الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت قاری غلام حٰمٓ صاحبؓ
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہ میں رسول پور ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے تین ایسے بھائی بھی شامل ہیں جو اپنے تقویٰ و طہارت، بلند اخلاق اور دینی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے یعنی حضرت قاری غلام حٰمٓ صاحب (جن کے بارہ میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا تحقیقی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13ستمبر 2012ء میں شامل اشاعت ہے۔ دوسرے بھائی حضرت قاری غلام یٰسین صاحبؓ (وفات 22 جولائی 1940ء قادیان) تھے اور تیسرے حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحبؓ (وفات 24؍ اکتوبر 1962ء ربوہ، جن کے حالات الفضل انٹرنیشنل 30اپریل 2010ء کے اسی کالم میں شائع ہوچکے ہیں۔)
حضرت قاری غلام حٰمٓ صاحبؓ ولد میاں محمد بخش صاحب کے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کی توفیق آپ کے چھوٹے بھائی حضرت قاری غلام یٰسین صاحبؓ نے 1897ء میں پائی۔ اس کے بعد آپؓ نے 1903ء میں تحریری اور بعدازاں 1905ء میں قادیان حاضر ہوکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ اپنے قبولِ احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے (فروری 1938ء میں) فرماتے ہیںکہ خاکسار 1903ء میں بسلسلہ ملازمت پولیس تھانہ منالوان ضلع لاہور میں تعینات تھا کہ علاقہ کا ایک نمبردار مجھے ملا اور حضرت مسیح موعودؑ کا ’’لیکچر اعظم‘‘ مجھے دیا جو وہ لاہور سے لایا تھا۔ مَیں نے لیکچر بار بار پڑھا جس سے طبیعت میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا ہوگئی اور خاکسار متلاشیٔ حق ہوگیا۔ پھر سرکاری کام سے لاہور جاتا تو وہاں پر احمدیوں سے بات چیت بھی کرتا حتیٰ کہ مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ میں واقعی خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ چونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اور ملازمت کا معاملہ تھا اس لئے میں نے بذریعہ خط بیعت کا شرف حاصل کر لیا۔ 1905ء میں جب تبدیل ہوکر لاہور آگیا تو اسی سال موسم بہار میں ایک عظیم زلزلہ آیا تھا جس کی وجہ سے لاہور شہر میں پچیس اموات وقوعہ میں آئیں جن کے نعشے مرگ اتفاقیہ مَیں نے مرتب کئے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دفعہ تو بچا لیا ہے اس لئے حضرتِ اقدسؑ کی زیارت ضرور کرنی چاہئے۔ چنانچہ مَیں رخصت لے کر مع اپنے فرزند عزیزم شیخ احمد صاحب (عمر قریباً 20/21 سال) اور دیگر دو اصحاب (شیخ نور الدین صاحب چٹھی رساں محکمہ ڈاکخانہ اور غلام محمد خان صاحب کپورتھلوی) کے ہمراہ بذریعہ ریل بٹالہ سٹیشن پہنچا۔
بٹالہ کے اڈّہ پر ہمارے قادیان جانے کا معلوم ہونے پر بعض غنڈے قادیان جانے سے روکنے کے لئے ملے لیکن ہم کو چونکہ دل میں ایک عشق حضرت صاحب کے متعلق موجزن تھا اس لئے کسی کی بکواس کی کچھ پرواہ نہ کرتے ہوئے یکّہ میں سوار ہوکر قادیان کو روانہ ہوئے۔ قادیان میں مہمان خانہ پہنچے جہاں چارپائیاں ہم کو مل گئیں اور پھر مسجد مبارک میں حضرت اقدسؑ کے ساتھ نمازیں ادا کیں۔ اس وقت مسجد مبارک ایک لمبا سا کمرہ تھا جس میں ایک صف میں صرف پانچ چھ کس کھڑے ہوتے تھے۔ آگے ایک کوٹھڑی تھی جس میں اگلے دن صبح حضرت اقدسؑ رونق افروز تھے اور حضورؑ کے پاس حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ موجود تھے۔ ہم چاروں نے دستی بیعت کی اور حضورؑ نے مفتی صاحب کو فرمایا کہ ان کے نام لکھ لئے جاویں۔ پھر جب تک حضورؑ کوٹھڑی میں رونق افروز رہے ہم بھی وہاں موجود رہے۔ حضرت اقدسؑ اس وقت زلزلوں کے متعلق ذکر کرتے رہے کہ فلاں جگہ بہت نقصان ہوا ہے اور فلاں جگہ کم۔ مَیں نے لاہور کے متعلق بھی عرض کیا۔ پھر حضورؑ اپنے گھر تشریف لے گئے تھے۔
تقریباً چھ یوم ہم چاروں حضورؑ کے قدموں میں ٹھہرے اور نماز حضورؑ کے ساتھ پڑھتے رہے۔ ایک دن حضورؑ مسجد مبارک میں صبح تقریباً نو دس بجے تشریف لائے۔ ہم چاروں اور دیگر مہمان بھی حضورؑ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ بھی کچھ ہٹ کر تشریف رکھتے تھے۔ مولوی محمد علی صاحب منی آرڈروں کا تھبہ لائے اور حضورؑ کے آگے رکھ دیئے، حضورؑ نے اُن منی آرڈروں پر دستخط کر دیئے۔ مولوی صاحب نے روپیہ حضورؑ کے آگے رکھ دیا۔ حضورؑ نے اُس وقت نہیں پوچھا تھا کہ کتنے روپے ہیں اور کس نے بھیجے ہیں۔ گفتگو کے دوران کوئی علمی بات آنے پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو حضورؑ نے یاد فرمایا تو وہ حاضر ہوئے اور حضورؑ کے سوال کا جواب دیا۔ ساتویں دن صبح کی نماز سے فارغ ہوکر جبکہ حضورؑ اندر تشریف لے جا چکے تھے، ہم چاروں نے واپسی کی اجازت چاہی تو حضورؑ اندر سے اٹھ کر دروازہ پر تشریف لائے اور فرمایا کہ اَور یہاں ٹھہرو، ہم نے عذرِ ملازمت پیش کیا تو حضورؑ نے ہم کو مصافحہ کے بعد اجازت دیدی۔
1906ء میں میرے برادر اصغر غلام مجتبیٰ صاحب ہانگ کانگ سے رخصت لے کر میرے پاس لاہور آئے تو برادرم قاری غلام یٰسین صاحب بھی میرے پاس موجود تھے۔ یہ دونوں بھائی دو روز بعد اپنے وطن ضلع گجرات چلے گئے۔ پھر کچھ دن بعد واپس آئے تو غلام مجتبیٰ صاحب نے بیعت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔ چنانچہ مَیں نے بھی ہفتہ کی رخصت حاصل کی اور دونوں بھائیوں کے ہمراہ قادیان پہنچا جہاں غلام مجتبیٰ صاحب نے حضرت اقدسؑ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کر لیا۔ تین چار یوم کے بعد ہم نے واپسی کی اجازت مانگی تو اُس وقت بھی حضورؑ نے یہی فرمایا کہ اَور ٹھہرو لیکن ملازمت کے عذر کے باعث، بعد مصافحہ، اجازت عطا فرمادی۔
1908ء میں حضورؑ کی وفات ہوئی تو اُس وقت مَیں تھانہ قصور میں تعینات تھا۔ سخت صدمہ ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بیعت بذریعہ خط کرلی۔ اور 1914ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے وفات پائی تو اس روز مَیں قادیان میں موجود تھا۔ جنازہ پڑھا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت میں داخل ہوگیا۔ 1920ء میں بعہدہ سب انسپکٹری سے پنشن لے کر ہجرت کرکے قادیان آکر مقیم ہوگیا اور خدماتِ سلسلہ سرانجام دیتا رہا۔
حضرت قاری غلام حٰمٓ صاحبؓ 1923ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ آپؓ نے 6ستمبر 1941ء کو بعمر 77سال قادیان میں وفات پائی اور مقبرہ بہشتی کے قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ کی اہلیہ حضرت حسن بی بی صاحبہ بھی 1929ء میں نظام وصیت کے ساتھ وابستہ ہوئیں۔
آپؓ کے بیٹے حضرت بابا شیخ احمد صاحبؓ 1906ء میں ہانگ کانگ چلے گئے تھے اور واپسی پر قادیان ہی میں مقیم ہوئے اور معمولی دکانداری کا کام کرتے رہے۔ تقسیم ملک کے بعد درویشان قادیان میں شامل ہوگئے۔ کم گو بھی تھے اور کم آمیز بھی تھے، تنہائی پسندی کی وجہ سے مجالس میں جانا پسند نہ کرتے تھے چنانچہ اپنی ساری درویشی کا زمانہ اسی طرح تنہائی میں گزار دیا۔ سفیدریش اور کوتاہ قامت تھے۔ درویشی کے گیارہ سال عزلت نشینی میں گزار کر 10 فروری 1958ء کو وفات پائی اور قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔
حضرت قاری غلام حٰمٓ صاحب کی ایک بیٹی محترمہ مبارکہ حٰمٓ صا حبہ کی شادی حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحبؓ کے فرزند مکرم جنید ہاشمی صاحب بی اے کے ساتھ ہوئی۔ وہ جولائی 1917ء میں پیدا ہوئیں اور 3؍اپریل 1953ء کو 36سال کی عمر میں لاہور میں فوت ہوئیں اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔
…٭…٭…٭…
مکرم محمد نواز صاحب کی کراچی میں شہادت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ14ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 11؍ستمبر2012ء کومکرم محمد نوازصاحب آف اورنگی ٹاؤن کراچی کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ وہ محکمہ پولیس میں بحیثیت کانسٹیبل تھانہ پیر آباد (بنارس) میں تعینات تھے۔ وقوعہ کے روزرات 8بجے موٹرسائیکل پر ڈیوٹی پر جا رہے تھے کہ نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کردی۔ ان کے سر پر دو گولیاں لگیں جس سے موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ آپ کی عمر 44 سال تھی۔ تدفین ربوہ میں کی گئی۔
مکرم محمد نواز صاحب کے والد مکرم احمد علی صاحب کا تعلق ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں سے تھا۔ انہوں نے 1950ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اَن پڑھ تھے لیکن بڑے فدائی اور مخلص تھے ۔
مکرم محمد نواز صاحب 1968ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے گاؤں سے 1984ء میں میٹرک تک تعلیم پائی اور پھر فیصل آباد میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں کام کیا۔ 1988ء میں پولیس لائن میں بحیثیت کانسٹیبل بھرتی ہوگئے۔ مرحوم سادہ طبیعت کے مالک اور خوش اخلاق و نیک دل انسان تھے۔ دینی کاموں کے لئے بھرپور تعاون کرتے اور جماعت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے۔ اہم تقریبات کے مواقع پر مسجد کی حفاظت کی ڈیوٹی سرانجام دیا کرتے تھے۔ خلیفۂ وقت کے خطبات باقاعدگی سے سنتے اور کبھی ڈِش انٹینا خراب ہو جاتا تو فکرمندی سے اُسے جلدی ٹھیک کروایا کرتے تھے۔ بطور کانسٹیبل بھی اپنے فرائض پوری تندہی، محنت اور لگن سے سرانجام دیتے۔ محکمہ کے ساتھی بھی ان کے کام کی تعریف کیا کرتے تھے۔ مرحوم کو اپنے بچوں کی تعلیم کی بہت فکر رہتی اور اپنے محدود اثاثوں کے باوجود بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں۔ دیگر لواحقین میں ضعیف العمر والدہ، تین بھائی اور ایک بہن بھی شامل ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے 14ستمبر 2012ء کو خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا مختصر ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
…٭…٭…٭…
اکاشی کیکیو برِج ۔جاپان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ21ستمبر 2012ء میں جاپان میں واقع دنیا کے طویل ترین سسپنشن پُل کا تعارف پیش کیا گیا ہے جو ’کوبے‘شہر کو ’اواجی شیما ‘ جزیرے سے ملاتا ہے۔ اس پُل کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل یہ اعزاز ڈنمارک کے گریٹ بیلٹ ایسٹ برج کو حاصل تھا جس سے یہ پُل 366میٹر لمبا ہے۔ اس پُل کا افتتاح 5؍اپریل 1998ء کو جاپان کے ولی عہد اور شہزادی سیاکونے کیا۔
اکاشی کیکیو پُل صرف طویل ہی نہیںبلکہ سب سے اونچا بھی ہے۔ اس کے دو ٹاوروں کی اونچائی 928فٹ ہے جو ایفل ٹاور کے برابر ہے۔ جاپانی انجینئروں نے ا س پُل کو ایک خاص تکنیک کے ذریعے مضبوط بنایا جسے Truss کہتے ہیں۔ اس تکنیک میں پُل میں مختلف آہنی تکونوں کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے جس میں سے ہوا آر پارگز ر سکتی ہے۔ اس ڈیزائن کی وجہ سے یہ پُل 180میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
اس پُل کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ شدید زلزلے کو برداشت کر سکتا ہے۔ پُل سے 150کلومیٹر دُور اگر ریکٹر سکیل پر 8.5درجے کا زلزلہ آ جائے تو اسے بھی یہ پُل برداشت کر سکتا ہے۔
اس پُل میں 3لاکھ کلومیٹر لمبی کیبل استعمال کی گئی ہے جسے زمین کے گرد سات دفعہ لپیٹا جا سکتا ہے۔ لمبائی اور اونچائی کے علاوہ اس پُل کا ایک اَور عالمی ریکارڈ بھی ہے یعنی دنیا کا سب سے مہنگا پل۔ اس کی تعمیر پر 4.3بلین ڈالر کی لاگت آئی جو اب تک دنیا میں کسی بھی پُل پر آنے والی سب سے بڑی لاگت ہے۔
اپریل 2006ء میں اس طویل ترین سسپنشن پُل کو دنیا کے سات نئے عجائبات میں شامل کرلیا گیا تھا۔
…٭…٭…٭…
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اگست 2012ء میں مکرم مبارک احمد ظفرؔ صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔
اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
اللہ کے فضلوں کا مورد جو بنی ہوگی
پھر عجز و نیازی میں وہ ذات جھکی ہوگی
مقبول ہوئی شب جو دربارِ الٰہی میں
آہوں سے سجی ہوگی اشکوں میں ڈھلی ہوگی
ہے راہ کٹھن لیکن رُکنے نہ قدم پائیں
مٹ جائے گی رستے کی جو روک کھڑی ہوگی
گر جذبۂ طارقؔ ہو اللہ پہ بھروسہ بھی
پھر دُور بھی ہو منزل قدموں میں پڑی ہوگی
بجھنے نہیں پائے گی ، ہو گی وہ سدا روشن
وہ خونِ شہیداں سے جو شمع جلی ہوگی
اے روح کے بیمارو! گر مانو مسیحا کو
چل جائے گی بالآخر گر نبض رُکی ہوگی