حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق (قسط4)
بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ
پیدائش کے باب 21 کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہےکہ اس میں درج شدہ یہ قصہ بالکل بے بنیاد ہےکہ حضرت سارہ نے اسحاق کی دودھ چھڑائی کی تقریب میں حضرت اسماعیل کو کھیلتےدیکھ کر حضرت ابراہیم سے کہا تھا کہ اس لونڈی کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ یہ اسحاق کے ساتھ وارث نہیں ہو گا
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل22؍جولائی 2022ء]
اصل کہانی۔ تحریف اور تضادات
حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے کے اخراج کی اصل وجہ تو یہ تھی کہ جب ہاجرہ حضرت ابراہیم کی دوسری بیوی کے طور پر سارہ کے گھر آئیں تو اس وقت تک سارہ بے اولاد تھیں۔ جب ہاجرہ کے ہاں اسماعیل پیدا ہو گیا تو قدرتی طور پر سارہ کے دل میں حسد کے جذبات پیدا ہوئے۔ جب اسماعیل ابھی چند ماہ کا تھا تو ایک دن سارہ نے دیکھاکہ اسماعیل سنبھل سنبھل کرچھوٹے چھوٹے قدم اٹھاکر گھوم پھر رہاہےاور کبھی کبھی کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتا ہے۔ یہ منظر سارہ کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا اور ان کا احساس محرومی اور حسد اپنی انتہا کو جا پہنچا۔ اور پھر انہوں نے ان ماں بیٹے کو گھر سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔
سارہ کے اس مطالبے پر حضرت ابراہیمؑ کو بہت دکھ ہوا لیکن اکلوتے بیٹے کی یہ قربانی خداتعالیٰ کے پلان کا حصہ تھی۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اُنہیں تسلی دلائی اور بچے کے مستقبل کے بارے میں بشارات دیں تو وہ نکالنے پر راضی ہو گئے۔ اورآگے اسی باب میں نکالنے کی تفصیل بیان کی گئی ہےکہ ابراہیم نے پانی کا مشکیزہ اوربچہ ہاجرہ کے کندھےپر رکھا اور ان کو نکال دیا۔ اور پھر وہ بیابان میں بھٹکتی پھرتی رہیں۔ تھک گئیں تو بچے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔ بچہ رویا تو فرشتے نے کہا کہ اٹھ اور بچے کو اٹھااور ہاتھوں میں تھام۔
(واضح رہے کہ گھر سے نکالنے کا یہ انداز یہودی علماء کا بیان کردہ ہےورنہ حقیقتاً حضرت ابراہیمؑ خود ان کو فاران کی وادی میں چھوڑنےگئے تھےاور خداتعالیٰ کے حکم پر اور اس کی راہنمائی میںچھوڑکر آئے تھےجیسا کہ عربی روایات میں ذکر ہے)
تحریف
صدیوں بعد جب اخراج کی اس کہانی کو یہودی علماء نے دوبارہ مرتب کیا تو حضرت ہاجرہ اور ان کے ننھےبچے کے اخراج جیسے سخت اقدام کو جواز فراہم کرنے کے لیے اور حضرت اسماعیلؑ کو باپ کی وراثت سے محروم ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے اس میں تحریف کی اور ایک نیا قصہ داخل کر دیا۔
اس نئے قصے کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے اسحاق کی ماں کا دودھ چھوڑنےکی خوشی میں پارٹی کی اور اس پارٹی میں سارہ نے دیکھاکہ اسماعیل کھیل رہاہے۔ (قصے کے مطابق اس وقت اسماعیل 16 سال کا اور اسحاق دو اڑھائی سال کا ہونا چاہیے) سارہ کو اسماعیل کا کھیلنا اچھانہ لگا اور اس نے ابراہیم سے کہا کہ اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔چنانچہ ہاجرہ اپنے بیٹے کے ساتھ نکال دی گئی۔ لیکن آگے نکالنے کی تفصیل وہی اصل رہنے دی گئی جس میں ہاجرہ ننھےاسماعیل کو کندھے پر اٹھائے اور ہاتھوںمیں تھامےنظرآتی ہیں۔
تضادات
اب اگر مندرجہ بالا قصے کو درست مانا جائے تو حضرت ہاجرہ جب نکالی گئیں تو اس وقت ان کے پاس ان کا 16 سال کا جوان بیٹا ہونا چاہیے تھا نہ کہ دودھ پیتا بچہ۔ لیکن اس کہانی کے دوسرے حصہ سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ اخراج کے وقت ہاجرہ کے پاس ایک چھوٹاسا بچہ تھا۔ چنانچہ آگے یہ بیان کیا گیا ہےکہ حضرت ابراہیمؑ نے ہاجرہ کو رخصت کرتے وقت پانی کا مشکیزہ اور بچہ ان کے کندھےپر رکھااور ہاجرہ نے بیابان میں گھومتے ہوئے بچے کو جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔ بچہ رونے لگا تو فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ اٹھ اور لڑکے کو اٹھااور اپنے ہاتھوںسے سنبھال…اور پھر آگے لکھا ہےکہ ’’خدا لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا۔ اور تیر انداز بنا۔ اور وہ فاران کے بیابان میں رہتاتھا۔ ‘‘( باب 21، آیات 14 تا 21)
اب کہانی کا یہ دوسرا حصہ صاف ظاہر کرتا ہےکہ اسماعیل جب نکالا گیا تو وہ چھوٹاسا بچہ تھا نہ کہ 16سالہ نوجوان جیساکہ پہلے حصہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ وہ بچہ فاران کے بیابان میں پلا بڑھاتھا اور وہیں رہتاتھا نہ کہ سارہ کے گھر میں جیسا کہ قصے میں کہا گیا ہے۔ یہودی کاہنوںنے اس کہانی کے پہلے حصہ میں تو تحریف کر کے وہ اسحاق کی تقریب والا قصہ ڈال دیا لیکن دوسرے حصہ کو اصلی حالت میں ہی چھوڑدیا جس سے تضاد پیدا ہو گیا اور ان کی جعل سازی پکڑی جاتی ہے۔
حقیقت میں تو جب ننھےاسماعیل کا اخراج ہوا تھا تو اس وقت اسحاق دنیا میں موجود ہی نہ تھا۔ حضرت اسحاق تو پیدا ہی حضرت اسماعیل کے اخراج کے چودہ سال بعد ہوئے تھے۔ لیکن صدیوں بعد کون دیکھتا ہےکہ کون کب پیدا ہوا تھا۔ اس وقت تک یہودی عوام میں حضرت اسماعیل کے خلاف نفرت اور حقارت بہت پھیل چکی تھی اور ان کو تو بہانہ چاہیے تھا حضرت اسماعیل پر الزام تراشی کا۔
چنانچہ اس جعلی قصہ کی بنیاد پر حضرت اسماعیل کے اسحاق پر ظلم و زیادتی کے فرضی قصے بیان ہونے لگے۔ اور یہ عذر پیش کیا جانے لگا کہ اسحاق کو بد صحبت سے بچانے کے لیے اسماعیل کا اخراج سارہ کی مجبوری تھی اور پھر سارہ سے یہ بیان بھی منسوب کر دیا گیا کہ لونڈی کا بیٹا اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا ۔ اس طرح کہانی میں تحریف کر کے یہودی علماء نے اپنے اس خیال کو آسمانی تائید مہیا کرنے کی کوشش کی کہ حضرت ابراہیمؑ کے اصل وارث تو حضرت اسحاق تھے۔ اور حضرت اسماعیل نہ تو حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی بیٹے تھےاور نہ ہی ان کے وارث۔
تضادات اور بائبل کی تفاسیر
بائبل کے مفسرین جا نتے ہیں کہ بائبل کا یہ قصہ حقائق کے منافی ہے۔ اس قصے سے اصل کہانی میں جو تضاد پیدا ہوا ہےوہ اس کے غلط اور جعلی ہونے کا ثبوت ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ان مفسرین نے اس قصے سے پیدا شدہ تضاد کی نشاندہی کی ہے۔ چنانچہ پیکس کومنٹری لکھتی ہے:
That the two stories were originally independent of one another is shown by the discrepancy in the age of Ishmael as given in P and E respectively. According to the Ps contribution to the Ishmael saga in Ch.17, Ishmael was thirteen at the time of his circumcision before Isaac was born. In Ch.21 the birth of Isaac is related by P as taking place a year after the circumcision of Ishmael. Then, in the E narrative comes the weaning feast of Isaac and expulsion of Hagar and her son, when Ishmael would have been a lad of about sixteen. Yet the E story represents Hagar as carrying the water-skin and the child when she is driven out.
(A. S. Peake, M. Black: The offering of Isaac. In: Peakes Commentary on the Bible London 2004, sections 160a,b, p. 193)
ترجمہ: (مفہوماً) یہ بات کہ دونوں کہانیاں شروع میں ایک دوسرے سے الگ تھیںاسماعیل کی عمر کے تضاد سے ظاہر ہو جاتی ہےجو پی اور ای نے بیان کی ہے۔ باب 17 میں اسماعیل کے جو حالات پی نے بیان کیے ہیں ان کے مطابق اسحاق کی پیدائش سے پہلے جب اسماعیل کا ختنہ ہوا تو اس وقت وہ تیرہ سال کا تھا۔ باب 21 میں پی نے بیان کیا ہےکہ اسماعیل کے ختنہ کے ایک سال بعد اسحاق پیدا ہوا تھا۔ پھر پی کے بیان کے مطابق اسحاق کے دودھ چھڑانے کی تقریب پرہاجرہ اور اس کے بیٹے کا اخراج ہوا۔ تو اس وقت اسماعیل تقریباًسولہ سال کا ہو گا۔ لیکن ای کی کہانی یہ ظاہر کرتی ہےکہ ہاجرہ کو جب نکالا گیا تو وہ پانی کا مشکیزہ اور بچہ اٹھائے ہوئے تھی۔
اس طرح بائبل کی ایک اور تفسیربھی اسماعیل کی عمر کے حوالے سے باب 21 کے اس تضاد کو اجاگر کرتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتی ہےکہ
The story of expulsion of Hagar and Ishmael is a parallel account (E) of 16:1-14 (J). From 17:25 and 21:8 we can deduce that Ishmael would be about16 years old, which clashes with the present account (14 – 17).
(R. E. Brown, J. A. Fitzmyer, and R. E. Murphy (eds.):Genesis. In: Jerome Biblical Commentary. Prentice-Hall 1968, section 2:70)
ترجمہ: (مفہوماً) ہاجرہ اور اسماعیل کے اخراج کی کہانی باب 16 کی آیات1 سے 14 تک کا متوازی بیانیہ ہے۔ باب 17 کی آیت 25 اور باب 21 کی آیت 8 سے ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ اسماعیل کی عمر اس وقت تقریباً سولہ سال کی ہو گی۔ اور یہ موجودہ بیانیے سے متصادم ہےجو (باب 21کی) آیات 14 سے 17 تک ہے۔
بائبل کی تفاسیر کے مندرجہ بالا حوالے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پیدائش کے باب 21 کے شروع میں جو قصہ اسحاق کی دودھ چھڑائی کا درج ہےاس سے حضرت ہاجرہ کے اخراج کے واقعات میں تضاد اور تصادم پیدا ہوا ہے۔ اور یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہےکہ یہ قصہ بعد میں گھڑ کر داخل کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کی وراثت اور اسماعیلؑ
باب 21 میں مذکورہ بالا قصے کے حوالے سے ہمارے لیے دو امور قابلِ توجہ تھے۔ ایک تو حضرت اسحاق کی دودھ چھڑانے کی تقریب پر حضرت اسماعیل کا اسحاق کے ساتھ کھیلنا۔ اور دوسرے اسی تقریب میں حضرت اسماعیل کا اس بنا پر اخراج کہ لونڈی کا بیٹا اسحاق کے ساتھ وارث نہیں ہو گا۔
جہاں تک حضرت اسماعیل کے اسحاق کے ساتھ کھیلنے کا تعلق ہے۔ ہم اس کہانی کا تجزیہ کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت اسماعیل کبھی اسحاق کے ساتھ نہیں کھیلے کیونکہ ان کو تو اسحاق کی پیدائش سے چودہ سال پہلے ہی گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ حضرت سارہ نے جب اسماعیل کوکھیلتے دیکھ کر نکالا تھا تو اس وقت وہ ننھا سا بچہ تھا اوراکیلا کھیل رہا تھا۔ اسی لیے بائبل کے اکثر تراجم میں جہاں اسماعیل کے کھیلنے کا ذکرہےوہاں اسحاق کا ذکر نہیں ہے۔ پس صاف ظاہر ہےکہ کھیلنے کے حوالے سے اسحاق پر ظلم و زیادتی کے جو الزامات حضرت اسماعیلؑ پر یہودی روایات میں لگائے گئے ہیں وہ سب فرضی اور بے بنیاد ہیں۔ اور یہ قصے صدیوں بعد حضرت اسماعیلؑ کی دشمنی میں اور ان کے اخراج کو جواز فراہم کرنے کے لیے بنائے اور پھیلائے گئے ہیں۔
وراثت کی بنا پر اسماعیلؑ کا اخراج ناممکن
دوسری بات اس قصہ کی جس کا تجزیہ بہت ضروری ہےوہ حضرت سارہ کا حضرت ابراہیمؑ سے یہ کہنا ہےکہ’’اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔‘‘سارہ کی طرف منسوب کردہ یہ بیان اس بات کی سب سے بڑی دلیل سمجھی جاتی ہےکہ حضرت اسماعیل لونڈی کے بیٹے تھےلہٰذا حضرت ابراہیمؑ کے اصل وارث صرف سارہ کے بیٹے حضرت اسحاق تھے۔ عیسائیوں سے گفتگو کے دوران بائبل کا یہ بیان اکثر ان کی طرف سے پیش کیا جاتا ہےاور بعض مسلمان بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر واقعات کو ذرا غور سے دیکھاجائے تو سارہ سے منسوب اس بیان کا جعلی اور بےبنیاد ہونا خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے۔
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ جب حضرت سارہ کے مطالبے پر حضرت ہاجرہ کو ان کے بیٹے اسماعیل کے ساتھ نکالا گیا تو اس وقت اسماعیل ایک دودھ پیتا بچہ تھا۔ اخراج کے بعد جن حالات میں سے وہ ماں بیٹا گزرے وہ اسی باب میں آگے درج ہیں۔ ان حالات سےبھی یہی ظاہر ہوتا ہےکہ حضرت اسماعیل اس وقت ننھاسا بچہ تھے۔ اور اگر حضرت اسماعیل اخراج کے وقت چند ماہ کا بچہ تھےتو پھر سارہ اسماعیل کے اخراج کی یہ وجہ بیان کرہی نہیں سکتی تھیںکہ اسماعیل میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا کیونکہ حضرت اسحاق تو اس وقت پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ پس ظاہر ہےکہ باب 21 میں درج کردہ یہ قصہ جس میں حضرت اسحاق کے بالمقابل حضرت اسماعیل کو لونڈی کا بیٹا کہہ کر اپنے باپ کی وراثت سے محروم ظاہر کیا گیا ہےبالکل جھوٹا اور جعلی ہے۔
تحریف…بنی اسماعیل کی تحقیر کے لیے
اس تجزیے کے حصہ اوّل میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ بائبل کے مفسرین کے مطابق بائبل کی یہ کتاب پیدائش بنی اسرائیل کی غلامی اور جلا وطنی کے دَور میں مرتب کی گئی تھی۔اس دور میں بنی اسرائیل کی یہ گمشدہ بھیڑیں راہ راست سے بھٹک چکی تھیں۔ اس وقت ان کے رابیوں نے اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے جہاں اپنے بگڑے ہوئے عقائد اور خود ساختہ روایات کے مطابق اس میں تحریف کی وہاں اپنے حریف قبائل کی تحقیر کے لیے حقائق کو مسخ کیا اور جعلی قصے گھڑ کر اس میں داخل کیے۔ اور خاص طور پر ان قبائل کو نشانہ بنایا جو حضرت لوطؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی طرف منسوب ہوتے تھے۔
چنانچہ بنی اسماعیل کی تحقیر اور ان پر اپنی فضیلت جتانے کے لیے انہوں نے حضرت اسحاق کی دودھ چھڑائی کی تقریب کے حوالے سے یہ قصہ گھڑا اور کہانی میں داخل کر دیا۔ اس قصے میں حضرت ہاجرہ کو لونڈی ظاہر کیا گیا اور حضرت اسماعیل کے اخراج کی یہ وجہ بیان کی گئی کہ چونکہ وہ لونڈی کے بیٹے تھےلہٰذا وہ حضرت اسحاق کے ساتھ باپ کے وارث نہ ہو سکتے تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں۔ ننھےاسماعیل کے اخراج پر جب حضرت ابراہیمؑ افسردہ ہوئے اور خدا نے ان کو تسلی دلائی تو خدا کے منہ میںبھی یہ الفاظ ڈالے گئے ہیں کہ’’تجھےاس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث برا نہ لگے۔ جو کچھ سارہ تجھ سےکہتی ہےتو اس کی بات مان کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کانام چلے گا۔ اوراس لونڈی کے بیٹے سےبھی میں ایک قوم پیداکروںگا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے۔‘‘ (باب 21آیات 10تا 13)
گویا اس فرضی قصہ کے آخر میں یہ دکھایاگیا ہےکہ خدابھی ہاجرہ کو حضرت ابراہیم کی لونڈی اور اسماعیل کو لونڈی کا بیٹا کہتا ہے۔ اور ان کے اخراج پر ابراہیمؑ کو تسلی دلاتے ہوئے کہتا ہےکہ تیری نسل اسحاق سے چلے گی۔ حالانکہ اسحاق تو اسماعیل کے اخراج کے وقت پیدابھی نہیں ہوا تھا۔ اور یہی تضاد اس قصے کے جعلی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
در اصل بنی اسرائیل کے رابیوں نے حضرت ہاجرہ کو بار بار لونڈی اور حضرت اسماعیل کو لونڈی کا بیٹا کہہ کر اپنی قوم کو یہ تسلی دلانے کی کوشش کی ہےکہ وہ بنی اسماعیل سے برتر اور افضل ہیں اور وہی حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی وارث ہیں۔ لیکن اس قصے سے اصل کہانی میں جو تضاد پیدا ہوا اس کو بائبل کے مفسرین نےبھی محسوس کیا ہےجیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
اس دودھ چھڑائی کے قصے کے مطابق اخراج کے وقت حضرت اسماعیل سولہ سترہ سال کےنوجوان ثابت ہوتےہیں جبکہ باقی ساری کہانی ظاہر کرتی ہےکہ وہ اس وقت ننھا سا بچہ تھےجس کو ماں کندھےپر اٹھائے پھرتی تھی اور جو فاران کے بیابان میں پلا بڑھا تھا اور جو وہیں رہتاتھا۔ اسلامی روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ پس کہانی کا یہ تضاد ثابت کرتا ہےکہ اسحاق کی دودھ چھڑائی کی تقریب والا قصہ بالکل بے بنیاد اور جعلی ہے۔
تضاد کو دور کرنے کی کوشش
چونکہ حضرت اسماعیل کے لونڈی زادہ ہونے اور حضرت اسحاق پر ان کے ظلم و ستم کے قصے یہود ونصاریٰ میں بہت مشہور اور مقبول ہیں۔ اور ان قصوں کی بنیاد بائبل کے اسی مذکورہ بالا بیان پر ہے۔ لہٰذا عوام کو اس بیان کے جعلی ہونے اور اس سے پیدا شدہ تضاد سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو حضرت اسماعیل کی مخالفت میں ان قصوں اور روایات کو بڑے فخر سے بیان کرتےہیں اور ان کو جزو ایمان بنائے پھرتے ہیں۔ لیکن ان کے علماء اس تضاد کو محسوس کرتے ہیں جو اس قصے کی وجہ سے اصل کہانی میں پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے علماء یہ اقرار تو کرتے ہیں کہ اس قصے کےمطابق اخراج کے وقت حضرت اسماعیل واقعی سولہ سترہ سال کا جوان ثابت ہوتےہیں۔ (بعض نے تو اخراج کے وقت اسماعیل کو انیس سال کا اور بعض نے ستائیس سال کا جوان لکھا ہے)۔ لیکن ان کا کہنا ہےکہ چونکہ اسماعیل کی پرورش اچھی نہ ہوئی تھی اور وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔ لہٰذا وہ بہت لاغر اور کمزور تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہےکہ اسماعیل کو سارہ کی بُری نظر لگ گئی تھی اور اخراج کے وقت بھی وہ بخار میں مبتلا تھے۔ گویا تاثر وہ یہ دینا چاہتے ہیں کہ سترہ سال کی عمر میںبھی حضرت اسماعیل چھوٹے سے بچے کی طرح تھے۔
اور دوسری طرف ان کا کہنا ہےکہ حضرت اسماعیل کی ماں ہاجرہ ایک تنومند اور جفاکش لونڈی تھیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے سولہ سالہ جوان لیکن بیمار اور لاغر بیٹے کو کندھےپر اٹھالیا اور چل دیں۔ کچھ دیر وہ اس کو اٹھائے بیابان میں گھومتی رہیں۔ پھر اسماعیل اپنی ماں کے کندھےکا سہارا لے کر چلتا رہا۔ جب وہ دونوں تھک گئے تو ایک جھاڑی کے نیچے جا کر ماں نے کندھےکا سہارا اچانک چھین لیا اور اسماعیل کو گرا دیا۔ تو اس طرح گویا ماں نے لڑکے کو جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔ [اور پھر فرشتہ کے کہنے پر ماں نے ہاتھوںکا سہارا دے کر جوان اسماعیل کو کھڑا کیا تو گویا اس نے لڑکے کو ہاتھوںمیں تھام لیا۔]
(Hagar. In: Aid to Bible Understanding. New York, 1971, p. 701to702)
(T. Kadari: Hagar: Midrash and Aggadah.The expulsion of Hagar and Ishmael. In: Jewish Women: A Comprehensive Historical Encyclopedia. Jewish Womens Archive. 20 March 2009.https://jwa.org/encyclopedia/article/hagar-midrash-and-aggadah)
اب ہرشخص دیکھ سکتا ہےکہ حضرت اسماعیل کی عمر کے حوالے سے جو تضاد اخراج کی کہانی میں اس قصے کی وجہ سے پیدا ہوا ہےاس کو دور کرنے کی مندرجہ بالا کوشش کہاں تک معقول اور قابلِ قبول ہے۔ اور کس حد تک اس تضاد کو دور کرتی ہےجو اس کہانی کے پہلے اور آخری حصے میں پایا جاتا ہے۔ ہم تو صرف اتنا کہیں گے کہ عذر گناہ بد تر از گناہ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہےکہ ایسی سب وضاحتوں میں حضرت اسماعیل کو ماں کے کندھےکے ساتھ ہی جوڑا گیا ہےاور کسی وضاحت میں اس بات سے انکار نہیں کیا گیا کہ اخراج کے وقت ہاجرہ نے اسماعیل کو کندھےپر اٹھایاتھا۔ اور اگر غور کیا جائے تو اسماعیل کی ماں کا صرف یہ کندھا ہی نفرت اور حقارت کی اس عمارت کو گرانے کے لیے کافی ہےجو اس جعلی قصے کی بنیاد پر ان کے خلاف تعمیر کی گئی ہے۔
باب 21 کے تجزیے کا خلاصہ
پیدائش کے باب 21 کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہےکہ اس میں درج شدہ یہ قصہ بالکل بے بنیاد ہےکہ حضرت سارہ نے اسحاق کی دودھ چھڑائی کی تقریب میں حضرت اسماعیل کو کھیلتےدیکھ کر حضرت ابراہیم سے کہا تھا کہ اس لونڈی کے بیٹے کو نکال دو کیونکہ یہ اسحاق کے ساتھ وراث نہیں ہو گا۔ یہ قصہ بالکل ویسے ہی جعلی ہےجیسے باب 12 میں مصر کے سفر والا وہ قصہ جعلی ہےجس میں یہ کہا گیا ہےکہ ابراہیم نے جھوٹ بول کر اپنی بیوی سارہ کو فرعون کے محل میں داخل کروایا اور بدلے میں فرعون سے تحائف وصول کیے اور پھر فرعون نے جھوٹ بولنے پر ابراہیمؑ سے باز پرس کی اور سارہ کو واپس دے کر دونوں کو مصر سے نکال دیا تھا۔
اس باب 12 والے قصے کے بارے میں ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ اس کا مقصد حضرت ہاجرہ کی حضرت ابراہیمؑ سے شادی کو منظر سے غائب کرنا تھا تاکہ بعد میں ہاجرہ کو سارہ کی لونڈی ظاہر کر کے پھر حضرت ابراہیم کی بیوی بنایا جا سکے۔ اور اس باب 21 والے قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مقصد حضرت اسماعیلؑ کو لونڈی زادہ قرار دینا تھا تاکہ اس کو اپنے باپ کی وراثت سے محروم ظاہر کیا جا سکے۔ ان دونوں قصوں کے بارے میں بائبل کے مفسرین کی رائے ہم لکھ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک بھی یہ قصے ناقابل قبول اور بیہودہ ہیں اور اصل کہانی میں تضاد اور تصادم پیدا کرتے ہیں۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭