یورپ (رپورٹس)

ہائیکنگ 2022ء جامعہ احمدیہ جرمنی

(انتصار احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال جامعہ احمدیہ جرمنی میں آٹھ طلباء کو تین دن کے لیے ہائیکنگ پر جانے کا موقع ملا۔ جامعہ کے ایک استاد بطور نگران ساتھ تھے۔ ہائیکنگ کے لیے Alps کی ذیلی شاخ Wetterstein میں ایک ٹریک کا انتخاب کیا گیا تھا۔ بنیادی طبی امداد، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر لوازمات کی بروقت فراہمی کر کے طلباء میں تقسیم کر دی گئیں تھیں۔ روانگی کے روز علی الصبح ہی طلباء نے ہائیکنگ بیگز اور ساتھ لے جانے کے لیے ضروری اشیاء گاڑیوں میں رکھیں اور سفر کی تیاری مکمل کی۔
تعطیلات کے دوران یورپینز کی سیرو سیاحت کا چرچا ہر طرف تو ہے ہی مگر اس کا عملی نظارہ ان ایام میں کیمپر ویگنوں، سامان سے بھری گاڑیوں اور ان کے پیچھے باندھے گئے کیبنزاور سائیکلوں کی صورت میں سڑکوں پر جابجا نظر بھی آتا ہے۔ ہم بھی اسی نظارے کا حصہ بنتے ہوئے 500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنی اگلی منزل پر بروقت پہنچ گئے۔ داد دینی چاہیے آج کے جدید نیویگیشن سسٹم کو کہ اگر آپ بھولنا چاہیں بھی تو راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا اور تیز ترین راستے سے آپ کو سوئے منزل رواں رکھتا ہے۔

Naturcampingpark Isarhorn

پروگرام کے مطابق آج رات کا ہمارا قیام Naturcampingpark Isarhorn کیمپنگ سائٹ پر تھا۔ مناسب قیمت پر یہاں کیمپ لگا کر یا اپنی گاڑی پارک کر کے رات گزارنے کے لیے پسند کی بہترین جگہ ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ دریائے ایسار سے تین اطراف سے گھری ہوئی، بلندو بالا پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ جگہ اپنی ذات میں قابلِ دید مقامات میں سے ایک ہے۔ اس جگہ پرانسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صاف ستھرا اور جدید نظام مہیا کیا گیا ہے، لیکن ہر سہولت سے استفادہ کے لیے خاص سکےلے کر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ کئی لوگ تو یہاں مہینوں رہتے ہیں، کچھ کا قیام ہفتوں پر محیط ہوتا ہے اور دوسرے ایک یا دو راتیں رہ کر اس جگہ کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

رجسٹریشن کروا کر گاڑیاں پارک کرنے کے بعد جگہ کا جائزہ لینے کے لیے ہم نے دریا کے ساتھ ساتھ کچھ وقت سیر کی۔ ارادہ تازہ ٹھنڈے پانی میں اتر کر نہانے کا تھا مگرٹھنڈ کی وجہ سے صرف ہاتھ منہ دھونے پر اکتفاء کیا گیا۔ ہم نے کوشش کی کہ دریا کے کنارے کیمپ لگانے کے لیے کوئی مناسب جگہ مل جائے مگر سب جگہیں پُر ہوچکی تھیں۔ مناسب جگہ ڈھونڈ کر کاموں کی تقسیم کی گئی، کچھ نے کیمپس لگائے، کچھ کھانے کے لیے چیزیں لینے مارکیٹ چلے گئے اور دیگر نے کھانا پکانے کا انتظام کرنا شروع کر دیا۔ قریب ہی ایک درخت کا تنا کٹا ہوا پڑا تھا اسے عمودی کھڑا کر کے اس پر چولہا رکھ کر کچن تیار کیا۔ نماز ظہر و عصر جمع کر کے ادا کی گئیں۔ اگلے روز علی الصبح روانگی کا پروگرام تھا اس لیے ناشتہ بھی شام کے کھانے کے ساتھ ہی تیار کر لیا گیا۔ رات کا کھانا کھا کر ابھی سیدھے ہوئے ہی تھے کہ موسلا دھار بارش نے پرتپاک استقبال کیا جو کہ ساری رات وقفہ وقفہ سے شدت کے ساتھ جاری رہا۔

جرمن معاشرے میں رات کے وقت کسی کے آرام میں خلل ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں سوائے اس کے کہ آپ اجازت لیں۔ پہلے دن کی ہائیکنگ چونکہ لمبی تھی اس لیے پروگرام کے مطابق ہمیں فجر سے پہلے نکلنا تھا تا کہ بروقت اگلی منزل پر پہنچ کر آرام کیا جا سکے۔ کیمپ سائٹ انتظامیہ سے جب اپنے پلان کےبارے میں بات کی تو انہوں نے صبح 8 بجے سے پہلےاجازت دینے سے انکار کر دیا کہ اس سے قبل ہمارے اٹھنے، وائنڈاَپ کرنے اور روانگی سے دیگر مکینوں کے آرام میں خلل آئے گا۔

Partnach Gorge

اگلے روز دیے گئے وقت کے مطابق ہم نے اپنی تیاری مکمل کی اور سکی سٹیڈیم گارمش Skistadion Garmisch میں تین دن کے لیے گاڑیاں پارک کر کے دعا کے ساتھ ہائیکنگ کا آغاز کیا۔ مکرم محمد حماد ہیرٹر صاحب بھی مقام آغاز پر گروپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس جگہ سے بیس سے پچیس منٹ کی ہائیکنگ کے بعد دریائے پارٹناخ Partnachکے ساتھ ساتھ غاروں کی طرز پر راستہ یا تنگنائے بنایا گیا ہے۔ اس تنگنائے پر چلتے ہوئے دائیں جانب بہتے دریا کی طاقتور اور پرشور آوازیں چلنے والوں میں خوف، حیرت اور جوش کے ملے جلے احساسات پیدا کرتی ہیں۔ قریباً 700میٹر لمبے اس راستے پر پانی سے بچاؤ کے لیے ہائیکنگ بیگز پر کور چڑھانا ضروری ہے کیونکہ جابجا گرتی آبشاروں اور پانی سے بھیگ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ کچھ عرصہ تک یہ راستہ افادہ عام اور سیاحوں کے لیے کھلا تھا مگر اب گزرنے کے لیے فی کس 6 یورو کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

Bockhütte

دریائے پارٹناخ کے ساتھ بل کھاتے راستوں پر ہماراقافلہ رواں دواں رہا، کبھی دریاکے اِس پار تو کبھی دریا کے اُس پار۔ حسب ضرورت وقفہ کر لیتے اور میگنیشیئم ملے پانی اور چاکلیٹ وغیرہ سے طاقت بحال کرتےرہے۔ ہمارا اگلا سٹاپ Bockhütte پر تھا۔یہ جگہ بھیڑوں کی چراگاہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع اس چھوٹے سے ہوٹل کا نظارہ بھی بہت دلفریب ہے۔ ایک طرف فلک بوس چٹیل پہاڑ ہیں تو دوسری طرف سرسبزو شاداب درختوں کا گھنا جنگل۔ اس جگہ پر مختلف قسم کے مشروبات، کافی، کیک اور لسّی باسہولت دستیاب ہوتی ہے۔ لسی کا گلاس روایتی گلاسوں سے بڑا ہوتا ہے جسے پی کرگزشتہ سفر کی تھکان کا احساس تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس جگہ سے ایک راستہ بائیں جانب Reintalangerhütte کی جانب جاتا ہے جبکہ دائیں جانب زیادہ چڑھائی والا راستہ Stuibenspitze اور Kreuzeckhaus کی طرف جاتا ہے۔ اکثر سیاح اس جگہ پر آکر تھوڑی دیر کے لیے سستا کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں کیونکہ یہاں پر رات کے قیام کا انتظام نہیں ہے۔ ہماری آج کی منزل Reintalangerhütte تھی اس لیے ہم نے بائیں جانب دریاکے ساتھ ساتھ سفر جاری رکھا۔ ان علاقوں میں رات کے قیام کے لیے بروقت آن لائن بکنگ کروانا انتہائی ضروری ہے بصورتِ دیگر رہائش کے لیے جگہ میسر نہیں آتی۔

منزل پر پہنچنے سے قبل بارش شروع ہو گئی۔ سب نے برساتیاں نکالیں اور احتیاط سے چلتے رہے۔ بارش کی وجہ سے آبشاروں کے دہانے بڑے ہوگئے اور راستے سے گزرتے ہوئے ندی نالے بھی پورے جوش و خروش سے بہنے لگے۔ ایسی ہی ایک ندی کے پہلو میں تھوڑی دیر کے لیے رکے۔ اس جگہ پر پانی کے بہاؤ کی وجہ سے قدرتی طور پر چھوٹے چھوٹے حوض بن گئے ہیں جہاں پانی کےنرم بہاؤ کے وقت نہانے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ اسی جگہ پر دریا ایک آبشار کی صورت میں گرتے ہوئے پوری وادی کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

یہ نظارہ اس قدر دل کو موہ لینے والا تھا کہ ایک طالب علم بے اختیار یہ کہہ اٹھاکہ ان نظاروں کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ انہیں پیدا کرنے والی کوئی ہستی موجود نہیں۔

ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف

جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا

Reintalangerhütte

شام چار بجے Reintalangerhütteپہنچ کر رجسٹریشن کروائی۔ جامعہ کے طلباء کے لیے رہائش کا بندوبست ایک بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ اس جگہ سے جرمنی کی بلند ترین چوٹی Zugspitze تک جانے کے لیے مزید پانچ سے چھ گھنٹوں کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے، راستے میں Knorrhütteہوٹل میں تازہ دم ہوا جا سکتا ہے۔

اس جگہ پر آنے والے تمام سیاحوں کو ہوٹل کی طرف سے آرام دہ جوتے فراہم کیے جاتے ہیں ہائیکنگ شوز کے ساتھ ہوٹل میں جانے کی اجازت نہیں۔ ہائیکنگ شوز کو لٹکانے اور سکھانے کے لیے ایک الگ جگہ پر بہترین نظام موجود ہے جس سے رات کے دوران جوتے خشک ہو کر اگلے دن کے سفر کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہاں اور اس سے گزشتہ جگہ پر بجلی کا روایتی نظام موجود نہیں ہے بلکہ دریا کے پانی کو روک کر ٹربائن لگائی گئی ہے جس سے بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹر اور موٹرسائیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لیے کوڑا بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے نیچے لے جایا جاتا ہے۔

ہال میں سامان رکھنے کے بعد پانچ منٹ کی واک کے بعد دریا کے موڑ پر نماز پڑھنے کے لیے ایک بہترین جگہ میسر آگئی۔ دریاکے پانی سے وضو اور اذان کے بعد نمازیں جمع کر کے ادا کیں اور قریبی پہاڑپر واقع ایک چشمہ کی جانب چڑھائی شروع کر دی۔ چشمہ کے ساتھ ہی ایک آبشار بھی ہے جس کا پانی نسبتاً کم ٹھنڈا ہے اور چشمہ کا پانی شائد گلیشیئر سے آنے کی وجہ سے یخ بستہ۔ چشمہ اور آبشار کے پانی کے سنگم پر اس فرق کو واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کچھ دیر طلباء آبشار کے پانیوںمیں نہاکر لطف اندوز ہوتے رہے۔

تھوڑی ہی دیر میں رات کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ جلدی سے واپس آئے اور ہال میں کھانے کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ یہاں پر آنے والے تمام سیاحوں کے لیے کھانے کا ایک ہی جگہ پر انتظام کیا جاتا ہے۔ کھانے میں روایتی جرمن کھانا تھا جس میں چقندر کا سوپ، ابلے چاول اور چنے کا سالن تھا۔ یہاں مختلف اقوام اور ممالک سے لوگ آئے ہوئے تھے مگر سب ایک دوسرے سے خاندان کے افراد کی طرح دوستانہ ماحول میں باتیں کر رہے تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ موبائل فون نیٹ ورک کی عدم موجودگی تھی۔ اس جگہ پر ہوٹل کے سامنے دریاکا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے جس کے وجہ سے پانی کی روانی میں سبکی آجاتی ہے۔ کھانے کے بعد شام کے وقت دریا کے سحرانگیز خاموش پانی کے پاس بیٹھ کر کافی یا شہد ملاگرم دودھ پینے کا مزا ناقابلِ بیان ہے۔ ہائیکنگ کے دوران میگنیشیئم ملا پانی اور بروقت گلوکوز کی فراہمی جسم کے پٹھوں کی توڑپھوڑ کے وقت ان کی بحالی کے لیے تیزی سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج قریباً بیس کلومیٹر کے قریب ہائیکنگ کی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے معمولی تھکاوٹ کے علاوہ سب طلباء تازہ دم تھے۔ اس جگہ پر بھی سکے ڈال کر نہانے کا انتظام موجود تھا مگر صرف ایک شاورروم ہونے کی وجہ سے تھوڑانتظار یا وقت سے پہلے اٹھ کر نہانا پڑتا ہے۔

جرمنی کے اس جنوبی حصے میں خاص طور پر ہائیکنگ کے دوران سیاح ایک دوسرے کا پرتپاک انداز میں استقبال کرتے اور حال احوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔

Stuibenspitze

اگلے روز نماز فجر کے بعد جلد ہی ناشتہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ناشتہ کافی پرتکلف تھاجس میں مختلف قسم کے Cereals، بریڈ، جام، مکھن، شہد، دودھ اور کافی قابلِ ذکر ہیں۔ ناشتہ کے بعد Bockhütte سے ہوتے ہوئے ہم نے Kreuzeckhaus یعنی اپنی اگلی منزل کی طرف پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا۔ آج کے روز چڑھائی والا حصہ زیادہ تھا اس لیے تھوڑی دشواری پیش آ رہی تھی۔ Bockhütte سے Kreuzeckhaus تک راستہ پہاڑوں کے گردکسی اژدھے کی طرح بل کھاتے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ مختلف جگہوں پر سائن بورڈز کے ساتھ ساتھ مسافت بھی لکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بھولنے کے امکانات کسی قدر کم ہوتے ہیں۔

اگلی منزل پر پہنچنے سے قبل ہمارا ارادہ Stuiben پہاڑی کی چوٹی تک پہنچنے کا تھا۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 1749میٹر ہے۔ Stuibenhüteپہنچ کر چند طلباء نے آج رات کے قیام کی جگہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا جبکہ دیگر Stuibenپہاڑی کو سر کرنے کی مہم مکمل کرنے کا مصمم ارادہ لے کر چل پڑے۔ اس جگہ سے پہاڑی کی چوٹی تک جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے اور چڑھائی بھی کافی عمودی ہے۔ یہاں پر نیچے وادی میں کافی کھلی چراگاہ ہے جہاں پر جا بجا گائیاں چرتے ہوئے نظر آتی ہیں اور انکی گھنٹیوں کی آواز دور دور تک اپنی موسیقی بکھیرتی چلی جاتی ہے۔ ان تمام نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم آخر کار پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ یہاں بیٹھ کر نیچے اردگرد کے ماحول کا نظارہ بہت مسحور کن ہے۔ یہاں سے دوسری چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے اور اردگرد پھرتے ہوئے پہاڑی ہرنوں کے جھنڈ بھی نظر آتے ہیں جو اپنی دنیا میں گم بیٹھے تازہ گھاس کے مزے لے رہے ہوتے ہیں

Kreuzeckhaus

یہاں سے اترائی کا راستہ زیادہ دشوار اور پھسلن والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب خیریت سے یہ تمام راستہ طے کرتے ہوئے Kreuzeckhausتک جا پہنچے۔ رہائشی ہال میں سامان رکھ کر تازہ دم ہونے کے بعد نمازیں ادا کیں اور رات کا کھانا کھایا۔ یہاں بھی رہائش وغیرہ کی بہترین سہولیات موجود ہیں اور اسی جگہ سے ایک کیبل کار نیچے شہر تک جاتی ہے۔ یہاں سے جرمنی کی بلند ترین چوٹی Zugspitzeکا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔رات کے وقت نیچےروشنیوں سے بھرے ہوئے شہر کا نظارہ بھی قابل دید ہوتا ہے۔ صبح کے وقت اگر مطلع صاف ہو تو دوربین سے اردگرد کی چوٹیوں کا نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ آج کچھ طلباء کافی تھک گئے تھے اس لیے انہوں نے صبح کیبل کار کے ذریعے نیچے شہر میں جانے کا پروگرام بنایا لیکن صبح اٹھتے ہی اللہ کے فضل سے سب تازہ دم تھے اور ہائیکنگ کر کے نیچے شہر میں اترنے پر مصر تھے۔

Höllentalangerhütte

آج کے دن کی ہائیکنگ نسبتاًآسان تھی مگر اس میں خطرہ زیادہ تھا کیونکہ مسلسل 1400 میٹر کی اترائی کے بعد ہم نے شہر میں اترنا تھا۔ ناشتہ کے بعد دعا کے ساتھ سفر کا آغاز کیا گیا۔ ہم نے احتیاط کے ساتھ جگہ جگہ پر لگی آہنی تاروں کو پکڑ پکڑکر اپنا سفر جاری رکھا اور قریباً اڑھائی گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد Höllentalangerhütte پر تھوڑی دیر رک کر لسی، کافی اور کیک وغیرہ سے تازہ دم ہوئے۔ کچھ عرصہ قبل یہ ہوٹل خراب موسم کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا مگر اب تجدیدکے بعد یہ جگہ قابلِ دید ہے۔ یہاں سےشہر قریباً اڑھائی سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اس لیے یہاں پر سیاحوں کی اکثریت اپنا دن گزارنے یا کچھ دیر آرام کرنے کے لیے آتی ہے۔

اس ہوٹل سے کچھ فاصلے پر دریا کے ساتھ بنایا گیا ایک اور تنگنائے ہے جس کی لمبائی قریباً ایک کلومیٹر ہے۔ دریا کے ساتھ غار نما اس راستے سے گزرنے کے لیے اکثر جگہوں پر بجلی کے بلب لگائے گئے تاکہ سیاحوں کو سہولت رہے۔ شام چار بجے ہم Hammersbach قصبے میں پہنچ گئے۔ دو طلباء پارکنگ سے گاڑیاں لینے چلے گئے جبکہ دیگر نے وہیں بیٹھ کر کچھ دیر آرام کیا۔ واپسی پر رک کر ایک ہوٹل میں رات کا کھانا کھایا اور اس خوشگوار ہائیکنگ کی یادیں لیے ہوئے جامعہ بخیریت واپس پہنچ گئے۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button