لاجرم لیکن
بس ایک نذرِ عقیدت گزار کر دیکھو
ہیں آسمان کے تارے گواہ، سورج چاند
پڑے ہیں ماند، ذرا کچھ بِچار کر دیکھو
بدل سکو تو بدل دو نظامِ شمس و قمر
خلافِ گردشِ لیل و نہار کر دیکھو
خدا کی بات ٹلے گی نہیں، تم ہو کیا چیز
اَٹل چٹان ہے، سَر مار مار کر دیکھو
اس نظم کے بعد مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب مبلغ انچارج و نائب امیرجماعت یوکے نے ’’مسیح و مہدی علیہ السلام کی بعثت کی غرض احیائے دین اور قیام توحید‘‘کے موضوع پر ایک نہایت ایمان افروز تقریر کی۔
اس موضوع کی اہمیت اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضورؑ کو یحی الدینَ و یقیم الشریعة کے الفاظ تین بار الہام ہوئے۔ حضورؑ نے ایک جگہ اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے ’’زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو۔‘‘حضورِا کرمﷺ نے ایک موقعے پر آنے والے مسیح و مہدی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’وہ لوگوں کو میرے دین اور میری شریعت پر قائم کرے گا۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے مختلف مواقع پر فرماتے ہیں کہ ’’مَیں اس لیے بھیجا گیا ہوں تاکہ ایمانوں کو قوی کروں۔‘‘
وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اوراس کی مخلوق کے رشتے میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔
’’مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاحِ خلق کے لیے بھیجا گیا۔‘‘ مَیں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کےلیے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘
انیسویں صدی کے آخر میں عیسائیت ساری دنیا پر چھائی ہوئی تھی، ایسے میں خدا کی تقدیر جوش میں آئی اور قادیان کی بستی سے ایک نفسِ پاک کا انتخاب ہوا،جسے دیکھ کر فرشتوں نے بھی کہا کہ ھذا رجلٌ یحب رسول اللّٰہ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا یہ محافظ اللہ تعالیٰ کی غالب نصرت کی برکت سے مذہبی دنیا پر چھا گیا۔ آپؑ نے عیسائیت کے بنیادی عقائد کی ایسے زوردار براہین سے تردید فرمائی کہ جس کا اعتراف مخالف مسلمانوں نے بھی کیا۔
آپؑ کی دلی تمنا تھی کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اوریہی سوچ اور فکر آپؑ کو ہمیشہ دامن گیر رہتی تھی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؑ ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے کہ دروازے پر خوب زوردار دستک ہوئی۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے دروازہ کھولا اور آنے والے کا مدعاحضورؑ کو بتایا کہ مولوی سید محمد احسن امروہی صاحب نے ایک غیر احمدی مولوی کو مناظرے میں شکست دےدی ہے تو آپؑ مسکرائے اور فرمایا کہ اس طرح زوردار دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے مَیں یہ سمجھا تھا کہ شاید وہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے۔
حضورؑ نے مسلمانوں میں مروجہ غلط عقائد کی اصلاح کرکے اسلام کو نئی زندگی عطا فرمائی۔ تیس قرآنی آیات سے وفاتِ مسیح کا مضمون واضح فرمایا۔اسلام کی تائید میں نوّے کے قریب کتابیں تحریر فرمائیں، آپؑ کے پُرحکمت کلمات ملفوظات کی دس جلدوں میں شائع شدہ ہیں۔
قیامِ شریعت کے حوالے سے آپؑ کی زندگی میں بےشمار مثالیں نظر آتی ہیں سیالکوٹ کے قیام کے دوران جب گھر میں داخل ہوتے تو پیچھے ہاتھ کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے کہ کہیں اچانک گلی میں کسی نامحرم پر نظر نہ پڑجائے۔ ایک دفعہ گورداسپور میں شدید گرمی کے موسم میں بغیر منڈیر کی چھت پر سونے سے اس لیے انکار فرمادیا کہ رسول اللہﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔ نماز کی بروقت ادائیگی کا اتنا خیال تھا کہ مقدمات کی کارروائی کے دوران کچہری ہو یا دورانِ سیر کوئی راستہ آپؑ پوری محویت سے نماز ادا فرماتے۔ سوئے ہوئے شخص کو نماز کے لیے پانی کے چھینٹوں سے اس لیے جگاتے کہ یہ حضوراکرمﷺ کا ارشاد ہے۔
حضورؑ کے اس پاک نمونے پرآپؑ کے متبعین نے بھی پوری وفاداری سے عمل کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ مسیح زماں کے سچے مطیع اور جاں نثار ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔’’فرمایا ’’میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادات پر عمل کرنےکی توفیق اور سعادت عطا فرمائے۔ آمین
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب، امیر جماعت یوکے نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’اسلامی حکومت کے سلسلہ میں حکمرانوں کےلئے حضورﷺ کی نصائح‘‘تھا۔
محترم امیر صاحب یوکے نے تشہد کے بعد کہا کہ آج مجھے اس بات پر بات کرنے کا موقع دیا گیا ہے کہ اسلامی طرز حکمرانی کس طرح ایک پرامن اور فروغ پذیر معاشرے کے قیام کے لیے روشن مینار ٹھہر سکتی ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر اسلامی فقہ کے اندر جمہوریت کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر غور کرنے والا ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب دنیا شریعت یا اسلامی طرزِ حکمرانی کے بارے میں سوچتی ہے تو ان کے سامنے طالبان یا داعش کی تصاویر پیش کی جاتی ہیں۔ تاہم، امن اور حقیقی حکمرانی کا مجسم رنگ بادشاہوں کے بادشاہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے۔
ایک سکاٹش مستشرق سر ولیم میور نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تفصیلی مطالعہ کر کے کتاب دی لائف آف محمد لکھی۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا:
’’مسلمانوں کے پیغمبر محمد(ﷺ) کو ابتدائی زندگی سے ہی امانت دار کہا جاتا تھا۔ یہ اس کے شہر کے تمام معزز لوگوں کی طرف سے تھا، اور یہ اس کے حسن سلوک اور اخلاق کی وجہ سے تھا۔جو بھی ہو، محمد (ﷺ) اس سے بلند ہے جو کوئی بھی ان کے بارے میں بات کر سکتا ہے۔ اگر آپ اسے نہیں جانتے اور اس کی تاریخ کے بارے میں نہیں پڑھتے تو آپ اسے نہیں جان سکتے۔ اس تاریخ نے محمد (ﷺ) کو دنیا کے انبیاء اور مفکرین کی صف اول میں کھڑا کر دیا۔ اس کی کچھ خوبیاں جن پر روشنی ڈالی جانی چاہیے وہ ہیں احترام اور نرمی جس کے ذریعہ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ سلوک کرتا تھا، یہاں تک کہ ان میں سے معمولی لوگوںسے بھی۔ اس کی روح میں شائستگی، انسانیت، رحم، خود داری اور رواداری کو ہی دیکھا جاتا ہے تاکہ اس کے ارد گرد موجود ہر شخص کی محبت حاصل کی جا سکے۔
وہ ایک مخلص اور سچے انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ تاہم جب اس نے نبوت کے دعوے کا اعلان کیا تو اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیرہ سال تک اپنے ساتھی مکہ والوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کو برداشت کیا، جس میں وہ وقت بھی شامل ہے جب آپ کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعض صورتوں میں شہید کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں بخشا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے تو ان پر جانوروں کی انتڑیاں پھینکی گئیں۔ ان کا سب سے خطرناک لمحہ طائف میں تھا جب لوگوں اور ان کے بچوں نے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارےیہاں تک کہ آپ کا خون بہت زیادہ بہنے لگا۔
تاان سب حالات کے باوجود، وہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ انصاف پسند اور مہربان راہنما کے طور پر تاریخ میں جانے گئے۔ جب انہیں طاقت اور اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے انصاف اور امن سے چلنے والا معاشرہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ سب کچھ مثالی حکومت کے تفصیلی اور منصفانہ قوانین بنا کر کیا گیا۔
روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی صاحب اختیار اپنے دروازے مومنوں، مظلوموں یا محتاجوں کے خلاف بند کر دے، تو وہ اللہ کی رحمت کے دروازے اس وقت بند پائے گا جب اسے اس سے بھی زیادہ ضرورت اور تکلیف ہو گی۔ لوگوں کا بوجھ ہلکا کرو اس میں اضافہ نہ کرو۔ انہیں ناامیدی کی بجائے امید دلاؤ۔ تفرقہ کے بجائے اتحاد کے لیے کام کرو۔
ایڈنبرا یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ کہتے ہیں کہ
آپ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عقائد کی خاطر ظلم و ستم جھیلنے کے لیے آمادگی، ان احباب کا اعلیٰ اخلاقی کردار جو آپ پر ایمان لاتے اورآپ کو ایک راہنما کے طور پر دیکھتے، اور آپ کی حتمی کامیابی کی عظمت ، یہ سب آپ کی بنیادی سالمیت کی دلیل ہیں۔ محمد کو ایک جعل ساز سمجھنا مسائل کو کم کرنے کے بجائے زیادہ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ تاریخ کی کسی بھی عظیم شخصیت کی مغرب میں اتنی تعریف نہیں کی گئی جتنی کہ محمد ﷺ کی۔
اگرتاریخ امن اور حقیقی حکمرانی کا مجسمہ اورعظیم ترین رہنما تلاش کیا جا ئے تو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ قرآن مجید، سنت، حدث ہیں۔ اگر ہم اسلامی فقہ اور نظم و نسق کے عناصر کو دیکھیں تو یہ بنیادی طور پر 3 زمروں میں آتا ہے: مشاورت، آئین اور رضامندی(Consultation, Constitution and Consent)۔ یہ بنیادی پتھر ہیں جسے بہت سے لوگ جدید دور کی جمہوری طرز حکمرانی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
ان تینوں کا خلاصہ مدینہ کے آئین کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ مدینہ کے آئین کا ایک اہم اصول یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) نے مدینہ کی شہری ریاست پر اس کے شہریوں کی رضامندی سے حکومت کی۔
622 عیسوی میں مکہ سے (یثرب) کی طرف ہجرت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہوا، اور اسی اثر سے آپ نے مدینہ کا آئین بنایا۔ یہ بنیادی طور پر مدینہ میں رہنے والے تمام لوگوں کو مذہبی آزادی دینے کے Blue printکے طور پر بنایا گیا تھا۔
57 آرٹیکلز پر سمجھوتہ کرتے ہوئے یہ چارٹر پنے شہریوں کے لیے ریاست کے حقوق، فرائض اور مراعات اور ایک دوسرے کے لیے حقوق اور ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، آرٹیکل 30 دستخط کنندگان کی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ (اور یقیناً بنو عوف کے یہودی مومنین (مسلمانوں) کے ساتھ ایک امت (امت) شمار ہوں گے۔)
عیسائی اور یہودی اقلیتی گروہوں کو عہدوں، دستاویزات اور باہمی معاہدوں کے ذریعے حقوق دیے گئے تاکہ اسلامی حکمرانی کے تحت رہنے والے تمام مختلف گروہوں کی روحانی اور مادی ترقی اور ترقی کے لیے ایک صحت مند ماحول پیدا کیا جا سکے۔
آئین کا’’ پہلا آرٹیکل ‘‘ایک قوم» کے تصور کو قائم کرتا ہے تمام مذاہب کے لوگ، مسلمان، عیسائی، یہودی سبھی مدینہ کے محفوظ شہری تھے باوجود ان کے عقائد، نسل یا تہذیب کے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد تھے۔ عرب قبائل کو ایک نظام حکومت کے تحت لاکر قبائلی جھگڑوں کا خاتمہ کیا گیا۔
یہ چارٹر سب کے لیے بنایا گیا تھا کیونکہ غیر مسلمانوں کے لیے منصفانہ سلوک اور مساوات کی ضرورت تھی۔ اس تاریخی چارٹر نے مذہبی اور سماجی عدم مساوات کو ختم کیا۔ یہ انسانی حقوق کا پہلا چارٹر تھا جو دستاویزی تاریخ میں پایا جاتا ہے اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد بناتا ہے جسے آج تمام ترقی یافتہ ممالک استعمال کرتے ہیں۔
ہجرت کا چھٹا سال عیسائیوں کے لیے آزادی کا سال سمجھا جاتا تھا کیونکہایک چارٹر کے ذریعہ عیسائیوں کو مراعات اور سہولیات فراہم کر کے فراہم کر کے انہیںمحفوظ رکھا۔
ایک راہنما کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے جزیرہ نما عرب کی ذمہ داری سنبھالی اور ایک قائم قوم کے طور پر ان کے مستقبل کی تشکیل کی۔ اس سے پہلے، عرب فطرت کے اعتبار سے قبائلی تھے جن کا کوئی مرکزی راہنما یا حکومتی ڈھانچہ نہیں تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف ایک ریاستی قیادت کے تحت قوم کی راہنمائی کی بلکہ ’اسپین سے وسطی ایشیا اور شمال مغربی ہندوستان تک تمام راستے پھیلانے کی سمت بھی طے کی۔‘
مدینہ کے آئین کا آرٹیکل 39 شوریٰ کا ادارہ قائم کرتا ہے تاکہ حکومت میں شرکت اور شمولیت حاصل ہو، ’انہیں (یعنی معاہدے کے فریقوں) کو باہمی مشاورت اور مشورہ لینا چاہیے۔‘ رضامندی کو باضابطہ طور پر بیعت یا معاہدوں کی شکل دی گئی۔ یہ ایک اہم ادارہ تھا جس نے حکومت کی رضامندی کو باقاعدہ بنانے کی کوشش کی۔ ان دنوں جب کوئی حکمران بیعت کے رسمی اور براہ راست عمل کے ذریعے برادری کی رضامندی حاصل کرنے میں ناکام رہتا تھا، حکمران کا اختیار مکمل طور پر جائز نہیں تھا۔
پھر چاروں خلفائے راشدین کا انتخاب مختلف طریقوں سے کیا گیا، بشمول مومنین کی جماعت کے ساتھ کھلی مشاورت کے ذریعے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی اسلامی سیاسی فکر بہت سے طریقوں کے لیے کھلی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کا vision معاہدہ حدیبیہ کے دوران ظاہر ہوا جب آپ نے مکہ والوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ پہلا بین الریاستی معاہدہ سمجھا جاتا ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیا تھا۔ مارچ 628 عیسوی کو منظور کیا گیا یہ معاہدہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک امن معاہدے کی علامت ہے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں نے کچھ عرصہ تک اس معاہدے سے مایوسی محسوس کی، لیکن آخرکار یہ مکہ اس معاہدے کی خوبیاں مکہ میں واضح ہوگئیں۔
یہ معاہدہ جدید بین الاقوامی معاہدوں کے لیے ایک روشنی کا کام کرتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اگرچہ 4 نکات پر مبنی یہ ایک بہت ہی مختصر معاہدہ تھا، لیکن یہ جلد ہی دور رس اثرات کے ساتھ ایک اہم معاہدہ بن گیا جس کی ساخت آج تک بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل اور ان پراثر انداز ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف معاہدوں اور دستوروں کے ذمہ دار تھے۔ آپ نے اس وقت عرب کے قبائل اور لوگوں کے درمیان پرامن ہم آہنگی قائم کی۔ اسلام نے غیر مسلم آبادیوں کو مکمل حقوق کی ضمانت دی ہے اور قرآن پاک کے مقدس صحیفے کے ذریعے مکمل شہری حقوق عطا کیے ہیں۔
سیاست دان کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے تین واقعات یہ ہیں: مکہ سے مدینہ ہجرت، بنو مصطلق پر حملہ اور مکہ کا سر تسلیم خم کرنا۔ ان میں سے دو واقعات بہت اہم ہیں ۔ مدینہ کی طرف ہجرت اور مکہ کی سرتسلیم خم کرنا۔
مدینہ کو اسلامی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اسلامی سرزمین کے مختلف حصوں کے لیے افسر مقرر کیے گئے۔ تقرری کا معیاری تقاضا یہ تھا کہ افسر کو کام کی نوعیت کا علم ہونا چاہیے۔ حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ نئے تعینات ہونے والے افسر کے نوٹس میں لائیں کہ کام کی نوعیت اور کسی بھی فیصلے سے متعلق ذمہ داری قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
سربراہ مملکت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسے افسروں کی تقرری کے وقت کبھی خون کے رشتوں یا سماجی اثرات کا خیال نہیں کیا۔ آپﷺ نے ایک معیاری مثال قائم کی کہ مستقبل میں اس کی پیروی کی جائے گی۔ دور حاضر کی قومی ریاستیں نظم و نسق کے اسی معیار پر عمل پیرا ہیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں عمل کیا ہے۔
ایسی تقرریوں کے لیے وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے تھے اور تقرری یا ذمہ داری کے اعلان سے پہلے افسر کے کردار کی تصدیق کرتے تھے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کو ہر قسم کی انتظامی غلطیوں یا بدعنوانی سے پاک کر دیا جو آج کی جدید ریاستوں میں عموماً دیکھی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے لوگوں کے دل و دماغ کو روحانی اور معاشرتی طور پر پاک کیا۔ اس طرح وہ اپنے ساتھیوں کی صحیح تربیت اور راہنمائی کر سکے۔ فطرت کے ان قابل عمل قوانین کے حقیقی انصاف کے ساتھ نفوذ اور حقیقی اعتدال پسندی نے حکومت کو باقی دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
ابوداؤد سے لی گئی ایک حدیث میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! جو شخص کسی معہد (مسلم حکومت میں رہائش پذیر غیر مسلم)پر ظلم کرے یا اس کا کوئی حق چھین لے یا اسے ایسی تکلیف پہنچائے جو وہ برداشت نہ کرسکے یا اس کی اجازت کے بغیر اس سے کوئی چیز لے تو میں قیامت کے دن ایسے (مسلمان) سے جنگ کروں گا۔
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بکریوں کے ریوڑ کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اس دوران ایک آدمی آپ کے قریب آیا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت سے بخوبی واقف تھا۔ اپنی قسمت آزمانے کے لیے اس نے رسولؐ سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنی بھیڑوں کا پورا ریوڑ دے دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب اسی کو دے دیا۔ وہ شخص خوشخبری لے کر اپنی قوم کے پاس واپس آیا اور کہا:
میری قوم، اسلام میں داخل ہوجاؤ جیسا کہ محمد اس شخص کو دیتا ہے جو غربت سے نہیں ڈرتا۔
حضرت انسؑ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
آدمی اسلام میں صرف دنیوی فائدے کے لیے داخل ہو سکتا ہے لیکن اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسے دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو جائے گا۔
محترم امیر صاحب نے احادیث مبارکہ سے متعدد واقعات بیان فرمائے۔
ایک دفعہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال سے الگ الگ رہ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جسم پر ڈھیلے کپڑے کا زخم تھا۔ ایک ننگا بستر تھا اور بستر کے سرے پر کھجور کے پتوں سے بھرا تکیہ تھا۔ ایک کونے میں کچھ جَو تھا اور دوسرے کونے میں جانوروں کی کھال کا ٹکڑا تھا جس میں پانی جمع تھا۔ جس جگہ بادشاہوں کے بادشاہ رہتے تھے وہاں کی سادگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہو گئے اور آپؓ کے چہرے پر آنسو جاری ہو گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عمر تم کیوں رو رہے ہو؟ حضرت عمر نے جواب دیا: میں کیوں نہ روؤں؟ میں تمہارے جسم پر بستر کے بنوانے کے نشان دیکھ سکتا ہوں۔ میں ایک طرف آپ کے عاجزانہ سامان کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف مصر اور فارس کے بادشاہوں کے عیش و عشرت کا تصور کرتا ہوں۔ وہ اتنی آسان زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور آپ ایسی سختی میں جی رہے ہیں۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ وہ دنیا لے لیں اور مجھے آخرت مل جائے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر اس بات نے اثر کیا اور انہوں نے اپنے دور خلافت میں اس پر عمل کیا۔ انہوں نے سادگی کی زندگی گزاری اور تمام شہریوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی۔ ان کی خلافت کے دوران اسلامی ریاست نے نمایاں ترقی دیکھی، اور یہ بڑی حد تک اس حقیقت کی وجہ سے تھا کہ مذہبی اقلیتوں کو مکمل آزادی اور شہری آزادی حاصل تھی۔ انہیں مساوی شہریت کا حق بھی حاصل تھا۔ تاریخی طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک عیسائی کو شہرِ نبوی میں اکاؤنٹس کے portfolioکا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ ریاست کے معاشی، انتظامی اور فوجی معاملات میں غیر مسلم برادریوں سے مشورہ لیا جاتا تھا، خاص طور پر جب یہ ان کے لیے براہ راست متعلقہ ہوتا تھا۔
حضرت عمرؓ کے چند واقعات بیان کرکے آپ نے کہا کہ حکمران کی حیثیت سے ان کا وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا حقیقی عکاس بن گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے صحابہ و تابعین کو عاجزی کا درس دینے کی پوری کوشش کی۔ آپؐ سے استدعا کی گئی کہ اشیاء کی قیمتیں مقرر کی جائیں۔ آپ نے فرمایاکہ قیمتیں اللہ ہی طے کرتا ہے۔ وہ رزق دینے والا ہے۔ مجھے یہ فکر ہے کہ جب میں اپنے رب سے ملوں تو تم میں سے کوئی مجھ پر جان و مال کے معاملے میں ناانصافی نہ کر دے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انسان کے عمومی قوانین کی وضاحت کی بلکہ جنگ کے حوالے سے تفصیلی راہنما اصول بھی بنائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوجی کمانڈر مقرر کیے اور جنگ کے دوران انسانیت کے طریقے اور قوانین کا وضح کیے۔ ان قوانین میں شامل ہیں: فطرت یا مویشیوں کو کبھی نقصان نہ پہنچائیں، خواتین، بچوں، بوڑھوں اور معذوروں کا احترام کریں اور ان لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں جنہوں نے اعلان کیا کہ وہ جنگ کے خلاف ہیں اور مرنے والوں کی کبھی بے عزتی نہ کریں۔ انہیں ہمیشہ احترام کے ساتھ دفن کیا جانا چاہئے۔
غیر مسلموں نے بھی مسلم فوجوں میں خدمات انجام دیں لیکن وہ ایسا کرنے کے پابند نہیں تھے اور جنہوں نے ایسا کرنے کا انتخاب کیا انہیں رضاکارانہ بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔
اقوام متحدہ نے بھی ایسے اصولوں پر کام کیا ہے اور انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت مختلف سطحوں پر انہی اصولوں کا اعلان کیا ہے۔
عالمی امن کے لیے عظیم پیغمبر محمد ﷺنے بادشاہوں، ریاستوں کے حکمرانوں اور وقت کے لارڈز کو خطوط لکھے، ان کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ آپؐ نے واضح کیا کہ آپؐ کو کسی دولت یا ریاستی طاقت کے حصول کی لالچ نہیں بلکہ آپؐ لوگوں کا خدا سے مضبوط تعلق بنانا چاہتے ہیں۔ اس روایت کو مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ نے اور حال ہی میں ہمارے پیارے حضور حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آگے بڑھایا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک پائیدار میراث چھوڑی جسے آج مذہبی اور سیکولر دونوں مفکرین تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک عاجز آدمی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جن کا کردار مثالی تھا بلکہ ایک منصف سیاسی شخصیت کے سربراہ کے طور پر بھی نمایاں تھا۔
جارج برنارڈ شا کا حوالہ پیش کر کے امیر صاحب نے فرمایا کہ
پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی تھی کیونکہ یہی وہ آزادی تھی جس نے اسلام کو اپنے امن کے پیغام کی تبلیغ کا موقع فراہم کیا۔ اور یہ وہی آزادی ہے جو پورے یورپ کے مسلمانوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے عقیدے پر عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بدقسمتی سے انبیاء کی ہمدردی اور مہربانی کی واقیات کو جدید دور کے جنونی افراد نے داغدار کر دیا ہے۔
ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 2012ء میں امریکہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران حضور نبی اکرم ﷺ کے اوصاف کا ذکر کیا اور خاص طور پر بنی نوع انسان سے آپ کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
حضورﷺ انسانیت کی خدمت اور حقوق انسانی کی ادائیگی کے جذبے سے اس قدر منہمک تھے کہ زندگی بھر اس مقصد کے لیے ہمہ وقت تیار رہے یہاں تک کہ پیغمبر خدا بننے کے بعد بھی ایسے اہم کام کے کیے ہمہ وقت تیار رہے۔حضور انور نےفرمایا کہ اگر کوئی شخص خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، کسی بھی وقت انسانیت کی خدمت کے مشن کے لیے انہیں بلائے تو وہ یقیناً بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے ان کی کوششوں میں شامل ہوں۔
حضور انورنےمناسب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تفصیل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الفاظ سے ختم کیا جائے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک متقی اور کامل خادم تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باطنی پاکیزگی اور وسعت قلبی، عفت، حیا، خلوص اور خدا پر توکل میں تمام انبیاء سے افضل تھے، اس لیے خدائے بزرگ و برتر نے آپ کو دیگر انبیاء سے زیادہ خاص صفات کی خوشبو سے مسح کیا۔
آپ کا دل اور روح ان تمام لوگوں کے دلوں اور روحوں سے جو اس سے پہلے گزرے اور جو اس کے بعد آنے والے تھے، زیادہ وسیع اور پاکیزہ، زیادہ معصوم، زیادہ تابناک اور خدا سے زیادہ محبت کرنے والے تھے۔
وہ وہ شخص تھا جو الٰہی وحی کے وصول کنندہ کے طور پر سب سے زیادہ قابل سمجھا جاتا تھا جو اس سے پہلے والوں اور اس کے بعد آنے والوں پر نازل ہونے والے کے مقابلے میں سب سے مضبوط اور کامل، سب سے بلند اور مکمل تھا۔ اور بڑا آئینہ خدا کی صفات کی عکاسی کرتا ہے۔
آخر میں محترم امیر صاحب نے قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب آیت 33کاترجمہ پیش کر کے تقریر ختم کی۔
یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر سلامتی بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو۔ تم بھی آپ(ﷺ) پر درود و سلام بھیجو۔