ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
وہ لوگ جو بدبخت ہوئے آخر کار ان پر طرح طرح کی وباؤں سے یا جنگوں اور خونریزی سے آسمان سے عذاب وارد ہو گا۔ اور حضرت کبریاء کی تقدیر کے طور پر ان میں ناگہانی موت اور بھیڑوں کو لگنے والی آنًافانًا ہلاک کر دینے والی بیماری جیسی بیماری کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ زمین پر جنگیں بکثرت ہوں گی۔ ایک جنگ ختم ہو گی تو دوسری شروع ہو جائے گی اور تم ہر طرف سے مرنے والوں کی خبریں سنو گے۔ یہ سب کچھ مسیح کے وجود کی خاصیت کی وجہ سے ہو گا۔
’’ پس بلاشبہ جس نے بھی انجیل کی متابعت کرتے ہوئے ہر موقع پر معاف کرنا ہی اپنے پر لازم کر لیا ہو تو بعض حالات میں اس نے بے موقع احسان کیا اور جو تورات کی اتباع میںہر جگہ انتقام لینا ہی اپنے پر واجب کر لے تو اس نے بے محل قصاص لیا اور نیکیوں کے مدارج سے نیچے گر گیا۔ جب کہ قرآن نے اس قسم کے مواقع پر اس فطری شریعت کی شہادت کی طرف ترغیب دلائی ہے جو قوتِ قدسیہ کے چشمہ سے پھوٹتی ہے اور روح الامین کی طرف سے صاف دلوں کی گہرائی میں اترتی ہے۔ قرآن کہتاہے۔جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَاوَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللہِ۔ [بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مدّنظر رکھے تو اس کوبدلہ دینا اللہ کے ذمّے ہوتا ہے ۔ (الشورٰی: 41)] پس تو اس روحانی دقیق نکتہ پر نگاہ کرکہ اس نے کسی جرم پر عفو کا حکم اس شرط سے دیا ہے کہ اس میں نفس کی اصلاح ہوتی ہو ورنہ بدی کا بدلہ کی گئی بدی کے برابر ہے۔ چونکہ قرآن تمام کتابوں کا خاتمَ اور اکمل ہے اور تمام صحف سے بہترین اور خوبصورت ترین ہے اس لئے اس نے اپنی تعلیم کی بنیاد معراجِ کمال کی انتہا پر رکھی ہے اور تمام حالتوں میںفطری شریعت کو قانونی شریعت کا ساتھی بنایا تا کہ لوگوں کو گمراہی سے بچائے اورچاہا کہ انسان کو اس مردہ کی طرح بنا دے جو نہ دائیں طرف حرکت کرتا ہے اور نہ بائیں طرف۔ اور خدائے ذو الجلال کی مصلحت کے حکم کے بغیر نہ عفو کا اختیار رکھتا ہے اور نہ انتقام کا۔ پس یہی وہ موت ہے جس کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے تا ربّ فعال کے حکم سے اس کی تکمیل کرے۔ اور اسی لئے میں نے کہا ہے کہ مسیح موعود لوگوں کو ہست سے نیست کی طرف منتقل کرے گا۔ پس یہ انتقال کی ایک قسم ہے اور اس گفتگو کا تھوڑا سا حصہ گزر چکا ہے۔ اس جلیل القدر تعلیم اور تورات اورانجیل کی تعلیم کے مابین بہت بُعد ہے۔ پس تُو ان لوگوں سے پوچھ لے جنہوں نے دجاّل کے وساوس کو قبول کر لیا ہے۔ یقیناً یہ تعلیم اس راہ کی طرف ہدایت دیتی ہے جو سب سے زیادہ معتدل ہے۔ نہ اس میں افراط ہے اور نہ تفریط۔ نہ مصلحت و حکمت کو چھوڑنا ہے اور نہ وقت اور حال کے تقاضے کو نظر انداز کرنا ہے۔ بلکہ وہ فطری شرعی اوامر اور قوتِ قدسیہ کے فتاویٰ کے تقاضوںکے تحت چلتی ہے۔ اور اعتدال سے نہیں ہٹتی ۔اورازل سے یہ مقدر کیا جا چکا ہے کہ مسیح موعود اس قابلِ تعریف تعلیم کی ویسی اشاعت کرے جیسا کہ اشاعت کا حق ہے تا خوش نصیبوں کو قیامت والی موت سے قبل ہی موت دے دے۔ پس اس موقع پر نیک لوگ کمالِ اطاعت سے مر جائیں گے۔ اوریہ موت صافی اور سلیم دلوںکا ہی نصیب ٹھہرتی ہے۔ وہ فنا کا جام پیتے ہیں اور دوئی کا لبادہ اتار پھینکنے کے بعد بحرِ وحدت میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو بدبخت ہوئے آخر کار ان پر طرح طرح کی وباؤں سے یا جنگوں اور خونریزی سے آسمان سے عذاب وارد ہو گا۔ اور حضرت کبریاء کی تقدیر کے طور پر ان میں ناگہانی موت اور بھیڑوں کو لگنے والی آنًافانًا ہلاک کر دینے والی بیماری جیسی بیماری کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ زمین پر جنگیں بکثرت ہوں گی۔ ایک جنگ ختم ہو گی تو دوسری شروع ہو جائے گی اور تم ہر طرف سے مرنے والوں کی خبریں سنو گے۔ یہ سب کچھ مسیح کے وجود کی خاصیت کی وجہ سے ہو گا۔ یقیناً اللہ نے اسے ایک بیخ کَن کی طرح اتارا ہے اور یہ اس کی بڑی نشانیوں میں سے اور اس کی ذات کے خواص میں سے ہے۔ پس وہ ان صفات میں مشابہت کے بعض پہلوؤں کے ساتھ آدم کے بالمقابل بھی ہے۔ جہاں تک مشابہت کا تعلق ہے تو وہ پیدائش کی نوعیت میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ دستِ قدرت سے آدم سے حَوَّا ایک توأم (جڑواں) کی طرح پیدا کی گئی۔ اسی طرح مسیح موعود بھی توأم پیدا ہوئے اور اس کے ساتھ ایک لڑکی جنّت نامی بھی پیدا ہوئی جو یوم ولادت سے چھ ماہ بعد وفات پا گئی اور جنت میںچلی گئی۔ جب کہ حَوَّا فوت نہ ہوئی تا کہ وہ کثرت کا ذریعہ بنے۔کیونکہ آدم اس لئے ظاہر ہوا تھا تا لوگوں کو عدم سے وجود کی طرف لے آئے۔ اس لئے اس کی جڑواں کاحق تھا کہ وہ زندہ رہے تا تکمیلِ مقصود میں آدم کی مدد کرے۔ اور جہاں تک مسیح موعود کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کو زندگی سے موت کی طرف لے جانے کے لئے ظاہر ہوا ۔ اس لئے اس کی جڑواں کا یہ حق تھا کہ اسے اس جہان سے منتقل کر دیا جائے تا مطلوبہ ارادہ کے لئے بطور ارہاص ہو۔ پھر آدم جمعہ کے روز پیدا ہوا اور اسی طرح مسیح موعود بھی اس دن کی ایک مبارک گھڑی میں پیدا ہوا۔ پھر آدم چھٹے دن میں پیدا ہوا۔اور اسی طرح مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 214تا218۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)
مزید پڑھیے…
وبائی ایام کے ماہِ صیام میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے شب و روز کا دلنشیں تذکرہ