حاصل مطالعہ

اسرائیلی فوج میں1700 عرب سُنی مسلمان شامل ہیں

(ڈاکٹرطارق احمدمرزا۔آسٹریلیا)

اسرائیلی مسلمانوں سے متعلق دلچسپ حقائق مصدقہ اعدادوشمارکی روشنی میں اسرائیلی فوج میں1700 عرب سُنی مسلمان شامل ہیں

300سے زائدائمہ مساجد اور مؤذن اسرائیلی حکومت کے تنخواہ دارہیں

عموماًاسرائیل کا نام سنتے ہی عوام الناس کے ذہنوں میں ایک ایسے ملک کا تصور ذہن میں آجاتا ہے جو خالصتاً یہودی آبادی پر مشتمل ایک یہودی ملک ہے۔حالانکہ یہ تصور درست نہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اسرائیل کی آبادی کا سترہ فیصد حصہ عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے جو اسرائیل کے شہری ہیں۔ ان کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ ملین ہے۔واضح رہے کہ ان میں غزہ کی پٹی،یروشلم یا فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں میں آباد وہ مسلمان شامل نہیں جو خود کو فلسطینی ریاست کے شہری کہتے ہیں۔

ان اسرائیلی عرب شہریوں کی سہولت کے لئے ملک میں اسلامی شرعی عدالتیں قائم ہیں جن میں مسلمان جج تعینات ہیں جن میں اسرائیل کی ایک(اور پہلی) مسلمان خاتون جج بھی شامل ہیں۔اسرائیلی اسمبلی میںمسلمان ممبران پارلیمنٹ بھی منتخب ہوتے ہیں۔عبرانی کے علاوہ عربی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ملک بھر میں چارسو سے زائد مساجد ہیں ۔ تقریباً تین سو سے زائدمؤذن اور ائمہ مساجداسرائیلی حکومت سے ماہوارتنخواہ حاصل کرتے ہیں۔اسرائیل کے مختلف تعلیمی اداروں میں لگ بھگ چھبیس ہزار مسلمان طلبا ء وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اسرائیلی عرب مسلمانوں پر روزگار اور کاروبار کے مواقع یہودی النسل اور یہودی العقیدہ شہریوں کی طرح مساوی طورپر دستیاب ہیں۔ان مسلمان ملازمین کو عیدین،رمضان وغیرہ میں رخصت لینے کی سہولت سرکاری طورپر فراہم کی جاتی ہے۔

اسرائیل کے یہودی شہریوں کے لئے کچھ عرصہ(کم ازکم 32 ماہ) کے لئے دفاعی افواج میں ملازمت کرنا لازمی ہے،جبکہ ملک کے دروزؔافراد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی اسرائیلی فوج میںکم ازکم کچھ عرصہ کے لئے ضرورشامل ہوکر قومی فریضہ سرانجام دیں گے۔بتایاجاتاہےکہ دروز ؔشیعہ اسلام کا ایک صوفی ’’باطنی‘‘فرقہ ہے جس سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کل اسرائیلی آبادی کا ایک اعشاریہ سترفیصد ہے۔’’فرقہ‘‘ سے زیادہ یہ لوگ ایک قبیلہ کے طور پر زیادہ معروف شناخت رکھتے ہیں۔

یہودی اور دروز آبادی کے برعکس مسلمان اسرائیلی شہریوںپرفوج میں شمولیت لازمی نہیں۔تاہم ان پر اسرائیلی فوج میں ملازمت پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں۔یہی نہیں بلکہ اگر کوئی مسلمان عرب اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوناچاہتا ہے تو اس کی خصوصی طورپر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان کی مدت ملازمت کے کنٹریکٹ میںد یگر فوجیوں کی نسبت چھ ماہ کی چھوٹ دی جاتی ہے۔مدت ملازمت کے اختتام پر ان کے لئے تعلیمی وظائف جاری کئے جاتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اسرائیل کے عرب مسلمانوں میں مسلح افواج میں ملازمت کی خاطر بھرتی کا رجحان گزشتہ چند دہائیوں سے خاصہ مقبول اور عروج پکڑتا نظرآرہا ہے۔

چنانچہ اسرائیلی حکومت کی وزارت برائے امورخاجہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2015ء تک اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے والے عربوںکی تعداد ایک ہزار سات سو تک جا پہنچی تھی۔یہ 1,700 اسرائیلی فوجی سُنی العقیدہ عرب مسلمان ہیں۔

بحوالہ:

mfa.gov.il/MFA/ForeignPolicy/Issues/Pages/Facts-and-Figures-Islam-in-Israel.aspx

شائع کردہ 9؍جون سنہ:2016 تاریخ استفادہ از مؤلف : 8؍جون سنہ 2018 ء)

اسرائیلی فوج میں شامل ان سینکڑوں مسلمانوں کی اکثریت بدو قبائل سے تعلق رکھتی ہے جو ریگستانوں کے باسی ہیںاور اپنے علاقوں کے جغرافیہ کی تمام تر تفصیلات اور جزئیات سے نہ صرف واقف بلکہ ان میں پیداہونے والی شبانہ روز تبدیلیوں اور ان علاقوں میں ہونے والی ہر قسم کی نقل وحرکت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ صحرا میں ہر قسم کا کھوج لگا لینے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہوتے ہیں۔یہ وصف ان میں کتنی ہی صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہوتاچلاآیا ہے اور اسرائیلی فوج ان کے اسی قدرتی وصف اور صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے ان سے ملکی سرحدوں پہ نظر رکھنے اور ان پہ ہونے والی کسی بھی غیرمعمولی سرگرمی کی بروقت اطلاع پہنچانے کا کام لیتی ہے۔باالفاظ دیگر یہ مسلمان اسرائیلی فوجی ریگستانوں کی نگرانی پر مامور ہیں۔

ایک معروف اسرائیلی اخبار ’’ یروشلم پوسٹ ‘‘ کی آن لائن اشاعت مؤرخہ13؍اکتوبر2016ء کے مطابق اسرائیل کے ان مسلمان فوجیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہو جانے کی بناپرآج سے کوئی تیس سال قبل باقاعدہ طورپر ایک نئی بٹالین کا قیام عمل میں لایاگیاجسے عرف عام میں ’’بدوی بٹالین‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کا اصل نام The Desert Reconnaissance Battalion,

یعنی ’’ نگہ دارِ صحرابٹالین‘‘ ہے۔اسرائیلی ملٹری اصطلاح میں ’’یونٹ 585‘‘ کہلائی جانے والی اس بدوی بٹالین میں اب مسلمانوں کے علاوہ مسیحی اور یہودی کمیشنڈافسران بھی شامل کئے گئے ہیں ۔اس لحاظ سے یہ بٹالین اسرائیل کی حقیقی نمائندہ بٹالین کہلائے جانے کی مستحق ہے۔اخبار کے مطابق مقامی بدوی عرب قبائل کی اکثریت نے اسرائیلی مملکت کے قیام کے ابتدائی ایام خصوصاً سنہ 1948 ء میں ہی اس نوزائدہ ملک کے ساتھ الحاق اوروفاداری کا اعلان کردیا تھا۔

(https://www.jpost.com/Israel-News/Meet-the-IDFs-Beduin-battalion-469972)

اخبار ڈیلی میل آسٹریلیا نے اسرائیلی فوج میں شامل ان عرب سنی مسلمانوں کے بارہ میں ایک تفصیلی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ یہ مسلمان عرب اپنے وطن اسرائیل کی سرحدوں کادفاع کرنے والے بہادر ترین فوجی ہیں۔یہ فوجی ملک کی سرحدوں پہ محض مٹرگشت ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں۔چنانچہ اسرائیل کے ان مسلمان شہداء جوانوں کی تعداد363 تک پہنچ چکی ہے۔ اخبار کے مطابق ان مسلمانوں میں بعض جوان ایڈوانس ٹریننگ حاصل کرکے اسرائیلی افواج میں بحیثیت کمشنڈآرمی آفیسر بھی تعینات ہو چکے ہیں ۔پچیس سالہ محمدکعبیہ نامی ایک ایسے ہی جوان کے بارہ میں بتایا کہ وہ اسرائیلی فضائیہ کے ہیلی کاپٹریونٹ میں بحیثیت فائٹرپائلٹ بھرتی ہونے والا پہلا بدومسلمان عرب ہے۔وہ حیفہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کابھی طالبعلم ہے۔ا خبار کے نمائندہ جیک ڈبلیو سائمنز کوا نٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ اسے اپنے بدو، جنگجو، عرب، مسلمان اور اسرائیلی ہونے پہ فخرہے۔

جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس کا اس اعتراض کے بارہ میں کیاتبصرہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں شامل ہوکر اسے اپنے (عرب) بھائیوں کے خلاف لڑ تے ہوئے شرم یا غیرت محسوس نہیں ہوتی؟ تواس نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔’’میں عربوں کے خلاف نہیں بلکہ ہمیشہ ان دہشتگرد تنظیموںکے خلاف لڑاہوں جو عربوںکواپنی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ عرب کسی قسم کی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنیں۔میں نہیں چاہتا کہ ان دہشتگردوں کے ہاتھوں عرب مرتے یا زخمی ہوتے رہیں ‘‘۔اس نے مزید کہا کہ ’’کچھ لوگ ہمیں غدارکہتے ہیں لیکن اسرائیل ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں ہرتہذیب اوررنگ کومساوی حقوق حاصل ہیں تو اصل غدار تو وہ ہوئے جو( ملکی )خدمت بجالانے سے انکارکر رہے ہیں‘‘۔

اخبار نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی افواج میں شامل ان مسلمان عربوں کی تعداد ایک ہزار سات سو ہے۔
) بحوالہ:ڈیلی میل آسٹریلیا ۔آن لائن تاریخ اشاعت 22 دسمبر سنہ 2015 ۔تاریخ استفادہ 19 ؍اپریل ( 2018


ایک اور معاصراین بی سی نیوزنے اپنی اشاعت مؤرخہ 26؍ فروری 2017 ءمیں اسرائیل کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں بھرتی ہونے والے عربوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔اخبارکا رپورٹرپال گولڈمین لکھتا ہے کہ چھہ کونوں والا ستارہِ داؤدی (سٹارآف ڈیوڈ) ایک خالص یہودی علامت ہے لیکن اب آپ اسے اسرائیلی فوج میں شامل عرب ملٹری آفیسرزکے سینے پہ سجا بھی دیکھ سکتے ہیں۔یہ وہ عرب فوجی ہیں جن پر اسرائیلی فوجی ملازمت فرض نہیں لیکن وہ رضاکارانہ طورپرفوج میں شامل ہوکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ان کی تعدادمیں روزافزوں اضافہ ہورہاہے۔
واضح رہے کہ یہ ان عربوں کی بات ہو رہی ہے جو صحراؤں میں رہنے والے بدونہیں،وہ تو سینکڑوں کی تعدادمیں پہلے سے ہی اسرائیلی فوج کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔یہ ان ’’غیربدو‘‘عربوں کا ذکر ہے جواپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔چارسال قبل اسرائیلی فوج میں ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی لیکن دم تحریر ان کی تعداددرجنوں ہوچکی ہے۔ان عرب مسلمان فوجیوں نے قرآن کریم پہ ہاتھ رکھ کرحلف ِ وفاداری اٹھایا تھا۔ان میں سے بعض جوانوں نے اخبار کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی شہری ہونے کے ناطے اسرائیل کا دفاع کرناان کا فریضہ بنتا ہے۔ انہوں نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ ملٹری ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو عرب اور غیرعرب شہریوں کو ایک دوسرے کے قریب ترلے آتا ہے کیونکہ ان کی ترجیحات اور مقاصد ایک نیا اورمشترکہ روپ دھارلیتے ہیں۔اس کا اثر نہ صرف ان کے اپنی اور اہل خانہ کی سوچ بلکہ سارے معاشرے پہ مثبت طورپر اثراندازہونے لگ جاتاہے۔
ایک مسلمان اسرائیلی جوان نے بتایا کہ ایک مشترکہ پراجیکٹ پہ کام کرنے کے لئے اسے فلسطینی فوجیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقعہ ملا تووہ اسے عربی بولتادیکھ کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔کیونکہ دونوں طرف سے عرب ہی آپس میں مل کرحکمت عملی طے کررہے تھے۔اس سے بے اعتباری اور بے یقینی کی فضادورہونے میں بڑی مددملی۔’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم مسلمان ہو،یہودی ہو یا عیسائی‘‘ ۔اس نے کہا ، ’’ایک دوسرے کی مددکرنے والے ہم ایک ہی ہیں‘‘۔

https://www.nbcnews.com/news/world/arab-israelis-are-joining-idf-growing-number

سنہ 2017 میںبرطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کی عربی برانچ کے نمائندوں کو اسرائیل ڈیفنس فورس کے ایک اورخصوصی یونٹ تک رسائی حاصل کرنے کا اجازت نامہ ملا جس میں شامل تمام پانچ سو افسران عرب ہیںجن میں مسلمان بھی شامل ہیں اور کچھ عیسائی بھی۔ اسرائیلی فوج کے مائنارٹیز یونٹ(شعبہ اقلیت) کے سربراہ کرنل واجدی نے بتایا کہ فی الوقت اس عرب یونٹ میں شامل فوجیوں کی تعداد چندسوہے لیکن ہم اگلے برس تک ان کی تعداد دوگنا کر لینے کی امید رکھتے ہیں۔

بی بی سی نے چھ ماہ کے عرصہ میں غدسر یونٹ کے بارہ میں ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی ۔ایک تصویر میں عرب مسلمان فوجی قرآن کریم کے نسخوں کے سامنے کھڑے ہوکر حلف وفاداری لیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

(https://www.bbc.com/news/world-middle-east-37895021)


٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button