خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 20؍جولائی 2018ء
غزوہ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ میں سے حضرت خَلَّاد بن رَافِع زُرَقی، حضرت حَارِثہ بن سُراقہ، حضرت عبَّاد بن بِشر، حضرت سَواد بن غَزِیَّہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات زندگی، ان کے ایمان و اخلاص، صدق و وفا، محبت رسول اور عشق و فدائیت کا ایمان افروز تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ ان چمکتے ستاروں کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں بھی عشق رسول عربی کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20؍ جولائی 2018ء بمطابق20؍وفا 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جن کا نام حضرت خَلَّاد بن رَافِع زُرَقی تھا آپ انصاری تھے۔ یہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جو غزوہ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی کثیر عطا فرمائی۔
الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 447 خلاد بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ مُعَاذ بِن رِفَاعَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں مَیں اپنے بھائی حضرت خَلَّاد بِن رَافِع کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بہت لاغر کمزور اونٹ پر سوار ہو کر بدر کی طرف نکلا یہاں تک کہ ہم بَرِیْد مقام پر پہنچے جو رَوْحاء کے مقام سے پیچھے ہے تو ہمارا اونٹ بیٹھ گیا۔ تو میں نے دعا کی کہ اے اللہ ہم تجھ سے نذر مانگتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس پر مدینہ لوٹا دے تو ہم اس کو قربان کر دیں گے۔ پس ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ تم دونوں کو کیا ہواہے۔ ہم نے آپ کو ساری بات بتائی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس رکے اور آپ نے وضو فرمایا۔ پھر جو بچا ہوا پانی تھا اس میں لعاب دہن ڈالا۔ پھر آپ کے حکم سے ہم نے اونٹ کا منہ کھول دیا۔ آپ نے اونٹ کے منہ میں کچھ پانی ڈالا۔ پھر کچھ اس کے سر پر، اس کی گردن پر، اس کے شانے پر، اس کی کوہان پر، اس کی پیٹھ پر اور اس کی دم پر(پانی ڈالا)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! رافع اور خَلَّاد کو اس پر سوار کر کے لے جا۔ کہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ہم بھی چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اور چل پڑے یہاں تک کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مَنْصَفْ مقام کے شروع میں پا لیا اور ہمارا اونٹ قافلے میں سب سے آگے تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں دیکھا تو مسکرا دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اس کی وہ کمزوری بالکل دور ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں ہم چلتے رہے یہاں تک کہ بدر کے مقام پر پہنچ گئے۔ بدر سے واپسی پر جب ہم مُصَلّٰی مقام پر پہنچے تو وہ اونٹ پھر بیٹھ گیا۔ پھر میرے بھائی نے اس کو ذبح کر دیا اور اس کا گوشت تقسیم کیا اور ہم نے اس کو صدقہ کر دیا۔(کتاب المغازی للواقدی باب بدر القتال جلد اوّل صفحہ 25 عالم الکتب 1984ء)،(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 181 خلاد بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک نذر مانی تھی کہ جب وہ کام آ جائے تو اس کے بعد ہم ذبح کر دیں گے۔ اس کے مطابق انہوں نے اس پر عمل کیا۔
ایک صحابی کا ذکر ملتا ہے ان کا نام حضرت حَارِثَہ بن سُراقہ تھا۔ ان کی وفات 2ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر ہوئی تھی۔ ان کی والدہ رُبَیّعْ بنتِ نَضْر حضرت انس بن مالک کی پھوپھی تھیں۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 1صفحہ 704 حارثہ بن سراقہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) ہجرت سے پہلے والدہ کے ساتھ یہ مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ آپ کے والد وفات پا چکے تھے۔(سیر الصحابہؓ جلد 3 صفحہ 299مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت سَائِب بن عُثْمان بن مَظْعُون کے درمیان عقد مؤاخات کیا تھا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 307 سائب بن عثمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) مؤاخات کا معاہدہ کروایا تھا، بھائی بھائی کاعقد کروایا تھا۔ ابونعیم نے بیان کیا کہ حضرت حارثہ بن سراقہ اپنی والدہ سے بہت حسن سلوک سے کام لینے والے تھے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں حَارِثَہ کو دیکھا۔ حَبَّان بن عَرِقَہ نے بدر کے دن آپ کو شہید کیا۔ اس نے انہیں اس وقت تیر مارا جبکہ آپ حوض سے پانی پی رہے تھے۔ وہ تیر آپ کی گردن پر لگا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے کہ ایک انصاری جوان آپ کے سامنے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے حارثہ! تم نے کس حال میں صبح کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ مَیں یقیناً اللہ پر حقیقی ایمان رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اس نوجوان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا دل دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے۔ میں رات بھر جاگتا ہوں اور دن بھر پیاسا رہتا ہوں۔ یعنی عبادت کرتا ہوں اور روزے رکھتا ہوں اور میں گویا اپنے پروردگار عزوجل کا عرش ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میں گویا اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ گویا باہم ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور گویا اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس میں شور مچا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسی پر قائم رہو۔ تم ایک ایسے بندے ہو جس کے دل میں اللہ نے ایمان کو روشن کر دیا ہے۔ پھر اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے شہادت کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بدر کے روز جب گھڑ سواروں کو بلایا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے پہلے نکلے اور سب سے پہلے سوار تھے جو شہید ہوئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلے انصاری تھے جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے۔ حضرت حارثہ کی شہادت کی خبر جب ان کی والدہ کو ملی تو ان کی والدہ حضرت ربیعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا۔ بہت خدمت کیا کرتے تھے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو میں صبر کر لوں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کیا کروں گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اُمّ حارثہ جنت ایک نہیں بلکہ کئی جنتیں ہیں اور حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے۔ جو اعلی ترین جنت ہے اس میں ہے۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ میں ضرور صبر کروں گی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے تو اس پر آپ کی والدہ اس حال میں واپس چلی گئیں کہ وہ مسکرا رہی تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں کہ واہ واہ اے حارثہ۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 650-651 حارثہ بن سراقہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
غزوہ بدر کے موقع پر خدا تعالیٰ نے کفار کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار کر کفار کو رسوا کیا اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے مسلمانوں کو عزت بخشی اور خدا تعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق خبر پائی تو فرمایا کہ تم جو مرضی کرو تم پر جنت واجب ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو کہا کہ تم جو مرضی کرو جنت واجب ہو گئی ہے۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ جو مرضی کرو۔ اب گناہ بھی کرو تو جنت واجب ہے۔مطلب یہ کہ اب ان سے ایسی کوئی باتیں نہیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف ہوں۔ اللہ تعالیٰ خود ان کی رہنمائی فرماتا رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا جو کہ غزوہ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے کہ وہ جنت الفردوس میں ہیں۔
(شرح زرقانی جلد دوم صفحہ 257 باب غزوہ بدر الکبریٰ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
پھر ایک صحابی حضرت عَبَّاد بن بِشر ہیں۔ جنگ یمامہ گیارہ ہجری میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ حضرت عباد بن بشر کی کنیت ابو بشر اور ابو ربیع ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عبدالاَشْھَل سے تھا۔ ان کی اولاد میں صرف ایک بیٹی تھی وہ بھی فوت ہو گئی۔ انہوں نے مدینہ میں حضرت مُصْعَب بن عُمَیر کے ہاتھ پر حضرت سعد بن مُعَاذ اور حضرت اُسَید بن حُضَیْر سے پہلے اسلام قبول کیا۔ مؤاخات مدینہ کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حضرت اَبو حُذَیفہ بن عُتْبَہ کا بھائی بنایا۔ حضرت عباد بن بشر غزوہ بدر، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے۔ آپ ان اصحاب میں شامل تھے جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 336 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تواریخ سے لے کے سیرۃ خاتم النبیین میں بھی لکھا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ’’بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کر دیا تھا…( بدر کی جنگ میں مدینہ کے یہودیوں کا خیال تھا کہ کفار جو ہیں یہ اب مسلمانوں کو ختم کر دیں گے۔ لیکن جنگ کا پانسا مسلمانوں کے حق میں پلٹا گیا۔ مسلمانوں کو فتح ہوئی اور اس وجہ سے یہودیوں کی عداوت بھی ظاہر ہوئی۔) مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ’’ بنو قَیْنُقَاع کی جلا وطنی بھی دوسرے یہودیوں کو اصلاح کی طرف مائل نہ کر سکی اور وہ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔ چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ کعب گو مذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا بلکہ عرب تھا۔ اس کا باپ اشرف بَنُونَبھانْ کا ایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آ کر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے۔ ان کا حلیف بن گیا اور بالآخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بَنُو نَضِیر کے رئیس اعظم ابورافع بن اَبُو الحَقِیْق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی۔ اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا حتی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگ گئے۔ کعب ایک وجیہ اور شکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر اور نہایت دولتمند آدمی تھا۔ ہمیشہ اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لوگوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا۔ مگر اخلاقی نقطہ نظر سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔( فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے اسے بڑا کمال حاصل تھا ۔) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو کَعْب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن و امان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا۔ ظاہراً تو یہ معاہدہ کیا مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض و عداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی خیرات کر دیا کرتا تھا۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تو اس نے باتوں باتوں میں ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شروع کر دیا اور ان سے آپ کے متعلق مذہبی کتب کی بناء پر رائے دریافت کی۔ تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا۔ کعب اس جواب پر بہت بگڑا اور ان سب کو بڑا سخت سست کہا اور رخصت کر دیا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا وہ نہ دی۔ یہودی علماء کی جب روزی بند ہو گئی تو کچھ عرصہ کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ غور کیا ہے۔ دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اس جواب سے پھر کعب کا مطلب حل ہو گیا اور اس نے خوش ہو کر ان کو سالانہ خیرات دے دی۔ اب یہ لکھتے ہیں کہ’’ خیر یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی جو گوناگوار صورت میں اختیار کی گئی لیکن قابل اعتراض نہیں ہو سکتی تھی۔(لوگ مذہبی مخالفت کرتے ہیں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے) اور نہ اس بناء پر کعب کو زیر الزام سمجھا جا سکتا تھا‘‘۔( یہ اس کے قتل کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ تو کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اس کو قتل کیا جائے لیکن وجہ کیا بنی۔) ’’اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی اور بالآخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے۔ دراصل بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ جوش ایمان ایک عارضی چیز ہے اور آہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہو کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ آئیں گے لیکن جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کو غیر متوقع فتح نصیب ہوئی اور رؤوسائے قریش اکثر مارے گئے تو اس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ و برباد کرنے میں صرف کر دینے کا تہیہ کر لیا۔اس کے دلی بغض و حسد کا سب سے پہلا اظہار اس موقع پر ہوا جب بدر کی فتح کی خبر مدینہ پہنچی تو اس خبر کو سن کر کعب نے علی رؤوس الاشہاد یہ کہہ دیا کہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہو اور مکہ کے اتنے نامور رئیس خاک میں مل جائیں۔ اور اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر اس زندگی سے مرنا بہتر ہے۔ یہ کعب نے کہا۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گئی اور کعب کو یہ یقین ہو گیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کو وہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ غیظ و غضب سے بھر گیا اور فوراً سفر کی تیاری کر کے اس نے مکہ کی راہ لی۔ وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بار کر دیا۔ ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی۔ ان کے سینے جذبات انتقام و عداوت سے بھر دئیے۔ اور جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اور کعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں گے اس وقت تک چین نہ لیں گے۔(مکہ کے کافروں سے اس نے یہ عہد لیا ۔) مکہ میں یہ آتش فشاں فضا پیدا کر کے اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اور قوم بہ قوم پھر کر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔ پھر مدینہ میں واپس آ کر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی۔ یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا حتی کہ خاندان نبوت کی مستورات کو بھی اپنے اوباشانہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اور ملک میں ان اشعار کا چرچا کروایا۔ بالآخر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا۔ مگر خدا کے فضل سے اس کی وقت پر اطلاع ہو گئی اور اس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریکِ جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازشِ قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوامی معاہدے کی رو سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیان مدینہ سے ہوا تھا آپ مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکم اعلیٰ تھے۔ آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابیوں کو ارشاد فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جاوے۔ لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طورپر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو مدینہ میںایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کا احتمال تھا جس میں نامعلوم کتنا کشت و خون ہونا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ممکن اور جائز قربانی کر کے بین الاقوامی کشت و خون کو روکنا چاہتے تھے۔( جنگ نہیں چاہتے تھے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو برملا طور پر( پورا سامنے لا کر) قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے کریں۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لئے تو کوئی بات کہنی ہو گی یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مددسے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر کسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے۔ آپ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو اس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پیدا ہو سکتے تھے فرمایا کہ اچھا۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابو نائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کو اس کے اندرون خانہ سے بلا کر کہا کہ ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہم تنگ حال ہیں۔ کیا تم مہربانی کر کے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو۔ یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا۔ کہنے لگا واللہ ابھی کیا ہے وہ دن دور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دو گے۔ اس پہ محمد نے جواب دیا خیر ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے مگر تم یہ بتاؤ کہ قرض دو گے یا نہیں۔ کعب نے کہا کہ ہاں مگر کوئی چیز رہن رکھو۔ محمد نے پوچھا کیا چیز؟ اس بدبخت نے جواب دیا کہ اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔ محمد نے غصہ کو دبا کر کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں تمہارا تو اعتبار کوئی نہیں۔ اس نے کہا اچھا تو پھر بیٹے سہی۔ محمدنے جواب دیا یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اپنے بیٹے تمہارے پاس رکھوا دیں۔ ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے۔ البتہ اگر تم مہربانی کرو تو ہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں۔ کعب راضی ہو گیا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے۔ جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر( کیونکہ اب وہ کھلے طور پر ہتھیار ساتھ لے جا سکتے تھے) کعب کے مکان پر پہنچے اور اس کو گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف لے آئے اور پھر تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے اس کو قابو کر کے وہ صحابہ جو پہلے ہتھیار بند تھے انہوں نے تلوار چلائی اور اسے قتل کر دیا۔ بہرحال کعب قتل ہو کر گرا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی وہاں سے رخصت ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ کو اس قتل کی اطلاع دی۔ جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آ گئے اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ اور پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی، تحریکِ جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ و فساد کے بیج نہ بووؤ۔ چنانچہ یہود کی رضا مندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ و فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 466 تا 470) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اس کے جرم گنوائے اور اس کا جو ظاہری نتیجہ نکلنا چاہئے تھا وہ بتایا کہ ان حرکتوں کے بعد اُسے قتل تو ہونا تھا اور یہود کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ آپ صحیح فرما رہے ہیں تبھی تو نیا معاہدہ کیا تا کہ اس قسم کے واقعات آئندہ نہ ہوں اور پھر پُرامن فضا آئندہ کے لئے قائم ہو جائے۔ یہ نہ ہو کہ اب یہودی بدلے لینے شروع کریں پھر مسلمان انہیں سزا دیں۔ اگر یہودی قتل کیا جانا غلط سمجھتے کہ نہیں اس طریقے سے غلط کیا گیا ہے تو خاموش نہ ہوتے بلکہ خون بہا کا مطالبہ کرتے۔ یہ مطالبہ تو انہوں نے نہیں کیا اور خاموشی دکھائی تو یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ اس وقت کے قانون کے مطابق یہ قتل جائز تھا۔کیونکہ جو فتنہ یہ پھیلا رہا تھا یہ قتل سے بھی بڑھ کر تھا اور یہی ایسے مجرم کی سزا تھی اور ہونی چاہئے تھی اور اس وقت کے رواج کے مطابق جب اس کو سزا دی گئی تو جیساکہ میں نے کہا اس طرح سزا دی جا سکتی تھی۔ اس رواج کے مطابق اگر سزا دی جا سکتی تھی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں اور یہودیوں کے رویے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے تو پھر اعتراض کی بھی گنجائش نہیں۔ اگر نہ دی جا سکتی ہوتی تو یہودی یقیناً سوال اٹھاتے کہ مقدمہ چلا کر اور پھر ظاہراً کھلے طور پر سزا کیوں نہیں دی گئی۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اس کا یہ قتل بالکل جائز تھا اور یہ سزا تھی لیکن یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ آجکل کے شدت پسند گروہ ایسی باتوں سے غلط sense میں بات کرتے ہیں اور اسی طرح حکومتیں بھی اور یہ سمجھتے ہیںکہ اس طرح کا قتل کرنا جائز ہے۔ اول تو فتنہ اس طرح پھیلایا نہیں جا رہا۔ جن کو قتل کیا جاتا ہے وہ فتنہ پھیلانے والوں میں نہیں ہیں۔ دوسرے صرف وہاں مجرم کو سزا دی گئی تھی نہ اس کے خاندان کو نہ کسی اورکو۔ یہ لوگ جب قتل کرتے ہیں تو معصوموں کو قتل کر رہے ہیں۔ عورتوں کو قتل کر رہے ہیں۔ بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں کو اپاہج کر رہے ہیں۔ بہرحال آجکل کے قاعدہ اور قانون کے مطابق یہ چیز جائز نہیں اور اُس وقت وہ سزا صحیح تھی اور واجب تھی اور حکومت نے اس کو دی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عَبَّاد بن بِشر کو بنو سُلَیْم اور مُزَیْنَہ کے پاس صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ حضرت عباد بن بشر ان کے پاس دس دن مقیم رہے۔ وہاں سے واپسی پر بنو مُصْطَلِقْ سے صدقہ وصول کرنے گئے۔ وہاں بھی آپ کا قیام دس دن کا رہا۔ اس کے بعد آپ واپس مدینہ آ گئے۔ اسی طرح یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباد بن بشر کو غزوہ حنین کے مال غنیمت کا عامل مقرر فرمایا تھا اور غزوہ تبوک میں آپ کو اپنے پہرے کا نگران مقرر فرمایا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 336 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام میںہوتا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ انصار میں سے تین شخص ایسے تھے کہ ان کے اوپر انصاری صحابہ میں سے کسی اور کو افضل شمار نہیں کیا جا سکتا اور وہ سب کے سب قبیلہ بنو عَبْدُ الْاشْھَل میں سے تھے۔ وہ تین یہ تھے۔ حضرت سعد بن معاذ، حضرت اُسَیْد بن حُضَیْر اور حضرت عباد بن بشر۔
حضرت عباد بن بشر سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ تم لوگ میرے شِعَارْ ہو۔( یعنی وہ کپڑا جو سب کپڑوں سے نیچے ہوتا ہے اور بدن سے ملا رہتا ہے۔) اور باقی لوگ دِثَار ہیں۔( یعنی وہ چادر جو اوپر اوڑھی جاتی ہے۔) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ تمہاری طرف سے مجھے کوئی تکلیف دِہ بات نہیں پہنچے گی۔ حضرت عباد بن بشر جنگ یمامہ میں 45سال کی عمر میں شہید ہوئے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں آپ نے عباد بن بشر کی آواز سنی جو مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ کیا یہ عباد کی آواز ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ عباد پر رحم کر۔
اسی طرح حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دو شخص ایک تاریک رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے۔ ان میں سے ایک حضرت عباد بن بشر تھے اور دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اُسَید بن حُضَیر تھے اور ان کے ساتھ دو چراغ جیسے تھے جو ان کے سامنے روشنی کر رہے تھے۔ جب وہ دونوں جدا جدا ہوئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ ہو گیا۔( رات کو اندھیرے میں روشنی دکھانے کے لئے۔ )آخر وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ گئے۔
صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب منہ حدیث 465) (صحیح البخاری کتاب الشہادات باب شہادۃ الاعمی … الخ حدیث 2655) (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 149-150 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
صلح حدیبیہ کے سفر میں بھی یہ شامل تھے۔ اس سفر کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذوقعدہ 6؍ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اُمّ سلمہ آپ کے ہم رکاب تھیں۔ اور مدینہ کا امیر نُمَیْلَہ بن عبداللہ کو اور امام الصلوٰۃ عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو جو آنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیا تھا۔ جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر مکہ کے رستے پر واقع ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرنے کا حکم دیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے اونٹوں کو جو تعداد میں ستّر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اور صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کا مخصوص لباس یعنی جو احرام کہلاتا ہے وہ پہن لیں اور آپ نے خود بھی احرام باندھ لیا اور پھر قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لئے کہ آیا وہ کسی شرارت کا ارادہ تو نہیں رکھتے ایک خبر رساں بُسْر بن سُفیان نامی کو جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا جو مکہ کے قریب آباد تھے آگے بھجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لئے عَبَّاد بن بِشر کی کمان میں بیس سواروں کا ایک دستہ بھی متعین فرمایا۔ جب آپ چند روز کے سفر کے بعد عُسْفَانْ کے قریب پہنچے جو مکہ سے تقریباً دو منزل کے راستے پر واقع ہے تو آپ کے خبر رساں نے واپس آ کر آپ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیں اور آپ کو روکنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لئے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور جنگ کا پختہ عزم کر کے بہر صورت مسلمانوں کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چند جانباز سواروں کا ایک دستہ خالد بن ولید کی کمان میں جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوا دیا ہے اور یہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اس دستہ میں عکرمہ بن ابو جہل بھی شامل ہے۔( یہ خبریں آپ کو دی گئیں۔) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف راستے کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں۔ چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزار اور کٹھن راستے پر پڑ کر سمندر کی جانب سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 749-750)اوروہاں پہنچے۔ آگے پھر صلح حدیبیہ کا سارا واقعہ ہے تو عَبَّاد بن بِشر بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو ایک دستہ کا سوار بنا کر معلومات لینے کے لئے بھیجا۔ بہت قابلِ اعتبار قابلِ اعتماد صحابی تھے جن پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ اعتماد تھا۔
حضرت عَبّاد بن بِشر حدیبیہ کے موقع پر ہونے والی بیعت جس کو بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے اس میں شامل ہونے والے صحابہ کرام میںسے ہیں۔ غزوہ ذاتُ الرِّقَاع کا ایک واقعہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھاٹی پر فروکش ہوئے تھے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ کون ہے جو آج رات ہمارے لئے پہرہ دے گا۔ اس پر حضرت عبّاد بن بِشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کا پہرہ دیں گے۔ اس کے بعد وہ دونوں گھاٹی کی چوٹی پر بیٹھ گئے۔ پھر حضرت عباد بن بشر نے حضرت عمار بن یاسر سے کہا کہ ابتدائی رات مَیں پہرہ دے لوں گا اور ان کو کہا کہ تم جا کر سو جاؤ۔اور آخر رات میں تم پہرہ دے دینا تا کہ مَیں سو جاؤں۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر تو سو گئے اور حضرت عباد بن بشر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔
ادھر نجد کے علاقے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اُن کی زیادتیوں کی وجہ سے عورتوں کو جو پکڑا تھاتو ان میں سے ایک عورت کا شوہر اس وقت غائب تھا۔ اگر وہ ہوتا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی لیکن بہرحال جب وہ واپس آیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا ہے۔ اس نے اسی وقت قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا لوں یا ان کے اصحاب کا خون نہ بہا لوں۔ چنانچہ وہ پیچھا کرتا ہوا اس وادی کے قریب آیا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فروکش تھے۔ جب اس نے وادی کے درّہ پر حضرت عباد بن بشر کا سایہ دیکھا تو بولا کہ یہ دشمن کا پہریدار ہے۔ اس نے تیر کمان پر چڑھا کر چلا دیا جو حضرت عباد بن بشر کے جسم میں پیوست ہوگیا۔ حضرت عباد بن بشر اس وقت نماز میں مصروف تھے۔ انہوں نے تیر نکال کر پھینک دیا اور نماز جاری رکھی اس نے دوسرا تیر مارا۔وہ بھی انہیں لگا۔ انہوں نے اس کو بھی نکال کے پھینک دیا۔ پھر جب تیسرا تیر مارا تو حضرت عباد بن بشر کا کافی خون بہہ نکلا۔ انہوں نے نماز مکمل کی اور حضرت عمار بن یاسر کو جگایا۔ جب حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عباد بن بشر کو زخمی حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ پہلے کیوں نہیں جگایا۔ تو کہنے لگے کہ میں نماز میں سورۃ کہف کی تلاوت کر رہا تھا۔ میرا دل نہیں چاہا کہ میں نماز کو توڑوں۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد دوم صفحہ 368-369 غزوہ ذات الرقاع دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) یہ تھا ان لوگوں کی عبادتوں کی حالت۔
حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عَبّاد بن بِشر کو کہتے ہوئے سنا کہ اے ابو سعید! میں نے رات کو خواب میں دیکھاکہ آسمان میرے لئے کھول دیا گیا۔ پھر ڈھانک دیا گیا۔ کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ مجھے شہادت نصیب ہو گی۔ مَیں نے کہا اللہ کی قسم تُو نے بھلائی دیکھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت عَبّاد بن بِشر انصار کو پکار رہے تھے کہ تم لوگ تلواروں کے میان توڑ ڈالو۔ اور لوگوں سے جدا ہو گئے ۔ انہوں نے انصار میں سے چار سو آدمی چھانٹ لئے جن میں کوئی اور شامل نہ تھا جن کے آگے حضرت عَبّاد بن بِشر، حضرت ابُو دُجَانہ اور حضرت بَرَاء بن مالِک تھے۔ یہ لوگ باب الحدیقہ تک پہنچے اور سخت جنگ کی۔ حضرت عَبّاد بن بِشر شہید ہوئے۔ میں نے ان کے چہرے پر تلوار کے اس قدر نشان دیکھے کہ صرف جسم کی علامت سے پہچان سکا‘‘۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 336-337 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت سَوَادْ بِن غَزِیّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ بھی انصاری تھے۔ ان کا ذکر بھی آتا ہے۔ان کا تعلق قبیلہ بنو عدی بن نجار سے تھا۔غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوہ بدر میں انہوں نے خالد بن ہشام مخزومی کو قید کیا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تھا۔ آپ وہاں سے عمدہ کھجوریں لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک صاع عمدہ کھجوریں دو صاع عام کھجوروں کے بدلے میں خریدیں۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 590 سواد بن غزیہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجوریں پسند آئیں تو آپ نے اس کی جو موجودہ قیمت تھی وہ کھجوروں کے مقابلے میں کھجوریں دے کر خرید لیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں غزوہ بدر کے واقعات میں بیان کرتے ہیںکہ حضرت سَواد کی خوش بختی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ذکر ملتا ہے۔ رمضان دو ہجری کی سترہ تاریخ جمعہ کا دن تھا۔ عیسوی حساب سے 14مارچ 623 عیسوی تھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پھر پرستاران احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد پر ایک خطبہ فرمایا۔ پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپ نے ایک تیر کے اشارے سے مسلمانوں کی صفوں کو درست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سَواد نامی صف سے کچھ آگے نکل کے کھڑا تھا۔ آپ نے اسے تیر کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپ کے تیر کی لکڑی اس کے سینے پہ جا لگی۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔(یہ عجیب واقعہ ہے کہ تیر سے لائنیں سیدھی کر رہے تھے تو تیر کی لکڑی لائن سے باہر نکلے اس کے سینے پہ لگ گئی۔ اس نے بڑی جرأت سے کہا کہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے) مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے۔ واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ اس پر صحابہ( بڑے حیران پریشان) انگشت بدنداں تھے کہ سَواد کو کیا ہو گیاہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سَواد میں نے تمہیں مارا ہے تو تم بھی مجھے تیر مار لو۔ آپ نے اپنے سینے سے کپڑا اٹھا دیا۔ سَواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپ کا سینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سواد! یہ تمہیں کیا سوجھی؟ اس نے رقّت بھری آواز میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ دشمن سامنے ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کے جانا بھی ملتا ہے یا نہیں۔ میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھو لوں اور پیار کروں۔’’ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے بھلائی کی دعا کی۔‘‘
ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 357-358)، (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 590 سواد بن غزیہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ان صحابہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے بھی عجیب انداز تھے۔ ایک حضرت عُکاشہؓ کا واقعہ آتا ہے وہ تو بڑی عمر میں جا کر بہت بعد کی بات ہے اور یہ شروع کی بات ہے۔یہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے، اس کوشش میں رہتے تھے کہ کس طرح کوئی موقع ملے اور ہم عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف اظہار کریں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب سے برکتیں حاصل کرنے والے بھی ہوں۔
اللہ تعالیٰ ان چمکتے ستاروں کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں بھی عشقِ رسولِ عربی کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭