متفرق مضامین

محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب مرحوم

(وسیم احمد چیمہ-لندن)

جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم اور سابق استاد جامعہ احمدیہ ربوہ محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب مربی سلسلہ 3 ستمبر 2015 ءکو صبح چار بجے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں بقضاء الٰہی 97سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔آپ کی نماز جنازہ 4 ستمبر 2015 ءکو بعد نماز جمعہ مسجدمبارک ربوہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمدصاحب( مرحوم) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے پڑ ھائی اور بہشتی مقبرہ دارالفضل کے قطعہ نمبر12 میں تدفین کے بعد محترم مرزا خورشید احمد صاحب نےہی دعا کروائی۔ یہ وہ قطعہ ہے جہاں علماء سلسلہ اور بزرگان مدفون ہیں۔18ستمبر 2015ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے مسجد بیت الفتوح لندن میں نماز جنازہ غا ئب پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں تفصیل کے ساتھ محترم مولانا صاحب مرحوم کا ذکر خیر فرمایا۔ اور ان کی خدمات دینیہ کو سراہا۔

محترم مولوی صاحب سے خاکسار کی تھوڑی بہت جان پہچان جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران ہی تھی۔آپ کا بہت ہی نفیس اور محبت والا مزاج تھا ۔مجھے جب علم ہوا کہ ان کا تعلق گوجرانوالہ کے چیمہ خاندان سے ہے تو ان کے ساتھ مزید تعلق بڑھ گیا۔ان کی رہائِشگاہ جامعہ احمدیہ کے سامنے تھی۔آپ جامعہ کے لڑکوںکو اکثر اپنے گھر مدعو کرتے تھے۔ مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے، اپنی طاقت سے بڑھ کر مہمان نوازی کرتے تھے مگر ان کی مہمان نوازی میں بہت ہی بے تکلفی تھی۔وہ بہت ہی خوبصورت زمانہ تھا۔ ربوہ کے بزرگ احباب میں سادگی اور محبت بہت نمایاں تھی۔ تمام اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے شاگردوں کا خیال رکھیں۔مجھے یاد ہے کہ محترم محمد احمد جلیل صاحب مرحوم اکثر ہمیں اپنے گھر بلاتے تھے۔ سادگی سے روٹی اور سالن پیش کرتےاور ساتھ گلاس میں پانی دیتے ہوئےبے تکلفی سے کہتے کہ ہمارے پاس جگ بھی ہے۔ یہ نہ سمجھنا کہ نہیں ہے، کہو تو لا کر دکھا دوں۔ اسی طرح اس دور کے ہمارے اساتذہ میں محترم ملک سیف الرحمان صاحب( مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ)۔ محترم مولانا غلام باری صاحب سیف یہ سب بزرگ حد درجہ کے ملنسار، مہمان نواز اور دعا کرنے والے تھے۔ مولانا محمد شریف صاحب کا یہ حال تھا اگر کوئی لڑکا ٹیسٹ میں فیل ہو جاتا تو چوہدری صاحب بڑے ہی پیارے انداز میں فرماتے، بیٹا یہ آپ کی غلطی نہیں ہے یہ میری غلطی ہے کہ میں آپ کو اچھی طرح سمجھا نہیں سکا۔

مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر مرحوم کی بات ہو رہی تھی۔ مولانا صاحب ایک متوکّل واقف زندگی تھے۔ ان کا گھرانہ بڑا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ان کی ساری ضرورتوں کو پورا کیا ۔ اپنی ضرورتوں کے لئے کبھی کسی سے نہیں مانگا۔ نہ کسی بھائی سے، نہ کسی اور سے۔ بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ تھا کہ انہوں نے ہی ہمیشہ دوسروں کی مدد کی۔ بہت ہی غیرت مند اور با اصول شخصیت کے مالک تھے جس کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا۔حضور نے ان کے ذکر میںفرمایا کہ مدرسہ احمدیہ کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے مدرسہ چھوڑ دیا۔کچھ دنوں کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد( خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ) نے بلایا کہ مدرسہ کیوں نہیں آرہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فیس نہیں ہے شرمندگی کی وجہ سے چھوڑ دیا ۔ حضرت مرزا ناصر احمد( رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ میں انتظام کر دیتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ صدقہ نہ لوں گا۔ قرضہ حسنہ دے دیں۔ اس طرح آپ نے تعلیم جاری رکھی۔

خاکسار نے 1976ءمیں جامعہ احمدیہ پاس کیا تو میری پہلی تقرری گکھڑ منڈی میں ہوئی تھی۔محترم مولوی صاحب کا گاوَں تلونڈی کھجور والی گکھڑ منڈی کے قریب ہی تھا اور ان کا گاوَں میرے حلقے میں تھا۔ چند ماہ بعد محترم محمداحمد جلیل صاحب مرحوم کے ذریعہ محترم مولوی صاحب کے ہاں رشتہ کی بات ہوئی اور طے ہو گئی اور 1977ء میں جلسہ سالانہ کے معاًبعد شادی ہو گئی۔ یوں میرا ان سے ایک دامادی کا رشتہ بن گیا۔ جب میری شادی ہوئی اس وقت مولانا صاحب فلسطین میں جماعتی خدمات بجالا ر ہے تھے۔ محترم مولوی صاحب 1980ءمیں واپس پاکستان آگئے اور جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

محترم مولوی صاحب کا خاکسار کے ساتھ بہت ہی پیار کا رشتہ تھا۔ان کے ساتھ 40 سال گزرے۔ان پر مالی مشکلات بھی آئیں۔ لیکن ہمیشہ تحمل کے ساتھ گزارا کیا۔آپ ایک کامیاب مبلغ تھے اوردعاگو انسان تھے۔ نماز میں ان کا ایک خاص شغف تھا۔ ان کی اولاد اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی تہجد کی نماز نہ چھوڑی۔ روزانہ کا معمول تھا کہ نماز تہجد کے بعد مسجد میں نماز پڑھتے اور گھر آکر خود اپنے لئے چائے بناتے اور بڑی ہی پیاری آواز میں تلاوت قرآن مجید کرتے۔ روزانہ ایک پارہ پڑھنا ان کا معمول تھا۔مسجد مبارک ان کے گھر سے فاصلے پر تھی مگر روزانہ کے معمول میں فجر کی نماز وہاں ہی ادا کرتے۔جب تک صحت نے اجازت دی سائیکل پر جاتے رہے۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے رہے۔ لیکن نماز جمعہ اور نماز تراویح مسجد مبارک میں ہی ادا کرتے رہے۔ ان کو اس مسجد سے اس لئے پیار تھا کہ خلفائے احمدیہ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ مطالعہ کے شوقین تھے۔ روزانہ الفضل شروع سے آخر تک پڑھتے۔ ان کے روزانہ کے معمول میں کتب سلسلہ کی پروف ریڈنگ کا کام تھا۔ بہت ہی توجہ اور انہماک سے اس کام کو سر انجام دیتے تھے۔خدا کے فضل سے انہیں عربی، فارسی، اردو اور انگلش پر عبور تھا۔فلسطین میں ایک لمبا عرصہ مبلغ کے طور پر کام کیا۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔قرآن مجید اور احادیث کا بھی گہرا علم رکھتے تھے۔

آپ کی شخصیت میں مزاح کا عنصر بھی تھا۔ اپنے حلقے میں جن سے دوستی تھی عزت اور احترام سے اس کو نبھایا۔ لوگ بھی آپ کو بہت عزت دیتے تھے۔ آپ کے احباب میں گھر کا مالی اور دیگر غرباء بھی تھے جن کی استطاعت کے مطابق مدد کیا کرتے تھے۔اور ان سے احترام کا ایک رشتہ رکھا۔آپ اپنے بھائیوں سے عزت اور احترام سے پیش آتے اور ان کی خدمت کرتے تھے۔ اپنی والدہ اور والد محترم کا ذکر بہت ہی محبت سے کیا کرتے تھے۔ اپنی اولاد سے بہت محبت تھی اور ان کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے۔

خاکسار جب بھی اسلام آباد(پاکستان) سے ربوہ آتا تو بہشتی مقبرہ لے جانے کی فرمائش کرتے۔ سب سے پہلے قطعہ خاص جاتے۔ پورا ایک گھنٹہ وہاں گزرتا۔ الگ الگ قبروں پر کھڑے ہو کر لمبی لمبی دعائیں کرتے۔ اس کے بعد اپنے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی قبروں پر جاتے اور دیگر بہن بھائیوں کی قبروں پر کھڑے ہو کردعا کرتے۔ اس طرح دو تین گھنٹے ان کے وہاں گزرتے۔

مولانا صاحب کی پہلی تقرری ایسٹ افریقہ میں ٹاگا نیکا میں ہوئی۔ اب یہ ملک تنزانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ساؤتھ تنزانیہ کے علاقہ مٹوارہ، لنڈی اور سونگیا میں خدمات بجا لاتے رہے۔ وہاں رہ کر انہوں نے سواحیلی زبان بھی سیکھی۔ خاکسار کی جب تنزانیہ میں تقرری ہوئی تو پرانے افریقن احباب ان کو بڑی عزت و احترام سے یاد کیا کرتے تھے۔ 1988ءمیں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تنزانیہ تشریف لے گئےتو بہت سے احباب نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مولوی فضل الٰہی صاحب کے زمانے میں احمدی ہوئے تھے۔

ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جب 2005 ءمیں تنزانیہ کے شہر مٹوارہ کے دورہ پر تشریف لے گئے تھے، تو کئی افراد نے ذکر کیا کہ وہ مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر کے وقت میں احمدی ہوئے تھے۔ انہیں زبان سیکھنے کا فن آتا تھا۔

محترم مولانا صاحب کو خلافت احمدیہ سے عشق کے درجے پر عزت اور احترام تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عاشق تھے۔ انہوں نے چار خلفاء کرام ٫ کا زمانہ پایا اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا بہت ہی شوق تھا۔ یہ خلافت ہی کی محبت تھی کہ 2005 ءمیں قادیان کا سفر کیا اور حضور اقدس ایدہُ اللہ سے شرفِ ملاقات پایا۔ 2013 ءمیں خداتعالیٰ نے دوبارہ موقع دیا اور نقاہت اور کمزوری کے باوجود آپ یُوکے جلسہ میں شامل ہوئے اور اپنے تین ہفتے کے قیام میں دو بار حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی۔ اس قیام کے دوران فلسطین کے احمدی احباب نے بھی ان کی بڑی خدمت کی۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ اس دوران جلسہ پر آئے ہوئے ایسٹ افریقہ اور ماریشس کے احباب سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ماریشس میں ان کا بہت وقت گزرا تھا اور ان کا سسرال بھی وہاں تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ عائشہ کاہلوں کا تعلق ماریشس سے تھا۔ مولوی صاحب کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ آپ اپنی اولاد کو جماعت اور خلیفہ وقت کے ساتھ منسلک رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
آپ قادیان کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ وہاں ان کا بچپن گزراتھا۔اپنے اساتذہ کا بہت احترام سے ذکر فرمایا کرتے تھے۔ ہر سال جلسہ سالانہ قادیان جانا ان کا معمول تھا۔ 2007ء میں خاکسار بھی ان کے ساتھ قادیان گیا۔ اس وقت ان کی صحت کافی کمزور تھی۔ ان کے ساتھ سارے مقدس مقامات پر جانے کا موقعہ ملا۔ ہمارا قیام دارالضیافت قادیان میں تھا۔ میں نےدیکھا کہ آپ اوّل وقت بیدار ہوتے۔ مسجد اقصیٰ جا کر نماز تہجد میں شامل ہوتے۔ہر روز بہشتی مقبرہ دعا کی غرض سے جاتے تھے۔ بہت ہی باہمت انسان تھے۔تھکاوٹ کو اپنے اوپر حاوی نہ کرتے۔ کھانے میںبہت ہی اعتدال تھا۔ نفیس خوراک ان کے کھانے میں شامل تھی۔ دیسی گھی، شہد اور کھجور ان کی پسندیدہ خوراک میں شامل تھا۔ کھانے میں میٹھا ان کو پسند تھا برفی کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ان کے لباس میں بھی بڑا وقار تھا ۔ صاف ستھری قمیص شلوار اور سر پر جناح کیپ۔ مگر اکثر پگڑی بھی شوق سے پہنا کرتے تھے۔ ان کی دوسری صفات میں خود داری نمایاں تھی۔خدا تعالیٰ نے انہیں لمبی عمر عطا کی اور 97 سال کی بھر پور زندگی پا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

ان کی زندگی میں ایک خواہش تھی کہ ان کی تدفین ربوہ کے پرانے بہشتی مقبرہ میں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد ان کی تدفین ازراہ شفقت قطعہ 12 میں جو کہ بزرگان احمدیت کے لیے مخصوص ہے تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی۔
قارئین سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اور ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button