خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍اگست 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ملک شام کے مرتدین باغیوں کے خلاف پیش قدمی اور جنگ کا احوال
٭… حضرت شُرحبیل بن حسنہ ؓنے بھی رومیوں کے خلاف جنگ کے بارے میں اپنے ایک خواب کا ذکرکرتے ہوئے فتح کی خوشخبری سنائی
٭… حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ اور دیگر تمام مہاجرین و انصار صحابہ نےرومیوں کے خلاف جنگ کی حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے کی بھرپور تائید کی
٭… حضرت خالد بن سعید ؓکی شکست کے باوجود حضرت ابوبکرؓ کے عزم و حوصلہ میں ذرا فرق نہ آیا اورایک لمحہ ضائع کیے بغیر مزید لشکر ترتیب دیے
٭… 12؍اگست 2022ءکو ربوہ میں 62سال کی عمر میں شہید ہونے والے مکرم نصیر احمد صاحب کے واقعۂ شہادت کی تفصیل اورنماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍اگست 2022ء بمطابق 19؍ظہور1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 19؍اگست 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت انس محمودصاحب(طالبعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا) کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
بدری صحابہ کے ذکر میں حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے کا ذکر چل رہا تھا۔آپؓ کے عہد خلافت میں شام کی طرف پیش قدمی کا آج ذکر ہوگا۔جب حضرت ابوبکرؓ باغی مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہوگئے اور عرب مستحکم ہوگیا تو آپؓ نے بیرونی جارحیت کے مرتکب مخالفین میں سے اہل روم سے جنگ کرنے کے متعلق سوچا۔حضرت شُرحبیل بن حسنہ ؓنے بھی اس ضمن میں اپنے ایک لمبے خواب کا ذکرکرتے ہوئے فتح کی خوشخبری سنائی۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اس خواب میں فتح کے علاوہ میری موت کی خبر بھی ہےاور لشکر کے معاملے میں مشکلات بھی پیش آئیں گی اور لشکر والوں کو بھی مصیبت جھیلنی پڑے گی جس کے بعد ہمیں غلبہ حاصل ہوجائے گااور پہلے سے زیادہ خوشحالی اور فراخی میسر آئے گی نیزاللہ تعالیٰ مجھے عزت و رفعت سے نوازے گا جبکہ مشرکین کو ذلیل و رسوا کرے گا۔
حضرت ابوبکر ؓنےاس جنگ کے معاملے میں مشورہ کے لیے مختلف صحابہ کو طلب کیا۔حضرت عمربن خطاب ؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ ،حضرت عثمان بن عفانؓ ، حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیرؓ ، حضرت علیؓ اور دیگر تمام مہاجرین و انصار نے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے کی بھرپور تائید کرتے ہوئے آپؓ کی مکمل اطاعت کرنے کا عندیہ دیا۔چنانچہ حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی نعمت دےکر تم پر بڑا احسان کیا۔تمہیں جہاد کے ذریعہ سے معزز کیا۔تمہیں دین اسلام کے ذریعہ دیگر ادیان پر فضیلت دی ۔لہٰذا ملک شام میں رومیوں سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔جس کے بعد حضرت ابوبکر ؓنے جنگ کے لیے کمانڈرز مقرر کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ اپنی نیت رضائے الٰہی کے لیےخالص رکھنا۔اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔حضرت ابوبکرؓ کے اس خطاب کے بعد حضرت بلالؓ نے اہل روم سے جنگ کرنے کے لیے لوگوں میں اعلان کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے امیر ہونے کی اطلاع بھی دی۔
ایک روایت کے مطابق 13؍ہجری میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓکو ایک لشکر کے ہمراہ شام کی طرف روانہ فرمایالیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر ؓنے حضرت خالد بن ولید ؓکو عراق کی طرف روانہ کیا تھا تو اُسی وقت حضرت خالد بن سعید ؓکو شام کی طرف بھیجا تھا اور شام کی فتح کا سب سے پہلا جھنڈا حضرت خالد بن سعید ؓکا تھا۔ایک اور روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر ؓ نے مرتدین کے خلاف گیارہ لشکر ترتیب دےکر روانہ کیے تھے تو اُس وقت حضرت خالد بن سعید ؓکو شام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیےتَیمَاء جانے کا حکم دیا تھا۔
حضرت ابوبکر ؓنے رومیوں سے جنگ کے سلسلے میں اہل مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو بھی جنگ اور جہاد میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی۔آپؓ نے اہل یمن کی جانب بھی ایک خط لکھا جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جہاد میں شامل ہونے کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا۔حضرت انسؓ نے یمن کے ہر محلے میں حضرت ابوبکرؓ کا خط پڑھ کر سنایا اور واپس آکر حضرت ابوبکرؓ کو یمن کے مسلمانوں کے مدینہ آنے کی خوشخبری سنائی۔دوسری طرف تَیمَاء کے اطراف کے بہت سے لوگ حضرت خالد بن سعید ؓکے ساتھ آملے۔رومیوں کو جب مسلمانوں کے عظیم لشکر کی خبر ہوئی تو انہوں نے بھی اپنے زیراثر عربوں سے مدد طلب کی۔حضرت ابوبکر ؓکو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت خالد بن سعید ؓ کو اللہ سے مدد کی دعا کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھنےاور دشمن کی جانب بھی نگاہ رکھنے کا حکم فرمایا۔حضرت خالد بن سعید ؓنے ایک مقام پر ایک پادری بَاھَان کے لشکر کو شکست دی اوراُس کے بہت سے افراد کو قتل کردیاجبکہ پادری باھان نے دمشق کی طرف فرار ہوکر پناہ لی۔ بعدازاں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن سعید ؓ کی درخواست پرجیش البدال نامی لشکر اُن کی مدد کے لیے بھجوادیا۔
حضرت خالد بن سعیدؓ نے حضرت ابوبکر ؓکی جانب سے دیگر امراء کے لشکروں کے پہنچنے سے پہلے ہی رومیوں پر حملہ کردیا اور حضرت ابوبکر ؓکی اس ہدایت کو نظر انداز کردیا کہ اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔کامیابی کے جذبے نے حضرت خالد بن سعید ؓکو اپنی پشت کی جانب سے غافل کردیا ۔ اس وقت اُن کے ہمراہ حضرت ولید بن عقبہ ؓ کے علاوہ حضرت ذو الکَلاع ؓاور حضرت عکرمہ ؓبھی تھے۔حضرت خالد ؓبن سعیدکو دشمن کی فوجوں نے محصور کرلیا اوروہ شکست کھاکرمکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ذو المروہ تک پہنچ گئے جبکہ حضرت عکرمہ ؓ اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ حضرت ابوبکر ؓنے ناراض ہوکر حضرت خالد بن سعید ؓ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔بعد ازاں جب انہیں اجازت ملی تو انہوں نے حضرت ابوبکر ؓسے معافی مانگی۔
حضرت خالد بن سعید ؓکی شکست کے باوجود حضرت ابوبکرؓ کے عزم و حوصلہ میں ذرا فرق نہ آیا اور انہوں نےایک لمحہ ضائع کیے بغیر حضرت عکرمہؓ اور حضرت ذوالکلاع ؓکو کمک بھیجنے کا انتظام کیا۔حضرت ابوبکر ؓنےچار لشکر ترتیب دیے۔ پہلا لشکر حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کی سرکردگی میں تھا جس کے ذمہ دمشق کی فتح اور دیگر لشکروں کی مدد کرنا تھا۔اس لشکر کی تعداد ابتدا میں تین ہزار تھی جو بعد میں بڑھ کرسات ہزارتک ہوگئی تھی۔حضرت ابو بکر ؓنے اس موقع پر جنگ کے متعلق حضرت یزید بن ابو سفیان ؓ کو نصائح کرتے ہوئے جنگ کے دوران بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنے ، دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے اور مسلمانوں کی دیگر اعلیٰ اقدار کا احترام کرنے کی بھی ہدایت فرمائی۔
حضرت ابوبکر ؓہر صبح اور شام یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! تُو نے ہمیں پیدا کیا ۔ ہم کچھ بھی نہ تھے پھر تُو نے اپنی جناب سے رحمت اور فضل کرتے ہوئے ہماری طرف ایک رسول بھیجا ۔پھر تُو نے ہمیں ہدایت دی جبکہ ہم گمراہ تھے اور تُو نے ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی جبکہ ہم کافر تھے ۔ ہم تعداد میں تھوڑے تھے اور تُو نے ہمیں زیادہ کیا۔ پھر تُو نے ہم پر جہاد فرض کیا اور ہمیں مشرکین سے اُس وقت جنگ کرنے کا حکم دیا یہاںتک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں اور وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔اے اللہ ! ہم تیرےاس دشمن سے جہاد کے بدلے تیری خوشنودی کے خواہاں ہیں جس نے تیرے ساتھ شریک ٹھہرایااور تیرے سوا اور معبودوں کی عبادت کی ۔ اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ظالم جو کہتے ہیں تیری شان اُس سے بہت بلند ہے۔اے اللہ! اپنے مشرک دشمن کے مقابلہ میں اپنے مسلمان بندوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! انہیں آسان فتح نصیب فرما۔
دوسرا لشکر حضرت شُرحبیل بن حسنہ ؓکا تھا۔حضرت شُرحبیل ؓابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓنے حضرت شُرحبیل ؓکے لشکر کی روانگی کے لیے حضرت یزید بن ابو سفیان ؓ کی روانگی کے تین دن بعد کی تاریخ مقرر فرمائی۔حضرت ابوبکر ؓنے حضرت شُرحبیل ؓکو بھی وہی وصیت یاد دلائی جو آپؓ نے حضرت یزید بن ابو سفیان کو کی تھی۔ نیز فرمایا کہ نماز وقت پر ادا کرنا اور جنگ کے روز ثابت قدم رہنا یہاںتک کہ تم فتح حاصل کرلو یا شہید ہوجاؤ۔حضرت شُرحبیلؓ نے عرض کیا کہ اللہ سے مدد مانگتے ہیں جو اللہ چاہے گا وہی ہوجائے گا۔انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو الوداع کہا اور اپنے لشکر کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوگئے۔حضرت شُرحبیل کے لشکر کی تعداد تین سے چار ہزار تک تھی۔
تیسرا لشکر حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کا تھا ۔آپؓ اُن دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی ا ور جنہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔آپؓ کے لشکر کی تعداد سات ہزار تھی۔حضرت ابوعبیدہ ؓ کی راستے میں ایک بستی مَآب کے لوگوں سے جنگ ہوئی اور وہاں کے لوگوں کی درخواست پر آپؓ نے اُن سے صلح کرلی جو کہ شام کے علاقے کی سب سے پہلی صلح تھی۔حضرت ابوبکر ؓنے حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ عرب کے شہسواروں میں سے ایک عظیم المرتبت شخص حضرت قیس بن ھُبَیرہ کو بھی چند نصائح کے ساتھ روانہ فرمایا تھاجنہوں نے حضرت ابوبکر ؓکو کہا کہ اگر آپؓ اور میں زندہ رہے تو آپؓ کو میرے بارے میں مسلمانوں کی حفاظت اور مشرکوں کے خلاف جہاد کی پسندیدہ خبریں پہنچیں گی۔حضرت ابوبکرؓ کو جابیہ میں حضرت قیس بن ھُبَیرہ ؓکی دو مشرک کمانڈروں کے ساتھ مبارزت اور اُن کمانڈروں کی موت کی خبرپہنچی تو آپؓ نے فرمایا کہ قیسؓ نے سچ کردکھایااور وعدہ پورا کردیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ باقی ذکر بعد میں چلتا رہے گا ۔
بعد ازاں حضور انور نے 12؍اگست 2022ء کو ربوہ میں 62 سال کی عمر میں شہید ہونے والے مکرم نصیر احمد صاحب ابن عبد الغنی صاحب کی شہادت کی تفصیل بیان فرمائی اور ان کے ذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کے تذکرے کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب بعد نماز جمعہ پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔
٭…٭…٭