اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہمتفرق مضامین

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(ایک تجزیہ)(قسط نمبر 7)

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

1978 ءمیں رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد پس منظر اور حقائق

1974ءکے حالات کے بعد جسٹس شوکت عزیز صاحب کے فیصلہ میں 1978 ءکے ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے ۔ اور یہ واقعہ 1978ءمیں رابطہ عالم ِاسلامی کے تحت کراچی [پاکستان] میں ہونے والا ایک اجلاس ہے جس میں اس فیصلہ کے مطابق جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی۔جو قرارداد اس فیصلہ میں درج کی گئی ہے وہ اسی طرح نفرت انگیز مواد پر مشتمل تھی جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ اور اس قرارداد میں جماعت ِ احمدیہ کو حسبِ سابق بغیر دلیل کے یہود کا، استعماری طاقتوں کا بلکہ ہر کسی کا ایجنٹ قرار دے کر ملّت ِ اسلامیہ کے لئے ایک سنگین خطرہ قررا دیا گیا۔اور یہ بے بنیادالزام بھی لگایا گیا تھا کہ نعوذُ باللہ احمدیوں نے قرآن ِ کریم میں لفظی تحریف بھی کی ہے۔ اور حسب ِ سابق یہ الزام بھی لگایا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔عدالتی فیصلہ سے اس قرارداد کا متن درج کیا جاتا ہے۔

Qadianism is a destructive religious doctrine which hides under the guise of Islam in order to conceal its mischievous and malicious ends. Its most un-Islamic allegations are:
a) Its leader’s baseless claim to prophethood.
b) Distortion of Quranic texts
c) Falsification of Jihad-Fight in the cause of Islam
Qadianism is the step-daughter of British Imperialism; it survives only under its guardianship and protection. Qadianism does not faithfully serve the cause of the Muslim Ummah; it is blindly devoted to Imperialism and Zionism, and wholeheartedly supports anti-Muslim powers and policies. It even utilizes the anti-Muslim powers in order to pull down and disintegrate basic principles of Islamic belief. Qadianism persistently endeavours to attain such malicious and mischievous ends….’(PAGE 75-76)

ترجمہ: قادیانیت ایک تخریبی مذہبی عقیدہ ہے جو کہ اسلام کے لبادے میں چھپ کر کام کرتا ہےتاکہ اپنے شریر اور بد ارادوں کو پوشیدہ رکھ سکے۔اس کے نہایت غیر اسلامی ارادے یہ ہیں۔
1۔ان کے بانی کا نبوت کا بے بنیاد دعویٰ۔
2۔قرآن ِ کریم کے متن کو مسخ کرنا ۔
3۔جہاد [اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے] کو منسوخ کرنا
قادیانیت برطانوی استعمار کی سوتیلی بیٹی ہے اور صرف اس کی سرپرستی اور حفاظت میں ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ قادیانیت مسلم اُمّہ کے مقاصد کی وفاداری سے خدمت نہیں کر سکتی۔یہ اندھادھند استعماریت اور صیہونیت کی پیروی کرتی ہے۔اور دل و جان سے ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔یہ بڑی طاقتوں کو بھی استعمال کرتی ہے تا کہ اسلام کے بنیادی عقائد کو پراگندہ کر دے۔قادیانیت مسلسل ان شریر اور بد ارادوں کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے۔
اس کانفرنس کے بارے میں چند حقائق
عدالتی فیصلہ میں رابطہ عالم ِ اسلامی کی اس کانفرنس کی مندرجہ بالاقرارداد کا حوالہ دیا گیا ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُس پس منظر کا جائزہ لیا جائے جس میں یہ کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس کانفرنس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ اُس دور میں اُن کی مرضی کے بغیر پاکستان میں یہ کانفرنس اس قسم کی قرارداد منظور نہیں کر سکتی تھی۔ اور اس کانفرنس کی صدارت پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور و قانون اے کے بروہی صاحب کر رہے تھے۔انہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا :

"Decisions of the conference will be followed by vigorous action.”

ترجمہ: اس کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں پر بھر پور عمل کیا جائے گا۔

اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ایشیا کے لئے کانفرنس کا ریجنل سینٹر کراچی [پاکستان] میں قائم کیا جائے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں رابطہ عالمِ اسلامی کی یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی تھی جبکہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں اہم تبدیلیا ں رونما ہوئی تھیں جو کہ امریکہ کے لئے بہت پریشانی کا باعث تھیں۔اپریل 1978ءمیں افغانستان میں نور محمد ترکئی صاحب کی قیادت میں کمیونسٹ گروہ نے صدر دائود کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ ایشیا کے اس اہم حصہ میں کمیونزم کا نفوذ امریکہ، برطانیہ اور ان کے دیگر اتحادیوں کے لئے پریشانی کا باعث تھا۔شاید اسی لئے اس کانفرنس کے اختتام پر رابطہ عالم ِ اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ محمد صفوات نے اعلان کیا :

"Communism with its irreligious doctrine came in for unequivocal condemnation.”

ترجمہ: اس کانفرنس پر اپنے غیر مذہبی نظریہ کی وجہ سے کمیونزم کی غیر مبہم مذمت کی گئی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا افغانستان کی صورت ِ حال پر بھی بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب ہم کمیونزم کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ تمام ممالک ہوتے ہیں جن کو کمیونزم سے خطرہ ہے یا وہاں پر کمیونزم کا نفوذ ہو چکا ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کانفرنس میں سیکولر خیالات اور سوشلزم کو بھی مسترد کیا گیا ہے۔

سعودی امام کعبہ کی طرف سےجنرل ضیاء کی حمایت

جن دنوں میں یہ کانفرنس منعقد کرائی گئی ، اُن دنوں میں پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق صاحب کو بھی کئی چیلنجوں کا سامنا تھا۔وہ ایک سال قبل اس دعوے کے ساتھ آئے تھے کہ نوّے دن میں انتخابات کرا کر رخصت ہو جائیں گے۔ لیکن اب یہ آثار واضح نظر آ رہے تھے کہ وہ اقتدار چھوڑنے کا کسی قسم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔اور اس غرض کے لئے وہ وعدہ شکنی پر وعدہ شکنی کر رہے تھے۔اُن دنوں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا ۔اور سزائے موت کے خلاف اُن کی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں ہو رہی تھی ۔ جس روز اس کانفرنس کا اختتام ہوا اس روز سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار صاحب نے اس اپیل کے میرٹ پر دلائل دینے شروع کئے تھے۔جنرل ضیاء صاحب بھٹو صاحب کی سیاسی مقبولیت سے خائف بھی تھے۔یہ بھی ظاہر تھا کہ ضیاء صاحب کی مقبولیت کا گراف جو کہ پہلے بھی نیچے تھا ، اب تیزی سے مزید گر رہا ہے۔اس وقت کے امام کعبہ بھی اس کانفرنس کے اہم مندوب تھے۔ اُنہوںنے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اپنی اس حمایت کو تقدس کا رنگ دینے کے لئے انہوں نے ایک تقریر میں کہا کہ وہ خانہ کعبہ میں جا کر جنرل ضیاء صاحب کی کامیابی کے لئے دعا کریں گے۔جنرل ضیاء صاحب نے بھی ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور کہا کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

(Daily Dawn, July 9 1978 page 1 and 10)

جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں رابطہ کی تاریخ

رابطہ عالم ِ اسلامی کی ‘طوطا چشمی ‘ ملاحظہ ہو ۔ صرف چار پانچ سال پہلے یعنی 1973ءاور 1974ء میںیہی تنظیم بھٹو صاحب کو تھپکیاں دے رہی تھی کہ احمدیوں کے خلاف قدم اُٹھائو۔ اور جب کوئی قدم اُٹھایا جاتاتھا تو انہیں مبارکبادیں بھی دی جاتی تھیں۔ اور اب بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو کر جیل میں تھے اور اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل کر رہے تھے اور اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ‘نام کا مسلمان ‘ کیوں قرار دیا ہے؟ اور اب یہ تنظیم جنرل ضیاء کی حمایت کر رہی تھی۔

1978ء میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ رابطہ عالم ِ اسلامی نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف اس قسم کے الزامات پر مشتمل قرارداد منظور کی ہو۔

جب آزاد کشمیر اسمبلی نے1973ءمیں یہ سفارشی قرارداد منظور کی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو فوراََ رابطہ عالمِ اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے تار کے ذریعہ مکہ معظمہ سے پاکستان کے صدر بھٹو کو آ زاد کشمیر کی اسمبلی کی اس قرار داد پر مبارکباد بھجوائی۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے مسلمان ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں اور مسلمان فرقوں میں اس گمراہ فرقہ کو اپنا شر پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے۔

[المنبر6؍ جولائی 1973ء صفحہ14و 15]

1974ءمیں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات شروع ہونے یا شروع کرانے سے قبل رابطہ عالم ِ اسلامی کا ایک اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا۔اس میں مختلف مسلمان ممالک کے وفود نے شرکت کی۔اس میں ایک سب کمیٹی میں جماعت ِ احمدیہ کے متعلق بھی کئی تجاویز پیش کی گئیں۔اس کمیٹی کا نام کمیٹی برائے Cults and Ideologiesتھا۔اس کے چیئر مین مکہ مکرمہ کی اُمّ القریٰ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کےAssociate پروفیسر مجاہد الصواف تھے۔اس کمیٹی کے سپرد بہائیت، فری میسن تنظیم، صیہونیت اور جماعت ِ احمدیہ کے متعلق تجاویز تیار کرنے کا کام تھا۔اس کمیٹی میں سب سے زیادہ زور و شور سے بحث اُس وقت ہوئی جب اجلاس میں جماعت ِ احمدیہ کے متعلق تجاویز پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اور اس بات پر اظہارِ تشویش کیا گیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی، ملٹری اور سیاست میں احمدیوں کا اثرو رسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔اور یہ ذکر بھی آیا کہ اگر احمدی غیر مسلم بن کر رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ احمدی افریقہ اور دوسری جگہوں پر اپنے آپ کو عالمِ اسلام کی ایک اصلاحی تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اس بات پر اظہارِ تشویش کیا گیا کہ قادیانیوں نے حیفا میں اسرائیلی سرپرستی میں اپنا مشن قائم کیا ہے اور اسے چلا رہے ہیں۔(یہ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف تھا۔کبابیر،حیفا میں جماعت اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے قائم تھی۔اور دوسرے لاکھوں مسلمانوں کی طرح انہوں نے اس وقت بے انتہا تکالیف اٹھائی تھیں جب وہاں پر یہودی تسلط قائم کیا جا رہا تھا۔اور اس وقت حیفا میں صرف احمدی ہی نہیں رہ رہے تھے بلکہ دوسرے بہت سے مسلمان بھی رہ رہے تھے ۔)

بہر حال خوب جھوٹ بول کر مندوبین کو جماعت کے خلاف بھڑکایا گیا۔تما م تگ و دَو کے بعد جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پیش کی گئیں۔اور یہ تجویز کیا گیا کہ تمام عالمِ اسلام کو قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے مطلع کیا جائے کیونکہ قادیانی مسلمانوں کی سیکیورٹی کے لیے بالخصوص مشرق اوسط جیسے حسّاس علاقہ میں ان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔کیونکہ قادیانی جہاد کو منسوخ سمجھتے ہیں اور ان کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا۔اور یہ لوگ صیہونیت اور برطانوی استعمار کو مضبوط کر رہے ہیں۔اور قادیانی ان طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔یہ اپنی عبادتگاہیں تعمیر کر رہے ہیں جہاں سے یہ اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں۔اور اپنی خلاف ِ اسلام سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے سکول اور یتیم خانے تعمیر کر رہے ہیں۔اور قرآنِ کریم کے تحریف شدہ تراجم دنیا کی زبانوں میں شائع کر رہے ہیں۔اور اس کام کے لیے انہیں اسلام کے دشمن مدد مہیا کر رہے ہیں۔جماعت احمدیہ کے متعلق یہ فلمی منظر کشی کرنے کے بعد کمیٹی نے یہ تجاویز پیش کیں ۔

1) تمام اسلامی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ قادیانی معابد، مدارس ،یتیم خانوں اور ودسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں۔

2) ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے ۔

3)قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی ، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے۔ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔

4) کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اوران کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے۔اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔

5) قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجمِ قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں۔اور ان تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔

ٹی ایچ ہاشمی کا موقف

جب یہ تجاویز کمیٹی کے سامنے آئیں تو مختلف تنظیموں کے مندوبین نے ان سے اتفاق کیا اور اس قرارداد پر دستخط کر دیئے۔ پاکستان کے سیکرٹری اوقاف ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی اس قرارداد پر دستخط کئے لیکن اتنا اختلاف کیا کہ انہیں ان تجاویز کے مذہبی حصہ سے اتفاق ہے لیکن انہیںاس تجویزسےاتفاق نہیںکہ قادیانیوں کو ملازمتوں میں لینے پر پابندی لگائی جائے۔اس کی جگہ انہیں غیر مسلم قرار دینا کافی ہوگا۔اس پر کمیٹی کے صدر جناب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے کہا کہ علماء کے فتوے کے پیشِ نظر سعودی حکومت نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ قادیانی سعودی عرب میں داخل ہوں یا انہیں یہاں پر ملازمت دی جائے۔اس طرح یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔ پاکستان کی طرف سے اوقاف کے فیڈرل سیکرٹری تجمل ہاشمی صاحب نے رابطہ عالمِ اسلامی کی قرارداد پر دستخط کئے تھے۔اور ہم نے ایک کتاب کی تالیف کے دوران ان کا انٹرویو بھی لیا۔اور جب ان سے اس بابت یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا یہ تھا:

’’میرے لحاظ سے کسی کو کہہ دینا کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں مسلمان۔یہ میں سمجھتا ہوں۔ میں تو کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے سے بہتر مسلمان ہے یا نہیں مسلمان ہے۔‘‘

پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’کوئی کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں ہے۔‘‘

اس کے با وجود یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو حکومت نے نہیں کہا تھا کہ وہ اس قرارداد پر دستخط کریں ۔اس کے با وجود جبکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ یہ کہے کہ دوسرا شخص مسلمان ہے یا نہیں پھر بھی انہوں نے اس قرارداد پر دستخط کر دیئے۔اور اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رابطہ عالم اسلامی کی اور اس کی قراردادوں کی کوئی اہمیت بھی نہیں تھی۔ پھر بھی انہوں نے پاکستان کے داخلی معاملہ پر بیرونِ ملک جا کر اس بحث میں حصہ لیا اور ایک ایسی قرارداد پر دستخط بھی کر دیئے جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ایک حصہ کا اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ بھی کیا جانا تھا۔ البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ سعودی حکومت کے پاس پیسہ تھا اور وہ اس کے بل بوتے پر ایسی کانفرنسیں کراتے تھے یا کتابیں لکھوا کر اور انہیں خرید کر یا پھر ویسے ہی علماء کی مدد بھی کرتے تھے۔

[اس انٹرویو کی آڈیو ریکارڈنگ محفوظ ہے]

اس پس منظر میںیہ امر قابلِ حیرت نہیں کہ 1978ءمیں بھی رابطہ عالم ِ اسلامی نے کراچی میں یہ قرارداد منظور کی۔

رابطہ عالم ِ اسلامی کا سرپرست کون ہے؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے فیصلہ میں اس قرارداد کو معتبر بنانے کے لئے رابطہ عالم ِ اسلامی کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے۔

"Rabeta-e-Alam-i-Islami, an international non-government and non-partisan body representing Muslims of the world.” (page 75)

ترجمہ: رابطہ عالمِ اسلامی ایک ایک ایسی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو کسی پارٹی سے وابستہ نہیں اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ رابطہ عالم ِ اسلامی کو تمام دنیا کے مسلمانوں کا نمائندہ کس نے اور کب مقرر کیا ہے؟ کبھی بھی اسلامی کانفرنس پر بھی یہ قرارداد منظور نہیں کی گئی کہ رابطہ عالم ِ اسلامی کی تنظیم تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔دوسری بات یہ کہ خواہ اس تنظیم کے لٹریچر میں کچھ بھی لکھا ہو ، یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ یہ تنظیم سعودی عرب کی حکومت کے عطایا پر کام کر رہی ہے۔اور یہ تنظیم کئی ملین ڈالر سعودی حکومت سے لے کر کام کرتی ہے۔اور اس کی پالیسی وہی ہوتی ہے جو کہ سعودی عرب کی حکومت کی ہوتی ہے۔اس کا ہیڈ کوارٹر بھی سعودی عرب میں ہے اور رابطہ عالم ِ اسلامی نے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں اپنائی جو کہ سعودی عرب کی حکومت کی پالیسی نہ ہو۔

[http://www.pewforum.org/2010/09/15/muslim-networks-and-movements-
in-western-europe-muslim-world-league-and-world-assembly-of-muslim-youth/ accessed on 2.9.2018]

اور ایک طویل عرصہ سے یہ تنظیم جماعت ِ احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوّث ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ تفرقہ کا جو سفر جماعت ِ احمدیہ سے شروع کیا جاتا ہے وہ کبھی بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف محدود نہیں رہتا بلکہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنےکا کام ایک منصوبے کے تحت آگے بڑھایا جاتا ہے۔تو قابل ِ غور یہ پہلو ہے کہ یہ تنظیم رابطہ عالمِ اسلامی کیا صرف احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی میں ملوّث رہی ہے یا اس تنظیم نے دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتنہ پروری کی ہے۔

اہل ِ تشیّع کے خلاف

رابطہ عالم ِ اسلامی کی سرگرمیاں

ذیل میں جو تفاصیل بیان کی جائیں گی ان کے ثبوت ایسی معتبر تحریروں سے دیئے جائیں گے جن کا جماعت ِ احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہی تنظیم شیعہ فرقہ کے خلاف بھی نفرت انگیزی کی مہم میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس کے لئے رابطہ عالم ِ اسلامی نے بھارت کے عالم منظور نعمانی صاحب کو تیار کیا کہ وہ شیعہ احباب اور ان کے قائد خمینی صاحب کے خلاف فتاویٰ کفر تیار کر کے شائع کریں ۔منظور نعمانی صاحب رابطہ عالم ِ اسلامی کی شوریٰ میں رہے تھے اورا ن سے یہ کتاب بھی رابطہ عالم ِ اسلامی نے مالی مدد دے کر شائع کرائی تھی۔اس سلسلہ میں پاکستان کے معروف صحافی اور مصنف خالد احمد صاحب کی کتاب کا حوالہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر مجرم کا ایک طریقہ واردات ہوتا ہے۔ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے لیکن جب بھی یہ مجرم کوئی واردات کرتا ہے تو اس میں کچھ ایسے پہلو ہوتے ہیں کہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ جرم کس نے کیا ہے۔جماعت ِ احمدیہ کے خلاف رابطہ عالم ِ اسلامی نے کس طریق پر نفرت انگیزی کی یہ اوپر لکھا جا چکا ہے۔اس کتاب میں شیعہ فرقہ کے خلاف کس طرح نام نہاد فتاویٰ کفر کی بنیاد بنائی گئی۔ذیل میں عقائد اور صحیح اور غلط کی بحث میں پڑے بغیر اس کتاب کے چند حوالے درج کئے جاتے ہیں۔ منظور نعمانی صاحب کی کتاب کی معیّن عبارتیں ملاحظہ کریں.

1۔”ائمہ اور امامت کے پورے سلسلہ پر ایمان لایا جائے جو اثناعشری مذہب کی اسا س و بنیاد ہے اور جو عقیدہ توحید اور ختم ِ نبوت کے بالکل منافی ہے۔”[ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ۔ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987ءصفحہ291] یہ کتاب پہلے لکھنو (بھارت)میں ‘’’ایرانی انقلاب ، امام خمینی اور شیعت‘‘ ‘کے نام سے شائع کی گئی تھی۔ اور پھر اسی کتابت کے ساتھ پاکستان لاکر نام میں ذرا تبدیلی کے ساتھ شائع کی گئی۔
2۔” خمینی صاحب صحابہ کرام بالخصوص خلفائے ثلاثہ کے بارے میں انتہائی گھناؤنے اور ناپاک رائے رکھتے ہیں۔وہ ان کے اسلام و ایمان کے بھی منکر ہیں۔”[ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ۔ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987ءصفحہ291-292]

3۔”شیعت اسلام کے اندر سے تخریب کاری اور مسلمانوں میں اختلاف شقاق پیدا کرنے کے لئے یہودیت و مجوسیت کی مشترکہ کاوش سے اس وقت وجود میں آئی تھی جب یہ دونوں قوتیں طاقت کے بل پر اس کی برق رفتاری سے پھیلتی ہوئی دعوت کو روکنے میں ناکام رہی تھیں۔”[ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ۔ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987ءصفحہ292-293]

4۔”عقیدہ امامت ہی کے لازمی نتائج میں سے ہیں جن میں سے سرِ فہرست تحریف ِ قرآن کا عقیدہ ہے۔” [ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ۔ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987ءصفحہ291]

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس کتاب کا مقدمہ ابو الحسن علی ندوی صاحب نے لکھا تھا۔ وہ رابطہ عالم ِ اسلامی کیstanding committeeکے رکن تھے اور انہیں 1980ء میں شاہ فیصل ایوارڈ ملا تھا۔جب 1978ءمیں کراچی میں رابطہ عالم ِ اسلامی کے ایشیا ریجن کا اجلاس ہوا تو اس میں ابوالحسن علی ندوی صاحب بحیثیت نائب صدر شریک ہوئے تھے اور انہوں نے اس اجلاس سے خطاب بھی کیا تھا۔اور جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مذکورہ قرارداد منظور کرنے میں شامل تھے۔

احمدیت کے خلاف رابطہ عالم ِ اسلامی کی قراردادوں میں بلکہ 1974ءمیں ہونے والی پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران بھی اسی قسم کے الزامات جماعتِ احمدیہ کے خلاف لگائے گئے تھے۔ مثال کے طور پر جو کہ وہ نعوذُ باللہ ختم ِ نبوت کے منکر ہیں، صحابہ کی توہین کرتے ہیں ، اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان نہیں سمجھتے، اور یہودیوںکے اور بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں، قرآن ِ کریم میں تحریف کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

خالد احمد صاحب اپنی کتابSectarian War میں تحریر کرتے ہیں کہ اس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم کراکے شائع کئے گئے۔اور ان کتب کو دنیا میں سعودی عرب کے سفارت خانوںنے تقسیم کیا۔اس کے بعد 1986ءمیں پاکستان کےبہت سے مدرسوں نے جو سعودی عرب سے ‘فیاضانہ ‘مالی مدد لیتے تھے شیعہ احباب کے ارتداد کے فتاویٰ دے دیئے۔ ان فتاویٰ کو نعمانی صاحب نے ایک جلد میں علیحدہ شائع کرایا۔ اور یہ فتاویٰ پاکستان میں شیعہ احباب کے قتل و غارت کا باعث بنے۔

(Sectarian War, by Khaled Ahmad, published by Oxford Pakistan Paperbacks 2013.p 95-92 ,300)

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب بھی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکائی جاتی ہے اس کے شعلے پورے معاشرے پھیلتے ہیں۔اور جلد ہی دوسرے فرقوں کے خلاف واقعات بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔چنانچہ پاکستان بننے کے معاََ بعد جب احرار اور جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے دوسرے گروہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات بھڑکانے میں مصروف تھے ، اسی وقت شیعہ سنّی اختلافات اور دوسرے فرقوں میں اختلافات بھی شدید ہونا شروع ہو گئے تھے۔ چنانچہ 1953ءکے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:

” اس مرحلہ پر فرقہ وار مناقشوں نے اور بھی زیادہ مکروہ شکل اختیار کر لی۔کئی مقامات پر شیعہ سنّی اختلافات پیدا ہونے اور بڑھنے لگے۔”

[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب 1953ءصفحہ35]

1978ءمیںکون سے جہاد کی تیاریاں ہو رہی تھیں

رابطہ عالم ِ اسلامی کی اس قرارداد میں مذہبی تنگ نظری کو فروغ دینے کے علاوہ اس بات کا ذکر نمایاں تھا کہ جماعت ِ احمدیہ جہاد کی منکر ہے۔

سوال یہ ہے کہ اچانک جولائی1978ءمیں جہاد کی کیا ضرورت پیش آ گئی کہ اس کی آڑ میں جماعت ِ احمدیہ پر حملے کئے جا رہے تھے۔اور اس کانفرنس کے بعد کہاں جہاد کیا؟ گیا اور کس کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا؟ اور اس کے کیا نتائج نکلے؟

کیایہ ضرورت بڑی مغربی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے پیش آئی تھی؟ یامغربی طاقتوں کی خدمت کرنے کے لئے پیش آئی تھی؟ اور ان کی جنگ میں ان کی مدد کرنے کے لئے پیش آئی تھی ؟

بجائے سیاسی نتائج اخذکرنے کے ہم صرف چند حقائق پیش کر دیتے ہیں ۔ پڑھنے والے آزادانہ طور پر اپنا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔

اپریل 1978ءمیں نور محمد ترکئی صاحب کی قیادت میں کمیونسٹ گروہ نے صدر دائود کا تختہ الٹ دیا۔یعنی رابطہ عالم ِ اسلامی کی اس کانفرنس سے صرف تین ماہ قبل۔ ظاہر ہے یہ بات امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لئے پریشان کُن تھی۔ اس سے قبل کہ سوویت یونین افغانستان میں فوجیں داخل کرتا امریکہ کی حکومت افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف محاذ بنانے والے مجاہدین کےگروہوں کی مدد شروع کر چکی تھی۔ اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ایسا عمداََ کیا گیا تھا تا کہ سوویت یونین افغانستان میں اپنی افواج داخل کر لے اور افغانستان سوویت یونین کا ویتنام ثابت ہو۔

(Robert Worley (2015(. "Cold War Strategies”. Orchestrating the Instruments of Power: A Critical Examination of the U. S. National Security System. University of Nebraska Press. p. 159)

(Ali Riaz (2008). Faithful Education: Madrassahs in South Asia. Rutgers University Press. p. 104)

سوویت یونین نے دسمبر 1979ءمیں افغانستان میں فوجیں داخل کر لیں۔ اور پھر ا فغانستان میں ایک دہائی کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا ۔ اس خانہ جنگی میں جسے اُ س وقت ‘’افغانستان جہاد‘ ‘ کہا جاتا تھا، امریکہ نے سی آئی اے کی وساطت سے جنرل ضیاء صاحب کی حکومت اور جنگ کرنے والے افغان گروہوں کو اربوں ڈالر کی مدد دی۔امریکہ نے کامیابی سے اپنے اہداف حاصل کر لئے اور افغانستان کو سوویت یونین کا ویتنام بنا دیا۔ لیکن اس ساری جنگ میں پاکستان کو شرکت کرنے کی جو بھاری قیمت دہشتگردی اور مذہبی تنگ نظری کی صورت میں ادا کرنی پڑی اس کا قرضہ سُود در سُود پاکستان ابھی تک ادا کر رہا ہے۔ اور خدا جانے یہ منحوس سلسلہ کب تک چلے گا؟ خدا پاکستان کو تمام مشکلات سے نجات دے آمین۔

تمام سیاسی بحثوں سے گریز کرتے ہوئے ہم ایک بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 76پر جلی حروف سے لکھا ہے :

"Qadianism is the step- daughter of British Imperialism; it survives only under its guardianship and protection.”

ترجمہ : قادیانیت برطانوی استعمار کی سوتیلی بیٹی ہے اور صرف اس کی سرپرستی اور حفاظت میں زندہ رہ سکتی ہے۔

ہر ایک کو اپنی رائے کا حق ہے خواہ ہم اُس سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن یہاں یہ ذکرضروری ہے کہ جب اس کے فوراََ بعد پاکستان میں مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی مدد کا سیلاب اُمڈ آیا تو وہ ان گروہوں کو دی گئی جو جماعت ِ احمدیہ کی پُر تشدد مخالفت کے داعی تھے۔ اور پاکستان کی اس حکومت کو دی گئی جو کہ جماعت ِ احمدیہ کی سب سے زیادہ مخالف تھی۔

اس موضوع پر پاکستان میں ہونے والی بہت سی تحقیق سامنے آ چکی ہے۔اُس دور میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اور جس کے آغاز پررابطہ عالمِ اسلامی کی یہ قرارداد 1978ءمیں منظور کی گئی تھی اور اس میں یہ واویلا بھی کیا گیا تھا کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں ہیں اور مغربی طاقتوں کے اشاروں پر مسلمانوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔اُس وقت مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے خود ایک ‘ بین الاقوامی ‘ جہاد کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں اور مالی طور پر بھی نواز رہی تھیں۔ اور پاکستان اور سعودی عرب دونوں مکمل طور پر ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ اور یہ سب کچھ جماعت ِ احمدیہ کے اشد مخالفین جنرل ضیاء الحق صاحب اور سعودی عرب کے شاہی خاندان مل کر کر رہے تھے۔ اور یہ سب کچھ مغربی طاقتوں خاص طور پرامریکہ کی حکومت کے باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبہ بندی سے ہو رہا تھا۔ چنانچہ اُس وقت کے امریکہ کے صدر کارٹر کے مشیربرائے نیشنل سیکیورٹی Zbigniew Brzezinski اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان آ کر جنرل ضیاء صاحب سے ملاقات کی اور افغانستان میں سوویت یونین کی مخالفت میں منصوبہ پر مذاکرات کئے۔ جنرل ضیاء الحق صاحب نے ہی یہ مشورہ دیا کہ فی الحال بہتر یہ ہو گا کہ پاکستان بظاہر امریکہ سے ذرا فاصلہ رکھے اور دنیا کو یہی نظر آئے کہ مسلمان ممالک اس معاملہ میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس مشورہ کے بعد Zbigniew Brzezinski سعودی عرب گئے اور شاہ خالد کو اس منصوبے پر آمادہ کر لیا ۔اور خود برززنسکی صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت کی سعودی حکومت امریکہ کی بہت زیادہ حامی تھی ۔اور اس وقت سعودی عرب کے دفاع کو بہتر بنانے کا منصوبہ مکمل طور پر امریکہ کی حکومت کے اراکین ہی بنا رہے تھے ۔

)Power and Principle, by Zbigniew Brzezinski, published by Weidenfeld and Nicolson 1983 p 449, 454)

ایک اور پہلو کے ذکر کے بغیر یہ بات ادھوری رہ جائےگی۔ اُس وقت ‘’جہاد‘ کی اہمیت اتنی تھی کہ خود امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر برززنسکی(Zbigneiw Brzezinski) پاکستان آکر مجاہدین کو یقین دلاتے تھے کہ ہمیں معلوم ہے کہ تمہیں خدا پر گہرا ایمان ہے اور تم ضرور کامیاب ہو گے کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اور سامنے کھڑے ہوئے نام نہاد مجاہدین یہ تقریر سن کر بچوں کی طرح تالیاں پیٹ رہے ہوتے تھے۔یہ تقریر یُو ٹیوب پر موجود ہے اور ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔اس کا لنک ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔

(https://www.youtube.com/watch?v=A9RCFZnWGE0)

جیسا کہ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ رابطہ عالم ِ اسلامی کی تنظیم جو یہ الزام لگا رہی تھی کہ نعوذُ باللہ جماعت ِ احمدیہ صرف مغربی استعماری طاقتوں کی حفاظت اور سرپرستی میں کام کر سکتی ہے ، وہ خود سعودی عرب کی مالی مدد اور سرپرستی کے تحت کام کر رہی تھی اور اب تک کر رہی ہے۔اور اُس وقت یعنی 1978ءکے آخری نصف میں جب سعودی عرب کو یہ خطرہ ہوا کہ ایک مسلمان ملک ان پر حملہ کر سکتا ہے ، تو خود سعودی عرب امریکہ کی حفاظت کا مرہون ِ منت تھا۔ سابق صدر کارٹر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امریکہ نے 1978 ءمیں اپنی ایئر فورس کے جہاز سعودی عرب میں متعیّن کئے ہوئے تھے تا کہ اُ ن کی حفاظت کر سکیں۔ اس پس منظر میں رابطہ عالم اسلامی کا جماعت احمدیہ پر یہ الزام مضحکہ خیز تھا۔اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ خود جماعت ِ احمدیہ کے خلاف الزام لگانے والے اپنے لئے مغربی طاقتوں کی حفاظت کے محتاج تھے۔

(Keeping Faith, by Jimmy Carter, published by Bantam Books November 1982. P 559)

مذہبی مدرسوں کا کردار

چنانچہ مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں چلنے والے اس جہاد کے لئے لڑنے والے بھی تو چاہیے تھے ۔اس کا انتظام بھی کیا گیا۔ چنانچہ 1970ءکی دہائی کے آخر میں پاکستان میںدینی مدارس کی تعداد 900تھی جن میں 30000طلباء موجود تھے ۔جب اس جہاد کا اعلان کیا گیا تو ان مدارس میں تعداد میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوا۔ چنانچہ اس موضوع پر اب بہت سے ریسرچ پیپر سامنے آ چکے ہیں کہ پاکستان میں ان مدرسوں کا فروغ Operation Cycloneکا حصہ تھا ۔ یہ وہ آپریشن تھا جو صدر کارٹر کے دور میں ہی افغانستان میں سوویت یونین کے اثر کو روکنے کے لئے بنایا گیا تھا۔پہلے اس کے لئے پانچ سو ملین ڈالر مختص کئے گئے اور بعد میں ایک مرحلہ پر چار ارب ڈالر بھی اس آپریشن کو آگے بڑھانے کے لئے دیئے گئے۔اور اس کے مقاصد میں ایک یہ بھی تھا کہ پاکستان میںجہادی کلچر کو فروغ دیا جائے۔اوران مدرسوں کا قیام اس کا ایک اہم حصہ تھا ۔ اور اس کے نتیجہ میں دیکھتے دیکھتے پاکستان میں مدرسوں کی تعداد حیران کُن حد تک بڑھ گئی۔بہت سی تحقیقات میں سے ایک کا حوالہ درج کیا جا رہا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس سے ان حقائق کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

(Ali Riaz. (2005). Global jihad, sectarianism and the madrassahs in Pakistan. (RSIS Working Paper, No. 85).Singapore: Nanyang Technological University.)

اور ان مدارس کی سرپرستی وہ عرب ممالک بھی کر رہے تھے جو کہ مغربی طاقتوں کے اتحادی تھے ۔اور افغانستان کی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔اور 2008ءمیںایک تخمینہ کے مطابق ان کی تعداد 45000تک پہنچ گئی ہے اور ان میں چالیس لاکھ سے زیادہ طلباء تعلیم پا رہے ہیں۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے مغربی طاقتوں نے تو اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ افغانستان کو سوویت یونین کا ویتنام بنا دیا گیا ۔لیکن اس کے لئے جو لاکھوں لوگ دونوں اطراف سے مارے گئے وہ یا تو افغانستان کے تھے یا پاکستان اور کسی حد تک دوسرے مسلمان ممالک کے تھے۔بڑی طاقتوں نے اس ‘’جہاد‘کے لئے از راہ شفقت صرف اسلحہ اور ڈالر عطا کئے تھے ۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو تقسیم کیا ہوا اسلحہ اور تیار کئے ہوئے جنگجو پاکستان کے لئے وبال ِ جان بن گئے۔ اور دہشت گردی کا وہ خوفناک سلسلہ شروع ہوا جس کی قیمت پاکستان آج تک ادا کر رہا ہے۔

(World Powers Rivalry in Afghanistan and Its Effects on Pakistan by Muhammad Karim. The Dialogue Vol XII no 3 . p 247-261)

جماعت ِ احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ واقعی جماعت ِ احمدیہ کسی ایسے ’’جہاد‘’ کا حصہ نہیں رہی ، جس کو چلانے کے لئے ایڈ(Aid)کے ڈالروں کی اور جس میں ‘ نصرت الٰہی کی خوش خبری دینے کے لئے برزنسکی صاحب کی ضرورت پڑے۔جماعتِ احمدیہ ایک غریب جماعت ہے۔ اس کی تاریخ کا خلاصہ درج ذیل آیت ہے

الَّذِينَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران174)

ترجمہ:[یعنی] وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا۔ اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔
تاریخی واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بارہا یہ منظر دیکھتے ہیں کہ ایک عمل یہ نعرہ لگا کر شروع کیا جاتا ہے کہ قادیانی’بیرونی طاقتوں‘’ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اس طرح عالم ِ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔اور بعد میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جماعت کے مخالفین کےاس عمل سے انہی ‘ بیرونی طاقتوں ‘ کی مدد مقصود تھی جن کے آلہ کار ہونے کا الزام جماعت ِ احمدیہ پر لگایا جا رہا تھا۔یہی صورت ان مدرسوں میں عسکریت کے آغاز کو فروغ دینے کے معاملےمیں نظر آتی ہے۔

چنانچہ مجاہد حسین صاحب اپنی کتاب ‘’’پنجابی طالبان‘‘’ میں تحریر کرتے ہیں کہ سب سے پہلے پاکستان کے مدرسوں میں عسکری تربیت دینے کا کام 1973ءمیں شروع کیا گیا ۔ اور مسعود علوی صاحب نے ملتان میں ایک تنظیم ‘جمیعت المجاہدین ‘ کی بنیاد رکھی ۔اور اس کا سب سے پہلا نشانہ احمدی ہی تھے۔جب مفتی محمود صاحب سرحد کے وزیر ِ اعلیٰ بنے تو انہوںنے تحریک ِ ختم ِ نبوت کے راہنما خواجہ محمد احمد خان کے ساتھ کنیاں میں مدرسوں کے ان طالب علموں کی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ دیکھا۔انہی مسعود علوی صاحب نے اسد کے بعد ‘ خالدیہ ‘ نام کا مدرسہ قائم کیا جس میں عسکری تربیت لازمی تھی۔ افغانستان میں مدرسوں کی طرف سے جو پہلا دستہ بھجوایا گیا وہ مسعود علوی صاحب نے ہی بھجوایا تھا۔ اس کے بعد مختلف مدر سے Operation Cycloneکی بھر پور اعانت و خدمت کرتے رہے۔

[پنجابی طالبان مصنفہ مجاہد حسین صاحب۔ ناشر سانجھ مارچ 2011صفحہ98-99]

اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کون کر رہا تھا؟

جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا تھا کہ1978ءمیں رابطہ عالم ِ اسلامی کی اس قرارداد میں احمدیوں پر صیہونیت سے بھی وابستہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔تاریخ کا ہر طالب علم یہ جاننا پسند کرے گا کہ اُس وقت مسلمان ممالک اور اسرائیل میں کیا معاملات چل رہے تھے۔ اس کے بعد ہی ہم اس الزام کے بارے میں رائے قائم کر سکیں گے۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کسی ملک یا کسی سیاستدان کے فیصلوں پر تنقید کی جائے۔ ہر ملک کے قائدین آزاد ہیں وہ جیسا پسند کریں فیصلے کریں اور وہ اس کے بارے میں صرف اپنے ملک کے منتخب نمائندوں اور ملک کے عوام کو جوابدہ ہیں۔یہاں صرف کچھ حقائق پیش کئے جا رہے ہیں جن سے ہمیں اس الزام کو پرکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

جس وقت کراچی میں یہ کانفرنس ہوئی اور اس میں جماعت ِ احمدیہ پر صیہونیت کی اندھا دھند پیروکار ہونے کا الزام لگایاگیا۔ اس دور میں امریکہ کے زیر ِسر پرستی یہ کوششیں ہو رہی تھیں کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہو جائیں اور عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلیں۔ عرب ممالک میں سے اکثر کی رائے تھی کہ تمام عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اکھٹی مفاہمت ہو اور ایک ساتھ عرب ممالک کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ کی کوشش تھی کہ اسرائیل کے عرب ممالک سے علیحدہ علیحدہ صلح کے معاہدے ہوں اور اس کوشش کے خلاف اکثر عرب دنیا میں شدید ردِ عمل پایا جاتا تھا۔مصر کے انورالسادات اس بات کے حامی تھے کہ مصر اور اسرائیل میں علیحدہ معاہدہ ہوجائے ۔ اور یہ معاہدہ آخر میں ستمبر1978ءمیں Camp David Accordکی صورت میں سامنے آیا۔اور اس کی وجہ سے انورالسادات صاحب کو ملک کے اندر اور عرب ممالک کے اکثر حصہ کی ناراضگی مول لینی پڑی اور آخر میں انہیں قتل بھی کر دیا گیا۔

اس وقت یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب باقی عرب عوام اور عرب ممالک کی حکومتوں کی طرح اس معاہدے کے سخت خلاف ہے۔ اور اس معاہدے کے بعد بھی اس معاہدے کے خلاف بظاہرسعودی عرب کا شدید ناراضگی والا ردِ عمل سامنے آیا۔ لیکن آہستہ آہستہ شواہد سامنے آتے گئے کہ یہ سب کچھ صرف دکھانے کے لئے تھا ۔ پسِ پردہ سعودی عرب ان مذاکرات اور اس معاہدے کی پوری حمایت کر رہا تھا اور امریکہ کی حکومت سے تعاون کر رہا تھا۔چنانچہ اُس وقت کے امریکی صدر کے مشیر برززنسکی صاحب لکھتے ہیں کہ جب اس سلسلہ میں فروری 1978ء میں مصر میں صدر کارٹر اور صدر انورالسادات کی ملاقات ہونے سے قبل ہی سعودی عرب میں امریکہ کے صدر اور سعودی فرمانروا میںملاقات ہو چکی تھی۔اور سعودی لیڈروں کو اعتماد میں لیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد برززنسکی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُس وقت سعودی حکومت سے ایک Secret Pledgeحاصل کر لیا تھا کہ اسرائیل اور مصرکے معاہدے کے بعد سعودی عرب مصر کے خلاف ایسی پابندیاں نہیں لگائے گا جو اسے نقصان پہنچا سکیں۔اور سابق امریکی صدر کارٹر اپنی کتاب Keeping Faithمیں لکھتے ہیں کہ اس معاہدے کے فوراََ بعد انہیں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد نے ان مذاکرات میں اپنی حمایت کا یقین دلا دیا تھا ۔ اور اسی قسم کا پیغام سعودی ولی عہد شہزادہ فہد کی طرف سے بھی ملا تھا۔ اوربعدمیںCIAنےخفیہ دستاویزات declassify کیں تو ان سے بھی یہ چیز ثابت ہو گئی۔اگرچہ 1978ء کے معاََ بعد یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح اسرائیل سے ہونے والے معاہدے کے شدید خلاف ہے۔

(Power and Principle, by Zbigniew Brzezinski, published by Weidenfeld and Nicolson 1983 p 239،240،286)
(Keeping Faith, by Jimmy Carter, published by Bantam Books November 1982. P408)

ظاہر ہے کہ اگر اُس وقت یہ راز فاش ہو جاتا کہ سعودی عرب کی حکومت ان مذاکرات کی حمایت کر رہی ہے تو انہیں شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ۔ اور جس طرح صدر سادات پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے جھکنے کے الزامات لگ رہے تھے ، سعودی عرب کی حکومت کو بھی انہیں الزامات کا سامنا پڑتا۔ اور اُس وقت اکثر عرب دنیا اسے غداری قرار دے رہی تھی۔شاید اسی لئے حفظ ِ ما تقدم کے طور پر رابطہ عالم ِ اسلامی نے یہی مناسب سمجھا ہو کہ شور مچا کر دوسروں پر یہ الزام لگا دیا جائے ۔لیکن حقائق یہی تھے جو کہ درج کر دیئے گئے ہیں۔

اس پس منظر میں سعودی سرپرستی میں کام کرنے والی کسی تنظیم کا یہ الزام کہ احمدی نعوذُ باللہ صیہونیت کے پیرو کار ہیں ایک مضحکہ خیز الزام ہے۔اور اسے سنجیدگی سے بھی نہیں لیا جا سکتا۔ان حقائق کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص یا کوئی تنظیم یا کوئی گروہ جماعت ِ احمدیہ پر یہ مغربی طاقتوں کا یا اسرائیل کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتا ہے تو اس شخص ، گروہ یا تنظیم کی تحقیقات ہونی ضروری ہیں کہ کہیں وہ خود تو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے۔

(جاری ہے۔باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button