ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
تُو عیسیٰ ؑ کے ذکر کو چھوڑ اور خیرالرسل و خاتم الانبیاء ﷺ کے ظِلّ پر ایمان لا۔ اللہ کے نزدیک اہم امور میں سے ایک یہ تھا کہ وہ زمانوں میں سے آخری کو زمانۂ بعث یعنی زندگی بخشنے کے سلسلہ کی تجدید کا زمانہ بنائے گا۔ یہ یقیناً سچ ہے۔ پس تُو جاہلوں کی طرح نہ جھگڑ۔
اس دنیا میں نہ آدم واپس آئے گا نہ ہمارے نبی اکرم ﷺ اور نہ وفات یافتہ عیسیٰ ؑ جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اللہ اس سے پاک اور بالا ہے جووہ افترا کرتے ہیں۔
’’ پس تُو عیسیٰ ؑ کے ذکر کو چھوڑ اور خیرالرسل و خاتم الانبیاء ﷺ کے ظِلّ پر ایمان لا۔ اللہ کے نزدیک اہم امور میں سے ایک یہ تھا کہ وہ زمانوں میں سے آخری کو زمانۂ بعث یعنی زندگی بخشنے کے سلسلہ کی تجدید کا زمانہ بنائے گا۔ یہ یقیناً سچ ہے۔ پس تُو جاہلوں کی طرح نہ جھگڑ۔ اور اسی طرح اللہ کے بڑے بڑے مقاصد میں سے یہ بھی تھا کہ وہ شیطان کو کلیۃً ہلاک کر دے گا اور آدم کو دوبارہ غلبہ عطا کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف اور قسما قسم کی برکتوں اور نعمتوں سے بھردے گا۔ تمام حقائق سے پردہ ہٹا دے گا۔ اپنے امر اور مامور کو تمام اکنافِ عالم میں شہرت دے گا۔ زمین میں اپنا جلال اور جمال ظاہرکرے گا اور اس بارہ میں کسی پہلو سے کوئی کمی نہ کرے گا۔ پس اُس نے اِس غرض کے لئے اور شریعتِ غرّاء کی تجدید کے لئے اپنی جناب سے ایک بندہ کھڑا کیا اور آباء کی طرف سے اسے ابناءِ فارس میں سے اور ننہیال کی طرف سے بنی فاطمہ میں سے بنایا تاکہ اس میں جلال و جمال جمع کر دے اور اس میں ایک حصہ بہترین مردانہ خصال کا اور ایک حصہ عمدہ ترین نسوانی شمائل کا رکھ دے کیونکہ ابناءِ فارس میں وہ بہادر ہوں گے جو ایمان کو آسمان سے واپس لے آئیں گے۔ اسی لئے اللہ نے میرا نام آدم اور مسیح رکھا جس نے مریم والی تخلیق کا نمونہ دکھایا۔ نیز میرا نام احمد رکھا جو شرف میں برتری رکھتا ہے تاکہ ظاہر کرے کہ اس نے موہبت اور عطاکے طور پر میرے وجود میں نبیوں کی ہر شان اکٹھی کر دی ہے۔ پس یہ ہے وہ حق جس کے بارہ میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں نہ آدم واپس آئے گا نہ ہمارے نبی اکرم ﷺ اور نہ وفات یافتہ عیسیٰ ؑ جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اللہ اس سے پاک اور بالا ہے جووہ افترا کرتے ہیں۔ کیا یہ زمانہ آخری زمانہ نہیں ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم سوچتے نہیں۔ کیا ہمارے نبی ﷺ کے ظہور کے ذریعہ ساعت قریب نہیں آ گئی اور اس کی علامات ظاہر نہیں ہو گئیں۔ پس تم کہاں بھاگو گے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خبروں کو ان کے اوقات کے مقام سے پرے دھکیلتے ہو اور جانتے بوجھتے ہوئے انہیں مؤخر کرتے ہو۔ کیا تم حدیث بُعِثْتُ اَنَا وَ السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ (یعنی میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہیں)بھول گئے ہو؟تمہیں کیا ہوا ہے۔ تم کیوں انکار کرتے ہو؟ پس تم شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی کو چھو کر دیکھو اور اللہ کے وعدہ کو یاد کرو اور نصیحت صرف وہ لوگ پکڑتے ہیں جو جھکتے ہیں۔ میں اس چھٹے ہزار میں ہی آیا ہوں جو کہ آدم کی پیدائش کا دن ہے۔ یقینا ًاس میں غوروفکر کرنے والی قوم کے لئے ضرور ہدایت ہے۔کیا تم سورۂ عصر نہیں پڑھتے کہ اس کے اعداد میں دین کی سمجھ رکھنے والوں کے لئے آدم سے لے کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت تک دنیا کی عمر بیان کی گئی ہے اور یہ وہ عمر ہے جس کو اہل کتاب بھی جانتے ہیں۔ اگر تم نہیں جانتے تو تم ان سے پوچھ لو اور سورۃ عصر کی بیان کردہ گنتی اور اہل کتاب کی گنتی میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے جو سورج کے دنوں کے حساب اور چاند کے دنوں کے حساب میں ہوتا ہے۔ اگر تمہیں کچھ شک ہو تو تم گنتی کر کے دیکھ لو اور جب یہ بات متحقق ہو گئی تو تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اس حساب سے میں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا کیا گیا ہوں اور یہ حضرت آدم کی پیدائش کا دن ہے اور ہمارے رب کا ایک دن تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کے بارے میں اگر تمہیں کوئی شک ہو کہ آدم علیہ السلام کے سلسلہ کے وقت سے لے کر ہمارے آج کے دن تک صرف ایک ہزار سال یا اس کے ساتھ چند اور سال عمرِ دنیا میں سے باقی رہ گئے ہیں۔ تو آئو ہم تمہیں یہ بات خدا کی کتاب (قرآن مجید) اور حدیث اور پہلے انبیاء کے صحیفوں سے ثابت کر دیتے ہیں جیسا کہ وہّاب خدا نے مجھ پر انکشاف فرمایا ہے کہ سورۂ عصر کے اعداد بحساب جمل نیز اہل کتاب کے ہاں جو روایت تواتر کے ساتھ چلتی آرہی ہے وہ اس طرف راہنمائی کرتی ہے کہ اوّل النبیین حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء کے زمانہ تک سوائے چند سوسال کے، پانچ ہزار سال گزرچکے تھے۔[حاشیہ ۔ وہ اقوال جو اس گنتی کے برخلاف ہیں اور متقدمین نے ان کا ذکر کیا ہے وہ محض ایسی باتیں ہیں جن میں سے بعض بعض کو جھٹلاتی ہیں۔ وہ لوگ کسی ایک بات پر متفق نہیں بلکہ وہ ہروادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اس لئے جب کہ قرآن اور پہلے انبیاء اس گنتی پر متفق ہیں تو پھر وہ اقوال اس لائق نہیں کہ انہیں لازماًاختیار کیا جائے۔] اور اسی قسم کا مفہوم سات درجوں والے منبروالی حدیث کا ہے جس کے معنے ہم نے اس کے مقام پر ناظرین کے لئے بیان کئے ہیں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 235تا239۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)