الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
محترم عبدالرشید رازی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11جولائی 2012ء میں مکرم عبدالقدیر رازی صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم عبدالرشید رازی صاحب سابق مبلغ سلسلہ سلسلہ غانا، تنزانیہ، فجی، آئیوری کوسٹ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم عبدالرشید رازی صاحب 30 ستمبر 2008ء بمطابق 29رمضان المبارک کو 76 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کے عقب میں واقع مقبرہ موصیان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آپ یکم مئی 1932ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مقامی سکول میں ٹیچر تھے لیکن اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھجواتے تھے۔ چنانچہ محترم رازی صاحب کو بھی پرائمری کی تعلیم کے بعد قادیان بھجوادیا گیا۔ آپ نے آٹھویں جماعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات سے متأثر ہو کر اپنے والد کو خط لکھا کہ مَیں زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل کروادیں۔ اس طرح آپ مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور1952ء میں جامعۃالمبشرین سے شاہد کرنے کے بعد میدان عمل میں آگئے۔ 1957ء میں آپ کو غانا بھجوایا گیا جہاں آپ کو بعض افریقی ممالک کے سربراہان کو احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع بھی ملا۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ غانا کے صدر ڈاکٹر Nakrumah صاحب نے افریقہ کے آزاد ممالک کے صدر صاحبان اور وزراء کی ایک میٹنگ اکراؔ (Accra) میں بلائی جس کے اختتام پر مکرم رازی صاحب کو ایئرپورٹ کے مخصوص حصہ میں جاکر سربراہانِ مملکت کو احمدیت کا پیغام اور لٹریچر پہنچانے کا موقع مل گیا۔ اس میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر اور اُن کے وزیر خارجہ، نیز ایتھوپیا کے بادشاہ اور دیگر رہنما شامل تھے۔ غانا میں 1959ء میں آپ کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق بھی ملی۔
اگست 1965ء میں آپ کو تنزانیہ بھجوایا گیا جہاں 7 سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ یہاں ٹبورا ریجن میں سماجی خدمات کے اعتراف میں حکومت تنزانیہ کی طرف سے آپ تین سال کے لئے ’جسٹس فار پِیس‘ مقرر رہے۔
1974ء سے 1977ء تک آپ فجی میں متعیّن رہے۔ وہاں کے مقامی احباب سے آپ کا بہت پیار کا تعلق تھا۔ چنانچہ جب دسمبر 2007ء میں آپ آسٹریلیا تشریف لے گئے تو اگلے سال کے جلسہ سالانہ آسٹریلیا کے موقع پر بہت سے فجین آپ کو خاص طور پر ملے جو آپ کے فجی میں قیام کے وقت چھوٹے بچے تھے لیکن آپ کی شخصیت کا اثر اُن کے ذہنوں میں موجود تھا۔
محترم رازی صاحب کو آئیوری کوسٹ میں بھی خدمت کی توفیق بھی ملی۔ پہلی دفعہ اکتوبر 1981ء میں آپ کو ابتدائی طور پر 3 ماہ کا آئیوری کوسٹ کا ویزا ملا۔ دو دفعہ آپ کو قریبی ملکوں میں جاکر ویزا لینا پڑا اور پھر محض خدا کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعاؤں سے ایک سال کا ویزا ملنا شروع ہوگیا اور جب 1992ء میں آپ واپس ربوہ تشریف لائے تو اس وقت آپ کے پاس آئیوری کوسٹ کا مستقل سکونت کا ویزا تھا۔ آپ کو ایک عرصہ تک وکالتِ تبشیر ربوہ میں اور کچھ سال دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھی کام کرنے کی توفیق ملی۔
آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت سے آپ کا تعلق بڑا عقیدت کا تھا۔ آپ کا خداتعالیٰ پر اور دعا پر بڑا غیرمتزلزل یقین تھا۔ عموماً رات کو جلدی سوکر صبح بہت جلدی اٹھ جاتے۔ اکثر فجر کی نماز سے پہلے تلاوت کرتے۔ آپ انتہائی رحمدل اور شفیق باپ تھے۔ انتہائی سادہ مزاج تھے۔ زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ پہلے غانا میں انگلش سیکھی پھر تنزانیہ میں سواحیلی اور پھر آئیوری کوسٹ میں آپ نے فرنچ سیکھی۔ آسٹریلیا آکر بھی انگریزی سیکھنے کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔
مکرم مقبول احمد ظفر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30جولائی 2012ء کی ایک خبر کے مطابق مکرم مقبول احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ ابن مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب مرحوم سابق کاتب روزنامہ الفضل ربوہ 25جولائی 2012ء کو بعمر 39سال فضل عمر ہسپتال ربوہ میں وفات پا گئے۔ آپ معدہ اور آنتوں کی تکلیف میںمبتلا تھے۔ تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔
آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز آپ کے پڑدادا محترم مولوی عمر دین صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے بذریعہ خط حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت کی تھی۔ مرحوم 10فروری 1973ء کو آبائی گائوں کوٹ محمد یار ضلع چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ 1990ء میں ربوہ میں میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور 1997ء میںمیدان عمل میں قدم رکھا۔ آپ ذہین و فہیم طلباء میںشمار ہوتے تھے۔ دینی تعلیم کے ساتھ بی۔اے تک تعلیم بھی حاصل کی۔ تخصص عربی کے دوران ہی جامعہ احمدیہ میں تدریس کا موقع بھی ملا۔ ایک سال نظارت اشاعت میں کام کیا اور پھر دوبارہ جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن میں بطور استاد خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کو عربی پڑھنے اور پڑھانے میں مہارت حاصل تھی۔ 2007ء میں عربی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ کو شام بھجوایاگیا ۔ جہاں سے حصول علم کے بعد فروری 2010ء کو و اپس پاکستان آگئے اور تا وقت وفات نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میںخدمت سلسلہ کی توفیق پا تے رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ’التبلیغ‘ اور ’استفتاء‘ کی باترجمہ اشاعت کے موقع پر بنائی جانے والی کمیٹی میں شامل تھے۔ علاوہ ازیں اپنے حلقہ کے زعیم خدا م الاحمدیہ اور نائب مہتمم اصلاح و ارشاد خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ نیز خدمت انسانیت کی غرض سے بطور ہومیو ڈاکٹر کلینک مسجد صادق دارالعلوم غربی میں 1997ء سے 2005ء تک خدمات بجالاتے رہے۔
مرحوم خوش اخلاق ، خوش مزاج اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے ، نرم دل ، نرم گفتار اور مخلوق خدا کے ہمدرد تھے۔ مریضوں کے ساتھ بہت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ کے گھر پر بھی دوائی لینے والے مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مگر آپ ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ مریضوں کی بے لوث خدمت کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ مرحوم نے بڑی وفا کے ساتھ اپنے وقف کو نبھایا۔ بڑے علم دوست انسان تھے۔ آپ کو مطالعہ کتب اور مضامین لکھنے کا بہت شوق تھا۔روزنامہ الفضل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔ آپ کے مضامین تحقیق سے پُر اور مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہوتے تھے جس کا پڑھنے والے کو بہت فائدہ ہوتا۔مرحوم متقی، پرہیز گار، نمازوں کے پابند اور تہجد گزار تھے۔
آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 2بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں ۔دیگر لواحقین میں بوڑھی والدہ ،ایک بھائی مکرم معروف احمد صاحب استاد ناصر سیکنڈری سکول ربوہ اور پانچ بہنیں شامل ہیں ۔ 27جولائی 2012ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کا ذکر خیر کیا، دینی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
مکرم میاں محمد عبداللہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25جولائی 2012ء میں مکرم انور احمد مبشر صاحب کے قلم سے اُن کے دادا مکرم میاں محمدعبداللہ صاحب کا مختصر ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مکرم میاں محمد عبداللہ صاحب آف مَرل (ضلع سیالکوٹ) 1870ء میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں بیعت کی اور پھر نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے۔
مکرم میاں محمد عبداللہ صاحب ایک ہمدرد، متوکّل اور خوش مزاج انسان تھے۔ گاؤں میں اکیلے احمدی تھے اور وہاں سے پیدل جلسہ سالانہ قادیان کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ جب آپ نے قریبی دیہات میں تبلیغ شروع کی تو مخالفت بھی شروع ہوگئی۔ کئی بار مارپیٹ بھی ہوئی۔ حتیٰ کہ آپ کا پانی بھی بند کردیا گیا۔ آپ ذرا دُور سے پانی لانے لگے تو وہاں کا پانی بھی گندا کردیا گیا۔ تاہم آپ نے تبلیغ جاری رکھی۔ گاؤں کی مسجد میں داخلہ بند ہوا تو گاؤں کے قریب جگہ خرید کر ایک چبوترہ بنادیا اور وہاں نمازوں کی ادائیگی شروع کردی۔ یہ جگہ بعد میں ’’بابا کی مسجد‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ آخر خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت قائم ہوگئی اور 1953ء کے فسادات میں آپ نے نہایت جرأت کے ساتھ نواحمدیوں کو حوصلہ میں رکھا ۔ اِس وقت مَرلؔ میں احمدیوں کے 18 گھر ہیں۔
8؍مئی 1958ء کو آپ نے سیالکوٹ میں وفات پائی۔ امانتاً وہاں دفن کئے گئے۔ قریباً چھ ماہ بعد جب جسدخاکی کو ربوہ لے جانے کے لئے نکالا گیا تو مخالفین نے اصرار کیا کہ باباجی کا چہرہ دکھاؤ، سُنا ہے احمدیوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔ مجبوراً جب چہرہ سے کفن ہٹایا گیا تو ایک چمک سی پیدا ہوئی اور دیکھا گیا تو آپ کا چہرہ ایسے تھا جیسے ابھی سوئے ہوں۔ پھر جسدخاکی ربوہ لایا گیا اور تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔
مکرم رانا اقبال الدین صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍ستمبر 2012ء میں مکرمہ ح۔شاہدہ صاحبہ نے اپنے واقف زندگی بھائی مکرم رانا اقبال الدین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم رانا اقبال الدین صاحب 22؍اگست 1947ء کو قادیان میں مکرم صوبیدار سراج الدین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء کا تعلق امرتسر کے گائوں اجنالہ سے ہے۔ حضرت میاں مہر دین صاحبؓ آپ کے دادا تھے جن کی اہلیہ بھی صحابیہ تھیں۔1907ء میں آپ کے نانا جان حضرت مولوی خیر دین صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی اور پھر 1908ء میں قادیان میں آبسے۔
مکرم اقبال الدین صاحب نے ابتدائی تعلیم ضلع گوجرانوالہ اور ضلع نوابشاہ میں حاصل کی۔ پھر بچوں کی تربیت کی غرض سے آپ کے والدین 1959ء میں ربوہ آگئے اور یہیں آپ نے میٹرک کیا۔ جامعہ احمدیہ میں داخلہ نہ ملا تو ستمبر 1965ء میں فوج میں چلے گئے وہاں سے پاکستان ایئر فورس میں چلے گئے اور 13سال تک بطور فزیکل انسٹر کٹر اور مَیس انچارج رہے۔1971ء کی جنگ میں بھی شامل ہوئے۔ زیادہ عرصہ کو ہاٹ اور رسالپور میں گزارا۔ انتہائی فرض شناس اور دیانتدار تھے۔ 1978ء میں مذہبی مخالفت اور محکمانہ ترقی نہ ملنے کی و جہ سے استعفیٰ دے کر ربوہ آگئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ایک خطبہ سے متأثر ہو کر زندگی وقف کردی۔ کچھ عرصہ دارالقضاء میں خدمت کا موقع ملا۔ اس کے بعد دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں14سال بطور اکائونٹنٹ اور پھر دفتر آڈٹ میں بطور نائب آڈیٹر خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران روزنامہ الفضل میں 10سال آڈٹ بھی کرتے رہے۔ دفتری امور کے سلسلہ میں کراچی،لاہور،اسلام آباد کے کثرت سے سفر کئے اور نہایت دیانتداری، خلوص اور راز داری سے اہم کام سر انجام دیتے رہے۔ جلسہ سالانہ کے دنوںمیں بھی ایک کثیر رقم کا حساب نہایت محنت اور دیانتداری سے کرنے کی توفیق پاتے رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے آخری سفر میں بھی اسلام آباد میں حضورؒ کی وفات تک مقیم رہے۔ 1991ء کے تاریخی جلسہ سالانہ قادیان میں عملہ پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ قادیان گئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے استقبال کی تیاری کی سعادت ملی اور حضورؒ سے بہت پیار بھی ملا۔
2007ء میں جلسہ سالانہ لندن میں بطور نمائندہ صدرانجمن احمدیہ شامل ہونے کی توفیق پائی اور حضورانور ایدہ اللہ کی شفقت سے حصہ پایا۔ بعدازاں کچھ عرصہ ربوہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے رہے۔ 31مئی 2012ء کی صبح قبل از نماز فجر وفات پائی۔ پسماندگان میں آپ نے تین بہنوں اور دو بھائیوں کے علاوہ دو بیٹیاں بھی چھوڑی ہیں۔ آپ کی دونواسیاں اور ایک نواسہ ہے جو تینوں وقف نَو کی تحریک میں شامل ہیں۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍ستمبر 2012ء میں مکرم منور احمد کنڈے صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
رہ میں خُلدِ بریں آ جائے
کاش وہ آج یہیں آ جائے
جھلملاتے ہیں ستارے کب سے
اب تو وہ ماہِ جبیں آ جائے
بے سبب دل کو دُکھانے والو
زلزلہ پھر نہ کہیں آ جائے
شعر کہنے کا ہو مقصد پورا
س کو گر میرا یقیں آ جائے
منتظر سب ہیں منورؔ گھر میں
لَوٹ کر اب تو مکیں آجائے