شیطانی وساوس اور اس سے بچنے کی کوشش
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ دسمبر 2003ء)
پھر بے شمار برائیاں ہیں جو شیطان بہت خوبصورت کرکے دکھا رہا ہوتاہے اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتاہے، کبھی کبھار مسجد میں بھی آجاتاہے، جمعوں میں بھی آتاہوگا، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتاہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکا دیتاہے تووہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہاہے۔ اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہاہے کہ آج کل یہی کاروبار کا طریق ہے۔ اگر تم نے اس پرعمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤگے اور وہ اس کہنے میں آکر، ان خیالات میں پڑ کر، اس لالچ میں دھنستا چلا جاتاہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجا لارہاہوتاہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں اور مکمل طورپر دنیا داری اسے گھیرلیتی ہے اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی، شایداب موت بھی نہیں آنی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہناہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر نہیں ہونا۔ تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضہ میں لیتاہے کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے۔ پھر جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتاہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو کھاجانے والے بھی ہوتے ہیں، رحمی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے اور یہ آپ بھی پھر آہستہ آہستہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی بےراہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں اور انجام کار یہی نتیجہ نکلتاہے کہ ایسے لوگ پھر جماعت میں بھی نہیں رہتے۔ توشیطان کے ایسے پیروکاروں سے اللہ تعالیٰ خود بھی جماعت کو پاک کردیتاہے۔ اگر آپ جائزہ لیں تو خود بھی آپ جائزہ لے کر یہی دیکھیں گے اور یہ بڑا واضح اور صاف نظرآجائے گا کہ جماعت کو چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہرایک کو ایسے ماحول سے بچائے، ایسی سوچوں سے بچائے، ایسے لوگوں سے بھی بچائے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف دنیا کی لذات ہیں اور جو شیطان کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ جیساکہ مَیں نے بتایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان شیطانی راستوں سے بچنے کا طریق صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، اس کے آگے جھکو، اس کے سامنے روؤ، فریاد کرو، گڑگڑاؤ کہ اے اللہ شیطان ہرطرف سے ہم پرحملے کر رہاہے اب تُوہی ہے جو ہمیں اس گند سے بچا سکتاہے، اور شیطان کے حملوں سے بچا سکتاہے۔حضرت مصلح موعودؓ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطان فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے مومنو!شیطانی طریق اور شیطانی مذہب اور شیطانی اثر کو اختیار نہ کرو اور اس امر کو یاد رکھو کہ جو شخص شیطانی طریق اور مسلک کو قبول کرتاہے وہ لازماً بدی اور ناپسندیدہ باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے۔ کیونکہ شیطان ہمیشہ بدی اور ناپسندیدہ باتوں کی ہی تحریک کیا کرتاہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کامل پاکیزگی بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس اس کا طریق یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو اور اپنے حالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ لوگوں کی طرح بناؤ تاکہ وہ یہ دیکھ کر کہ تم پاکیزہ بننے کی کوشش کر رہے ہو تمہیں پاکیزہ بنادے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتاہے حتی کہ جب انسان خداتعالیٰ پرایمان لے آتاہے تب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آ کرایمان لانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو ماننے لگ جاتے ہیں اور مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں اور یہ خطرہ اس قدر عظیم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کوئی شخص بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مگر اس فضل کو جذب کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت سَمِیْعٌ سے فائدہ اٹھائے اور اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے۔ اگر وہ اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے گا اور اس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنالے گاتو اللہ تعالیٰ جو علیم ہے اور اپنے بندوں کے حالات اور ان کی کمزوریوں کو خوب جانتاہے اس کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دے گا جس کے نتیجہ میں وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جائے گا اور اسے طہارت اور پاکیزگی میسر آ جائے گی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 281)جب دعائیں کررہے ہوں شیطان سے بچنے کے لئے جو کہ روز ہر احمدی کو ضرور کرنی چاہئیں تو آنحضرتﷺ کی اس دعا کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ حدیث میں آتاہے۔
حضرت عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےہمیں کچھ دعائیہ کلمات سکھائے اور دعائیہ کلمات سکھانے میں آپﷺ کا انداز وہ نہ ہوتا تھا جو تشہد سکھاتے وقت ہوتاتھا۔ وہ کلمات یہ ہیں کہ’’اے اللہ !ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردے۔ اور ہمار ی اصلاح کردے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہری اور باطنی فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہمارے دلوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولاد وں میں برکت رکھ دے۔ اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناًتو ہی توبہ قبول کرنے والا اور باربار رحم کرنے والاہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کاشکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر وہ نعمتیں مکمل فرما‘‘۔(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰ ۃ باب التشہد)
٭…٭…٭