حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا (Friday The 10th) والا رئویا (دوسری و آخری قسط )
Friday the 10th کی پیشگوئی کا ایک اور عظیم الشان رنگ میں ظہور
حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 23؍ فروری 1990ء میں Friday the 10th کی پیشگوئی کے ایک اور عظیم الشان رنگ میں ظہور کو بیان فرمایا۔ حضورؒ نے فرمایا:
’’گزشتہ سال ایک خطبے میں مَیں نے دیوارِ برلن کے گرنے کا ذکر کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ اس صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک یہ واقعہ ہے اور بلاشبہ سال 1989ء میں ہونے والے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم یہ واقعہ تھا۔چنانچہ تمام دنیا کے اخبارات میں اس روز یعنی… رات کو واقعہ ہوا صبح دوسرے دن یہی شہ سرخیاں لگیں اور سب سے زیادہ اہم اس بات کو قرار دیا گیا کہ دیوارِ برلن گر گئی ہے۔
اس سلسلے میں مجھے چند دن ہوئے اسلام آباد سے نصیر احمد صاحب طارق کی ایک چٹھی موصول ہوئی جس میں انہوں نے بعض ایسی باتوں کی طرف میری توجہ مبذول کروائی جن کی طرف پہلے میرا خیال نہیں گیا تھا۔ چنانچہ ان کا خط پڑھ کر میں نے اس پرپوری تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ جو باتیں انہوں نے لکھی تھیں وہ بالکل درست ہیں۔
اس دن جس دن یہ دیوار گرائی گئی ہے، سورج غروب ہو چکا تھا اور اگلے دن کی رات پڑ چکی تھی۔ اسلامی حساب سے گویا دن کی تاریخ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ختم تھی اور ایک نئے دن کی رات طلوع ہونی تھی۔ جہاں تک انگریزی کیلنڈر کا تعلق ہے، نیا دن رات کے بارہ بجے شروع ہوا اور پھر وہ اگلے دن رات کے بارہ بجے تک جاری رہا۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ وہ دس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اور جتنے اخبارات میں دنیا میں یہ خبریں شائع ہوئیں، ان پر Friday the 10th عنوان لگا ہوا تھا۔ Date Lineاس کی یہ بنتی تھی۔ اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب سے خدا تعالیٰ نے کشفًا مجھے یہ واقعہ دکھایا تھا، یہ وہ پہلا Friday ہے جو اسلامی مہینے کے لحاظ سے بھی اور انگریزی مہینے کے لحاظ سے بھی Friday the 10th کہلا سکتا ہے اور پوری طرح یہ دونوں تاریخیں ایک دوسرے کے ساتھ منطبق ہو گئی تھیں۔ تو اوّل تو انگریزی تاریخوں کا اسلامی تاریخوں کے ساتھ منطبق ہو جانا یہ کم کم ہوتا ہے۔ اور پھر یہ اس پر مزید اضافہ کہ صرف تاریخوں کا انطباق نہیں تھا بلکہ جمعہ کے دن یہ انطباق ہوا اور اسی دن یہ حیرت انگیز واقعہ بھی رُونما ہوا۔
اس کے متعلق اخبارات نے جو مختلف خبریں لگائی ہیں، یہ اس کی تفصیل میں جانے کا تو وقت نہیں لیکن ایک اخبار وطن Weekly London نے جو بیان کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلا دن یعنی دس تاریخ شروع ہونے کے وقت دراصل دیوارِ برلن کے اوپر حملہ ہوا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
’’حکومت نے اپنی سرحدیں کھولنے اور اپنے شہریوں کو مغرب کی طرف جانے کی اجازت دے دی اور پھر کیا تھا، شہریوں کا ایک سیلاب آ گیا اور نصف شب کے بعد لوگوں نے دیوارِ برلن پر ہلّہ بول دیا‘‘۔
پس نصف شب کے بعد ہلّہ بولنا بھی معنی رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسلامی لحاظ سے ہی وہ دس تاریخ شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ انگریزی کیلنڈر کے لحاظ سے بھی دیوارِ برلن پر جب ہلّہ بولا گیا ہے تو دس تاریخ شروع ہو چکی تھی۔
اس سلسلہ میں مذہبی نقطۂ نگاہ سے جو اہمیت ہے، اس کے متعلق مَیں کچھ باتیں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں۔
روس کے متعلق تقریبًا سب احمدی جانتے ہیں، بچے بچے کو یہ علم ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ جماعت احمدیہ کو روس میں وہ ریت کے ذرّوں کی طرح پھیلا دے گا اور ایک رؤیا میں آپ نے روس کے عصا کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے دیکھا اور وہ عصا بھی تھا اور بندوق کی نالیوں کی طرح اس عصا کے اندر نالیاں بھی تھیں۔ یہ پیشگوئیاں جماعت میں عام ہیں۔ یعنی ان کا علم عام ہے اور سب نظریں لگائے بیٹھے رہے کہ کب خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے آثار ظاہر فرمائے گا۔ اس سلسلے میں حضرت مصلح موعود ؓ نے جماعت کو بار بار تحریک بھی کی۔ ان دنوں میں یعنی انقلاب روس کے بعد شروع کے دس پندرہ سال تک باہر کی دنیا کے لئے روس کے علاقے میں داخل ہونا بہت ہی مشکل تھا۔ بعد ازاں سہولتیں پیدا ہوئیں لیکن پابندیاں بھی جاری رہیں۔ ان دنوں میں تو بہت ہی مشکل کام تھا اور خطرناک کام تھا اس لئے باقاعدہ جماعت کی طرف سے مبلغ تو بھجوایا نہیں جا سکتا تھا یعنی اجازت لے کر اور ویزا حاصل کر کے۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو یہ توجہ دلائی کہ کچھ ایسے لوگ نکلیں جو روس تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اوراس راہ میں قربانیاں دیں۔
اس سلسلے میں جو اہم کردار حضرت مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ادا کیا وہ تاریخ مَیں دہرانی چاہتا ہوں تا کہ روس کے تعلق میں ابتدائی خدمت کے وہ واقعات بھی آپ کے سامنے آ جائیں اور اس مجاہد اوّل مولوی ظہور حسین صاحب کے لئے اور ان کے لئے جو اُن کے ساتھ شامل ہوئے تھے دعا کی بھی تحریک ہو۔ انہوں نے روس سے واپس آنے کے بعد کچھ عرصہ تو ایسی حالت میں گزارا کہ ان کو اپنے دماغ پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ اتنا شدید ان کو وہاں عذاب دیا گیا، ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھے تھے۔ جب ان کو ترکی کی سرحد سے پار پھینک دیا گیا تو اتفاق سے کسی نے اندازہ لگا کر کہ یہ ہندوستانی ہے، ان کو برٹش ایمبیسی میں پہنچا دیا اور چونکہ وہ پاگل پن کی حالت میں بھی ’’قادیان قادیان‘‘ بار بار کہتے تھے اس لئے کسی برٹش آفیسر کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ ہندوستان کے شہر قادیان کا رہنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے جماعت سے تعلق قائم کیا اور پھر ان کو وہاں بھجوا دیا گیا۔ یہ وقتی دَور جو بدحواسی کا تھا یہ زیادہ لمبا عرصہ نہیں چلا۔ لیکن وہ جو تعذیب کے نشانات تھے وہ ساری عمر بدن پر قائم رہے اور جو ہم نے بھی بچپن میں بارہا دیکھے۔ سارے جسم پر جھلسنے کے اور تکلیفوں کے آثار باقی رہے تھے۔ مولوی ظہور حسین صاحب نے بعد میں ایک بہت لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کی مختلف حیثیتوں سے خدمت کی اور ایک کتاب ’’آپ بیتی‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں مختصراً روس کے واقعات کا ذکر ہے۔
اس کتاب سے پتہ چلتاہے کہ جولائی 1924ء میں آپ دو دیگر مبلغین محمد امین خاں صاحب اور صاحبزادہ عبدالمجید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ روس کے سفر پر روانہ ہوئے۔ عبد المجید صاحب کو تو رستے میں ایران میں ٹھہر جانا تھا کیونکہ وہ ایران کے لئے مبلغ مقرر ہوئے تھے اور محمد امین خان صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ … جس طرح بھی بس چلے ایران کی طرف سے روسی سرحد پار کر کے روس میں داخل ہو جائیں۔ مولوی ظہور حسین صاحب مشہد میں بیما رہو گئے اور وہاں رکنا پڑا۔ مولوی محمد امین صاحب کچھ انتظار کے بعد اکیلے ہی سفر پر روانہ ہو گئے اور بخیریت بخارا پہنچ گئے۔
…مولوی ظہور حسین صاحب بعد میں جب اکیلے روس میں داخل ہوئے تو وہ بھی دس تاریخ تھی اور یہ دس دسمبر کا دن تھا۔ آپ آرتھاک (Qrthak) پہنچے لیکن جب آپ بخارا جانے کے لئے(یہاں طے ہوا تھا کہ یہ اور محمد امین خاں صاحب ملیں گے) ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو وہاں آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد پھر ایک لمبا دَور آپ کو اذیتیں دینے کا شروع ہوا۔ اسی حالت میں جب آپ قید تھے(چونکہ آپ کو رشین زبان نہیں آتی تھی، کوئی ساتھیوں سے رابطہ نہیں تھا) تو آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ظہور حسین! آپ جیل میں تبلیغ نہیں کرتے۔ اس رؤیا سے وہ خدائی منشاء سمجھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے روسی زبان سیکھنا شروع کر دی اور چونکہ کچھ مسلمان قیدی بھی ساتھ تھے اس لئے ان سے زبان بھی سیکھی اور ان کو تبلیغ بھی شروع کی۔ چنانچہ سب سے پہلا روس میں جو احمدی ہوا ہے وہ جیل میں ہوا ہے اور اس طرح سُنّتِ یوسفی دہرائی گئی۔ مولوی صاحب کو نمازوں میں منہمک دیکھتے اور جس طرح ان کی طبیعت میں غیر معمولی رقّت پائی جاتی تھی (یہ انہوں نے کتاب میں تو ذکر نہیں کیا لیکن ہم جو بچپن سے ان کو جانتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ بہت ہی رقیق القلب تھے اور جلد جذباتی ہو جایا کرتے تھے تو نمازوں میں بھی ان کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی) اس کا اور ان کی تلاوت کا ان کے ساتھیوں پر گہرا اثر ہوا اور اسی کے نتیجے میں ان کو زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ روس میں وہ شخص جو سب سے پہلے احمدی مسلمان ہوا ہے وہ عبد اللہ خان تھا۔ یہ عبداللہ خان تاشقند کا رہنے والا تھا اور اپنے علاقے کا بہت بڑا اور بارسوخ انسان تھا۔ عبداللہ خان کے ذریعے پھر اور قیدیوں میں بھی احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی اور کئی قیدیوں نے ان کی معرفت پھر بیعتیں کیں۔
یہ واقعہ … 1924ء کا ہے۔ اس کے بعد مولوی ظہور حسین صاحب کے ساتھ مرکز کا بھی رابطہ کچھ عرصہ کٹا رہا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو اس وقت اتنی ہوش نہیں تھی کہ بتائیں کہاں کہاں احمدی ہیں اور ان سے کس طرح رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ رابطہ بالکل کٹ گیا اور رابطہ کٹنے کے باجوو مولوی ظہور حسین صاحب ہمیشہ اس بات پر مصرّ رہے اور اس بات کے قائل رہے کہ وہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں، جو قائم ہیں اور پھیل بھی رہی ہوں گی لیکن ہمیں ان کی تفاصیل کا کوئی علم نہیں تھا۔
سب سے پہلے جب مجھے روس میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو علم ہوا ہے وہ ایک روسی انسائیکلوپیڈیا کے مطالعہ سے ہوا جو انگلستان سے غالبًا بشیر احمد صاحب رفیق نے یا کسی نے معلوم کر کے مجھے مطلع کیا کہ یہاں ایک روسی انسائیکلوپیڈیا شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے اوپر ایک روسی سکالر نے مقالہ لکھا ہے اور اس مقالے میں احمدیت کے متعلق کئی قسم کی باتیں درج ہیں۔ چنانچہ میں نے تحقیق کر کے اس مقالے کو حاصل کیا اور اس کے انگریزی اور اردو میں تراجم کروائے اور ان تراجم سے بعض بہت دلچسپ باتیں سامنے آئیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ روسی مقالہ نگار نے بڑی تحدّی کے ساتھ یہ لکھا کہ روس میں بھی احمدیہ جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کا تعلّق اپنے مرکز سے کٹ چکا ہے۔ اور اس کی وجہ مقالہ نگار نے یہ بیان کی کہ ان کو غالبًا اپنے مرکز سے یہ ہدایت ہے کہ روس میں رہتے ہوئے ہم سے تعلق نہ رکھو۔ یہ بات تو غلط ہے۔ غالبًا انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے یعنی اس پر پردہ ڈالنے کے لئے کہ روس نے مذہبی جماعتوں کو بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے پر روکیں عائد کر رکھی ہیں یہ ایک بہانہ تراشااور باوجود اس کے کہ یہ تسلیم کیا کہ جماعتیں موجود ہیں لیکن یہ بات غلط کہہ دی کہ مرکز نے گویا جماعتوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ ہم سے رابطہ نہ کرو۔ اب سوال یہ ہے کہ ان سے رابطہ کیسے ہونا تھا اور خدا کی تقدیر میں کیا مقدر تھا۔ اس بات کو بیان کرنے کے لئے آپ کو میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رؤیا بتاتا ہوں۔
اس رؤیا میں حضرت مصلح موعود ؓ یہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں حالات خطرناک ہو چکے ہیں۔ اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ مجھے وہاں سے ہجرت کرنی پڑ رہی ہے اور اس ہجرت کے دوران میری گود میں میرا ایک بچہ ہے جس کا نام طاہر احمد ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بچہ ساتھ نہیں۔ اس ہجرت کے دوران مَیں ایک نئے ملک میں پہنچتا ہوں اور اس ملک میں داخل ہو کر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سا ملک ہے؟ تو بتاتے ہیں کہ روس ہے۔ اور جب میں ان لوگوں سے گفتگو کرتا ہوں اور ان کے متعلق پوچھتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں تو ایک آدمی ہلکی سی آواز میں احتیاط کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اونچا نہ بولیں ہم احمدی ہیں اور یہ سارا گاؤں اور اس علاقے میں جو لوگ ہیں یہ سب احمدی ہیں۔ لیکن ہم حالات کی مجبوری سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ رؤیا اسی بات پر ختم ہو گیا۔
اب یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ روس کا تعلق دوبارہ جماعت احمدیہ سے قائم ہونا میرے زمانے میں ہو۔ یہ سارے مقدر کے فیصلے تھے جن کے آپس میں ٹانٹے ملے ہوئے ہیں۔ اور پھر مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے Friday the 10th دکھایا اور Friday the 10th کو وہ حیرت انگیز انقلاب برپا ہوئے جن کی روشنی میں روس میں اسلام کے داخل ہونے یا جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کے داخل ہونے کے نئے دروازے کھلیں اور نئے امکانات روشن ہوں۔ اور یہ بھی عجیب بات ہے اور کوئی اتفاق نہیں بلکہ مقدر تھا کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء میں سے صرف مَیں ہوں جس کے ساتھ متعدّد روسی مسلمان علماء اور صاحب دانش لوگوں نے ذاتی رابطہ قائم کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک بھی خلیفہ اس سے پہلے نہیں گزرا جس کا کسی روسی رہنما سے ذاتی رابطہ ہوا ہو۔ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، متعدد رابطے ہوئے اور ایسے رابطے ہوئے جن میں ہماری طرف سے کسی کوشش کا دخل نہیں۔ خداتعالیٰ نے خود اس کے سامان پیدا فرما دیئے اور جس طرح وہ سامان پیدا ہوئے ہیں، ان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نہ ہماری کوشش کا دخل تھا، نہ اتفاقات تھے بلکہ خدا کی واضح تقدیر ان میں کارفرما دکھائی دیتی ہے۔
پہلے روسی عالم جو عالمی شہرت رکھتے ہیں جن کی مجھ سے ملاقات ہوئی، وہ الحاج عبداللہ یُف (Abdullayev) تھے۔ جس دن ان سے ملاقات ہوئی، اس کے دوسرے یا دو تین دن بعد جمعہ تھا اور میں نے جمعہ میں بیان بھی کیا تھا کہ روس کے ایک بہت ہی مقتدر مسلمان تشریف لائے تھے اور ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد داغستان کے علاقے کے مسلمان راہنما بھی ملے اور آذربائیجان کے علاقے کے مسلمان راہنما بھی ملے اور اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے اہم لوگ جو کانفرنسز میں یہاں تشریف لاتے رہے آکے مجھ سے ملتے رہے اور پھر بیلاروس(Byelorussia) کے مسلمان راہنماؤں میں سے ایک نے بذریعہ خط رابطہ کیا اور انہوں نے یہ بتایا کہ ان کو کسی ذریعے سے جماعت احمدیہ کا وہ کتابچہ جس میں قرآنِ کریم کی منتخب آیات کا روسی ترجمہ ہے ان تک پہنچا اور ان کو اس کے مطالعہ سے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے بہتر روسی زبان میں کبھی قرآن کریم کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ تو یہ جو سب رابطے پیدا ہوئے ہیں یہ سارے ایک ہی مضمون کی کَڑیاں ہیں۔ اس لئے اگر کسی کے ذہن میں یہ وہم ہو کہ Friday the 10th کا اس دن پر اطلاق پانا کوئی اتفاقی حادثہ ہے تو اس سارے مضمون کو سننے کے بعد کوئی بہت ہی متعصّب ہو گا یا طفلانہ خیال کا حامل ہو گا جو یہ اصرار کرے کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا۔
اس دن اسلامی مہینے کا انگریزی مہینے کے ساتھ انطباق، اس دن جمعہ کا دن ہونا، اس دن اس انقلابی سال کا سب سے بڑا انقلابی دن ہونا جس کے متعلق ساری دنیا نے کہا کہ یہ سال ایک غیر معمولی حیثیت کا سال ہے اور تمام دوسرے اپنے اردگرد کے سالوں سے بہت ہی زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اور پھر اس دن کا اس سال میں سے بھی چوٹی کی طرح ابھر آنا اور غیر معمولی حیثیت اختیار کر جانا۔ اور اس سے پہلے حضر ت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ رؤیا جس کی تعبیر ظاہر ہے کہ ہجرت کا مجھے موقعہ ملے گا اور اس ہجرت کے دوران روس سے رابطہ ہو گا اور پھر ساری خلافتِ احمدیہ کی تاریخ میں ایک ہی خلیفہ کا روس کے ساتھ رابطہ ہونا، اگر یہ سارے اتفاقات ہیں تو پھر نظم و ضبط کے ذریعے واقعات کا ترتیب پانا کچھ اور ہی معنی رکھتا ہو گا۔ درحقیقت یہ ظاہر طور پر تقدیر ہے جس نے باقاعدہ ان واقعات کو منضبط کیا ہے اور ایک باقاعدہ ترتیب دی ہے اور تعلق جوڑے ہیں۔
پس اس پس منظر کو بیان کرتے ہوئے جہاں میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر حرکت میں آ چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے دن قریب آ رہے ہیں، وہاں ان کی ذمہ داریاں دوبارہ یاد کراتا ہوں کہ ان قوموں سے جو روس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں اسلامی رابطے قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں…۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ فروری 1990ء۔ خطباتِ طاہر جلد 9 صفحہ 113 تا 119)
الغرض خلافتِ رابعہ کے دَور میں اور اس کے بعد خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں بھی متعدد ایسے واقعات و نشانات ظاہر ہوئے جو کسی نہ کسی رنگ میں Friday the 10th کے عظیم الشان کشف میں دکھائی جانے والی روشن تجلّی کے ساتھ منسلک تھےاور وہ افرادِ جماعت کی تقویتِ ایمان کا موجب ہوئے۔ مثلًا سکھر کے دو اسیرانِ راہِ مولیٰ بھائی مکرم پروفیسر ناصر احمد قریشی صاحب اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب جو 1984ء سے سکھر جیل میں پابندِ سلاسل تھے، آٹھ سال بعد 1992ء میں اُن کی رہائی کو بھی حضورؒ نے قادیان دارالامان میں اپنی Friday the 10th(یعنی جمعۃ المبارک 10؍ جنوری 1992ء) کو کی جانے والی خصوصی دعا کا اعجاز قرار دیا۔ حضور رحمہ اللہ کو ان اسیران کی رہائی کی خبر اس وقت ملی جب آپ قادیان سے واپسی پر دہلی کے سفر کے دوران امرتسر اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں انتظار گاہ میں تھے۔ جب حضور رحمہ اللہ کو یہ خوشخبری دی گئی تو آپ کا چہرہ فرطِ مسرّت سے چمک اٹھا اور فرمایا:
’’قادیان میں اس جمعہ یعنی Friday the 10th کو میں نے خاص طور پر ان کی اعجازی رستگاری کے لئے بارگاہِ ربّ العزّت میں التجا کی تھی۔ الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور الہام Friday the 10th کی چمکار پر تصدیق کی ایک اور مہر ثبت کر دی۔‘‘
اسی ضمن میں جب دہلی پہنچ کر حضور نے محترم پروفیسر ناصر احمد قریشی صاحب سے فون پر بات کی تو فرمایا:
’’مَیں جب سے قادیان آیا ہوں آپ لوگوں کے لئے خصوصیت سے دعائیں کر رہا ہوں اور پھر Friday the 10th جو قادیان میں آیا اس میں مَیں نے ایسی خصوصیت سے دعا کی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اَب یہ واپس نہیں آئے گی۔‘‘
(تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’دورۂ قادیان 1991ء حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ۔ مرتّبہ ہادی علی چوہدری صفحہ 162تا 166)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےجماعت احمدیہ عالمگیر کی نمائندگی میں مکفّرین و مکذّبین احمدیت کو بالخصوص ائمۃ التکفیر کوحق و باطل میں امتیاز ظاہر کرنے کے لئے 1988ءمیں مباہلہ کا ایک چیلنج دیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں عالمی سطح پر احمدیت کی حقّانیت کو ظاہر کرنے والےاور مخالفین کوذلیل ورسوا کرنے والےمتعدّد نہایت اہم اوربیّن اور قوی اور روشن نشانات ظاہر ہوئے۔ یہ مباہلہ کا چیلنج بھی دس تاریخ کو اور جمعہ کے روز ہی دیا گیا تھا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرائیڈے دی ٹینتھ (Friday the 10th )والے کشف کی ایک تجلّی جمعۃ المبارک 10 جون988 1ء کو بھی ظاہر ہوئی جس کے نتیجہ میں مکفّرین و مکذّبین کا جھوٹا ہونا سب پر عیاں ہوا ۔وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مورد ہوئے اور اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ پر خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کی برسات خوب کھل کر برسی۔
(اس مباہلہ اور اس کے ثمرات و نتائج کی کسی قدر تفصیل الفضل انٹر نیشنل کے اسی سال کےماہ جون کے شماروں میں شائع ہو چکی ہے)
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو دی جانے والی خوشخبریوں کو کئی کئی بار اور مختلف رنگوں میں پورا کرتا ہے۔ اور ان کا ہر اظہار ہی مومنین کے قلوب کو لطیف روحانی مسرّتوں سے معمور کرتا ہے۔
فرائیڈے دی ٹینتھ اور جماعت احمدیہ فرانس
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے Friday the 10th کے مبشر پیغام پر مشتمل یہ کشف مختلف رنگ میں پورا ہو کر اپنی چمک دکھلاتا رہا لیکن اس کشف کی ایک نہایت پُر شوکت اور خوبصورت تجلّی خلافتِ خامسہ کے عہد سعادت مہد میں جمعہ 10؍ اکتوبر 2008ء کو فرانس میں ہی ظاہر ہوئی۔
جماعت احمدیہ فرانس کی تاریخ میں جمعہ 10؍ اکتوبر 2008ء کا دن وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل، تاریخی اور سنگِ میل حیثیت رکھنے والا دن ہے جب Friday the 10th کی خوشخبری ایسی وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی کہ کسی چشمِ بصیرت رکھنے والے منصف مزاج کے لئے اس کا انکار ممکن نہیں۔ یہ وہ دن ہے جب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرانس میں تعمیر ہونے والی پہلی احمدیہ مسجد ’’مسجد مبارک‘‘ کا افتتاح فرمایا۔یہ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ سال کا دسواں مہینہ (یعنی ماہ اکتوبر) اور اس کی دس تاریخ تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان میں اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہِ شوّال کی بھی دس تاریخ تھی۔ Friday the 10th والے کشف میں جو دس کا ہندسہ بار بار روشن الفاظ میں دھڑکتا دکھایا گیا تھا اس میں یہ پیغام تھا کہ خدا کی رحمت کے نشان پر مشتمل یہ روشن تجلّی ایک دفعہ ہونے والا واقعہ نہیں بلکہ یہ نشان بار بار رونما ہوگا او راپنی بار بار کی چمکار سے لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’مسجد مبارک‘ فرانس کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطبہ جمعہ میں Friday the 10th کے اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’28؍دسمبر 1984ء میںحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ فرانس کے دوران اپنے اس کشفی نظارے کا پہلی د فعہ ذکر کیا تھا جس میںگھڑی پر دس کے ہندسے کو چمکتے دیکھا تھا اور آپ کے ذہن میں اس کے ساتھ آیا تھا کہ یہ Friday the 10th کی تاریخ ہے۔ وقت نہیں ہے۔ تو آج بھی اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ Friday the 10th ہے اور فرانس کی پہلی مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے۔ خدا کرے کہ وہ برکات جو Friday the 10th کے ساتھ وابستہ ہیں، جن کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کو بھی خوشخبری دی گئی تھی، اور اللہ تعالیٰ ایک بات کو کئی رنگ میں پورا فرماتا ہے اور کئی طریقوں سے ظاہر فرماتا ہے، اللہ کرے کہ وہ اس مسجد کے ساتھ بھی وابستہ ہوں اور یہ مسجد جماعت کی ترقی کے لئے اس ملک میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ مئی 1985ء میں Friday the 10th والے کشف کے حوالہ سے افرادِ جماعت کی مختلف تعبیروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’…ایک بات بہر حال یقینی ہے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہو گی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا۔ اُس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ ہاں یہ بات پوری ہو گئی۔‘‘
چنانچہ ہم جماعت احمدیہ فرانس کے تاریخی پس منظر میں اور بالخصوص دسمبر 1984ء سے (جب فرانس میں حضور رحمہ اللہ کوFriday the 10th والے کشف کے ذریعہ خوشخبریوں کی نوید سنائی گئی) جمعۃ المبارک 10؍ اکتوبر 2008ء (یعنی فرانس میں جماعت کی پہلی مسجد ’مسجد مبارک‘کے افتتاح) تک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو دل بے اختیار یہ گواہی دیتا ہے کہ Friday the 10th کی خوشخبری بہت نمایاں اور وشن طور پر پوری ہو گئی۔
1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرانس میں ہی یہ کشف دیکھا تھا اور 28؍ دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں جو پیرس میں آپ نے دیا تھا اس میں اس کشف کا ذکر فرمایا۔اُس وقت فرانس میں احمدیوں کی تعداد کم و بیش ساٹھ افراد پر مشتمل تھی۔ جماعت کا اپنا کوئی مشن ہاؤس بھی نہیں تھا۔ اس وقت جماعت نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرنے کی کوشش کی لیکن پریس و میڈیا نے اسے بالکل درخور اعتناء نہیں سمجھا اور ایک بھی صحافی وہاں نہیں آیا۔ ایک طرف یہ حالات تھے اور دوسری طرف خدا ئے محسن و منّان اپنے پیارے بندے، خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو ایک کشف کے ذریعہ خوشخبریاں عنایت فرما رہا تھا۔
پھر اس کشف کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ 1985ء میں جماعت احمدیہ فرانس نے Saint Prix کے علاقہ میں ایک سہ منزلہ عمارت بطور مشن ہاؤس خریدی۔ 13؍ اکتوبر 1985ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس مشن کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ آپؒ نے اس مشن ہاؤس کو ’بیت السلام‘کا نام عطا فرمایا۔
1996ء میں حضور رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ فرانس کو ایک مسجد تعمیر کرنے کے لئے تحریک فرمائی۔
90ء کی دہائی میں جماعت کو علاقہ کے مکینوں کی طرف سے سخت مخالفت اور کئی قسم کی دھمکیوں کا سامنا تھا۔ علاقہ کے میئر کی طرف سے بھی شدید مخالفت کا اظہار تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشن ہاؤس کو جماعتی سرگرمیوں کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان نامساعد حالات میں بھی جماعت خلافت کی رہنمائی میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کرتی ر ہی۔ 1998ء کے آخر میں علاقہ کے میئر کی طرف سے جماعت کو لکھا گیا کہ کونسل کو پارکنگ کے لئے مشن ہاؤس کی جگہ سے قریبًا دس میٹر جگہ قیمتًا درکار ہے۔ اگرچہ مشن ہاؤس کی جگہ جماعتی ضروریات کو بمشکل پورا کرتی تھی اور افرادِ جماعت کا یہی خیال تھا کہ کونسل کو یہ جگہ فروخت نہ کی جائے۔ لیکن جب یہ معاملہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں برائے رہنمائی پیش ہوا تو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا
’’بہتر یہ ہے کہ احسان کے ساتھ خود ہی جگہ دے دیں۔ اللہ اپنے فضل سے آپ کو وسعتیں عطا فرمائے۔‘‘
(بحوالہ خط دفتر وکالت تبشیر لند ن محرّرہ 16؍ دسمبر 1998ء)
2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد میں میئر علاقہ کو ان کی مطلوبہ جگہ بلا معاوضہ تحفۃً دیدی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قائم کردہ خلافتِ حقہ اسلامیہ کے فیصلے اور دعا کو قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے حیرت انگیز طور پر جماعت کو برکتوں اور وسعتوں سے نوازا۔
30؍ جون 2003ء کو جماعت احمدیہ فرانس کو مشن ہاؤس ’’بیت السلام‘‘ سے ملحقہ ایک رہائشی عمارت خریدنے کی توفیق عطا ہوئی۔ اور 20؍ اگست 2006ء کو مشن ہاؤس کی زمین کے ساتھ ایک اور مکان بھی خریدا گیا۔ یوں 1985ء میں خریدا جانے والا مشن ہاؤس اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت خامسہ کے مبارک دور میں دو مزید رہائشی عمارات کے اضافہ کے ساتھ کافی وسعت اختیار کر گیا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ کی زیرِ ہدایت اس جگہ مسجد کی تعمیر کے لئے کوششوں کا آغاز ہوا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مقامی میئر اور کونسل کی طرف سے کافی مشکلات پیدا کی گئیں۔ پھر ایک موقع پر جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ فرانس تشریف لائے تو میئر کو بھی دعوت دی گئی۔ وہ دس منٹ کے لئے آنے کا وعدہ کر کے آئے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح کی پُر جذب روحانی شخصیت نے ان کو ایسا متأثر کیا کہ انہوں نے قادیان کے جلسہ کی مناسبت سے حضور ایّدہ اللہ کے فرانس سے ایم ٹی اے کے توسّط سے براہِ راست خطاب کو مکمل طور پر سنا اور بہت دیر تک مشن ہاؤس میں رہے۔ حضور ایّدہ اللہ کی دعاؤں سے کونسل کے رویّہ میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ علاقہ کی کونسل اور میئر نے مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دیدی اور تمام قانونی مراحل طَے کرنے کے بعد جولائی 2006ء میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں نقشہ جات منظور ہو کر آ گئے۔26؍ جنوری 2007ء کو مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کو حضور ایّدہ اللہ نے اس موقع پر اپنے نمائندہ کے طور پر بھجوایا۔ مسجد کی تعمیر کا کام کم و بیش ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ اس غرض سے افرادِ جماعت فرانس نے بڑی محبت اور بشاشت کے ساتھ مالی قربانی میں بھی حصّہ لیا۔ مسجد کی تعمیر کی غرض سے پرانی عمارت کو مسمار کرنے اور ملبہ اٹھانے کا کام ملا کر تعمیر کے خرچ کا تخمینہ کم و بیش دس لاکھ یورو کا تھا۔ مگر افرادِ جماعت نے کئی ماہ تک مسلسل وقارِ عمل کر کے تقریبًا چھ لاکھ یورو کی رقم بچائی اور تین لاکھ بیس ہزار یورو میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس مسجد میں کم و بیش 450؍ افراد کے لئے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کا گنبد اور مینار بھی ہے۔
8؍ اکتوبر 2008ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ اس مسجد کے افتتاح کے لئے فرانس تشریف لائے اُس وقت تک فرانس کے 22 شہروں میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا تھا اور 13 مضبوط، فعّال اور مستحکم جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے الجزائر، بنگلہ دیش، آئیوری کوسٹ، قموروز، کانگو، مصر، گھانا، گنی کوناکری، انڈیا، لاؤس(LAOS)، مالی، مراکش، جزیرہ Martinique، ماریشس، موریطانیہ، نائیجر، پاکستان، ری یونین آئی لینڈ، سینیگال، سیریا، ٹوگو، کانگو(کنشاسا)، تیونس، ترکی، مڈغاسکر، کوسووو، برطانیہ، سنگاپور، فلپائن، لکسمبرگ، فرانس اور گیانا 33؍ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف قوموں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے یہ احمدی خلافت احمدیہ کے ذریعہ وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے بہت مخلص اور فدائی اور خدمتِ سلسلہ میں مصروف ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت (اکتوبر 2008ء میں)فرانس جماعت کی نیشنل مجلس عاملہ کے 23؍ ممبران میں سے صرف چار پاکستانی تھے اور 19؍کا تعلق دیگر مختلف اقوام سے تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28؍ دسمبر 1984ء والے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا:
’’…تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ کریں اورحقیقی خوشی مجھے جماعت فرانس کی طرف سے تب پہنچے گی کہ دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے ۔ جہاں کوئی بھی وجود بظاہر احمدیت کا نظر نہیں آتا تھا وہاں ایک عظیم الشان جماعت قائم ہوجائے اور صرف فرانس کے لئے نہیں تمام دنیا میں جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہاں کے لئے فرانس میں ایک مضبوط مرکز قائم ہو ‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ دسمبر 1984ء بمقام پیرس۔ خطباتِ طاہر جلد 3 صفحہ 781)
اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اس خواہش کو بھی بڑی شان سے پورا فرمایا اور جماعت احمدیہ فرانس نہ صرف ملک کے اندر مسلسل ترقی کرتی رہی بلکہ فرانس مشن کی مساعی جمیلہ سے 2008ء تک آٹھ ممالک Monaco، Andora، Haiti، French Guyana ، Martinique، St Martin ، Palau، اور Guadeloupeمیں بھی احمدیت کا نفوذ ہوا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں بھی خلافت احمدیہ کے زیرِ ہدایت و نگرانی جماعت مسلسل ترقی پذیر ہے۔
1984ء میں وہ وقت تھا کہ فرانس کے پریس اور میڈیا نے خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ پریس کانفرنس کو کسی قسم کی اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ لیکن 2008ء میں یہ صورت تھی کہ جس روز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد مبارک کے افتتاح کی غرض سے فرانس تشریف لائے اسی روز حضور کی آمد سے قبل فرانس کے دو مشہور ریڈیو اسٹیشن France Info اور France Blue کے نمائندے مشن ہاؤس ’بیت السلام‘ پہنچے اور مسجد کے حوالہ سے انٹرویو ریکارڈ کئے۔
اسی طرح فرانس کے ہفتہ وار میگزین L’Express نے اپنی 9؍ تا 15؍ اکتوبر کی اشاعت میں صفحہ 24؍ پر حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ حسب ذیل خبر شائع کی۔ یعنی مسجد کے افتتاح سے قبل ہی اس کی پریس میں تشہیر ہو گئی۔
’’ایک نئی مسجد‘‘
’’فرانس میں احمدیوں کی پہلی مسجد۔ اس میں تین صد افراد کی گنجائش ہے جس کا افتتاح Saint Prix (Val-Doise)میں ان کے روحانی رہنما کی موجودگی میں ہوگا۔ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اور احمدیت ایک امن پسند فرقہ ہے… اس فرقہ کے افراد پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں Persecution کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
8؍ اکتوبر 2008ء کو ہی بعد دوپہر فرانس کے ایک اور بڑے نیشنل اخبارLe Parisien کے معروف جرنلسٹ Mr. Arnaud Baur مشن ہاؤس آئے۔ مسجد کی تصاویر لیں اور حضور ایّدہ اللہ کی فرانس آمد اور مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے معلومات لیں اور اسلام احمدیت کے متعلق بھی مبلغ سلسلہ فرانس اور پریس سیکرٹری سے انٹرویوز لئے۔
10؍ اکتوبر 2008ء بروز جمعۃ المبارک مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کے لئے نہ صرف فرانس کے دور دراز کے علاقوں سے بلکہ ہمسایہ ممالک جرمنی، بیلجیم، انگلستان، یونان اور سپین سے بھی افرادِ جماعت تشریف لائے۔ کم و بیش 40؍ اقوام و ممالک سے تعلق رکھنے والے آٹھ صد افراد اس موقع پر موجود تھے۔
مسجد مبارک کے افتتاح کی کوریج کے لئے ریڈیو، اخبار اور ٹی وی کے صحافی اور نمائندگان جمعہ کے روز صبح سے ہی مسجد اور مسجد کی تعمیر سے متعلق معلومات اور انٹرویوز کے لئے اپنے کیمروں وغیرہ کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے امیر جماعت، مبلغ انچارج، سیکرٹری تبلیغ و دیگر کئی افراد جماعت کے انٹرویوز کئے۔ اخبارات میں سے Le Parisien، L’Express، L’Echo، لوکل ریڈیو Radio Englien، ٹی وی France 3 اور France 24(جو فرنچ کے علاوہ انگریزی اور عربی میں نشریات کرتا ہے) کے نمائندے موجود تھے۔ Le Parisienنے دو مرتبہ اخبار میں خبر دی۔ ایک دفعہ مسجد کی تصویر کے ساتھ اور پھر حضور انور کی تصویر مبارک کے ساتھ جبکہ آپ مسجد کا افتتاح فرما رہے تھے۔ اسی طرح مقامی ریڈیوRadio Anglien نے سیکرٹری تبلیغ کا انٹرویو نشر کیا۔ جب حضور ایّدہ اللہ نے ’مسجد مبارک‘ کے بڑے داخلی دروازے کے پاس نصب افتتاح کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی اس وقت چاروں طرف صحافیوں کا ہجوم تھا اور مسلسل تصاویر لی جا رہی تھیں۔
France 3 ٹی وی نے اپنی شام سات بجے کی خبروں میں افتتاح کے متعلق دو منٹ پانچ سیکنڈ کی خبر نشر کی۔ جبکہ France 24 نے دو منٹ 55 ؍ سیکنڈ کی انگریزی میں رپورٹنگ دکھائی۔ بعد میں France 24نے ہر چار گھنٹے بعد متعدّد بار انگریزی، فرنچ اور عربی میں حضور ایّدہ اللہ کے مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے اور خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کے مناظر کی Flash Back دکھائیں اور خبروں میں وضاحت سے بتایا کہ احمدی قرآن مجید کو ہی اپنی مذہبی کتاب مانتے ہیں۔ ارکانِ اسلام پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فرق کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ احمدی امام مہدی و مسیح موعود کو مانتے ہیں جو تمام بنی نوع انسان کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لئے آئے ہیں۔ اور یہ کہ احمدی مذہب کے نام پر جنگ اور ہر قسم کے تشدّد کے خلاف ہیں اور اسلام کی پُر امن تصویر پیش کرتے ہیں اور ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
الغرض میڈیا نے بہت ہی مثبت رنگ میں اور ادب و احترام کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کیا۔
مسجد کے بارہ میں ایک ٹی وی نے کہا کہ آج ساری دنیا کے احمدی کہہ سکتے ہیں کہ آج فرانس میں Saint Prix کے علاقہ میں ہماری ایک مسجد ہے۔
مسجد کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی کے وقت علاقہ کے میئر Jean-Pierre Enjalbert بھی موجود تھے۔یہ وہی میئر ہیں جن کا رویّہ آغاز میں جماعت کے ساتھ بہت ہی خشک بلکہ معاندانہ تھا۔
فرانس کے میڈیا کے علاوہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ ساری دنیا میں یہ ساری کارروائی براہِ راست دکھائی جا رہی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ نے مسجد مبارک کے افتتاح کے روز خطبہ جمعہ میں فرانس میں اس مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے مخالفت اور اس کی تاریخ کا بھی مختصر ذکر فرمایا۔ احباب جماعت کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دی اور مسجد کی تعمیر کی غرض و غایت اور عبادتوں کے قیام اور تبلیغ اور اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دلائی۔
حضورِ انور ایّدہ اللہ کا نہایت ہی پُر معارف اور بصیرت افروز خطبہ جمعہ نہ صرف ایم ٹی اے کے ذریعہ براہِ راست ساری دنیا میں نشر ہوا بلکہ فرانس کے دو ٹی وی چینلز نے بھی خطبہ جمعہ کے بعض مناظر ریکارڈ کئے اور اپنی نشریات میں اس کی جھلکیاں دکھائیں۔
خلافت جوبلی کے اس اہم سال میں جمعۃ المبارک 10؍ اکتوبر2008ء کو ہی مسجد مبارک کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب عشائیہ کا اہتمام مسجد کے ملحقہ حصّہ میں مارکی لگا کر کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں علاقہ کے میئر اپنی کیبنٹ کے ممبران کے ساتھ شامل ہوئے۔ اسی طرح جرمنی، کینیا، آئیوری کوسٹ، ٹوگو، بورکینا فاسو اور انڈیا کے سفارتخانوں کے معزز نمائندگان، اخبارات و ریڈیو کے نمائندگان، یونیورسٹی کے پروفیسرز، Saint Prixکے چرچ کے پادری، مسجد کے بہت سے ہمسائے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے کئی ایک مہمان شامل ہوئے۔
اس موقع پر اس علاقہ کے میئر صاحب نے حضورِ انور کے خطاب سے قبل اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے برملا طور پر کہا کہ:
’’آج کا دن نہ صرف آپ لوگوں کے لئے خاص دن ہے بلکہ ہمارے لئے بھی خاص دن ہے۔ آپ لوگ جو ایک پُر امن جماعت ہیں جب آپ اسلام کا پیغام لے کر ہمارے اس علاقہ Saint Prix میں آئے تو ہم نے آپ کو خوش آمدید نہیں کہا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ آپ پُرامن جماعت ہیں۔ آپ نے ہمارے دل جیت لئے ہیں۔ اس لئے اس خوشی کے موقع پر آج ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بھی آج خوش ہیں۔
میئر صاحب نے کہا کہ: گزشتہ 22؍ سال سے مَیں اس جماعت کو جانتا ہوںاور 22؍ سال کا عرصہ کسی کو جاننے کے لئے کافی ہے۔ آج میں خود برملا اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ کے محبت اور امن کے پیغام نے ہمارے دل جیت لئے ہیں…
میئر نے کہا کہ …آپ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ آپ نے بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ مَیں اس میں شامل ہوا تھا۔ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی جماعت حکومت کے قوانین اور اصولوں کی زیادہ پاسداری اور احترام کرتی ہے۔
میئر نے کہا کہ آپ نہ صرف لوگوں کو اسلامی تعلیم دیتےہیں بلکہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ انسانیت کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ مل کر آپ نے بہت سے پراجیکٹس میں حصّہ لیا ہے جس سے دوسروں کی مدد ہوئی ہے۔‘‘
اس موقع پر حضورِ انور ایّدہ اللہ نے اپنے خطاب میں اسلام کی امن و سلامتی کی خوبصورت تعلیم اور جماعت احمدیہ کی خدمتِ انسانیت کے حوالہ سے بہت ہی دلکش اور اثر انگیز خطاب فرمایا جس کا شاملین تقریب نے کھلم کھلا اعتراف کیا۔
ذیل میں بعض اخبارات میں اس مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبریں نمونۃًدرج کی جاتی ہیں۔
ز…ہفتہ وار ریجنل اخبارL’Echo نے صفحہ 9 پر پورے صفحہ کی خبر دی۔ اس میں خانہ کعبہ، مسجد مبارک فرانس اور حضور ایّدہ اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی کُل چار تصویریں شائع کیں۔ پہلے صفحہ کی تصویر کے ساتھ ’’جماعت احمدیہ کی فرانس میں پہلی مسجد‘‘ کے افتتاح کا جلی عنوان لگایا۔ اور لکھا:
’’فرانس کے احمدی مسلمان Saint Prix میں اپنی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں۔ جماعت کے عالمگیر راہنما کی موجودگی میں اس تقریب کو میڈیا نے نشر کر کے اس اسلامی دینی موومنٹ کے بارہ میں عوام کو بتایا‘‘۔
اور تفصیلی خبر میں لکھا:
’’Saint Prix میں احمدیہ موومنٹ 1985ء سے قائم ہے جہاں اس کا نیشنل سطح کا مرکز ہے۔ اس غیرمعروف جماعت کے ممبران کی تعداد ایک ہزار ہے۔ اس نے پہلے ایک Villa حاصل کیا۔ پھر دوسرا اور پھر مسجد کی تعمیر کی اجازت۔ Saint Prix کے میئر Jean-Pierre Enjalbert نے کہا: ’’پہلے پہل ان کے بارہ میں خوف تو نہیں مگر بےیقینی اور بے اعتمادی تھی۔ پھر ہم نے ایک دوسرے کو جانچا۔ یہ جماعت ہمارے علاقہ کے ماحول پر ظاہر و باہر ہے۔ اس کے پاس نماز کی ادائیگی کے لئے ایک ہال تھا جو بہت چھوٹا پڑ گیا تھا لہٰذا ہم نے ایک مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی جو تعمیر کے لحاظ سے ماحول میں رچ بس جائے۔‘‘
اسی طرح اس اخبار نے لکھا:
…اس جماعت کے سر پر دینی لحاظ سے ایک خلیفہ ہے۔ (موجودہ خلیفہ پانچواں ہے) آپ خدا کے فرستادہ کے جانشین ہیں۔ آپ روحانی رہنما ہیں… لیکن یہ سیاسی خلیفہ یا خود ہی مومنوں کے کمانڈر ہونے کا دعویدار نہیں جیسے مسلمانوں نے بغداد، قرطبہ، دمشق، قاہرہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے زمانہ میں دیکھا تھا جس نے علاقائی فتوحات کی تھیں…۔
پھر اسی خبر میں ’ایک جماعت تنقید کا نشانہ‘ کا عنوان لگا کر لکھا:
’’احمدیہ موومنٹ کا ایک خلیفہ ہے اور امسال یہ جماعت اپنی خلافت کی صد سالہ جوبلی منا رہی ہے۔ اس دینی جماعت کے روحانی امام گزشتہ جمعہ مسجد کے افتتاح کے لئے خود موجود تھے… اسلام میں احمدیہ خلیفہ غالبًا ایسے ہی ہے جیسے بدھسٹ کے لئے دلائی لامہ۔‘‘
اس خبر میں حضور ایّدہ اللہ کے خطبہ کے حوالہ سے بھی بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔ اسی طرح لکھا کہ :
’’دیگر مسلمان بلحاظ مجموعی احمدیوں کو برداشت نہیں کرتے۔ پاکستان کی طرح سعودی عرب میں بھی یہ ناقابلِ قبول ہیں اور امّتِ مسلمہ سے الگ کر دیئے گئے ہیں (جب کہ اسلام میں ناممکن ہے کہ کسی ایک کو بھی اسلام سے باہر نکالا جائے)۔ پھر خلافت کے قیام کی وجہ سے احمدیت یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ امام مہدی جس کا انتظار مسلمان دنیا کر رہی ہے وہ آ چکاہے۔‘‘
(Fabrice CAHEN)
ز…L’Hebdo du Val-D’Oise کے اخبار La Gazette کے بدھ 15؍ اکتوبر 2008ء کے ایڈیشن میں بھی مسجد کے افتتاح کا ذکر شائع ہوا۔ 68 صفحات پر مشتمل اس اخبار کے صفحہ 37 پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی۔
ـ”Sait Prix
’احمدی مسلمان اپنی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں‘
اخبار نے تصویر میں دکھایا کہ مسجد افرادِ جماعت سے بھری ہوئی ہے اور حضور ایّدہ اللہ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ تصویر کے نیچے تحریر ہے:
’’احمدی سلطان نے مسجد کا افتتاح کیا‘‘
اور تفصیلی خبر میں لکھا:
’’Saint Prixمیں احمدی مسلمانوں نے اپنی مسجد کا افتتاح کیا۔ جماعت کے عالمگیر رہنما کی موجودگی میں اس تقریب کو میڈیا نے نشر کر کے اس اسلامی دینی موومنٹ کے بارے میں عوام کو بتایا۔
اس کے بعد اخبار نے L’Echo میں شائع ہونے والے جماعت فرانس کے تعارف اور میئر کے بیان کا ذکر دہرایا۔ اور پھر لکھا:
’’اس دینی جماعت کے روحانی امام گزشتہ جمعہ مسجد کے افتتاح کے لئے خود موجود تھے۔ Val-d’Oise اور Francilienneکی اس چھوٹی سی جماعت کے لئے جو آپ کا وعظ سننے اور آپ کی موجودگی میں نماز پڑھنے آئی تھی آپ کی آمد ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28؍ دسمبر 1984ء کو پیرس(فرانس) میں ہی Friday the 10th کے مبشر کشف کے حوالہ سے فرمایا تھا کہ
’’خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہو گی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا۔ اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ یہ بات پوری ہو گئی۔‘‘
بلاشبہ جماعت کی خلافت جوبلی کے سال میں جمعہ 10؍ اکتوبر 2008ء کو Friday the 10th
کی یہ خوشخبری اس نمایاں شان سے روشن اور درخشاں طور پر پوری ہوئی کہ نہ صرف فرانس بلکہ ساری دنیا میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ خدائی خبر بڑی صفائی سے پوری ہوئی اور اپنوں اور غیروں نے اس کی صداقت پر شہادت دی۔ یقینًا ہمارا خدا سچے وعدوں والا ہے اور خلافتِ احمدیہ اس سے مؤیّد و منصور اور الٰہی تجلّیات کی مورَد ہے۔