کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

خیرالرسل صلی اللہ علیہ و سلم کے اخیارِ اُمّت کا زمانہ جو تین صدیوں تک تھے نصف دن کے نصف کے مشابہ ہے یعنی عصر کا وقت جو متوسط دنوں میں تین گھنٹے کا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اللہ کی تقدیر اور اس کی حکمت کے مطابق تاریک رات آ گئی جو ظلم اور جوَر سے بھری ہوئی تھی اور وہ ایک ہزار سال تک چلتی چلی گئی۔ پھر اس کے بعد خدائے رحمٰن کے فضل سے مسیح موعود کا سورج چڑھنا مقدر تھا۔ پس یہ معنٰی اُس عصر کے ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ اور یہی وقتِ عصر کی حقیقت ہے جو ہم پر ظاہر ہوئی ہے۔

’’ اور آپﷺ کے بہترین متبعین کے سلسلہ کو اس مدّت تک لے گیا جو اس نصف مدّت کا نصف ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی یعنی تین صدیوں تک جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد تین سو سال گزرے۔ پس موسیٰ کی امت کا زمانہ کامل اور تمام دن کے مشابہ ہے اور اس کی صدیوں کی تعداد دن کی گھڑیوں کی تعداد کے برابر ہے۔عیسیٰ علیہ السلام کی اُمّت کا زمانہ فِیْ حَدِّ ذَاتِہٖ اس دن کے نصف کے مشابہ ہے لیکن خیرالرسل صلی اللہ علیہ و سلم کے اخیارِ اُمّت کا زمانہ جو تین صدیوں تک تھے نصف دن کے نصف کے مشابہ ہے یعنی عصر کا وقت جو متوسط دنوں میں تین گھنٹے کا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اللہ کی تقدیر اور اس کی حکمت کے مطابق تاریک رات آ گئی جو ظلم اور جوَر سے بھری ہوئی تھی اور وہ ایک ہزار سال تک چلتی چلی گئی۔ پھر اس کے بعد خدائے رحمٰن کے فضل سے مسیح موعود کا سورج چڑھنا مقدر تھا۔ پس یہ معنٰی اُس عصر کے ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ اور یہی وقتِ عصر کی حقیقت ہے جو ہم پر ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی قربِ قیامت بالکل صحیح بات ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور اہل عرفان (عارفوں) کے نزدیک قرآن مجید کی مختلف تو جیہات ہو سکتی ہیں ۔ پس ایک پہلویہ ہے اور ایک پہلو وہ ہے۔اور غور کرنے پر دونوںدرست ہیں اور اس کا انکار جاہل، اندھے اور سرکشی کے پردوں میں اسیر متعصب کے سوا کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ جو معنے اپنے بیان میں ہم نے پہلے ذکر کئے ہیں ان سے ان بعض اشکال سے نجات ملتی ہے جو عرفان کے بعض پیاسے دلوں میں شیطان کے باربار کے وساوس سے خلجان پیدا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں یہ معنے بخاری اور مؤطا کی حدیث کو معترضین کے اعتراض سے بچاتے ہیں اور اس معترض کے اعتراض سے بھی بچاتے ہیں جو تنقید کی خاطر ہر وقت اسلحہ لٹکائے پھرتا ہے۔ معترض کا اعتراض یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے زمانہ کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی جائے جبکہ اِس دین کا زمانہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے برابر ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے دین کے زمانہ سے زیادہ ہے بلکہ اس عصر کے وقت تک اس کے دگنے زمانہ سے بھی بڑھ گیا ہے۔ پس اس مذکور زمانہ کی نسبت سے عصرکے بیان شدہ معنے کیسے درست ہوں گے بلکہ یہ بیان کھلا کھلا خلافِ واقعہ اور جھوٹ کی انواع میں سے بدترین ہے اور اعتراض کا دامن تو اس ممنوع حد سے بھی آگے بڑھ گیا ہے کیونکہ نزول عیسیٰ ؑ، خروجِ دجاّل اور یاجوج و ماجوج کے نکلنے کی خبر جس کا اکثر عوام الناس انتظار کر رہے ہیں اس کا جھوٹ اس ذکر سے بالبداہت اور بالضرورت ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عصر کا وقت گزر چکا بلکہ ملّت ِ موسویہ کے زمانہ کے تناظر میں بغیر کسی شک و شبہ کے اس سے چارگنا وقت گزر چکا ہے ۔ پس ان پیشگوئیوں کے ظہور کے لئے اب کوئی وقت باقی نہیں رہ گیا اور ان خبروں کے منتظر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ سب خبریں درحقیقت بالکل جھوٹ ہیں اور ان کی تصدیق کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ یہ پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور نازل ہونے والا عیسیٰ نازل ہو چکا ۔نیز دجاّل کا خروج بھی ہو چکا اور یاجوج و ماجوج بھی ظاہر ہو گئے اور ان کا دنیا میں پھیل جانا اور ان کا پھلانگنا اور ان کا عروج پورا ہو گیا ۔ اور وہ تمام خبریں پوری ہو گئیں جو مقدر تھیں۔ اور رسول وقت مقررہ پر لائے جا چکے۔ اور جب ہم قرونِ ثلاثہ کی حدبندی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُمت ِ موسیٰ کا زمانہ ان تینوں امتوں میں سے سب سے لمبا زمانہ تھا اور عیسیٰ علیہ السلام کی اُمّت کا زمانہ اس سے نصف تھا اور اس اُمّت کے بہترین لوگوں کا زمانہ مذکورہ نصف کا نصف تھا تو مذکورہ اعتراض باطل ہو جاتا ہے اور اس شخص پر حقیقت کھل جاتی ہے جو سلیم فطرت اور صحت ِ نیّت سے حق کو معلوم کرنا چاہتا ہے اور قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امّت محمدیہ مرحومہ کا زمانہ امّت موسیٰ ؑ اور امت عیسیٰ ؑ کے زمانہ سے فی الحقیقت کم ہے

[حاشیہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تصریح فرما دی ہے کہ ان امتوں سے مراد جو پہلے گزر چکیں یہو و ونصاریٰ ہیں۔ پس جھگڑنے والے کے لئے کوئی راہ باقی نہیں۔ کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ’’فَمَنْۡ‘‘ (کہ ضَالِّیۡن یہود و نصاریٰ کے سوا اور کون ہیں) نہیں سنا۔ پس غور و فکر سے کام لے۔ پھر ہم بطور تنزّل کہتے ہیں کہ ہمارے نبی مصطفی ؐ کی بعثت کاوقت دوسری امّتوں کی نسبت سے عصر کا ہی وقت تھا کیونکہ پانچویں ہزار کی نسبت جو دنیا کی عمر یعنی سات ہزار سے ہے اس نسبت کے مشابہ ہے جو وقتِ عصر سے پائی جاتی ہے۔ جو بغیر اختلاف کے پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ اس طرح ہے کہ جب بعض علاقوں میں سورج کے طلوع و غروب پر نظر کر کے دن کی کم از کم مقدار سات گھنٹے لی جائے اور آپ جانتے ہیں کہ بعض دور دراز علاقوں میں دن اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ عقل مندوں پر مخفی نہیں۔ پہلی صورت میں ہم نے دن کو زیادہ گھنٹوں کے حساب سے شمار کیا اور دوسری صورت میں کم از کم ساعات کے اعتبار سے اور ہمیں اختیار ہے جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے۔]‘‘

……………………………………………………………

(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 244تا248۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)

مزید پڑھیے…

یاجوج وماجوج کی زمینی تدبیریں اور خداتعالیٰ کی آسمانی تقدیریں 

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button