ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
وہ آفات جن کا ظہور مسیح کے وقت میں مقدر کیا گیا تھا ان میں سے بڑی بڑی آفات یاجوج ماجوج کا خروج اور بے حیا دجاّل کا ظہور ہے۔ یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں جو جنگوںاور دیگر مصنوعات میں آگ اور اس کے شعلوں کو استعمال کرتی ہیں۔
مسلمانوں کو وہ مصیبت پہنچ رہی ہے جو اُن کے مالوں، جاہ و مرتبہ اور عزتوں کو کھاتی جاتی ہے اور مسلمان بادشاہوں کی پردہ دری کی جا رہی ہے اور لوگوں پر ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اپنی نافرمانی اورارتکابِ جرم کی وجہ سے غضب الٰہی کے مورد بن گئے ہیں۔ ان سے ان کا رعب، اقبال، شوکت اور جلال اس وجہ سے چھین لیا گیا ہے کہ وہ تقویٰ اختیار نہیںکرتے۔ایسی حالت میںمسیح اپنے رب جلیل کے سامنے کھڑا ہو گا اور لمبی رات میں اسے آہ و زاری سے پکارے گا اور آگ پر برف کے پگھلنے کی طرح پگھلے گا اور اس مصیبت پر جو ملکوں پر نازل ہوئی ہے گڑ گڑا کر دعا کرے گا اور بہتے آنسؤوں اور ٹپ ٹپ گرتے اشکوں سے اللہ کو یاد کرے گا تو اس کے اس مقام کی وجہ سے جو اسے اس کے رب کے حضور حاصل ہے اس کی دعا سنی جائے گی اور پناہ دینے والے فرشتے اتریںگے اور اللہ وہ کام کرے گاجو وہ کرے گا اور لوگوں کو اس وبا سے نجات دے گا۔
’’ اور وہ آفات جن کا ظہور مسیح کے وقت میں مقدر کیا گیا تھا ان میں سے بڑی بڑی آفات یاجوج ماجوج کا خروج اور بے حیا دجاّل کا ظہور ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے نافرمانی کرنے اور خدائے ودُود سے راہِ فرار اختیار کرنے کے وقت بطور فتنہ ہیں اور ایک بڑی بلا ہیں جو ان پر مسلّط کر دی گئی ہے جیسا کہ یہود پر مسلّط کی گئی تھی۔واضح ہو کہ یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں جو جنگوںاور دیگر مصنوعات میں آگ اور اس کے شعلوں کو استعمال کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو یہ دو نام دیئے گئے ہیں۔ اَلْا َٔ جِیْج آگ کی صفت ہے۔ اسی طرح ان کی جنگ آتشیں مواد سے ہوتی ہے۔ اور جنگ کے اس طریقہ سے وہ سب اہل زمین پر غالب آتے جاتے ہیں۔ اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے چلے آتے ہیں۔ نہ سمندر ان کی راہ میں روک بنتا ہے اورنہ کوئی پہاڑ۔ بادشاہ خوف کے مارے ان کے آگے گر گرجاتے ہیں۔ کسی کے لئے ان کا سامنا کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور وہ سب ان (یاجوج ماجوج) کے نیچے موعود گھڑی تک کچلے جاتے رہیں گے۔ جو کوئی بھی ان دو پتھروں کی زدمیں آ ئے گا خواہ اس کی عظیم مملکت ہی ہو تو وہ اس طرح پیس دیا جائے گا جس طرح دانہ چکی میں پیسا جاتا ہے اور زمین ان دونوں سے سخت زلزلہ میں ڈالی گئی ہے۔ اس کے پہاڑوں کو حرکت دی گئی ہے اور اس کی گمراہی پھیلا دی گئی ہے۔ نہ کوئی دعا سنی جاتی ہے اور نہ کوئی آہ وبکا عرش تک پہنچتی ہے۔ مسلمانوں کو وہ مصیبت پہنچ رہی ہے جو ان کے مالوں، جاہ و مرتبہ اور عزتوں کو کھاتی جاتی ہے اور مسلمان بادشاہوں کی پردہ دری کی جا رہی ہے اور لوگوں پر ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اپنی نافرمانی اورارتکابِ جرم کی وجہ سے غضب الٰہی کے مورد بن گئے ہیں۔ ان سے ان کا رعب، اقبال، شوکت اور جلال اس وجہ سے چھین لیا گیا ہے کہ وہ تقویٰ اختیار نہیںکرتے۔ وہ ایک طریق سے دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور سات طریقوں سے ہزیمت اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ نیکو کار نہیں ہیں۔ وہ لوگوںکے سامنے دکھاواکرتے ہیںاور رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کی سنت کی پیروی نہیںکرتے اور نہ ہی دین کو صحیح طور پر اپناتے ہیں۔ وہ محض صورتیں ہیں جن میں روح کوئی نہیں۔ اس لئے اللہ ان پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا اور نہ ان کی مدد کی جاتی ہے۔ اگر وہ تضرع کرتے تو اللہ ان کی توبہ قبول کرناچاہتا ہے۔ مگر نہ انہوں نے توبہ کی اور نہ تضرع سے کام لیا ۔پس مجرموں پر ان کا وبال نازل ہوا سوائے ان کے جو عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔وہ مصیبت کے دن اور اس کی راتیں دیکھیں گے جیسا کہ ملعونوں نے دیکھا۔ تب ایسی حالت میںمسیح اپنے رب جلیل کے سامنے کھڑا ہو گا اور لمبی رات میں اسے آہ و زاری سے پکارے گا اور آگ پر برف کے پگھلنے کی طرح پگھلے گا اور اس مصیبت پر جو ملکوں پر نازل ہوئی ہے گڑ گڑا کر دعا کرے گا اور بہتے آنسوؤں اور ٹپ ٹپ گرتے اشکوں سے اللہ کو یاد کرے گا تو اس کے اس مقام کی وجہ سے جو اسے اس کے رب کے حضور حاصل ہے اس کی دعا سنی جائے گی اور پناہ دینے والے فرشتے اتریںگے اور اللہ وہ کام کرے گاجو وہ کرے گا اور لوگوں کو اس وبا سے نجات دے گا۔ تب مسیح زمین میں بھی ویسے ہی شناخت کیا جائے گا جیسا کہ وہ آسمان میں شناخت کیا گیا ہے اور عوام اور امراء کے دلوں میں اس کی قبولیت رکھی جائے گی۔ یہاں تک کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیںگے۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے اور اس کی جناب سے ہو گا اور لوگوں کی نظر میں عجیب ہو گا۔ پس اگر تجھے شبہ ہے تو قرآن اور احادیث میں غور کر۔ میں نے یہ باتیں اپنی طرف سے نہیںکہیں بلکہ یہ مسلمان صلحاء میں سے جمہور کا عقیدہ ہے اور تمام جہانوں کے پروردگار کی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ ‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 218تا221۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)