جماعت احمدیہ برطانیہ کے 52ویں جلسہ سالانہ 2018ء کی مختصر رپورٹ (4)
’آنحضرت ﷺ کی سیرت (صبر و استقامت)‘ کے موضوع پرانگریزی میں مکرم بلال ایٹکنسن صاحب ، ’ بچوں کی نیک تربیت میں والدین کا کردار‘ کے موضوع پراردو میں مکرم راجہ منیر احمد خان صاحب اور ’ قرآنِ کریم کا پیدا کردہ روحانی انقلاب‘ کے موضوع پر انگریزی میں مکرم افتخار احمد ایاز صاحب کی پُرمغز، ٹھوس علمی و معلوماتی تقاریر۔
تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات میں اسناد و میڈلز کی تقسیم
نئے دور میں ہونے والی ایجادات اور ان کے لغو استعمال سے اعراض کرنے نیز بچوں کی تربیت کرنے کے زرّیں اصولوں پر مشتمل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خواتین سے خطاب
(جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز کی کارروائی کی مختصر رپورٹ)
جلسہ سالانہ کا دوسرا دن ۔ ہفتہ 4؍اگست2018ء
دوسرے دن کا آغاز حسبِ معمول نمازِ تہجد سے ہوا جو صبح 3؍ بجے ادا کی گئی۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چار بجکر 30 منٹ پر جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نمازِ فجر پڑھائی۔ بعدازاں حضور انور اپنی رہائشگا تشریف لے گئے۔نمازِ فجر کے بعد درس ہوا۔
جلسہ سالانہ کا دوسرا اجلاس
جلسہ سالانہ کے دوسرے اجلاس کے آغاز کا وقت 10بجے صبح مقرر تھا۔ اس اجلاس کی صدارت محترم محمد الدّین ناز صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے کی۔اجلاس کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم (مع اردو ترجمہ)سے ہوا جو مکرم حافظ طٰہٰ داؤد صاحب (طالبعلم جامعہ احمدیہ یو کے) نے کی۔ مکرم حفیظ احمد صاحب (طالبعلم جامعہ احمدیہ یو کے) نے حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے پاکیزہ نعتیہ منظوم کلام ؎
اِک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی
جو نور کی ہر مشعل ظلمات پہ وار آئی
سے بعض منتخب اشعار ترنّم کے ساتھ پڑھے۔
جلسہ سالانہ کے دوسرے روز صبح کے اس اجلاس کی پہلی تقریرانگریزی زبان میں مکرم بلال ایٹکنسن صاحب۔ ریجنل امیر نارتھ ایسٹ۔یُو کے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت (صبر و استقامت) ‘‘ تھا۔
موصوف نے تشہد، تعوذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد کہاکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو صبر اور دُعا ے ذریعہ سے (اللہ کی) مدد مانگو۔ اللہ یقینًا صابروں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔ ‘‘ (البقرۃ 154) انہوں نے کہا کہ عربی زبان میں کسی مصیبت کو کسی بھی قسم کے شکوہ کے بغیر برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے۔نیز الٰہی احکام پر کاربند رہنے کو بھی صبر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح احکاماتِ الٰہیہ میں جن باتوں سے ممانعت ہے ان سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔
اس طرح اس آیت میں اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو بغیر کسی شکوہ اور شکایت کے اپنے دینی کام سرانجام دیتے چلے جانا چاہئے اور اپنا مقصدِ حیات پانے کے لئے کبھی بھی تھکنا نہیں چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ الٰہی اوامر پر عمل نا چاہئے اور نواہی سے پرہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ صبر اور دعا سے ایک مومن اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا۔ اور اللہ کی رضا کا حصول ہی ہے جس کےطریقے تمام انبیاء بتاتے چلے آئے ہیں اور نبی اکرمﷺ نے بھی ہمیں یہی سکھایا۔
جہاں تک ’استقامت‘ کا تعلق ہے تو قرآنِ کریم مومنین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’اے ایماندارو! صبر سے کام لو اور (دشمن سے بڑھ کر) صبر دکھاؤ اور سرحدوں کی نگرانی رکھو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ (آلِ عمران 201)۔ یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر مومن کو صبر اور استقامت سے کام لینا چاہئے۔
نبی اکرم ﷺ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے۔ آپ کا اسوۂ حسنہ پوری دنیا کے لئے ایک نمونہ ہے۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’اور (اے رسول) تو صبر سے کام لے اور تیرا صبر کرنا اللہ (کی مدد) سے ہی (ہو سکتا) ہے اور تو اُن (لوگوں کی حالت) پر غم نہ کھا۔ اور جو تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کر۔‘‘ (النّحل 128)۔
آج خاکسار کو یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی پاکیزہ سیرت میں سے ’صبر و استقامت‘ کے بعض نمونے، بعض واقعات آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
مقرر موصوف نے نبی اکرمﷺ کے پاکیزہ بچپن کا واقعہ بیان فرمایا کہ آپ کی پیدائش یتیمی کی حالت میں ہوئی۔ چھ سال کی عمر میں والدہ اور پھر آٹھ سال کی عمر میں داد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ شفیق چچا نے جب کفالت کا ذمہ لیا تو کئی مرتبہ گھر میں چچی کی طرف سے ہونے والے امتیازی سلوک پر ہمیشہ صبر سے کام لیا اور کبھی شکوہ نہ کیا۔ مقرر موصوف نے نبی اکریم ﷺ کی دین کی خاطر تکالیف برداشت کرنے کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جب کفارِ مکّہ حضرت ابو طالب ؓ کے پاس نبی اکرمﷺ کی شکایت لے کر گئے اور انہیں ہر قیمت پر اس عقیدے کی تبلیغ سے روکنے کے لئے کہا ۔ حضرت ابو طالب نے جب قریشِ مکہ کا پیغام نبی اکرمﷺ کو پہنچایا اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ ان میں مکّہ والوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تو نبی اکرم ﷺ نے وہ تاریخ ساز الفاظ فرمائے جو آپﷺ کے صبر و استقامت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ’اے میرے پیارے چچا! اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تب بھی میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار نہیں چھوڑ وں گا۔
نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک کو بھی کئی تکالیف کا سامنا رہا۔
مقرّر موصوف نے نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ سیرت سے کئی ایک ایسے واقعات بیان کئے۔ آپ نے کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں محاصرہ کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ تین سال اس گھاٹی میں کسمپرسی کی حالت میں رہنے کے بعد جب مسلمان اذنِ الٰہی سے واپس اپنے گھروں کو لوٹے تو ان تکالیف کے نتیجہ میں نبی اکرمﷺ کے چچا حضرت ابو طالبؓ اور آپ کی محبوب زوجہ ، ساتھی او رمددگار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے۔ نبی اکرمﷺ اگرچہ اس سال کو ’عام الحزن‘ یعنی غموں کا سال فرماتے لیکن اس غمزدہ دور میں بھی آپؐ نے صبر و استقامت کادامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
آپ نے بتایا کہ کفار مکّہ کبھی آپؐ پر غلاظت پھینک دیتے اور کبھی حالتِ سجدہ میں آپؐ کے کندھوں پر اونٹ کی انتڑیاں ڈال دیتے۔ تب آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک غلام حضرت زیدؓ کے ساتھ طائف کا سفر کرنے اور وہاں کے باسیوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کا ارادہ فرمایا۔ وہاں کے سرداروں نے نبی اکرمﷺ کے پیغام کی قدر نہ کی اور آپ کو شہر کے بدمعاشوں کے ذریعہ لہولہان کروا دیا۔ تب بھی آپ ﷺ نے صبر و استقامت کا نمونہ دکھایا اور طائف کے لوگوں کے لئے بد دعا تک نہ کی۔یہ واقعہ ایسا بے مثال ہےکہ دشمنانِ اسلام بھی اس موقع پر نبی اکرمﷺ کی تعریف کرتےنہیں تھکتے۔
مسلمانوں پر تکالیف بہت بڑھنے لگیں تو اذنِ الٰہی سے نبی اکرم ﷺ نے انہیں مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ اور ایک رات جب کفارِ مکہ نبی اکرمﷺ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے آپؐ بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے۔ مکہ والوں کو جلد ہی نبی اکرم ﷺ کے مکہ چھوڑنے کا علم ہو گیا۔ چنانچہ صبح ہی ماہر کھوجی آپؐ کی تلاش میں لگا دیے گئے اور بہت سے انعام و اکرام کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھی حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ غارِ ثور میں پناہ گزین ہوئے۔ ماہر کھوجی اہلِ مکّہ کو اس غار کے دہانے تک لے آیا۔ قدموں کی چاپ اور دشمن کی باہم گفتگو کو سنتے ہوئے حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ دشمن نے ہمیں پالیا! اس پر صبر او راستقامت اور اپنے مولیٰ پر کامل توکّل رکھنے والے افضل الرّسل محمدمصطفیٰﷺ نے فرمایا کہ غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اور ہر لحاظ سے اپنے ساتھی کو تسلّی دینے لگے۔چنانچہ چند ہی دن میں حضرت نبی اکرم ﷺ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
مقرّر موصوف نے اس حوالہ سے حضور اکرمؐ کی سیرت کے کئی واقعات کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو پیش کردہ خراجِ تحسین بھی بیان کیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتےہیں:
’’خیال کرنا چاہئے کہ کس استقلال سے آنحضرت اپنے دعویٰ نبوت پر باوجود پیدا ہو جانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہوجانے لاکھوں معاندوں اور مزاحموں اور ڈرانے والوں کے اوّل سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے۔ برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دکھ اٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روز بروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہو جانا وہم بھی نہیں گزرتا تھا بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے از دست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہہ کر لاکھ تفرقہ خرید لیا اور ہزاروں بلاؤں کو اپنے سر پر بلا لیا۔ وطن سے نکالے گئے۔ قتل کے لئے تعاقب کئے گئے۔ گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہو گیا۔ بارہا زہر دی گئی۔ اور جو خیر خواہ تھے وہ بد خواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے اور ایک زمانہ دراز تک وہ تلخیاں اٹھانی پڑیں کہ جن پر ثابت قدمی سے ٹھہرے رہنا کسی فریبی اور مکّار کا کام نہیں۔‘‘
(براہینِ احمدیہ حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 108-109)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ
’’واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرتؐ اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکّل کرنے والے تھے کہ جنہوںنے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا اور کر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہو گا۔ بلکہ تمام شدّتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتےہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کر کے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں۔‘‘
(براہینِ احمدیہ حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 111-112)
مقرر موصوف نے کہا کہ نبی اکرم ﷺکی مبارک ذات کو سب سے زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ مکہ والوں نے مکی دور اور مدنی دور میں نبی اکرمﷺ کو اذیّت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ لیکن وہی پاک نبی ﷺ جب ایک فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو صبر و استقامت کا بے مثال نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے اور اپنے پیروکاروں پر ہونے والے تمام ظلم اور زیادتیوں کو یکسر بھلا کر تمام دشمنوں اور تمام مجرموں کو معاف فرما دیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ :
’’اور جو نبوّت کی علّتِ غائی ہوتی ہے یعنی تعلیم اصول نجات کے اس کو ایسا کمال تک پہنچا یا جو کسی دوسرے نبی کے ہاتھ سے وہ کمال کسی زمانہ میں بہم نہیں پہنچا۔‘‘
(براہینِ احمدیہ حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 113)
بعدازاں محترم صدر صاحب اجلاس نے مکرم راجہ منیر احمد خان صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن ربوہ کو اردو تقریر بعنوان ’’بچوں کی نیک تربیت میں والدین کا کردار‘‘ پیش کرنے کے لئے دعوت دی۔
مقرّر موصوف نے قرآنِ کریم، احادیث و سنّت نبویﷺ، ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام و خلفائے کرام نیز مختلف واقعات کے تناظر میں دورِ حاضر میں اسلامی نقوش پر چلتے ہوئے بچوں کی پرورش کرنے کے لئے والدین کے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار پر روشنی ڈالی۔
(اس تقریر کا مکمّل متن الفضل انٹرنیشنل کے گزشتہ شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔)
بعد ازاں مکرم بلال محمود صاحب (یُوکے) نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ منظوم کلام
نُور فرقاں ہے جو سب نُوروں سے اجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
میں سے بعض منتخب اشعار ترنّم کے ساتھ پڑھے۔
بعد ازاں مکرم صدر صاحب اجلاس نے محترم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایّاز صاحب چیئرمین ہیومن رائٹس کمیٹی۔ یُوکے کو اس اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر ’’قرآن کریم کا پیدا کردہ روحانی انقلاب‘‘ (انگریزی) پیش کرنے کی دعوت دی۔
مقرر موصوف نے تشہد و تعوّذ اور تسمیہ کے بعد سورۃ ابراھیم کی دوسری آیت کا کچھ حصہ تلاوت کیا جس کا ترجمہ یوں ہے ’’مَیں اللہ دیکھنے والا ہوں۔ (یہ) ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اتارا ہے کہ تُو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظُلمات سے نکال کر نُور کی طرف لے آئے۔‘‘(ابراھیم 2)
مقرّر موصوف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کی ذات بابرکات پر اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایا۔ قرآنِ کریم واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ پھر یہی کتاب ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں سے خواہ ان کا تعلق کسی رنگ نسل قوم یا کسی بھی زمانہ سے ہو مخاطب ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم ہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء سچےہیں اور ان کی کتابیں ان کے دور میں لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا موجب بنیں۔
مقرر موصوف نے نبی اکریم ﷺ کی بعثت کے وقت عرب کی حالت اور قرآنِ کریم کے ذریعہ ان کی روحانی و دنیوی تعلیم و ترقی کا ذکر کیا کہ ہر قسم کی برائی میں پڑے عرب ایسے ہو گئے کہ راتیں اپنے رب کے حضور قیام و سجود میں گزارتے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ہریک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصومؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالامال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعدالٰہی محبت میں کھو گئے۔ …یہ خدائے قادر مطلق حیّ قیّوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔ بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی‘‘۔
(ماخوذ از سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد دوم صفحہ 77، 78)
قرآنِ کریم سے پیدا ہونے والے روحانی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے مقرر موصوف نے تاریخ اسلام سے چنیدہ واقعات پیش کئے۔ سب سے پہلے حضرت عمرؓ کا واقعہ قبولِ اسلام بیان کیا کہ کس طرح وہ قرآنِ کریم کے الفاظ کو سن کر موم ہو گئے اور ہدایت نے ان کے دل میں گھر کر لیا۔اسی طرح تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی ؓ بھی قرآنِ کریم کو سن کر اسلام لائے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ مسیحی غلام بھی تھے۔ انہوں نے جب نبی اکرم ﷺ کو قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے سنا تو ان کی آنکھوںسے آنسو رواں ہو گئے اور وہ اسلام لے آئے۔ نبی اکرمﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا حبشہ جانے کے بعد وہ اپنے پرانے دین کی طرف لوٹ تو نہیں جائیں گے۔ اس پر انہوں نے جواب دیاکہ وہ ایسا کبھی نہیں کر یں گے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ تاریخ اسلام میں ہمیں ایسے متعدد واقعات ملتےہیں کہ قرآنِ کریم کی برکت سے اندھیروں میں پڑی روحیں آستانۂ الٰہیہ پر بہہ نکلیں اور روحانی نور سے سرفراز ہوئیں۔
اس کے بعد مقرر موصوف نے معاشرہ میں برابری، امن اور انصاف کے قیام کے بارہ میں قرآنِ کریم کی بے مثال خدمات کا تذکرہ کیا۔ مقرر موصوف نے کہا کہ قرآن وہ واحد کتاب ہے جو حقیقی طور پر انسانیت کے حقوق پر زور دیتی اور معاشرہ میں ایک فرد کے بنیادی انسانی حقوق اور پھر حکمرانوں کو حکمرانی کے درست اصول سکھاتی ہے۔
قرآنِ کریم پہلی کتاب ہے جس نے عورتوں کے حقوق تسلیم کر کے بہترین اصول وضع فرمائے۔ اعمال کے اجر کے حصول میں عورتوں کو مردوں کے برابر قرار دیا۔اسلام سے قبل عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس کسی کی دو بیٹیاں ہوں وہ انہیں پال پوس کر بڑا کرے اور انہیں تعلیم کے زیور سے مالامال کر دے تو اللہ اس کے لئے جنّت میں گھر بنا دے گا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے عورت کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا کیونکہ عورت خود بطور وراثت کے تقسیم ہو جاتی تھی۔ اسلام نے وراثت میں عورت کے حقوق قائم فرمائے اور اسے خودمختار کیا۔اور اسے گھر کی ’مالکہ‘ قرار دے کر اس کے وقار میں اضافہ فرمایا۔ نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کی عزتوں کو قائم کرتے ہوئے فرمایا کہ ’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہو، او رمیں تم سب میں اپنی بیویوں سے سب سے زیادہ حسنِ سلوک کرنے والا ہوں۔‘
قرآنِ کریم نے آج سے چودہ سو سال قبل بیکس اور بے سہارا عورت کو وہ حقوق دے دیے جنہیں آج ترقی یافتہ دور کا انسان عورت کو مہیا کرنے پر فخر کر رہا ہے۔ حضرت نوّاب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا نے کیا خوب اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں بیان فرمایا:
’’وہ رحمت عالَم آتا ہے، تیرا حامی ہو جاتا ہے
تُو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے‘‘
(درِ عدن زیرِ نظم ’رکھ پیش نظر وہ وقت بہن! جب زندہ گاڑی جاتی تھی‘)
اسلام معاشرہ میں مذہبی تفرقہ کو ختم کرنے کے لئے زرّیں اصول پیش کرتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو باہم ایسی اقدار پر جمع ہو جانا چاہئے جو سب میں باہم مشترک ہوں۔چنانچہ ’میثاقِ مدینہ‘ قرآنِ کریم کے اس حکم کی عملی تصویر بن کر ابھرا۔ قرآنِ کریم واضح طور پر فرماتا ہے کہ ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ (البقرۃ 257)۔ اسی طرح قرآن تمام مذاہب کی تعلیمات اور ان کے بزرگان و انبیائے کرام کے احترام کا درس دیتا ہے۔چنانچہ میثاقِ مدینہ کے بعد اسلامی سلطنت میں یہودی، مسیحی اور بت پرست یکساں حقوق کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔ یہ صفحہ ہستی پر وہ پہلی اسلامی ریاست تھی جس میں انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر کی ضمانت دی گئی تھی۔ ہر ایک کو اس کی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے مطابق حقوق دیئے گئے اور ایک پُر امن اور بے مثال سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔
پھر ہم نجران کے مسیحیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کو دیکھیں تو اس کی شرائط میں بھی تمام مذہبی سکالرز، ربّیوں اور عبادت گاہوں اور ان عبادت گاہوں میں رہنے والوں کو خدا اور اس کے رسول کا تحفظ حاصل ہوا، یہ بھی طَے پایا کہ کوئی عیسائی پادری یا یہودی ربِّی اپنے عہدہ سے بھی نہیں ہٹایاجائے گا۔
مقرر موصوف نے اپنی تقریر کو آگے بڑھاتے ہوئے سورۃ المائدہ کی آیت 9 کو پڑھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ’’اے ایماندارو! تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لئے ایستادہ ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو، وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقینًا آگاہ ہے۔‘‘ (المائدہ 9)۔ مقرر موصوف نے کہا کہ یہ آیتِ کریمہ انصاف کے اعلیٰ ترین معیاردنیا کے سامنے رکھتی ہے۔ اس آیت کے مطابق ایک مسلمان اسلام کے نام پر کسی پر ظلم نہیں کر سکتا، کسی سے ناانصافی نہیں کر سکتا۔ اور دوسری جانب جو لوگ اسلام کی تعلیمات پر انگلی اٹھاتے ہیں ان کے لئے یہی آیت ایک مسکت جواب ہے کہ جو مذہب انصاف کی ایسی تعلیم دے رہا ہے کیا وہ کسی پر ظلم کرنے کا اشارہ بھی دے سکتا ہے!
مقرر موصوف نے سیرت النبیﷺ سے وہ خوبصورت واقعہ پیش کیا جس میں نبی اکرم ﷺ نے ایک بااثر گھرانے کی خاتون کے خلاف فیصلہ سنا دیااور اس کے حق میں ایک بہت قریبی صحابی کی سفارش بھی قبول نہ فرمائی۔
مقرر موصوف نے حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے یارک یونیورسٹی اونٹاریو میں دیئے جانے والے لیکچر سے ایک اقتباس پیش کیا جس میں حضورِ انور نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث ’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘ کی روشنی میں اسلام کی خوبصورت اور امن قائم کرنے والی تعلیمات دنیا کے سامنے رکھیں۔
مقرر موصوف نے بعض مشہور غیر مسلم مصنفین کے اقتباسات پیش کئے جن میں قرآنِ کریم اور اسلام کی تعلیمات کو سراہا گیا تھا۔
مقرر موصوف نے بیان کیا کہ نبی اکرمﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر تمام دشمنوں کو معاف فرما کر دنیا میں ایک ایسی مثال قائم فرما دی جس کی نظیر نہ اس سے پہلے کبھی موجود تھی اور نہ شاید آئندہ ایسا کبھی ہو گا۔
مقرر موصوف نے اس کے بعد اکیسویں صدی میں ہونے والی ایجادات کا واضح تذکرہ قرآنِ کریم سے پیش فرما کر قرآنی پیشگوئیوں کے سچا ہونے کی گواہی پیش کی۔ اس میں پہاڑوں کا چلایا جانا، اونٹنیوں کا سفر کے لئے استعمال میں نہ رہنا، باہمی ملاقاتوں اور رسل و رسائل میں سہولتوں کا پیدا ہو جانا، کتب اور پرنٹنگ سے متعلق چیزوں کا تیزی سے چھپنا اور پھر پھیلنا، وغیرہ شامل ہیں۔
مقرر موصوف نے جماعتِ احمدیہ کے ذریعہ سو سے زائد زبانوں میں قرآنِ کریم کی منتخب آیات کا ترجمہ شائع کرکے اسے پھیلانے کا ذکر کر تے ہوئے اسے بھی روحانی انقلاب کا ایک ذریعہ قرار دیا۔
مقرر موصوف نے کہا کہ آج ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا بھر میں قرآنِ کریم کی بے مثال تعلیمات پر مبنی اپنے لیکچرز کے ذریعے امن کے اسلامی پیغام اور اسلامی تعلیمات کو پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہےہیں۔ آپ کی تقاریر میں ذکر ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی روشنی میں دنیا میں معاشی، معاشرتی اور سماجی امن اور باہمی ہم آہنگی کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے۔ کس طرح دنیا ان تعلیمات کو نظر انداز کر کے جنگِ عظیم سوم کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور کس طرح دنیا قرآن کریم کی بتائی گئی تعلیمات پر عمل کر کے تباہی سے بچ سکتی ہے۔حضورِ انور یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ قرآنی تعلیمات کے پیشِ نظر اس ماٹو کو اپنائے ہوئے ہے کہ ’محبّت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘۔
مقرر موصوف نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زرّیں ارشادات پر اپنی تقریر کا اختتام کیا جس میں قرآنِ کریم کی اہمیت و برکات بیان کی گئی تھیں۔
اپنی تقریر کے اختتام پر مقرر موصوف نے کہا کہ ہم سب کو مل کر خلافتِ احمدیہ کے عروۂ وثقیٰ کو تھامے رکھنا چاہئے تاکہ ہم سب مل کر قرآنِ کریم کی تعلیمات سے شروع ہونے والے انقلاب کے ذریعہ دنیا میں حقیقی اسلام کے غلبہ کی صورت میں اسی قرآنی انقلاب کی تکمیل کے شاہد ہوں۔
………………………
اس کے بعد مکرم آصف چغتائی صاحب یُوکے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ منظوم کلام
اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے
اے سونے والو! جاگو شمس الضحیٰ یہی ہے
میں سےبعض منتخب اشعار پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
مردانہ جلسہ گاہ میں پڑھی جانے والی اس نظم کے ساتھ یہ اجلاس 12بجکر تین منٹ پر اپنے اختتام کو پہنچا۔
…………………………
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جلسہ گاہ مستورات میں آمد
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 12بجکر 4 منٹ پرزنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ مستورات نے نعروں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا۔ کرسیٔ صدارت پر رونق افروز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سب کو ’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ‘ کا تحفہ پیش کیا۔
جلسہ سالانہ کے دوسرے روز حسب روایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے جاتے ہیں اور خواتین سے براہ راست خطاب فرماتے ہیں۔اس اجلاس میں حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔
اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ قرۃ العین طاہر صاحبہ نے سورۃ الاحزاب کی آیات 36 اور 37 کی تلاوت کی اور ساتھ ہی ان آیات کریمہ کا اردوترجمہ تفسیر صغیر سے پیش کیا۔
اس کے بعد محترمہ لبنیٰ وحید صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منظوم کلام فضائل قرآن مجید سے بعض منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
منتخب اشعار از کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
(درج ذیل اشعار جلسہ سالانہ یُوکے 2018ء کے موقع پر دوسرے روز حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زیر صدارت منعقدہ لجنہ کے اجلاس میں پڑھے گئے)
جمال و حُسن قرآں نُورِ جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فِکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے
بہارِ جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے۔ نہ اس سا کوئی بستاں ہے
کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لؤلوئے عمّاں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قولِ بشر کیوں کر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے
ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرارِ لاعلمی
خن میں اُس کے ہمتائی ، کہاں مقدورِ انساں ہے
ارے لوگو ! کرو کچھ پاس شانِ کبریائی کا
زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے
یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جَہل کے پردے
خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوفِ یزداں ہے
تعلیمی میدان میں اعزاز پانے والی طالبات میں تقسیم اسناد و میڈلز
بعد ازاں سیکرٹری تعلیم لجنہ اماء اللہ برطانیہ نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی اجازت سے رپورٹ پیش کی اور پھرتعلیمی میدان میں مختلف اعزاز پانے والی طالبات کے اسماء باری باری پکارے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کو اپنے دستِ مبارک سے اسناد عطا فرمائیں جبکہ حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی نے ان طالبات کو میڈلز پہنائے۔ جن 95؍ طالبات نے اسناد اور میڈلز حاصل کرنے کی سعادت حاصل کی ان کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭…٭…٭
خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اس کے بعد 12بجکر 47منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مستورات سے خطاب فرمایا:
تشہد، تعوذ ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آج جس زمانہ سے ہم گزر رہےہیں اس میں دنیاوی ترقیات نے انسان کو نئی ایجادات کرنے کے مواقع میسّر فرمائے ہیں۔ ان ایجادات میں سے بعض لغو ایجادات ہیں۔ ان ایجادات کے فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے معرکۃ الآراء خطاب میں قرآنِ کریم، سنّتِ نبویہ اورارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں ان ایجادات کے لغو استعمال اور ان کے نقصانات سے اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچانے کی تلقین فرمائی۔
حضورِ انور نے فرمایاکہ ہر عورت جو ماں ہے اور ہر لڑکی جس نے انشاء اللہ تعالیٰ ماں بننا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس ماحول میں محض اور محض اپنے فضل سے بچوں کی ایسی تربیت فرمائے کہ ان میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ماں اور باپ دونوں بچوں کی اعلیٰ تربیت کے لئے اپنے گھر کے ماحول کو ایسا رکھیں کہ بچے اپنے ماں باپ کو اپنے لئے ایک نمونہ سمجھ کر ان کے قریب ہوں ۔
حضورِ انور نے جماعتی اجلاسات میں بچوں کے شمولیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ
اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ احمدی ماں باپ کا فرض ہے کہ جماعتی اجلاسوں اور پروگراموں میں بچوں کو خود لے کر جائیں۔ خود بھی شامل ہوں اور بچوں کو بھی اس کی اہمیت بتائیں پھر ان اجلاسوںمیں انتظامیہ کا بھی کام ہے کہ بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک کریں اور انہیں جماعت کے قریب تر کرنے کی کوشش کریں ۔ انتظامیہ میں چاہے عورتیں ہیں یا مرد دوسرے کے بچے کو بھی اپنے بچوں کی طرح دیکھنا چاہئے ۔
اں باپ نے جماعتی نظام پر اعتماد کر کے بچے آپ کے پاس بھیجے ہیں تو اس اعتماد پر پورا اتریں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بچوں کی تربیت کے لئے گھر اور باہر ہمیں من حیث الجماعت کوشش کرنی ہو گی اور کرنی چاہئے تا کہ اگلی نسل کو سنبھال سکیں اور وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ لڑکوں کی تربیت کے لئے بھی اور لڑکیوں کی تربیت کے لئے بھی یہ ضروری چیز ہے کہ ان میں انصاف قائم رکھا جائے۔ بعض لوگ لڑکوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس سے جہاں لڑکوں میں خود غرضی پیدا ہوتی ہے، خود سری پیدا ہوتی ہے، خودپسندی پیدا ہو تی ہے اور آخر میں تکبر بھی پیدا ہو جاتا ہے وہاں لڑکیوں میں احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے وہ پھر بعض اوقات اپنے دوستوں اور سہیلیوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیتی ہیں جو آزادی اور لڑکیوں کی اہمیت کے نام پر دین سے دور جانے والی بنا دیتی ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ لڑکیوں کی تربیت کے لحاظ سے اس بات کو بھی سب سے زیادہ اہمیت دیں کہ ان میں حیا کا مادہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرنا ہے۔ مغربی ماحول میں آزادی کے نام پر جو بے حیائی پھیل رہی ہے اور مغربی ماحول جو سر ننگے کروا رہا ہے تو آپ نے دین کے نام پر حیا کو قائم کرتے ہوئے سروں کو ڈھانکنا ہے۔ اور ہوشمند لڑکیوں کو بھی یہ خیال رہنا چاہئے، خود ان کو یہ احساس ہونا چاہئے اس کے لئے ماؤں کے اپنے نمونے سب سے زیادہ ضروری ہیں۔ بچہ تو ماں باپ کی نقل کرتا ہے جیسا کہ میں نے کہا اور لڑکیاں خاص طور ماؤں کی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے اپنے نمونے کی بھی ضرورت ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسلیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے والی پیدا ہوتی چلی جائیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی۔
(خطاب کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے کسی آئندہ شمارہ میں شائع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ)
…………………………
حضور انور ایدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب ایک بج کر 45منٹ پر دعا کے ساتھ ختم ہوا۔ بعد ازاں ناصرات و لجنہ نے مختلف زبانوں میں نظمیں اور ترانے پیش کئے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ تشریف لے گئے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭