میدانِ نعتِ رسول مقبولﷺ اور اس کے سر خیل۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (دوسری قسط )
نعت گوئی اور زبان فارسی
عرب شعراء کی طرح فارسی زبان میں بھی خاطر خواہ نعتیں اور قصائدکہے گئے۔ ان شعرا میں مولانا رومی، نظامی، حکیم سنائی، امیر خسرو،جامی، فیضی، سعدی شیرازی، عرفی،وغیرہ اور دیگر کئی شعرا اس میدان میں طبع آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔شعرا نے آپ ﷺ کے بے شمار اوصاف جمیلہ اور سیرت طیبہ کو اپنے کلام میں بیان کیا۔
اگر ہم فارسی نعت گو شعرا کا کلام دیکھیں تو بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ کہا گیا۔ شعراء نے جس پہلو سے حضرت رسول اللہ ﷺ کو (دل کی آنکھ سے) دیکھااس نے اسی طرح بیان کیا۔ یہاں اب کچھ مشہور و معروف شعراء کے اشعار دئیے جائیں گے اور آخر پر سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا فارسی منظوم کلام دیا جائے گا اور نتیجہ قاری پر چھوڑ دیا جائے کہ خود ہی فیصلہ کرے کہ کس کا کلام وحی الٰہی سے ممسوح ہے اور کس کے کلام میں آنحضرت ﷺ کا عشق بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور کس کے کلام میں متابعت محمدی چھلکتی ہو دکھائی دیتی ہے۔
سعدی شیرازی کی ایک نعت کے تین اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خدایا بحقِ بنی فاطمہ
کہ برِ قولِ ایماں کنی خاتمہ
اگر دعوتم رد کنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
ترجمہ: اے خدا حضرت فاطمہؓ کی اولاد کے طفیل میرا خاتمہ ایمان پر کر۔ خواہ میری دعا کو رد کر یا قبول کر، کیونکہ میں آلِ رسولﷺ کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔ سعدی ناچیز وحقیر آپ ﷺکا کیا وصف بیان کرے، اے نبی ﷺ آپ پر صلوۃ و سلام ہو۔
خواجہ قمر الدین سیالوی اپنے ایک کلام میں کہتے ہیں:
آں جملہ رسل ہادی برحق کہ گزشتند
برفضلِ تو اے ختم رسل دادہ گواہی
در خَلق و در خُلق توئی نیر اعظم
لاتُدرک اوصافک لم تُدر کَمَاہی
یا احسن یا اجمل یا اکمل اکرم
واللہ باخلاقک فی الملا یُباہی
تو باعث تکوین معاشی و معادی
اے عبد الہ ہست مسلم بتو شاہی
زآفاق پریدی و ز افلاک گزشتی
درجاتک فی السدرۃ غیر المتناہی
امید بکرمت کہ مکارم شیم تست
من کیستم و چیست معاصی و تباہی
آئس نیم از فضل تو اے روح خداوند
نظرے کہ رباید ز قمر رنج و سیاہی
http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/162)
ترجمہ:آج تک جتنے سچے رسول گزرے ہیں، اے خاتم المرسلین! سب نے آپ کی بزرگی کی گواہی دی ہے۔ صورت اور سیرت میں آپ آفتاب عالمتاب ہیں ۔ نہ آپ کے اوصاف کا احاطہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے۔اے سب سے زیادہ حسین ! سب سے زیادہ جمیل ، سب سے زیادہ کامل ، سب سے زیادہ سخی ! ملائکہ کی محفل میں اللہ تعالی آپ کے اخلاق پر فخر کرتا ہے۔یارسول اللہ! دنیا اور آخرت کی تکوین کا باعث آپ ہیں ۔ اے اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے کونین کی شاہی تجھے بخشی گئی ہے۔آپ نے آفاق سے پرواز کی اور آسمانوں سے بھی گزر گئے۔ آپ کے درجات مقامِ سدرہ سے بھی آگے نکل گئے۔میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کرم کا امیدوار ہوں اور کرم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ عادات میں سے ہے ۔ اس نوازش کے سامنے میری کیا حقیقت ہے،میرے گناہوں کی کیا حیثیت ہے۔ اے رحمت الہی ! میں تیرے فضل وکرم سے مایوس نہیں ۔ ایک ایسی نظر فرمائیے جو قمر سے رنج و سیاہی کو دور کردے۔
عرفیـؔ نے نعت بیان کرنے میں احتیاط کو موضوع بناتے ہوئے کہا:
عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحر است
آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قلم را
ہشدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن
نعت شہ کونین و مدیح کے وجم را
(http://www.nosokhan.com/Library /Topic/1F23)
ترجمہ: اے عرفی! تو اتنی تیزی نہ دکھا۔ یہ نعت کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ تو آنکھیں بند کرکے دوڑتا چلاجائے گا۔یہ راستہ تو بہت کٹھن ہے اور اس کی کیفیت تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔ تجھے تو ہوشیار رہنا چاہئے اور رسول اللہ ﷺ کی مدح گوئی اور کے وجم (بادشاہوں) کے قصیدے کہنے کو ایک ہی آہنگ و انداز نہیں رکھا جاسکتا۔
فارسی نعتوں میں بعض جگہ اس قسم کی چیزیں ملتی ہیں جو قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم سے ہٹی ہوئی ہیں۔ یا بعض جگہ نعت و منقبت کی کشمکش اور بعض دفعہ نعت سے زیادہ فرقہ پرستی و اپنے فرقے کے عقائد کا بیان زیادہ تر ملتا ہے۔ اس کے بر عکس سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں صرف اور صرف خالص نعت ملتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام کو اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم کے خطاب سے نوازا۔جہاں آپ سلطان القلم تھے وہیں آپ کا قلم، قلم السلطان تھا۔ آپ کے رشحات القلم سے وہ لٹریچر معرض وجود میں آیا کہ دنیا دنگ اور اس کی زبان گنگ ہو کے رہ گئی۔
آپؑ فرماتے ہیں:
’’ یاد رکھو ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو گی جس قسم کے ہتھیار وہ لے کر آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر چلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہےقلم۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 22 مؤرخہ 17 جون 1901صفحہ 2کالم نمبر 2)
آپؑ کی فارسی نظم و نثر بھی عربی نظم و نثر کی طرح عدیم المثال ہے۔ اس کے عدیم المثال ہونے کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان کی کہ
’’در کلام تُو چیزے است کہ شعرائ را دراں دخلے نیست۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ‘‘
ترجمہ: تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔‘‘
(تذکرہ، ایڈیشن ہفتم مارچ 2008، مطبوعہ قادیان ،صفحہ 508)
جیساکہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضورؑ کے کلام کا خاصہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے ہر کلام میں ہر نظم میں، ہر قصیدہ کے شروع میں یا تو حمد باری تعالیٰ ہے یا پھر آنحضرت صلوٰت اللہ علیہ والتسلیم کی بابرکت نعت ملتی ہے یا حضورؑجو بھی مضمون بیان فرما رہے ہوں اس کا رخ، رخِ فرخﷺ کی طرف کر دیتے ہیں۔
حضور علیہ السلام کا فارسی کلام تو اتنا فصیح و بلیغ ہے، اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے سامنے تمام شعرا اور ان کا کلام معمولی حیثیت کا حامل لگتا ہے، مثلاً ایک جگہ آپؑ رسول اللہ ﷺ سے اپنی لازوال محبت کا اظہار فرماتےہیں:۔
یانبی اللہ فدائےہرسرِموئے توام
وقفِ راہِ توکنم گر جاں دہندم صد ہزار
دل اگر خوں نیست از بہرت چہ چیزاست آندلے
و رنثارِتو نگردد جان کجا آید بکار
یانبی اللہ نثار روئے محبوب توام
وقفِ راہت کردہ ام این سرکہ بردوش ست بار
تا بمن نور رسولِ پاک را بنمودہ اند
عشق او در دل ہمی جوشد جو آب از آبشار
صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہِ ذقن
آن مسیح ناصری شد از دمِ او بےشمار
تاجدارہفت کشور آفتاب شرق و غرب
بادشاہِ ملک وملّت ملجاءِ ہر خاکسار
کامران آن دِل کہ زد در راہ او از صدق گام
نیک بخت آں سر کہ میدارد سرآں شہسوار
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد 5- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 26,27)
اےنبی اللہ! میں تیرے بال بال پر فدا ہوں اگر مجھے ایک لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں سب کو قربان کردوں-دل اگر تیری محبت میں خون نہیں تو وہ دل ہی نہیں اور جو جان تجھ پر قربان نہ ہو وہ جان کس کام کی-اےنبی اللہ میں تیرے پیارےمکھڑے پر نثار ہوں میں نے اس سر کو جو کندھوں پر بار ہے تیری راہ میں وقف کر دیا ہے-جب سے مجھے رسول پاک کا نور دکھایا گیا تب سے اس کاعشق میرے دل میں یوں جوش مارتا ہے جیسے آبشار میں سے پانی-میں اس (ﷺ) کے چاہ ذقن میں لاکھوں یوسف دیکھتا ہوں اور اس کے دم سے بےشمارمسیح ناصری پیدا ہوئے-وہ ہفت کشور کا شہنشاہ اور مشرق و مغرب کا آفتاب ہے دین و دنیا کا بادشاہ اور ہر خاکسار کی پناہ ہے-کامیاب ہو گیا وہ دل جو صدق و وفا کےستاھ اس کی راہ پر چلا خوش قسمت ہےوہ سر جو اس شہسوار سےتعلق رکھتاہے-
ایک اور جگہ آپ اپنی ایک نہائت خوبصورت فارسی نعت میں بیان فرماتے ہیں:
در دلم جوشد ثنائےسرورے
آں کہ درخوبی ندارد ہمسرے
آں کہ جانش عاشق یارِ ازل
آں کہ روحش واصل آں دلبرے
آں کہ مجذوب عنایات حق ست
ہمچو طفلےپروریدہ در برے
آں کہ در برّ و کرم بحرعظیم
آں کہ در لطف اتم یکتا دُرے
آں کہ در جود و سخا ابر بہار
آں کہ درفیض وعطا یک خاورے
آں رحیم و رحم حق را آیتے
آں کریم و جود حق را مظہرے
آں رخ فرخ کہ یک دیدار او
زشت رو را می کندخوش منظرے
آں دل روشن کہ روشن کردہ است
صد درون تیرہ را چوں اخترے
آں مبارک پےکہ آمد ذات او
رحمتے زاں ذات عالم پرورے
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد1۔براہینِ احمدیہ حصہ اول: صفحہ17تا 23)
ترجمہ:میرےدل میں اس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا-وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اس دلبر میں واصل ہے- وہ جو خدا کی مہربانیوں سےاس کی طرف کھینچا گیاہےاورخداکی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے- وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے-وہ جو بخشش اورسخاوت میں ابر بہار ہے اور فیض وعطا میں ایک سورج ہے- وہ رحیم ہےاوررحمت حق کانشان ہے وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کامظہرہے-اس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اس کا ایک ہی جلوہ بدصورت کوحسین بنا دیتاہے-وہ ایسا روشن ضمیرہےجس نےروشن کردیاسینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کیطرح، وہ ایسا مبارک قدم ہے کہ اس کی ذات خداتعالیٰ کی طرف سےرحمت بن کر آئی ہے-
اور اس عظیم الشان نعت کے آخر پر فرماتے ہیں:
اے خداوندم بنام مصطفیٰ
کش شدے درہر مقامے ناصرے
دست من گیر از رہ لطف و کرم
در مہمم باش یار و یاورے
تکیہ بر زورِ تو دارم گرچہ من
ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے
(بحوالہ بالا)
ترجمہ:اےمیرےخدا!مصطفیٰ کےنام پر جس کا تو ہر جگہ مددگار رہا ہے- اپنےلطف وکرم سےمیرا ہاتھ پکڑ اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا- میں تیری قوت پربھروسہ رکھتا ہوں اگرچہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سےبھی کمتر-
آپؑ نے اپنے فارسی کلام میں حضرت رسول کریم ﷺ کی بے نظیر صفات کا بیان بھی فرمایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
آں شہِ عالم کہ نامش مصطفی
سیدِ عشاق حق شمس الضحیٰ
آن کہ ہر نورےطفیل نور اوست
آن کہ منظور خدا منظور اوست
آن کہ بہر ز ندگی آبِ رواں
درمعارف ہمچو بحر بیکراں
آن کہ بر صدق و کمالش در جہاں
صد دلیل و حجتِ روشن عیاں
آن کہ انوارِ خدا بر روئے او
مظہر کارِ خدائے کوئے او
آن کہ جملہ انبیاء و راستاں
خادمانش ہمچو خاکِ آستاں
آن کہ مہرش میرساند تا سما
می کند چوں ماہِ تاباں در صفا
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ627 )
ترجمہ: وہ جہاں کا بادشاہ جس کا نام مصطفیٰ ہے جو عاشق حق کا سردار اورشمس الضحیٰ ہے- وہ وہ ہےکہ ہر نور اسی کے طفیل سے ہے اور وہ وہ ہےکہ جس کامنظور کردہ خدا کامنظور کردہ ہے- اس کا وجود زندگی کےلئےآب رواں ہے اور حقایق اور معارف کا ایک نا پیدا کنارسمندرہے- وہ کہ جس کی سچائی اور کمال پر دنیا میں سینکڑوں دلیلیں اور روشن براہین ظاہرہیں- وہ جس کے منہ پر خدائی انوار برستے ہیں اور جس کا کوچہ نشانات الہی کا مظہر ہے- وہ کہ تمام نبی اور راستباز خاک در کی طرح اسکےخادم ہیں- وہ کہ جس کی محبت آدمی کو آسمان تک پہنچاتی ہے اور صفائی چمکتےہوئےچاندکی طرح بنا دیتی ہے-
اب ایک ایسی نعت بیان کروں گا جو فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ ہے، جو اتنی خوبصورت ہے کہ معاندین نے اس کا سرقہ بھی کیا اور اپنی طرف سے شائع کی۔ ایک ماہنامہ رسالہ ’’ضیائے حرم‘‘ لاہور سے شائع ہوا کرتا تھا جس کے مدیر اعلیٰ پیر کرم علی شاہ صاحب جو کہ بھیرہ کی معروف گدی کے سجادہ نشین تھے نے اس رسالہ کے آخری صفحہ پر حضورؑ کی مندرجہ ذیل معرکۃ الآراء فارسی نعت دی ہے اور اس کے تحریر کرنے والے کا نام بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
(ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، جلد 2اپریل 1972، صفر 1392شمارہ 7 صفحہ 172)
وہ نعت یہ ہے:۔
جان ودلم فدائےجمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂآل محمدؐ است
دیدم بعین قلب وشنیدم بگوش ہوش
درہرمکاں ندائےجلال محمدؐ است
این چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرۂ ز بحر کمال محمدؐ است
این آتشم ز آتش مہر محمدؐ یست
وایں آب من ز آب زلال محمدؐ است
(درثمین فارسی، مطبوعہ رقیم پریس یو کے 1990,، صفحہ 89)
میری جان ودل محمد ﷺ کےجمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد ﷺ کےکوچےپرقربان ہے- میں نے دل کی انکھوں سے دیکھا اورعقل کےکانوں سےسنا- ہر جگہ محمد ﷺ کےجلال کا شہرہ ہے- معارف کا یہ دریائےرواں جومیں مخلوق خدا کودےرہاہوں یہ محمد ﷺ کےکمالات کےسمندرمیں سےایک قطرہ ہے- یہ میری آگ محمد ﷺ کےعشق کی آگ کا ایک حصہ ہےاورمیرا پانی محمد ﷺ کےمصفا پانی میں سےلیاہواہے-
اب جس نظم کا ذکر خاکسار کرے گا اس میں ایک شعر ہے جو (خاکسار کے محدود علمی بساط کے مطابق) جہاں علم تصوف کی جان ہے۔ وہیں کان خلقہ القرآن کی خوبصورت تفسیر ہے۔
فرماتے ہیں:
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمدؐ ہست برہان محمدؐ
ترجمہ:اگرتواس کی سچائی کی دلیل چاہتاہےتواسکاعاشق بن جا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی خود محمد کی دلیل ہے-
عجب نوریست درجان محمدؐ
عجب لعلیست در کان محمدؐ
ز ظلمتہا دلے آنگہ شود صاف
کہ گردد از محبّان محمدؐ
عجب دارم دل آن ناکسان را
کہ رو تابند از خوان محمدؐ
ندانم ہیچ نفسےدر دو عالم
کہ دارد شوکت و شان محمدؐ
خدا زاں سینہ بیزارست صدبار
کہ ہست از کینہ دارانِ محمدؐ
خداخود سوزد آں کرم دنی را
ہ باشد از عدوّانِ محمدؐ
اگر خواہی نجات ازمستی نفس
یا در ذیل مستانِ محمدؐ
اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت
بشو از دل ثناخوانِ محمدؐ
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمدؐ ہست برہان محمدؐ
سرے دارم فدائے خاک احمد
دلم ہر وقت قربان محمدؐ
دگر اُستاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد 5- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 649)
ترجمہ: محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نورہے،محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی کان میں ایک عجیب وغریب لعل ہے-دل اسوقت ظلمتوں سے پاک ہوتاہےجب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں میں داخل ہو جاتاہے-میں ان نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان سے منہ پھیرتےہیں-دونوں جہان میں میں کسی شخص کو نہیں جانتا- جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سی شان وشوکت رکھتا ہو-خدا اس شخص سے سخت بیزارہےجومحمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہو-خدا خود اس ذلیل کیڑےکوجلادیتا ہےجومحمدصلی اللہ علیہ وسلم کےدشمنوں میں سے ہو-اگر تونفس کی مستیوں سےنجات چاہتاہےتومحمدصلی اللہ علیہ وسلم کےمستانوں میں سےہوجا- اگرتوچاہتاہےکہ خدا تیری تعریف کرےتو تہ دل سےمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کا مدح خواں بن جا-اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتاہےتو اس کا عاشق بن جا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی خود محمد کی دلیل ہے-میرا سر احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پا پر نثارہےاور میرا دل ہر وقت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان رہتاہے-میں کسی اور استاد کا نام نہیں جانتا کیونکہ میں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانوئے تلمّذ طے کیا ہے۔
جیسا کہ چند مثالیں دے کر واضح کیا گیا ہے کہ فارسی نعت کے میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں کہ باقی تمام ادباء و شعراء کا مجموعی کلام نہ تو اس کے معیار و مرتبہ تک پہنچتا ہے اور نہ اس کی تعددّی کثرت و وسعت تک۔
بہر حال اگر سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے کلام کو آپؑ ہی کے ایک شعر میں سمو کر بیان کیا جائے تو وہ شعر شائد (خاکسار کے ناقص علم کے مطابق) یہ ہو گا۔
شان احمد راکہ داند جُز خداوندِکریم
آن چناں از خود جدا شد کز میاں افتادمیم
(درثمین فارسی، مطبوعہ رقیم پریس یو کے 1990,، صفحہ 101)
ترجمہ:احمد کی شان تو سوائے خدائے کریم کے اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ اپنی خودی سےاس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا-
(باقی آئندہ)