مضامین

کوشش کرو کہ تمہاری اگلی نسل پچھلی نسل سے زیادہ اچھی ہو(قسط دوم۔آخری)

(از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

( خدام الاحمدیہ کوئٹہ سے خطاب فرمودہ18؍جولائی1950ء بمقام کوئٹہ )

اس کے بعد مَيں خدام الاحمديہ کو اس امر کي طرف توجہ دلانا چا ہتا ہوں کہ ہر چيز کے لئے ايک خاص زمانہ اور ايک خاص وقت ہوتا ہے۔ کوئي وقت جہاد کا ہوتا ہے ، کوئي وقت روزہ کا ہوتا ہے اور کوئي وقت نماز کا ہوتا ہے اور عقل مند وہي ہوتا ہے جو جہاد کے وقت جہاد کرے اور نماز کے وقت نماز پڑھے اور روزہ کے وقت روز ہ ر کھے۔ يہ نہيں کہ وہ باقي چيزوں کو چھوڑ دے ليکن اس خاص وقت ميں اُسي چيز پر زور دے جس کے لئے وہ وقت مخصوص ہے۔

قرآن کريم ميں خدا تعاليٰ بعض گنا ہوں کو کبيرہ قرار ديتا ہے اور بعض کو صغيرہ۔ صوفياء کرام نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب يہ ہے کہ جس گناہ ميں کوئي انسان مبتلا ہو وہي اس کے لئے کبيرہ گناہ ہے۔ صرف يہ کہہ لينا کہ فلاں گناہ کبيرہ ہے اور فلاں صغيرہ يہ خلاف عقل بات ہے۔ ايک نامرد کے لئے بدنظري کبيرہ گناہ نہيں ہوگا۔ اگر وہ کہتا ہے کہ ميں بدنظري نہيں کرتا اس لئے کبيرہ گناہ کا مرتکب نہيں ہوں تو ہم اسے کہيں گے کہ تجھ ميں اس کي طاقت ہي نہيں پائي جاتي اس لئے يہ گناہ تمہارے نقطہ نگاہ سے کبيرہ گناہ نہيں۔ تمہارے لئے کبيرہ گناہ وہ ہوگا جس کي حرص اور لالچ تمہارے اندر پائي جاتي ہے۔ غرض جتنا جتنا خطرہ کسي گناہ کا کسي شخص کے لئے ہوگا اتنا اتنا ہي وہ اس کے لئے کبيرہ ہوتا جائے گا اور جتنا جتنا خطرہ کم ہو گا اتنا اتنا ہي وہ اس کے لئے صغيرہ ہوتا جائے گا۔ گويا ايک شخص کے لئے ايک گناہ کبيرہ ہو گا اور دوسرے شخص کے لئے وہي گناہ صغيرہ ہوگا۔ مثلاً ايک ايسا آدمي جو غريب ہے اس کے بچوں کو کھانے کو کچھ نہيں ملتا۔ ان ميں قناعت نہيں پائي جاتي۔اس کے لئے چوري کا زيادہ امکان ہے ليکن اگر وہ چوري نہيں کرتا تو وہ ايک کبيرہ گناہ سے گريز کرتا ہے اور اگر اس کے لئے جھوٹ کا موقع نہيں ليکن وہ اس سے بچتا ہے تو وہ ايک صغيرہ گناہ سے بچتا ہے کيونکہ اس کے لئے چوري کے موجبات زيادہ تھے اور جھوٹ کے کم تھے۔ ليکن ايک اَور شخص ہوتا ہے جس کے سامنے جھوٹي شہادت کا سوال ہوتا ہے۔ مثلا ًکوئي پٹواري ہوتا ہے يا کوئي عرضي نويس ہوتا ہے اس کے لئے جھوٹ بولنے کے بہت مواقع ہوتے ہيں۔ سينکڑوں آدميوں سے اس کا کام ہوتا ہے، مختلف مقدمات ميں اُسے بلا يا جا تا ہے اور اس کے لئے ہزاروں ايسے مواقع پيدا ہوتے ہيں جہاں اس کے لئے جھوٹ بولنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر ايسي نوکري والا جھوٹ سے بچتا ہے تو کبيرہ گناہ سے بچتا ہے۔ ليکن اگر وہ کہے کہ ميں نے چوري نہيں کي تو ہم کہيں گے کہ تمہارے لئے چوري کرنے کا کوئي موقع ہي نہيں تھا۔ چاليس بياليس روپے تمہيں گورنمنٹ دے ديتي ہے ، چارہ تر کارياں وغير ہ لوگ دے ديتے ہيں تمہاري عقل ماري گئي کہ تم چوري کرتے پھرو۔ تمہارے لئے چوري گناہ صغيرہ اورجھوٹ بولنا گناہ کبيرہ ہے۔ پس اگر تم جھوٹ بول ديتے ہوتو خواہ تم ڈاکہ زني نہيں کر تے چوري نہيں کرتے تو پھر بھي تم کبيرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہو۔

اسي طرح اس زمانہ ميں جبکہ تم ايک مامور من اللہ کي جماعت ميں شامل ہو گئے ہو، تمہيں يادرکھنا چاہئے کہ مامورين کي جماعتوں پرا بتلا بھي آ تے ہيں اس لئے انہيں ان ابتلاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تيار رہنا چاہئے۔ جيسے افغانستان ميں ہمارے پانچ آدميوں پر ابتلا آيا اور انہوں نے اپني جانيں پيش کر ديں۔ امير عبدالرحمٰن کے زمانہ ميں عبد الرحمان خان صاحب پر ابتلا آ يا اور وہ اپني بات پر ڈٹے رہے۔ امير حبيب اللہ خان کے زمانہ ميں صاحب زادہ سيد عبدالطيف صاحب پر ابتلا آ يا اور وہ اپني بات پر ڈٹے رہے۔امير امان اللہ خان کےزمانہ ميں نعمت اللہ خان صاحب اور ان کے دو ساتھيوں پر ابتلا آيا اور وہ تينوں اپني بات پر ڈٹے رہے۔ مگر يہاں پانچ کا سوال نہيں بلکہ اصل ديکھنے والي بات يہ ہے کہ پانچ آدميوں پر ابتلاآيا اور پانچ ميں سے پانچ ہي اس کے مقابلے ميں ڈٹے رہے اور اگر پانچ کے پانچ ڈٹے رہے ہيں تو ہم کہہ سکتے ہيں کہ اگر وہاں سو آدمي بھي ہوتا تو وہ سو کا سو ڈٹا رہتا۔ اگر ہزار آدمي ہوتا تو ہزار بھي ڈٹا رہتا کيونکہ جتني مثاليں ہمارے سامنے ہيں ان ميں ايک بھي ايسي مثال نہيں کہ کسي کو ايسا ابتلا پيش آيا ہو جس ميں اس کي جان کا خطرہ ہو اور وہ اپني بات پر ڈٹا نہ رہا ہو۔ تمہيں بھي يہ چيز اپنے اندر پيدا کرني چاہئے۔ جب بھي کوئي سچائي دنيا ميں آتي ہے اس کے ماننے والوں کو قرباني کي ضرورت ہوتي ہے۔امير خسرو کا ايک شعر ہے کہ

کشتہ گانِ خنجر تسليم را

ہر فرماں از غیب جانے دیگر است

يعني لوگ تو ايک دفعہ مرتے ہيں مگر جواپني مرضي خدا تعاليٰ پر چھوڑ ديتے ہيں ان پر ہر روز نئي موت آيا کرتي ہے کيونکہ ہر موقع پر انہيں خدا تعاليٰ کي آواز پہنچتي رہے گي اور وہ اس پر لبيک کہتے رہيں گے۔ پس اگر تم بھي خدا تعاليٰ کا سچا بندہ بننا چاہتے ہوتو تم اس بات کے لئے اپنے آپ کو تيار کرو بلکہ ايسے موقع پر خوشي کي ايک لہر تمہارے چہروں پر دوڑ جائے اور تم ہر مصيبت کو انعام سمجھ کر قبول کرو۔ تم تو ايک سچائي کے ماننے والے ہوليکن بعض دفعہ لوگ اپنے جھوٹے عشق کے لئے بھي يہ نمونہ پيش کر ديتے ہيں۔

صلاح الدين ايوبي کے زمانہ ميں قرامطہ فرقہ نے بہت طاقت حاصل کر لي تھي۔ اس وقت فرانس کا بادشاہ فلپ نامي تھا اور انگلينڈ کا رچرڈ۔ رچرڈ نے صلاح الدين ايوبي سے سمجھوتہ کرنا چاہا۔ اس پر فلپ نے خيال کيا کہ اگر رچرڈ نے صلاح الدين ايوبي سے صلح کر لي اور کوئي سمجھوتہ طے پا گيا تو ميں چھوٹا ہو جاؤں گا۔ اس لئے اس نے جھٹ قرامطہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرليا اور يہ تجويز ہوئي کہ دونوں مل کر مقابلہ کريں گے۔ قرامطہ کے امام اور فلپ کے درميان ملاقات کا وقت مقرر ہوا اور يہ ملاقات پہاڑي پر ايک قلعہ ميں طے پائي۔

قرامطيوں کا امام وہاں آيا اور فلپ بھي چوري چھپے وہاں گيا۔ فلپ نے قرامطہ کے امام سے کہا کہ ہر بادشاہ جب دوسرے کے پاس کوئي معاہدہ طے کرنے جاتا ہے تو وہ دوسرے سے کہتا ہے آيا اس کے پاس ايسي کوئي چيز بھي موجود ہے جسے وہ پيش کر سکتا ہے ؟ تم جانتے ہو ميں تو ايک ملک کا بادشاہ ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس مجھے دينے کے لئے کيا کچھ ہے؟ جس مکان ميں ملاقات ہورہي تھي وہ ايک چھ منزلہ مکان تھا۔ جس کي ہر منزل کے سامنے چھجے تھے اور ہر چھجے کے کناروں پر کھڑکياں تھيں ، ہر کھڑکي کے سامنے ايک ايک سپاہي کھڑا تھا۔ قرامطہ کے امام نے کہا اچھا ميں بتاؤں کہ ميرے پاس تمہيں دينے کو کيا کچھ ہے؟ اس نے سر ہلايا۔ اس کے سر ہلانے کي دير تھي کہ نچلي منزل کے تين آدميوں نے يکدم نيچے چھلانگ لگا دي اور وہ چُور چُور ہو گئے۔ پھر قرامطہ کے امام نے کہا فلپ شايد تم يہ خيال کرو کہ انہيں اپنے انجام کا پتا نہيں تھا يا انہيں خيال ہو کہ وہ مريں گے نہيں اس لئے اب ميں تمہيں پھر وہي نظارہ دکھا تا ہوں۔ اس نے پھر اپنا سر ہلا يا اور اس کے سر ہلانے پر دوسري منزل کے تين آدميوں نے بھي يکدم چھلانگيں لگا ديں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ فلپ پر لرزہ طاري ہو گيا اور وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپني بات کسي اَور وقت پر ملتوي کر دي اور وہاں سے چلا گيا۔ اب ديکھو ان کے اند رنو رنہيں تھا ايک جھوٹا عشق تھا مگر پھر بھي انہوں نے موت کي پروا نہ کي۔

وليم ميورلکھتا ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر کفار سات آٹھ ہزار کي تعداد ميں تھے اور مسلمان صرف پندرہ سو تھے۔ ميرے نزديک دشمن کي تعداد پندرہ ہزارتھي اور مسلمان سات سو تھے اور تاريخ بھي اس کي تصديق کرتي ہے۔ گو يا دشمن بیس گنے سے بھي زيادہ تھاليکن اگر ميور کي تعداد کو بھي مدنظر رکھ ديا جائے تب بھي کفار مسلمانوں سے چار پانچ گنا زيادہ تھے۔ ميور لکھتا ہے کفار مسلمانوں پر دن رات حملے کرتے تھے اور حملے باري بدل بدل کر کرتے تھے تا کہ مسلمان تھک جا ئيں۔ ان کا ايک گروہ تھک جا تا تھا تو دوسرا آ جا تا تھا ليکن مسلمانوں کي تعداد اتني کم تھي کہ وہ انہیں مختلف حصوں ميں تقسيم نہيں کر سکتے تھے اس لئے ان کے لئے آرام کرنا مشکل تھا۔ لیکن پندرہ دن کي متواتر جنگ ميں مَيں نہيں سمجھ سکتا کہ کس طرح بچ گئے۔پھر وہ خود ہي جواب ديتا ہے کہ اس کي وجہ يہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي اتنی محبت تھي کہ وہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پروا نہيں کرتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب ميں تاریخ پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ پندرہ سو آدميوں نے سات آٹھ ہزار کے لشکر جرار کا کس طرح مقابلہ کيا۔ جب مسلمان تھک جاتے تھے تو کفار خندق کودکر اندر آ جاتے تھے۔ اور جب دشمن پھاند کر اندر آ جاتا تھا تو مسلمان دبتے چلے جاتے تھے اور وشن زور پکڑتا جا تا تھا۔ ليکن جونہی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس جاتے ( یہ خیمہ مدینہ کے درمیان تھا ) تو وہ بے تاب ہو جاتے اورانسانوں کی شکلوں میں دیومعلوم ہوتے تھے اور دشمن کو دھکیلتے ہوئے پیچھے لے جاتے تھے ۔ یہ جوش صرف اس عشق کا نتیجہ تھا جوصحا بہؓ کے دلوں میں پایا جا تا تھا ۔

پس مومن کو چاہئے وہ ہر قربانی پیش کر نے کے لئے ہر وقت تیار رہے ۔ خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ یہ روح اپنے اندر پیدا کر یں ، وہ اپنے اندر احساس پیدا کریں کہ ضرورت پڑنے پر خدا کے لئے اپنی جان پیش کر نے کے لئے ہر وقت تیار ر ہیں گے ۔ اگر تم اس کے لئے تیار ہوتو یقیناً تمہارے اندر وہ بشاشت ایمانی پیدا ہو جائے گی جس کے بغیر کوئی شخص نجات حاصل نہیں کر سکتا ۔ (الفضل 17؍اکتوبر1961ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button