خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 13؍جو لائی 2018ء
حضرت ابو اُسید مالک بن ربیعہ ساعدیؓ اور ابوسلمہ حضرت عبد اللہ بن عبد الاسدؓ کے حالات زندگی اور ان کی سیرت و اخلاق کا ایمان افروز تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے اعلیٰ مقام کو مزید بلندیوں پر لے جاتا چلاجائے اور ہمیں بھی ان نیکیوں کو کرنے کی توفیق دے جو یہ لوگ کرتے رہے۔
مکرم راجہ نصیر احمد ناصر صاحب (سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ)کی وفات۔ مکرم مبین احمد صاحب ابن مکرم محبوب احمد صاحب (کراچی )اور مکرم محمد ظفر اللہ صاحب ابن مکرم لیاقت علی صاحب (کراچی) کی ایک ڈکیتی کے واقعہ میں شہادت۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
صحابہ کے ذکر میں آج میں دو صحابہ کا ذکر کروں گا۔ ایک ہیں حضرت ابواُسَیْد مالکؓ بن ربیعہ ساعدی۔ حضرت مالکؓ بن ربیعہ اپنی کنیت ابو اُسَیْد سے مشہور ہیں۔ بعض نے آپ کا نام ہلال بن ربیعہ بھی بیان کیا ہے۔ آپ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا۔
(اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 13 ابو اسید الساعدیؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 5 صفحہ 535 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت ابو اُسَیْد مالک بن ربیعہ چھوٹے قد کے تھے۔ سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے۔ آپ کے بال گھنے تھے۔ بڑھاپے میں آپ بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔ 60 ہجری میں حضرت معاویہ کے دور میں 75 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے انصار صحابہ میں سے یہ سب سے آخر میںفوت ہوئے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 5 صفحہ 536 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 22 مالک بن ربیعہؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت)
حضرت ابو اُسَیْد غزوۂ بدر، اُحد، خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کے پاس قبیلہ بنو ساعدہ کا جھنڈا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 286 اَبُوْ اُسَیْد الساعدی۔ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو اُسید ساعدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں دعوت دی۔ اس دن ان کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کر رہی تھی اور وہی دلہن بھی تھی۔‘‘ بڑی سادگی سے شادی ہو رہی تھی۔ شادی کی دعوت ہوئی اور دلہن ہی کھانا بھی پکا رہی تھی۔ serve بھی کر رہی تھی۔ حضرت سہل آگے سوال کر کے جواب دے رہے ہیں۔ یہ ان کاانداز ہے ۔ کہتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نےکیا پلایا ؟ انہوں نے آپ کے لئے ایک برتن میں رات کو کھجوریں بھگو دیں۔ جب آپ نے کھانا کھا لیا تو انہوں نے آپ کو شربت پلایا۔
(صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب اباحۃ النبیذ الذی لم یشتد و لم یصر مسکرا حدیث 5233)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ چند قیدی آئے آپ نے ان میں سے ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلا رہی ہے؟ اس نے کہا کہ اس نے میرے اور میرے بیٹے کے درمیان بنو عَبْس میں فروخت کر کے دوری ڈال دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی کے مالک کو بلایا۔ جب بلایا تو دیکھا کہ وہ ابو اُسَیْد ساعدی تھے۔ آپ نے پوچھا کیا تم نے اس کے اور اس کے بچے کے درمیان دوری ڈالی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ بچہ چلنے سے معذور تھا اور یہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں۔ اس لئے میں نے اس کو بنو عبس میں فروخت کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم خود جا کر اسے لے کے آؤ۔ چنانچہ حضرت ابواُسَیْد جا کر اس بچے کو واپس لائے اور اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا۔
(شرف المصطفیٰ جلد 4 صفحہ 400، جامعہ ابواب صفۃ اخلاقہ و آدابہ ﷺ حدیث 1649 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیۃ مکہ۔ 2003ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس میں طاقت ہے یا نہیں، چاہے وہ قیدی ہو یا لونڈی ہو یا غلام ہو لیکن ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دی جا سکتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ لگوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس پر حضرت بلال سوار تھے سب اونٹوں سے آگے نکل گئی۔ اسی طرح آپ کا ایک گھوڑا تھا۔ گھوڑوں کی دوڑ لگوائی اور آپ کے گھوڑے پر ابواُسَیْد ساعدی سوار تھے اور اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
(امتاع الاسماع جلد اول صفحہ 212 ‘‘حمایۃ النقیع لخیل المسلمین’’۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1999ء)
حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو اُسَیْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ان کے بیٹے منذر بن ابی اُسَیْد پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس بچے کو اپنی ران پر بٹھا لیا۔ اس وقت حضرت ابواُسَیْد بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابواُسَید نے اشارہ کیا تو لوگ منذر کو آپ کی ران پر سے اٹھا کر لے گئے۔ جب آپ کو فراغت ہوئی تو پوچھا کہ بچہ کہاں گیا؟ حضرت ابواُسَیْد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے اس کو گھر بھیج دیا ہے۔ آپ نے پوچھا اس کا نام کیا رکھا ہے؟ ابواُسَیْد نے کوئی نام بتایا کہ فلاں نام رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اس کا نام مُنْذِر ہے۔ آپ نے اس دن اس کا نام منذر رکھا۔
(صحیح البخاری کتاب الادب باب تحویل الاسم الی اسم احسن منہ حدیث 6191)
شارحین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بچے کا نام منذر رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابواُسَید کے چچازاد بھائی کا نام منذر بن عمرو تھا جو بئر معونہ میں شہید ہوئے تھے۔ پس یہ نام تفاؤل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ وہ بھی ان کے اچھے جانشین ثابت ہوں۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی جلد7 صفحہ 497 حدیث 4094 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
حضرت سُلَیمان بن یَسَار سے مروی ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت ابواُسَیْد الساعدی کی بینائی زائل ہو گئی۔ نظر آنا بند ہو گیا۔ آنکھیں خراب ہو گئیں تو اس بات پر آپ کہا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بینائی سے نوازا اور وہ ساری برکات میں نے دیکھیں اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمائش میں ڈالنا چاہا تو میری بینائی ختم کر دی۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ591 کتاب معرفۃ الصحابۃ حدیث 6189، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
میری نظر ختم ہو گئی تا کہ میں ان بری حالتوں کو نہ دیکھ سکوں۔
حضرت عثمان بن عبیداللہ جو حضرت سعد بن ابی وقاص کے آزاد کردہ غلام تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابو ہریرۃؓ، حضرت ابو قتادہؓ اور حضرت ابواُسَیدؓ ساعدی کو دیکھا۔ یہ حضرات ہم پر سے گزرتے تھے اس حال میں کہ ہم مکتب میں ہوتے تھے تو ہم ان سے عبیر کی خوشبو محسوس کیاکرتے تھے۔‘‘ یہ خوشبو ہے جو زعفران اور کئی چیزوں سے ملا کر بنائی جاتی ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 6صفحہ 216کتاب الادب باب ما یستحب للرجال ان یوجد ریحہ منہ،دار الفکربیروت)
مروان بن الحکم حضرت ابو اُسَید ساعدی کو صدقے پر عامل بنایا کرتے تھے۔ یعنی اکٹھا کرنے کے لئے اور اس کی تقسیم کے لئے۔ حضرت ابواُسَید ساعدی جب دروازے پر آتے تو اونٹ بٹھاتے اور ان کو تمام چیزیں تقسیم کے لئےدیتے ۔ آخری چیز جو ان کو دیتے وہ چابک ہوتا۔ اسے دیتے ہوئے یوں کہتے کہ یہ تمہارے مال میں سے ہے۔ حضرت ابواسید ایک مرتبہ زکوۃ کا مال تقسیم کرنے آئےاور جو سامان تھا وہ پورا تقسیم کر کے چلے گئے۔ گھر میں جا کر جو سوئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک سانپ ان کی گردن سے لپٹ گیا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھے اور پوچھا کہ اے فلاں! (خادمہ سے یا بیوی سے پوچھا کہ )کیا مال میں سے کوئی چیز رہ گئی ہے جو تقسیم کرنے کے لئے مجھے دی گئی تھی۔ وہ بولی کہ نہیں۔ حضرت ابواُسَید نے فرمایا کہ پھر کیا بات ہے کہ سانپ میری گردن میں لپٹ گیا تھا۔ دیکھو شاید کچھ رہ گیا ہو۔ جب انہوں نے دیکھا تو وہ بولی کہ ہاں اونٹ کو باندھنے والی ایک رسی ہے جس کے ساتھ ایک تھیلے کا منہ باندھ دیا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابواُسَیْدنے وہ رسّی بھی جا کر ان کو واپس کر دی۔
(شعب الایمان للبیہقی جلد 5 صفحہ 167 حدیث نمبر 3247، مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کو تقویٰ کے باریک ترین معیاروں پر رکھ کر امانت کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کروانا چاہتا تھا اور اسی لئے پھر خوابوں میںبھی ان کی رہنمائی ہو جاتی تھی۔
عُمَارہ بن غَزِیَّہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ کچھ جوانوں نے حضرت ابواُسَید سے انصار کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فضائل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انصار کے تمام قبائل میں سب سے اچھے بنو نجار کے گھرانے ہیں۔ پھربنو عبدالْاَشْھَل، پھر بنو حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت ابواُسَید اس پر فرماتے تھے کہ اگر میں حق کے سوا کسی چیز کو قبول کرنے والا ہوتا تو میں بنو ساعدہ کے کسی خاندان سے شروع کرتا۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 592 کتاب معرفۃ الصحابہ حدیث 6194 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002 ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ تاریخ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے کہ جب عرب فتح ہوا اور اسلام پھیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا اسماء یا امیمہ نام تھا اور وہ جَوْنِیَہ یا بِنتُ الجَوْن بھی کہلاتی تھی۔ اس کا بھائی لقمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضر ہوا اور اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست بھی کر دی کہ میری بہن جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے اور نہایت خوبصورت اور لائق بھی ہے آپ اس سے شادی کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھا اس لئے آپ نے اس کی یہ دعوت منظور کر لی اور فرمایا کہ ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ہم معزز لوگ ہیں۔ بڑے رئیس لوگ ہیں یہ مہر تھوڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ میں نے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا۔ جب اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا اور اس نے کہا ٹھیک ہے تو نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواُسَید کواس کام پر مقرر کیا۔ وہ وہاں تشریف لے گئے۔ جونیہ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو حضرت اُسَید نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے۔ اس پر اس نے دوسری ہدایات دریافت کیں جو آپ نے انہیں بتا دیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا۔ اس عورت کے ساتھ جس کی شادی ہوئی تھی اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ملکوں میں بھی ایک بے تکلف نوکر ساتھ جاتی ہے۔ بڑے لوگ، امیر لوگ بھیجا کرتے تھے اس زمانے میں۔ اب تو یہ رواج نہیں، پرانے زمانے میں ہوتا تھا تا کہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ چونکہ یہ عورت جو تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی تھی یا جس کے بھائی نے رشتہ پیش کیا تھا، شادی کی خواہش کی تھی اور پھر نکاح بھی ہو گیا تھا یہ عورت بڑی حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ محلے کی ،قریب کی جو دوسری عورتیں ہوتی ہیں جب کوئی نوبیاہتا دلہن آئے تو انہیں اس کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔مدینہ کی عورتیں بھی اس عورت کو دیکھنے گئیں۔ اس کی خوبصورتی بڑی مشہور تھی اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تو کہہ دیجیو کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں تو کچھ تعجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو۔ غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ احادیث میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے۔ اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ ابواُسَید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے اسے تسلی دینے کے لئے اس پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھا ہی تھا کہ اس نے یہ نہایت گندہ اور نامعقول فقرہ کہہ دیا کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ چونکہ نبی خدا تعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہو جاتا ہے۔ اس کے اس فقرے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لئے میں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواُسَید اسے دو چادریں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔ چنانچہ اس کے بعد اسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دورازقی چادریں دینے کا آپ نے حکم دیا تا کہ قرآن کریم کا حکم وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْپورا ہو۔ یعنی آپس میں احسان کا سلوک بھول نہ جایا کرو۔ اس کے مطابق آپ نے زائد دیا، احسان کیا۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے اور آپ نے اسے رخصت کر دیا اور ابواُسَید ہی اس کو اس کے گھر پہنچا آئے۔ اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی۔ مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بدبختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جانا اور نفرت کا اظہار کرنا۔ اس طرح ان پر تمہارا رعب قائم ہو جائے گا۔ معلوم نہیں یہی وجہ ہوئی یا کوئی اور۔ بہرحال اس نے نفرت کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے علیحدہ ہو گئے اور اسے رخصت کر دیا۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 533-535 تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت 228)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو بیویوں کا الزام لگاتے ہیں کہ خوبصورت عورتوں کے نعوذ باللہ دلدادہ تھے۔ یہ جو سارا واقعہ ہے ان کے لئے کافی جواب ہے۔
حضرت ابواُسَید کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا۔
(مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 409 کتاب علامات النبوۃ باب فی جودہ حدیث 14179،دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
دوسرے صحابی جو وہ ہیں حضرت عبداللہ بن عبدالاسَدہیں۔ ان کا نام عبداللہ تھا اورکنیت ابوسلمہ۔ آپ کی والدہ بَرَّہ بنت عبدالمطلب تھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ انہوں نے ابولہب کی لونڈی ثُوَیْبَہ کا دودھ پیا تھا۔ حضرت اُمّ المومنین اُمّ سلمہ پہلے آپ کے نکاح میں تھیں۔
(اسدالغابہ جلد 3 صفحہ295، عبداللہ بن عبدالاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ:
’’ابوسلمہ بن عبدالاسد تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے اور بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی وفات پر ان کی بیوہ اُمّ سلمہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی۔‘‘
(سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے صفحہ124)
حضرت عبداللہ بن عبدالاسد اسلام میں سبقت کرنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ ابن اسحاق کے مطابق دس آدمیوں کے بعد آپ اسلام لائے۔ یعنی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد سوم صفحہ 71 ،عبد اللہ بن عبد الاسد،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوعبیدۃ بن حارث، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابو ارقم اور حضرت عثمان بن مظعون حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا جس پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور یہ شہادت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت اور راستی پر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عبدالاسد اپنی بیوی حضرت اُمِّ سلمہ کے ہمراہ پہلی ہجرت حبشہ میں شامل ہوئے۔ حبشہ سے واپس مکہ آنے کے بعد مدینہ ہجرت کی۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد خامس صفحہ 153 ،ابو سلمہ،مکتبہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
سیرت خاتم النبیین میں ان کی ہجرت حبشہ کا ذکر ملتا ہے کہ جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ کا ملک جسے انگریزی میں ایتھوپیا یا ابے سینیا کہتے ہیں براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقعہ ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحر احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں۔ اس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ان ایام میں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں حبشہ کا دارالسلطنت اکسوم تھا جو موجودہ شہر عدوا کے قریب واقعہ ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے۔ اکسوم ان دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اَصْحَمَہ تھا جو ایک عادل اور بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ رجب 5 نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام ، ابو حذیفہ بن عتبہ، عثمان بن مظعون، مصعب بن عمیر ، ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ اوّل یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میںتھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شُعَیْبَہ پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ قریش مکہ کو ان کی ہجرت کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نکل گیا۔ (ان کا پیچھا کر رہے تھے کہ جانے نہیںدینا لیکن وہ چلے گئے۔) چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اس لئے خائب و خاسر واپس لَوٹے۔ حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔
(سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے صفحہ146۔147)
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوسلمہ نے (حبشہ سے واپس آنے کے بعد) حضرت ابوطالب سے پناہ طلب کی تو بنو مخزوم میں سے چند اشخاص ابوطالب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تم نے اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی پناہ میں رکھا ہی ہوا ہے مگر ہمارے بھائی ابوسلمہ کو تم نے کیوں پناہ دی ہے؟ ابوطالب نے کہا اس نے مجھ سے پناہ طلب کی اور وہ میرا بھانجا بھی ہے اور اگر اپنے بھتیجے کو پناہ نہ دیتا تو بھانجے کو بھی پناہ نہ دیتا۔ ابولہب نے بنو مخزوم کے لوگوں سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے بزرگ ابوطالب کو آ کر ستاتے ہو اور طرح طرح کی باتیں کرتے ہو بخدا یا تو تم اس سے باز آ جاؤ ورنہ ہم ہر ایک کام میں ان کے ساتھ شریک ہوں گے یہانتک کہ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کر لے۔ اس پر ان لوگوں نے (ابولہب کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا کہ اے ابوعتبہ! جس چیز کو تو ناپسند کرتا ہے ہم بھی اس سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ ابولہب کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بنو مخزوم کا دوست تھا اور مددگار بھی تھا اس لئے وہ لوگ اس بات سے باز آ گئے کہ ان کو ابوسلمہ کے بارے میں کچھ زور دیں یا زیادتی کریں۔ ابوطالب کو ابو لہب سے موافقت کی بات سن کر (جب انہوں نے موافقت کی بات سنی کہ وہ میرے موافق بات کر رہا ہے اور دوسرے قبیلہ کو روک دیا ہے) امید بندھی کہ یہ بھی ہماری امداد پر آمادہ ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے چند اشعار کہے جن میں ابولہب کی تعریف کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد پر اسے ترغیب دلائی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 269-270،قصۃابی سلمۃؓ فی جوارہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001)
لیکن بہرحال اس کا اثر کوئی نہیں ہوا اور مخالفت میں بڑھتا چلا گیا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ سے روایت ہے کہ جب میرے خاوند حضرت ابوسلمہؓ نے مدینہ جانے کا قصد کیا تو اپنے اونٹ کو تیار کیا اور مجھے اور بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا اس پر سوار کروایا اور پھر چل پڑے۔ آگے جا کر بنو مخزوم کے چند لوگوں نے گھیر لیا اور کہا کہ اُمّ سلمہ ہماری لڑکی ہے ہم اس کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے کہ تم اسے لے کر شہر بہ شہر پھرتے رہو۔ حضرت اُمّ سلمہ کہتی ہیں غرض یہ کہ ان لوگوں نے میرے خاوند کو مجھ سے چھین لیا۔ حضرت ابو سلمہ کے قبیلہ بنو عبدالاسد کے لوگ اس بات پر بہت خفا ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یہ لڑکا ابوسلمہ کا ہے اس کو ہم تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے چنانچہ وہ میرے بچے کو لے گئے۔ (لڑکی کو اس کے قبیلے نے رکھ لیا اور جو بچہ تھا وہ مردکے قبیلے والے نے لے لیا۔) اور کہتی ہیں کہ میں بالکل تنہا رہ گئی۔ میں ایک سال تک اسی مصیبت میں گرفتار رہی کہ ہر روز اَبْطَح مقام پر جا کر مَیںروتی رہی۔ ایک روز میرے چچا کے بیٹوں میں سے ایک شخص نے مجھے وہاں روتے دیکھا تو اس کو مجھ پر رحم آیا اور اس نے میری قوم بنو مُغِیرۃ سے جا کر کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں ستاتے ہو۔ تم نے اس کو اس کے خاوند اور بچے سے جدا کر دیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اس پر انہوں نے مجھے کہہ دیا کہ اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ۔ حضرت اُمّ سلمہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میرے بیٹے کو بنی عبدالاسد نے واپس کر دیا۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو تیار کیا اور اپنے بچے کو ساتھ لے کر اس پر سوار ہوئی۔ جب میں مدینہ کو روانہ ہوئی تو کوئی بھی مددگار میرے ساتھ نہ تھا۔ جب مقام تنعیم میں پہنچی تو وہاں پر مجھے حضرت عثمان بن ابو طلحہ، (یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے سَن 6ہجری میں اسلام قبول کیا تھا) ملے اور مجھے کہنے لگے کہ اے اُمّ سلمہ کدھر جا رہی ہیں؟ میں نے کہا کہ میں اپنے خاوند کے پاس مدینہ جا رہی ہوں۔ حضرت عثمان نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی ہے؟ میں نے کہا کہ خدا کی قسم! کوئی بھی نہیں۔ صرف میرا یہ بیٹا اور خدا میرے ساتھ ہے۔ عثمان نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس طرح تن تنہا میں تمہیں ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ پھر انہوں نے میرے اونٹ کی مہار پکڑ لی۔ حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے عرب کے آدمیوں میں سے اتنا معزز شخص کوئی نہیں دیکھا۔ جب منزل پر پہنچتے تو اونٹ کو بٹھا کر الگ ہو جاتے۔ (مختلف جگہوں پہ پڑاؤ ڈالتے ہوئے جاتے تھے۔ جب ایک منزل پر پہنچتے تواونٹ کو بٹھاتے اور الگ ہو جاتے۔) میں جس وقت اونٹ سے اترتی تو وہ اونٹ پر سے اس کا کجاوہ اتار کر اسے درخت سے باندھ دیتے اور علیحدہ درخت کے سائے میں جا کر سو جاتے۔ جب چلنے کا وقت ہوتا تو وہ اونٹ کو تیار کر دیتے اور پھر میں اس پر سوار ہو جاتی اور وہ نکیل پکڑ کر چل پڑتے یہاں تک کہ ہم اسی طرح مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت عثمان بن ابوطلحہ نے جب قبا میں بنو عمرو بن عوف کے گاؤں کو دیکھا تو مجھ سے کہا کہ اے اُمّ سلمہ! تمہارے خاوند ابو سلمہ یہیں پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تم خدا کی برکت کے ساتھ اس جگہ میں داخل ہو جاؤ اور پھر عثمان واپس مکّہ کو چلے گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 333،ذکر المہاجرین الی المدینہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001)
ہجرت کے دوسرے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ عُشَیْرَہ کے لئے نکلے تو ابو سلمہ کو مدینہ میں امیر مقرر فرمایا۔
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد سوم صفحہ 71،عبد اللہ بن عبد الاسد،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
غزوہ عُشَیْرَہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’جمادی الاولیٰ میں پھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقرر فرمایا۔ اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی چکر کاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب یَنْبُع کے مقام عُشَیْرَہ تک پہنچے۔ اور گو قریش کا مقابلہ نہیں ہوا مگر اس میںآپ نے قبیلہ بنو مُدْلِجْ کے ساتھ انہی شرائط پر جو بنو ضَمْرَہ کے ساتھ قرار پائی تھیں ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔‘‘
سیرت خاتم النبین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے صفحہ329)
بنو ضَمْرَہ کے ساتھ یہ شرائط طے پائی تھیں کہ بنو ضَمْرَہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بلائیں گے تو وہ فوراً آ جائیں گے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنو ضَمْرَہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 133 باب ذکر بعثہ رسول اللہﷺ الرسل بکتبہ ۔۔۔ الخ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ جنگ اُحد میں جو ہزیمت مسلمانوں کو پہنچی اس نےقبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف سر اٹھانے پر آگے سے بھی زیادہ دلیر کر دیا۔ چنانچہ ابھی جنگ اُحد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور صحابہ ابھی اپنے زخموںکے علاج سے بھی پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ محرم 4ہجری میں اچانک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قبیلہ اسد کا رئیس طُلَیْحَہ بن خُوَیلد اور اس کا بھائی سلمہ بن خُوَیلد اپنے علاقہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر رہے ہیں ۔ اس خبر کے ملتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنے ملک کے حالات کے ماتحت اس قسم کی خبروں کے خطرات کو خوب سمجھتے تھے فوراً ڈیڑھ سو صحابیوں کا ایک تیز رَو دستہ تیار کر کے اس پر ابوسلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں تاکید کی کہ یلغار کرتے ہوئے پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ بنو اسد اپنی عداوت کو عملی جامہ پہنا سکیں انہیں منتشر کر دیں۔ چنانچہ ابوسلمہ تیزی مگر خاموشی کے ساتھ بڑھتے ہوئے وسط عرب کے مقام قَطَنْ میں بنو اسد تک پہنچ گئے اور انہیں جا لیا۔ لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی بلکہ بنو اسد کے لوگ مسلمانوں کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے۔ اور ابو سلمہ چند دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ واپس پہنچ گئے۔ اس سفر کی غیر معمولی مشقت سے ابو سلمہ کا وہ زخم جو انہیں اُحد میں آیا تھا اور اب بظاہر مندمل ہو چکا تھا پھر خراب ہو گیا اور باوجود علاج معالجہ کے بگڑتا ہی گیا اور بالآخر اسی بیماری میں اس مخلص اور پرانے صحابی نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات پائی۔
(سیرت خاتم النبین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے صفحہ511)
انہیں اَلْیَسِیْرَۃ کنوئیں کے پانی سے غسل دیا گیا جو عَالِیہ مقام پر بنو اُمّیّہ بن زید کی ملکیت میں تھا۔ اس کنوئیں کا نام جاہلیت میں العَبِیْر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر اَلْیَسِیْرَۃ رکھ دیا تھا۔ اور حضرت ابو سلمہ کو مدینہ میں دفن کیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 128 ابو سلمہ بن عبدالاسد داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)
حضرت ابوسلمہ کی جب وفات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کھلی آنکھوں کو بند کیا اور ان کی وفات کے بعد یہ دعا کی کہ اے اللہ! ابوسلمہ سے مغفرت کا سلوک فرما اور اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر دے اور پیچھے رہ جانے والے اس کے پسماندگان میں خود اس کا قائمقام ہو جا۔ اے تمام جہانوں کے رب! اسے بخش دے اور ہمیں بھی۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ جب حضرت ابوسلمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا میرے اہل پر میرا جانشین بہترین شخص کو بنانا۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ سلمہ سے نکاح کر لیا۔
(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جز ثالث صفحہ296، عبداللہ بن عبدالاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
حضرت اُمّ سلمہ کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوسلمہ حضرت اُمّ سلمہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے جو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس شخص کو جو بھی مصیبت پہنچے اس پر وہ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر یہ کہے کہ اے اللہ! مَیں اپنی اس مصیبت کا آپ کے ہاں سے ثواب طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے اس کا بدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے۔ حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ جب ابوسلمہ شہید ہوئے تو میں نے یہ دعا مانگی جبکہ میرا دل پسند نہیں کر رہا تھا کہ میں دعا مانگوں کہ اے اللہ! مجھے ان یعنی حضرت ابوسلمہ کا بدل عطا فرما۔ پھر میںنے کہا ابوسلمہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ایسے نہ تھے؟ کیا وہ ویسے نہ تھے؟ یعنی ایسی ایسی خوبیوں اور صفات حسنہ کے مالک تھے۔ پھر بھی میں یہ دعا پڑھتی رہی۔ جب حضرت اُمّ سلمہ کی عدت پوری ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام نکاح آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شادی کر لی۔
الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 132 مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
شادی کا تذکرۃ کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا کہ اسی سال (4ہجری) ماہ شوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ سے شادی فرمائی۔ اُمّ سلمہ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے پہلے ابوسلمہ بن عبدالاسد کے عقد میں تھیں جو ایک نہایت مخلص اور پرانے صحابی تھے اور اسی سال فوت ہوئے تھے۔ جب اُمّ سلمہ کی عدت (یعنی وہ میعاد جو اسلامی شریعت کی رو سے ایک بیوہ یا مطلقہ عورت پر گزرنی ضروری ہوتی ہے اور اس سے پہلے وہ نکاح نہیں کر سکتی وہ) گزر گئی تو چونکہ اُمّ سلمہ ایک نہایت سمجھدار اور باسلیقہ اور قابل خاتون تھیں اس لئے حضرت ابوبکر کو ان کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مگر اُمّ سلمہ نے انکار کیا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے لئے ان کا خیال آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُمّ سلمہ کی ذاتی خوبیوںکے علاوہ جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں وہ ایک بہت بڑے پائے کے قدیم صحابی کی بیوہ تھیں اور پھر صاحب اولاد بھی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کوئی خاص انتظام ہونا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں چونکہ ابوسلمہ بن عبدالاسد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پسماندگان کا خاص خیال تھا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ کو اپنی طرف سے شادی کا پیغام بھیجا۔ پہلے تواُمّ سلمہ نے اپنی بعض معذوریوں کی وجہ سے کچھ تامّل کیا اور یہ عذر بھی پیش کیا کہ میری عمر اب بہت زیادہ ہو گئی ہے اور مَیں اولاد کے قابل نہیں رہی۔ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض اَور تھی اس لئے بالآخر وہ رضا مند ہو گئیں اور ان کی طرف سے ان کے لڑکے نے ماں کا ولی ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی شادی کر دی۔ جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے اُمّ سلمہ ایک خاص پائے کی خاتون تھیں اور نہایت فہیم اور ذکی ہونے کے علاوہ اخلاص و ایمان میںبھی ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتی تھیں اور ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ابتداء ً حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ مدینہ کی ہجرت میںبھی وہ سب مستورات سے اوّل نمبر پر تھیں۔ حضرت اُم سلمہؓ پڑھنا بھی جانتی تھیں اور مسلمان مستورات کی تعلیم و تربیت میں انہوں نے خاص حصہ لیا۔ چنانچہ کتب حدیث میں بہت سی روایات اور احادیث ان سے مروی ہیں اور اس جہت سے ان کا درجہ ازواج النبی میں دوسرے نمبر پر اور کُل صحابہ (مردو زن) میں بارہویں نمبر پر ہے۔‘‘
(ماخوذ از سیرت خاتم النبین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے صفحہ530۔531)
یہ صحابہ کا ذکر تھا ۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے اعلیٰ مقام کو مزید بلندیوں پر لے جاتا چلا جائے اور ہمیں بھی ان نیکیوں کو کرنے کی توفیق دے جو یہ لوگ کرتے رہے۔
اب میں کچھ وفات شدگان کا اعلان کروں گا اور نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔
ان میں سے پہلے راجہ نصیر احمد صاحب ناصر ہیں جو واقف زندگی تھے اور مربی سلسلہ تھے اور سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ بھی رہے۔ 6؍جولائی کو صبح گیارہ بجے 80سال کی عمرمیں ان کی طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کئی سالوں سے آپ بیمار تھے۔ 2012ء سے ان کی طبیعتآہستہ آہستہ خراب چلی آ رہی تھی۔ گزشتہ تین ماہ سے برین ہیمبرج کی وجہ سے بالکل ہی بستر پر تھے۔ 7؍مئی 1938ء کو بھیرہ ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کیا ۔اس کے بعد لاہور جا کر محکمہ اریگیشن(Irrigation) میں بطور کلرک نوکری شروع کر دی۔ 1958ء میں انہوں نے زندگی وقف کی اور جامعہ میں داخل ہوئے اور 1965ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد راجہ غلام حیدر صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور بعد میں پھر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی بھی بیعت کروائی۔ راجہ نصیر احمد صاحب کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا ایک بیٹا وقف زندگی ہو۔ چنانچہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے راجہ صاحب نے 1958ء میں وقف زندگی کا فارم پُر کیا اور اپنے بڑے بھائی راجہ نذیر احمد صاحب ظفر( مرحوم) کے پاس لے گئے کہ اس پر دستخط کر دیں۔ ان کے بھائی نے انہیں کہا کہ سوچ لیں کہ یہ وقف زندگیبڑا مشکل کام ہے اور بڑامحنت کا کام ہے اور بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ لیکن آپ نے اپنے بھائی کو کہا کہ میں نے بہت سوچ لیا ہے آپ دستخط کر دیں۔ والد تو ان کے فوت ہو چکے تھے۔ اس کے بعد بہرحال آپ نے وقف کیا۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ جامعہ میں داخل ہوئے اور پھر وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں آئے۔ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد 47 سال جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ پاکستان میں مختلف جگہوں پر مربی کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور جب بنگلہ دیش اور پاکستان ایک ہوتے تھے تو مشرقی پاکستان میں یا بنگلہ دیش میں بھی اور مشرقی پاکستان میں بھی ان کو بطور مربی خدمت کی توفیق ملی۔ یوگنڈا میں بھی مبلغ کے طور پر رہے۔ زائرے میں رہے۔ انڈونیشیا میں رہے۔ دو سال جامعہ احمدیہ میں بطور استاد بھی خدمت کی توفیق پائی۔ پھر صدر انجمن احمدیہ میں نائب ناظر بھی رہے۔ اس کے بعد دس سال ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ خدمت کی توفیق پائی۔ دو سال ایڈیشنل ناظر رشتہ ناطہ۔ پھر دو سال ایڈیشنل ناظر اشاعت کے طور پر ان کو توفیق ملی۔ اور 2012ء میں پھر یہ ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کی اہلیہ ان کی چچا زاد تھیں جو اِن کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں۔ اور ان کے تین بیٹے ہیں۔راجہ محمد احمد صاحب یہاں لندن میں رہتے ہیں۔ راجہ عطاء المنان مربی سلسلہ وکالت تصنیف ربوہ میںہیں ۔ اور راجہ محمد اکبر بھی یہاں انگلستان میں ہی رہتے ہیں۔ بڑے متوکّل اور دعا گو شخصیت تھے۔ ان کے بیٹے ہی لکھتے ہیں کہ آپ بنگلہ دیش میں تھے تو وہاں ایک دفعہ آگ لگ گئی اور احمدیوں کے گھروںکے قریب تک آگ پہنچ گئی۔ اس پر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ تیرے مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے تُو ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ کہتے ہیں کہ آگ اس گھر کی طرف آئی اور اس کے ایک کونے کو چُھو کے واپس وہیں رک گئی اورآگے نہیں بڑھی اور احمدیوں کے گھر جو تھے نقصان سے بچ گئے۔
یہ جب یوگنڈا میں تھے تو خانہ جنگی کی وجہ سے وہاں کے حالات خراب ہو گئے۔ لیکن پھر بھی آپ تبلیغ کے لئے جاتے رہتے تھے۔ تبلیغ کے لئے صبح جاتے تھے اور شام کو آتے تھے۔ ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیںتھی تو قریب قریب کے علاقوں میں جا سکتے تھے۔ وہاں کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ جماعت اسلامی کا ایک شخص آپ کو کسی تبلیغی جماعت کا مولوی سمجھ کر آیا ۔ اس نے کہا کہ اچھا میرے پاس ایک گاڑی ہے وہ آپ خرید لیں اور اس نے کہا کہ 1400ڈالر کی گاڑی لے لیں۔ آخر سودا گیارہ سو پچاس ڈالر میں طے پایا۔ جماعت کے مالی حالات بھی ایسے نہیںتھے کہ گاڑی خرید سکتے۔ نہ راجہ صاحب کے اپنے حالات ایسے تھے کہ گاڑی خرید سکیں۔ مگر آپ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ سودا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ پیسوں کا انتظام کر دے تا کہ میں گاڑی خرید سکوں۔ اور اس لئے دعا کی کہ اپنا چولہا اور بستر رکھ کر تبلیغ کے لئے نکل جایا کروں اور تبلیغ میںسہولت رہے گی ۔ کہتے ہیں بڑے پریشان تھے۔ سودا بھی ہو گیا تھا۔ چند دن کی مہلت تھی پیسے دینے کی۔ تو کہتے ہیں ایک دن مَیں نے پوسٹ بکس کھولا تو اس میں سے ایک خط نکلا جواُن کے ایک نسبتی بھائی کا تھا۔ کینیڈا سے آیا ہوا تھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا کہ میں نے رات خواب دیکھی کہ آپ کو ساڑھے گیارہ سو ڈالر کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو کیوں ضرورت ہے۔ لیکن بہرحال وہ پیسے آپ کو بھجوا رہا ہوں اور ساتھ ہی ساڑھے گیارہ سو ڈالر کاچیک بھی تھا ۔ اس طرح اور بھی ان قبولیت دعا کےبہت سارے واقعات ہیں ۔
قرآن کریم کی تلاوت کا ان کو بڑا شوق تھا۔ یہی لکھتے ہیں کہ والد صاحب کو شوق تھا کہ فضا میں بھی اور پانی میں بھی قرآن کریم ختم کریں۔ خشکی میں تو کئی دفعہ ختم کیا۔ اوربحری سفر میں بھی ان کو قرآن کریم ختم کرنے کی توفیق ملی۔ لیکن ہوائی جہاز کا لمبا سفر نہیں تھا تو جتنا بھی جس حد تک سفر کے دوران پڑھ سکتے تھے وہ پڑھا کرتے تھے۔ ان کے واقف زندگی بیٹے راجہ عطاء المنان جو ہیں، مربی ہیںا ور وکالت تصنیف میں آجکل کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابّا جان نے ہمیشہ دو نصیحتیں کی تھیں۔ ایک یہ کہ کبھی شرک نہیں کرنا۔ اور دوسرا یہ کہ ہر حال میں خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہنا۔ اور خود بھی انہی باتوں کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ والدہ کی عزت و احترام کا یہ حال تھا کہ ان کی ہمشیرہ لکھتی ہیں کہ میری والدہ کی اتنی فرمانبرداری تھی کہ اگر کوئی بات وہ بار بار کہتیں تو ہر دفعہ ان کی بات کو اس طرح سنتے جس طرح وہ پہلی دفعہ سن رہے ہیں۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ پہلے مجھے یہ کہہ چکی ہیں۔ ان کی بہو جو مربی سلسلہ کی بیوی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ اٹھارہ سالوں میں اس گھر سے اور خاص کر ابّا جی اور اُمّی یعنی سسر اور ساس سے سوائے عزت، محبت، پیار، مان کے اور کچھ نہیں ملا اور راجہ صاحب میری مرحومہ والدہ کو کہا کرتے تھے کہ میں آپ کی بیٹی کو میکہ بھلوا دوں گا۔ تو انہوں نے کہا کہ بچیاں میکہ کس طرح بھول سکتی ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ جب سسرال میں کوئی بیٹی کی طرح رکھے تو میکے بھول جایا کرتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی بہوؤں سے بھی بڑا پیار اور محبت کا سلوک رکھا۔ یہی لکھتی ہیں کہ ابّا جی کو میں نے عاشقِ خدا، عاشقِ رسول، عاشقِ مسیح موعود علیہ السلام اور عاشقِ خلفائے کرام اور عاشقِ قرآن اور خلافت سے بے انتہا محبت اور حد درجہ اطاعت کرنے والا، معاملہ فہم، صائب الرائے اور انتہائی حلیم پایا۔ لکھتی ہیں ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ہر مہینے قرآن کریم کا دور مکمل کیا کرتے تھے۔ ان کے رشتہ داروں نے بھی لکھا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے اور یہ غیر معمولی تھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کی ضروریات پوری کرتا تھا اور ان کی دعائیں سنتا تھا۔ بہرحال ایک کامیاب مربی اور مبلغ تھے۔ انتظامی صلاحیت بھی تھی۔ خلافت سے ان کا تعلق جو تھا ایک مثالی تعلق تھا اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا تعلق تھا کہ جس طرح نبض چلتی ہے اس طرح یہ خلافت کے ساتھ جسم کے ساتھ، دل کے ساتھ چلاکرتے تھے اس طرح ان کا خلافت کے ساتھ تعلق تھا اور پاکستان میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مجھے ناظر اعلیٰ بنایا ہے تو اس وقت بھی ایک نمایاں اطاعت کا پہلو میںنے ان میں دیکھا ہے صرف اس لئے کہ خلیفۃ المسیح نے مقرر کیا ہے اور ان کا نمائندہ ہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرنی ہے۔بہرحال ایک مثالی اطاعت گزار تھے جو کم کم ہی دنیا میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ غریبوں کا خیال رکھنے والے۔ جن مربیان کے ساتھ کام کیا ان مربیان کا خیال رکھنے والے۔ ان کی ضروریات کی طرف توجہ دینے والے اور پورا کرنے کی کوشش کرنے والےتھے۔ بہت سارے مربیان نے مجھے لکھا ہے۔
اس کے علاوہ دو شہداء کا جنازہ ہو گا جو جماعت کی وجہ سے تو شہید نہیں لیکن بہرحال ان کی دکان پر ڈاکہ پڑا اور ان کو وہاں ڈاکوؤں نے گولیاںمار کر شہید کر دیا۔ ان میں ایک مبین احمد صاحب شہید ابن محبوب احمد صاحب ہیں اور دوسرے محمد ظفر اللہ صاحب ابن لیاقت علی صاحب ہیں ۔ 7؍جولائی 2018ء کو تقریباً دوپہر کے تین بجے کراچی کے علاقہ ویٹا چوک چورنگی انڈسٹریل ایریا میں ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے تین احمدی خدام مبین احمد صاحب ابن محبوب احمد صاحب اور ظفر اللہ صاحب اور محمد نصر اللہ صاحب کو زخمی کر دیا تھا جس سے مبین احمد صاحب اور ظفراللہ صاحب کی شہادت ہو گئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی دکان پر یہ آئے تھے۔ الیکٹرانکس کی دکان تھی اور ڈکیتی کے ساتھ فائرنگ کر گئے۔ کیونکہ اِنہوں نے آگے سے resist کیا تو اُنہوں نے فائرنگ کی اور اِن کو شہید کر دیا۔
مکرم مبین احمد صاحب ابن مکرم محبوب احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم چوہدری اللہ داد صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1940ء میں اپنے بڑے بھائی عبدالعزیز پٹواری صاحب کے ذریعہ بیعت کی۔ بیعت کے بعد ان کے بیٹوں نے ان کی مخالفت شروع کر دی اور گھر میں ان کے لئے ایک الگ جگہ مقرر کر دی اور ان کے بستر اور برتن الگ کر دئیے۔ لیکن انہوں نے بڑے صبر سے حالات کا مقابلہ کیا۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم علی محمد صاحب جماعت کے سخت مخالف تھے اور مخالف احمدیت عطاء اللہ شاہ بخاری کے مرید تھے جو سخت مخالف تھا اور جب عطاء اللہ شاہ بخاری نے پارٹیشن کے وقت قائداعظم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے، کافر اعظم کہا اور اسی طرح مسلم لیگ کے خلاف بولے۔ تب ان کے دادا ان سے الگ ہو گئے اور پھر جب برصغیر کی تقسیم ہوئی ہے۔ پاکستان، ہندوستان بنا ہے اور جماعت ہجرت کر کے لاہور آئی تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہجرت کے متعلق پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھا تو ان کا پھر جماعت کی طرف رجحان پیدا ہوا اور قیام پاکستان کے بعد یہ فیملی پھر نوابشاہ شفٹ ہو گئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سندھ کے دورے کے دوران شہید مرحوم کے دادا نے ریلوے سٹیشن پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا جب دیدار کیا اور حضور کا چہرہ دیکھا تو پھر کہنے لگے یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوگئے۔
مبین احمد صاحب بی اے کے طالبعلم تھے۔ شہادت کے وقت مرحوم کی عمر بیس سال تھی۔ مبین احمد صاحب اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بردبار طبع، سنجیدہ طبع، متین صورت نوجوان تھے۔ مبین احمد صاحب پنجوقتہ نماز کے عادی تھے۔ گھر میں سب سے پیار سے پیش آتے۔ شہید مرحوم جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ایک فعّال خادم تھے۔ جماعتی کاموں کے لئے اپنا ضروری کام چھوڑنا پڑتا تو پرواہ نہ کرتے تھے ۔ شہید مرحوم نے وصیت کی ہوئی تھی اور مسل نمبر آ چکا تھا۔ امید ہے انشاء اللہ اب ان کی وصیت بھی منظور ہو جائے گی۔ اہل محلہ سے بھی بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ اور ہر آنے والے چھوٹے بڑے نے ان کی تعریف کی ہے۔ مبین احمد صاحب اسی واقعہ میں شہید ہونے والے دوسرے خادم محمد ظفر اللہ صاحب کے پھوپھی زاد تھے۔ ان کے پسماندگان میں والد مکرم محبوب احمد صاحب، والدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے علاوہ بہنیں مبینہ محبوب عمر 23سال، کنزہ محبوب عمر 16 سال اور بھائی امین احمد عمر 13سال ہیں جو سوگوار چھوڑے ہیں۔
دوسرے شہید جن کا جنازہ ہو گا محمد ظفر اللہ صاحب ابن لیاقت علی صاحب ہیں ۔ ان کو اس واقعہ کے دوران تین گولیاں لگی تھیں جس سے ان کے دونوں گردے شدید زخمی ہو گئے۔ ان کا آپریشن کیا گیا۔ وہ آپریشن ٹھیک ہو گیا لیکن پھر طبیعت خراب ہو گئی۔ پھر دوبارہ آپریشن کے لئے ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا لیکن ایک رات پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ وفات ہو گئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے خاندان میں بھی احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا غلام دین صاحب کے ذریعہ سے ہوا جو ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت عبدالعزیز پٹواری کے کھیتوں پر کام کرتے تھے۔ آپ ایک دن ان کے ساتھ قادیان گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کے بعد بیعت کر لی۔
محمد ظفر اللہ صاحب شہید کی پیدائش اکتوبر 1993ء کی ہے۔یہ کراچی میں پیدا ہوئے۔ بڑے ہنس مکھ، خوش اخلاق خادم تھے۔ ہر وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی۔ مرحوم جماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ مختلف واسطوں سے خدام الاحمدیہ کے کام کرتے تھے اور اللہ کے فضل سے مرحوم موصی تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 25سال تھی۔ ان کے پسماندگان میں والد ہیں لیاقت علی صاحب۔ نصیرہ بیگم صاحبہ والدہ۔ پانچ بھائی ہیں۔ وجاہت احمد 33سال عمر ہے۔ منصور احمد 31 سال، مستنصر احمد 28سال، شجاع احمد 27سال، حافظ محمد نصراللہ 24سال۔
اس واقعہ میں زخمی ہونے والے تیسرے حافظ نصر اللہ صاحب تھے۔ وہ بھی ان کے بھائی ہیں۔ ان کا آپریشن ہو چکا ہے۔ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان مرحومین کے درجات بلند فرماتا رہے۔ لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔