الفضل ڈائجسٹ
بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2012ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے حالات زندگی اختصار سے بیان کئے گئے ہیں۔
محمد علی جناح کا خاندان معزز اور شریف تھا۔ جد امجد ایرانی امراء میں سے تھے جو آغا خاں اوّل کے ہمراہ ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے تھے اور یہاں آباد ہو گئے تھے اور یہاں بھی صاحب حیثیت اور اہل وقار تھے۔
محمد علی جناح کے دادا مسٹر پونجا بھائی صاحب اسماعیلی برادری کے ایک نہایت معزز اور صاحب ثروت بزرگ تھے۔ آپ کے تین بیٹے والجئی بھائی، نتھو بھائی اور جناح بھائی جبکہ ایک بیٹی محترمہ مان بائی صاحبہ تھیں۔
جناح بھائی صاحب بھی سمجھدار، لائق، محنتی، صاحبِ فن اور نیک خصال انسان تھے۔ اُن کی شادی 17سال کی عمر (1874ء) میں اسماعیلی خوجہ خاندان کے ایک معزز گھرانہ کی لڑکی محترمہ شیریں بی بی سے اسماعیلی رسوم و رواج کے مطابق ہوئی جو کاٹھیاواڑ کے ایک گائوںدھافہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ بیاہ کر آئیں تو سسرالیوں نے ان کی خوبصورتی ، خوش مزاجی اور خوش سلیقگی کو دیکھ کر انہیں پیار سے میٹھی بائی کا لقب دیا۔ اتفاق سے یہ فارسی لفظ ’شیریں‘ کا ہم معنی بھی تھا چنانچہ اُن کی یہی عرفیت مشہور ہو گئی۔ پھر میٹھی کثرت استعمال سے مٹھی بن گیا اور پھر یہی ان کا مستقل نام ٹھہرا۔
قائداعظم کے آباؤ اجداد تاجر پیشہ اور اپنے فن میں مثالی تھے۔ مسٹر جناح بھائی 1875ء میںاپنا الگ کاروبار منظم کرنے کی غرض سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کاٹھیاواڑ سے کراچی منتقل ہو گئے اور کھارا در کے نیونہام روڈ پر دو کمروں پر مشتمل ایک متوسط درجہ کا مکان کرایہ پر حاصل کیا۔ یہ علاقہ اس وقت کاروباری مرکز کے طور پر مشہور تھا۔ قائداعظم کے والد نے اس علاقہ میں ’’جناح پونجا اینڈ کمپنی‘‘ کے نام سے کاروبارشروع کیا جو ابتدائی چند مشکلات کے بعد چل نکلا اور اس نے بڑا نام کمایا۔
قائداعظم 25 دسمبر1876ء بروز پیر کی صبح وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئے۔ خاندانی روایات کے مطابق بچے کے ماموں جناب قاسم موسیٰ صاحب نے ’’محمدعلی ‘‘ نام رکھا۔ مسٹر جناح پونجا کے گھرانہ میںیہ پہلاموقع تھاکہ جب کسی بچے کا خالص اسلامی نام تجویز ہوا۔ ماں کی پہلی اولاد تھی، بچہ نہایت کمزور تھا ہاتھ بڑے لمبے لمبے اور وزن تشویشناک حد تک کم تھا۔ نومولود کی لاغرصحت نے مٹھی بائی کو پریشان کر دیا۔ ڈاکٹر نے بعد معائنہ تسلی دی کہ کوئی بیماری نہیں فکر مند نہ ہوں۔ نومولود بچہ کی خوشی میں والدین نے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے عقیقہ کا اہتمام کرکے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو مدعو کیا اور اس تقریب میں غرباء کو بھی شامل کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے مسٹر جناح کو آٹھ بچے عطا فرمائے تھے۔ چار بیٹے احمد علی صاحب، بندے علی صاحب، بچو صاحب اور قائداعظم محمد علی جناح صاحب۔ اسی طرح چار ہی بیٹیاں تھیں۔ مریم جناح صاحبہ، رحمت جناح صاحبہ، فاطمہ جناح صاحبہ اور شیریں بائی صاحبہ۔
قائداعظم بڑے ذہین تھے، بے حد شرارتی چالاک اور چاق و چوبند۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنا کودنا پسند تھا۔ گلی ڈنڈا، بنٹے اور شور شرابہ بڑے شوق سے کرتے تھے۔ والدین نے آپ کو گجراتی زبان میں تعلیم دلوانے کا انتظام کیا۔ 6سال کی عمر تک گجراتی زبان میں پڑھے لیکن اس طرف کم توجہ کی۔ 9سال کی عمر میںپرائمری سکول میں داخلہ دلوایا گیا یہاں بھی عدم توجہ ہی رہی۔ 10سال کی عمر میں سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایا گیا۔ تعلیم کی طرف توجہ نہ دیکھ کر آپ کی پھوپھی ’’مان بائی‘‘ آپ کو ممبئی لے گئیں اور انجمن اسلام سکول میں داخلہ ملا۔ فورتھ گجراتی کا امتحان پاس کیا پھر فرسٹ سٹینڈرڈ انگلش کلاس میں داخلہ مل گیا۔ تاہم 23دسمبر 1887ء کو والد صاحب نے واپس بلاکر دوبارہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ کرا دیا۔
گراہم ٹریڈ کمپنی کے جنرل مینیجر کے ساتھ جناح بھائی کے تجارتی تعلقات تھے۔ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ محمدعلی کو لندن میں گراہم ٹریڈنگ کمپنی کے صدر دفتر بھیج دیا جائے تاکہ وہاں بزنس ایڈمنسٹریشن سیکھ سکے۔ اس وقت آپ سندھ مدرسۃ الاسلام میںففتھ انگلش کے طالب علم تھے۔ والدہ آپ کے لندن جانے پر اِس شرط پر رضامند ہوئیں کہ پہلے آپ کی شادی کردی جائے۔ چنانچہ اسماعیلی خاندان کی ایک لڑکی ’’ایمی بائی‘‘ سے پندرہ سال کی عمر میں آپ کی شادی کر دی گئی۔ ایمی بائی آپ کی تعلیم کے دوران ہی وفات پا گئی تھیں۔
16برس کی عمرمیں حصول تعلیم کے لئے لندن تشریف لے گئے۔ ابتدا میں حسب ہدایت والدین کی کاروباری تربیت لیتے رہے لیکن جلد آپ کے اندر کا قائد جاگ اٹھا اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سوچنے لگے۔ اس مقصد کے لئے داخلہ کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔ دو سال کی سخت محنت کے بعد امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ پھر قانون کی ڈگری لینے کے لئے مختلف کالجزکا دورہ کیا اور جب لنکنزاِن کالج کو دیکھا تو وہاں اُن شخصیات کے نام تحریر تھے جنہوںنے دنیا کو نیا قانون و آئین دیا۔ فہرست میں آنحضرت ﷺ کا اسم مبارک تحریر تھا اس لئے آپ نے اس کالج کو داخلہ کے لئے پسند فرمایا۔ داخلہ ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد آپ اس کالج میں داخل ہو گئے۔ آپ ہندوستان کے سب سے کم عمر طالب علم تھے۔ آپ نے یہاں خوب محنت کی اور صرف چار سال کے عرصہ میں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرکے ہندوستان تشریف لائے۔ آپ کی واپسی سے تین ماہ قبل والدہ محترمہ وفات پاچکی تھیں۔
ابتدا میں آپ نے کراچی میں قانون کی پریکٹس شروع کی بعد میں بمبئی تشریف لے گئے اور وہاں کامیابی سے پریکٹس کرتے رہے۔ پھر اہل ہند کی سیاسی خدمت کے لئے انڈین کانگریس میں شمولیت اختیار فرمائی۔ 1906ء تا1914ء کانگریس میں خدمات بجا لاتے رہے۔ یہاں آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے تاکہ ہندوستان آزاد ہوسکے۔ لیکن پھر ہندوؤں کا مسلمانوں کے لئے طرزعمل دیکھ کر آپ نے کانگریس سے علیحدگی اختیار فرما کر مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔مگر بعدازاں آپ ہندوستان کی سیاست سے بددل ہو کر برطانیہ چلے گئے۔
جب حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر حضرت مولانا عبدالرحیم دردؓ نے آپ کو ہندوستان آنے پر آمادہ کیا تو آپ واپس تشریف لائے اور 1934ء سے مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے اور مسلم لیگ کو خوب ترقی دی اور پورے ملک میں اسے فعّال بنایا۔ انگریز، ہندو اور مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اکثر آپ کے مخالف تھے۔ اسی لئے کفر کے فتاویٰ دئیے گئے۔ غیر مسلم عورت سے شادی، منہ پر نہ داڑھی نہ مونچھ کے طعنے دئیے گئے۔ انگریزی لباس اور زبان کے پلید ہونے کا فیصلہ صادر کیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کا ساتھ دینے والوں اور مسلم لیگ کے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے نکاح ٹوٹ جانے کے متفقہ فتاویٰ بھی جاری کئے گئے۔ نیز پاکستان کیا پاکستان کی ’’پ‘‘ بھی نہ بننے اور نہ بنانے دینے کے بلند بانگ دعوے کرکے ہراساں اور بددل کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ مگر اس شیر دل اور باہمت قائد نے اپنی محنت، لگن، قابلیت اور صلاحیت کی بِنا پر خداتعالیٰ کی مدد سے 14؍ اگست 1947ء کو پاکستان قائم فرما دیا۔ آپ کا یہ احسان ناقابلِ فراموش ہے۔
قائداعظم کی دوسری شادی رتی جناح سے ہوئی۔ دراصل آپؒ اپنے پیشے اور سیاست کی مصروفیات میں ایسے اُلجھے کہ مدتوں اپنی دوسری شادی کا خیال نہیں آیا۔ 1916ء میں جب بمبئی کے سیاسی حلقوں میں خاصے معروف ہو گئے تو آپ کی ملاقات ایک پارسی بیرونیٹ سرڈنشاپٹیٹ کی اکلوتی بیٹی رتی پٹیٹ سے ہوئی جو اس وقت فقط سولہ برس کی تھیں۔ وہ بمبئی کے حلقوں میں اپنی ذہانت، شاعرانہ مزاج، شوقِ مطالعہ اور خوش پوشاکی کی وجہ سے مشہور تھیں۔ ان کی شخصیت نے قائداعظم محمد علی جناح کو بے حد متأثر کیا۔ رتی پٹیٹ کے والد کو جب اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوںنے رتی کی عمر کو جواز بنا کر رتی اور قائداعظم کی ملاقات کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ قائداعظم نے قانون کی مکمل پاسداری کی اور پھر رتی سے نہیں ملے۔ لیکن رتی کی عمر 18برس کی ہوگئی تو وہ اپنے والدین کی دولت و ثروت کو خیر باد کہہ کر قائداعظم کے پاس پہنچ گئیں۔ 18 ؍ اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا۔ اگلے دن وہ محمد علی جناح کے عقدمیںآ گئیں۔
قائداعظم شروع شروع میں تو رتی کو بھرپور وقت دیتے رہے لیکن آہستہ آہستہ ان کی سیاسی سرگرمیاں زیادہ وقت لینے لگیں اور دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ بھی آیا جب رتی قائداعظم کی رہائش گاہ سے سکونت ترک کرکے ایک ہوٹل میں منتقل ہو گئیں۔ ان دنوں رتی کی صحت بھی بہت گر گئی تھی۔ اس دوران کئی مرتبہ خود قائداعظم اور ان کے دوستوں نے اس علیحدگی کو ختم کروانے کی کوشش کی لیکن کوئی صورت سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ اپریل 1928ء میں رتی شدید بیماری کے باعث علاج کروانے کے لئے پیرس چلی گئیں پھر قائداعظم بھی وہیں پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد رتی واپس ہندوستان چلی آئیں۔ ہندوستان واپس آکر قائداعظم کبھی کبھی رتی جناح کی مزاج پرسی کے لئے جانے لگے۔ ان کے اختلافات کی خلیج بتدریج پٹنے لگی۔ 28؍جنوری 1929ء کو قائداعظم دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی چلے گئے اور ان کی عدم موجودگی میں20 فروری 1929ء کو اپنی 29ویں سالگرہ کے دن رتی جناح اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو ایک بیٹی ’وینا جناح‘ سے نوازا تھا۔ آپ اپنی بیٹی سے حد درجہ محبت کرتے۔ اسے بڑی محبت و انس سے پالا اور تعلیم دلائی۔ لیکن جب بیٹی نے پارسی خاندان میں ’نیوائل واڈیا‘ سے شادی کرلی تو آپ نے بیٹی سے ناراض ہو کر قطع تعلق کر لیا تھا ۔ پورے ملک کا سربراہ ہونے اور بانی ہونے کے ناطے بھی بیٹی کو ملک میںنہ آنے دیا۔ یہ آپ کی اصول پرستی تھی۔ اپنے والد کی وفات پر ’’وینا جناح‘‘ پاکستان تشریف لائی تھیں ۔
قائداعظم کی وفات 72 سال کی عمر میں 11ستمبر 1948ء کو ہوئی اور کراچی میں دفن ہوئے۔
مزارِ قائد
قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے بہت سے نقشے سامنے آئے لیکن آپ کی بہن مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے یحییٰ مرچنٹ کا تیار کیا ہوا نقشہ پسند کیا۔ مزار کے احاطہ کا رقبہ 65 ہزار مربع گز ہے۔ مزار کی اونچائی 120 فٹ ہے۔ اس کا اندرونی قطر 70فٹ اور بیرونی قطر 72فٹ ہے۔ چھت میںچین کا دیا ہوا تحفہ فانوس آویزاں ہے جس کی لمبائی پندرہ فٹ اور وزن تین ہزار کلو گرام ہے۔
مزار کی تعمیر میں پاکستانی سنگ مرمر کے علاوہ اٹلی کا سنگ مرمر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس خوبصورت عمارت میں 14فٹ گہرا تہہ خانہ ہے جس میں قبر بنائی گئی ہے۔ قبر کے اوپر جو تعویذہے اس کی حفاظت کے لئے چاندی کا جنگلا لگا ہوا ہے۔ اس جنگلے سے دو فٹ ہٹ کر پیتل کا خوبصورت جنگلا ہے جس کی لمبائی 18 فٹ 10انچ اور چوڑائی 15 فٹ ایک انچ ہے۔ قبر تک رسائی کے لئے چاروں طرف چار دروازے ہیں۔ عمارت کی حفاظت پاکستان بحریہ کے سپرد ہے۔ صدر دروازے اور مزار کی سیڑھیوںکے درمیان میں پندرہ تالاب ہیں۔ ان کی لمبائی 50 فٹ، چوڑائی28فٹ اور گہرائی3فٹ ہے۔ ان تالابوں میں 4،4 فٹ اونچے فوارے لگے ہوئے ہیں۔ مزار کے احاطے کو روشن رکھنے کے لئے 90، 90فٹ اونچے فلڈ لائٹ ٹاور بنائے گئے ہیں۔ مزار کے چبوترے پر اڑتالیس سرخ لائٹس لگائی گئی ہیں۔ مزار کی لحد پر سورۃ نصر کندہ کی گئی ہے۔ ایک آیت سورۃ فتح کی بھی ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ستمبر 2012ء میں مکرم محمودالحسن صاحب کی، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یاد میں کہی جانے والی، ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
فخرِ پاکستان تھا عبدالسلام
کس قدر ذیشان تھا عبدالسلام
عاجزی اخلاص تجھ پر ختم تھے
خُلق کا سلطان تھا عبدالسلام
ملک و ملّت کی بڑائی تجھ سے تھی
ملک کی تُو جان تھا عبدالسلام
نام اور دولت کی کچھ خواہش نہ تھی
خود تُو پاکستان تھا عبدالسلام