یادیں جلسہ سالانہ ربوہ کی
رات چپکے سے دسمبر نے یہ سرگوشی کی
پھر سے اک بار رلائوں تجھے جاتے جاتے
جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود رکھی اور پہلا ایک روزہ جلسہ سالانہ 27؍دسمبر 1891ء کو قادیان دارالامان میں منعقد ہوا۔ جس میں 75 خوش قسمت مخلصین سلسلہ نے شرکت کی۔ پھر ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری جماعت کو اطلاع دی کہ ہر سال 29,28,27 دسمبر کی تاریخوں میں جلسہ منعقد ہوا کرے گا۔
شروع شروع میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام شاملین جلسہ کے لئے کھانے اور رہائش وغیرہ کا خود انتظام کرتے تھے۔ بلکہ بعض ایسے مستحقین تھے جن کو آمد و رفت کے لئے بھی مدد دی جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اکثر ایسے غرباء فقراء دور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں کہ جو جاتے وقت ان کو زادراہ دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے اہتمام میں مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب بدل و جان کوشش کر رہے ہیں۔ اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں چنانچہ بعض کو تیس تیس یا چالیس چالیس روپیہ دینے کا اتفاق ہوا ہے۔
(کتابچہ جلسہ سالانہ شائع کردہ جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ33)
ایک موقع پر تو گھر کے سارے بستر مہمانوں کو دے دیئے گئے۔ پھر خادم آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ مہمان بہت زیادہ آگئے ہیں اور بستر ختم ہو گئے ہیں۔ آپؑ نے اپنا بستر بھی مہمانوں کے لئے بھجوا دیا۔ اس وقت حضرت مصلح موعود ؓجو چھوٹے بچے تھے آپؑ کے پاس تھے۔ آپؑ نے انہیں گود میں لیا اور اوپر کمبل ڈال دیا۔ فرمایا کہ ہمارا کیا ہے ہم اسی طرح رات گزار لیں گے۔ اللہ اللہ حضور علیہ السلام کس قدر اپنے مہمانوں کا خیال رکھتے تھے۔
جلسہ سالانہ کا مستقل انعقاد دسمبر میں قادیان میں ہونا شروع ہوا۔ 27؍دسمبر 1893ء کا جلسہ بوجوہ ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں دسمبر میں جلسہ کا انعقاد مستقل ہوگیا۔ 1946ء تک قادیان میں جلسہ سالانہ ہوتا رہا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء اور 1948ء کو دو سال جلسہ سالانہ منعقد نہ ہو سکا۔
1949ء کو نئے مرکز ربوہ میں 15؍اپریل تا 17؍اپریل جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ 1966ء کو رمضان المبارک کی وجہ سے جلسہ سالانہ 26 تا 28 ؍ مارچ 1967ء ربوہ میں منعقد ہوا۔ اسی طرح 1967ء کا جلسہ 11تا 13؍جنوری 1968ءمنعقد ہوا۔ پھر 1968ء میں دسمبر میں 26تا28 ؍دسمبر منعقد ہوا۔ گویا اس سال 2مرتبہ جلسہ منعقد ہوا۔پھر 1971ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگ کے باعث جلسہ سالانہ نہیں ہوسکا۔
1983ء تک ربوہ میں سالانہ جلسے ہوتے رہے۔ 1984ء میں ایک ظالمانہ آرڈیننس کی وجہ سے ربوہ میں جلسہ منعقد نہ ہو سکا۔ 1984ء میںحضرت خلیفۃ المسیح کی ہجرت کے بعد 1985ء سے برطانیہ میں جلسے منعقد ہونا شروع ہو گئے۔ 2001ء میں جرمنی میں پہلا عالمی جلسہ من ہائم (Mannheim) کے مقام پر ہوا۔ اس سال برطانیہ میں ’منہ کھر‘ پھیلنے کی وجہ سے جلسہ نہیں ہو سکا تھا۔
1984ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ تو بند کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ ملک ملک جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن قادیان اور ربوہ کے جلسوں کی یادیں ہمیشہ قلب و ذہن پرمستقل نقش ہو گئیں۔
تقسیم ہند سے پہلے لوگ دور نزدیک سے پیدل میلوں سفر طے کر کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب اکثر بتایا کرتے تھے کہ ہم کچھ احمدی اکٹھے ہو کر داتہ زید کا (سیالکوٹ) سے بدوملہی اور وہاں سے پھر دریائے راوی کو جو سردیوں میں خشک ہو جاتا تھا اور کہیں کہیں تھوڑا پانی کھڑا ہوتا تھا عبور کر کے بستی بستی گزر کر قادیان جلسہ پر پہنچا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیتِ دعا کا ایک اسی سفر کے دوران ہر سال پیش آنے والا واقعہ بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے کہ ایک جگہ سے جب ہم گزرتے تو وہاں ایک سکھ بیٹھے ہوتے تھے۔ ساتھ ان کے کھیت تھے جہاں گنا کاٹ کر اس کا ویلنے پر رس نکالا جا رہا ہوتا اور وہ ہر جلسہ پر جانے والے کو روکتے اور کہتے یہ گنے کا رس پی کر جائیں۔ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو بتایا کہ میرے والد کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ شادی کو ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔ کسی نے میرے والد کو کہا کہ تم مرزا قایان والے کے پاس جائو ان سے دعا کروائو تو اللہ تمہیں اولاد دے دے گا۔ چنانچہ میرے والد مرزا صاحب کے پاس قادیان گئے اور دعا کے لئے کہا۔ مرزا صاحب نے دعا کا وعدہ کیا اور فرمایا میرا للہ تمہیں اولاد عطا فرمائے گا۔ چنانچہ مرزا صاحب کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے میرے والد کو بیٹا دیا۔وہ بیٹا مَیں ہوں۔ میں مرزا صاحب کی دعا سے پیدا ہوا۔ اب میرا اتنا تو فرض ہے کہ میں ان کے مریدوں کی یہ تھوڑی سی خدمت کروں۔
قادیان دارالامان کی تو بے شمار برکات ہیں اور آج قادیان کا نام دنیا بھرمیں گونج رہا ہے۔ خاکسار راقم نے تو وہ زمانہ نہیں دیکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ گزرجانے کے ایک عرصہ بعد میری پیدائش ہوئی لیکن مجھے اس طرح قادیان کی برکت کا تجربہ ہوا کہ 1987ء میں خاکسار پاکستان ایئرفورس میں ملازمت کے سلسلہ میں کراچی ڈرگ روڈ متعین تھا ان دنوں میری رہائش بیت المبارک ڈرگ روڈ کے ساتھ جماعتی گیسٹ ہائوس میں تھی۔ اللہ نے مجھے دو بچیاں جڑواں عطا فرمائی تھیں۔ وہ بیمار تھیں ڈاکٹر نے ہدایت دی کہ انہیں گائے کا دودھ پلایا جائے۔ چنانچہ وہاں ایک آدمی کا باڑا تھا جہاں وہ بھینسوں اور گائے کا دودھ فروخت کرتا تھا۔ پہلے دن میں وہاں سے دودھ لینے گیا۔ علی الصبح وہ دودھ دھو لیتے تھے۔ میں تاخیر سے پہنچا۔ پتہ چلا وہ دودھ بیچ کر گھر چلا گیا ہے اور بچا ہوا دودھ گھر لے گیا ہے۔ مجھے اس کے گھر کا پتہ تھا وہاں پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا وہ باہر آیا۔ میں نے کہا مجھے گائے کا دودھ چاہئے۔ کہنے لگے دودھ تو ختم ہو گیا ہے۔ میں واپس مڑا تو پیچھے سے انہوں نے آواز دی کہ ٹھہروتم کہاں رہتے ہو۔ میں نے کہا بیت المبارک کے سامنے گیسٹ ہائوس میں۔ پوچھا آپ احمدی ہیں؟ میں نے کہا جی میں احمدی ہوں کہنے لگے یہ برتن مجھے دو اور اندر سے گائے کا دودھ لے آیا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا کہ پہلے انکار کیا پھر دودھ دے دیا، راز کیا ہے؟ میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ آپ احمدی ہیں تو انکا رنہیں کر سکا کیونکہ میرا گائوں قادیان سے آگے تھا۔ جب کبھی دیر ہوتی اور بٹالہ سے چل کر رات پڑ جاتی تو ہم مرزا صاحب کے لنگر خانے میں رات گزار تے تھے۔ وہاں مجھے گرم گرم تازہ کھانا اور سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں گرم بستر بھی ملتا تھا۔ تو میرا بھی فرض ہے کہ میں مرزا صاحب کے مرید کو خالی ہاتھ نہ لٹائوں۔ پھر کہا یہ اوقات ہیں آپ اس دوران آکر دودھ لے جایا کریں یا مجھے بتا دیں کتنا دودھ روزانہ چاہئے اتنا میں ہر دن علیحدہ کر کے رکھ لیا کروں گا جب آئیں لے جائیں۔ الحمدللہ علیٰ ذالک
قادیان جلسہ سالانہ پر پیدل جانے کی بات ہو رہی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ایسے مخلصین سلسلہ تھے جو پیسے بچا کر جلسہ کے لئے آمد روفت کا خرچہ جمع کر کے جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوتے تھے ۔ان میں سے اپنے گائوں داتہ زید کا کے اس درویش صفت بزرگ چودھری سید احمد باجوہ مرحوم کو جانتا ہوں جو مرغی کے انڈوں پر بھی چندہ دیا کرتے تھے۔اکثر وہ گھی بیچ کر جلسہ سالانہ پر جانے کا کرایہ جمع کر لیتے لیکن اایسا بھی ہوا اور اکثر ہوا کہ جب پیسے پاس نہیں ہوتے تھے تو وہ جلسہ سالانہ ربوہ پر داتہ زید کا سے پیدل دو تین دن کا سفر طَے کر کے جایا کرتے تھے۔آج اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر پاتے کہ ان کی نسل کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے نوازا ہے اور وہ ملکوں ملکوں دنیا میں پھیل چکے ہیں۔اور میرے اس محترم بزرگ کے ایک پوتے کو اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کی انتظامیہ میں خدمت کی سعادت و خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
میں بچہ تھا۔ ہم داتہ زید کا جلسہ کی تیاری میں مصروف ہیں،نئے کپڑے سلوا رہے ہیں، خوشی کا عجیب سماں ہے۔جوں جوں جلسہ کے دن قریب آتے عجیب روحانی سرور بڑھتا جاتا۔آخر صبح جانے کے لئے والدہ سحری کو اٹھتیں۔ راستے کے لئے پراٹھے تیار کرتیں مولی کے، آلو کے اور کبھی انڈے پراٹھے ۔صبح کی نماز کے بعد سفر شروع ہوتا ۔گائوں سے تین چار میل پیدل منگلا نہر کے پل تک شدید سردی میں چلنا ہوتا۔ اور جب زیادہ سردی محسوس ہو تی کھیتوں سے پرالی اکٹھی کرتے اور آگ جلا کر جسم کو گرم کر لیتےاور پھر سفر شروع ہوتا۔آخر منگلا پل پر پہنچتے تو وہاں تانگے انتظار کر رہے ہوتے تا کہ مہتہ سوجا جائیں۔اور وہاں سے سپیشل ٹرین سے ربوہ پہنچیں۔ کچھ مرد اور کچھ خواتین بدوملہی رات مسجد میں گزار کر اگلے دن سپیشل ٹرین سے ربوہ جاتے۔بدوملہی کی جماعت ان سب کی خوب تواضع کرتی۔ ہم مہتہ سوجا اسٹیشن پر سپیشل ٹرین کا انتظار کرتے۔ گاڑی آتی اور فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اُٹھتی۔گاڑی جگہ جگہ ٹھہرتی۔ نعرے لگتے رہتے۔ گاڑی اپنی منزلیں طَے کرتی چلتی جاتی۔شاہدرہ اسٹیشن پر دوپہر کا کھانا ہوتا۔ بلکہ ’کلوجمیعًا‘ کا منظر ہوتا۔ایسے لگتا جیسے ایک ہی خاندان کے افراداس ٹرین پر سفر کر رہے ہوں۔ ہر کوئی اپنے گھر سے ساتھ رکھے پکے کھانے نکال کر خلوص اور محبت و پیار کے ساتھ ایک دوسرے کو پیش کر رہا ہوتا۔ایسا منظر کہیں دنیا نے کہاں دیکھا ہو گا! وہاں سے گاڑی پھر ربوہ کی طرف چلتی جاتی۔جوں جوں ربوہ قریب آتا جاتا عجیب روحانی کیفیت طاری ہوتی جاتی۔ٹرین کے اس سفر میں جلسہ پر جانے کا بہت سرور آتا۔ ہمارے امیر جماعت میاں جی چوہدری بشیر احمد باجوہ صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ آپ حضرت چودھری ظفر اللہ خاںؓ مرحوم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ آپ نارووال کی اسپیشل ٹرین کے امیر قافلہ بھی ہوتے۔چنیوٹ آتا تو دل کی کیفیت بیان کرنا مشکل ہے۔
آخر ربوہ آجاتا!نعرہ ہائے تکبیر کی صدائوں میں استقبالیہ خیمہ سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا۔جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت میں اھلاً و سہلاً و مرحبا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی روح آفریں صدائوں سے استقبال کیا جاتا۔خدام احمدیت سامان اٹھا لیتے اور قیام گاہوں میں پہنچا دیتے۔اگلے دن علی الصبح احباب نماز تہجد کے لئے مسجد مبارک کی طرف رواں دواںہوتے تا کہ نماز فجر اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں ادا کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ناشتہ مٹی کی بنی پیالیوں میں دال روٹی کا ہوتا۔وہ دال بھی عجیب مزہ رکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت لنگر خانہ کی یہ دال لوگ پانی کی طرح پینا پسند کرتے تھے۔شام کو آلو گوشت کا سالن مزہ دوبالا کر رہا ہوتا تھا۔
صبح جلسہ کا افتتاحی اجلاس حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں اکثر حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب آف سرگودھا کی وجد آفریں تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوتا اور چودھری شبیر احمد صاحب کی نظم کے بعد ہمارے دل وجان سے پیارے آقا کا دلآویز خطاب ہوتا جس سے پیاسی روحیں اپنی طراوت کا سامان کرتیں۔ علمائے احمدیت کی تقاریر، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ، مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ، مولانا محمد نذیر صاحب لائلپوری، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، کیا کیا نام لوںکہ ان میں حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب ؓ صدرعالمی عدالت انصاف پھر برصغیرکے نامور شاعر ،شاعر احمدیت ثاقب زیروی صاحب کی شرکت اور موخر الذکر کی ولولہ انگیز نظمیں روح میں اتر جایا کرتی تھیں۔ادھرجلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد بازار میں جدھر جائیں حضرت امیر المومنین کی تقاریر کی ریکارڈنگ کیسٹ پر چل رہی ہوتی۔ اور کہیں ثاقب زیروی صاحب کی نظموں کی کیسٹ سے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ جلسہ کے یہ تین دن بھی عجیب دن ہوتے۔سال بھر ان کا انتظار رہتا اور ان کے گزرنے کاپتہ ہی نہ چلتا۔ ربوہ کے مکینوں کو دیکھیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے! کیسے خوش نہ ہوتے، اپنے گھروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو ٹھہرانے کا انتظام جو کرتے تھے۔ ان کے لئے غریب دلہن کی طرح قیام گاہوں کو سجاتے۔ مہمان زیادہ ہوجاتے اور گھروں میں جگہ کم پڑ جاتی، لیکن دل کشادہ ہی رہتے، چنانچہ گھروںکے کمروں میں کسیر جسے ہم پرالی کہتے ہیں ڈال کر مہمانوں کو اپنے کمروں میں جگہ دے دیتے۔اور خود اپنے ہی آنگن میں خیمے لگا کر ان میں منتقل ہو جاتے۔ جاڑے کے سخت موسم میں ان دیوانوں کی اپنے مہمانوں کے تواضع اور خدمت کرنے کا روحانی لطف تو وہی جانتے ہوں گے!
وہ لوگ آئے ہیں آنکھوں میں شمع شوق لئے
جنہیں نہ پوچھا کبھی کم نگاہ دنیا نے
اور پھر ایسا ہوتا کہ روحانی سرور سے پُر یہ تین دن گزر جاتے۔ جہاں مسیح موعود کے مہمانوں کا جھرمٹ ہوتا وہاں اداسی بسیرا کرنے لگتی اور خوشی خوشی آنے والے قافلے بوجھل دلوں کے ساتھ پھر اگلے سال انہی دنوں کے دیکھنے کی تمنا لئے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ربوہ اور اہالیان ربوہ کچھ دن اداسی میں گزارتے اور پھر اگلے سال اپنے معزز مہمانوں کی خدمت کی تمنا لئے اپنے روز مرہ کے کاموں میں بادل نخواستہ ہی سہی، لیکن مصروف ہو جاتے:
یہ تین دن بھی عجب رحمتوں کے دن ہوںگے
کھِلیں گے دیدۂ ودل میں گلوں کے پیمانے
شراب نور سے دھو لو دل و نظر ثاقب
نصیب ہوں کہ نہ ہوں پھر یہ دن خدا جانے
جلسہ کی یادیں لکھتے وقت بار بار آنکھیں پرنم ہو جاتی رہیں۔بارگاہ رب العزت میں یہ التجا لئے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ کرے کہ یہ سیاہ رات جلد ختم ہو اور ہمارے پیارے ربوہ کی رونقیں لوٹ آئیں۔اللہ ہمیں پھر ایسے ہی نظارے دیکھنے نصیب فرمائے۔آمین
٭…٭…٭