الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
…………………………
حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 اور 6 ستمبر 2012ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوٹیؓ کی سیرت و سوانح پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے مامورین کی صداقت کے نشانوں میں ایک نشان اُن کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو بھی رکھا ہے (سورۃ یونس آیت 17)۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اسی آیت کی روشنی میں فرمایا:
’’… تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولاہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نقطہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین)
حضرت اقدسؑ پر ابتدا میں ایک طبقہ وہ بھی ایمان لایا تھا جو آپؑ کی ابتدائی زندگی کی نیک عادات و خصائل کا گواہ تھا۔ انہی میں حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ ولد میر فیض صاحب تھے جن کے بارہ میں حضور اقدسؑ نے ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ میں فرمایا:
’’میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس (سیالکوٹ۔ ناقل) میں گزار چکا ہوں اور شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں۔ میرے اس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اُس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے، وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میں میرا وجود تھا…‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنی ابتدائی عمر میں جب والد محترم کے اصرار پر ملازمت کے سلسلے میں سیالکوٹ میں مقیم ہوئے تو آپؓ کے مطب کی متّصل بیٹھک میں ہی فروکش ہوئے جہاں حضورؑ کی عملی زندگی کو آپؓ نے بچشم خود مشاہدہ کیا۔یہ تقریباً 1864ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں آپ کو حضورؑ سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھنے کی سعادت ملی۔ آپ نے حضور کو عین عنفوان شباب میں دیکھا تھا اور حضور کی متقیانہ زندگی کا آپ پر خاص اثر تھا۔ حضورؑ کی نیم شبی دعاؤں اور قرآن مجید کے ساتھ عشق و محبت کے نظارے آپ کے دل کو تسخیر کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دعویٰ ماموریت کا اعلان سنتے ہی حضور کے غلاموں میں شامل ہوگئے۔
حضرت بابو برکت علی صاحبؓ جنرل سیکرٹری انجمن احمدیہ گجرات بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حکیم حسام الدین صاحب سے پوچھا کہ آپ باوجود اتنے مغلوب الغضب ہونے کے جبکہ آپ کی یہ حالت ہے کہ آپ کسی کی بات بھی نہیں سن سکتے تو آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کو کیسے مان لیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے بات تو معقول کی ہے، مَیں تو کبھی بھی نہ مانتا اگر میں ان کے چال چلن سے پوری طرح واقف نہ ہوتا کیونکہ جبکہ حضرت مرزا صاحب سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ عالم شباب میں تھے تو مَیں نے اُس وقت آپ کو دیکھا کہ آپ سوائے کچہری کے اوقات کے ہر وقت عبادت میں رہتے تھے اور کوئی ایک آیت قرآن مجید کی سامنے لٹکا لیتے تھے۔ مَیں اکثر آپ کے پاس آیا جایا کرتا تھا، جب آتا تو کوئی نہ کوئی آیت سامنے لکھ کر لٹکائی ہوتی تھی۔ آخر میں نے ایک دن دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ میں مختلف اوقات میں مختلف آیات لٹکی ہوئی دیکھتا ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اسلام اور آنحضرت ﷺ پر دس ہزار اعتراض ہوا ہے۔ تو میں نے کہا کہ کیا ہوا، آپ کو اس سے کیا غرض؟ اگر دشمنانِ اسلام نے اعتراض کئے ہیں تو وہ مولوی جانیں، آپ کو اس سے کیا غرض؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں تو برداشت نہیں کر سکتا۔ تو میں نے کہا پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں وہ آیات جن پر مخالفین نے اعتراضات کیے ہیں اُن میں سے ایک ایک آیت کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں، جب تک اس کا جواب نہیں ملتا تب تک اسے نہیں چھوڑتا، جب اُس کا جواب مل جاتا ہے تو دوسری آیت لٹکا دیتا ہوں۔ پس جتنا عرصہ وہ سیالکوٹ میں رہے ہیں اسی طرح کرتے رہے۔ پھر جب آپ سیالکوٹ سے چلے گئے اور دعویٰ کیا تو اس وقت میں نے آپ کو مان لیا اس لیے کہ آپ کی جوانی کی زندگی بالکل پاک تھی اور قرآن مجید خدا سے سیکھا تھا۔
مزید پڑھیے:
مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب مربی سلسلہ
مکرم محمد احمد صدیقی صاحب شہید
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی تو ابتدا دعویٔ مسیحیت سے ہی بیعت میں داخل ہوگئے تھے مگر اُن کے والد حکیم حسام الدین صاحب جو بڑے طنطنہ کے آدمی تھے، وہ اعتقاد تو عمدہ رکھتے تھے مگر بیعت میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ سے وہ بڑے تھے اور سیالکوٹ کے زمانہ کے دوست بھی تھے۔ میر حامد شاہ صاحب ہمیشہ ان کو بیعت کے لئے کہتے رہتے تھے مگر وہ ٹال دیتے تھے، ان کو اپنی بڑائی کا بہت خیال تھا۔ ایک دفعہ شاہ صاحب ان کو قادیان لے آئے اور سب دوستوں نے ان پر زور دیا کہ جب آپ سب کچھ مانتے ہیں تو پھر بیعت بھی کیجیے۔ خیر انہوں نے مان لیا مگر یہ کہا کہ مَیں اپنی وضع کا آدمی ہوں، لوگوں کے سامنے بیعت نہ کروں گا، مجھ سے خفیہ بیعت لے لیں۔ میر حامد شاہ صاحب نے اسے ہی غنیمت سمجھا۔ حضرت صاحب سے ذکر کیا تو آپؑ نے منظور فرما لیا اور علیحدگی میں حکیم صاحب مرحوم کی بیعت لے لی۔
فروری 1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو حضرت میر حسام الدین صاحبؓ کے گھر پر ہی فروکش ہوئے۔ اس موقع پر دیگر احباب کے علاوہ حضرت میر صاحبؓ کے خاندان کی خواتین کو بھی بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ میں حضرت میر حسّام الدین صاحبؓ کا ذکر اپنی ابتدائی زندگی کے گواہ کے طور پر کیا ہے۔ نیز کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں اپنی صداقت کے طور پر اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا ذکر فرمایا ہے جہاں پیشگوئی نمبر 60بابت مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک میں اور پیشگوئی نمبر 121بابت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے گواہوں میں بھی آپؓ کا نام درج فرمایا ہے۔ اسی طرح عربی تصنیف ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ میں حضورؑ نے اپنے ایک مخلص عربی مرید حضرت محمد بن احمد المکیؓ کے خط کا ذکر فرمایا ہے جس میں انہوں نے حضرت حکیم صاحبؓ کے نام بھی سلام بھجوایا ہے۔ پھر حضورؑ نے اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں گورنمنٹ کے نام اپنی پُرامن جماعت کے بعض معززین کی فہرست درج فرمائی ہے جس میں 162 نمبر پر ’’حکیم سید حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ‘‘ کا نام شامل فرمایا ہے۔
حضرت حکیم صاحب جب قادیان حاضر ہوتے تو یہاں بھی خدمات بجا لاتے،حضورؑ آپ کو بھی مشوروں میں شامل کرتے۔آپ کو تعمیرات کا ذوق تھا،منارۃ المسیح کی تعمیر کا کام جب شروع ہوا تو حضور نے آپ کو سیالکوٹ سے بلوایا اور آپ کو ہی اس کا اہتمام دیا گیا اور آپؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت سید محمد رشید صاحبؓ کو اس کام پر مامور کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ نے لوگوں کو جمع کر کے مینارہ کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت میر حسام الدین صاحبؓ نے تقریر کی اور کہا اگر یہ بنوانا ہے تو اس پر دس ہزار روپیہ لگے گا اور اس سے کم میں یہ تیار نہیں ہو سکتا۔ حضور نے فرمایا کہ اتنا روپیہ بہت ہے، اتنا روپیہ یہ غریب جماعت کہاں سے لاوے گی، کچھ کم تخمینہ کرو۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ کی عادت تھی کہ مہمانوں کے لئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کر عمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے۔ حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ضعیف العمر آدمی تھے، اُن کو بلایا اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے جو مہمانوں کے لئے پکوایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا! اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی، انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھا لئے اور آخر انہوں نے بہت سے شلجم منگوائے اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں، شلجم چھلوا کر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں، پھر وہ دیگ پکوائی جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی۔
حضرت مسیح موعودؑ پرانے تعلقات کی وجہ سے آپ کو نہایت محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی دلجوئی فرماتے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اتفاق سے جماعت نے آپ کے قیام کے لئے جو بالا خانہ تجویز کیا وہ بغیر منڈیر کے تھا، آپؑ کو چونکہ اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس مکان کی چھت پر منڈیر نہیں اس لئے آپؑ مکان میں تشریف لے گئے مگر جونہی آپؑ کو معلوم ہوا کہ اس کی منڈیر نہیں، آپؑ نے فرمایا کہ منڈیر کے بغیر مکان کی چھت پر رہنا جائز نہیں اس لئے ہم اس مکان میں نہیں رہ سکتے۔ پھر آپؑ نے مجھے بلایا اور فرمایا ابھی سید حامد شاہ صاحب کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم کل واپس جائیں گے کیونکہ ایسے مکان میں رہنا شریعت کے خلاف ہے۔ وہ بڑے مخلص اور سلسلہ کے فدائی تھے انہوں نے جب یہ سنا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر کہا کہ بہت اچھا، حضرت صاحب سے عرض کر دیجئے کہ ہم انتظام کر دیتے ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو معلوم ہوا تو ایک کے بعد دوسرے دوست نے آنا شروع کر دیا اور انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب سے عرض کیا جائے کہ وہ ہماری اس غلطی کو معاف فرما دیں، ہم ابھی آپ کے لئے کسی اور مکان کا انتظام کردیتے ہیں، وہ خدا کے لئے سیالکوٹ سے نہ جائیں۔ مگر شاہ صاحب نے فرمایا میں اس بات کو پیش کرنا ادب کے خلاف سمجھتا ہوں۔ جب حضرت صاحب نے فرما دیا ہے کہ اب ہم واپس جائیں گے تو ہمیں حضورؑ کی واپسی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اتنے میں اُن کے والد میر حسام الدین صاحب مرحوم کو اس بات کا پتہ لگ گیا، وہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرما لیا کرتے تھے اور تھے بھی حضور کے پرانے دوستوں میں سے۔ سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعودؑ کا جو زمانۂ ملازمت گزرا ہے اُس میں میر صاحب کے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہ چکے تھے اِس لئے وہ بے تکلفی سے گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ وہ یہ سنتے ہی مکان پر تشریف لائے اور بڑے زور سے کہا بلاؤ مرزا صاحب کو۔ میرا چونکہ اُن سے کوئی تعارف نہیں تھا اس لئے میں تو نہ سمجھ سکا کہ یہ کون دوست ہیں۔ خیر میں گیا اور حضرت مسیح موعودؑ سے کہا کہ ایک بُڈھا سا آدمی باہر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بلاؤ مرزا صاحب کو، نام حسام الدین ہے۔ حضرت مسیح موعود یہ سنتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے اور سیڑھیوں سے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔ ابھی آپ آخری سیڑھی پر نہیں پہنچے تھے کہ میر صاحب نے رو کر اور بڑے زور سے چیخ مار کر کہا کہ اس بڈھے واریں مینوں ذلیل کرنا ہے ، ساڈا تے نک وڈیا جائے گا۔ یعنی کیا اس بڑھاپے میں آپ مجھے لوگوں میں رُسوا کرنا چاہتے ہیں میری تو ناک کٹ جائے گی اگر آپ واپس چلے گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ پر اس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ آپ نے فرمایا سید صاحب! ہم بالکل نہیں جاتے، آپ بے فکر رہیں۔ چنانچہ فوراً جماعت نے کیلے گاڑ کر قناتیں لگا دیں اور شریعت کا منشا بھی پورا ہوگیا اور حضرت مسیح موعودؑ کو جو شکایت تھی وہ دُور ہوگئی۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ بھی حکیم صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے۔ حکیم صاحب مرحوم تیز طبیعت واقع ہوئے تھے لیکن حضرت اقدسؑ کے سامنے وہ بہت مؤدب اور محتاط ہوتے تھے۔ حضورؑ کو بھی حکیم صاحب کی دلجوئی اور خاطر داری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی۔
مارچ 1901ء میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا اجراء ہوا تو ایک مستقل فنڈ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک پر لبّیک کہنے والوں میں حضرت میر حسّام الدین صاحبؓ اور آپؓ کے بیٹے حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ بھی شامل تھے۔
اسی طرح کتاب تحفہ قیصریہ کے آخر میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی 1897ء کے شرکاء اور ان احباب کے نام درج ہیں جنہوں نے چندہ دیا۔ آپؓ اس جلسے میں شامل تو نہ ہوسکے لیکن ایک روپیہ چندہ بھجوایا، آپ کا نام اس فہرست میں 269نمبر پر درج ہے۔
ستمبر 1898ء میں آپؓ کے داماد حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحبؓ کی وفات ہوئی تو حضرت اقدسؑ نے قادیان میں نماز جنازہ غائب پڑھائی اور آپؓ کے نام تعزیتی مکتوب تحریر فرمایا جس کا آغاز یوں فرمایا:
’’محبی مکرمی اخویم حکیم سید حسام الدین صاحب سلمہٗ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
اس وقت یک دفعہ دردناک مصیبت واقعہ وفات اخویم سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریر اور تقریر سے باہر ہے، طبیعت اس غم سے بے قرار ہوئی جاتی ہے، …‘‘
حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ نے اگست 1913ء میں وفات پائی۔ آپؓ کی وفات پر آپؓ کے بیٹے حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ نے فارسی زبان میں ایک حمدیہ نظم بھی لکھی جس میں یہ بھی لکھا:
’’تیرا فضل و احسان اس طرح ہوا ہے کہ اگرچہ تُو نہاں ہے مگر میں تجھے عیاں دیکھتا ہوں۔ تُو نے مجھے عدم سے زندگی عطا کی تاکہ میں اس جہان کا نظارہ کروں۔ طفولیت میں میری ماں کی گود میں تُو نے اپنا دارِ جنت دکھا دیا۔ تُونے مجھ بے دست و پاکو پالا پوسا، مجھے عقل و ذہانت بخشی۔ میری عمر کے 53سال گزر گئے، ہر مشکل میں مَیں نے تیری مہربانی کا مشاہدہ کیا۔ تُو نے میرے باپ کو اتنا جاہ و اقبال عطا کیا کہ دین و دیانت میں انہیں شہرت ملی۔ مجھے اُن کی خدمت کی توفیق دی، مَیں نے اُن سے ادب و متانت سیکھی۔ اب میرے سر سے وہ سایۂ پدرم جاتا رہا تاکہ تیرے دوسرے نشانات ظاہر ہوں۔ … اے خدائے ذوالعجائب! والد کی وفات پر مَیں تجھ سے ہی استعانت چاہتا ہوں۔ پہلے بھی جو کچھ ہوا، تیری ہی مہربانی سے ہوا۔ مَیں تیرے کرم کے بحرِ بیکراں سے ہر گز مایوس نہیں۔ اپنے فضل و کرم سے میرا دستگیر بن کہ مَیں ایک لمحہ بھی تجھ سے گریزاں نہیں ہو سکتا۔ تُو اپنا آپ اپنے حامدؔ پر عیاں فرما کہ اس سے تُو غائب و نہاں ہے۔‘‘
حضرت میر حسّام الدین صاحبؓ کی اہلیہ بھی جذبۂ ایمان سے پُر اور مخلص خاتون تھیں اور رؤیا صالحہ کے درجہ سے مشرف تھیں۔ 1907ء میں جب حضرت اقدسؑ کے بیٹے حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات ہوئی تو اُن کی وفات کے متعلق آپؓ کی ایک خواب کا ذکر ملفوظات میںاس طرح محفوظ ہے:’’سید میر حامد شاہ صاحب نے عرض کی کہ حضور میری والدہ نے آج صبح کو خواب میں دیکھا تھا کہ حضور کے چار روشن ستارے ہیں، ایک اُن میں سے ٹوٹ کر زمین کے اندر چلا گیا ہے‘‘۔ حضرت میر صاحبؓ کی اس بیوی کی وفات حضرت مسیح موعودؑ کے دَور میں ہی ہوگئی تھی جس کے بعد حضورؑ نے آپؓ کی دوسری شادی کا بھی اظہار فرمایا تھا۔ اس وقت حضرت میر صاحبؓ بہت معمّر تھے اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ شادی عمل میں نہیں آئی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحبؓ کو نہایت نیک اور صالح اولاد سے نوازا تھا جو آپ ہی کی طرح خادم دین اور مخلص تھی۔ معلوم اولاد درج ذیل ہے:
(1) حضرت سید حامد شاہ صاحب تقریباً 1859ء میں پیدا ہوئے، 1877ء میں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور ڈی سی آفس میں ملازم ہوگئے۔ آپ نے 29دسمبر 1890ء کو بیعت کی۔ آپ نظم و نثر میں کمال رکھتے تھے، متعدد کتابیں لکھیں۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپ کی نسبت تحریر فرمایا:’’سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی۔ یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں جس قدر خدا تعالیٰ نے شعر اور سخن میں اُن کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول فصیح کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی۔ میر حامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق و اخلاص و محبت ظاہر ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجا لائیں گے۔ اُن کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے، میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پُرانے دوست میر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کے خلف رشید ہیں۔‘‘
حضور علیہ السلام نے اپنی دیگر تحریرات و ملفوظات میں بھی آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ 15نومبر 1918ء کو قریباً 60 سال کی عمر میں وفات پائی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر جنازہ سیالکوٹ سے قادیان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔
(2) حضرت میر محمود شاہ صاحبؓ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے 313صحابہ میں سے تھے۔ 27مارچ 1891ء کو آپؓ نے بیعت کی توفیق پائی۔ آپؓ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں نقل نویس تھے۔1892ء کے جلسہ قادیان میں بھی شامل ہوئے۔ 313صحابہ کی فہرست میں 93نمبر پر آپؓ کا نام ہے جہاں نام کے ساتھ مرحوم لکھا ہے جس کا مطلب ہے آپ نے 1897ء سے پہلے وفات پائی۔
آپؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ نے 7فروری 1892ء کو حضورؑ کے سفر سیالکوٹ کے موقع پر بیعت کی توفیق پائی تھی۔
(3) حضرت سید محمد سعید صاحبؓ بھی ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں کہ بیعت (1895ء) سے قبل جب اسلام اور احمدیت کا مطالعہ کر رہا تھا اسی دوران سیالکوٹ میںحضرت میر حسام الدین صاحبؓ کے قریبی رشتہ دار حضرت بشیر حیدر صاحبؓکی بیٹھک میں ٹھہرا۔ ان دنوں عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کا چرچا تھا اور تقریباً روزانہ اس مسئلہ پر بحث ہوتی تھی، اس پیشگوئی کی صداقت کے حق میں دلائل دینے والے سادات فیملی کے نوجوان تھے جن میں حضرت سید محمد سعید صاحب بھی شامل تھے۔ انہوں نے 1907ء میں وفات پائی۔
(4) حضرت سید محمد رشید صاحبؓ محکمہ انہار میں کلرک تھے۔ آپؓ منارۃ المسیح کے ابتدائی کام کے انچارج رہے، اینٹیں تیار کروائیں۔ آپؓ مع اہل و عیال آئے تھے اور آپؓ کے قیام کی خاطر بک ڈپو کے اوپر کا چوبارہ اور اس کے جنوبی جانب کا کمرہ جو گلی کے اوپر ہے تیار کروایا گیا تھا۔ آپ اور آپؓ کے بڑے بھائی حضرت سید محمد سعید صاحبؓ دونوں کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم 10نومبر 1899ء میں موجود ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنی ایک پیشگوئی کی تصدیق میں آپؓ کا تصدیقی خط بھی درج فرمایا ہے۔
(5) حضرت سیدہ حمیدہ بیگم صا حبہ کی شادی 1877ء میں حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب (یکے از 313۔ بیعت 9جولائی1891ء۔ وفات15ستمبر 1898ء) کے ساتھ ہوئی۔ حضرت سیدہ حمیدہ بیگم صاحبہؓ نظام وصیت میں شامل تھیں۔ آپؓ نے 22جولائی 1945ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔آپ کی اولاد میں تین بیٹیاں شامل تھیں۔
(6) حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ نے بھی 7فروری 1892ء کو حضورؑ کے سفر سیالکوٹ کے موقع پر بیعت کی توفیق پائی تھی۔ آپؓ کی شادی حضرت سید امیر علی شاہ صاحبؓ سارجنٹ پولیس (یکے از 313۔ بیعت 29مئی 1891ء) جو حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحبؓ کے بھائی تھے، کے ساتھ ہوئی تھی۔
…*…*…*…
مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14 ستمبر 2012ء میں مکرم مظفر احمد درّانی صاحب کے قلم سے مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 22 جنوری 2016ء کے الفضل انٹرنیشنل کے اسی کالم میں مرحوم کا ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ ابن مکرم سیف علی شاہد صاحب امیر ضلع میرپورخاص سے خاکسار کا تعلق بہت پرانا ہے۔ 1989ء میں بطور مربی ضلع جھنگ میری تقرری ہوئی تو اُن دنوں عنایت پور بھٹیاں میں مکرم مبارک محمود صاحب تعینات تھے جہاں آپ سے میرا باقاعدہ تعارف ہوا۔ ہم دونوں نے ایک سائیکل پر بیٹھ کر اُن کے حلقہ کی جماعتوں کے دورے کئے۔
ایک ہی حلقہ میں مکرم مبارک محمود صاحب کے ساتھ کام کرنے سے معلوم ہوا کہ آپ بہت شریف النفس، بے ضرر، ہمدرد اور دوسرو ں کے خیرخواہ تھے اور جماعتی خدمت کے مواقع تلاش کر کے ذاتی لگن اور بہت محنت سے وقف کی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ بعدازاں ٹھٹھہ شیریکا میں متعیّن ہوئے۔ ہر دو جگہ مسجد کے ساتھ والے کمرہ میں آپ کی رہائش تھی، مسجد میں درس و تدریس کے علاوہ آپ کے کمرہ میں بھی چھوٹوںاور بڑوں کا ہر وقت آناجانا لگا رہتا تھا۔ ڈیروں، زمینوں اور دکانوں پر جاکر بھی آپ احباب جماعت سے رابطہ رکھتے۔ اور اپنی تمام مفوّضہ ذمہ داریوں کو باحسن سر انجام دیتے۔ آپ کی شرافت و ہمدردی اور دوسروں کی خیر خواہی کی وجہ سے اس حلقہ کے احباب ہمیشہ آپ سے رابطہ میں رہے۔
20فروری 1993ء کو خاکسار کینیا گیا جس کے چند سال بعد آپ تنزانیہ تشریف لے گئے۔ اپریل 1999ء میں جب خاکسار کا تقرر تنزانیہ کے لئے ہوا تو مکرم مبارک محمود صاحب تنزانیہ میں اکیلے مقیم تھے۔ فیملی پاکستان میں تھی۔ آپ کا سنٹر عروشہ شہر تھا اور آپ کے حلقہ میں ہی افریقہ کا سب سے بڑا پہاڑ Kilimanjaroواقع تھا۔ آپ نے اپنے حلقہ میں تبلیغ و تربیت کے کام کو خوب جاری رکھا اور میدان عمل میں ہی سواحیلی زبان بھی سیکھتے رہے۔ اس سنٹر میں بہت چھوٹی جماعت تھی جس کی وجہ سے ایک دشمن نے آپ کو ذہنی اور جسمانی دکھ میں مبتلا کئے رکھا حتی کہ آپ کواسیری کے دن بھی کاٹنے پڑے مگرآپ نے خدا کی خاطر یہ وقت بھی نہایت حوصلہ ،ہمت اور صبر سے گزارا۔
جب عروشہ میں آپ کی جگہ پر دوسرے مبلغ کا تقرر ہوا تو انہوں نے روٹی پکانے کے لئے توے کا مطالبہ کیا۔ جب مکرم مبارک محمود صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ توے کے بغیر کیسے گزارہ کرتے رہے تو آپ نے جواب دیا کہ دوسال کے عرصہ قیام میں خاکسار نے کبھی روٹی پکائی ہی نہیں۔ اس عرصہ میں چاول اور ڈبل روٹی کھاکر گزارہ کرتے رہے۔ بعدازاں مختلف مقامات پر متعیّن رہے جہاں بڑی جماعتیں تھیں اور ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں۔ 2001ء میں ایک ماہ کے لئے تنزانیہ کے قائم مقام امیر اور مربی انچارج بھی رہے۔
کینیا کی سرحد پر تنزانیہ کا آخری شہر تاریمے (Tarime) ہے۔ سرحد کے دونوں طرف دونوں ملکوں میں بکثرت احمدی جماعتیں قائم ہیں۔ مقامی لوگوں کے لئے آر پار آنے جانے کے لئے کوئی پابندی نہیں۔ اس لئے تاریمے میں دومنزلہ بڑی مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا جس میں بالائی منزل پر معلّم کی رہائشگاہ بھی شامل تھی۔ اس منصوبہ کی تعمیر کی نگرانی کے لئے مکرم مبارک محمود صاحب کو وہاں بھجوادیا گیا۔ آپ نے بہت محنت سے سارا سارا وقت موقع پر کھڑے ہو کر اپنی مرضی کا تسلی بخش کام کروایا۔ جماعت احمدیہ تنزانیہ کی یہ پہلی دو منزلہ مسجد تھی۔
مکرم مبارک محمود صاحب کو شروع سے ہی ٹائپنگ کا شوق تھا اس لئے انہیں ایک ٹائپ رائٹر مہیا کر دیا گیا جس پر آپ چھوٹے چھوٹے پمفلٹس تیار کر کے اپنے داعیان اور زیر تبلیغ دوستوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ تقریباً ہر ماہ چند دلائل پر مشتمل ایک نیا پمفلٹ تیار کرکے اس کی کاپیاں کرواکے مہیا کیا کرتے تھے۔ آپ جہاں جہاں بھی رہے ڈش انٹینا کا باقاعدہ خیال رکھتے تا کہ MTAکی مسلسل دستیابی میسر رہے۔ MTAسے خطبات اور دیگر معلومات حاصل کر کے اس کا خلاصہ اور سواحیلی ترجمہ احبابِ جماعت تک پہنچایا کرتے تھے۔
آپ Mbeya میں مقیم تھے کہ بیمار ہوگئے اور ابتدائی آپریشن وہیں ہوا۔ 2006ء میں بیماری کی حالت میں ہی پاکستان تشریف لائے اور بقیہ علاج کراچی میں ہوا۔ صحت کی بحالی پر 2007ء کے آخر میں وکالتِ تصنیف تحریک جدید ربوہ کے سواحیلی ڈیسک میں تعیناتی ہوئی جبکہ آپ سے دو ماہ قبل خاکسار بھی سواحیلی ڈیسک میں تعینات ہو چکا تھا۔ بیماری اور کمزوری کے باوجود بہت محنت سے کام کرتے رہے۔ انٹرنیٹ سے سواحیلی زبان سیکھتے اور نیٹ پر سواحیلی ریڈیو بھی سنا کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے سواحیلی محاورات کا ایک کتابچہ بھی تیار کیا اور نیٹ سے ہی عام استعمال کے قواعد مع امثلہ تلاش کرکے پرنٹ کرلئے۔ الغرض سواحیلی زبان میں ترقی کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ اور خواہش رکھتے تھے کہ مکمل صحت یابی کے بعد اپنے خرچ پر چند ماہ کے لئے تنزانیہ جاکر سواحیلی زبان میں بہتری پیدا کر یں گے۔ مگر اللہ کو اور ہی منظور تھا۔ پانچ سال کی تکلیف دہ بیماری کاٹنے کے بعد بالآخر 4مئی2011ء کو وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت ہی ہمدردانہ اور احترام والا سلوک تھا۔ آپ یقین ،لگن اور امنگ سے لبریز تھے۔
13مئی کے خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے آپ کا ذکرِ خیر فرمایا او رنمازِ جنازہ غائب پڑھائی۔
…*…*…*…