امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی ستمبر 2018ء (8و 9؍ ستمبر)
فلسطین اور جرمنی میں مقیم عرب اور البانین احمدیوں نیز افریقہ اور عرب ممالک سے آنے والےاحمدی فیملیز اور وفود کی اپنے پیارے امام سے ملاقات۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جرمنی سے ایمان افروز اور روح پرور اختتامی خطاب
جلسہ میں شامل ہونے والے نو مبائعین و نو مبائعات نیز غیر احمدی مہمانوں کی حضور انور سے ملاقات
ز… میرا تعلق اہل سنت جماعت سے ہے۔ میں نے یہاں جلسہ پر آ کر بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ اصل اور حقیقی اسلام مجھے یہاں نظر آیا ہے۔
ز… میں مسلمان نہیں ہوں لیکن جب میں خلیفہ کو دیکھتی ہوں تو میں… روحانیت کو محسوس کرسکتی ہوں
ز…یہ میرے لئے ایک نئی بات تھی کہ اسلام چرچوں اور کلیسا کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔
ز…خواتین کو اسلامی معاشرہ مکمل آزادی دیتا ہے اور ہر گز ان کی ہتک کی اجازت نہیں دیتا۔
(نو مبائعین اور مہمانوں کے تأثرات)
… … … … … … … …
8؍ ستمبر 2018ء بروز ہفتہ (حصہ دوم آخری)
… … … … … … … …
آج شام پروگرام کے مطابق فلسطین اور جرمنی میں مقیم البانین احباب اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مہمانوں اور وفود کی ملاقات کا پروگرام تھا۔
سات بجکر 35منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔
سب سے قبل فلسطین سے آنے والی فیملیز نے ملاقات کی سعادت پائی۔ فلسطین سے تین احمدی بہنیں سماح عبد الجلیل صاحبہ، اَمل عبد الجلیل صاحبہ اور سحر محمود صاحبہ اپنے بچوں کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کے لئے پہنچی تھیں۔
اَمل عبد الجلیل صاحبہ اور سحر محمود صاحبہ کو ان کے احمدی ہونے کے باعث ان کے خاوندوں کی طرف سے طلاق دے دی گئی۔ ان دونوں بہنوں کی 3/1 کی وصیّت بھی ہے۔ یہ گزشتہ سال بھی جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی تھیں۔
امسال ان بہنوں کے پاس سفر کے اخراجات کے لئے زیادہ رقم نہیں تھی تو انہوں نے کم خرچ پر اپنے بچوں کے ساتھ بڑا لمبا اور تکلیف دہ سفر اختیار کیا۔ محض اس لئے کہ خلیفۂ وقت سے ملاقات کی تڑپ تھی۔
یہ فلسطین کی رہنے والی ہیں۔ وہاں سے بس کے ذریعہ سفر کر کے عمّان (اردن)پہنچیں۔ پھر وہاں سے جہاز کا سفر کر کے ملک یونان آئیں۔ یونان سے پھر بس کا سفر اختیار کر کے سائپرس پہنچیں۔ پھر یہاں سے بذریعہ جہاز کوپن ہیگن (ڈنمارک)آئیں۔ اور پھر ڈنمارک سے بذیعہ جہاز برلن(Berlin) جرمنی پہنچیں۔ پھر برلن سے جہاز لے کر جرمنی کے ہی ایک دوسرے شہر سٹٹگارٹ(Stuttgart) پہنچیں۔ پھر یہاں سے بذریعہ کار مزید دو سے تین گھنٹے کا سفر طے کر کے فرنکفرٹ آئیں اور بیت السبوح پہنچیں اور پھر یہاں سے ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد جلسہ گاہ Karlsruhe آئیں۔
انہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم مسلسل ڈیڑھ دن کے سفر کے بعد یہاں تک پہنچی ہیں۔ ہمیں بہت تھکاوٹ تھی لیکن حضور انور کو دیکھ کر اور حضور سے مل کر سب تھکاوٹ دُور ہو گئی ہے۔
سماح صاحبہ نے سب کی طرف سے بولنا شروع کیا تو حضور انور نے از راہ شفقت فرمایا کیا تم سب کی نمائندگی کرو گی۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ گزشتہ سال ہم میں سے ہر ایک نے بات کرنا چاہی تھی اور نتیجۃً ہم کچھ زیادہ عرض نہ کر سکے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: جو باتیں پچھلے سال رہ گئی تھیں وہ بھی سب کر لیں۔
سماح صاحبہ نے عرض کیا کہ میں محمد علاونہ کی بیوی ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا آپ تو بہت مشہور ہیں۔ (ان میاں بیوی کو مُرتد قرار دے کر ان کو آپس میں علیحدہ کرنے کے لئے ان کے خلاف فلسطین کی کورٹ میں کیس کیا گیا ہے اور آجکل فلسطینی میڈیا میں اس کیس کا بہت چرچا ہے اور سوشل میڈیا پر ہزارہا لوگ اس سے باخبر ہیں۔)
دوسری بہن سحر نے عرض کیا کہ حضور اس کے کیس کے لئے بھی دعا کریں۔
حضور انور نے فرمایا: ہاں مجھے علم ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ (سحر کو مرتد قرار دے کر اس کے خاوند نے اس کے خلاف عدالت میں طلاق کی صورت میں کیس کیا ہوا ہے تاکہ خاوند کو کسی قسم کے کوئی حقوق نہ دینے پڑیں۔ پہلے عدالت نے موصوفہ کو مسلمان قرار دیا تھا اب چند ہفتے قبل دوبارہ مرتد قرار دے دیا ہے۔)
تیسری بہن اَمل نے عرض کیا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کو جو غیر احمدی ہے اس لئے ساتھ لائی ہوں کہ اس پر بھی احمدیت کی حقیقت آشکار ہو جائے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: آخر پرتو سب پر حقیقت آشکار ہونی ہی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس نوجوان جاسم سے دریافت فرمایا کہ جلسہ کیسا لگا۔ اس پر موصوف نے کہا کہ جلسہ بہت اچھا تھا۔ کوئی چیز غیراسلامی نہیں تھی لیکن میرے کئی سوال ہیں۔ اگر اجازت ہو تو ایک سوال کر لوں۔
حضورانور نے فرمایا: کر لیں۔ اس پر موصوف نے سوال کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ’’التبلیغ‘‘ میں عربوں کو بڑے بڑے القاب دے کر مخاطب کیا ہے۔ انہیں اصفیاء، اتقیاء کہا ہے۔ لیکن عربوں نے آج تک آپ کو قبول نہیں کیا۔
اس پر حضور انور نےفرمایا کہ عربوں میں بھی بہت اچھے لوگ ہیں۔ آپؑ نے انہیں دعوت دی اور فرمایا کہ ’’جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار‘‘۔ اب اگر وہ نہیں آئے تو یہ ان کی بد قسمتی ہے لیکن ان میں سے اچھے اور سعید فطرت لوگ آئے بھی ہیں اور چند میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ آپؑ نے کہیں پر یہ تو نہیں فرمایا کہ لوگ فوراً مان لیں گے۔ یہ فرمایا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تو تین صدیوں کے بعد غلبہ کے آثار پیدا ہوئے تھے۔ میں مسیح محمدی ہوں۔ میرے بعد اس عرصہ سے پہلے ہی غلبہ کے آثار ظاہر ہو جائیں گے۔ تین سو سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
سماح نے عرض کیا کہ میرا یہ بچہ تنگ کرتا ہے۔ پڑھتا نہیں ہے اور وقف نَو میں ہے۔ اس کے لئے دعا کریں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اس پر سختی نہ کیا کریں۔ ٹھیک ہو جائے گا۔
ملاقات کا یہ پروگرام آٹھ بجے تک جاری رہا۔
… … … … … …
بعد ازاں ملک گیبون (Gabon) سے آنے والے وفد کے ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔
گیبون سے وہاں جماعت کے نیشنل سیکرٹری فنانس، Bouraima Chadouse (بورائمہ شادوس صاحب) اور ان کی اہلیہ اور بیٹا اور دو بہنیں وفد میں شامل تھیں۔
ملاقات کے دوران بورائمہ صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک بینن میں اب بڑی جماعت ہے۔ حضور انور دعا کریں کہ اسی طرح ہمارے ملک گیبون میں بھی بڑی جماعت کا قیام عمل میں آئے اور گیبون میں بھی جماعت کو ترقیات عطا ہوں۔
ملک گیبون، بینن کا ہمسایہ ملک ہے اور جماعت کے انتظام کے لحاظ سے بینن کے سپرد ہے اور یہاں ابھی بہت چھوٹی جماعت ہے۔
موصوف نے اپنی بیٹی کے لئے بہتر رشتہ ملنے کے لئے دعا کی درخواست کی۔
وفد کے ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ علیحدہ علیحدہ اور پھر گروپ تصویر بنوانے کا بھی شرف پایا۔
… … … … … …
بعد ازاں پروگرام کے مطابق جرمنی میں مقیم البانین احباب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔ امسال جرمنی بھر سے قریبًا ساٹھ البانین افراد نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی۔ آج یہ لوگ حضور انور سے ملاقات کی سعادت پا رہے تھے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آج ہمیں حضور انور سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ ہمارے سارے مرد و خواتین حضور کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں ملاقات کا موقع عطا فرمایا۔
ایک زیر تبلیغ امام ڈاکٹر ہود حاجی زینیلائے(Dr. Hud Haji Zenelai)نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا (موصوف صوفی طریقہ فکر خَلوتی (Khalveti)کے امام ہیں)۔ موصوف نے کہا کہ میں جلسہ سالانہ کے انتظامات سے غیر معمولی طور پر متأثر ہوا ہوں۔ میں نے یہاں جلسہ میں اسلام کی پُر امن تعلیمات کے عملی نمونے دیکھے ہیں۔ نئے سال کے موقع پر احمدی احباب جرمنی بھر میں جو وقار عمل کرتے ہیں اس نے مجھے بہت متأثر کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمائے اور جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ مجھے جماعت کے کسی پروگرام میں شامل ہونے کا پہلی دفعہ موقع ملا ہے۔ TV کے ذریعہ، میڈیا کے ذریعہ ہم جماعت کی خدمات کو دیکھتے ہیں۔ اس جلسہ کے انتظامات کو دیکھ کر میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی مدد فرمائے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میں جرمنی میں رہتا ہوں اور اکثر Kosovo کا سفر کرتا رہتا ہوں۔ میں 1994ء سے یہاں ہوں۔ میں جب بھی کوسوو جاتا ہوں تو وہاں اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرتا ہوں۔ انہیں احمدیت کا پیغام پہنچاتا ہوں۔ وہاں ہماری مخالفت بھی ہے۔ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے صحیح پیغام پہنچانے کی توفیق دے اور میرے رشتہ دار بھی احمدیت میں داخل ہوں۔
ایک اور دوست نے عرض کیا کہ میں Kosovo سے آیا ہوں اور یہاں جرمنی میں رہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے آج مجھے یہ پہلا موقع دیا ہے کہ میں حضور کو اتنے قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ حضور سے ملاقات ہوئی ہے۔
ایک صاحب محترم آونی کامبیری (Avni Kamberi) نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا:
میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے اپنے خلیفہ سے مصافحہ اور معانقہ کا شرف حاصل کرنے کی توفیق دی۔ حضور انور کے وجود سے محض محبت کی کرنیں نکل رہی تھیں جن کا اظہار جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں ہرلمحہ ہوتا رہا۔ حضور انور سے میری ملاقات ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے کیونکہ اس سے پہلے میں کبھی خواب میں بھی حضور انور کو نہیں ملا تھا۔
حضور سے ملاقات کے بعد میری ملاقات ایک الجیرین دوست سے ہوئی جن کے ساتھ میرا گزشتہ بیس سال سے تعارف ہے۔ جب میں نے اُسے بتایا کہ میں نے ان دونوں ہاتھوں سے پیارے آقا سے مصافحہ کیا ہے تو اُس نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھ سے بغلگیر ہو کر برکت حاصل کرے۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے کہ فی الحقیقت خلیفۃ المسیح کی برکت سے یہ محبت ہم میں سرایت کر گئی ہے۔ بعد ازاں ایک پاکستانی احمدی بھائی نے بھی اسی وجہ سے مجھ سے معانقہ کیا۔ اس کے بعد میرا دل اللہ تعالیٰ کی جماعت کی محبت سے بھر چکا تھا۔ میری یہی دعا ہے کہ پیارے آقا سے معانقہ کی برکات میرے وجود سے جماعت کے مفاد میں ظاہر ہوں۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میں نے پیارے آقا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام کا تحفہ پیش کیا۔ اُس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ گویا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام میرے سامنے رونق افروز ہیں۔
محترم اِلیڑچُلیانجی (Ilir Chulyanji) صاحب ایک پرانے احمدی ہیں۔ موصوف کو پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ موصوف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضور انور کے ساتھ ملاقات کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ خلافت کے ذریعہ حاصل ہونے والے اس روحانی مائدہ سے صرف ہم احمدی ہی نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بھی جلد فیضیاب ہوں گے جن کو اس مائدہ کی شدید ضرورت ہے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں خانہ کعبہ کاحج کر رہا ہوں۔ دیکھا کہ خانہ کعبہ کا غلاف ہٹا ہوا ہے اور خانہ کعبہ اندر سے ایک ریسٹورنٹ کی طرح نظر آ رہا ہے۔اور خانہ کعبہ کے ساتھ ایک دو منزلہ گھر ہے جس میں میں نے احمدی احباب کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: جو آپ نے ریسٹورنٹ کی طرز پر دیکھا ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ میں اپنی دنیاوی اغراض کے لئے جانے لگ گئے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے زیادہ مقام دیا جانے لگا ہے۔ خدا کرے کہ وہ وقت جلد آئے جب احمدی وہاں جانے لگ جائیں تاکہ خانہ کعبہ کی اصل غرض بحال ہو اور اس کو اس کا اصل روحانی مقام ملے۔ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ یہ وقت کب آئے گا۔
حضور انور نے اس حوالہ سے ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں درج عبد اللہ بن مبارک ؒ کی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خواب میں فرشتہ نے بتایا کہ اس سال کسی کا بھی حج قبول نہیں ہوا سوائے ایک شخص کے جو حج کرنے نہیں آیا لیکن اس کا حج قبول ہوا۔
ایک نو جوان خادم کے بارہ میں بتایا گیا کہ یہ بچہ والدین کی شادی کے سات سال بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعا سے پیدا ہو تھا۔ حضور انورؒ نے ہومیوپیتھک نسخہ بھی بھجوایا تھا۔ اس بچے کی خواہش ہے کہ حضور انور سے معانقہ کرے۔
حضور انور نے از راہ شفقت اسے شرف معانقہ عطا فرمایا۔ اس نوجوان نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔
البانین احباب کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا یہ پروگرام ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔
… … … … … …
بعد ازاں پروگرام کے مطابق عرب ممالک سے آنے والے مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔
عربوں کی ملاقات کا انتظام ایک بڑے ہال میں کیا گیاتھا۔ عرب مرد و خواتین کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی جن میں سے دو صد کے لگ بھگ احمدی احباب اور یکصد غیر از جماعت احباب تھے۔
ان عرب احباب میں سیرین، عراقی، لبنانی، مصری، الجزائری، سوڈانی، صومالی، فلسطینی اور تیونسی لوگ شامل تھے۔
حضور انور نے فرمایا جو پہلی دفعہ آئے ہیں وہ اپنے ہاتھ کھڑے کریں۔ اس پر کافی احباب نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے۔ حضور انور نے فرمایا: ماشاء اللہ، کافی ہیں جو پہلی مرتبہ آئے ہیں۔
الجزائر سے آنے والے ایک احمدی دوست نے عرض کیا کہ میں خاص طور پر جلسہ پر حاضر ہوا ہوں۔ یہ جلسہ بہت ہی روحانی تھا۔ میرے لئے تو ایک خواب تھا جو خدا نے پورا کر دیا۔ الجزائر کے بہت سارے احمدی جلسہ پر آنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اپنی مجبوریوں کی وجہ سے آ نہیں سکے۔ ان سب احباب نے حضور انور کی خدمت میں سلام بھیجا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ فضل فرمائے۔ ان کے حالات ٹھیک کرے، ان کے مقدمات ختم ہوں، اور جو جیل میں ہیں ان کی رہائی ہو۔
سیریا سے آنے والے ایک غیر از جماعت دوست نے عرض کیا کہ جلسہ کا ماحول بہت اچھا لگا۔ پہلی دفعہ شامل ہوا ہوں۔ سارے انتظامات بہت عمدہ تھے۔ حضورانور کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔
سیریا سے آنے والی ایک احمدی خاتون نے عرض کیا کہ میں تیسری دفعہ جلسہ پر آئی ہوں۔ ہر دفعہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں پہلی دفعہ آئی ہوں۔ حضور انور کو دیکھ کر میرے جو جذبات ہیں وہ میں بیان نہیں کر سکتی۔
اس پر حضور انور نے از راہ شفقت فرمایا: آپ کی باقی باتیں سمجھ میں آگئی ہیں۔ خدا آپ کے نیک جذبات قبول فرمائے۔
سیریا سے آنے والے ایک غیر از جماعت نو جوان نے عرض کیا کہ میرا تعلق اہل سنت جماعت سے ہے۔ میں نے یہاں جلسہ پر آ کر بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ اصل اور حقیقی اسلام مجھے یہاں نظر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے۔ ہم کہتے ہیں کہ سب کو یہاں آکر سیکھنا چاہئے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ فضل فرمائے سب کی مدد فرمائے۔
ایک بچی نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔یہ کہتے ہوئے رو پڑی۔ حضور انور نے از راہ شفقت فرمایا میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔
ایک خاتون نے عرض کیا میں پہلی دفعہ آئی ہوں۔ یہاں بہت زیادہ روحانیت دیکھی ہے۔ یہاں کا جو ماحول ہے وہ مکّہ، مدینہ کے ماحول جیسا ہے۔ اس طرح کا روحانی ، پُر سکون ماحول دیکھ کر میں بہت حیران ہوئی ہوں۔ میرے لئے بیان کرنا مشکل ہے۔ ہمارے سیریا کے لئے دعا کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک بچی نے عرض کیا کہ میں دعا کیا کرتی تھی کہ میری حضور انور سے ملاقات ہو۔ خدا تعالیٰ نے آج میری دعا قبول کی ہے اور میں نے حضور کو دیکھا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
سیریا سے آنے والی ایک نو سال کی بچی نے عرض کیا کہ میں نے ڈرائنگ کی ہے اور تصویر بنائی ہے۔ حضور انور کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں اور ساتھ رو پڑی۔ حضور انور نے فرمایا۔ آ جاؤ۔ چنانچہ وہ سٹیج پر آئی اور حضور انور کے دست مبارک میں وہ کاغذ پیش کیا جس میں اس نے کوئی تصویر بنائی تھی۔
سیریا سے آنے والے ایک نوجوان نے عرض کیا کہ جب میں سیریا میں تھا تو اس وقت میرے ذہن میں اَور پروگرام تھے لیکن یہاں آکر سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں۔ لیکن نمبر کم ہونے کی وجہ سے یہاں داخلہ نہیں ملتا۔ اس بارہ میں رہنمائی چاہتا ہوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: نمبر تو میں نہیں دلوا سکتا وہ تو آپ نے ہی لینے ہیں۔ ایسٹرن یورپ میں دیکھ لیں وہاں داخلہ ملتا ہے تو لے لیں۔ اور کوشش کریں اور زیادہ نمبر لیں۔ ورنہ کوئی دوسرا آپشن دیکھیں۔
ایک سیرین نو جوان کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ انسان کا کام ہے کہ سارے وہ کام کرے جو خدا تعالیٰ کو خوش کرنے والے ہوں۔ اگر اس کے خلاف کر رہے ہیں تو پھر شیطان کو خوش کرنے والے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک سوال کرنے والے کو فرمایا تھا کہ خدا سے ڈرو اور جو مرضی کرو۔
ز…سوڈان کے ایک غیرازجماعت دوست عبدالکریم محمدصالح صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے جلسے میں بہت نظم وضبط دیکھا ۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی لیکن سب خندہ پیشانی سے پیش آئے۔رہائش اور کھانے کی جگہ بھی بہت پُر سکون اور آرام دہ تھی۔ میں پہلی بار جلسے میں شامل ہوا ہوں۔ ماحول بہت روحانی تھا۔ نماز تہجد اور حضور انور کے ساتھ باجماعت نماز کا اہتمام تھا۔ ہاں، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سب سے زیادہ منظم جماعت ہے۔ چھوٹے بڑے سب بغیر کسی تکبرکے اور بڑے انشراح صدر کے ساتھ مہمانوں کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ میں دوبارہ اس جلسے میں شامل ہونے کی خواہش کرتا ہوں۔
ز…شام کے ایک غیرازجماعت دوست محمد ابراہیم حسن کُردی صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
میں پہلی بار جلسہ میں شامل ہوا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہوں گا۔ جلسہ بہت اچھا تھا اور ہم نے اِس سے بہت استفادہ کیا۔ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری امیر المومنین سے بھی ملاقات ہوئی۔ بہت ساری غلط باتیں اورپروپیگنڈا جو ہم نے جماعت احمدیہ کے بارے میں سُنا تھا کہ یہ کافر ہیں اور اسی طرح کی دوسری جھوٹی افواہیں ۔۔۔میں یقین سے کہتاہوں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔
ز…ایک غیرازجماعت سیرین خاتون نِھاد مصطفیٰ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ:
میں جلسہ میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں اور انشاء اللہ دوبارہ بھی شامل ہوں گی۔ جلسہ بہت اچھا تھا۔ ہم نے یہاں بہت ساری نئی چیزیں سیکھیں جن کا ہمیں پہلے علم نہیں تھا۔مجھے یہاں آکر جماعت احمدیہ کا تعارف ہوا۔ میں امیر المومنین کو دیکھنا چاہتی تھی اور میری یہ خواہش اس جلسہ میں پوری ہوگئی۔ میں نے اس جلسہ میں کوئی غلط بات نہیں دیکھی۔ اب مجھے علم ہوگیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں جو منفی پروپیگنڈا مَیں نے سنا تھا وہ سب غلط ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ ہمیشہ آپ کو توفیق دیتا رہے۔
ز… ایک غیرازجماعت سیرین دوست سامر رمضان جوکہ پہلی دفعہ جلسے میں شامل ہوئے ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ:
جہاں تک روحانی ماحول کا تعلق ہے توجلسے کی تمام کارروائی ہی مثبت تھی جو محبت ، طمانیت اور سکون سے بھری ہوئی تھی۔ اور جہاں تک خدمت اور انتظامی امور کا تعلق ہے تووہ انتہائی شاندارتھےاور اُن میں بہت محنت نظر آتی تھی۔ جلسے کے متعلق میری رائے بہت مثبت ہے کیونکہ میرا تعلق چند ایسے احمدیوں سے ہے جو بے مثال اعلیٰ اقدار کے مالک ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ مجھےحضرت خلیفہ الخامس (اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کے ذریعے جماعت احمدیہ کو عزت وشرف عطا فرمائے) کے دیدارکا بھی شرف حاصل ہوا۔
ز… ایک مصری نومبائع نوجوان محمدراتب صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
میں جلسہ سالانہ میں پہلی دفعہ شامل ہوا ہوں ۔ یہاں میںنےتألیف قلوب، اخوت اور محبت کے وہ نظارے دیکھے جو میں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھے تھے۔ میں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے خلیفۂ وقت کے دیدار کی بہت زیادہ تڑپ تھی جسے اللہ تعالیٰ نےآپ کا دیدار نصیب فرما کر پورا کردیا۔ میرے پاس شکر بجا لانے کے الفاظ نہیں۔ میں اپنے ان تمام بھائیوں کا جو مہمانوں کی بے لوث خدمت میں لگے ہوئے تھے تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
عرب احباب کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات نو بجے تک جاری رہی۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
… … … … … …
جرمن مہمانوں کے پروگرام میں حضور انور کے خطاب پر مہمانوں کے تأثرات
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے انگریزی زبان میں خطاب نے مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور بہت سے مہمانوں نے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ خلیفۃ المسیح کے خطاب سے آج ہمیں اسلام کی اصل اور حقیقی پُر امن تعلیم کا علم ہوا ہے۔ ان مہمانوں میں سے چند ایک کے تأثرات ذیل میں درج ہیں:
ز…ایک جرمن مہمان Mr. Aleksandras Saradinas نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
مجھے اس جلسہ میں بہت مزا آیا خلیفۃ المسیح کی تقریر کا ہر لفظ واضح، عام فہم اور دل پر اثر کرنے والا ہے۔ وہ مسلمانوں اور تمام دنیا کو محبت کا درس دیتے ہیں۔ میں ان کی صحت و سلامتی کے لئے بہت دعا گو ہوں۔
ز…ایک وکیل Norbet Wagnerبھی اس پروگرام میں شامل تھے۔ موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
میں جلسہ پر آٹھ مرتبہ آیا ہوں لیکن آج کا خطاب میرے لئے اس لحاظ سے بہت اچھا تھا کہ میں امیگریشن وکیل ہوں۔ خلیفہ کے الفاظ بہت متاثر کن اور متوازن تھے۔ آپ نے ایک بہت مشکل معاملہ پر بات کی ہے اور نہایت لطیف حل پیش فرمائے ہیں۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ آپ نے کسی فریق کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا بلکہ فرمایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ جب اس معاملہ پر بات کرتے ہیں تو ایک طرف جھکاؤ کی وجہ سے معاملہ کی سنگینی کو بڑھاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پناہ گزین غلطی پر ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ حکومت ظالم ہے۔ جبکہ خلیفہ نے فرمایا ہے کہ دونوں فریقین کو سمجھوتہ کرنا پڑے گا تاکہ پناہ گزین معاشرہ کا حصہ بنیں اور معاشرہ کی ترقی میں ایک مثبت کردار ادا کریں اور حکومت اس سلسلہ میں ان کی مددکرے۔ مزید آپ نے فرمایا کہ حکومت مقامی افراد کو نظر انداز نہ کرے۔ جو کچھ خلیفہ نے فرمایا میں اس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے خلیفہ کو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے، آپ کی شخصیت اور اندازدھیما، پروقار اور بہت صبر والا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسلمان جو غلط کاموں میں ملوث ہیں، ان کے اعمال کا ذمہ دار مذہب کو ٹھہرانا غلط ہے۔
ز…ان کی اہلیہ Gulhein Wagner بھی پروگرام میں شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
جو کچھ میرے خاوند نے کہا ہے، میں اس سے مکمل اتفاق کرتی ہوں۔ مجھے بالخصوص خلیفہ کی روحانیت پسند آئی ہے۔ آپ کے بولنے کا انداز ہی اتنا روحانی ہے کہ میں جذباتی ہوجاتی ہوں۔ آپ کی شخصیت اتنی پروقار اور پرامن ہے کہ آپ کی ایک جھلک ہی سے دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن جب میں خلیفہ کو دیکھتی ہوں تو میں اس روحانیت کو محسوس کرسکتی ہوں۔مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کیا ہیں اور یہ کہ میڈیا کس طرح اسلام کا غلط تصور پیش کرتا ہے۔ آپ نے پناہ گزینوں کے مسئلہ کے لئے بہت ہی حقیقی اور قابلِ عمل حل تجویز کئے ہیں۔
ز…ایک نوجوان طالبِ علم Maze Elam نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
جو بھی خلیفہ نے کہا وہ بالکل ٹھیک اور پُر حکمت ہے۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہےکہ اسلام انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب نہیں ہے اور یہ کہ چند مسلمانوں کے اعمال کو مذہب کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی ہے کہ کس طرح آپ نے لوگوں کے ذہنوں میں موجود خدشات کے جواب دیے ہیں کہ کس طرح لوگ امیگریشن سے خوفزدہ ہیں، ملکی سلامتی اور ٹیکس کے بوجھ کے مسائل بیان کئے ہیں اور ان کا حل تجویز کیاہے۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ خدشات غلط ہیں، بلکہ ان کا حل تجویز کیا ہے اور بتایا ہے کہ بطور فردِ معاشرہ ہمیں متحد رہنا چاہئے۔
ز…ایک مہمان Melissa Kaynak بھی اس پروگرام میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
آپ کی تقریر بالکل جرمنی کے موجودہ حالات کی عکّاس ہے۔ آپ نے جس عنوان کا انتخاب فرمایا ہے یہ بہت ضروری تھا کہ لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کا خوف ختم کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں مسائل ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے بتایا کہ کس طرح ہم امن کا قیام کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ہم حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں نہ کہ حقوق حاصل کرنے کیلئے لڑیں۔جیسا کہ آپ نے اسلامی تاریخ سے مثال پیش کی کہ کس طرح ابتدائی مسلمان اپنا حق لینے کی بجائے دوسرے کا حق ادا کرنے کیلئے بحث کیا کرتے تھے۔ یہ میرے لئے ایک نئی بات تھی کہ اسلام چرچوں اور کلیسا کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے اور یہ کہ اسلام میں کبھی بھی زبردستی کی اجازت نہیں دی گئی۔ خلیفہ کے خطاب کا یہ حصہ بہت واضح تھا کیونکہ آپ نے اپنی بات کے حق میں قرآنِ کریم سے دلیل پیش کی ہے۔ پھر آپ نے یہ بتایا کہ اگر پناہ گزین یا مسلمان کچھ غلط قدم اٹھاتے ہیں تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ در اصل اسلام ہر لحاظ سے امن کی بات کرتا ہے۔ آپ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپ ایک مذہبی رہنما ہیں اور دورِ حاضر کے مسائل پر بات کرنے سے ڈرتے نہیں۔ آپ نے امیگریشن کے حوالہ سے بات کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو باہم یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی مناسب شخص جو آپ کا خطاب سنے وہ سمجھ جائے گا کہ اسلام کوئی انتہاپسند مذہب نہیں ہے اور اسے یہ ماننا پڑے گا کہ غلط کام کرنے والے تو ہر مذہب میں ہو سکتے ہیں اور وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مذہب کی تعلیم پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ان کے اعمال کا الزام مذہب پر لگانا سراسر غلط بات ہے۔
ز…ایک مسلمان خاتون معصونے صاحبہ بھی اس پروگرام میں شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
میں خلیفہ کی ہر بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ تاہم اس کے ساتھ مجھے ایک بات پر تکلیف بھی ہے کہ آپ نے اپنا سارا خطاب اسلام کے دفاع میں سرف کیا ہے، کیوں آپ کو اسلام کا دفاع کرنا پڑا؟جب یو ایس اے اور دیگر ممالک غلط کام کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہتے کہ انہیں عیسائیت کا دفاع کرنا چاہئے۔ یہ تو بہت بڑی ناانصافی ہے۔ میڈیا نے اسلام کو بہت غلط طور پر پیش کیا ہے، اسلئے دفاع کرنا پڑا ہے۔
آپ نے جو کچھ کہا ہے بہت ہی متاثر کن تھا۔ آپ نے ہمیں متحد ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ ہمیں دیانتدار ہونا چاہئے، کرپشن سے پاک ہونا چاہئے اور دوسروں کی مدد کرنی چاہئے۔ ان اصولوں سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا کہ آپ نے کس طرح اچھے معاشرے کی بعض خصوصیات پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہے۔
ز…ایک مہمان Andreas Herzog بھی اس پروگرام میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
خلیفہ کا حرف حرف حکمت اور سچائی لئے ہوئے تھا۔ میں ان کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے تمام تقریر اچھی لگی لیکن تقریر کا اختتام بہت ہی اچھا تھا۔ پہلے تو آپ نے اسلامی تعلیمات کا بڑے اچھے پیرایہ میں دفاع فرمایا ہے اور قرآنِ کریم سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن آخر پر آپ نے ایک اور جہت پیش فرمائی ہے۔ آپ نے صرف اسلام کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ یہی بہترین تعلیم ہے۔ مجھے یہ انداز بہت اچھا لگا۔ آپ نے جو فرمایا ہے کہ ہم سب خد اکی مخلوق ہیں، یہ میرے لئے بہت جذباتی تھا۔ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر ہم اس نقطہ کو سمجھ جائیں تو ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ آپ کا یہ پوائنٹ انسانیت کو متحد کرنے کا ایک شاندار حل ہے۔تقریر کا یہ حصہ بہت اہم تھا اور میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس نقطہ پر غور کریں۔ ذاتی طور پر مجھے اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں جان چکا ہوں کہ یہ وہ مذہب ہے جو امن پھیلاتاہے اور یہ تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، چاہے ان کے اعتقاد جوبھی ہوں۔ اس تقریر سے مجھے انداز ہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے دل کتنے صاف ہیں۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم میں بعض قدریں مشترک نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دشمن ہیں۔
ز…ایک مہمان Markelian Shparthi نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
خلیفہ کی بہت سی باتیں بہت اچھی اور بہت اہم ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آجکل لوگوں کے ذہنوں میں ہیں، آپ نے ان کے بہت اچھے انداز میں جواب دیے ہیں۔ اس وقت کہ جب معاشرہ باہم بٹ رہا ہے، ایسے وقت میں خلیفہ لوگوں کو باہم متحدکرنا چاہتے ہیں۔
آپ نے یہ نہیں فرمایاکہ سب کچھ ٹھیک ہے، بلکہ معاشرے کے مسائل بیان کئے ہیں اور آپ نے کسی ایک فریق کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا بلکہ دونوں اطراف کو ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ پھر آپ نے بڑے مفید حل بھی تجویز کئے ہیں۔ خاص کر امیگریشن مسائل کے حوالہ سے حل تجویز کئے ہیں۔ آپ کی تقریر اور آپ کی شخصیت ہم سب کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ جس طرح آپ نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی مدد کریں وہاں پناہ گزینوں کو بھی یہ کہا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنا حصہ ڈالیں، یہ بہت متاثر کن تھا۔ یہ ان لوگوں کی بے چینی ختم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے جو کہتے ہیں کہ پناہ گزین ناحق فوائد حاصل کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اسلام ہر ایک کو معاشرہ کا مفید حصہ بننے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ جس طریق پر بھی یہ مدد کی جائے، ضرور کرنی چاہئے۔ اور اگر ہر ایک اس طرح کام کرے تو معاشرہ پر امن ہو جائیگا۔ مجھے یہ بھی سیکھنے کو ملا ہے کہ اسلام عورتوں سے سلوک کے حوالہ سے کیا تعلیم دیتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ مسلمان خواتین کمزور ہیں اور انہیں دبایا جاتاہے۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خواتین کو اسلامی معاشرہ مکمل آزادی دیتا ہے اور ہر گز ان کی ہتک کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی مسلمان کسی عورت کو ہراساں کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اسلام کے مخالف ہے اور اس کے لئے سزا تجویز کی گئی ہے۔ میں خلیفہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ اس ملک کو حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا ہے۔
ز…پروگرام میں میئر Joachim Rodenkirch بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
میں خلیفہ کی تقریر کے عنوان سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے خوف ہیں۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام انتہا پسند مذہب نہیں ہے بلکہ برداشت کا مذہب ہے۔
میئر نے مزید کہا کہ:
میں خوش ہوں کہ آپ نے امیگریشن کے حوالہ سے بھی بات کی ہے، کیونکہ یہ ہمارے معاشرہ کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ خلیفہ نے بہت متوازن رنگ میں بات کی ہے کہ دونوں فریقین کی بعض ذمہ داریاں ہیں جو انہیں ادا کرنی چاہئیں۔ اور یہ کہ اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک دونوں اطراف اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ نہ دیں۔ اگر میں آپ کی تقریر کا خلاصہ بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ اس وقت تک ہم امن حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم متحد نہ ہوں۔ نسل پرستی اور تعصّب کی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ ہمیں برداشت دکھانی ہے اور یہی اسلام ہے۔ مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ پناہ گزینوں کی جانب سے عورتوں کو ہراساں کرنے کے حوالہ سے بھی آپ نے بات کی ہے کیونکہ یہ معاملہ بھی آجکل زیرِ بحث ہے۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہےکہ عورتیں کوئی دوسرے درجہ کی مخلوق نہیں کہ جنہیں ہراساں کیا جائے بلکہ یہ برابر ہیں۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ جنسی طور پر ہراساں کرنا اسلام کے سراسر منافی ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حضورِ انور سے میں پہلی مرتبہ ملا ہوں اور میرے لئے یہ بہت سعادت کی بات ہے۔ آپ کی شخصیت اور آپ کا انداز ہی اتنا اچھا ہے کہ ہر کوئی خود بخود ہی آپ سے محبت کرنے لگتا ہے۔
٭…٭…٭
… … … … … … … …
9؍ ستمبر 2018ء بروز اتوار
(حصہ اوّل)
… … … … … … … …
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پچاس منٹ پر مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
بیعت کی تقریب
آج جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا تیسرا اور آخری روز تھا۔ پروگرام کے مطابق تین بجکر 45منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور بیعت کی تقریب ہوئی۔ یہ ایک عالمی بیعت تھی جو MTAانٹرنیشنل کے ذریعہ دنیا بھر کے ممالک میں براہ راست Liveنشر ہوئی۔ اور دنیا کے تمام ممالک کی جماعتوں نے اس مواصلاتی رابطے کے ذریعہ اپنے پیارے آقا کی بیعت کی سعادت پائی۔
آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر البانیا، افغانستان، بوزنیا، بلغاریہ، کروشیا، فرانس، جرمنی، ہنگری، Kosovo،Kurdish، لبنان، ناروے، پاکستان، São Tomé،سیریا، ترکش اور عرب سے تعلق رکھنے والے 42افراد نے بیعت کی سعادت پائی۔ ان میں سے 26مرد حضرات اور 16خواتین تھیں۔ آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔
نماز کی ادائیگی کے بعدحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ کے اختتامی اجلاس کے لئے جونہی سٹیج پر تشریف لائے تو ساری جلسہ گاہ فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی اور احباب جماعت نے بڑے ولولہ اور جوش کے ساتھ نعرے بلند کئے۔
اختتامی اجلاس
اختتامی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم محمد الیاس منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے کی اور بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ جب کہ اس کا جرمن زبان میں ترجمہ مکرم شعیب احمد عمر صاحب استاد جامعہ احمدیہ جرمنی نے پیش کیا۔
اس کے بعد عزیزم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
بڑی خوش الحانی سے پیش کیا۔
بعد ازاں سینیگال سے آنے والے ایک مہمان Alhaji Falou Sillaصاحب جو سینیگال کے ایک بڑے شہر امبور کے میئر ہیں اور ’’فرقہ مرید‘‘ کے خلیفہ کے نمائندہ کے طور پر آئے تھے، نے اپنا ایڈیس پیش کیا۔
موصوف نے کہا میں پہلی دفعہ جماعت کے جلسہ میں شرکت کر رہاہوں۔ اور میں اپنے آپ کو آپ کے پاس آکر بہت خوش پاتا ہوں۔
ہماری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات ہوئی ہے حضور انور نے ہمیں پیار، محبّت ، احترام اور بھائی چارہ اور اخوّت کا کہا ہے۔ہم انشاء اللہ العزیز اس پیغام کو سینیگال میں پھیلائیں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے۔
سینیگال میں جو ہمارے خلیفہ مرید ہیں ۔ ان کا بھی یہی پیغام ہے اور یہ ہمیں مل کر اکٹھے کام کرنے میں مدد کرے گا۔
میں خلیفۃ المسیح کو خلیفہ مرید کی طرف سے اور سینیگال کے لوگوں کی طرف سے سینیگال آنے کی دعوت دیتا ہوں۔
اس ایڈریس کے بعد موصوف نے حضور انور کی خدمت میں اپنے خلیفہ کی طرف سے ایک لباس اور لکڑی کی بنی ہوئی ایک کشتی بطور تحفہ پیش کی۔
تقسیم اسناد
بعد ازاں حضور انور نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے اور اعلیٰ کار کردگی دکھانے والے طلبا کو سندات اور میڈل عطا فرمائے۔ حضور انور کے دست مبارک سے درج ذیل خوش نصیب طلبا نے تعلیمی ایوارڈ حاصل کئے۔
اختتامی خطاب
تقسیم ایوارڈ کی تقریب کے بعد پانچ بجکر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا اختتامی خطاب فرمایا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد و تعوّذ و تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ التوبۃ کی آیات 32 اور 33 کی تلاوت کی اور فرمایا: ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مومنوں سے بجھا دیں اور اللہ ہر دوسری بات ردّ کرتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نور کو مکمل کر دے خواہ کافر کیسا ہی ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے خواہ مشرک کیسا ہی ناپسند کرے۔
یہ وہ آیات ہیں جو تمام ان لوگوں کے لئے واضح اور کھل کر اعلان کر رہی ہیں کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا میں اپنی خوبصورت تعلیم کے ساتھ پھیلنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو انسانی کوششیں بجھا نہیں سکتیں۔ قرآن کریم وہ کامل شریعت ہے جو دنیا کی ہدایت کا سامان کر سکتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی دین اور کوئی شریعت نہیں جو دنیا کو ہدایت اور نجات کے سامان مہیا کر سکے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور اب آپ کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آسکتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے مطابق کہ اب تمام دینوں پر غلبہ دین اسلام کو ہی ہو گا اور بعد میں آنے والے زمانے میں اس ہدایت کی اشاعت کی تکمیل کے لئے وہ ہدایت جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو آپ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ ظلی اور غیر شرعی نبی کا درجہ دے کر مسیح موعود اور مہدی معہود کے نام سے بھیجے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اعلان کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح موعود اور معہدی معہود بنا کر بھیجا جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اسلام کے پیغام کو پہنچایا۔ آپ کے زمانے میں بھی اسلام آپ کا پیغام یورپ میں بھی آ گیا امریکہ تک چلا گیا اور وہ جماعت آپ نے قائم کی جو اس کام کو خلافت کے نظام کے تحت جاری رکھے ہوئے ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام مخالفتوں کے باوجود جو اپنوں اور غیروں یعنی مسلمان علماء اور ان کے زیر اثر مسلمان حکومتوں اور لوگوں کی طرف سے ہوئیں اور ہو رہی ہیں اور اسی طرح غیر مذاہب کی طرف سے بھی یا غیر طاقتوں کی طرف سے بھی، اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنے نور کو دنیامیں پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال ان تمام مخالفتوں کے باوجود اور علماء کے مکروں اور حیلوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور ان کی شمولیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ایسے ایسے واقعات ہیں کہ ہر سننے والے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید، نو مبائعین کی رہنمائی اور ثبات قدم کے متعدد ایمان افروز واقعات کا تذکرہ فرمایا۔
…………………
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بجکر دس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور نے دعا کروائی۔ [حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب آئندہ کسی شمارہ کی زینت بنے گا۔ انشاء اللہ۔]
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کی حاضری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
امسال جلسہ سالانہ کی مجموعی حاضری 39,710 ہے۔ جس میں سے مستورات کی حاضری 19,568 اور مرد حضرات کی حاضری 19,013 ہے۔ اس کے علاوہ جو تبلیغی مہمان شامل ہوئے ان کی تعداد 1,129 ہے۔ بچوں کے سکول کھل جانے کی وجہ سے حاضری گزشتہ سال کی نسبت کچھ کم رہی ہے۔
اس جلسہ میں 99ممالک کی نمائندگی ہوئی ہے اور 3833 مہمان مختلف ممالک سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئے ہیں۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق مختلف گروپس نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔
سب سے پہلے جرمن زبان میں ایک گروپ نے دعائیہ نظم پیش کی ۔ بعد ازاں افریقن احباب پر مشتمل گروپ نے اپنے مخصوص روایتی انداز میں اپنا پروگرام پیش کیا اور کلمہ طیبہ کا ورد کیا۔
اس کے بعد عرب احباب پر مشتمل گروپ نے قصیدہ پیش کیا۔ اس کے بعد سپینش زبان میں ترنّم کے ساتھ ایک دعائیہ نظم پیش کی گئی۔ بعد ازاں میسیڈونیا (Macedonia)سے آئے ہوئے نو مبائعین نے میسڈونین زبان میں خوش الحانی کے ساتھ نظم پیش کی۔آخر پر خدام نے اردو زبان میں خلافت کے ساتھ عہد و وفا کا تعلق باندھنے کے مضمون پر مشتمل دعائیہ نظم پیش کی۔
جب یہ ترانے اور نظمیںپیش کی جا رہی تھیں اُس وقت بڑا روح پر ور ماحول تھا۔ جونہی یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا احباب جماعت نے بڑے ولولہ اور جوش کے ساتھ نعرے بلند کئے اور سارا ماحول نعروں کی صدا سے گونج اٹھا۔ ہر چھوٹا بڑا، جوان بوڑھا اپنے پیارے آقا سے اپنی محبت ، عقیدت اور فدائیت کا اظہار بڑے جوش سے کر رہا تھا۔ یہ جلسہ کے اختتام کے الوداعی لمحات تھے اور دل عشق و محبت اور فدائیت کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ اس ماحول میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کر کے اپنے عشاق کو السلام علیکم اور خدا حافظ کہا اور نعروں میں جلسہ گاہ سے باہر تشریف لائے اور کچھ دیر کے لئے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
نو مبائعات سے ملاقات
پروگرام کے مطابق سات بجکر 25منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی نَومبائعات نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ان نو مبائعات کی تعداد 24تھی اور 6بچے بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ ان خواتین کا تعلق جرمنی، ترکی، کُرد، کوسوو، فرانس، شام اور بنگلہ دیش سے تھا۔ ان میں سے 6خواتین ایسی تھیں جنہوں نے آج بیعت کی توفیق پائی تھی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے استفسار پر سیکرٹری تربیت برائے نو مبائعات نے بتایا کہ جلسہ کے دوران ہماری 6بیعتیں ہوئی ہیں۔
حضور انور کے دریافت فرمانے پر کہ یہ کون کون ہیں ان سبھی نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری تربیت نے بتایا کہ یہ زیر تبلیغ تھیں اور ہمارے رابطے میں تھیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اب انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ وہ احمدی ہو سکتی ہیں۔
ایک نو مبایع خاتون نے سوال کیا کہ تعلق باللہ کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ نیز اسلامی نام رکھنے کی درخواست کی۔
حضور انور نے فرمایا : اللہ کے احکامات پر عمل کریں کیونکہ تمام طاقتوں کا سر چشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ سے آپ کا تعلق مضبوط ہو گا۔ حضورِانور نےان کا نام ’نائلہ‘ تجویز فرمایا۔
ایک اور نو مبائع خاتون Mandy(مینڈی) نے دعا کی درخواست کی کہ ہم اچھے احمدی بنیں۔ نیز اپنا اسلامی نام تجویز کرنے کے لئے درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے۔ آپ خودبھی اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سیدھے راستے پر چلائے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا ہمیشہ کیا کریں کہ اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
نام کے متعلق حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نام مینڈی کا کیا مطلب ہے؟ اور کس نے رکھا تھا۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا مطلب کا علم نہیں۔ اور میرے بھائی نے یہ نام رکھا تھا۔
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ نام کیوں تبدیل کروانا چاہتی ہیں۔ آغاز اسلام سے قبل ہی ابو بکر، عمر ، عثمان اور علی نام پہلے سے تھے۔ آپ نام تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ یہ غیر اسلامی تو نہیں ہے۔خدیجہ، اسماء اور عائشہ بھی تو تھے۔ یا آپ خلافت کی برکت کی وجہ سے چاہتی ہیں؟ اس پر موصوفہ نے عرض کیا ایسا ہی ہے۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت ان کا نام ’ناصرہ‘ تجویز فرمایا۔ نیز فرمایا ناصرہ کا مطلب ہے مدد گار۔ اس لئے آپ خلافت کی مددگار بنیں۔
ایک نو مبائع خاتون نے بتایا کہ اس کا نام Martinaہے۔ وہ حضور انور کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے کہ اُس نے حضور انور کو خط لکھا تھا اور حضور انور نے اس کا جواب تحریر فرمایا ہے۔موصوفہ نے بھی اپنا اسلامی نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت ان کا نام ’ماریہ‘ تجویز فرمایا۔
ایک نو مبائع خاتونAnjaصاحبہ نے عرض کیا کہ میں نے حضور انور کو خط لکھا تھا جس کا حضور انور نے ازراہِ شفقت جواب تحریر فرمایا تھا۔ جس وجہ سے وہ آج ادھر بیٹھی ہوئی ہیں۔ موصوفہ یہ کہتے ہوئے شدّت جذبات سے آبدیدہ ہو گئیں۔
ایک نو مبائع بہن کی دو ماہ بعد شادی تھی۔ موصوفہ نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ فضل فرمائے۔ حضور انور کے استفسار پر موصوفہ نے بتایا کہ وہ کردستان کے اُس حصّہ سے ہیں جو عراق میںشامل ہے۔
ایک نو مبائع خاتون نے عرض کیا کہ ان کی نظر کی کمزوری کا مسئلہ ہے۔ انہیں Retinaکی پرابلم ہے۔ وہ دین کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا بھائی جیل میں ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ فضل کرے۔
ایک نو مبائع خاتون نے اپنا خواب بیان کیا جو اُس نے ایک سال قبل دیکھا تھا کہ دنیا کے حالات جنگ والے ہیں ایک طرف اندھیرا اور ایک طرف روشنی ہے۔ جب وہ اندھیرے میں چلتی ہیں تو دور سے انہیں روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ اُس روشنی سے ایک طرف انہیں ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ ایک احمدی خاتون نور سحر ان کو بلا رہی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: نور سحر مطلب ہے صبح کی روشنی۔
ایک خاتون Melanieصاحبہ نے عرض کیا کہ میں نےاس سال اپریل میں بیعت کی تھی۔میں بھی اسلامی نام کی درخواست کرتی ہوں۔ حضور انور نے ان کانام ’مریم‘ تجویز فرمایا۔
ترکی سے آنے والی ایک خاتون نے عرض کیا کہ مجھے پردہ کرنے میں مشکلات ہیں کیونکہ میری فیملی اس کو پسند نہیں کرتی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آپ کا خاندان مسلمان نہیں ہے؟ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ بہت Modernہیں اور میرے فیصلہ سے خوش نہیں ہیں۔ موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ بہت غمزدہ ہیں۔ نیز اپنا اسلامی نام رکھنے کی درخواست کی۔
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کا کیا نام ہے۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ قیصرہ نام ہے اور اس کا مطلب مضبوط عورت ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ تو پہلے ہی مضبوط ہیں۔ آپ کیوں نام تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت’ حِنا‘ نام تجویز فرمایا۔
ایک نو مبائع بہن نے السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے ہوئے اپنے بھائی کے لئے دعا کی درخواست کی کہ وہ بھی اسلام قبول کر لے۔ اُن کی فیملی ان سے بہت خوش ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا :آپ اُن سے بہتر ہیں۔ اسلامی نام رکھنے کی درخواست پر حضور انور نے ازراہ شفقت ’نادیہ‘ نام تجویز فرمایا۔
ایک نو مبائع بہن نے حضور انور کی خدمت میں السلام علیکم عرض کیا اور کہا کہ میرا تعلق تُرکی سے ہے اور میں نے بہت مشکلات برداشت کی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ حضور انورنَواحمدی لڑکیوں کے لئے کوئی پیغام دیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا:دعائیں کریں ۔ اللہ کی عبادت کریں، اُس کے احکامات پر عمل کریں۔ بندوں کے حقوق ادا کریں اور دوسرں کی عزّت کریں یہی ایک راستہ ہے۔
اس نو مبایع خاتون نے مزید عرض کیا کہ وہ ابھی کام کے دوران باہر جاتے ہوئے بھی کوٹ اور سکارف نہیں لیتیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا آہستہ آہستہ شروع کریں، پہلے چھوٹا سکارف لیں۔
آخر پر ایک نو مبائع بہن نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ ایک سال کے عرصہ سے احمدی ہیں اور دو تین ماہ بعد کونسل میں ان کا نکاح ہے۔ موصوفہ نے اپنے لئے اور والد صاحب کے لئے دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
حضور انور نے ازراہ شفقت چھوٹے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
نو مبائعات کی حضور انور سے ملاقات کا یہ پروگرام سات بجکر چالیس منٹ تک جاری رہا۔
نو مبائعین سے ملاقات
بعد ازاں سات بجکر 45منٹ پر نو مبائع حضرات نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔
ان نو مبائعین کی تعداد 25کے قریب تھی جن میں جرمنی، عرب اور ترکی سے تعلق رکھنے والے نو مبائع شامل تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے باری باری سب نو مبائعین سے تعارف حاصل کیا۔ ا ن میں سے بعضوں نے کہا کہ انہوں نے آج بیعت کی ہے۔
ایک پاکستانی نوجوان نے عرض کیا کہ وہ جرمنی میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں ۔ انہوں نے بھی بیعت کی ہے۔ اس پرحضور انور نے فرمایا پاکستان میں آپ کو مار پڑے گی۔ اس پر موصوف نے کہا کہ وہ تیار ہیں۔ پاکستان میں ہماری آدھی فیملی احمدی ہے۔
شام سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے عرض کیا کہ چھ سال قبل بیعت کی تھی اور اب پہلی بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر رہاہوں۔
ایک نو مبائع دوست نے عرض کیا کہ حضور انور اپنا دن کس طرح گزارتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اسی طرح جیسا آپ نے آج دیکھا ہے۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ میرا سارا ہفتہ ایسا ہی گزرتا ہے۔ کوئی ویک اینڈ نہیں ہے، کوئی رخصت نہیں ہے۔ اسی طرح روز مصروفیت ہوتی ہے۔
ایک جرمن نومبائع نے کہا کہ اُس نے احمدیت قبول کرنے سے قبل باقاعدہ ریسرچ کی، احمدیت کا مطالعہ کیا۔ ویب سائٹ پر جا کر ریسرچ کی اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جماعت احمدیہ ایک سچی جماعت ہے اور صحیح رستے پر ہے۔ پھر اس کے بعد میں نے جون میں بیعت کر لی۔
صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک نو مبائع نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ سال بیعت کی تھی۔ موصوف نے دعا کی درخواست کی ۔
اس پر حضور انور نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک بچے نے عرض کیا کہ 13سال کا ہوں اور جرمنی میں رہتا ہوں اور احمدی ہوں۔
ایک صاحب جنہوں نے ابھی بیعت نہیں کی تھی کہنے لگے کہ میں یکم اپریل سے احمدیہ کمیونٹی کا دوست ہوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: یہ کافی ہے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میں نے کل بیعت کی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:تو آج آپ کی بیعت کنفرم ہو گئی ہے۔
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں نے جولائی میں بیعت کی تھی اور آج بیعت کی تقریب میں بھی شامل ہو کر دستی بیعت کی ہے۔
ایک نو مبائع نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب نے 2007ءمیں بیعت کی تھی اور میں نے سال 2017ء میں کی ہے۔ اب میری عمر 17سال ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: جب آپ کے والد صاحب نے بیعت کی تھی تو اُس وقت آپ کی عمر 6سال تھی۔
ایک نو مبائع نے عرض کیا کہ میرا کیس پاس ہو چکا ہے۔ دعا کریں کہ میرے والدین سیریا سے یہاں آجائیں۔ میری ایک بہن کی عمر 16سال سے زیادہ ہے اس کو ویزا ملنا مشکل ہے۔ پیچھے اس کا وہاں رہنے کا مسئلہ ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا :آجائیں اور اپنی بہن کے لئے اپیل کر کے دیکھیں۔
نو مبائعین کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے یہ ملاقات آٹھ بجے ختم ہوئی۔ آخر پر تمام نو مبائعین نے باری باری حضورِ انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق یہاں Karlsruhe سے فرانکفرٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ حضورانور نے دعا کروائی اور قافلہ سوا آٹھ بجے یہاں سے ’’بیت السبوح‘‘ فرانکفرٹ کے لئے روانہ ہوا۔ جب حضورانور کی گاڑی جلسہ گاہ کے احاطہ سے باہر نکل رہی تھی تو راستہ کے دونوں طرف کھڑے ہزار ہا لوگ مرد خواتین اور بچوں، بچیوں نے اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو الوداع کہا۔ احباب جماعت مسلسل نعرے بلند کر رہے تھے۔بچیاں گروپس کی صورت میں الوداعی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ قریبًا دو گھنٹے کے سفر کے بعد دس بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے ساڑھے دس بجے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
بیعت کے حوالہ سے نو مبائعین کے تأثرات
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 42افراد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ ان بیعت کرنے والوں کا تعلق سترہ(17)مختلف اقوام سے تھا۔بیعت کی سعادت پانے والے احباب کی خوشی نا قابل بیان تھی۔ بعض احباب نے بیعت کے بعد اپنے تأثرات اور جذبات کا اظہار کیا جو درج ذیل ہے۔
٭ ملک لتھوانیا(Lithuania)سے ایک نوجوان طالبعلم Mr. Jakubas Cepaitis(یعقوبس چیپائتیس) نے کہا کہ جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے مجھے لگ رہا ہے کہ میں اس جماعت کا حصّہ ہوں۔ مجھے اب زندگی کا مقصد سمجھ آ یا ہے۔ مجھے حضور سے مل کر بہت خوشی ہوئی میں حضور کی شخصیت سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ حضور نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والے ہیں۔ حضور سے بات کر کے مجھے محسوس ہوا کہ دل کی گہرائیوں سے وہ مجھ سے بات کرتے ہیں۔ اسلام کی حقیقت کو میں نے پا لیا ہے اور میں آج بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔ میں اکثر اوقات شکوک میں مبتلا رہتا تھا لیکن اب اپنے ایمان میںمضبوطی پیدا کر کے باقی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا۔
٭ ایک سیرین نوجوان علی جاسم بیان کرتے ہیں:
الحمد للہ ، ایک سچی جماعت اور سچے لوگوں کا جلسہ، جو ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور مہمانوں سے بھی محبت کرنے والے اور ایک روحانیت سے بھر پور اجتماع میں نے دیکھا۔ جب میں یہاں آیا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر مجھے سر پرائز لگا اور جب میں نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو دیکھا تو میں نے اپنے اندر ایک عجیب و غریب تبدیلی محسوس کی جس نے میرے دل کو محبت سے بھر دیا اور میں نے خلیفہ کے چہرہ پرنور دیکھا۔ میں حق کی تلاش میں تھا، جو الحمد للہ مجھے یہاں مل گیا اور میں نے سچائی اور نور کے راستے کو پا لیا اور میں نے پورے انشراح صدر سے بیعت کرنےکا فیصلہ کر لیا۔
ملک البانیہ سے آنے والے ایک دوست مونگلن برک صاحب کہتے ہیں:
میں احمدیت کا شدید مخالف تھا۔ میرا بھائی اور میرا دوست احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔ میں ہر ممکن کوشش کرتا تھا کہ میرے بھائی کو احمدیت سے نفرت ہو جائے۔ بالآخر ہمارے درمیان یہ طَے ہوا کہ دونوں دعا کرتے ہیں۔ جو سچا ہو گا وہ جیت جائے گا۔ مسلسل دعا کے بعد میرا دل چاہنے لگا کہ پہلے اپنی آنکھوں سے جا کر جلسہ سالانہ اور خلیفہ وقت کو دیکھوں تا کہ جو بھی فیصلہ کروں وہ ناقص علم کی بنیاد پر نہ ہو۔ چنانچہ گزشتہ سال میں جلسہ میں شامل ہوا تو دل میں کچھ اطمینان ہوا مگر بےچینی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کن وقت آگیا اور مجھے حضور کا چہرہ دکھائی دیا تو ساری دشمنی، بغض، نفرت اور سارے شکوک دل سے نکل گئے۔ حضور کا مبارک چہرہ میرے دل پر نقش ہو گیا۔ اب میرے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ چنانچہ جلسہ سے واپس آکر میں نے بیعت فارم پُر کر دیا۔ اب اس دفعہ میں آیا ہوں اور حضور کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی ہے۔
اس دوران مجھے ایک اور مشکل درپیش تھی کہ میری منگیتر احمدی نہیں ہونا چاہتی تھی۔ چنانچہ کوشش کر کے اسے اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں۔ میری منگیتر نے حضور انور کا جب لجنہ میں خطاب سنا تو اُسی وقت احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ میری منگیتر نے کہا جس جماعت کے پاس اس قدر شفیق ، ہمدرد اور محبت کرنے والا خلیفہ ہو، اسے اس ایک وجود سے ہی ساری برکتیں مل گئیں۔ جو باقی مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔ اب ہم جلد ہی بطور احمدی شادی کریں گے۔
٭ ایک سیرین دوست فواد نزال صاحب بیان کرتے ہیں:
جلسہ پر آنے سے پہلے ایک احمدی دوست کے ذریعہ مجھے جماعت کا تعارف ہو چکا تھا۔ جماعتی عقائد کو سمجھنے کے لئے میں نے چند کتب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اور اب جب میں اپنے احمدی دوست کے ساتھ جلسہ سالانہ پر شرکت کے لئے آیا تو میں نے بالکل مختلف اور نہایت دلکش ماحول پایا۔ مختلف قوموں اور مختلف زبانوں کے باوجود لوگ آپس میں محبت، اخوّت اور ایک دوسرے سے احترام سے پیش آرہے تھے گویا کہ وہ ایک ہی قوم ہیں۔ یہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی اشاعت کا عملی نمونہ ہے۔ اس طرح کے اخلاق میں نے کبھی بھی کسی اجتماع پر نہیں دیکھے۔ میرے دل پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔
میں پہلے خلیفہ وقت کے خطابات اور خطبات MTA پر دیکھا کرتا تھا لیکن جب مجھے با لمشافہ حضور کا دیدار نصیب ہوا تو میرے دل میں آپ کے لئے محبت پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی۔حضور کی قوّت قدسیہ کی تاثیر اور چہرے کی نورانیت عیاں تھی۔ میں ہفتہ کی ساری رات یہ دعا کرتا رہا کہ اے اللہ! اگر یہ جماعت سچی ہے تو مجھے اس جلسے میں بیعت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرتے ہوئے مجھے اطمینان قلب عطا فرمایا اور میں بیعت کر کے اس جماعت کا حصّہ بن گیا ہوں جو کہ واقعی سچی اور اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔ اور مجھے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے پر کسی قسم کا رنج و ملال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے حق پر قائم رہنے کی توفیق دے اور ثبات قدم عطا فرمائے۔
……………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭