بوسنیا کی جنگ اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بصیرت افروزارشادات(قسط دوم۔آخری)
تبلیغ کی خاطر خدمت نہیں کرنی کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں میں نے خدمت کا مضمون دیکھا ہے کہیں بھی ایک جگہ بھی مجھے یہ بات دکھائی نہیں دی کہ تبلیغ کی خاطر اپنا دین پھیلانے کی خاطر خدمت کرو، بلکہ خدمت کے ذکر میں دین کا ذ کر ہی کوئی نہیں
احمدیوں کو مہاجرین سے حسن سلوک اور یتیم بچوں کو پالنے کی تحریک
’’میں یہ اعلان کر تا ہوں کہ سرب جومہاجر آئے ہیں ان کے ساتھ محبت کا سلوک کریں، ان سے تعلقات قائم کریں، ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں اور اُن کے ذریعہ اگر ان کے بچے مل سکتے ہوں تو ان کے بچوں کو پالا جائے۔مغرب میں بعض قوانین کی دقتیں ہیں اُن سے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن دقتوں کے باوجود احمدیوں کے لئے ممکن ہے کہ وہ سرب بچوں کو اپنائیں اور ان کے لئے ماں باپ سے زیادہ محبت کا سلوک کرنے کی کوشش کریں۔ان سے ماں باپ سے بڑھ کر محبت کا سلوک کرنے کی کوشش کریں۔وہ ِللہ مظلوم ہیں اور اپنے بچوں سے محبت کرتے وقت تو آپ کے طبعی تقاضے ہیں اُس میں بھی نیکی ہوتی ہے کہ خد اکی خاطر محبت کی جائے۔مگر ایسے بچے جو محض خدا کی خاطر یتیم بنائے گئے ہوں یہ وقت ہے کہ ان سے غیر معمولی محبت اور پیار کا سلوک کیا جائے۔اوراحمدی گھروں میں زیادہ سے زیادہ ان کو اپنایا جائے۔پس جن ممالک میں قانونی روک کوئی نہیں ہے وہاں تو احمدیوں کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ اُن بچوں کو اپنا لیں۔جہاں قانونی روکیں ہیں وہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ عارضی طورپر امانتاً وہ بچے لئے جائیں۔مستقل بچہ لینا Adoptکرنا جس کوکہتے ہیں یہ نہ تو اسلام میں ویسے Adoptionجائز ہے۔یعنی ان معنوں میں Adoptionکہ گویا وہ جائداد میں بھی شریک ہو جائے گا او رجو قوانین انسانی تعلقات کے ہیں وہ اُس بچہ پربھی اطلاق پائیں گے اور اُس کے منہ بولے ماں باپ پر بھی اطلاق پائیں گے یہ Adoptionہے جس کی راہ میں بہت دقتیں ہیں۔اور احمدیوں کو ایسی Adoptionمیں دلچسپی بھی کوئی نہیں کیونکہ وہ خلاف اسلام ہے۔ہم امین بن کر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور اُن کے نتیجے میں نہ ہمیں کوئی ملکی حقوق حاصل ہوں گے کسی قسم کے نہ اُن بچوں کو کوئی ایسے حقوق حاصل ہوں گے جو قرآن کریم کے جاری کردہ نظامِ وراثت پر اثر انداز ہوں۔
اس پہلو سے ان حکومتوں کی طرف سے بھی ایک راستہ کھلا موجود ہے اوروہ امانتاً وہ بچے سپرد کر دیتے ہیں بعض دفعہ تھوڑی دیر کے لئے بعض لمبے عرصے کے لئے۔چنانچہ پانچ،دس سال، پندرہ سال بھی ان بچوں کی خدمت کی توفیق مل جائے تو ایک بہت بڑی خدا تعالیٰ کی طرف سے سعادت ہوگی۔تو یورپ کے ممالک میں ہر احمدی کو چاہئے یہ کوشش کرے اور ان مظلوموں سے تعلقات قائم کریں اور ان کی انسانی سطح پر ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرے اور جوضرورتیں ان کی طاقت سے بڑھ کر ہوں اور کسی اور طرف سے پوری نہ ہو رہی ہوں اُن سے متعلق جماعت کو متوجہ کریں۔انشاء اللہ تعالیٰ جماعت اس معاملہ میں اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر طرح مدد کرنے کی کوشش کرے گی۔تو مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت جس طرح کہ ہمیشہ ہرنیک تحریک پرضرور لبیک کہتی ہے اس تحریک پر بھی انشاء اللہ ضرور لبیک کہے گی۔خدا کرے کہ مسلمان حکومتوں کو بھی لبیک کہنے کی توفیق ملے ورنہ یہ نہ ہو کہ آئندہ زمانہ ان پر طعن کرے کہ ع
ناداں جھک گئے سجدے میں جب وقت ِقیام آیا
پہلے قیام کی باتیں کیا کرتے تھے جب سجدوں کا وقت تھا، قیام کا وقت آیا ہے تو سجدوں میں جا پڑے ہیں۔ یہ بے محل اور بے ترتیب بے سلیقہ باتیں ہیں مومن کو زیب نہیں دیتیں۔اب وقت ہے اسلامی جہاد کا، اس جہاد میں تمام اسلامی ملکوں کو پوری طرح حصہ لینا چاہئے اورغیراللہ کے خوف کو بالکل دل سے نکال دینا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 711تا712)
جماعت امریکہ کو بوسنین پناہ گزینوں سےحسن سلوک کی نصیحت
’’میں مختصراًآپ کو ایک اور قوم کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جس کا ایک معمولی حصہ امریکہ میں پناہ گزیں ہوا ہے اور وہ ہمارے مظلوم مسلمان بوسنین بھائی ہیں۔ آج کی عصر حاضر کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں جس پر ایسا ظلم کیا گیا ہوجیسا بوسنین پر ظلم کیا گیا ہے اور جس ظلم میں تمام یونائیٹڈ نیشنز شامل ہو گئی ہیں کیونکہ امریکہ کی غلامی میں آج یونائیٹڈنیشنز صرف امریکہ کا ایک بیان دینے والا نمائندہ بن چکی ہے اور یونائیٹڈنیشن کے فیصلوں کے تابع یہ مسلسل ظلم ہو رہے ہیں جو بوسنینز پر کئے جارہے ہیں۔ ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے اور ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ورنہ یورپ کی کوئی اور قوم اگر بوسنین کی جگہ ہوتی جو عیسائی ہوتی یا دہریہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا۔ پس جس ظالمانہ طور پر ان کو مٹا یا جا رہا ہے جس طرح ان کے مردوں، عورتوں اور بچوں پر مظالم توڑے جارہے ہیں۔ اس کی مثال ہٹلر کے زمانہ میں کچھ دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ انسانی تاریخ میں کم دکھائی دے گی۔ قتل عام تو بہت ہوئے ہیں۔ ہلاکوخان نے بھی قتل عام کئے، چنگیزخان نے بھی قتل عام کئے اور بھی بہت بڑے بادشاہ تھے جنہوں نے مشرق ومغرب میں قتل عام کئے لیکن جن مظالم کا میں ذکر رہا ہوں وہ قتل عام سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مظلوم معصوم عورتوں پر جس قسم کی زیادتیاں کی گئی ہیں، معصوم بچوں کو جس طرح آگ میں جلایا گیا ہے یادیواروں سے سرمار مار کر ان کے پرخچے اُڑائے گئے ہیں۔ ایسے ایسے خوفناک، اذیت ناک مظالم ہیں کہ ان کا تصور عصرحاضر میں تو درکنار ازمنۂ گزشتہ میں بھی ممکن نہیں وہاں بھی کبھی آپ کو ایسے خوفناک مظالم کی تاریخ دکھائی نہیں دے گی۔ شاید کہیں شاذ کے طور پر ایسے واقعات ہوئے ہوں مگراس متمدن دنیا میں اس مہذب دنیا میں جسے مہذب کہا جاتا ہے، اس دنیا میں جہاں کہا جاتا ہے کہ تہذیب وتمدن اپنے عروج پر ہیں ان سب قوموں کی آنکھوں کے سامنے ایسے دردناک مظالم توڑے جارہے ہیں جو جانوروں کی دنیا میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ یہ وہ مظلوم قوم ہے جس کے چند افراد آج امریکہ میں بھی آباد ہیں۔میں تمام جماعت احمدیہ امریکہ کو کہتا ہوں کہ اپنی ترجیہات میں اولیت اس بات کو دیں کہ اپنے مظلوم بوسنین بھائیوں سے محبت کا سلوک کریں، انہیں اپنائیں، انہیں اپنے خاندانوں کا حصہ بنائیں، ان کی ہر طرح خدمت کریں، ان کے دین کو بھی بچائیں، ان کے کلچر کو بچائیں۔ ان کو بتائیں کہ اگر آج تم نے مغربی دنیا کی ظاہری حرص وہوا سے متاثر ہو کر ویسے ہی رنگ اختیار کرلئے تو پھر دنیا میں بوسنیا کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍جون 1993ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد12صفحہ486تا487)
بوسنین بھائیوں کی خدمت کی تلقین
’’اس وقت جو خصوصیت کے ساتھ نصرت کے محتاج ہیں، فی سبیل اللہ جن کی خدمت کرنا آج جماعت جرمنی پر اور یورپ پر خصوصیت سے فرض ہے وہ اپنے بوسنین بھائیوں کی خدمت ہے۔یہ محض للہ ستائے گئے ہیں ان کا اور کوئی قصور نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ اسلام سے وابستہ تھے اور جن طاقتوں نے بھی یہ فیصلہ کیا بہت بڑا ظلم کیا کہ یورپ کے دل میں یہ ہم ایک اسلامی حکومت نہیں بننے دیں گے۔ اگرچہ ان کو خود اسلام کا علم نہیں تھا مگرمارے اسلام کے نام پر گئے ہیں۔ کاٹے اسی لئے گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے دامن کو تھاما ہوا تھا اور کسی قیمت پر اس سے علیحدہ ہونے پر آمادہ نہیں تھے۔ پس یہ انصار ہیں آج جن کے ساتھ آپ کو سب سے زیادہ محبت کا سلوک کرنا چاہئے۔ اگر ایسا کریں گے تو آنحضرت ﷺآپ کو خوش خبری دیتے ہیں کہ اللہ آپ سے محبت کرنے لگے گا۔ خدا کرے کہ آپ بنی نوع انسان سے اللہ کی خاطر محبت کریں اور اللہ بنی نوع انسان کی خاطر آپ سے محبت کرنے لگے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی 1994ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 405تا406)
بوسنین مسلمانوں کی خدمت کے لیے مالی تحریک
’’سب سے پہلے بوسنیا کی یتیم بچوں کے متعلق میں نے تحریک کی تھی پھر بچوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ وہاں کے جو بڑے بالغ افراد بھی چھوٹے، بڑے،مرد،عورتیں سب اُجڑکے آئے ہیں ان کی حالت انتہائی دردناک ہیں اور جماعت احمدیہ عالمگیر کا فرض ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق ضرور ان کی کچھ خدمت کرے۔ اس سلسلے میں میں نے اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے جو بہت معمولی ہے لیکن اس لئے بیان کررہا ہوں کہ حسب توفیق باقی جماعت کو بھی توفیق ملے اور پہلے میرا دستور تھا کہ جو تحریک کرتا تھا اُس کا ایک فیصد اپنی طرف سے وعدہ کیا کرتا تھا اور اُس کا اعلان بھی کر دیتا تھا تاکہ جماعت میں تحریک پیدا ہو۔ پھر میں نے یہ روک دیا اس وجہ سے کہ انسان کا نفس کا پتاکوئی نہیں کس وقت آدمی کو ڈس لے تو اگرچہ علانیہ قربانی کا بھی حکم ہے لیکن مخفی قربانی کا بھی حکم ہے۔ اس لئے کچھ عرصہ میں اس سے رکا رہا لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ اس سے کچھ نقصان ہوا ہے۔ جب میں اپنا چندہ ظاہر کیا کرتا تھا تو بعض ایسے خاندان تھے جو میرے ذہن میں ہیں وہ ضرور کوشش کرتے تھے کہ اُس سے زیادہ چندہ دیں جب میں نے ظاہر کرنا بند کردیا تو اُن کا چندہ میرے چندوں سے کم ہونا شروع ہو گیا اس لئے آج میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جو تحریکات آپ کے سامنے رکھتا ہوں اُن میں انشاء اللہ حسب سابق کوشش کروں گا کہ کم ازکم ایک فیصد ضرور اپنی طرف سے پیش کروں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 776)
بوسنیا کے لیے مالی تحریک پر جماعت کا رد عمل
’’بوسنیا کی تحریک‘‘میں اس وقت تک جو Responseیعنی اپیل کے جواب میں لبیک کہا گیا ہے وہ 78ہزار672 پاؤنڈ ہے مگر یہ بہت ہی کم ہے۔ اتنے درد ناک حالات ہیں اور اتنی بڑی ضرورت ہے کہ جو جہاد کرنے والے ہیں ان کے لئے اُن کے پاس نہ بوٹ ہیں، نہ گرم کپڑے ہیں بہت ہی دردناک حالت میں وہ دین کی خاطر یہ بڑا درد ناک جہاد کر رہے ہیں تو جماعت احمدیہ کو انفرادی طورپر یا جماعتی طورپر جسمانی لحاظ سے جہاد میں شرکت کی توفیق نہیں ہے تو مالی لحاظ سے تو کر سکتی ہے۔چنانچہ ہم بڑے وسیع پیمانے پر رابطے بڑھا رہے ہیں۔ بعض ملکوں میں پچاس پچاس ہزار بوسنین مہاجرین ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اپنی ضرورت بتاؤ تو وہ بوسنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں پر خرچ کرو جو بڑی عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ وہاں جب میں نے وفد بھجوانے شروع کئے یعنی جماعت کو توفیق ملی تو ایک رپورٹ آئی کہ اس میں کچھ جرمن نیک دل لوگ بھی شامل ہوگئے اور جماعت کے نمائندوں نے ٹرک لیا اور مال لے کر وہاں پہنچے تو کہتے ہیں کہ اتنے درد ناک حالات تھے کہ وہ جرمن جو غیر مسلم تھے ان کی چیخیں نکل گئیں۔ سخت سردی میں معصوم بچوں نے جن کے پاس چھوٹے بوٹ تھے انہوں نے آگے سے بوٹ کاٹ کر تاکہ پاؤں کو آگے سے چبھے نا اور پنجہ دبے نا،آدھا پاؤں باہرنکلا ہوا تھا اور کپڑے پورے نہیں تھے فاقوں کا شکار۔کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ یہ اثر ہمارے دل پر اس وقت ہوا جب ہم نے کہا کہ ہمیں اور بتاؤ کہ تمہیں کیا ضرورت ہے ہم پھر آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہماری طرف نہ آؤ ان مجاہدوں کی طرف جاؤ جو بڑ ے دردناک حالات میں نہتے لڑ رہے ہیں اور ان کی مدد کرو تو جماعت کو اس سلسلہ میں دل کھول کر آگے قدم بڑھانا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍جنوری 1993ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 12صفحہ 95تا96)
بوسنیا کے لیے مالی تحریک کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا: ’’میں نے اللہ کے فضل سے بوسنیا کی مدّ میں ایک ہزار پہلے پیش کیا تھا۔ اب میں نے پانچ ہزار کا اضافہ کر کے چھ ہزار پاؤنڈ کر دیا ہے تاکہ ہمارے جو متمول احمدی دنیا بھر میں ہیں ان کو یہ پیغام مل جائے۔ میں نے ایک فارمولہ یہ پیش کیا تھا کہ میں ایک کروں تو آپ سارے مل کر سو تو کریں۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف 100 متموّل احمدی چھ چھ ہزار پاؤنڈ پیش کردیں یعنی پہلے جو دیا ہے اس کو بیچ میں سے بے شک منہا کر لیں تو یہ ایک کافی رقم مہیا ہو جائے گی اور بوسنین کو ضرورت بہت زیادہ ہے۔ بعض ملک ایسے ہیں کہ ایک ایک ملک میں ستر ستر ہزار مہاجر بیٹھا ہوا ہے اور سب کچھ لٹا کر آیا ہوا ہے اور جب بھی جماعت نے ان سے رابطہ قائم کیا ہے۔ ہر دفعہ ان کا ہمیشہ یہی جواب ملا ہے کسی جگہ بھی استثنا نہیں کہ ہاں ہمیں آپ کچھ دے رہے ہیں شکریہ، بہت ممنون ہیں، لیکن ہمارے جو مجاہد پیچھے رہ گئے ہیں ان کا خیال کریں، ان کے لئے ضرور کچھ رقم پیش کریں چنانچہ اب میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی طرف سے جو بھی رقم ملا کرے گی اس کو صرف مقامی طو ر پر مہاجرین کے لئے خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی مرکزی تنظیم کے حوالے ایک حصہ کو اور بڑے حصہ کو کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مختلف مصارف میں اس کو استعمال کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 1993ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 132تا133)
بوسنیا کےلیے جماعت کی مالی خدمات کا تذکرہ
’’مختصراً میں بوسنیا کی تحریک سے متعلق چند اعداد و شمار رکھتا ہوں تاکہ وہ جماعتیں جو ابھی تک اس قربانی میں پوری طرح شریک نہیں ہو سکیں۔ اُن کو بھی ایک تحریک پیدا ہو اور باقی اپنے دوسرے بھائیوں سے آگے بڑھنے کی روح ان کے اندر بھی جولانی دکھائے جب سے میں نے یہ اعلان کیا کہ باقی دوسرے متموّل صاحبِ حیثیت دوستوں کے لئے تحریک کی خاطر میں اپنا وعدہ ایک ہزار پاؤنڈسے بڑھا کرچھ ہزار پاؤنڈکرتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے ہر طرف سے اس اعلان پر بہت ہی مثبت نتائج کی اطلاع مل رہی ہے۔ سب سے پہلے انگلستان کی احمدی مخلص خاتون نے خطبہ جمعہ سنتے ہی اُسی وقت چھ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ اپنی طرف سے اور بچوں کی طرف سے کیا اور ادا کر دیا اور پھر ماریشس سے ایک مخلص احمدی دوست کی فیکس فوراًملی کہ وہ اپنے اور بزرگوار کی طرف سے بارہ ہزارپاؤنڈ کا وعدہ کرتے ہیں۔ پھر پاکستان میں سب سے پہلے راولپنڈی پاکستان سے لبیک ہوئی اور ایک مخلص احمدی ڈاکٹر نے چھ ہزارپاؤنڈ کا وعدہ بھی پیش کیا اور ادا ئیگی بھی کر دی۔ پھر ایک اور احمدی ڈاکٹر کی طرف سے بھی اسی طرح وعدہ ہوا۔ پھر کراچی جماعت سے متعدد احباب کے وعدے اور وصولیوں کی اطلاع ملی۔ بعض نے چھ چھ ہزار کے وعدے کرکے ادائیگی کی، بعض نے 12ہزار کی بھی کی اور ایک خاندان کے تین افراد نے چھ چھ ہزار یعنی ۔/18000کے وعدے کئے۔ یہاں تک مجھے یاد ہے کہ ادائیگی اُس خاندان نے بھی کر دی۔ اب تک یہ رقم بڑھ کر 2,10,000پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہے اور یہ وعدے نہیں ہیں بلکہ وصولیاں ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ اس تحریک میں الا ماشاء اللہ جس نے وعدہ کیا اُس نے فوراً ادائیگی بھی کر دی۔ یہ جو فہرست ہے، انفرادی جنہوں نے چھ ہزار یا بعض نے بارہ ہزار یا کسی نے دس ہزار، وعدے کئے ہیں۔ اس کی تعداد 14بن جاتی ہے اور وہ جماعتیں جنہوں نے چھ ہزار کے مجموعی وعدے یا ادائیگیاں کی ہیں اُن کی تعداد سردست 5ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستان میں تو انفرادی طور پر وعدہ کرنے والوں کی بھاری تعداد ہے۔ 4بیرون پاکستان سے ہیں اور 10پاکستان سے، لیکن جماعتی لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے پاکستان کا وعدہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ جن جماعتوں نے چھ ہزار یا اس کے لگ بھگ ادا کرنے کی توفیق پائی ہے اُن میں کینیڈا کی طرف سے جن کا 10ہزار کا وعدہ تھا 6,022کی ادائیگی ہو چکی ہے۔ امریکہ کی طرف سے 6737کی، بنگلہ دیش کی طرف سے 6,195کی، سوئٹزر لینڈ کی طرف سے 6,000اورجاپان کی طرف سے 6000۔
دنیا کی جماعتوں میں فہرست اولیت کے اعتبار سے یعنی آگے بڑھنے کے اعتبار سے ساری تو میں پیش نہیں کر سکتا لیکن چند ایک نام دعا کی تحریک کی خاطر پیش کرتا ہوں۔ پاکستان کی طرف سے اب تک 62692پاؤنڈ کی ادائیگی ہو چکی ہے اور برطانیہ کی طرف سے 45297پاؤنڈ۔ اس میں سے بہت بڑی رقم وہ ہے جو احباب اور خواتین نے خود مجھے دی اور میری وساطت سے آگے مرکز میں پہنچی ہیں لیکن اس میں وہ زیور شامل نہیں ہیں جو خواتین پیش کر رہی ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جس طرح پہلی تحریک میں یہاں خواتین نے زیور پیش کرنے کا حیرت انگیز نمونہ دکھایا تھااب وہی نظارے اُس سے ملتے جلتے پھر دکھائی دینے لگے ہیں۔ امریکہ، جرمنی کی باری اُس کے بعد ہے اُن کی طرف سے 44758پاؤنڈ کی ادائیگی ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کینیڈا، امریکہ، سوئٹزر لینڈ وغیرہ ان سب کی باری بعد میں آتی ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ بنگلہ دیش جس پر بہت زیادہ مالی بوجھ ہے اور چونکہ وہاں مسجدیں جلائی گئیں اور بھاری نقصان جماعت کو پہنچا اور بڑی قربانی کی روح دکھاتے ہوئے خدا کے فضل سے اپنی ضائع شدہ نقصان والی جائیداد کو بحال کیا، بہت خرچ کیا اور بہت محنت کی لیکن اس تحریک میں فوری طور پر اُن کی طرف سے 6000پاؤنڈ سے زائد کی وصولی کی اطلاع ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بہترین جزا دے اور اُن کے اموال میں اور بھی برکت دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍مارچ1993ء،مطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 178، 179)
بوسنیا کے مسلمانوں کے لیےجماعت کی خدمات اور ان سے مواخات کی تحریک
’’میں آپ کو بوسنیا سے متعلق کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں بوسنیا کے مسلمانوں پر جو گزررہی ہے اس کے متعلق جتنابھی بتایاجائے وہ کم ہوگااتنادرد ناک،اتنا دلوں کو ہلا دینے والا ظلم وہاں توڑاگیا ہے کہ اس کے ذکرسے بھی انسان یعنی میرے جیسا انسان توکم سے کم لرز اُٹھتا ہے اور توفیق نہیں پا سکتا کہ ذکر کرے۔ انسانی طاقت سے اس کاذکربڑھ کر ہے۔پس جس دردناک عذاب کے ذکرکی نوعیت یہ ہوکہ ذکر کی طاقت سے بڑھ جائے وہاں کیا ہو ا ہوگاکیاگزری ہوگی اس کا آپ حقیقت میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس ضمن میں جو کارروائیاں کی جارہی ہیں اس سلسلہ میں ایک فوری کارروائی یہ ہے کہ بوسنیاسے ایک ٹیلی ویژن کانمائندہ وفد کل سے یہاں آیاہوا ہے اور سویڈن کے کچھ نمائندے جو اس خدمت میں پیش پیش ہیں وہ بھی یہاں پہنچے ہوئے ہیں ان کے ذریعہ ہمیں بہت سی ویڈیو کیسٹس ملی ہیں اور وہ بتارہے تھے وہ بیچارے بالکل اس معاملے میں بے بس ہیں بہت تھوڑاہے جو دنیا کے ٹیلیویژن پہ دکھایا جاتاہے اور بوسنیا کی حکومت اس وقت جس قسم کے مختلف مسائل میں گھری ہوئی ہے ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ اقتصادی مسئلہ ہے فوجیوں کو وردیاں تک لے کر دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ہتھیار خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ٹیلی ویژن کے ذریعہ پروپیگنڈا توبعد کی باتیں ہیں توانہوں نے درخواست کی کہ ہماری طرف سے جماعت احمدیہ یہ خدمت قبول کرے۔میں نے ان کوبتایاکہ ہم تو پہلے ہی اللہ کے فضل سے یہ کر رہے ہیں اور جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے ٹیلی ویژن کے پروگرام دکھائے جارہے ہیں مثلاًخطبات میں بھی میں ذکر کرتاہوں اورہر جگہ جماعت پھر آگے اپنے اخبارات وغیرہ کے ذریعہ کوشش کرتی ہے کہ آپ کی درد ناک کہانیوں سے دنیا کسی حد تک واقف ہو سکے۔انہوں نے کچھ ویڈیوزجودی ہیں ان کے متعلق میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے ملکوں میں اگر کچھ خرچ کر کے بھی وہ پروگرام ٹیلی ویژن پر دکھائے جا سکتے ہوں تودکھائے جائیں۔امریکہ میں ایسے کیبل ٹیلیویژنزہیں جن کے ذریعہ کثرت کے ساتھ یہی ویڈیوز وہاں دکھائی جا سکتی ہیں ایسے بعض غیر حکومتی ادارے ہیں وہ بکثرت ایسے ہیں جو چندڈالرزکے عوض بہت معمولی قیمت پرعلاقائی پروگرام دکھاتے ہیں اوروہاں بھی یہ ویڈیوز پیش کی جاسکتی ہیں جاپان میں جاپانی ٹیلی ویژن سے رابطے کر کے ان کے ذریعہ دکھائی جاسکتی ہیں غرض یہ کہ یورپ کے ممالک میں بکثرت ایسے مواقع ہوں گے۔افریقہ تو بہر حال اللہ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اتنے اثر میں ہے کہ وہاں یہ کام بالکل مشکل نہیں ہے۔تودنیا کے کونے کونے میں یہاں تک کہ فجی آئی لینڈمیں بھی اگر ٹیلی ویژن موجود ہو تو وہاں بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ یہ جو حقائق پیش کئے گئے ہیں یہ سب دنیا کے سامنے لانا چاہئیں۔
بوسنیاکی خدمت کے سلسلے میں یورپین جماعتیں اللہ کے فضل سے بہت ہی مستعد ہیں اور بڑے گہرے اور وسیع رابطے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی خدمت پربعض چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی انتھک مامور ہیں اور جتنا خدمت کرتی ہیں اتنا ہی ان کا خدمت کا جذبہ بڑھتاجاتاہے،تھکتے نہیں ہیں۔ شروع شروع میں بعض دوسری مسلمان تنظیموں نے بھی کام شروع کیا اور مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ وہ کررہی ہیں میں نے کہا بہت اچھی بات ہے،آپ ان کی مدد کریں مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ وہ میدان میں آئیں گے تو ہماری ساکھ خراب ہوگی۔مجھے ڈریہ ہے کہ کچھ دیر کے بعدتووہ تھک کر چھوڑ دیں گے اور صرف آپ کو اکیلے کام کرناپڑے گا۔تواب جو حالات سامنے آرہے ہیں یہی کیفیت ہے۔اکثر جگہ یا وہ تھک کر چھوڑ گئے ہیں یا اس رنگ میں خدمت کی کوشش کی جس کا بہت ہی برا اثرپڑاہے۔مثلاً بعض جگہ(اب نام لینا مناسب نہیں) احمدی وفدجب ایک کیمپ میں پہنچاتووہاں کے مسلمان بوسنین مہاجرین نے ملنے سے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے پہلے ایک مولویوں کا وفد آچکاہے اور اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کرنی بڑی منت سماجت سے سمجھاکر ان سے کہا کہ ہمیں کچھ موقع تو دوبتاؤ تو سہی کیا ہوا تھا۔توبتایایہ کہ ایک مولویوں کا وفد آیاہمیں دین سکھانے کے لئے اور جب ہم نے ان کو بتایا اور ان سے گزارش کی کہ ہمارے حالات تو سنو کہ ہم پرکیابیت رہی ہے۔ تو حالات میں دلچسپی لینے کی بجائے انہوں نے کہا ہمیں صرف یہ بتاؤ پہلے کہ تم نے ختنے کروائے ہوئے ہیں کہ نہیں کہتے ہیں ہم حیران رہ گئے ہمارے سر کٹ رہے ہیں،ہماری عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں ہمارے سینے چھلنی ہیں اور ان ظالموں کو یہ فکرپڑی ہے کہ ہم نے ختنے کروائے ہوئے ہیں کہ نہیں یہ لطیفہ نہیں ہے کہ ہنسنے کی بات نہیں ہے، بہت درد ناک واقعہ ہے۔کہتے ہیں ایسی نفرت ہوئی ہمیں اسلام سے یااس قسم کے اسلام سے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کرنی۔وہ ایک چرچ میں ٹھہرے ہوئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مولویوں نے ان کو لازماً عیسائی بناکرچھوڑنا تھا۔خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کو توفیق ملی ان کی خدمت کی اوران کوسینے سے لگایا اورپیار دیا۔اس کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی اورپھر انہوں نے واقعات سنائے خودہی مختلف جگہوں سے جو واقعات مل رہے ہیں اس جگہ صرف بات نہیں کررہا۔ایسے واقعات سنائے ہیں کہ ہمیں چرچ کی طرف سے مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ ہم سؤر کا گوشت کھائیں اورسؤرکے گوشت کے سوا اور کوئی گوشت دیتے ہی نہیں تھے تو ہم نے صاف انکار دیا۔اتنا اسلام توبہرحال ان میں ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے کہا ہم زیادہ پکے مسلمان نہ سہی مگر سؤر کبھی نہیں کھائیں گے اس لئے وہ سبزیاں جو بھی تھیں اس سے گزارہ کیا بالآخر وہ لوگ مجبور ہو گئے اورپھر انہوں نے سؤراسMenuسے ہٹا لیا۔
اس ضمن میں جو نمونے ہیں چندخدمت کے وہ میں آپ کے سامنے رکھتاہوں۔بعض مہاجربچیوں کی یہاں شادیاں ہوئیں ان کی شادیوں میں جماعت نے خاص طورپر خواتین نے بہت خدمت کی ہے حصہ لیاہے۔بچوں کی ولادتیں ہوئیں ہیں اس موقع پر خاص طورپر جماعت کے بہت سے خاندانوں نے مل کر ان کو تحائف بھی پیش کئے اور زچہ و بچہ کا خیال رکھا۔گرم کپڑے بستر کھانے پینے کی اشیاء اور مالی امداد جہاں جہاں ضرورت پیش آتی ہے سب یورپین جماعتیں خدا کے فضل سے اس میں آگے بڑھ رہی ہیں کچھ رپورٹیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
میں جب اوپر گھڑی کی طرف دیکھتا ہوں تو مختلف ممالک سے لوگ لکھتے ہیں کہ آپ گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں توہمارادل گھٹتا ہے تومیں کیا کر سکتا ہوں جب وقت گھٹ رہا ہے تو ساتھ ساتھ دل بھی گھٹے گا،جب دو طرفہ محبت کے تعلقات ہوں گے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ایک نوجوان نے لکھا ہے لاہور سے کہ مجھے آج پہلی دفعہ پتا لگا ہے کہ ہمارا اور آپ کا محبت کا تعلق ہے اوریہ اب اور بڑھ رہی ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویژن کی برکتیں ہیں خدا کرے یہ پروگرام پھیلیں پھولیں پھلیں۔
اب میں کچھ واقعات سناتا ہوں 60بوسنین مہاجرین کا ایک وفد نماز جمعہ کے لئے لانے کا انتظام کیاگیا۔یہ60لفظ کاجو ہندسہ ہے یہ صرف ایک دفعہ جمعہ کی بات ہے ہرجمعہ پر کوشش کی جاتی ہے کہ نئے وفود آئیں اور ہر جمعہ پر کبھی60یا 80کبھی 100 افراد پر مشتمل وفود بھی آتے ہیں تویہ نہ سمجھیں کہ صرف 60سے ہی رابطہ ہے۔کہتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے ٹیلیویژن پر خطبہ بھی سنااس کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پیش کیا گیا ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں ان میں سے وہ مسلسل روتی رہیں جب ان کو تشفی دی گئی تو انہوں نے کہا وطن سے دور آج آپ کو اس طرح اکٹھے دیکھا ہے تو اپنے گھر کی یاد رآرہی ہے۔غنیمت ہے کہ آپ لوگ اس قدر پیار اور محبت سے سلوک کرنے والے ہمیں مل گئے۔ایک خاتون لکھتی ہیں کہ ایک خاتون ملیں ان سے جب میں نے پیار کا سلوک کیا توروتی رہیں،اتناروئیں کہ جس طرح بھی میں نے کوشش کی سمجھانے کی ان کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔کہتی کہ پھرمیری چیخیں نکل گئیں اورمیں نے روتے روتے ان کو سینہ سے لگا لیا پھر ان کے آنسو تھمے پھر ان کو میری فکر پڑی تو بعض دفعہ غم کا مداوا غم سے ہی ہوتا ہے اور جتنا درد آپ ان کے لئے پیدا کریں گے اتنی ہی راحت ان کوپہنچے گی۔یہ لفظوں سے تسلی دینے کا وقت نہیں ہے بلکہ پیارا و رمحبت ان پر لنڈھانے کا وقت ہے اللہ تعالیٰ جماعت کو تو فیق بخشے۔
اس ضمن میں میں یہ تحریک کرتاہوں کہ خصوصاًیورپ کی جماعتیں مواخات کا نظام قائم کریں اوربعض خاندانوں کوبعض خاندان اپنالیں اورپھر صرف یہ نہ ہو کہ جب جماعتی نظام میں ان کے لئے اکٹھے ہونے کا کوئی بندوبست کیا جائے تو اسی موقع پر رابطے ہوں بلکہ خاندان یہ ذمہ داری اُٹھائیں کہ فلاں فلاں خاندان ہمارا ہو گیاہے۔ان لوگوں کو محبت کی بہت کمی ہے رہائش اورکھانے پینے کا انتظام توہوہی رہاہے،جیسا بھی ہے۔ لیکن جس بات کو ترسے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا سارے کا سارا خاندان کٹ گیا ہے اکیلی عورت یا اکیلا مرد پہنچا ہوا ہے بعض بچے ہیں جن کا کوئی بھی نہیں رہا تو ضرورت ہے کہ انسانی ہمدردی سے ان کو سینے سے لگایا جائے۔
ایک معمر خاتون نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آپ ہماری خدمت تو کرتے ہیں مگر دعائیں کریں کہ ہمیں ہمارابوسنیا واپس مل جائے، ہم سے اب بوسنیا کی جدائی برداشت نہیں ہوتی۔ دو لیڈی ڈاکٹرز تھیں انہوں نے کہا کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان تھے ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ اسلام کیاہے۔یہ ہمارے لئے تسکین کا موجب ہے کہ ایک جماعت ایسی ہے جس کا مرکز جس کا خلیفہ ہمارے لئے بھی اسی طرح درد مند ہے جس طرح آپ لوگوں کی تکلیف سے ہوتا ہے اور ساری جماعت جو خدمت کررہی ہے اس کے نتیجہ میں اب ہمیں اسلام پر فخرپیدا ہوگیا ہے ہم ان ملکوں میں شرماتے تھے پہلے اسلام سے۔اب ہم بڑے فخر سے ان لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہاں ہم مسلمان ہیں۔توآپ کی محبت اور آپ کے پیارے نے دیکھیں کیسے معجزے دکھائے ہیں کیسا انقلاب برپا کیاہے کہ وہ لوگ جن کے متعلق خطرہ تھا کہ غیر مسلموں کی مار کھا کر غیرمسلموں کی گود میں جہاں دنیا گنوا بیٹھے ہیں وہ دین بھی گنوا بیٹھیں یعنی بعض غیر مسلموں نے ان کی دنیاچھینی ان سے بھاگے تو جو گود میسر آئی وہ بھی غیر مسلموں کی اور انہوں نے دین چھیننے کی کوشش کی تو جماعت احمدیہ کو اس خدمت کی توفیق مل رہی ہے کہ حضرت اقدس محمد ﷺ کے نام لیواؤ ں کے لئے اپنی جانیں بھی پیش کر رہی ہے اپنے اموال بھی پیش کر رہی ہے اور ان کو ہر قسم کے بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔
اس ضمن میں ایک اور تحریک بھی کرنی چاہتا ہوں کہ چونکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے اوروردیوں وغیرہ کی اوربوٹوں کی اس قسم کی چیزوں کی بھی جو کچھ ہمیں یورپ سے میسرآتاہے آرمی ڈپوز وغیرہ سے، ہم انشاء اللہ پہلے بھی بھیج رہے ہیں اور بھی لے کر بھجواتے رہیں گے لیکن ہتھیاروں کی سپلائی ہمارے بس میں نہیں ہے اور بعض ممالک میں وہ خلاف قانون بھی ہے۔تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسلمان ملک جہاں بعض احمدی فوج سے ریٹائرڈہوئے ہوں اور جہاں حکومت کی ہمدردی اور حکومت کی Blessingبھی ان کو شامل ہو۔حکومت کے سائے تلے وہ آزادی کے ساتھ خدمت کر سکیں وہ ایسی پرائیویٹ ایسوسی ایشنز بنائیں جن میں بوسنیا کو ہتھیار مہیا کرنے کا پروگرام شامل ہو اورصرف اس میں احمدیوں کوممبر نہ بنائیں بلکہ غیر احمدی بااثر لوگوں کو بھی ممبر بنائیں یہ وقت ایسا نہیں کہ اس میں فرقوں کی تفریق کسی طرح بھی کام کی راہ میں حائل ہو۔ آپ پہل کر جائیں یہی آپ کا ثواب کافی ہے لیکن کثرت سے اپنے غیر احمدی ہمدردبھائیوں کو ساتھ ملائیں ایسی ایسوسی ایشن قائم کریں جو حکومتوں سے بھی رابطے کرے اور دوسرے ایسے ذرائع سے جو غیر حکومتی ذرائع ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہتھیار مل جایاکرتے ہیں۔ہتھیار لے کر پھر کوشش کریں کہ ان کو کسی طرح بوسنیاپہنچایاجائے یہ کام حکومت کی مدد سے ممکن ہے اور وسیع پیمانے پر ایسوسی ایشنز کے قیام کے ذریعہ یا مجالس کے قیام کے ذریعہ ایساکیا جاسکتا ہے اور ضرور کرنا چاہئے۔
ہمارے جو وفودجارہے ہیں باہر بوسنیا سامان لے کر اُن کے متعلق میں پہلے ایک خطبہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ جو حالات دیکھ کر آئے ہیں وہ لکھتے ہوئے بھی لکھتے ہیں کہ ہمیں پوری طرح لکھنے کی بھی طاقت نہیں ہے۔کیسی بے سروسامانی کی حالت ہے اورکس قدربھیانک مظالم کا نشانہ ان کو بنایا گیاہے۔کہتے ہیں ایک جگہ ہم جب خدمت کر رہے تھے توایک معمر خاتون ہمارے پاس آکے بیٹھ گئیں اور اپنے عزیزوں کی تصویریں دکھائیں جوسربیاکے ظلم کی بھینٹ چڑھ چکے تھے ان کی آنکھوں سے تصویریں دکھاتے ہوئے آنسو رواں تھے ہمارا دل بھی آنسو بہا رہا تھا کبھی بے بسی کاایسا عالم نہیں ہوا جو ان مظلوموں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ ان کی دلجوئی کی کوشش توکی لیکن جب اپنا دل ہی تسلی نہ پاتا ہو تو ان کے زخم کیسے مند مل ہو ں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ٹاؤن کی آبادی چھ سات ہزار تھی اس خاتون کے سواجو یہاں پہنچی ہیں ایک بھی زندہ نہیں بچا تمام کے تمام بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے یا گولیوں کا نشانہ بنائے گئے اورپھر بقیہ گاؤں کو تمام تر جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔
انگلستان کی جماعت میں واٹفورڈ کی جماعت کا پہلا نمبر ہے کیونکہ یہیں سے اللہ کے فضل سے نہایت ہی مؤثر رابطوں کا آغاز ہوا تھا۔جب پہلا وفدیہاں واٹفورڈ کی جماعت مسجد لنڈن میں لے کے آئی اورہماری ملاقات ہوئی اور آپس میں بہت سی محبت اور پیار کی باتیں ہوئیں تو ایک معمر دوست نے کہا کہ بہت دکھوں میں سے میں گزرکر آیا ہوں ساری زندگی میری پڑی ہوئی ہے پیچھے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج یہ میری زندگی کا بہترین دن ہے اور ایک دوست باربارکہہ رہاتھا خون کے متعلق تومیں نے کہا شاید ان کو خون چاہئے، میں نے کہا خون بھی حاضر ہے ہمارا،تو اس نے کہا نہیں تو مترجم نے سمجھایا کہ یہ کہنا چاہتاہے کہ میرادل چاہتاہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ خون ملائیں اورجس طرح دودھ بھائی ہوتے ہیں ہم دونوں خون بھائی بن جائیں۔تو ان لوگوں میں محبت کے جواب میں بڑی محبت پائی جاتی ہے۔تھوڑی سی آپ ان کے لئے قربانی کریں تو یہ آگے سے فدا ہوتے ہیں اور بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ ان سے تعلقات کے نتیجہ میں آپ کے اخلاق بھی سدھریں گے کیونکہ ان میں بعض ایسی اخلاقی قدریں میں نے دیکھی ہیں جو جماعت میں بھی اس شان سے نہیں ہیں، اس کثرت سے نہیں ہیں۔تو اللہ تعالیٰ توفیق دے اوریہ اس طرح ملیں کہ ہم ان کی بہترین چیزیں لے لیں اور یہ ہم سے بہترین چیزیں اور اسلام اور دین اور اس پر کیسے عمل کیا جاتا ہے۔یہ باتیں بھی سیکھیں۔ لیکن میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدمت کو تبلیغ کا ذریعہ بنانے کی خاطر اختیارکرناظلم ہے۔ خدمت کے نتیجہ میں اگر دل مائل ہوں تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن تبلیغ کی خاطر خدمت نہیں کرنی کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں میں نے خدمت کا مضمون دیکھا ہے کہیں بھی ایک جگہ بھی مجھے یہ بات دکھائی نہیں دی کہ تبلیغ کی خاطر اپنا دین پھیلانے کی خاطر خدمت کرو، بلکہ خدمت کے ذکر میں دین کا ذ کر ہی کوئی نہیں۔ تمام بنی نوع انسان کی بلاتمیز مذہب و فرقہ اور ملت رنگ و نسل ایک عام خدمت کا مضمون چلتا ہے اوربنی نوع انسان سے جوحضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺکی رحمت کاتعلق ہے یہ دراصل وہی مضمون ہے جو بیان کیا جاتاہے آپؐ کو رحمۃ للمسلمین نہیں فرمایا رحمۃ للمومنین نہیں فرمایا، رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء108)فرمایاہے۔پس یہ جوابتدائی انسانی خدمتیں ہیں بلاتمیزِ مذہب وملت یہ محمد مصطفیﷺ کی رحمت ہی ہے جس کے آپ آگے ساقی بنیں گے اس رحمت کے جام بھر بھر کے دنیا کو پلائیں گے۔ تویہی وہ روح ہے جس کو آپ کو ضرور قائم رکھنا ہوگا۔ یہاں انگلستان ہی کی بات ہے کہ ایک موقع پرایک کیمپ سے جماعت کا گہرا رابطہ تھاتوان کو ایک پیغام ملاایک اور مسلمان تنظیم کا کہ آپ ہم سے کیوں نہیں ملتے آپ ہمارے پاس تشریف لائیں۔ان سے پوچھاکیونکہ وہ ان کے زیرِ احسان تھے ان کی شرافت تھی،انہوں نے کہا آ پ کی اجازت ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں،انہوں نے کہا شوق سے جائیں اگر کوئی اوروہ خدمت آپ کی کر سکتے ہیں توبہت اچھاہے اورہم تو اس بات کو خدمت میں داخل ہی نہیں سمجھتے کہ مذہبی یا فرقے کی تفریق کی جائے۔وہ گئے اور کچھ دیر کے بعد سخت نالاں ہو کے واپس آئے۔انہوں نے کہا کیوں کیا ہوا ہے۔جواب یہ دیا کہ جب ہم ان سے ملے ہیں تو جاتے ہی پہلے احمدیت کو گالیاں دینی شروع کر دیں اورہمیں سمجھانے لگے کہ یہ تو کافرہیں توہم نے ان سے کہا کہ یہ اگر کافرہیں۔تویہ کافرپھر اچھے ہیں کیونکہ آپ سے ملنے کے لئے انہوں نے ہمیں نہیں روکا اور آپ عجیب مومن ہیں کہ ان سے ملنے کے لئے روک رہے ہیں جو ہمیں آپ کے پاس بھیج رہے ہیں۔یہ جوبائیکاٹ کا مضمون ہے اس قسم کایہ ہماری سمجھ سے بالا ہے، اسلام کی طرف سے نہیں ہو سکتا اور واقعتاً انہوں نے بہت گہری بات کی ہے۔ مسلما ن ملاں کو کون سمجھائے کہ حضرت اقدس محمدمصطفیٰ ﷺ سے بائیکاٹ کی تعلیم دی جاتی تھی آپ نے کبھی بائیکاٹ کی تعلیم کسی اورکے خلاف نہیں دی،مومنوں کی آپس میں جب ناراضگی ہوئی یا غلطی ہوئی تو ایک دو موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے عارضی طورپر بائیکاٹ مومنوں کاکیا گیا کافروں کایاغیر مذہب والوں کے بائیکاٹ کاکہیں کوئی ذ کر نہیں ملتا۔پس ہم تو حضرت اقدس محمدﷺ کےغلام ہیں، بینگنوں کے غلام تو نہیں ہیں۔اس لئے ہم تو آپؐ ہی کی سنت پر عمل کریں گے اوریہی سنت ہے جو زندہ رہنے کے لائق ہے۔
پس مسلمانوں کی دوسری تنظیمیں کئی ابھی تک کام کر رہی ہیں خاص طورپر بعض فلسطینی تنظیمیں ہیں جو اللہ کے فضل سے بڑے اخلاص سے بہت ہی مستقل مزاجی سے خدمت کر رہی ہیں ان سب کے ساتھ ہمارا تعاون رہے گا اورجماعت کی طرف سے کم ازکم کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں کسی قسم کی فرقہ وارانہ تفریق پیداہویا اس کا وہم ہی دلوں میں پیدا ہو۔ہاں جو خود پوچھے یا مذہب کی ضرورت کے لئے بعض چیزوں کی طلب کر ے جیسا کہ لوگ پوچھتے ہیں قرآن کریم کا ترجمہ یا نماز کا ترجمہ وغیرہ وہ توہم بہرحال انشاء اللہ تعالیٰ پیش کریں گے۔
ایک اور خدمت جو جماعت بڑی عمدگی سے کررہی ہے وہ یہ ہے کہ مختلف کیمپوں میں مہاجرین کی لسٹیں بنا کر ان کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔میں نے یہ ہدایت کی تھی ابھی تک مجھے اس کی طرف سے پوری طرح تسلی نہیں ہوئی لیکن میں اسی غرض سے دوبارہ دہرارہا ہوں کہ ہمیں جہاں جہاں بھی بوسنین ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی فہرستیں نام وار نہیں بلکہ گاؤں کے لحاظ سے اور علاقے کے لحاظ سے مرتب کرنی چاہئے اورپھر ان کو آگے اسم وار ترتیب دینا چاہئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہاں رابطوں میں دیکھا ہے کہ دس پندرہ بیس میل کے فاصلے پر ہی دو مختلف کیمپ ہیں ان میں بعض بچھڑے ہوئے موجود ہیں اور ان کوپتا ہی نہیں کہ ہم اتنے قریب ہیں۔جب اسلام آباد میں پروگرام ہوا جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی تو دو خواتین نے جو مختلف کیمپوں سے آئیں تھیں ایک دوسرے کو دیکھاتو خوشی سے ان کی چیخیں ہی نکل گئیں،دوڑکربغلگیرہوئیں اور پھر ایک خاتون نے بتایاکہ ہم ایک ہی گاؤں کی ہیں قریبی رشتہ دار ہیں ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہم اتنے قریب آچکے ہیں تو اس پر میں نے جماعتوں کوہدایت کی تھی کہ تمام کیمپوں سے جن سے بھی رابطہ ہے۔وہاں کی فہرستیں تیار کریں دیہات کے لحاظ اورپھر اسم واران کو ترتیب دیں اور ان کاتبادلہ ہوناچاہئے تمام کیمپوں کے ساتھ۔ گویا آپ کے پاس ایک ڈکشنری سی بن جائے جب بھی کوئی مسلمان بوسنین مہاجر چاہے کہ اس کے کسی رشتہ دار کا پتالگے کہاں ہے؟تو وہ اپنا گاؤں تو جانتا ہے فوراً گاؤں کی فہرست دیکھ لے گا اور اس گاؤں کے جتنے بھی مہاجر کہیں موجود ہیں ان کی فہرستیں ہمارے پاس تیار ہوں گی۔اس سلسلہ میں بعض جماعتوں کی طرف سے اطلاع مل رہی ہے انگلستا ن کی ایک جماعت نے بھی ابھی اطلاع دی ہے کہ خدا کے فضل سے ہمیں موقع ملاہے بہت سے بچھڑے ہوؤں کو اس رنگ میں ملانے کا۔
ایک جگہ ایک اور خبر بھی اسی قسم کی آئی تھی وہاں بعض غیر احمدی وفود ان بوسنین سے ملے جن کا ہمارے ساتھ تعلق تھااور بہت لمبی تقریریں کی گئیں کہ یہ احمدی بالکل کافر، ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں اورفلاں حکومت نے یہ کیا،فلاں نے یہ کیا۔سب باتیں سن کران کو زیادہ تو نہ بات سمجھ آئی ہوگی اور انگریزی دان بھی بہت کم ہیں ان میں مگر جو جانتاتھاانگریزی اس نے ساری باتیں سنی اور آخری جواب صرف اتنا دیا Ahmadies very good Muslimsجنہوں نے دیکھاآنکھوں سے کہ اچھے مسلمان ہیں وہ کانوں کی باتوں پر کیسے اعتبار کر جائیں گے جو آنکھ دیکھتی ہے اس کا اعتباربہت زیادہ ہےاس کی نسبت جو کان سنتا ہے۔
ایک لیڈی ڈاکٹر کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا پہلے وہ مسلمان ہیں جنہوں نے ہمارے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ساتھ ہی بڑے جذباتی رنگ میں کہا کہ آپ کا قصور ہے کہ پہلے کیوں نہ ہم تک پہنچے، ہم گرجوں سے وابستہ رہے اور سال کا پہلا دن معلوم ہوتا ہے اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایک گرجا میں گزارا،کا ش آپ پہلے آئے ہوتے تو ہم مسجد میں جاکر وہ سال کاپہلا دن بسر کرتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍فروری 1993ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 140تا 148)
بوسنین کے سا تھ مواخات
’’مواخات کے ضمن میں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ بوسنین کے ساتھ مواخات کر رہے ہیں یعنی جرمنی احمدی اور اللہ کے فضل سے اس کے بڑے اچھے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں مگر بوسنین کا جہاں تک تعلق ہے وہاں ریس ازم کا خطرہ نہیں وہاں مواخات کسی خطرے کو ٹالنے کے لئے نہیں بلکہ انصار مدینہ کی سنت میں ہے جنہوں نے مہاجروں سے مواخات کی تھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کہ اس مواخات میں بھی ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ ریس ازم مٹ گیا ورنہ اس سے پہلے اہل مکہ اپنے آپ کو افضل سمجھا کرتے تھے…..جہاں تک بوسنین کا تعلق ہے ہمارا ان سے اس وقت جو محبت کا رشتہ ہے وہ ان کی مظلومیت کے نتیجے میں طبعی طور پر پیدا ہوا ہے اور ہم سچے دل سے بھائیوں کی طرح ان کو اپناتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں اور اس میں احمدی غیر احمدی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے جب میں نے مواخات کا اعلان کیا تھا تو ہر گز یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ احمدیوں سے صرف مواخات کرو اور اس کے نمونے کے طور پر میں نے جس خاندان سے مواخات کی وہ غیر احمدی ہے ابھی تک غیر احمدی ہے، اور مواخات کے نتیجے میں ان کو احمدی بنانے کی میں نے کبھی کوشش نہیں کی۔ لٹریچر دلاتا ہوں، ان کو ہر موقع پر سمجھاتا ہوں، دل ان کے احمدیت کے ساتھ ہیں اور احمدیت کا پیار بڑھ رہا ہے لیکن مواخات احمدیت سے قطع نظر تھی اور اسی طرح رہنا چاہئے کیونکہ مظلوم قوم اور مسلمان قوم ہے یہاں مکے کی ہجرت کی ساری باتیں پوری طرح صادق نہیں آتیں۔ وہاں سے جو بھی نکلا ہے مظلوم نکلا ہے اور مظلوموں کے ساتھ مؤاخات ہونی چاہئے۔ پس اپنے مواخات کے تعلقات میں جتنے بوسنین بھی آپ کے قرب وجوار میں رہتے ہیں آپ ان کو سنبھال سکتے ہیں۔ ان سب سے مواخات کے لئے آپ کو محبت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔
بعض جگہ احمدیوں نے یہ غلطیاں کی ہیں کہ محبت کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے تبلیغ شروع کی ہے اور یہ دستور کے خلاف ہے یہ عقل کے خلاف ہے حکمت کے خلاف ہے۔ تبلیغ تو ہوتی رہے گی سب دنیا میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے۔ بوسنین کو اس لئے نہیں کرنی اب یہ گرا پڑا ہے تو اس کو سنبھالو اٹھا لو آسانی سے قابو آ جائے گا یہ ناجائز طریق ہے، درست نہیں ہے، اعلیٰ اخلاق کے خلاف ہے۔ بوسنین کی ضرورت اس لئے پوری کرنی ہے کہ وہ مسلمان، مجروح، زخمی، بے یارو مدد گار ہے اور ایسا مظلوم ہے کہ اس آج کی تاریخ میں، جو ہمارے قریب کے زمانے کی تاریخ ہے ایسی مظلومیت کسی اور قوم میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍مئی 1994ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد13 صفحہ336، 337)
اسلام آباد برطانیہ میں بوسنین کے ساتھ عید کے روح پرور مناظر
’’یہاں جوعید منائی گئی وہ اس لحاظ سے ایک غیر معمولی عید تھی کہ دنیا میں کہیں عید کی نماز پر اتنے بوسنین اکٹھے نہیں ہوئے تھے جتنے اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے اور ایک غیر معمولی روحانی لذت کا نظارہ تھا جب مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بوسنین بسوں سے اترتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف بڑھتے تھے،ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ جماعت احمدیہ کے پیارسے متاثر ہوکر ان کے چہروں کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور وہاں بعض ایسے ایسے نظارے دیکھے گئے ہیں کہ جنہوں نے دیکھا ہے ان کی روحیں ہمیشہ کے لئے ان سے متاثر ہوگئی ہیں۔ایک بس سے ایک ماں اتری جس کا بچہ بوسنیا میں کھوگیا تھا اور وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مرچکاہے اور ایک دوسری بس سے وہی بچہ جو اس کے نزدیک کھویا گیا تھا وہ اتر رہا تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف اس طرح لپکے ہیں کہ بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ ہم بیان نہیں کرسکتے کہ وہ کیا نظارہ تھا۔ماں بے اختیار بچے کے گلے سے لپٹی اور بچہ ماں کے گلے سے لپٹا اور روتے ہوئے اس طرح خوشی کے آنسو بہائے ہیں کہ دیکھنے والے بھی رونے لگ گئے لیکن ایک اور نظارہ ایسا تھا کہ دو بہنیں آپس میں ملیں اور بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ ان کا جو ملنے کا نظارہ تھا وہ تو ماں بیٹے کے نظارے سے بھی بڑھ گیا۔بڑی عمر کی ایک بہن تھی ایک چھوٹی عمرکی بہن اور بڑی عمر کی بہن سمجھتی تھی کہ میری چھوٹی عمر کی بہن وہاں ضائع ہوگئی اور سفّاکوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔اس کے نتیجہ میں اس کی جان کو ایک روگ لگاہواتھا۔اس نے جب ایک بس سے اپنی چھوٹی بہن کو اترتے دیکھا تو اچانک جو اس کی کیفیت ہوئی وہناقابل بیان ہے۔کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دوڑیں اور لپٹ کر اس طرح چیخیں مارمارکرروئی ہیں کہ جہاں جہاں وہ آواز پہنچتی تھی سارے سننے والے روپڑے اور ان کی خوشی کے آنسوؤں میں دور دور تک سب دیکھنے والے احمدیوں کے خوشیوں کے آنسو شامل ہوگئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اپریل 1993ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 265، 266)
بوسنیا کے بارے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کا منظوم کلام
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیا، زندہ باد!
تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے
گل رنگ شفق، قرمزی جھیلوں کا وطن ہے
خوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے
نوخیز جواں سال قتیلوں کا وطن ہے
اک دن تیرے مقتل میں بہے گا دم جلاد
اے بوسنیا، بوسنیا
بوسنیا! زندہ باد
اے وائے وہ سر، جن کی اتاری گئی چادر
پا بستہ پدر اور پسر۔ جن کے برابر
ہوتی رہی رسوا کہیں دختر کہیں مادر
دیکھے ہیں تری آنکھ نے وہ ظلم کہ جن پر
پتھر بھی، زبانیں ہوں تو،کرنے لگیں فریاد
اے بوسنیا، بوسنیا
بوسنیا! زندہ باد
قبروں میں پڑے عرش نشینوں کی قسم ہے
رولے ہوئے مٹی میں نگینوں کی قسم ہے
بہنوں کے امنگوں کے دفینوں کی قسم ہے
ماؤں کے سلگتے ہوئے سینوں کی قسم ہے
ہوجائیں گے آنگن ترے اجڑے ہوئے آباد
اے بوسنیا، بوسنیا
بوسنیا! زندہ باد
چھٹ جائیں گے اک روز مظالم کے اندھیرے
لہرائیں گے ہر آنکھ میں گلرنگ سویرے
صبحوں کے اجالوں سے لکھیں گے ترے نغمے
سر پر ترے باندھیں گے فتوحات کے سہرے
اللہ کی رحمت سے سب ہو جائیں گے دلشاد
اے بوسنیا، بوسنیا
بوسنیا! زندہ باد
سینوں پہ رقم ہیں تری عظمت کے فسانے
گاتی ہیں زبانیں تری سطوت کے ترانے
اترے گا خدا جب تری تقدیر بنانے
مٹ جائیں گے ، نکلے جو ترا نام مٹانے
جس جس نے اجاڑا تجھے ہو جائے گا برباد
اے بوسنیا! بوسنیا،
بوسنیا! زندہ باد
تو اپنے حسیں خوابوں کی تعبیر بھی دیکھے
اک تازہ نئی صبح کی تنویر بھی دیکھے
جو سینۂ شمشیر کو بھی چیر کے رکھ دے
دنیا ترے ہاتھوں میں وہ شمشیر بھی دیکھے
پیدا ہوں نئے حامئ دیں۔ دشمن الحاد
اے بوسنیا، بوسنیا
بوسنیا! زندہ باد
(جلسہ سالانہ جرمنی28؍اگست 1994ء بحوالہ کلام طاہرمطبوعہ نظارت اشاعت صفحہ75تا 77)
٭…٭…٭