خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 29 جون 2018ء
حضرت عمّار رضی اللہ عنہ کی سیرت کے متعلق گزشتہ خطبہ میں مذکور امور کے علاوہ بعض مزید روایات کا تذکرہ
اسی طرح حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر کے حالات و سیرت کا ایمان افروز تذکرہ
دین کا علم سیکھنا، قرآن کریم کا علم سیکھنا یہ تو ہر ایک کے لئے اب میسر اور مہیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمیں ایک ایسا ذریعہ عطا فرما دیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اگر چاہیں تو دینی علم سیکھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کے درس اس میں ہوتے ہیں۔ حدیث کے درس ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے درس ہوتے ہیں۔ خطبات ہیں۔ دوسرے خطابات ہیں، جلسے ہیں، تو کم از کم اس لحاظ سے اگر ہم اپنے آپ کو بھی اور اپنی نسلوں کو بھی
اس ذریعہ سے جوڑ لیں تو یہ تربیت کا ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔ خلافت سے تعلق قائم ہوتاہے۔ اور ہر قسم کے فتنہ اور فساد سے بچانے والا بھی ہے۔ اور دینی علم بڑھانے والا بھی ہے۔ اس لئے اس طرف افراد جماعت کو بہت توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ایم ٹی اے کا ذریعہ مہیا کیا ہے اس سے اپنے آپ کو جوڑیں۔
مکرم قاضی شعبان احمد خان صاحب ابن قاضی محمد سلمان صاحب کی لاہور (پاکستان) میں شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
مکرمہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ حاضر
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں بیان کر رہا تھا۔ ان کے بارے میں کچھ روایتیں اَور تھیں وہ بھی مَیں آج بیان کروں گا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس شخص سے اپنی وفات کے دن تک محبت کرتے رہے ہوں مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال دے گا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم دیکھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سے محبت کرتے تھے اور تم کو عامل بناتے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے محبت کرتے تھے یا میری تالیف قلب فرماتے تھے۔ لیکن ہم آپ کو ایک شخص سے محبت کرتے دیکھتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کون شخص ہے؟ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا کہ عمارؓ بن یاسرؓ وہ شخص تھے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ محبت کی۔ لوگوں نے اس بات کو سن کے کہا کہ جنگ صفین میں تم لوگوں نے ہی تو انہیں شہید کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عاص اس وقت امیر معاویہ کی طرفداری میں تھے۔ تو حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم نے ہی انہیں قتل کیا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں دو آدمیوں کے متعلق گواہ ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے محبت کرتے تھے وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عمارؓ بن یاسرؓ تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 199 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو شہید کر دیا گیا تو عمرو بن حزم حضرت عمرو بن عاص کے پاس آئے اور کہا کہ عمارؓ کو شہید کر دیا گیا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو باغی گروہ شہید کرے گا۔ تو حضرت عمرو گھبرا کر اٹھے اور حضرت معاویہ کے پاس گئے۔ حضرت معاویہ نے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ حضرت معاویہ نے پوچھا کہ عمارؓ کو شہید کر دیا گیا ہے تو پھر کیا ہوا؟ حضرت عمرو نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو باغی گروہ قتل کرے گا اور معاویہ نے کہا کہ کیا ہم نے اس کو شہید کیا ہے؟ ان کو تو حضرت علیؓ نے اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے جنہوں نے ان کو لا کر ہمارے نیزوں کے سامنے یا ہماری تلواروں کے سامنے ڈال دیا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 474 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5726 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء)
بہرحال حضرت عمرو بن عاص میں ایک تو نیکی تھی جو اُن کو فکر پیدا ہوئی لیکن امیر معاویہ نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ بہرحال صحابہ کو بڑی فکر ہوا کرتی تھی جب ان کو کوئی روایت پہنچتی تھی یا خود انہوں نے کبھی سنا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بارے میں انذار فرمایا ہے یا کوئی خوشخبری دی۔
حضرت عائشہؓ نے حضرت عمارؓ کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ ایڑھیوں سے لے کر اپنے سر کی چوٹی تک ایمان سے بھرے ہوئے تھے‘‘۔
(فضائل صحابہؓ از امام احمد بن حنبل مترجم صفحہ 520 فضائل سیدنا عمار بن یاسرؓ، مترجم نوید احمد بشار۔ مطبوعہ بک کارنر پرنٹرز پبلشرز 2016ء)
حضرت خبابؓ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ قریب ہو جاؤ۔ اس مجلس کا آپ سے زیادہ کوئی حقدار نہیں سوائے عمَّار کے۔ پھر حضرت خبابؓ حضرت عمرؓ کو اپنی کمر کے زخموں کے نشان دکھانے لگے جو انہیں مشرکین نے پہنچائے تھے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فضائل خبابؓ حدیث 153)
حضرت عمر ان کی عزت افزائی فرما رہے تھے کیونکہ انہوں نے ابتدائی زمانے میں بہت تکلیفیں اٹھائیں اور ساتھ ہی حضرت عمارؓ کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے بھی بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔
ایک روایت حضرت عمارؓ کی حضرت علیؓ کی شہادت کے بارے میں بھی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سے متعلق ہے۔ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غزوہ ذات العشیرۃ میں مَیں اور حضرت علیؓ رفیق سفر تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر اپنا پڑاؤ ڈالا۔ ہم نے بنو مُدْلِجْ کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے باغات کے چشموں میں کام کر رہے تھے۔ حضرت علیؓ مجھ سے کہنے لگے کہ آؤ ان لوگوں کے پاس چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم ان کے قریب چلے گئے۔ تھوڑی دیر تک ہم نے ان کے کام کو دیکھا پھر ہمیں نیند آ گئی۔ چنانچہ میں اور حضرت علیؓ واپس آ گئے اور ایک باغ میں مٹی کے اوپر ہی لیٹ گئے۔ اللہ کی قسم ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آکر اٹھایا یا جگایا۔ آپ ہمیں پاؤں سے ہلا رہے تھے اور ہم مٹی سے لَت پت ہو چکے تھے۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اے ابوتراب! اس مٹی کی وجہ سے جو اُن پر نظر آ رہی تھی آپ نے ان کو ابوتراب کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں ان دو آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں جو لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت ہیں۔ ہم نے عرض کیا کیوںنہیں یا رسول اللہ!۔ آپ نے فرمایا ایک تو قوم ثمود کا وہ سرخ و سفید آدمی جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور دوسرا وہ آدمی اے علیؓ جو تمہارے سر پر وار کرے گا اور تمہاری داڑھی کو خون سے تر کردے گا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 261 حدیث عمار بن یاسرؓ حدیث 18511 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء(
ابو مِجْلَز کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے مختصر سی نماز پڑھی۔ ان سے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمارؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں سرِ مُو بھی فرق نہیں کیا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 262 حدیث عمار بن یاسرؓ حدیث 18514 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اس روایت کی ایک تفصیل اس طرح بھی ملتی ہے۔ ابو مِجْلَز کے حوالے سے ہی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے ہمیں بہت مختصر نماز پڑھائی۔ لوگوں کو اس پر تعجب ہوا۔ حضرت عمارؓ نے کہا کہ کیا میں نے رکوع اور سجود مکمل نہیں کئے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ حضرت عمارؓ نے کہا کہ میں نے اس میں ایک دعا کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے اور وہ دعا یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیْ۔ اَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدَ فِی الْفَقْرِوَالْغِنٰی وَلَذَّۃ النَّظَرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ ضَرَّاءَ مَضَرَّۃٍ وَمِنْ فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ۔ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَّا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھُدَاۃً مَھْدِیِّیْنَ۔کہ اے اللہ! غیب کا علم تجھے ہی ہے اور تمام مخلوق پر تیری قدرت ہی حاوی ہے۔ تُو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تیرے علم میں میری زندگی میرے لئے بہتر ہے اور مجھے اس وقت وفات دے جب موت میرے لئے بہتر ہو۔ اے اللہ! میں غیب اور حاضر میں تجھ سے تیری خشیت کا طلبگار ہوں اور غضب اور رضا کی حالت میں کلمہ حق کہنے کی طاقت مانگتا ہوں اور تنگدستی اور فراخی میں میانہ روی اختیار کرنے اور تیرے چہرے پر پڑنے والی لذت والی نظر اور تیری لقا کا شوق تجھ سے مانگتا ہوں اور میں کسی تکلیفِ دہ امر اور گمراہ کر دینے واے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی خوبصورتی کے ساتھ مزیّن کر دے اور ہمیں ہدایت پانے والے لوگوں کے لئے رہنما بنا دے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ 262 حدیث عمار بن یاسرؓ حدیث 18515 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ ہر جمعہ کو منبر پر سورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے تھے۔
الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 193 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
حارث بن سُوَید کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عمرؓ کے پاس حضرت عمارؓ کی چغلی کھائی، شکایت کی۔ حضرت عمّارؓ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور کہا اے اللہ! اگر اس شخص نے مجھ پر جھوٹا افترا کیا ہے تو اس کو دنیامیں کشائش عطا کر اور اس کی آخرت لپیٹ دے۔
الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 عماربن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
ابونوفل بن ابی عَقْرَب کہتے ہیں کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ سب سے زیادہ سکوت کرنے والے اور سب سے کم کلام کرنے والے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
خَیْثَمَہ بن ابی سَبُرَہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے کسی نیک آدمی کی صحبت میسر فرما۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابوہریرۃؓ کی صحبت میسر فرمائی۔ حضرت ابوہریرۃؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا میرا تعلق سرزمین کوفہ سے ہے۔ میں علم اور بھلائی لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ حضرت ابوہریرۃؓ نے کہا کہ کیا تمہارے ہاں مُجَابُ الدعوۃ (جس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں) حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی اور نعلین اٹھانے والے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان حضرت حذیفہؓ بن یمان، اور عمارؓ بن یاسرؓ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ فرمان جاری ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شیطان سے پناہ دے رکھی ہے، اور دو کتابوں انجیل اور قرآن کا علم رکھنے والے حضرت سلمانؓ موجود نہیں ہیں ؟۔(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 481 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5746 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء)۔ آپ نے یہ بات بیان فرمائی کہ جب یہ لوگ ہیں تو تم نے ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔
محمد بن علی بن حَنْفِیَّہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمارؓ سے فرمایا کیا میں تمہیں وہ دَم سکھاؤں جو جبرئیل نے مجھ پر کیا ہے؟ حضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا جی یا رسول اللہ!۔ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دم سکھایا کہ بِسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ وَاللہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یُّؤْذِیْکَکہ مَیں اللہ کے نام سے شروع کر کے تمہیں دَم کرتا ہوں اور اللہ تمہیں ہر اس بیماری سے شفا دے جو تمہیں تکلیف دے۔ تم اسے پکڑ لو اور خوش ہو جاؤ ۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 481-482 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5748 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت حضرت علیؓ اور حضرت عمارؓ اور حضرت سلمانؓ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مشتاق ہے۔
(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1138 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہارے درمیان کتنی دیر رہوں گا۔ پس تم میرے بعد ان لوگوں کی اقتدا کرنا۔ آپ نے ابو بکرؓ اور عمرؓ کی جانب اشارہ فرمایا۔ اور عمارؓ کے طریق کو اپنانا۔ اور جو تمہیں ابن مسعودؓ بیان کریں ان کی تصدیق کرنا۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 3799)
حضرت عمارؓ کے تعلق سے ہی گزشتہ ہفتہ میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت عمارؓ مفسدین کے دھوکہ میں آ گئے تھے۔ جب حضرت عثمان نے انہیں گورنر کی تحقیق کرنے کے لئے بھیجا تھا تو آپؓ مفسدین کے گروہ کے پاس چلے گئے اور پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی۔ تو اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے خلاف جو فساد پیدا ہوا اور خلافت کے خلاف جو ساری باتیں پیدا ہوئیں تو یہ اس وجہ سے پیدا ہوئیں کہ ان لوگوں کی تربیت صحیح نہیں تھی اور بہت کم مرکز میں آیا کرتے تھے۔ ان کو قرآن کریم کا علم بہت کم تھا۔ دین کا علم بہت کم تھا۔ اس لئے آپ نے جماعت کو اس وقت تلقین کی کہ اس چیز سے تم لوگوں کو عبرت اور نصیحت پکڑنی چاہئے۔ اس لئے ایک تو یہ کہ قرآن کریم کا علم سیکھو۔ مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو اور دین کا علم سیکھو تا کہ اگر آئندہ بھی کسی بھی قسم کا کوئی فتنہ جماعت میں اٹھتا ہے تو تم لوگ ہمیشہ اس سے بچ سکو۔
(ماخوذ از انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 171)
پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ ہر کوئی نہ تو مرکز میں آ سکتا ہے اور اس طرح خلافت کے ساتھ ذاتی تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایک بات بہرحال ہے کہ دین کا علم سیکھنا، قرآن کریم کا علم سیکھنا یہ تو ہر ایک کے لئے اب میسر اور مہیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمیں ایک ایسا ذریعہ عطا فرما دیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اگر چاہیں تو دینی علم سیکھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کے درس اس میں ہوتے ہیں۔ حدیث کے درس ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے درس ہوتے ہیں۔ خطبات ہیں۔ دوسرے خطابات ہیں، جلسے ہیں، تو کم از کم اس لحاظ سے اگر ہم اپنے آپ کو بھی اور اپنی نسلوں کو بھی اس ذریعہ سے جوڑ لیں تو یہ تربیت کا ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔ خلافت سے تعلق قائم ہوتاہے۔ اور ہر قسم کے فتنہ اور فساد سے بچانے والا بھی ہے۔ اور دینی علم بڑھانے والا بھی ہے۔ اس لئے اس طرف افراد جماعت کو بہت توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ایم ٹی اے کا ذریعہ مہیا کیا ہے اس سے اپنے آپ کو جوڑیں۔
حضرت ابولُبابہؓ بن عبدِالمنذِرایک اور صحابی ہیں ان کا ذکر بھی کچھ کروں گا۔ حضرت ابولُبابہؓ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا نام بعض بشیر بتاتے ہیں۔ اور ابن اسحاق کے نزدیک ان کا نام رَفَاعَہ ہے۔ علامہ زمخشری کے نزدیک ان کا نام مروان ہے۔بہرحال یہ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور بارہ نقیبوں میں سے تھے اور بیت عقبہ میں شامل ہوئے۔
غزوہ بدر کے موقع پر مدینہ سے نکلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا لیکن جب آپ رَوْحَاء مقام کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہے اور لشکر قریش کی آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپ کے پیچھے مدینہ کا انتظام بھی مضبوط رہے آپ نے حضرت ابولُبابہ بن منذر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوۃ رہیں مگر انتظامی کام حضرت ابولُبابہ سرانجام دیں۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 354)۔ بہرحال اس طرح یہ آدھے راستے سے واپس چلے گئے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں ان کا حصہ مقرر کیا۔‘‘
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 7 صفحہ 290 ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ اور حضرت ابولُبابہؓ تینوں باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ حضرت علی اور حضرت ابولُبابہؓ نے بڑے اصرار سے عرض کیا کہ ہم پیدل چلتے ہیں اور حضور سوار رہیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں اور نہ ہی میں تم دونوں سے اجر کے بارے میں زیادہ بے نیاز ہوں۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 353)(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ15-16 غزوہ بدر مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کو اہل مدینہ کو خوشخبری پہنچانے کے لئے روانہ کیا۔ حضرت زیدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آئے تھے۔ جب وہ مصلی (نماز کی جو جگہ تھی) پہنچے تو آپ نے اپنی سواری سے بلند آواز سے کہا کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ، حجاج کے بیٹے ابوجہل اور ابوالبختری، زمعہ بن الاسود، امیّہ بن خلف یہ سب مارے گئے ہیں اور سہیل بن عمرو اور بہت سارے قیدی بنا لئے گئے ہیں۔ لوگ زید بن حارثہ کی بات پر یقین نہیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ زید شکست کھاکر لَوٹے ہیں اور اس بات نے مسلمانوں کو غصہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ (منافقین اور مخالفین جو تھے وہ یہ کہا کرتے تھے) اور وہ خود خوفزدہ بھی ہو گئے ہیں (اس لئے یہ باتیں کر رہے ہیں ۔) منافقین میں سے ایک شخص نے حضرت اسامہؓ بن زیدؓ سے کہا کہ تمہارے آقا اور ان کے ساتھ جو گئے تھے وہ سب مارے جا چکے ہیں۔ ایک شخص نے حضرت ابولُبابہ سے کہا کہ تمہارے ساتھی اب اس طرح بکھر چکے ہیں کہ دوبارہ کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اور آپ کے چوٹی کے اصحاب شہید ہو چکے ہیں اور یہ آپ کی اونٹنی ہے اور ہم اسے جانتے ہیں۔ مخالفین کہنے لگے کہ زید کو تو رعب کی وجہ سے خود ہی پتہ نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور شکست کھا کے لوٹا ہے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری بات کو جھٹلائے گا۔ یہود بھی یہی کہتے تھے کہ زیدؓ ناکام و نامراد اور شکست کھا کر لوٹا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علیحدگی میں دریافت کیا کہ اے ابّا آپ جو کہتے ہیں کیا وہ سچ ہے۔ حضرت زید نے کہا اے میرے بیٹے اللہ کی قسم! جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ اس سے میرا دل مضبوط ہو گیا۔
(کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 114 بدر القتال مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)
حضرت ابولُبابہؓ کی سادگی اور فدائیتِ رسول کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ 5ہجری میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہو کر شہر میں واپس تشریف لائے تو ابھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کشفی رنگ میں یہ بتایا گیا کہ جب تک بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہئیں ۔ آپ نے صحابہ میں اعلان کر دیا کہ سب لوگ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نماز عصر وہیں پہنچ کر ادا کی جائے گی۔ شروع شروع میں تو یہودی لوگ سخت غرور اور تمرّد ظاہر کرتے رہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کو محاصرہ کی سختی اور اپنی بے بسی کا احساس ہونا شروع ہوا (کہ مسلمانوں نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا تھا) اور بالآخر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ (بہرحال) انہوں نے یہ تجویز کی کہ کسی ایسے مسلمان کو جو اُن سے تعلقات رکھتا ہو اور اپنی سادگی کی وجہ سے ان کے داؤ میں آ سکتا ہو اپنے قلعہ میں بلائیں اور اس سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے متعلق کیا ارادہ ہے تا کہ وہ اس کی روشنی میں آئندہ طریق عمل تجویز کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایلچی روانہ کر کے یہ درخواست کی کہ ابولُبابہؓ بن منذر انصاری کو ان کے قلعہ میں بھجوایا جاوے تا کہ وہ اس سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولُبابہؓ کو اجازت دی اور وہ ان کے قلعہ میں چلے گئے۔ اب رؤوسائے بنو قریظہ نے یہ تجویز کی ہوئی تھی کہ جونہی ابولُبابہؓ قلعہ کے اندر داخل ہو سب یہودی عورتیں اور بچے روتے چلّاتے ان کے گرد جمع ہو جائیں اور اپنی مصیبت اور تکلیف کا ان کے دل پر پورا پورا اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ابولُبابہؓ پر یہ داؤ چل گیا اور بنوقریظہ کے سوال پر کہ اے ابولبابہ! تو ہمارا کیا حال دیکھ رہا ہے؟ کیا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر اپنے قلعوں سے اتر آویں؟ ابولبابہ نے بے ساختہ جواب دیا ہاں اتر آؤ۔ مگر ساتھ ہی اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قتل کا حکم دیں گے۔ حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ جب یہ خیال آیا کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کی خیانت کی ہے (یا جو اشارہ کیا ہے تو غلط طریقہ سے کر دیا ہے) تو میرے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آپ وہاں سے مسجد نبوی میں آئے (ابولبابہؓ مسجد نبوی میں آئے) اور مسجد کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا (کہ یہ میری سزا ہے) اور کہا کہ جب تک خدا تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کرے گا اسی طرح بندھا رہوں گا۔ حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ میرے بنو قریظہ جانے اور جو کچھ مَیں نے وہاں کیا اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس کے بارے میں جو چاہے گا فرمائے گا۔ اگر وہ میرے پاس آتا تو میں اس کے لئے بخشش طلب کرتا۔ جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور چلا گیا ہے تو اسے جانے دو۔ حضرت ابولُبابہ ؓکہتے ہیں کہ میں پندرہ دن اس ابتلا میں رہا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا اور میں اسے یاد کرتا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم نے بنوقریظہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور گویا میں ایک بدبودار کیچڑ میں ہوں۔ مَیں اس سے نکل نہیں سکتا اور قریب تھا کہ مَیں اس کی بدبو سے ہلاک ہوجاتا۔ پھر میں نے ایک نہر دیکھی جو بَہہ رہی تھی۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں اس میں غسل کر رہا ہوں یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو پاک صاف کیا اور تب مجھے خوشبو آ رہی تھی۔ آپ حضرت ابوبکرؓ کے پاس اس کی تعبیر پوچھنے کے لئے گئے تھے تو حضرت ابوبکر نے اس کی تعبیر یہ کی کہ تمہیں ایسا معاملہ پیش آئے گا جس کی وجہ سے تمہیں غم پہنچے گا پھر تمہیں اس سے نجات دی جائے گی۔ حضرت ابولُبابہؓ کہتے ہیں کہ میں بندھا ہوا حضرت ابوبکرؓ کی بات کو یاد کرتا تھا اور امید رکھتا تھا کہ میری توبہ قبول کی جائے گی۔ حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ابولُبابہؓ کے توبہ کی قبولیت کی خبر میرے گھر میں نازل ہوئی۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی اس وقت ہوئی)۔ کہتی ہیں کہ میں نے سحر کے وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنستے دیکھا۔ میں نے عرض کیا اللہ آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابولُبابہؓ کی توبہ قبول ہو گئی۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں ان کو آگاہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتی ہو تو کر دو۔ حضرت اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے حجرہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا( یہ پردے کے احکام نازل ہونے سے قبل کی بات ہے) کہ اے ابولُبابہؓ خوش ہو جاؤ۔ اللہ نے آپ پر فضل کرتے ہوئے آپ کی توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ دوڑ کر حضرت ابولُبابہؓ کو کھولنے لگے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے کھولیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا۔ حضرت ابولُبابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں اپنے آبائی گھر کو جہاں مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے چھوڑتا ہوں۔ یہ بہت بڑی غلط بات مجھ سے ہو گئی اس لئے میں اپنا گھر بار چھوڑتا ہوں اور میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ صرف ایک تہائی مال کا صدقہ کرو۔ حضرت ابولبابہ نے ایک تہائی مال صدقہ کیا اور آپ نے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 597 تا 599)
(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 261-262 ابو لبابہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ، کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 11-12 غزوہ بنی قریظہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس تفصیل کے علاوہ بھی اس واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا۔ ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا کہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ہے۔ (بیچ میں چھوڑ کے چلے گئے تھے)۔ بجائے اس کے کہ بنوقریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے انہوں نے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علی ان کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جا رہے تھے۔ چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق ناپاک کلمات بول رہے تھے۔ حضرت علی ؓنے اس خیال سے کہ آپ کو ان خیالات سے تکلیف ہو گی عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں۔ آپ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں۔ موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا ان کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کرکے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتی کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا۔ لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولُبابہؓ انصاری کو جو اُن کے دوست اوس قبیلہ کے سردار تھے ان کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولُبابہؓ کو بھجوا دیا۔ ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو۔ ہم یہ مان لیں؟ ابولُبابہؓ نے منہ سے تو کہا ہاں لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولُبابہؓ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو گی بغیر سوچے سمجھے اشارے کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی۔ چنانچہ یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا مگر ان کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے کہا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعدؓ بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔ لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔ یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویّے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے۔ وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے۔ اب یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ۔ یہود نے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر ان سے اس نے کہا کہ میں تم سے بری ہوتا ہوں اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مَسلمہؓ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ مَیں فلاں ہوں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَالَۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ یعنی اپنی سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں اس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے فعل کو سراہا۔‘‘ (ماخوذ ازدیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282 تا 284)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی جو کہا جاتا ہے کہ آپ نے زیادتیاں کیں اور ظلم کئے اور یہودی قبائل کو قتل کیا تو یہ تو خود اپنی تباہی کے ذمہ وار تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروانے کے بجائے انہوں نے اپنے ایک سردار سے، دوسرے قبیلہ کے سردار سے جو مسلمان ہو چکے تھے ان سے فیصلہ کروایا اور پھر ان کی کتاب کے مطابق یہ فیصلہ ہوا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام نہیں۔ نہ صحابہ پر ہے کہ انہوں نے کوئی ظلم کیا۔
علامہ ابن سعد نے لکھا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ قینقاع اور غزوہ سویق میں بھی حضرت ابولُبابہؓ کو مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا شرف حاصل ہوا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ22 باب غزوہ قینقاع و غزوہ سویق مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
حضرت ابولبابہؓ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ انصار کے قبیلہ عمرو بن عوف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابولُبابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک رہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 349 واخوھما ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)
ان کی وفات کے بارے میں بعض کے نزدیک حضرت ابولُبابہؓ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں فوت ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد وفات پائی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ 50ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 7 صفحہ 290 ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
سعید بن مُسَیّب روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابولُبابہؓ بن عبد المنذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن بارش کی دعا کی اور فرمایا اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ کہ اے اللہ ہم پر بارش برسا اے اللہ! ہم پر بارش برسا اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ ابولُبابہؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ پھل باغوں میں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آسمان میں ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ہم پر بارش برسا یہاں تک کہ ابولُبابہؓ ننگے بدن اپنے کھلیان میں پانی کا سوراخ اپنے کپڑے سے بند کرے۔ کہتے ہیں کہ دعا کے بعد آسمان سے پانی برسنا شروع ہو گیا۔ بادل آئے۔ بارش شروع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ راوی کہتے ہیں کہ انصار حضرت ابولُبابہؓ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ اے ابولُبابہ! اللہ کی قسم یہ بارش اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ننگے بدن اپنے کپڑے کے ذریعہ اپنے کھلیان سے پانی کے نکاس کا راستہ نہیں روکو گے۔ چنانچہ حضرت ابولُبابہؓ اپنے کپڑے کے ذریعہ نکاس کا راستہ بند کرنے کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد بارش رک گئی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 3 صفحہ 500 کتاب صلاۃ الاستسقاء باب الاستسقاء بغیر صلاۃ و یوم الجمعۃ علی المنبر حدیث 6530 مطبوعہ مکتبہ الرشد بیروت 2004ء)
حضرت ابولبابہ اپنے نواسے عبدالرحمن بن زید (جو حضرت عمرؓ کے بھتیجے تھے) کو ایک کھجور کی چھال میں لپیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابولبابہ تمہارے پاس کیا ہے؟ حضرت ابولبابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ میرا نواسہ ہے۔ میں نے اس جیسا کمزور نومولود کبھی نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نومولود کو اٹھایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ اس دعا کی برکت سے جب عبدالرحمن بن زید لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوتے تو قد میں سب سے لمبے نظر آتے تھے۔ حضرت عمر نے ان کی شادی اپنی بیٹی فاطمہ سے جو حضرت اُمّ کلثوم کے بطن سے تھیں اور حضرت اُمّ کلثوم حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی بیٹی تھیں، کروائی تھی۔
(امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 146 فصل فی ذکر اسلافہﷺ من قبل حفصۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)
حضرت انسؓ بن مالک نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کے گھر سب سے زیادہ دور تھے۔ ایک حضرت ابولُبابہ بن عبدالمنذر کا۔ ان کا گھر قبا میں تھا اور حضرت ابوعَبْس بن جبر۔یہ قبیلہ بنوحارثہ میں رہتے تھے۔ وہ دونوں عصر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد اوّل صفحہ 309 کتاب الصلوٰۃ باب مواقیت الصلوٰۃ حدیث 703 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
تو یہ ان صحابہ کے حالات تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔
جمعہ کی نماز کے بعد مَیں دو جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ حاضر ہے۔ ایک غائب ہے۔
جنازہ غائب مکرم قاضی شعبان احمد خان صاحب شہید کا ہے۔ ساکن سروبا گارڈن لاہور۔ قاضی شعبان احمد سلیمان خان صاحب ابن قاضی محمد سلیمان صاحب کو 25؍جون 2018ء کو ان کو مخالفین نے ان کے گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 47 سال ان کی عمر تھی۔ تفصیلات کے مطابق 25جون کی رات نقاب پہنے ہوئے دو افراد گھر میں داخل ہوئے۔ قاضی صاحب اور ان کی اہلیہ ایک کمرے میں تھے جبکہ ان کی بیٹیاں دوسرے کمرے میں تھیں۔ قاضی صاحب کی اہلیہ واش روم میں تھیں۔ جب وہ باہر نکلیں تو باہر دو نقاب پوش افراد موجود تھے۔ ان نقاب پوش افراد میں سے ایک نے قاضی صاحب کی اہلیہ کے سر پر پستول تانی اور ان کو دوسرے کمرے میں لے گیا جہاں ان کی بیٹیاں موجود تھیں۔ جبکہ دوسرا شخص قاضی صاحب کے کمرے میں ہی تھا اس نے تین گولیاں قاضی صاحب کے پیٹ میں ماریں جن سے موقع پر ان کی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
شہید مرحوم نے 2001ء میں اپنے ایک دوست محمد اقبال صاحب کے ذریعہ بمع اہل و عیال بیعت کی تھی۔ قاضی صاحب مظفر آباد (کشمیر) کے رہنے والے تھے۔ 2001ء میں نشتر کالونی سروبا گارڈن لاہور میں شفٹ ہوئے اور اس سے کچھ عرصہ قبل ٹاؤن شپ لاہور میں بھی رہے۔ قاضی شعبان صاحب معذور بچوں کا سکول چلا رہے تھے اور ان کی اپنی رہائش سکول کی بالائی منزل پر تھی۔ آج کل ان کے گھر کے نچلے حصہ میں سکول کی تعمیرات کا کام ہو رہا تھا اور شٹرنگ ہو رہی تھی۔ اسی شٹرنگ میں یہ نقاب پوش افراد پہلے آ کے چھپ گئے اور پھرموقع پا کر حملہ کیا۔
شہید مرحوم بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ بیعت کے بعد مکرم قاضی صاحب بہت ہی مخلص اور نیک انسان ثابت ہوئے۔ خلافت سے بے پناہ محبت اور گہری وابستگی تھی۔ شہید مرحوم نے گھر میں ایم ٹی اے دیکھنے کے لئے ڈش انٹینا لگا رکھا تھا تاکہ خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی خلافت کے ساتھ وابستہ رکھیں۔ چندوں اور دیگر مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے تھے۔ صدر حلقہ کی عاملہ میں سیکرٹری سمعی بصری کے طور پر خدمت کر رہے تھے اور لوگوں کا ڈش انٹینا بھی بغیر معاوضہ کے ٹھیک کر دیتے تھے۔ قاضی صاحب کی شادی ان کی کزن سے ہوئی تھی۔ دونوں خاندانوں میں صرف قاضی صاحب، ان کی اہلیہ اور بچے ہی احمدی تھے۔ فیملی کے دیگر افراد ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ان کے مخالف ہو گئے۔ چند ماہ قبل قاضی صاحب کا برادر نسبتی ان کے گھر آیا اور کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم لوگ مرزائی ہو گئے ہو۔ اسی دوران اس کی نظر چھت پر لگے ڈش انٹینا پر پڑی تو اسے توڑنے لگا۔ قاضی صاحب نے اس کو روکا تو آپس میں ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بہرحال اس کے بعد ان کے برادر نسبتی نے اپنی بہن سے کہا کہ تمہارا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ اس لئے تم میرے ساتھ چلو کیونکہ یہ تمہارا خاوند تو مرزائی ہو گیا ہے۔ اس پر قاضی صاحب مرحوم کی اہلیہ نے اپنے بھائی سے کہا کہ مَیں خود بھی احمدی ہوں اور مسلمان ہوں اور قاضی صاحب کو بھی مسلمان سمجھتی ہوں۔ مَیں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ شہید مرحوم کو مخالفین کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں جن کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھے اور کچھ دنوں سے خاموش تھے اور گھر سے باہر کم نکلتے تھے۔ مکرم قاضی صاحب شہید نے اپنی اہلیہ کو بھی کہا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو سب سے پہلے صدر صاحب حلقہ کو اطلاع کرنا۔ چنانچہ انہوں نے واقعہ شہادت کے بعد ایسا ہی کیا اور جماعت کے عہدیداران کو اطلاع کی اور نہایت استقامت دکھاتے ہوئے باوجود اس کے کہ ان کے غیر از جماعت رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے ان کی اہلیہ نے کہا کہ جنازہ احمدی پڑھیں گے اور تدفین بھی احمدی کریں گے۔ قاضی صاحب کے چند غیر احمدی عزیز و اقارب ان کی وفات پر مسجد بیت النور میں بھی آئے لیکن انہوں نے نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ قاضی صاحب کی اہلیہ اور بچیاں بھی جنازہ کے ساتھ قبرستان تک گئیں۔
شہید مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ مکرمہ شہناز شعبان صاحبہ 40سال ان کی عمر ہے اور تین بیٹیاں عزیزہ کرن 19سال، سدرہ شعبان 18سال اور ملائکہ 11 سال چھوڑی ہیں۔ یہ تینوں بیٹیاں پولیو کی وجہ سے کچھ معذور بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا خود ہی کفیل ہو اور ان کو ہر پریشانی سے بچا کے رکھے اور قاضی صاحب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔
دوسرا جنازہ جو حاضر جنازہ ہے وہ محترمہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب کا ہے۔ 23؍جون کو سو سال سے اوپر کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد سیٹھ محمد غوث صاحب کی دو خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ وہ صحابی تو نہیں تھے لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بہشتی مقبرہ قادیان میں صحابہ کے قطعہ میں دفن کرنے کی اجازت دی تھی۔ (تاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 211)
دوسری خصوصیت ان کی یہ تھی کہ کتاب اصحاب احمد میں لکھا ہے کہ سیٹھ محمد غوث گزشتہ42 سال سے وہ پہلے خوش قسمت انسان ہیں جن کا جنازہ آج ٹھیک اسی جگہ اور اسی حلقہ میں پڑھا جا رہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسد اطہر رکھا گیا تھا۔ اس موقع پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ایک سٹول یا کرسی پر کھڑے ہوکر بآواز بلند اس کی ایک شہادت بھی دی تھی۔ (اصحابِ احمدؑجلد 9 صفحہ 268-269 سیرت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانیؓ)
امۃ الحئی صاحبہ کے نکاح کے وقت گو کہ آپ کے والد موجود تھے مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے والد کی خواہش پر خود ان کے ولی بنے اور نکاح پڑھایا اور اپنے خطبہ میں فرمایا کہ سیٹھ صاحب کی چھوٹی لڑکی امۃ الحئی کے نکاح کا اعلان مَیں اس وقت کر رہا ہوں جو خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے قریبی عزیز اور شاید بھانجے محمد یونس صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے۔ اس رشتہ میں بھی سیٹھ صاحب نے اخلاص مدنظر رکھا ہے۔ تمدّن کے اختلاف کی وجہ سے میں ان کو لکھتا تھا کہ حیدرآباد میں رشتہ کریں مگر ان کی خواہش تھی کہ قادیان یا پنجاب میں رشتہ ہو تا قادیان آنے کے لئے ایک اور تحریک ان کے لئے پیدا ہو جائے۔ محمد یونس صاحب ضلع کرنال کے رہنے والے ہیں جو دہلی کے ساتھ لگتا ہے مگر حیدرآباد کی نسبت قادیان سے بہت نزدیک ہے۔ سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے۔ ان کی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات، ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ واحد والا معاملہ ہے۔ ہم ان سے اور وہ ہم سے بے تکلف ہیں اور ایک دوسرے کی شادی اور غمی کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی اور غمی ہو۔ ان کی لڑکی امۃ الحئی کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر محمد یونس صاحب ولد عبدالعزیز صاحب ساکن لاڈوا ضلع کرنال کے ساتھ قرار پایا۔ خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ سیٹھ صاحب نے لڑکی کی طرف سے مجھے ولی مقرر کیا ہے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود (خطباتِ نکاح) جلد 3 صفحہ553)
امۃ الحئی صاحبہ صوم و صلوٰۃ کی پابند، دعا گو، خلافت کی اطاعت گزار، بڑا اخلاص رکھنے والی تھیں۔ مجھے بھی ملنے آیا کرتی تھیں۔ باوجود بڑھاپے کے یہاں آتی تھیں اور بڑے اخلاص کا اظہار کرتی تھیں۔ بہت نیک اور صالحہ خاتون تھیں۔ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے اور کثیر تعداد میں پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ محمد ادریس صاحب حیدرآبادی (آف جرمنی) کی والدہ تھیں۔ ان کے ایک پوتے مصور صاحب یہاں بھی ہیں۔ خدام الاحمدیہ میں کام کرتے ہیں۔
اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی خلافت سے سچا اور حقیقی تعلق قائم رکھنے کی توفیق دے۔