خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍اگست2022ء
الحمد للہ گزشتہ اتوار کو اپنی برکات بکھیرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ تین دن بڑے بابرکت تھے۔
اس جگہ پر جو تقریباً جنگل ہے تمام تر سہولتوں کے ساتھ ایک عارضی شہر بنا دینا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہ سو فیصد پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے یہ کام نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اور جو نتائج حاصل ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن کوششوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب کرتا ہے اور جو مہمان آتے ہیں وہ بھی حیران ہو کر کارکنان کے جذبے کو دیکھ کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔
جلسہ جہاں اپنوں کے ایمان میں مضبوطی اور بھائی چارے کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے وہاں غیروں کو اسلام کی حقیقی تعلیم بتانے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔
اس وقت مَیں خلاصۃً بعض تأثرات آپ کے سامنے رکھوں گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلسہ کی برکات کا دوسروں پر بھی کتنا اثر ہوتا ہے۔
جلسہ سالانہ کے انتظامات، جلسہ کے موقع پر حضور انور کے خطابات اور دیگر مقررین کی تقاریر، جلسہ سالانہ کے ماحول اور رضاکاران کے جذبۂ خدمت اور جلسہ کی برکات سے متعلق دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کے تأثرات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ
جلسہ کی ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ وسیع پیمانے پر تشہیر۔ کروڑوں افراد تک اس ذریعہ سے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10؍ اگست 2018ء بمطابق10؍ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
الحمد للہ گزشتہ اتوار کو اپنی برکات بکھیرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ تین دن بڑے بابرکت تھے۔ جلسہ سالانہ کی تیاریاں تو تقریباً سارا سال ہی چلتی ہیں لیکن آخری تین چار مہینے تو خاص طور پر انتظامیہ اور بہت سے رضاکار جلسہ کی تیاری کے لئے مصروف ہو جاتے ہیں اور جلسہ سے پہلے کے دو ہفتے تو رضاکاروں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر حدیقۃ المہدی میں تمام سہولتوں کو مہیا کرنے کے لئے کارکنان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں جن میں نوجوان خدام کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس جگہ پر جو تقریباً جنگل ہے تمام تر سہولتوں کے ساتھ ایک عارضی شہر بنا دینا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہ سو فیصد پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے یہ کام نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اور جو نتائج حاصل ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن کوششوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب کرتا ہے اور جو مہمان آتے ہیں وہ بھی حیران ہو کر کارکنان کے جذبے کو دیکھ کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ جلسہ سے پہلے جو کارکنان کام کر رہے ہوتے ہیں وہ جلسے کے دنوں میں اَور بھی بڑھ جاتا ہے اور پھر اس میں نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد، عورتیں سب شامل ہوتے ہیں اور غیر مہمانوں کے لئے یہ ایک غیر معمولی چیز ہے کہ کس طرح بچے اور بڑے سب اپنے کام میں انتہائی مصروف ہیں۔ مہمان جن کو اس بات کا کبھی تجربہ نہیں ہوتا ان کے کام سے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ ایک غیر معمولی اظہار ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی کارکنان کی خدمت کو دیکھنے کے علاوہ اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ جلسہ نے ان پر ایک خاص اثر چھوڑا ہے، ان کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ باوجود مسلمان نہ ہونے کے ان پہ اسلام کی تعلیم کا ایک اثر قائم ہوا ہے۔ اسلام اور جماعت کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اسلام کے منفی اثر کے بجائے اس کی خوبصورتی کا ان کو علم ہوا ہے۔
پس جلسہ جہاں اپنوں کے ایمان میں مضبوطی اور بھائی چارے کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے وہاں غیروں کو اسلام کی حقیقی تعلیم بتانے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ جلسہ کے دوسرے دن کی تقریر میں دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی ہواس کا خلاصۃً ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں پر شکر گزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس شکر گزاری پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش مزید شکر گزاری کے لئے جلسہ کے دنوں میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک اظہار غیر مہمانوں کے جلسہ کے بارے میں تأثرات بھی ہے۔
اس وقت مَیں خلاصۃً بعض تأثرات آپ کے سامنے رکھوں گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلسہ کی برکات کا دوسروں پر بھی کتنا اثر ہوتا ہے۔
بینن کے ایک مہمان ویلنٹین ہودے (Valentine Houde)صاحب جو کہ آٹھ سال وزیر رہ چکے ہیں اور اس وقت ممبر آف پارلیمنٹ ہیں جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے جلسہ سالانہ سے وہ کچھ حاصل کیا ہے جو میں کثیر رقم خرچ کر کے بھی حاصل نہ کر سکتا تھا۔ ایک پُرسکون اور روحانی ماحول تھا جس میں مجھے رہنے کا موقع ملا۔ میں نے آج تک اتنا منظم اجتماع نہیں دیکھا جس میں چالیس ہزار کے قریب لوگ شامل تھے۔ مختلف قوموں اور رنگوں اور نسلوں کے لوگ ہیں لیکن پھر بھی اتنا پُرسکون ماحول ہے۔ اور نہ کوئی لڑائی نہ جھگڑا۔ ہر ایک دوسرے کی خدمت میں مصروف ہے۔ چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان، مستورات بچیاں سب اعلیٰ اخلاق کے ساتھ دوسرے کے آرام کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میرے لئے یہ بہت بڑی بات ہے اور حیرانگی کی بات ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں نہ کوئی پولیس نہ کوئی فوج نظر آئی۔ ہر طرف جماعت احمدیہ کے رضا کار ہی کام کرتے نظر آ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج کے دور میں بے لوث اور بے غرض ہو کر کام کرنا کس طرح ممکن ہو سکتاہے۔ پھر مَیں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سب کچھ جماعت احمدیہ میں خلافت کی قیادت کی بدولت ہی ممکن ہے جس نے جماعت کے بچوں بوڑھوں نوجوانوں اور عورتوں سب کی اس رنگ میں تربیت کی ہے اور بچپن میںہی ان کو جلسہ کے انتظامات سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ جو اسلام دنیا کو پیش کرتی ہے اور جس رنگ میں اپنے ممبران کی تربیت کر رہی ہے اس سے بہت جلد دنیا اسلام احمدیت میں داخل ہو جائے گی اور احمدیت ہی دنیا میں سب سے بڑا مذہب ہو گی۔( احمدیت تو مذہب نہیں اسلام ہی دنیا میں سب سے بڑا مذہب ہو گا جو احمدیت کے ذریعہ سے، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے دوبارہ نئے سرے سے قائم ہو گا۔) کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ جو تعلیم پیش کرتی ہے دنیا کو اس کی حقیقی عملی تصویر یہاں جلسہ میں شامل ہو کر دیکھنے کو ملی۔ مَیں اس جلسہ کی بہت حسین یادوں کو لے کر لندن سے واپس اپنے ملک لوٹ رہا ہوں۔ میرے لئے یہ لمحات ناقابل بیان اور حسین یادیں ہیں۔
پھر بینن کے ہی ایک مہمان چنوانو پاسکل(Tchinwanu Pascal) صاحب جو بینن کی وزارت برائے planning and developmentمیں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے بہت کانفرنسز دیکھی ہیں۔ ان میں شمولیت کی ہے۔ لیکن آپ کے جلسہ کی طرح منظم اور کامیاب جلسہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس جلسہ میں تمام کام کرنے والے کارکنان اپنی ذمہ داریوں کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے اور ان فرائض کو بڑے احسن رنگ میں ادا کر رہے تھے۔ چالیس ہزار کی تعداد کو کھانا کھلانا حیران کُن تھا۔ لیکن سب سے بڑی اور ناقابل یقین بات یہ ہے کہ تمام کھانا پکانے والے اور کھلانے والے سب رضا کار تھے۔ اگر ساری دنیا میں اس جذبے کے تحت کام کیا جائے تو مَیں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ دنیا سے جنگ و جدل ختم ہو جائے اور بنی نوع انسان کے مسائل ختم ہو جائیں۔ مَیں جماعت احمدیہ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا بچہ، بڑا، نوجوان، بوڑھا اور مستورات سب ہی منظم اور مہذب لوگ ہیں۔
ہیٹی(Haiti) کے صدر مملکت کے نمائندے جوزف پیرے(Joseph Pierre) صاحب آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں یہ جلسہ میری زندگی کا بہت ہی اچھا تجربہ تھا جو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ کارکنان کے بے مثال طرز عمل نے میری آنکھیں کھول دی ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں میرے خیالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
پھر آئیوری کوسٹ سے سپریم کورٹ کے ایک جج طورے علی صاحب آئے تھے جو آئیوری کوسٹ کی نیشنل کانسٹی ٹیوشنل کونسل کے ایڈوائزر بھی ہیں۔ کہتے ہیں مَیں خود بھی مسلمان ہوں اور گزشتہ بیس سالوں سے مختلف اسلامی فرقوںکے مذہبی پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے لیکن مجھے ان بیس سالوں میں اسلام کا وہ علم حاصل نہیں ہوا جو جلسہ کے ان تین دنوں میں ہوا ہے۔ ان تین دنوں میں روحانی طور پر مجھے جو ترقی ملی ہے وہ گزشتہ بیس سالوں میں نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ غیر احمدی علماء کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے بارے میں اگر کسی نے حقیقی تعلیم حاصل کرنی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے پاس آئے۔ پھر کہتے ہیں کہ جلسے پر جس طرح رضاکار ڈیوٹیاں دیتے ہیں اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ احمدیوں کو خلافت سے بہت محبت ہے اور اسی محبت کی وجہ سے وہ اپنے خلیفہ کی کامل اطاعت کرتے ہیں اور آپس میں بہت محبت سے رہتے ہیں۔ اس محبت میں یکجائی اور اتحاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کی صحیح رنگ میں خدمت کر رہے ہیں۔ کسی دوسرے مسلمان فرقے کے پاس ایسا رہنما اور ایسا اتحاد نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ میں آئندہ بھی روحانی جلسہ میں شامل ہوں گا بلکہ اپنی اہلیہ کو بھی لے کر آؤں گا۔
پھر بیلیز(Belize) سے ایک صحافی خاتون سحروَ اسکیز(Sahar Vasquez) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں جب میں میامی سے لندن والی فلائٹ پر بیٹھی تھی تو میرے ذہن میں خوف اور ڈر اور دہشت کے بہت سے خیالات آنے لگے۔ یہ خیالات اس وجہ سے نہیں تھے کہ مَیں سات گھنٹے لمبی فلائٹ میں بیٹھی تھی۔ بلکہ مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں نے اپنے اگلے تین دن مسلمانوں کے درمیان گزارنے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والے شدید ترین دہشت گردی کے واقعات کے لئے بعض مسلمان ہی ذمہ دار ہیں۔مجھے احساس ہوا کہ اب میں واپس نہیں جا سکتی۔ جہاز تو اُڑ گیا۔ پس مجھے اس چیز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ میں خود کسی دہشت گرد حملہ کی شکار نہ بن جاؤں۔ ظاہر ہے کہ میں کسی حملہ کی شکار تو نہیں بنی بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ مجھے تو یہاں شہزادیوں کی طرح رکھا گیا تھا۔ جلسہ سالانہ کے تأثرات میری زندگی میں سب سے بہترین تأثرات میں سے ہیں۔ میں بہت سارے لوگوں سے ملی ہوں لیکن مجھے احمدیوں جیسے ہمدرد لوگ کبھی نہیں ملے۔ میں نے ایک اعلیٰ اور عمدہ جماعت کو پایا۔ مجھے عاجزی اور محبت کے اعلیٰ معیاروں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ہر دن نہایت سحر انگیز تھا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں یہاں سے بہت سارے دوست اور یادیں ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔ یہ حقیقت میں ایک ایسا تجربہ تھا جو میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی ۔
پھر بیلیز شہر کے میئر برنرڈ جوزف (Bernard Joseph)صاحب کہتے ہیں کہ میرا جلسہ سالانہ کایہ پہلا تجربہ نہایت خوش کن اور دلنشین تھا۔ مَیں تینوں دن احمدیوں کے بھائی چارے باہمی محبت اور انسانیت کی خدمت سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ میں ایک ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں پر ہمیں بہت سارے معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ مَیں بلیز سٹی کے میئر کے طور پر سمجھتا ہوں کہ ان تمام معاشرتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے شاید ہمیں اپنی لوکل جماعت احمدیہ بیلیز سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ کہتے ہیں کہ میں یہاں سے بہت اچھی یادیں ساتھ لے کر جا رہا ہوں اور ان تعلقات کو بھی جو اِن تین دنوں کے دوران بنے ہیں۔ رہائش کھانے اور سفر وغیرہ کے تمام انتظامات نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے۔ کاروں کے ڈرائیورز، ائیر پورٹ پر کھڑے خوش آمدید کرنے والے کارکن، اسی طرح جلسہ سالانہ کے دوران آب رسانی کی ڈیوٹی دینے والے بچے، پارکنگ والے کارکن، کھانا پکانے والے اور تمام ایسی انتظامیہ جو پس پردہ خدمت کی توفیق پا رہی تھی ان سب نے اس جلسہ کو نہایت ہی یادگار بنایاہے۔
پھر اٹلی سے ایک پروفیسر یوستولاکُنسا بالدہ (Justo Lacunza Balda) ۔ یہ کیتھولک مشنری پادری ہیں اور سابقہ پوپ کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس جلسہ میںتین باتیں خاص طور پر نوٹ کی ہیں۔ ایک تو مختلف اقوام کا آپس میں اس طرح پیار سے ملنا اور کسی قسم کا حجاب نہ ہونا ایک حیران کُن بات ہے اور دنیا میں کہیں اس طرح کا نظارہ نہیں ملتا۔ دوسرا اس جلسہ میں مجھے بہت سکون نظر آیا ہے۔ کسی قسم کی بے چینی نہیں تھی۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کے خطابات اپنے اندر بڑا واضح پیغام رکھتے ہیں اور ان میں ہمارے لئے بہت پریکٹیکل نصائح ہیں۔
پھر فلپائن کی ایک مہمان ایلینا لوبس صاحبہ۔ اس وقت عرب نیوز کے لئے کام کرتی ہیں اور گزشتہ سال منیلا بلیٹن کی صحافی کے طور پر جلسہ میں شامل ہوئی تھیں۔ اس سال پھر دوبارہ اپنے ذاتی خرچ پر شامل ہوئی ہیں۔ کہتی ہیں کہ میرا جلسہ سالانہ میں شمولیت کا دوسرا تجربہ ہے۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ ہر بار جلسہ سالانہ کے انتظامات اور دیگر امور نے مجھے بے حد مرعوب کیا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی ایمانی کیفیت بھی دیکھ کر اور خاص طور پر اس امر نے کہ کس طرح مختلف رنگ و نسل کے لوگ جلسہ سالانہ کے ماحول میں آ کر باہم گھل مل جاتے ہیں اور کسی بھی قومیت یا رنگ و نسل کے شخص میں ہرگز کوئی فرق نہیں رہتا۔ یہی باہمی محبت اور بھائی چارہ ہے جو آپ کے پیغام کو ایک عملی رنگ دیتا ہے جو کسی بھی تقریر سے زیادہ مؤثر اور دیرپا اثر چھوڑنے والا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شاملین جلسہ اسی محبت اور برابری کی فضا کو اپنے اپنے ملکوں میں واپس لے کر جاتے ہوں اور اس طرح جلسہ میں شامل تمام ممالک اس ماحول سے مستفیض ہوتے ہوں گے۔ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو احمدیہ جماعت کے ساتھ جلسہ کے ماحول میں کچھ دن گزارنے چاہئیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ محبت اور برادری کسے کہتے ہیں اور اسلام کا حقیقی چہرہ کس قدر خوبصورت ہے۔
جاپان سے آنے والے وفد میں شامل ایک خاتون یوکیکوکونڈو(Yukiko Kondo) صاحبہ میری جو عورتوں کی تقریر تھی اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفۂ وقت کی نصائح، امام جماعت احمدیہ کی نصائح وہ پروٹیکشن(Protection) ہیں کہ جن کے سائے تلے احمدیت ترقی کر رہی ہے۔ خاندانوں کو جوڑنے اور مشینی دنیا سے باہر نکلنا واقعی اس وقت دنیا کی ضرورت ہے۔ کہتی ہیں کہ آجکل مذہب سے دوری کا رجحان ہے لیکن ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو جماعت احمدیہ کے افراد میں دینی خدمت کا جذبہ اور جوش قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ سوال ہمارے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا۔ لیکن جلسہ کے پہلے دن ہی دعا میں شامل ہو کر اور امام جماعت احمدیہ کی نصائح سن کر یقین ہوگیا کہ دعا ہی وہ طاقت ہے جو جماعت احمدیہ اور دنیا بھر کے درمیان امتیاز پیدا کر رہی ہے۔ جلسہ میں ہمیں بار بار دعا کرنے کا موقع ملا۔ دعا کے بعد ہم نے دیکھا کہ ہمارے دل بھی ہلکے ہوئے ہیں اور ہماری روح کو ایک تازگی ملی ہے۔ پھر کہتی ہیںکہ جلسہ کے دوران موسم گرم رہا لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ موسمی شدت کی وجہ سے لوگ اکتاہٹ کا شکار ہوئے ہوں۔ کارکنان کے چہروں پر مسکراہٹ قائم رہی۔ کھانے کے دوران نظم و ضبط مثالی تھا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ پانی پلانے والے بچوں سے لے کر واش رومز کی صفائی کرنے والے رضاکاروںتک اکثر اپنی دلی خوشی سے یہ خدمات بجا لا رہے ہیں تو میں انہیں رشک سے دیکھتی اور دعا کرتی کہ خدا ان سب سے راضی ہو جائے جو لوگوں کی تسکین کے لئے اپنا آرام قربان کر رہے ہیں۔
گوادے لوپ کے ایک نومبائع پیٹرس میاکو(Patrice Mayeko) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اس طرح کا پروگرام نہیں دیکھا۔ جلسہ کے پروگراموں کا بروقت شروع ہو جانا میرے لئے بہت متاثر کن تھا۔ تقاریر کے مختلف موضوعات وقت کی ضرورت کے مطابق تھے اور خاص طور پر میرے لئے بہت مفید تھے۔ جلسہ کا تمام انتظام ایک چلتی ہوئی مشین کی طرح تھا جس کا ہر پرزہ اپنی جگہ پر تھا اور سب کارکنان مل کر اس مشین کو بہترین طریقے سے چلا رہے تھے۔ ہر کارکن اپنے کام سے واقف اور ماہر نظر آتا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ جلسہ میں منعقد کی جانے والی تمام نمائشیں بہت فائدہ مند تھیں۔ خاص طور پر آرکائیو اور مخزن تصاویر اور ریویو آف ریلیجنز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ نمائشیں مجھے بہت پسند آئیں اور انہوں نے میرے احمدیت کی تاریخ کے بارے میں علم میں بہت اضافہ کیا۔ اس جلسہ میں شامل ہو کے مَیں اور بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے ایسی بابرکت جماعت کے ساتھ منسلک ہونے کی توفیق دی۔ ایک کمی کی طرف بھی انہوں نے اشارہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس بابرکت جلسہ سالانہ کی تمام خوبیوں سے قطع نظر میری ادنیٰ سی سمجھ کے مطابق انگلش کے بالمقابل میں نے فرنچ زبان میں پروگراموں کی بہت کمی محسوس کی ہے۔
فرنچ پروگرام بنانے والے اس بات کو نوٹ کر لیں کہ یا تو فرنچ پروگرام ہوں یا پھر جو پروگرام ہو رہے ہوتے ہیں ان کا ترجمہ بھی کسی طریقے سےہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کمزوریوں کی نشاندہی بھی ہمیں ساتھ ساتھ ہو جاتی ہے۔
جاپان سے آئے ہوئے ایک مہمان یوشیدا(Yoshida) صاحب جو کہ بدھ مت کے چیف پریسٹ ہیں انہوں نے عالمی بیعت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کہتے ہیں بیعت کی تقریب دیکھ کر احساس ہوا کہ ہمارا ایک خدا ہے اس کے آگے جھکا جائے تو دلوں کو اطمینان ملتا ہے اور گناہ دُھل جاتے ہیں۔ نیز اگر سب انسان اختلافات ختم کر کے ایک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں بیعت کی تقریب میں شامل ہو کر بے اختیار ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ہم بھی سجدے میں گر گئے اور ہمیں لگا کہ واقعی ہمارے گناہ دھل رہے ہیں۔
پھر انڈونیشیا کے ایک سکالر پروفیسر محمد صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا انعقاد ایک بہت بڑا حیران کُن پروگرام ہے۔ اس جلسہ میں مختلف ممالک سے لوگ آئے ہوئے تھے اور ایسے لگ رہا تھا کہ گویا تمام دنیا کو اکٹھے کر کے اُمّتِ واحدہ بنا دیا گیا ہے۔ جس طرح یہاں رضا کار خدمت کر رہے تھے کسی اور تنظیم میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ یہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ ہر میدان میں خدمت کرنے والی جماعت ہے۔ جلسہ کے دوران ہر قسم کے آدمی سے ملاقات ہوئی اور ان میں سے بعض بڑی بڑی شخصیات بھی تھیں۔ ہر طرف اسلامی اخوّت کا نظارہ نمایاں تھا اور ہر جانب امن و امان کا پیغام تھا۔ کہتے ہیں جہاں تک مہمان نوازی کا تعلق ہے تو اس کا بیان ناممکن ہے۔ کارکنان مہمانوں کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ بہت بشاشت سے پیش آتے ہیں۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہی رہ رہے ہیں۔ اور جلسہ سالانہ کی تقاریر جو تھیں ہر ایک کو بآسانی سمجھ آ رہی تھیں۔ کہتے ہیں میری تجویز ہے کہ اس قسم کے عظیم الشان جلسہ کا انعقاد انڈونیشیا میں ہو جس میں خلیفۂ وقت حاضر ہو یہ ہمارے لئے بڑی فخر کی بات ہو۔
اگر کرنا چاہیں تو اپنے ملک کے لوگوں کو قائل کریں وہاں تو احمدیت کی دشمنی میں بڑھتے جا رہے ہیں۔
پھر انڈونیشیا کی ایک مہمان خاتون ہیں جو کہ مسلمان عورتوںکی ایک تنظیم کی رہنما ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کی کئی کتابیں پڑھ چکی ہوں اور جماعت کا کافی علم ہے لیکن جب جلسہ سالانہ میں شامل ہوئی اور خلیفۂ وقت کے خطابات اپنے کانوں سے سنے تو بہت متاثر ہوئی۔ واقعی جماعت احمدیہ کے لوگ عالم با عمل ہیں۔ جس طرح لوگ غور اور توجہ کے ساتھ خلیفۂ وقت کے ارشادات سنتے ہیں یہ سارا منظر دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی سچے مسلمان ہیں جو نماز کے پابند ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی بڑے اچھے طریق سے ادا کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ ہر بات کرنے سے پہلے السلام علیکم کہتے ہیں۔ ہر پروگرام میں نظم و ضبط اور اطاعت کے ساتھ پیروی کرتے ہیں۔ ہر ایک رضاکار اپنی اپنی ذمہ داریوں کوتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ کے تحت اداکر رہا ہے۔ یہ سارا نظارہ دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی۔ اور کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ امام الزمان اور خلافت کی برکات کا نتیجہ لگتا ہے۔ یہ احمدی نہیں ہیں ۔
انڈونیشیا سے ہی ایک غیر احمدی سکالر تھے جو وہاں ایک یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے ہیڈ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ ایسی مجلس دیکھی ہے جس میں ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے روحانی امور کو مدنظر رکھا جارہا ہے۔ کہتے ہیں میں اس جلسہ کو ایک سنہری جلسہ خیال کرتا ہوں کیونکہ اس میں ساری دنیا سے لوگ خلافت کے ارد گرد پروانوں کی طرح جمع ہوئے ہیں۔ مَیں ایک انڈونیشین کی حیثیت سے خلیفۃ المسیح کی کوششوں کو سراہتا ہوں جنہوں نے تمام دنیا کے لوگوں کو ایک جگہ میں اکٹھا کر کے بھائی چارے کا منظر پیش کیا ہے۔
اصل میں تو خلافت اس کام کو آگے بڑھا رہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس کے لئے بھیجے گئے تھے اور اللہ کرے کہ ان کو امام الزمان اور مہدی دوران کو ماننے کی بھی توفیق ملے۔
پھر کہتے ہیں کہ یہی سچا اسلام ہے اور یہی حقیقی اخوت ہے۔ جماعت احمدیہ ایک واحد عالمی تنظیم ہے جس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ جماعت احمدیہ کا ماٹو نہایت عمدہ ہے۔ ہر دل میں کیل کی طرح گڑ جاتا ہے۔ خلیفۂ وقت کے ہر خطاب میں قرآن کریم، احادیث اور سنت نبوی کی روشنی میں نہایت احسن رنگ میں اسلامی تعلیمات بیان کی گئیں۔ جلسہ سالانہ گو صرف تین دن ہیں لیکن برکات کے لحاظ سے یہ تین دن بہت لبریز ہیں۔ ہم اس کے لئے آپ کے بہت شکر گزار ہیں۔
گنی کناکری کے ایک صوبے کی گورنر سارنگ بے کمارا صاحبہ شامل ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے اس سے بہترین اور منظم پروگرام پہلے نہیں دیکھا۔ تمام ممالک سے ہر رنگ و نسل کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہوئے جو کہ بہترین اسلامی نمونہ پیش کر رہے تھے۔ پیار اور محبت کا غیر معمولی اظہار جو صرف لفظی نہیں بلکہ عملاً دکھائی دے رہا تھا اور محسوس ہو رہا تھا۔ ہر وہ چیز جس کی ضرورت ہوتی ہر وقت میسر تھی۔ کہتی ہیں کہ مجھے تمام تقاریر سننے کا موقع ملا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس وقت کی ضرورت کے عین مطابق تیار کی گئی ہیں۔ خصوصاً امام جماعت احمدیہ کی تقاریر غیر معمولی نوعیت کی تھیں ۔ خطبہ جمعہ میں جو میزبانوں اور مہمانوں کو ہدایات دیں اگر ہم ان ہدایات پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل جو کہ بلا وجہ پیدا ہو جاتے ہیں پیار اور محبت سے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے حل ہو جائیں۔ کہتی ہیں ان تین دنوں میں مَیں تو یہی سمجھتی ہوں کہ احمدیہ جماعت ایک منظم اور ایک امام کے اشارے پر چلنے والی جماعت ہے اور یہی اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم آج ایک جماعت بن سکتے ہیں۔ آخر میں کہتی ہیں کہ دعا کی درخواست بھی کرتی ہوں کہ ہمارے ملک میں اللہ تعالیٰ امن قائم فرمائے اور حقیقی اسلام کا قیام عمل میں آئے۔
ہونڈورس کے ایک جرنلسٹ مانولوجوز اسکوٹو (Manolo Jose Escoto)صاحب ایک ٹی وی چینل کے ساتھ منسلک ہیں۔ کہتے ہیں جب مجھے ایک مسلمان جلسہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تو تجسس پیدا ہوا۔ کیونکہ عالمی سطح پر کم علمی کی وجہ سے مسلمانوں کے بارے میں برے اور منفی خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن میں شدت سے اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس منفی رویے کی وجہ کم علمی ہے۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو مسلمانوں کی صحیح تعلیم اور جذبات سے آگاہ نہیں۔ اب احمدیہ جماعت کی بدولت میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ جلسہ سالانہ کے ماحول میں رہتے ہوئے مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ لوگوں کے بارے میں کوئی متعصبانہ رائے قائم کرنے سے قبل ان کو ذاتی طور پر جاننا لازمی ہے۔ جلسہ سالانہ کا مرکزی پیغام امن کا پیغام ہے جو ہر سطح کے لوگوں تک پہنچنا چاہئے۔ اسی طرح مجھے اچھے ہمدرد اور عزت کرنے والے لوگوں سے بھی ملنے کا موقع ملا جنہوں نے تمام مہمانوں کے لئے اپنے دل کھولے ہوئے تھے۔
گوئٹے مالا کی ایک صحافی خاتون گلاڈیس رامیرس (Galadys Ramirez) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کر کے غیر معمولی مسرت و خوشی ہوئی۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسلام کے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگاہی ہوئی۔ میرا دل خوشی سے لبریز ہے کہ جلسہ کے جملہ شرکاء نے میرے ساتھ انتہائی محبت اور احترام کا سلوک کیا۔ بحیثیت عورت کسی لمحہ بھی میں نے محسوس نہیں کیا کہ اپنے گھر سے دور ہوں اور اکیلی ہوں۔ بلکہ اس کے برعکس اس جگہ میں نے اپنے آپ کو محفوظ اور دوسروں کی نظر میں قابل احترام محسوس کیا۔ باہمی اخوت اور محبت کا عملی نمونہ دیکھا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے افراد سے مل کر ایسا محسوس ہوا کہ سب ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمدرد ہیں۔ اگرچہ مختلف زبانیں بولتے تھے مگر ان کے عملی نمونے نے یہ زبانوں کے اختلافات کو بھلا دیا۔ کہتی ہیں میں اس پُرامن اسلامی معاشرے سے بے حد متاثر ہوں اور میرا یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد حقیقتاً امن و سلامتی کا عملی رنگ میں قیام کر رہے ہیں۔
وہاں سے ایک ٹی وی چینل کے فوٹو گرافر آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ کارکن سے لے کر افسر تک سب نے نیک جذبات کا اور محبت اور پیار کا سلوک کیا۔ جلسہ کے انتظامات اور تقاریر نے میرے ذہن کو جلا بخشی۔ عملی طور پر آپ لوگوں نے مجھے بتایا کہ حقیقی مسلمان کون ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں 2015ء میں جماعت سے تعارف ہوا تھا لیکن یہاں آ کر مجھے محسوس ہوا کہ اپنے گھر میں رہ رہا ہوں۔ بحیثیت انسان ہر ایک کا فرض ہے کہ دوسرے سے عزت و احترام سے پیش آئے اور ضرورتمند کی مدد کرے۔ کہتے ہیں کہ اس جلسہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ ہم سب مل کر باہمی تعاون اور محبت و اخوت سے کام کریں تو عظیم الشان کام کر سکتے ہیں۔
میکسیکو سے ایک نومبایعہ الزبتھ پریرا(Elizabeth Parera) صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے احمدی ہوئے صرف ایک سال ہوا ہے اور میں اسلام کے بارے میں سیکھ رہی ہوں۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو ہمارے ملک میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس کی وجہ میڈیا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ اسلام امن کا مذہب ہے مگر میرے گھر والے مجھے یہاں آنے سے روک رہے تھے اور مجھے ڈرا رہے تھے مگر یہاں پہنچنے کے بعد میں نے اس کے برعکس پایا۔ کہتی ہیں ائیر پورٹ سے ہمیں ریسیو کرنے سے لے کر جلسہ سالانہ کے تینوں دن تک جو رضاکاروں کا جذبہ اور سلوک میں نے دیکھا ہے اس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ اب میرے دل میں جماعت کے بھائی چارے اور فیملی کے نظام کے بارے میں کوئی شک نہیں رہا۔ کہتی ہیں جو تصورات میں اپنے دل میں لے کر جا رہی ہوں ان کو میں میکسیکو واپس جا کر استعمال کروں گی اور لوگوں تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچاؤں گی۔
پھر میکسیکو کی ہی ایک نومبایعہ لاؤرا بریتوسوبیرانس(Laura Brito Soberanis) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ رضا کار کبھی کبھار میری بات نہیں سمجھ پاتے تھے لیکن مجھے یہاں آ کر علم ہوا کہ زبان کا فرق احمدیوں کے مابین تعلقات میں روک نہیں بن سکتا۔ خدا تعالیٰ کے پیار نے ہمیں ایک بنا دیا ہے۔ میں ایسے محسوس کررہی ہوں جیسے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوں اور خلیفۂ وقت کے خطابات سن کر میں نے اپنا جائزہ لیا کہ مجھ میں کون سی کمزوریاں ہیں اور اب مجھے یقین ہے کہ میں صحیح جگہ پر ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہدایت کا راستہ دکھایا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ جس طرح میرا ایمان پختہ ہو گیا ہے میرے گھر والے بھی اسلام کو جانیں اور ان کا ایمان بھی پکا ہو۔
پھر محمد مبوہو عزیز(Mbohou Azize) صاحب کیمرون سے ہیں۔ کہتے ہیں میں گزشتہ سال بھی جلسہ میں شامل ہوا تھا۔ اس دفعہ پہلے کی نسبت ہر ڈیپارٹمنٹ میں ترقی ہوئی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور رہائش کے انتظام بہت اچھے تھے۔ کھانے کے انتظامات سے بہت حیرت ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مجمع کو دو گھنٹے میں کھانا کھلا کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی لڑائی اور شور شرابہ نہیں ہوتا۔ ہر ایک بروقت جلسہ گاہ میں جاتا ہے اور پروگرام سنتا ہے۔ یہ خاص چیز ہے جو دنیاوی پروگراموں میں نظر نہیں آتی۔ خدام جتنے جذبہ پیار اور محبت سے کام کر رہے ہوتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس جماعت کے پاس ایسے فدائی ہوں وہ ہمیشہ ترقی کرتی ہے۔ کہتے ہیں خاکسار پیشہ کے اعتبار سے جرنلسٹ ہے۔ ایم ٹی اے کے سٹاف سے میٹنگ ہوئی اور وہاں بھی ہمیں بڑا مزہ آیا۔ ہماری ضرورت کی ہر چیز موجود تھی جو چیزیں دنیاکے پرائیویٹ اور گورنمنٹ کے اداروں میں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ جماعت کا پیغام غیروں تک کیسے پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ مجھے غیر از جماعت مہمانوں کے تأثرات سے ہوا۔ ہر کسی نے جماعت کے پیار و محبت کی تعلیم کی تعریف کی۔ پھر کہتے ہیں خلیفۂ وقت نے عورتوں میں جو تقریر کی تھی وہ ہماری نئی نسل کی تربیت کے لئے بہت اہم ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہونا چاہئے؟ یہ سب باتیں اس وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس ماحول سے نہ بچایا تو وہ انسانیت اور اسلام سے بہت دور چلے جائیںگے۔ ہمیں اس تعلیم کو اپنانا ہو گا۔ پھر کہتے ہیں فحشاء کی جو تفسیر آخری تقریر میں کی وہ بہت اثر رکھنے والی تھی۔ اس کے معنی سن کر ایسا لگا کہ ہم سب ان برائیوں میں مبتلا ہیں۔ اور کئی لوگ ہیں جو نیک کہلاتے ہیں لیکن ان کے اعمال نیک نہیں ہوتے۔ اگر ہم خلیفۂ وقت کی اس تفسیر کو سمجھیں اور اس پر عمل بھی کریں تو ہم اپنی نئی نسل کو پاک صاف معاشرہ دے سکتے ہیں۔ لفظ فحشاء کی اس تفسیر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایسا بہترین نکتہ ہے جس کو میں اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھوں گا۔ کہتے ہیں میں نے مختلف نمائشیں بھی دیکھیں۔ جماعت کی تاریخ کا پتہ چلا۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو نہیں بھولتیں وہ ہمیشہ ترقی کرتی ہیں۔ ریویو آف ریلیجنز ایک صدی کے عرصہ سے پیغام پہنچا رہاہے جو جماعت احمدیہ نے شروع کیا۔ کہتے ہیں میں خود باقاعدگی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتا ہوں اور بہت معیاری آرٹیکل ہوتے ہیں اور اسی طرح ہیومینٹی فرسٹ کی خدمات بھی بڑی بے مثال ہیں۔
آئس لینڈ کے وفد میں شامل ایک مہمان خاتون ایمیلیتا اورڈونیز(Emelita Ordonez) صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ میںشامل ہونے سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا اور میں جماعت احمدیہ کو بہتر رنگ میں سمجھنے لگی ہوں۔ دنیا بھر کے لوگوں سے ملنا اور ان سے گفتگو کرنا بہت دلچسپ تھا۔ مجھے ہر طرف امن محبت اور بھائی چارہ محسوس ہوا۔ جلسہ کی تقریریں ایمان افروز تھیں اور exhibitions دیکھ کر بہت لطف محسوس ہوا گو کہ نمائش میں شہداء کی تصویریں دیکھ کر دکھ بھی محسوس ہوا کیونکہ یہ ظلم محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا گیا ہے اور کیا جاتا ہے۔تیسرے روز بیعت کی تقریب نے دل پر ایک غیر معمولی اثر چھوڑا تھا اور بہت ساری چیزوں کا اور تأثرات کا الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔
میسیڈونیا سے ایک صحافی ٹونی اجٹوسکی(Toni Ajtovski) صاحب بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ پر جس بات کا میں نے سب سے زیادہ اثر لیا وہ خلیفۂ وقت کے خطبات تھے۔ خصوصاً تربیت اولاد کے حوالے سے آپ کا خطاب کہ بچوں کی تربیت اور ان کی نگرانی کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور خاص طور پر موبائل وغیرہ کے استعمال کا ذکر کیا کہ کس طرح یہ چیزیں فیملی کی اکائی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ ایک عالمی پیغام تھا۔ کیونکہ دنیا میں ہر فیملی کو یہی مسائل درپیش ہیں۔ اگر ایک فیملی بطور فیملی اکٹھی نہ رہے اور افراد کا آپس میں تعلق نہ ہو تو وہ بکھر جاتی ہے اور فیملی کے بکھرنے سے سارا معاشرہ اور اکائی بکھر جاتی ہے اور اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں رہتی۔
جارج کرینو(Jorge Carino) صاحب فلپائن سے آئے تھے۔ بڑے ٹی وی چینل اے بی ایس۔ سی بی این(ABS-CBN) کے معروف مارننگ شو کے میزبان ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میں نے اس قدر کثیر تعداد میں مختلف ملکوں اور رنگ و نسل کے لوگوں کو ایک جگہ جمع دیکھا۔ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہو خواہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوں یا نہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے اور سلام کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے جمع ہونے کا مقصد صرف اور صرف محبت اور انسانی اقدار کو پھیلانا تھا۔ کہتے ہیں بطور صحافی مجھے ہزارہا جلسے دیکھنے کا موقع ملا مگر جس قدر سکون، تحمل اور نظم و ضبط کے ساتھ جلسہ سالانہ یُوکے کے انتظامات اور کارروائی ہوئی ہے اس کی مثال میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ رضاکاروں نے جس قدر محبت کے ساتھ ہماری عزت افزائی فرمائی اور ہماری ہر ایک ضرورت کا خیال رکھا اس نے بھی میرے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ کہتے ہیں ٹریفک کنٹرول کی بات ہو یا گرمی دور کرنے کے لئے مشروب پلانا ہو، چھوٹے چھوٹے بچے بڑی محنت سے یہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ اور کہتے ہیں مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میں اس جلسہ میں شامل ہوا کیونکہ اس جلسہ نے میرے ذہن کو پہلے کی نسبت بہت زیادہ کھول دیا ہے اور مجھے ایک نیا زاویہ نظر دیا ہے۔ جلسہ اس لحاظ سے میری زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے ایک نئے کلچر تہذیب و تمدن کو دیکھنے کا موقع ملا جو فلپائن کے کلچر سے مختلف ہے ۔
پھر یونانی مہمان مارسیا ماٹنز صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ بالکل ناممکن ہے کہ اس تجربہ کو لفظوں میں بیان کیا جا سکے جو اڑتیس ہزار لوگوں کا حصہ بنتے ہوئے جو امن کے لئے دعا گو ہیں حاصل ہوتا ہے۔ جلسہ کے موقع پر جو رحم اور محبت کے جذبات سب کی طرف سے ملے یہ تجربہ نہایت متاثر کرنے والا تھا جس نے میری امیدوں کو مزید بلند کر دیا ہے کہ باوجود ہمارے اختلافات کے کس طرح انسانیت دنیائے امن کے نئے دور میں رواداری اور ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے داخل ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔ جس سے ہماری انسانیت کی ترقی میں یہ معیاری قدم ممکن نظر آتا ہے۔
پھر کینیڈا سے انڈیجنس(Indigenous) لوگوں کے جو فرسٹ نیشن کہلاتے ہیں ان کا وفد بھی شامل ہوا تھا جنہوں نے سروں پہ اپنے روایتی بڑے بڑے تاج پہنے ہوئے تھے۔ قبائلی لوگ تھے۔ ان کے تین قبائل کے چیف اور ایک ان کا یوتھ لیڈر شامل تھا۔ ان کے یوتھ لیڈر میکس فینڈے(Max Fineday) کہتے ہیں کہ ہمیں خدام کے جلسہ سالانہ پر رضاکارانہ خدمت نے بہت متاثر کیا۔ ہم واپس جا کر جلد ہی احمدی یوتھ اور فرسٹ نیشن کی یوتھ کے ساتھ اکٹھے پروگرامز کریں گے۔ احمدی نوجوانوں جیسا نظم و ضبط میں نے کسی قوم میں نہیں دیکھا اور جس مہارت سے اپنے کام کرتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔
خدام بھی یہ بات یاد رکھیں کہ یہ تعریف ان کو مزید خدمت کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے۔
پھر ایک چیف روگر ریڈمین(Roger Redman) کہتے ہیں کہ مجھے سگریٹ نوشی کی بہت عادت ہے اور ہم لوگ تمباکو کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ہمارے قبیلے میں یہ ہے کہ سگریٹ نوشی اور تمباکو کا استعمال فرسٹ نیشن کے لوگوں کا ایک مذہبی رکن ہے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمباکو کا استعمال روحانیت میں ترقی کے لئے خاص عنصر ہے۔ مگر جلسہ سالانہ کے موقع پر جب خلیفۂ وقت نے جماعت کے لوگوں کو یہ کہا کہ سگریٹ نوشی سے اجتناب کرنا ہے۔ تو چیف نے کہا کہ میں نے بھی عہد کیا اور اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میں جلسہ کے دنوں میں سگریٹ نوشی سے پرہیز کروں گا اور پھر یہ اپنے وعدے پر قائم بھی رہے۔
پس یہ بات احمدیوں کے لئے بھی سبق ہے بلکہ کسی نے مجھے کہا کہ جو لمبی فلائٹس ہوتی ہیں دس بارہ گھنٹے کی ان میں بھی تو نو سموکنگ ایریا(no smoking area) ہوتا ہے۔ فلائٹ کے دوران سموکنگ (smoking)نہیں کر سکتے۔ اس وقت بھی صبر کرتے ہیں تو جلسہ میں کر لیں گے تو ثواب بھی ہو گا۔
پھر کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے خطاب کو سننے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ اگر اسلام کی تعلیم محبت کرنا، امن پھیلانا اور انسانیت سے ہمدردی ہے جیسا کہ آپ نے اپنے خطاب میں بیان کیا ہے تو میں ضرور ایک احمدی مسلمان بننا پسند کروںگا۔ اور پھر چیف نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی بھی ایسے وعدے سے پہلے اپنے بزرگوں سے مشورہ کریں گے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی روایات کو بھی بڑا سنبھال کے رکھتے ہیں۔
پھر فرسٹ نیشن کے ایک چیف لی کراؤچائلڈ(Lee Crowchild) کہتے ہیں جو عزت اور محبت ہمیں اس جلسہ پر ملی ہے وہ ہماری صدیوں پرانی تعلیم سے مشابہت رکھتی تھی۔ جیسا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخوت سے رہتے تھے۔ ہماری تمام ضروریات پوری کی گئیں۔ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں ایک رائے امریکہ والے رکھتے ہیں اور ایک رائے کینیڈا کے لوگ۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بعض لوگ بھی مسلمانوں کے متعلق مثبت سوچ نہیں رکھتے۔ مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم خود اپنے دشمن ہیں۔ کہتے ہیں میں نے جماعت احمدیہ میں دیکھا ہے کہ نہ تو یہ لوگ ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں، نہ ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں۔
پس یہ ہر ایک کے اعلیٰ نمونے ہیں جو انہیں متاثر کر رہے ہوتے ہیں ۔
سپین کے وفد میں شامل ایمیلو لوپیز(Emilo Lopez)صاحب کہتے ہیں مَیں پہلی بار جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ جماعت احمدیہ کے ساتھ میرا گہرا تعلق ہے۔ جلسہ بہت ہی دلچسپ تھا اور پھر دوسروں کے لئے tolerance اور عزت اور امن کا پیغام تھا۔ اسی طرح دوسرے مذاہب اور انسان کی قدر بھی ایک انوکھا پیغام ہے۔ احمدیوں کی مثال زندہ رکھنے والی ہے۔ کاش یہ اقدار، اخلاص ہر کوئی اپنا لے۔
پھر سپین کے وفد کے ایک صاحب جو قرطبہ اخبار میں کام کرتے ہیں کہتے ہیں تمام جلسہ کے شاملین کا اخلاقی ماڈل اور آپ لوگوں کی اچھائی بیان کرنا ہی میرے لئے ایک key point ہے۔
پھر سپین کے ایک اور صاحب ہیںکہتے ہیںمجھے گہرائی سے کلچر اور آپ کے مذہب کو جاننے کا موقع ملا ہے۔ بہت عمدہ مہمان نوازی تھی۔ اس کے علاوہ تقاریر بھی بہت دلچسپ تھیں۔
پھرسپین کے ایک اور صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ میں شمولیت سے اس بات کا مکمل یقین ہوا ہے کہ حقیقی اسلام کا دہشت گردی اور خون خرابے سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
جمیکا سے ایک غیر از جماعت خاتون اوئیڈا نیسبیتھ(Ouida Nesbeth) صاحبہ شامل ہوئیں۔ اکاؤنٹنٹ ہیں پڑھی لکھی عورت ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں گزشتہ پانچ سال سے جماعت احمدیہ سے رابطہ میں ہوں۔ اس عرصہ کے دوران میرا جماعت کے ساتھ تعلق اور تعارف تو کافی تھا لیکن اس جلسہ میں شامل ہونے کے بعد اس میں بہت وسعت پیدا ہوئی ہے اور اسلام کے متعلق ذہن میں جو بھی شکوک تھے ان کا ازالہ ہو گیا ہے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ تھے۔( ایک طرف سے اعتراض ہوتا ہے لیکن عورتوں کو یہ بات اچھی لگی) اس وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹتی نہیں ہے۔ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو مردوں کی نظریں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ کہتی ہیں کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ تھے اس وجہ سے لوگوںکی توجہ بٹتی نہیں ہے اور لوگ اسلام اور عبادت پر زیادہ توجہ دے پاتے ہیں۔ پس احمدی عورتیں بھی جو کسی وقت کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہیں ان کو بھی اس کے commentپہ سوچنا چاہئے۔
اٹلی کی پروفیسر رفائیلا (Raffaela) صاحبہ ایک سٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر ہیں۔ کہتی ہیں کہ بیعت کے دوران احمدیوں کی جو ایمان کی حالت تھی وہ غیروں کو بھی محسوس ہوئی ہے۔ میں نے سائیکالوجی پڑھی ہے اور مجھے انسان کے چال چلن اور رویّے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص اپنے ایمان کے دعوے میں کتنا سنجیدہ ہے اور مجھے احمدیوں کو دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ آپ لوگوں کے ایمان کا معیار بہت بلند ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ دوران سال چھ لاکھ سے زائد بیعتیں ہوئی ہیں تو کہنے لگے کہ شکر ہے یہ لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔
اٹلی کی ایک مہمان عورت جو اوریئنٹلسٹ(Orientalist) ہیں۔ مستشرقہ ہیں۔ اور ویٹیکن کے ایک رسالے کی صحافی بھی ہیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ پر آ کر جماعت کے کاموں کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔ ہمیں دنیا کو ایک ایسی منظم اور پر امن اسلامی جماعت کی خبر دینی چاہئے۔ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے درمیان بات چیت کے ذریعہ سے مسائل حل کرانے کے لئے بہت کوششیںکر رہی ہے۔ آپ لوگوں کے پراجیکٹس، پروگراموں اور خدمات کا علم ساری دنیا کو ہونا چاہئے ۔
بیلا رشین یونیورسٹی کے وائس ریکٹر سرگئی شتراوسکی صاحب کہتے ہیں بحیثیت ایک ماہر مذہب جسے اسلام کے بارے میں نہایت سرسری معلومات حاصل ہیں(ماہر مذہب تو ہوں لیکن اسلام کے بارے میں سرسری معلومات حاصل ہیں) لیکن جلسہ سالانہ میں شرکت کرنا میرے لئے نہایت قیمتی ناقابل فراموش اور نہایت فائدہ مند تجربہ تھا۔ اس جلسہ کی بدولت جو حقیقت مجھے معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے۔ یہ جملہ عام طور پر لوگوں سے سننے میں آتا ہے لیکن ہر ایک اس بات پر یقین نہیں کر پاتا۔ انہیں کہیں تو اسلام کے بارے میں معلومات کی کمی ہے، کہیں بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور کہیں اسلام کی مشکل شکلیں ہیں جو اس بات پر لوگوں کو یقین کرنے نہیںدیتیں کہ یہ عالمی مذہب ہے۔ لیکن جلسہ سالانہ کا ماحول شکوک و شبہات کی تمام دیواریں گرا دیتا ہے۔ اس معیار کی کسی بھی تقریب میں شمولیت کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے جس میں پہلی مرتبہ میں نے مسلمانوں کے ماحول کا اتنے قریب اور توجہ سے مطالعہ کیا۔ اس جلسہ سالانہ میں نہایت دلچسپ چیزیں تھیں۔ مختلف ممالک کے نمائندگان اپنے قومی لباس میں یہاں موجود تھے۔ جلسہ سالانہ کے انتظامات بھی انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ دو سو آدمیوں کی تقریب کا انتظام کرنا ہو تو مشکل ہو جاتا ہے لیکن اڑتیس ہزار لوگوں کا انتظام انہوں نے کس طرح کیا یہ بات واقعۃً حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ میں تمام رضا کاروں کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جلسہ کے بہترین انتظامات کئے۔
کارکنوں کے، رضاکاروںکے ضمن میں یہ بھی بتا دوں کہ اس دفعہ بھی کینیڈا سے تقریباً 140خدام وائنڈ اپ کے کام کرنے کے لئے آئے تھے جنہوں نے اچھا کام کیا۔ علاوہ ان خدام کے جو یُوکے کے تھے۔ ان کا بھی شکریہ۔ اس کے علاوہ تبلیغی ڈیپارٹمنٹ یُوکے کو بھی اس سال سیمینار اور سوال و جواب کی مجالس لگانے کے علاوہ پانچ نمائشیں لگانے کا بھی موقع ملا۔ القرآن نمائش، قرآن کریم کی خوبصورت تعلیمات کو اجاگر کرنا تھا۔ مختلف قسم کے قرآن کریم اس میں رکھے گئے۔ اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سپیچ کونٹیسٹ (speech contest)تھا۔ہالینڈ کے سیاستدان وِلڈرز (Wilders) کی طرف سے جو hate campaign چلائی گئی ہے اس کے جواب میں یہ تقریری مقابلہ ہوا تھا۔ کئی غیر احمدی اور غیر مسلم یورپین افراد نے بھی شرکت کی۔ ایک خاتون کیتھرین مَیری روحان(Katherine Mary Rohan)صاحبہ عیسائی ہیں۔ کہتی ہیں عورت ہونے کی حیثیت سے مجھے اس بات سے دلچسپی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں کے بارے میں کیا رائے تھی۔ وہ ایک ایسے وقت میںآئے جبکہ یورپ میں افراتفری کا عالم تھا۔ ایسے زمانے میں انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم اپنی عورتوں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں گے۔ اسی طرح ایک بار کسی پوچھنے والے نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زندگی میں سب سے زیادہ احترام کا حقدار کون ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر اس کے بعد کون؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا تمہاری ماں۔ اور تیسری دفعہ پوچھنے پر بھی فرمایا تمہاری ماں۔ کہتی ہیں اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن صحبۃ حدیث 5971)
اسی طرح تبلیغ ڈیپارٹمنٹ کی ایک مہمان تھیں لینیٹ گومیلئن کہتی ہیں اس سال پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقع ملا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کم علم رکھتا ہو جلسہ سالانہ میں شامل ہو جائے تو جلسہ کے اختتام پر اس موضوع پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم کا سمندر لے کر لَوٹے گا ۔
جلسہ کی جو دنیا میں مختلف ذرائع سے تشہیر ہوئی ہے اس میں میڈیا نے جو کیا وہ تو ہے۔ الاسلام ویب سائٹ کے ذریعہ سے بھی آٹھ لاکھ باسٹھ ہزار مرتبہ وزٹ کیا گیا اور ویڈیوز بھی دولاکھ اٹھارہ ہزار لوگوں نے دیکھیں۔ آن لائن اور پرنٹ اخبارات میں جلسہ کے حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کی تعداد 53 ہے۔ ریڈیو پر بیس خبریں نشر ہوئیں۔ ٹی وی پر چار خبریں نشر ہوئیں۔ کل ملا کر رپورٹس کی تعداد ستتر (77) بنتی ہے۔ اس کے ذریعہ سے چھبیس ملین سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ مشہور ٹی وی ریڈیو چینل میڈیا جو کوریج دینے والے ہیں ان میں بی بی سی ٹی وی ہے، آئی ٹی وی ہے، بی بی سی عربک ہے، دی اکانومسٹ رسالہ،دی ایکسپریس، انڈیپنڈنٹ، ہفنگٹن پوسٹ ،ہیرلڈ، ایل بی سی، کیپیٹل ریڈیو، آلٹن ہیرلڈ، لندن لائیو۔ اس کے علاوہ بی بی سی کے انیس ریجنل ریڈیو سٹیشنز پر اتوار والے دن ہمارے نمائندگان کو وقت دیا گیا۔ اس کے ذریعہ بڑی آبادی کور ہوئی۔ دنیا بھرکے جرنلسٹ آئے ہوئے تھے وہ بھی واپس جا کر اپنے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے خبریں اور ڈاکیومینٹریز دیں گے۔
ایک جاپانی نیوز ایجنسی کے صحافی کہتے ہیں کہ میں جلسہ سالانہ کے پرامن ماحول سے بہت متاثر تھا اور سب کے چہروں پر خوشی جھلکتی تھی مگر عالمی بیعت کے موقع پر اتنی کثیر تعداد میں شاملین سسک سسک کر رو کیوں رہے تھے؟ اس پر انہیں بعد میں بتایا گیا کہ احمدی مسلمان ہر ایک خوش تھا لیکن اس وقت رو رہے تھے کہ احمدی مسلمان خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کر رہے تھے اور دنیا میں امن و سلامتی کے لئے دعاکر رہے تھے۔
ایک صحافی خاتون مستورات کے جلسہ گاہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ گزشتہ سال مجھے جلسہ میںشامل ہونے کا موقع ملا تھا لیکن مستورات والے حصہ میں نہیں جا سکی۔ اس سال مجھے مستورات کی طر ف جانے کا موقع ملا۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ آپ کی خواتین مرد حضرات سے زیادہ پڑھی لکھی اور دلچسپ ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے آزاد تھیں اور اپنی جماعت کے ساتھ نہایت مخلص معلوم ہوتی تھیں۔ میرے لئے یہ بہت متاثر کن تجربہ تھا۔
اس سال افریقہ میں جلسہ کی کوریج جو ہوئی ہے پندرہ ٹی وی چینلز نے جلسہ یُوکے کی کارروائی نشر کی جن میں گھانا ،نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، روانڈا، برکینا فاسو، بینن، یوگنڈا، مالی، کونگو برازاویل اور پہلی مرتبہ برونڈی ٹیلی ویژن نے بھی جلسہ کی کارروائی نشر کی۔ متفرق صحافیوں نے اپنے اپنے چینلز پر نیوز سٹوریز دیں۔ مجموعی طور پر اس سے پچاس ملین افراد تک افریقہ میں جلسہ کی کارروائی دکھائی گئی۔ اس حوالہ سے سینکڑوں تأثرات بھی موصول ہوئے ہیں۔ پتہ لگتا ہے کہ لوگوں نے دیکھا۔
بہرحال یہ تو ایک بہت لمبی تفصیل ہے جو لوگوں کے اظہار خیال کی بھی ہے اور پریس کی بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے شعبوںکے بارے میں جنہوں نے غیر معمولی اثر چھوڑا ہے۔ تصویری نمائش، ریویو کے علاوہ آرکائیو اور الحکم کی نمائش وغیرہ اور اس کی وجہ سے لوگوں کو جماعت کی تاریخ کا علم ہوا۔ جلسہ کے انتظامات بھی اور ان نمائشوں وغیرہ میںبھی سب جو کام کرنے والے تھے رضاکار ہی تھے۔ اور جیسا کہ تأثرات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ سب رضا کار ایک خاموش تبلیغ کر رہےتھے۔ بچے بھی، عورتیں بھی اور مرد بھی۔ اس مرتبہ عام طور پر شامل ہونے والے لجنہ کی طرف سے بھی اور مردوں کی طرف سے بھی، کارکنات کے اور کارکنوں کے بارے میںیہ اظہار کر رہے ہیں کہ غیر معمولی خوش اخلاقی ہمیں ان میں نظر آئی اور خدمت کے جذبے کا اظہار بھی غیر معمولی تھا۔ تو اس وجہ سے سب شاملین کو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے بعد ان خدمت کرنے والوں کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے اور ان کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ بھی خدمت کی توفیق دے۔
میں بھی سب کارکنان اور کارکنات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور آئندہ پہلے سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ یہ خلافت احمدیہ کے مددگار بنے رہیں۔ سب کام کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جو کارکنان ہیں کارکنات ہیں، سب سے بڑھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزاری کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر یہ خدمت کی توفیق ممکن نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ سب کو عاجزی میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس خدمت کی وجہ سے، اس تعریف کی وجہ سے کسی قسم کا تکبر ان میں پیدا نہ ہو۔
٭…٭…٭