خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 27؍ جولائی 2018ء

حضرت مُنْذِرْ بن محمد انصاری اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضوان اللہ علیہم کے حالات زندگی اور سیرت کے مختلف پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ۔

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کی اعلیٰ خصوصیات کا حامل ہمیں بھی بنائے اور ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27؍ جولائی 2018ء بمطابق27؍وفا 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

صحابہ کے ذکر میں آج میں دو صحابہ کا ذکر کروں گا۔ پہلے ہیں حضرت منذر بن محمد انصاری۔

حضرت منذر بن محمد کا تعلق قبیلہ بنو جَحْجَبَا سے تھا۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت منذر بن محمد اور طفیل بن حارث کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ248 منذر بن محمدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) جب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور حضرت ابو سَبْرَہ بِن اَبِی رُھْم مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انہوں نے حضرت مُنذر بن محمد کے گھر قیام کیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ55 زبیر بن العوامؓ، صفحہ 61 حاطب بن ابی بلتعہ، صفحہ 215 ابو سبرہ بن ابی رھم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) حضرت منذر نے غزوہ بدر اور اُحد میں شرکت کی اور بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ248 منذر بن محمدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) بئر معونہ کا پہلے بھی ایک دو جگہ صحابہ کے واقعات میں ذکر ہو چکا ہے۔ دوبارہ اس حوالے سے مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت منذر کی شہادت کی جو تفصیل ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر 4ہجری میں منذر بن عمرو انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے۔ ان کی تعداد ستّر تھی۔ سارے کے سارے قاری تھے۔ یعنی قرآن خواں تھے۔ جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے، لکڑیاں بیچتے اور پھر اپنا پیٹ پالتے۔ رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئر مَعُوْنَہ کے نام سے مشہور تھا تو ان میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور اَبُوبَرَاء عامر کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے۔ باقی صحابہ پیچھے رہے۔ جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طفیل اور ان کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر بڑی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کا پیغام پہنچانے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزے کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس وقت جب حَرام بن مِلحان زخمی ہوئے تو ان کی زبان پر الفاظ تھے کہ اَللہُ اَکْبَر فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کہ اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم! کہ مَیں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ کریں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابوبَراء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے اس پر عامر نے قبیلہ بنو سُلَیم میں سے بَنُو رِعْل اور ذکوان اور عُصَیَّہ وغیرہ کو(یعنی وہی لوگ جو بخاری کی حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے کہ ہمیں کچھ لوگ بھیجیں جو ہمیں تبلیغ کریں) اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرّض نہیں ہے۔ ہم کوئی لڑائی کرنے نہیںآئے۔ ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور ہم تم سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا۔ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا اور پہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا۔ ان صحابی کا نام کعب بن زید تھا۔ (ان کا ذکر ہو چکا ہے۔) بعض اَور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوئے تھے اور کفار انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے مگر اصل میں ان میں جان باقی تھی اور وہ بعد میں بچ گئے۔

صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عَمرو بن اُمیّہ ضَمْرِی اور مُنذِر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر اِدھر اُدھر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرے کی طرف نظر ڈالی تو انہوں نے دیکھا کہ پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ ہوا میں اڑتے پھر رہے ہیں۔ وہ اس صحرائی اشارے کو خوب سمجھتے تھے۔( جب ریت میں پرندے اس طرح جھنڈ کے جھنڈ پھر رہے ہوں تو مطلب ہوتا ہے کہ نیچے ان کے لئے کھانے کا کوئی انتظام ہے۔) وہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ واپس آئے اور دیکھا تو ظالم کفار کے کشت و خون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ دور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہئے اور مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینی چاہئے۔ مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا۔ جہاںہمارا امیر منذر بن عمرو شہید ہوا ہے وہیں ہم لڑیں گے۔ چنانچہ وہ بھی آگے بڑھے اور لڑ کر شہید ہوئے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 518-519) یعنی منذر بن محمد جو اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے جب وہ آئے تو انہوں نے بھی دشمنوں کا مقابلہ کیا اور وہیں شہید ہوئے۔اس طرح ان کی شہادت 4ہجری میں ہوئی۔ ‘‘

دوسرے صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ہیں۔ ان کا تعلق قبیلہ لخم سے تھا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ بنو اَسد کے حلیف تھے۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی کنیت ابو محمد تھی۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اہل یمن میں سے تھے۔ عاصم بن عمر روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور آپ کے غلام سعد نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں حضرت مُنذِر بن محمد بن عُقْبَہ کے پاس رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور حضرت رُخَیْلَہ بن خالد کے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم فرمایا اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُوَیم بن سَاعِدَہ اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے درمیان مؤاخات کا تعلق قائم کیا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک تبلیغی خط دے کر مقوقس شاہ اسکندریہ کے پاس بھیجا۔ حضرت حاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر اندازوں میں سے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ زمانہ جاہلیت میں قریش کے بہترین گھڑ سواروں اور شعراء میں سے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ عبیداللہ بن حَمِید کے غلام تھے اور آپ نے اپنے مالک سے مکاتبت کر کے آزادی حاصل کر لی تھی اور مکاتبت کی رقم انہوں نے فتح مکّہ کے دن ادا کی تھی۔(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 491 حاطب بن ابی بلتعہؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 61 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ242 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)،(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2صفحہ 4-5 حاطب بن ابی بلتعہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) حضرت اُمّ سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاوند کی وفات کے بعد شادی کا جو پیغام دے کر میرے پاس بھیجا تھا وہ حاطب بن ابی بلتعہ کو بھیجا تھا۔
(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ما یقال عند المصیبۃ جلد 4 صفحہ 80 حدیث 1516 مترجم نور فاؤنڈیشن )
ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک نے حاطب بن ابی بلتعہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے دن میری طرف متوجہ ہوئے۔جنگ کے بعد جب ذرا حالات بہتر ہوئے تو قریب گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں تھے۔ حضرت علی کے ہاتھ میں پانی کا برتن تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی سے اپنا چہرہ دھو رہے تھے۔ حاطب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کس نے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُتبہ بن ابی وقاص نے میرے چہرے پر پتھر مارا ہے۔ حضرت حاطب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں نے یہ آواز پہاڑی پر سنی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دئیے گئے ہیں اور اس آواز کو سن کر میں اس حالت میں یہاں آیا ہوں گویا کہ میری روح نکل رہی ہے۔ میری جان نکل رہی ہے۔ لگتا ہے جسم میں جان نہیں۔ حضرت حاطب نے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ عتبہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کیا کہ فلاں طرف ہے۔ حضرت حاطب اس کی طرف گئے۔ وہ آدمی چھپا ہوا تھا یہاں تک کہ آپ اسے قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت حاطب نے تلوار کے وار سے اس کا سر اتار دیا۔ پھر آپ اس کا سر اور سامان اور اس کا گھوڑا پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سارا کچھ سامان حضرت حاطب کو دے دیا اور حضرت حاطب کے لئے دعا کی۔ آپ نے فرمایا اللہ تجھ سے راضی ہو۔ اللہ تجھ سے راضی ہو۔( دو دفعہ فرمایا۔)

(کتاب السنن الکبریٰ للبیہقی، جماع ابواب الانفال باب السلب للقاتل حدیث 13041 جزء 6 صفحہ 504 مکتبۃ الرشد ناشرون 2004ء)

حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی وفات 30ہجری میں مدینہ میں 65 سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ61مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط مقوقس کو بھیجا تھا اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہوا ہے کہ یہ تیسرا خط تھا جو بادشاہوں کو بھیجا گیا۔(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 818) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بیان فرمایا کہ چوتھا خط تھا۔(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 321)بہرحال اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے سربراہوں اور بادشاہوں کو جو خط لکھے گئے تھے ان میں سے ایک خط مقوقس والی مصر کے نام بھی تھا جو قیصر کے ماتحت مصر اور اسکندریہ کا والی یعنی موروثی حاکم تھا اور قیصر کی طرح مسیحی مذہب کا پیرو تھا۔ اس کا ذاتی نام جُرَیْج بِن مِیْنَا تھا اور وہ اور اس کی رعایا قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا۔ اور اس خط کے الفاظ یہ تھے :بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلَی الْمُقَوْقَسِ عَظِیْمِ الْقِبْطِ۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْاِسْلَامِ اَسْلِمْ تُسْلَمْ یُؤْتِکَ اللہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۔ فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْقِبْطِ۔ یَا اَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلَی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَنْ لَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًاوَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بن مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔ یہ خط محمدؐ خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے قبطیوں کے رئیس مُقَوقَس کے نام ہے۔ سلامتی ہو اس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے۔ اس کے بعد اے والی مصر! میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔ مسلمان ہو کر خدا کی سلامتی کو قبول کرو کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر آپ نے رُوگردانی کی تو( علاوہ خود آپ کے اپنے گناہ کے) قبطیوں کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے ہی کسی کو اپناآقا اور حاجت روا نہ گردانیں۔ پھر اگر ان لوگوں نے روگردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہرحال خدائے واحد کے فرمانبردار بندے ہیں۔

یہ خط تھا جو آپ نے اس والی کو بھیجا۔ جب حاطب بن ابی بلتعہ اسکندریہ پہنچے تو مُقَوقس کے حاجب یعنی دربان سے مل کر اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پیش کیا۔ مُقَوقَس نے خط پڑھا اور پھر حاطب بن ابی بلتعہ سے مخاطب ہو کر نیم مذاقیہ رنگ میں کہا کہ اگر تمہارا یہ صاحب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) واقعی خدا کا نبی ہے تو( اس خط کے بھجوانے کی بجائے) اس نے میرے خلاف خدا سے یہ دعا ہی کیوں نہ کی کہ خدا اسے مجھ پر مسلّط کر دے۔( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس والی پر مسلط کر دے۔) حاطبؓ نے جواب دیا کہ اگر یہ اعتراض درست ہے جو تم کر رہے ہو تو یہ اعتراض حضرت عیسیٰ پر بھی پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفوں کے خلاف اس قسم کی دعا کیوں نہیں کی تھی۔ پھر حاطب نے مُقَوقَس کو ازراہ نصیحت کہا کہ آپ سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں کیونکہ اس سے پہلے آپ کے اسی ملک مصر میں ایک ایسا شخص( یعنی فرعون) گزر چکا ہے جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہی ساری دنیا کا رب اور حاکم اعلیٰ ہے جس پر خدا نے اسے ایسا پکڑا کہ وہ اگلوں اور پچھلوں کے لئے عبرت بن گیا۔ پس میں آپ سے مخلصانہ طور پر عرض کروں گا کہ آپ دوسروں کے حالات سے عبرت پکڑیں اور ایسے نہ بنیں کہ دوسرے لوگ آپ کے حالات سے عبرت پکڑیں۔ والی نے جب دیکھا کہ اتنی جرأت سے بول رہے ہیں تو کہنے لگا بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے سے ایک دین حاصل ہے اس لئے جب تک ہمیں اس سے کوئی بہتر دین نہ ملے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے یعنی عیسائیت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ حاطب رضی اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اسلام وہ دین ہے جو سب دوسرے دینوں سے غنی کر دیتا ہے۔( آخری دین ہے اور سب دین اس میں سمٹ گئے ہیں۔) لیکن وہ یقیناً آپ کو اس بات سے نہیں روکتا کہ آپ حضرت مسیح ناصری پر بھی ایمان لائیں بلکہ وہ سب سچے نبیوں پر ایمان لانے کی تلقین کرتا ہے اور جس طرح حضرت موسیٰ نے حضرت عیسیٰ کی بشارت دی تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت بھی دی ہے۔ اس پر مُقَوقَس کچھ سوچ میں پڑ کر خاموش ہو گیا۔ مگر اس کے بعد ایک دوسری مجلس میں جبکہ بعض بڑے بڑے پادری بھی موجود تھے مُقَوقَس نے حاطب سے پھر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے نبی اپنے وطن سے نکالے گئے تھے۔تو جب تمہارے نبی اپنے وطن سے مکہ سےنکالے گئے تو انہوں نے اس موقع پر اپنے نکالنے والوں کے خلاف بددعا کیوں نہ کی تا کہ وہ لوگ ہلاک کر دئیے جاتے اور نبی امن میں رہتے۔ حاطبؓ نے یہ بات سنی تو اس والی کو جواب دیا کہ ہمارے نبی تو صرف وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے مگر آپ کے مسیح کو تو یہودیوں نے پکڑ کر سولی کے ذریعہ ختم ہی کر دینا چاہا مگر پھر بھی وہ اپنے مخالفوں کے خلاف بددعا کر کے انہیں ہلاک نہ کر سکے۔ مُقَوقس نے جب جواب سنا تو متاثر ہوا۔ کہنے لگا کہ تم بیشک ایک عقلمند انسان ہو اور ایک دانا انسان کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہو۔ اس کے بعد کہنے لگا کہ میں نے تمہارے نبی کے معاملے میں غور کیا ہے۔ کہنے لگا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے واقعی کسی بری بات کی تعلیم نہیں دی اور نہ کسی اچھی بات سے روکا ہے۔ پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر اس پر اپنی مہر لگائی اور اسے حفاظت کے لئے اپنے گھر کی ایک معتبر لڑکی کے سپرد کر دیا۔ بہرحال اس خط سے اس نے عزت کا سلوک کیا۔ اس کے بعد مقوقس نے اپنے ایک عربی دان کاتب کو بلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام خط لکھوایا اور خط لکھوا کرحاطبؓ کے حوالے کیا۔ اس خط کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ :خدا کے نام کے ساتھ جو رحمن اور رحیم ہے یہ خط محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام قبطیوں کے رئیس مقوقس کی طر ف سے ہے آپ پر سلامتی ہو۔ میں نے آپ کا خط اور آپ کے مفہوم کو سمجھا اور آپ کی دعوت پر غور کیا۔ میں یہ ضرور جانتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے مگر میں خیال کرتا تھا کہ وہ ملک شام میں پید اہو گا (نہ کہ عرب میں) اور میں آپ کے سفیر کے ساتھ عزت سے پیش آیا ہوں اور میں اس کے ساتھ دو لڑکیاں بھجوا رہا ہوں جنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل ہے۔یہ اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں ہیں اور میں کچھ پارچات بھی بھجوا رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لئے خچر بھی بھجوا رہا ہوں۔ والسلام۔ اس کے بعد اس کے دستخط۔

اس خط سے ظاہر ہے کہ مُقَوقَس مصر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے ساتھ عزت سے پیش آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی میں ایک حد تک دلچسپی بھی لی مگر بہرحال اس نے اسلام قبول نہیں کیا اور دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ عیسائی مذہب پر ہی اس کی وفات ہوئی۔ اس کی گفتگو کے انداز سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ بیشک مذہبی امور میں دلچسپی تو لیتا تھا مگر جو سنجیدگی اس معاملے میں ضروری ہے وہ اسے حاصل نہیں تھی۔ اس لئے اس نے بظاہر مؤدبانہ رنگ رکھتے ہوئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹال دیا۔

جو دو لڑکیاں مقوقس نے بھجوائی تھیں ان میں سے ایک کا نام ماریہ اور دوسری کا نام سِیْرِیْن تھا اور یہ دونوں آپس میں بہنیں تھیں اور جیسا کہ مقوقس نے اپنے خط میں لکھا تھا وہ قبطی قوم میں سے تھیں اور یہ وہی قوم ہے جس سے خود مقوقس کا تعلق تھا اور یہ لڑکیاں عام لوگوں میں سے نہیں تھیں بلکہ مقوقس کی اپنی تحریر کے مطابق اُنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ دراصل معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں میں یہ پرانا دستور تھا کہ اپنے ایسے معزز مہمانوں کو جن کے ساتھ وہ تعلقات بڑھانا چاہتے تھے رشتہ کے لئے اپنے خاندان یا اپنی قوم کی شریف لڑکیاں پیش کر دیتے تھے تا کہ ان سے شادی ہو جائے۔ آپ لکھتے ہیں کہ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر میں تشریف لے گئے تو مصر کے رئیس نے انہیں بھی ایک شریف لڑکی یعنی حضرت ہاجرہ رشتہ کے لئے پیش کی تھی جو بعد میں حضرت اسماعیل اور ان کے ذریعہ بہت سے عرب قبیلوں کی ماں بنی۔ بہرحال مُقَوقَس کی بھجوائی ہوئی لڑکیوں کے مدینہ پہنچنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت ماریہ کو تو خود اپنے عقد میں لے لیا اور ان کی بہن سیرین کو عرب کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے عقد میں دے دیا۔ یہ ماریہ وہی مبارک خاتون ہیں جن کے بطن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو زمانہ نبوت کی گویا واحد اولاد تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں لڑکیاں مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہو گئی تھیں۔

جو خچر اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں آئی تھی وہ سفید رنگ کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اکثر سواری فرمایا کرتے تھے اور غزوہ حنین میں بھی یہی خچر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے تھی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 818 تا 821)جو خط مقوقس کو لکھا گیا تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات زائد بیان فرمائی ہے کہ: یہ خط بعینہٖ وہی ہے( اسی طرح کا خط ہے۔ وہی الفاظ ہیں) جو روم کے بادشاہ کو لکھا گیا تھا۔ صرف یہ فرق ہے کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ اگر تم نہ مانے تو رومی رعایا کے گناہوں کا بوجھ بھی تم پر ہو گا اور اس میں یہ تھا کہ قبطیوں کے گناہوں کا بوجھ تم پر ہو گا۔ جب حاطب رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو اس وقت مقوقس اپنے دارالحکومت میں نہیں تھا بلکہ اسکندریہ میں تھا۔ حاطب اسکندریہ گئے جہاں بادشاہ نے سمندر کے کنارے ایک مجلس لگائی ہوئی تھی۔ حاطب بھی ایک کشتی میں( ہو سکتا ہے وہ وہاںکہیں جزیرہ ہو) سوار ہو کر اس مقام تک گئے اور چونکہ ارد گرد پہرہ تھا انہوں نے دور سے خط کو بلند کر کے آوازیں دینی شروع کیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لایا جائے اور پھر ان کی خدمت میں پیش کیا جائے۔

پھر آپ نے یہ بھی لکھا کہ حاطبؓ نے مقوقس کو یہ بھی کہا کہ ’’خدا کی قَسم موسیٰ نے عیسیٰ کے متعلق ایسی خبریں نہیں دیں جیسی کہ عیسیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دی ہیں اور ہم تمہیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں جس طرح تم لوگ یہودیوں کو عیسیٰ کی طرف بلاتے ہو۔پھر کہنے لگے کہ ہر نبی کی ایک اُمّت ہوتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کرے۔ پس جبکہ تم نے اس نبی کا زمانہ پایا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے نبی بنا کے بھیجا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کو قبول کرو اور ہمارا دین تم کو مسیح کی اتباع سے روکتا نہیں بلکہ ہم تو دوسروں کو بھی حکم دیتے ہیںکہ وہ مسیح پر ایمان لائیں۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 322) یہ وہ لوگ تھے جو بڑی جرأت سے اور بڑی حکمت سے تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ کوئی حاکم ہے یا والی ہے یا بادشاہ ہے کسی کے سامنے کبھی ان کو خوف نہیں ہوا ۔

پھرمکہ والوں کی طرف عورت کے خط لے جانے کاجو واقعہ آتا ہے یہ حاطب بن ابی بلتعہ ہی تھے جنہوں نے اس عورت کے ہاتھ مکہ والوں کے لئے خط بھیجا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی اطلاع دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فتح مکہ کے لئے لشکر کے ساتھ کوچ فرمایا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش مکہ کو ایک عورت کے ہاتھ خط بھیجا۔حضرت سیّد زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’اس واقعہ کی تفصیل سے قبل امام بخاری نے یہ قرآنی آیت لکھی ہے کہ لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ۔کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو کبھی دوست نہ بناؤ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا۔ آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ جب تم رَوْضَۃ خَاخ ایک جگہ ہے وہاں پہنچو تو وہاں ایک شُتر سوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو۔ ہم چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے۔ جب ہم رَوْضَۃ خَاخ میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے۔ ہم نے اسے کہا کہ خط نکالو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے۔ اس پر اس نے وہ خط اپنے جُوڑے سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارادے کی ان کو اطلاع دے رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایا اور پوچھا حاطب یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں۔ میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میںآ کر مل گیا تھا ان میں سے نہ تھا۔ اور دوسرے مہاجرین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتہ داریاں تھیں جن کے ذریعہ سے وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے رہے ہیں۔ میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں۔ اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا۔( نہ میں نے انکار کیا ہے۔ نہ مرتد ہوا ہوں۔ نہ میں نے اسلام کو چھوڑا ہے۔ نہ میں منافق ہوں۔ میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا۔) اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا۔( میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تم سے سچ بیان کیا ہے۔ حضرت عمرؓ وہاں موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ قتل کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو جنگ بدر میں موجود تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا جو تم چاہو کرو میں نے تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کر دی ہے۔‘‘

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الجاسوس حدیث 3007 ترجمہ و تشریح ماخوذ از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 5 صفحہ 350 تا 352 نظارت اشاعت ربوہ)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ’’ ایک اور حدیث میں اس عورت کو مشرکہ کہا گیا ہے اور اس کے تعاقب میں جانے والے حضرت علی، حضرت ابو مَرْثَدغَنَوِی اور حضرت زبیر تھے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار چلی جا رہی تھی۔ خط کے چھپانے کے متعلق دوسری روایت میں لکھا ہے کہ جب اس نے ہمیں سنجیدہ دیکھا تو وہ اپنی کمر پر بندھی ہوئی چادر کی طرف جھکی اور خط نکال کر رکھ دیا۔ ہم اس عورت کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے خیانت کی ہے۔ یا رسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا کیا وہ(یعنی حاطب بن ابی بلتعہ) جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں تھا؟ آپ نے فرمایا امید ہے اللہ نے اہل بدر کو دیکھا ہو اور یہ کہاہو جو تم چاہو کرو تمہارے لئے جنت ہو چکی۔ یا فرمایا میں نے تمہاری پردہ پوشی کر کے تم کو معاف کر دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدراً حدیث 3983 ترجمہ و تشریح از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 8 صفحہ53 تا 55 نظارت اشاعت ربوہ)

حضرت ابوبکرؓ نے بھی حضرت حاطب کو مقوقس کے پاس مصر بھیجا تھا اور ایک معاہدہ ترتیب دیا تھا جو حضرت عمرو بن عاص کے مصر پر حملہ تک طرفین کے درمیان قائم رہا۔ ایک امن کا معاہدہ تھا۔

(الاستیعاب جلد 1صفحہ 376 حاطب بن ابی بلتعہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حضرت حاطب کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت حاطب خوبصورت جسم کے مالک تھے۔ ہلکی داڑھی تھی۔ گردن جھکی ہوئی تھی۔ پست قامتی کی طرف مائل اور موٹی انگلیوں والے تھے۔

یعقوب بن عُتبہ سے مروی ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے اپنی وفات کے دن چار ہزار درہم اور دینار چھوڑے۔ آپ غلّہ وغیرہ کے تاجر تھے اور آپ نے اپنا ترکہ مدینہ میں چھوڑا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 61 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حاطبؓ کا غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے مالک حضرت حاطب کی شکایت لے کر آیا۔ غلام نے کہا کہ اے اللہ کے رسول حاطب ضرور جہنم میں داخل ہو گا۔( کوئی سخت سست اس کو کہا ہو گا)۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تُو نے جھوٹ بولا ہے۔ وہ اس میں ہرگز داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہوا تھا۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فیمن سبّ اصحاب النبیﷺ حدیث 3864)

جیسا کہ بتایا گیا کہ حضرت حاطبؓ جو تھے وہ تاجر بھی تھے۔ منڈی میں مال فروخت کیا کرتے تھے اور مال فروخت کرنے اور قیمتوں کے مقرر کرنے کی جو اسلامی تعلیم ہے وہ کیا ہے؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے بات بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے مدینہ منورہ میں قیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی۔( یعنی مارکیٹ کی جو قیمتیں ہوتی تھیں وہ اسلامی حکومت قیمتیں مقرر کرتی تھی۔) چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص حاطبؓ بن ابی بلتعہ اَلْمُصَلَّی نامی بازار میں دو بورے سُوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے۔( سوکھے انگور کہہ لیں یا بعض جگہ کشمش لکھا ہوا ہے۔) حضرت عمرؓ نے ان سے بھاؤ دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دو مُدّ بتائے( کہ ایک درہم میں دو مُدّ آتے ہیں۔)یہ جو قیمت تھی، جو بھاؤتھا، یہ بازار کی عام قیمت سے سستا تھا۔ اس پر حضرت عمر نے ان کو حکم دیا کہ اپنے گھر جا کر فروخت کریں کیونکہ یہ بہت سستا ہے مگر بازار میں اس قدر سستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس سے بازار کا بھاؤ خراب ہوتا ہے اور لوگوں کو بازار والوں پر بدظنی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ مارکیٹ کی جو زیادہ قیمت ہے اس پر پھر لوگ کہیں گے کہ وہ ہمارے سے ناجائز قیمت لے رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں۔ بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمر نے اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا تھا۔ لیکن بہرحال یہ بات ہے کہ بالعموم فقہاء نے حضرت عمر کی رائے کو ایک قابل عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ (rate) مقرر کرے۔ (بازار کی قیمتیں مقرر کرے۔) ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا۔ مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ انہی اشیاء کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں(لا کے کھلی مارکیٹ میں فروخت کی جائیں) جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں۔ ان کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے (قیمت مقرر ہونی چاہئے) تا کوئی دوکاندار قیمت میں کمی بیشی نہ کر سکے۔ چنانچہ بعض آثار اور احادیث فقہاء نے لکھی ہیں جن میں اس کی تائید کی ہے۔ ‘‘

(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 19 صفحہ 307-308 ۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1938ء)

حکومت کے نظام کے تحت چراگاہ اور وہاں پانی کے لئے کنوئیں کھدوانے کا کام بھی اسلامی حکومت کا کام ہے۔ یہ کام بھی ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطبؓ سے کروایا تھا۔ چنانچہ اس بارے میں روایت میںآتا ہے کہ’’ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَقِیْع کے مقام سے گزرے تو وہاں وسیع علاقہ اور گھاس دیکھی۔ بہت بڑا علاقہ تھا اور ہر جگہ بڑا سبز علاقہ تھا اور بہت سے کنوئیں بھی تھے۔ وہاں زمین کا پانی بھی اچھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کنوؤں کے پانی کے متعلق پوچھا۔ تو عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! پانی تو یہ بڑا اچھا ہے۔ لیکن جب ہم ان کنوؤں کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا پانی کم ہو جاتا ہے اور کنوئیں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کو حکم دیا کہ وہ ایک کنواں کھودیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا۔ یعنی سرکاری چراگاہ جو حکومت کے انتظام کے تحت ہو گی۔ حضرت بلال بن حارث مُزَنِی کو اس پر نگران مقرر فرمایا۔ حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس زمین میں سے کتنے حصہ کو چراگاہ بناؤں۔ بڑا وسیع علاقہ ہے۔وہ کتنا حصہ ہے جو سرکاری چراگاہ بنانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب طلوع فجر ہو جائے تو پھر ایک بلند آواز شخص کو کھڑا کرو (رات کے اندھیرے میں تو آواز بہت دور تک جاتی ہے ناں) طلوع فجر ہو جائے تو بلند آواز شخص کو کھڑا کرو۔ پھر اسے مُقَمَّلْ نامی وہاں ایک پہاڑ تھا چھوٹا سا تھا اس پر کھڑا کرو۔ پھر جہاں تک اس شخص کی آواز جائے اتنے حصے کو مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں اور اونٹوں کی چراگاہ بنا دو۔( یہ بھی ان کا ایک انتظامتھا۔ فُٹُّوں اور میلوں کی بات نہیں ہو رہی۔ اس کے آخر میں مختلف کونوں میں لوگوں کو کھڑا کرو اور جہاں تک آواز جاتی ہے،جہاں تک آواز پہنچ رہی ہے وہ اس چراگاہ کی باؤنڈری ہو گی۔ اور وہ مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے اور اونٹوں کے لئے چراگاہ ہو گی جس کے ذریعہ سے وہ جہاد کر سکیں۔ یہ بیت المال اور سرکاری چراگاہ ہے اور جنگ میں جانے والے جو مجاہدین ہیں ان کے گھوڑے اور اونٹ وہاں چریں گے۔) حضرت بلال نے اس پر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مسلمانوں کے عام چرنے والے جانوروں کے بارے میں کیا رائے ہے۔( بہت سارے عام مسلمانوں کے جانور بھی باہر کھلے میدانوں میں، چراگاہوں میں چرتے ہیں ان کے متعلق کیا رائے ہے؟ آپ کا کیا ارشاد ہے؟۔) آپ نے فرمایا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہاد کے لئے اپنے اونٹ اور گھوڑے تیار کر رہے ہیں۔ حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اس کمزور مرد یا کمزور عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں اور وہ انہیں منتقل کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔( بہت تھوڑی تعداد میں غریب لوگ ہیں چند ایک بکریاں یا بھیڑیں رکھی ہوئی ہیں دور تک لے جانا ان کے لئے بہت مشکل ہے یا کہیں اور بھی جا نہیں سکتے۔ کمزور ہیں بوڑھے ہیں عورتیں ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو اور انہیں چرنے دو‘‘۔ ( ماخوذ ازسبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 352-353 غزوہ بنی المصطلق مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)ان کو اجازت ہے۔ غریبوں کو، ضرورت مندوں کو، کمزوروں کو اجازت ہے کہ وہ سرکاری چراگاہ سے چر سکتے ہیں۔ تو قومی جائیداد صرف قومی مقاصد کے لئے استعمال ہونی چاہئے۔ ہاں غریبوں کی اگر ذاتی ضرورت بھی ہے تو وہ اس میں سے حصہ لے سکتے ہیں۔

حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کے اخلاق کیا تھے۔ مصنف سیر الصحابہ لکھتے ہیں: وفا شعاری۔ بہت زیادہ وفا شعار تھے۔ احسان پذیری اور صاف گوئی ان کے مخصوص اوصاف ہیں۔ احباب اور رشتہ داروں کا بے حد خیال رکھتے تھے اور فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے مشرکین کو جو خط لکھا تھا (جو اس عورت کے ہاتھ بھیجا جس کا ذکر ہو چکا ہے) وہ درحقیقت رشتہ داروں کے خیال کی وجہ سے انہی جذبات پر مبنی تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس نیت خیر اور صاف گوئی کو ملحوظ رکھ کر ان سے درگزر فرمایا تھا ۔(ماخوذ از سیرالصحابہؓ جلد 2 صفحہ 411-412 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ )ان کو معاف فرمایا تھا ۔‘‘

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کی اعلیٰ خصوصیات کا حامل ہمیں بھی بنائے اور ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button