الفضل ڈائجسٹ
تاریخ پاکستان کے اہم واقعات و شخصیات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2012ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرسلہ: مکرم غلام مصطفی تبسم صاحب) میں تاریخ پاکستان کے بعض اہم واقعات اور شخصیات کا تعارف شامل ہے۔
پاکستان کا پرچم
30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں سیاسی تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور ایک سبز پرچم، جس پر چاند اور تارہ بنا ہوا تھا، اس تنظیم کا پرچم قرار پایا۔
3جون 1947ء کو جب ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو قائداعظم نے لارڈمائونٹ بیٹن کی یہ تجویز ردّ کردی کہ دیگر برطانوی نَوآبادیوں کی طرح پاکستان کے پرچم میں پانچواں حصہ برطانوی جھنڈے ’’یونین جیک‘‘ کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ قائداعظم کی یہ تجویز پسند کی گئی کہ مسلم لیگ کے پرچم کو ہی پاکستان کا قومی پرچم بنالیا جائے۔ تاہم اتنا اضافہ کیا گیا کہ پرچم میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے سفید رنگ بھی شامل کر لیا گیا۔
قائداعظم نے نئے پرچم کی ڈیزائننگ کا کام پاکستان بحریہ کے سپرد کیا اور اُن کے تیار کردہ کئی ڈیزائنوں میں سے موجودہ ڈیزائن منظور کیا۔ قائد ملّت خاں لیاقت علی خاں نے یہ پرچم 11؍اگست 1947ء کو کراچی میں مجلس قانون ساز کے اجلاس میں پیش کیا اور کہا کہ یہ پرچم اُن لوگوں کی آزادی و حریت اور مساوات کا ضامن ہے جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔ اور یہ پرچم شہریوں کے جائز حقوق کی حفاظت کرے گا۔
پاکستان کا قومی پرچم مستطیل شکل کا ہے۔ اس کے طول او ر عرض میں تین اور دو کا تناسب ہے۔ ایک چوتھائی حصہ سفید رنگ پر اور تین چوتھائی حصہ سبز رنگ پر مشتمل ہے۔ سفید رنگ اقلیتوں کی اور سبز رنگ اسلام کی نمائندگی کرتا ہے۔ سبز رنگ کے حصے پر 45درجے کے زاویئے پر جُھکا ہوا ایک ہلال اور ایک ستارہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کا قومی ترانہ
قیام پاکستان کے وقت قومی پرچم تو موجود تھا اور 14؍اگست 1947ء کو پرچم کشائی کے موقع پر ایک قومی گیت کی دھن بھی بجائی گئی تھی لیکن اس گیت کو ترانے کا درجہ نہیں دیا گیا تھا۔ دسمبر 1948ء میں حکومت پاکستان نے وزیرمواصلات سردار عبدالرب نشتر کی سربراہی میں 8رکنی قومی ترانہ کمیٹی تشکیل دی۔بعدازاں کمیٹی کو دو ذیلی کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ وہ الفاظ اور موسیقی کے سلسلے میں موصولہ نمونوں کا جائزہ لے۔ اس کمیٹی کو دنیا بھر سے الفاظ اور دھنیں موصول ہوئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی دھن یا نغمہ معیار پر پورا نہ اترسکا۔ اس پر ذیلی کمیٹی برائے موسیقی کے رُکن احمد غلام علی چاگلہ سے کہا گیا کہ وہ ترانے کی موسیقی ترتیب دیں۔ وہ اچھے موسیقارتھے اور ایک فلم کی موسیقی بھی ترتیب دے چکے تھے۔ انہوں نے اسے باعثِ اعزاز سمجھا اور قومی ترانے کے لئے ایک پُرشکوہ دُھن ترتیب دے ڈالی۔
اس دُھن میں انہوں نے کُل 21آلاتِ موسیقی اور 38ساز استعمال کئے۔اس دُھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے پاکستان زندہ باد کا نام دیا گیا۔ یکم مارچ 1948ء کو جب ایران کے سربراہ مملکت پاکستان تشریف لائے تو ان کی آمد پر پاک بحریہ کے بینڈ نے یہ دھن بجائی۔ 5جنوری 1954ء کو مرکزی کابینہ نے اس دھن کو سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دے دیا۔
اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کا چنائو تھا۔ چنانچہ ملک کے تمام مقتدر شعراء کو اس دُھن کے گراموفون ریکارڈز بھجوائے گئے۔ جواباً 723 ترانے موصول ہوئے جن میں سے چار پسندیدہ قرار پائے جو حفیظ جالندھری، حکیم احمدشجاع، آرزو لکھنوی اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے تھے۔ 7؍اگست 1954ء کو قومی ترانہ کمیٹی نے ابوالاثر حفیظ جالندھری کا ترانہ پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا اور 13؍اگست 1955ء کو حکومت نے قومی ترانے کے الفاظ کا کاپی رائٹ خرید لیا۔
پاکستان کا قومی ترانہ شاعری کی صنف مخمس میں لکھا گیا ہے۔ اس ترانے میں کُل 3بند ہیں اور ہربند میں پانچ مصرعے ہیں۔ہر بند کا آغاز پاکستان کے پہلے حرف سے ہوتا ہے جبکہ اس ترانے میں لفظ پاکستان فقط ایک مرتبہ آتا ہے۔ ترانے میں کُل 209الفاظ ہیں۔
پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ
شروع میں تو وہی ڈاک ٹکٹ پاکستان میں بھی رائج رہے (جن پر جارج ششم کی تصویر بنی تھی اور) جو آزادی کے وقت ہندوستان میں رائج تھے۔ یکم اکتوبر 1948ء کو انہی ڈاک ٹکٹوں پر پاکستان کا لفظ چھاپ کر انہیں پاکستان کے ڈاک ٹکٹوں کی حیثیت دے دی گئی۔ پھر محکمہ ڈاک کی درخواست پر وزارت اطلاعات ونشریات کے محکمہ فلم و اشتہاریات کے نگران جناب ارشد حسین نے اپنے محکمہ کے دو آرٹسٹ جناب عبداللطیف اور جناب رشید الدین سے ڈیڑھ آنہ، ڈھائی آنہ اور تین آنہ مالیت کے تین ٹکٹ ڈیزائن کروائے جن پر علی الترتیب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی، کراچی ائیر پورٹ اور شاہی قلعہ کی تصاویر بنی تھیں اور پاکستان زندہ بادکے الفاظ تحریر تھے۔ چوتھا ڈاک ٹکٹ عبدالرحمن چغتائی نے ڈیزائن کیا اور چار ٹکٹوں کا یہ سیٹ 9جولائی 1948ء کو جاری کیا گیا۔
گوادر پاکستان کا حصّہ بن گیا
کراچی کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی بندرگاہ گوادر ہے جو کراچی سے تقریباً 300میل اور پاک ایران سرحد سے 45میل کے فاصلے پر صوبہ بلوچستان میںو اقع ہے۔ یہ شہر سترہویں صدی کے اوائل میں ریاست مکران میں شامل ہوا اور 1778ء میں خان آف قلات کے زیرنگیں آگیا۔ 1781ء میں مسقط کے شہزادہ سلطان بن ناصر خاں اوّل نے اپنے باپ سے بغاوت کرکے مکران میں پناہ حاصل کی۔ خان آف قلات نے گوادر کی سالانہ آمدنی، شہزادے کی گزر اوقات کے لئے اُس کے حوالے کردی۔ 1792ء میں باپ کی وفات کے بعد یہ شہزاد ہ مسقط کا سلطان بن گیا تاہم اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ انگریزوں نے جب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی اور 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت مسقط و اومان کا حصہ تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد گوادر کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائی گئی اور 1949ء میں مذاکرات بھی ہوئے لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ 1956ء میں جب سر فیروز خان نون پاکستان کے وزیرخارجہ بنے تو انہوں نے دوبارہ آواز اٹھائی۔ 1957ء میں وہ وزیراعظم بنے تو انہوںنے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ چونکہ حکومت پاکستان نے وہ تمام جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو حکومت برطانیہ نے سیاسی اسباب کی بنا پر دی تھیں اس لئے گوادر کی جاگیر کی تنسیخ بھی کی جا سکتی ہے۔ برطانوی حکام نے پاکستان کے اس مؤقف کی تائید کی اور ان کی مدد کے باعث معاوضہ کی ادائیگی کے بعد گوادر کا علاقہ 8ستمبر 1958ء کو پاکستان کا حصہ بن گیا۔
پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا
دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ایسی بین الاقوامی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی جو دنیا میں امن کے قیام کے لئے مددگار ثابت ہو سکے۔ چنانچہ 26 جون 1945ء کو سان فرانسسکو میں 51 ممالک کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کئے اور یوں 24؍اکتوبر 1945ء کو اس تنظیم کا باضابطہ قیام عمل میں آگیا۔ 51 ممالک میں ہندوستان بھی شامل تھا۔ چنانچہ ہندوستان کو تو اس تنظیم کی رُکنیت ورثے میں ملی لیکن پاکستان کو اس کے لئے درخواست دینی پڑی۔ چونکہ اقوام متحدہ کے نئے رُکن کی منظوری جنرل اسمبلی دیتی ہے جس کا اجلاس ہرسال ستمبر کے تیسرے پیر سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان 30 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ کا 56واں رُکن بن گیا۔ اسی دن عرب جمہوریہ یمن کو بھی رُکنیت ملی۔
ریڈیو پاکستان لاہور کا آغاز
16 دسمبر 1937ء کو لاہور میں ایک ریڈیو سٹیشن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ میڈیم ویو 5 کلوواٹ کے ٹرانسمیٹر سے صبح، دوپہر اور رات کو نشر ہونے والی نشریات کا دائرہ سماعت صرف 35 میل تک محدود تھا۔ چند تجرباتی دن گزارنے کے بعد ریڈیو کا عملہ YMCA کی عمارت سے گورنر ہاؤس کے عقب میں واقع ایک کوٹھی میں منتقل ہوگیا جس کے کمرے پانچ سٹوڈیوز اور دفاتر میں تبدیل کردیئے گئے تھے۔ 14؍اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اُس وقت ریڈیو لاہور اس نئی مملکت کی آواز بن کر فضاؤں میں گونجا۔ پاکستان کے قیام کا اعلان رات کے بارہ بجے مصطفی علی ہمدانی مرحوم نے اردو میں اور ظہور آذر صاحب نے انگریزی میں کیا۔
لاہور کاعجائب گھر
لاہور کے عجائب گھر کا آغاز 1864ء میں ایک صنعتی نمائش سے ہوا جو ٹولنٹن مارکیٹ میں 20 جنوری سے اپریل کے پہلے ہفتے تک جاری رہی۔ اس نمائش میں بعض ریاستوں، رئیسوں اور جاگیرداروں نے کئی عجیب چیزیں، قسم قسم کے زیورات، قیمتی مرصع مطلّا، ریشمی مخملی اور سوتی ملبوسات، قالین، ہاتھ کی لکھی ہوئی پرانی کتابیں اور مخطوطات اور مشہور مصوروں کی نقاشی کے دلکش نمونے رکھے گئے تھے۔ نیز مختلف اناج، جڑی بوٹیاں، اوزار، ہتھیار، تلواریں، برچھے، اور دیگر آلات حرب، قسم قسم کے پتھر، پارچہ جات، چرمی مصنوعات، ظروف جواہرات اور مُردہ جانور اس نمائشگاہ کی زینت تھے۔ نمائش کے اختتام پر دستکاریوں کے چیدہ چیدہ نمونے مستقل نمائش کے لئے رکھ لئے گئے اور عجائب گھر کی بنیاد بنے۔
ملکہ وکٹوریہ کے پوتے پرنس البرٹ وکٹر جب لاہور تشریف لائے تو 3 فروری 1890ء کو انہوں نے موجودہ عجائب گھر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ عمارت کی تعمیر اُس چندہ سے کی گئی جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے سلسلہ میں فراہم کیا گیا تھا۔ عمارت کا نقشہ بھائی رام سنگھ اور لاک ڈو Lockdo نے تیار کیا۔ پہلے اس عجائب گھر میں کئی شعبے قائم تھے لیکن پھر دائرہ محدود کیا جاتا رہا اور یکے بعد دیگرے کئی شعبے یہاں سے منتقل کردیئے گئے۔ مثلاً مُردہ حیوانات کا شعبہ گورنمنٹ کالج لاہور منتقل ہوگیا۔ آجکل یہ عجائب گھر صرف فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ تک محدود ہے۔
پاکستان کی پہلی مردم شماری
متمدّن ممالک میں ہر دس سال بعد مردم شماری (Census) ہوتی ہے۔ Census لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ دراصل قدیم رومن حکومت ہر شخص کے خاندان، اولاد، غلام اور ملازمین کے متعلق معلومات کا ریکارڈ رکھتی تھی۔ جبکہ صدیوں پہلے حضرت موسیٰؑ کے عہد میں بھی مردم شماری ہوتی تھی اور بائبل کے عہد عتیق میں حضرت موسیٰؑ کا جو صحیفہ گنتی نام کا ہے اس میں مردم شماری کی ایک جامع رپورٹ موجود ہے۔حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے وقت بھی شہنشاہ روم قیصر آگسٹس کے حکم سے مردم شماری ہوئی تھی اور اسی لئے یوسف نجار اور حضرت مریمؑ کوائف درج کرانے کے لئے اپنے اصل وطن بیت اللحم میں مقیم تھے۔
پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء میں کی گئی جو 9 فروری سے شروع ہوکر 28 فروری کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 7 کروڑ 85 لاکھ 79ہزار تھی۔ اور وہ اضافی علاقے جو آج پاکستان میں شامل ہیں اُن کی آبادی 3کروڑ 38لاکھ تھی۔