ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اگر آپ چاہیں تو قرآن مجید میں سورۃ عصر پڑھ لیں اور اسی طرح احادیث صحیحہ اور پختہ متواتر خبروں میں عصر کا ذکر آیا ہے۔
’’ اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خیر الوریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک دنیا کی عمر سے اتنا ہی عرصہ گزرا تھا تو اس کے ساتھ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ عمر دنیا میں سے باقی ماندہ عرصہ گزشتہ عرصہ کی نسبت بہت کم رہ گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے کئی مرتبہ اس بات کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ قیامت بلاشبہ بہت قریب ہے۔ چنانچہ فرمایاکہ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ (لوگوں کے حساب کا وقت قریب ہے (القمر2:))پھر ایک مقام پر فرمایا۔اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ (قیامت کی گھڑی اب قریب ہے۔ (الانبیاء21:))اور اس کے ساتھ ہی کہافَقَدْجَآءَ اَشْرَاطُھَا(پس اس کی علامات تو آ چکی ہیں۔ (محمد19:))اس مضمون کے متعلق قرآن مجید میں کئی اور آیات بھی پائی جاتی ہیں۔ اے عقلمندو! ان آیات سے یہ بات قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کی عمر کا باقی حصہ اُس وقت سے بہت کم ہے جو گزر چکا ہے یہاں تک کہ علاماتِ قیامت ظاہر ہو گئیں اور وعدے کا دن قریب آ گیا اور آنے والا وقت قریب آگیا اور گزرا ہوا وقت دُور چلا گیا۔ پس تو اپنی نظر اس پر باربار ڈال۔ کیا تُو اس امر میں کوئی خلاف واقعہ بات دیکھتا ہے۔ اور اس شخص پر اللہ کی سلامتی نازل ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اور تم یہ معلوم کر چکے ہو کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہمارے نبی مصطفی ؐ کے عہد تک گزری ہوئی مدت تقریباً پانچ ہزار سال ہے۔ اور اس پر قرآن مجید نے گواہی دی ہے اور اہل کتاب بھی بغیر اختلاف کے اس بات پر متفق ہیں۔ پس وہ مقدار کونسی ہے جو اس مقدار سے کم ہو۔ تم انصاف سے ہمیں بتائو کیا یہ عصر کا آخری وقت نہیں ہے۔ اگر تم اس امر کو قبول کرنے میں گریز سے کام لو تو اس کے باوجود تمہیں اس اقرار سے کوئی چارہ نہیں کہ باقی رہنے والی مدت بغیر اختلاف کے نصف سے بھی کم ہے۔ پس صحیح طریق سے ہٹ جانے کے باوجود تم نے اپنی اس بات کے ساتھ ہمارے دعویٰ کو تسلیم کر لیا۔ اس بات سے تم پر یہ لازم آتا ہے کہ تم اس بات کا بھی اقرار کرو کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک دنیا کی عمر صرف دو ہزار اور چند سوسال باقی رہ گئی تھی اور یہی ہمارا دعویٰ ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ۔ہم کہتے ہیں کہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کے سلسلہ کے ہزاروں برسوں کے آخری ہزار سال کے سرے پر ہم مبعوث کئے گئے ہیں[ حاشیہ ۔ہم نے اپنی اس کتاب کی بعض عبارات میں خاتمہ دنیا کے لفظ کی تصریح چھوڑ کر اس کی بجائے انقلابِ عظیم یا سلسلۂ آدم کا انقطاع یا کوئی اور عبارت اختیار کی ہے۔ کیونکہ اس گھڑی کا معاملہ تو پوشیدہ ہے۔ اس کی تفصیل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے کنایۃً ذکر کرنا تقویٰ کے قریب تر ہے۔ ہم اس مدت کے بعد ایک عظیم انقلاب کے آنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور تفاصیل اپنے ربّ اعلیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔] یعنی اللہ ارحم الراحمین کے حکم سے چھٹے ہزار سال کے خاتمہ پر اور یہ اس مسیح کازمانہ ہے جو آخری زمانہ کا آدم ہے ۔اے زیادتی سے کام لینے والے یہی وہ میری دلیل ہے جس کے صحیح ہونے کا تم نے اقرار کر لیا ہے۔ پس دیکھو تم کس طرح مکمل طور پر جکڑ دیئے گئے ہو۔ اور ہر وہ شخص جو اہل عرفان سے اعراض کرے اسے اسی طرح جکڑ دیا جاتا ہے۔ اور اللہ نے ہمیں قیامت کے وقت کے متعلق کچھ نہیں بتلایا ہاں ہمیں اس ہزار سال کی خبر دی ہے جس میں قیامت برپا ہو گی۔ اور اس نے ہمیں بعض حالات کا علم دیا ہے اور بعض کا نہیں دیا۔ پس نہ تو ہم قیامت کے وقت کا علم رکھتے ہیں اور نہ آسمان میں کوئی فرشتہ اور نہ ہم اس گھڑی کی حقیقت سے واقف ہیں۔ ہاں ہمیں اتنا علم ہے کہ وہ ایک انقلابِ عظیم اور روزِ جزا ہو گا اور اس کی تفاصیل ہم خدائے علیم کے سپرد کرتے ہیں جو ابتدا اور انتہا کی حقیقت کو جانتا ہے۔ پھر ہم بات کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اگر آپ چاہیں تو قرآن مجید میں سورۃ عصر پڑھ لیں اور اسی طرح احادیث صحیحہ اور پختہ متواتر خبروں میں عصر کا ذکر آیا ہے یہاں تک کہ یہ ذکر بخاری، مؤطاّ اور دیگر معتبر کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اس تشبیہ میں یہ راز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو قرون اولیٰ کے ہلاک کرنے کے بعد مبعوث فرمایا اور انہیں نئی اُمّت کا آدم بنایا اور ان کی طرف وحی کی جو وحی کی۔ اور ان کے دین کا سلسلہ تیرہ سوسال سے کچھ اوپر ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے یوں ہی ارادہ اور فیصلہ کیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا وہ بنی اسرائیل کو تورات کی اس تعلیم کو یاد دلائیں جسے وہ بھول چکے تھے اور انہیں اخلاق عظیمہ پر قائم ہونے کی رغبت دلائیں۔ ان کے دین کا سلسلہ ایک ایسے زمانہ تک پہنچ کر ختم ہو گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کے زمانہ کا قریباً نصف تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو افضل المخلوقات ہیں (آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس کی سلامتی اور بڑی برکتیں نازل ہوں)‘‘
……………………………………………………………
((خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 239تا243۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)
مزید پڑھیے…