’’سوشل میڈیا‘‘
(Social Media)
سرورق : سوشل میڈیا (اردو)
مصنّفہ : انتخاب از ارشادات حضرت مرزا مسرور احمد
خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
پبلشر : لجنہ سیکشن مرکزیہ لندن
شائع شدہ : لندن
ایڈیشن : اوّل
تاریخ طباعت: اگست 2018ء
تعداد : 18000
تعداد رنگین تصاویر: 5
تعداد صفحات: 128
قیمت : £1 ۔ایک پاؤنڈ سٹرلنگ (برطانیہ میں)
انگریزی زبان کے بعض الفاظ اور اصطلاحات اردو اور دیگر زبانوں میں کچھ اس طرح سے مستعمل ہیں کہ ان کا ترجمہ کرنے سے معانی میں تبدیلی کا خدشہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ’’سوشل میڈیا‘‘ کی اصطلاح کے ساتھ بھی ہے۔ صدیوں سے پرنٹ میڈیا نے انسان کو علم کی منازل کو بسرعت طے کرتے چلے جانے کے قابل بنایا اور اُس علم کے نتیجہ میں حسن اخلاق اور معاشرتی آداب بھی پروان چڑھے۔ دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال اُنہی اخلاق و آداب کو معدوم کرنے کے درپَے نظر آتا ہے۔ وجہ ہم جانتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے اذہان عموماً ایسے علماء کے زیراثر چلے جاتے تھے جن کی سوچ علومِ حقیقی سے کشیدکردہ معلومات کے نتیجہ میں افادۂ عام کا ذریعہ قرار دی جاتی تھی۔ جبکہ اس کے برعکس ’’سوشل میڈیا‘‘ کا پودا عموماً ایسے دماغوں سے پھوٹتا ہے جو افراط و تفریط کے شکار مختلف النّوع گروہوں کے منفی اثرات کو معاشرے میں سمو نے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بسااوقات معروف عمدہ اخلاق، خوبصورت آدابِ زندگی اور صلائے عام میں قرار دی جانے والی حسین معاشرتی تہذیب کی دھجیاں بھی بکھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
گزشتہ صدی تک انسان باہمی تعلقات پیدا کرنے اور نبھانے میں فخر محسوس کرتا تھا، لیکن اب بے جان آلات کے ذریعے اَن دیکھے وجودوں سے یوں روابط اُستوار کر رہا ہے کہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے بداثرات کے نتیجہ میں صرف نئی نسل ہی نہیں بلکہ آئندہ آنے والی انسانی تہذیب بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ الغرض دورِ حاضر کا المیہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی افراط کے نتیجہ میں انسان اپنے جسمانی رشتوں سے مسلسل دُور ہوتا چلا جارہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے سیلاب میں بہتے ہوئے اپنے ہم جلیسوں کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ایسے آلاتِ مواصلات سے اپنے تعلقات پروان چڑھا رہا ہے جن کی وجہ سے آج سوشل میڈیا کی اصطلاح (term) زبان زدعام ہوئی ہے۔ اور امرواقعہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے غیرذمہ دارانہ استعمال کے نتیجہ میں ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے حقوق و فرائض سے غافل ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اگرچہ ’’سوشل میڈیا‘‘ فوری روابط، حقائق کے اظہار اور علمی آگہی کے علاوہ بھی بے شمار فوائد ہم تک پہنچا رہا ہے جن سے ہم شب و روز فیضیاب ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی عیاں ہے کہ اس کے منفی استعمال کے نتیجہ میں ذاتی اور معاشرتی سطح پر ایسی اخلاقی کمزوریاں جڑ پکڑ رہی ہیں جن کے زیراثر انسانی شعور عقل کے تابع رہ کر فیصلے کرنے کی بجائے جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ پس ’’سوشل میڈیا‘‘ نہ صرف معاشرتی قدروں کو پامال کرکے ذاتِ آدم کو تنہا کرنے میں مصروف ہے بلکہ انسان کی عملی صلاحیتوں کو تنزّل کا شکار کردینے کی اہلیت رکھنے والا یہ میڈیا آج کے مہذّب معاشروں میں بے حسی اور ڈپریشن پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جارہا ہے جس پر آج کئی دانشور اور صاحبانِ عقل وخرد نوحہ کناں ہیں۔ پس یہ کیسے ممکن تھا کہ قیامت تک کے لئے زندہ رہنے والے مذہب اسلام میں اس حوالہ سے مکمل رہنمائی موجود نہ ہوتی۔ چنانچہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک مختصر کتاب ’’سوشل میڈیا‘‘ اس امر کی غمّاز ہے کہ ہر دَور کے مسائل کا نہایت احسن حل اسلامی تعلیم میں موجود ہے۔
سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے منتخب ارشادات پر مبنی اس کتاب کا تعارف کیا ہے!؟
= دراصل یہ کتاب امام الزّمان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت علیٰ منہاج نبوۃ کے منصب پر فائز اُس روحانی وجود کی دلی تڑپ کی آئینہ دار ہے جس کے کاندھوں پر خدا تعالیٰ نے آج غلامانِ احمدیت کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
= یہ کتاب، بلاشبہ، خلقِ خدا کی محبت میں مخمور ایک ولی اللہ کی ایسی صدائے ناصحانہ ہے جو ستائش کی تمنّا سے بالاتر ہوکر محض اس لئے بلند کی گئی ہے کہ احمدی مسلمانوں کا معاشرہ ہر پہلو سے امن اور سلامتی سے لبریز نظر آئے۔
= مختصر مگر نہایت پُراثر نصائح سے لبریز یہ کتاب، خداداد بصیرت کے حامل اُس بابرکت وجود کے مشاہدات کا بیان ہے جو احمدی بچیوں اور خواتین کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً محض لِلّٰہ رہنمائی کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم نہ صرف اپنے خالق کا قرب حاصل کرسکیں بلکہ آئندہ نسلوں کی پرورش بھی اس طور کرسکیں کہ وہ اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کے قابل ہوں۔
اس کتاب کی افادیت چند فقرات پر مشتمل اُس پیش لفظ سے بھی ظاہر ہے جو کہ سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ہی رقم فرمودہ ہے۔ حضورانورایدہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’سوشل میڈیا کے ذریعہ اچھائیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی برائیاں بھی دنیا میں پھیل رہی ہیں اس لئے ہماری لجنہ اور ناصرات کو اسے محتاط طریقے سے استعمال کرنا چاہئے۔ اور اس سلسلہ میں مختلف مواقع پر مَیں نے جو ہدایات دی ہیں انہیں لجنہ مرکزیہ اس کتاب میں یکجا کرکے شائع کررہی ہے۔ آپ سب کو چاہئے کہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
یہ نہایت مفید کتاب A5 سائز کے صرف سواصد صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب تخلیقِ انسانی کے حقیقی مقصد (یعنی اپنے خالق کے ساتھ رشتۂ عبودیت) سے معنون ہے۔ نیز سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں عبادات میں غفلت سے متنبّہ کرتا ہے۔ دوسرے باب میں مومن کو لغویات سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ نیز حیا کا معیار بلند کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے زینت کے نام پر بے حیائی کے فروغ اور معاشرتی برائیوں کے بین الاقوامی سطح پر پھیلاؤ سے متنبّہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں بچوں کی تربیت کے حوالہ سے والدین کا کردار بیان کیا گیا ہے اور اُنہیں اپنی نسلوںکو میڈیا کی برائیوں سے بچانے اور بچپن سے ہی اچھی تربیت کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ اسی طرح کم عمر بچوں میں موبائل فون کے غیر ضروری استعمال کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات واضح کرکے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اپنے گھروں میں ٹیلی وژن کے غیراخلاقی پروگرام بلاک کردئے جائیں۔ چوتھا باب سوشل میڈیا کے حوالہ سے دَورِ حاضر میں ماؤں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ پانچواں باب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی احمدی بچیوں کو براہ راست کی جانے والی نصائح پر مشتمل ہے۔ ان میں سوشل میڈیا پر چَیٹنگ اور تصاویر کے تبادلہ کے ذریعہ بے پردگی کے رجحان کو بیان کرنے کے بعد اسلامی پردہ کا یہ فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظاہری اور چھپی ہوئی فحشاء سے روکتا ہے۔ اسی طرح facebook کے استعمال میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے اور یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ لڑکیوں کے تبلیغی روابط صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں۔ اسی باب میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں غیروں کے ساتھ رشتے اُستوار کرنے کی صورت میں آئندہ نسلوں کے افسوسناک انجام سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔
کتاب کا چھٹاباب نوجوان نسل کی رہنمائی سے معنون ہے۔ اس باب میں نوجوان نسل کو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور غضِّ بصر کو نفس کا جہاد قرار دیا گیا ہے۔ نیز خبردار کیا گیا ہے کہ ہماری عادات ہی ہماری اصلاح کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس باب کا اختتام برائیوں سے بچنے کی کوشش کرنے کے لئے کی جانے والی چند جامع دعاؤں سے کیا گیا ہے۔ کتاب کا ساتواں باب واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کے لئے مخصوص ہے کہ وہ کیسے اسپیشل بن سکتے ہیں؟ اس میں بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ معیاروں کو قائم کرکے اور غیراخلاقی باتوں سے اجتناب کرکے ہی واقفین نَو اسپیشل بن سکتے ہیں۔ حضورانور نے اُن کو خاص طور پر یہ نصیحت بھی فرمائی ہے کہ وہ میڈیا کے شعبہ میں تعلیم حاصل کریں اور باقاعدگی سے خطباتِ جمعہ بھی سنا کریں۔ کتاب کے آٹھویں باب میں میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب کے اظہار کے چند پہلوؤں کا بیان ہے جن میں جعلی facebook اکاؤنٹس کے خوفناک نقصانات بھی شامل ہیں۔ نیز خبردار کیا گیا ہے کہ سائبر اٹیک(Cyber (attack کے نتیجہ میں معاشرتی اور اقتصادی نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ذاتی طور پر اگر اپنا موبائل فون عاریۃً کسی کو استعمال کرنے کے لئے دیا جائے تو وہاں بھی دھوکہ ہو سکتا ہے۔ اس باب کے آخر میں خلفائے کرام کی تصاویر کے نامناسب استعمال اور اسلامی معاشرہ میں رائج ہونے والی بدعات سے اجتناب کی نصیحت کی گئی ہے۔
کتاب کے دسویں اور آخری باب میں ’’سوشل میڈیا‘‘ کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔آغاز میں MTA کی برکات کا بیان ہے کیونکہ MTA ہی احمدیوں کو خلافت سے جوڑنے اور غیروں میں دعوت الی اللہ کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس باب میں مزید بتایا گیا ہے کہ احمدیت کی مخالفت (جس کا بھرپور اظہار سوشل میڈیا کے ذریعہ آجکل جاری ہے) جماعت احمدیہ کی ترقی میں کبھی روک نہیں بن سکتی۔ اسی طرح ماہوار انگریزی رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اور احمدیہ ویب سائٹ ’’الاسلام ڈاٹ آرگ‘‘ (www.alislam.org) بھی اشاعتِ اسلام کے نہایت مفید ذرائع ہیں جبکہ خطبہ جمعہ ایک ایسا روحانی مائدہ ہے جس سے ضرور استفادہ کیا جانا چاہئے۔ نیز الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ معاندینِ احمدیت آج بھی مختلف فتنوں کو ہوا دینے کی نِت نئی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ہمیںاللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اُن وعدوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے جو ماضی میں پورے ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔
الغرض کتاب میں اُن ذمہ داریوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے ایک احمدی کو ملحوظ رکھنی چاہئیں۔ چونکہ اسلام کے حقیقی پیغام کو کُل عالم میں پھیلانے کے لئے موجودہ دَور کی ایجادات اور ذرائع ابلاغ کے جدید طریق بہت معاون اور سُودمند ثابت ہورہے ہیں اسی لئے اس بابرکت کتاب کا اختتام ذیلی عنوان ’’وَالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا‘‘ کے تحت سیّدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ میں بیان فرمودہ تفصیلی ارشاد پر کیا گیا ہے جس کا لُبّ لباب یہ ہے کہ ’’تیزرفتار وسائل اس طرف توجہ مبذول کروارہے ہیں کہ ہم اِس تیزرفتاری کو خداتعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اُس کے دین کے لئے استعمال کریں۔‘‘
سیّدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں مرتّب کی جانے والی اس کتاب میں خلافتِ خامسہ کے آغاز سے لے کر 2017ء تک کے خطباتِ جمعہ، خطابات، پیغامات اور سوال و جواب کی نشستوں میں ارشاد فرمودہ پُرحکمت اور زرّیں نصائح کو یکجا کرکے پیش کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ ارشادات نور بصیرت کے حامل ایسے پاکیزہ وجود کے مشاہدات کا نچوڑ ہیں جس کی زبان میں خدائے قدّوس نے غیرمعمولی برکت عطا فرمائی ہے۔
پس آج سوشل میڈیا کے سیلاب میں بے دست و پا بہتی چلی جانے والی نوجوان نسل کے لئے یہ نصائح صرف ’’تنکے کا سہارا‘‘ نہیں ہیں بلکہ ایسا مضبوط سفینہ فراہم کرتی ہیں جس پر بیٹھ کر وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی طاقتوںکو بھی جِلا بخش سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی طباعت کے لئے تیار ہے جبکہ چند دیگر زبانوں (مثلاً عربی، جرمن، فرانسیسی، انڈونیشین اور بنگلہ وغیرہ) میں تراجم کی کارروائی مختلف مراحل میں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم نئے دَور کی ایجادات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنی علمی، تربیتی اور دعوت الی اللہ کی صلاحیّتوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔ نیز خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر اور اسلام احمدیت کے قابل فخر سپوت بن کر خدمت کے میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ آمین