ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
تم نے ہر طرح گریہ و زاری کی کہ میرا رب مجھے گمراہوں کی طرح ہلاک کر دے مگر مجھے برکت پر برکت دی گئی اور تمہارے کلمات پر لعنت کی گئی اور تمہاری دعائیں تمہارے مونہوں پر ماری گئیں پس تم ذلیل و رسوا ہو گئے کیوںکہ تم اہانت کرتے تھے۔ مَیں اس لئے آیا ہوں تا لوگوں کو کثرت سے وحدت کی طرف اور مخالفت سے اتفاق کی طرف اور تفرقہ سے اتحاد کی طرف لے آؤں۔ اور اسی کے لئے اسباب پیدا کر دیئے گئے ہیں اور ان کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔
’’ اے لوگو! تم ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ۔ اللہ اس سلسلہ کو ہرگز نہ چھوڑے گا یہاں تک کہ اسے پورا کرلے اور آدم کے سانپ کو مارے بغیر ہر گز نہ چھوڑے گا۔ پس اگر تم طاقت رکھتے ہو تو اللہ کے ارادہ کو ٹال کے دکھائو۔ اے محرومو! کیا تم اللہ کی نعمت کو اس کے نازل ہو جانے کے بعد ردّ کرتے ہو جب کہ اللہ کا وعدہ صدق و سچائی سے پورا ہو چکا ہے۔ اے گھاٹا پانے والو! گمراہی نہ خریدو۔ کیا اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ پر جو نعمت کی ہے تم اس پر بخل کرتے ہو۔ کیا تم اپنی زبانوں، حیلوں اور مکروں سے اللہ کو عاجز کر سکتے ہو۔ پس اپنے سب مکراکٹھے کر لو اور ان لوگوں کو بلا لو جو فریب اور جھوٹ میں تم پر بھی سبقت لے گئے ہیں اور ہر راستے میں بیٹھ جاؤ اور مجھے مہلت نہ دو۔ تم ضرور دیکھو گے کہ اللہ تمہیں رُسوا کرے گا اور تمہارے مکر تم پر الٹا دے گا اور تم اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکو گے اور نہ تمہاری مدد کی جائے گی۔کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ایک انسان نے اپنی طرف سے یہ کام کر لیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ اللہ ہی ہے جو زمین کی اس کے بگاڑ کے بعد اصلاح کرتا ہے۔ کیا زمین فساد سے ناپاک نہیں ہو گئی تھی۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم دیکھتے نہیں۔یقیناً تم نے صحیح راستہ کو چھوڑ دیا ہے پس اللہ نے بھی تمہیں چھوڑ دیا اور تمہارے دلوں کا نور لے گیا ہے اور مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیا جاتا ہے۔ کیا تم تعجب کرتے ہو کہ آخری زمانہ میں تمہارے پاس تمہی میں سے ایک امام آگیا ہے تا کہ دونوں سلسلے ترازو کے دو پلڑوں کی طرح باہم مساوی ہو جائیں۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کس طرح تعجب کرسکتے ہو؟ اسی طرح ہوا تا کہ سورۃ التحریم،سورۃ النورسورۃ الفاتحہ اورسورۃ البقرۃ میں مذکور اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم غور و فکر نہیں کرتے۔ نشانات نازل ہو چکے ہیں اور حق کھل چکا ہے اور روشن دلائل ظاہر ہو چکے ہیں۔ پھر بھی تم اعراض کر رہے ہو۔ تم نے جو دلیل بھی طلب کی تمہیں اس کی فوج عطا کر دی گئی۔ پھر بھی تم باز نہیں آتے۔ کیا تم اپنی زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ اللہ کیسے اُسے اُس کے کناروں سے کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور گردنیں میرے اس قدم کے نیچے جھکی ہوئی ہیں اور ہر ایک راستہ سے لوگ میرے پاس اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اگر یہ معاملہ غیراللہ کی طرف سے ہوتا تو مَیں اپنے دعویٰ کے بعد تمہارے اندر تیس برس تک زندہ نہ رہتاجیسا کہ تم مشاہدہ کر رہے ہو اور جس طرح مفتری ہلاک کئے جاتے ہیں ضرور مَیں بھی ہلاک کر دیا جاتا ۔ کیا میں نے کوئی جھوٹ گھڑا ہے حالانکہ تم تو پہلے ہی انتظار کر رہے تھے۔ تم نے ہر طرح گریہ و زاری کی کہ میرا رب مجھے گمراہوں کی طرح ہلاک کر دے مگر مجھے برکت پر برکت دی گئی اور تمہارے کلمات پر لعنت کی گئی اور تمہاری دعائیں تمہارے مونہوں پر ماری گئیں۔ پس تم ذلیل و رسوا ہو گئے کیوںکہ تم اہانت کرتے تھے۔ اللہ میرا مشن پورا ہونے سے قبل مجھے ہلاک نہیں کرے گا۔ میرا اپنے رب کے ساتھ وہ رازہے جسے فرشتے بھی نہیں جانتے۔ پس اے جاہلو، حاسدو! تم مجھے کیسے پہچان سکتے ہو۔ اور اس کے حضور میرا مقام نہ ظاہری اعمال اور نہ اقوال اور نہ کسی علم و استدلال کی وجہ سے ہے بلکہ میرے دل میں موجود اس راز کی وجہ سے ہے جو اس کے نزدیک پہاڑوں سے بھی زیادہ وزنی ہے۔ یقیناً میرا بھید مرُدوں کو زندہ کرتا ہے اور ویران بنجر زمین میں روئیدگی اگاتا ہے اور نشانات دکھاتا ہے۔ پس کیا اہلِ دانش میں سے کوئی طلبگار ہے۔ اور کیا کوئی قوم متلاشی ہے۔ میں یقیناً اپنے رب کی طرف سے اسلام کے حق میں ایک نشان اور خدائے علّام کی طرف سے ایک حجت بنایا گیا ہوں۔ پس منکرین عنقریب جان لیں گے۔ جس دن وہ اس کے پاس آئیں گے اس دن وہ کیا خوب سننے والے اور کیا خوب دیکھنے والے ہوں گے! انہوںنے اس دنیا میں اندھوں کی طرح عمریں ختم کر دیں ۔اور انہیں یاد دہانی کرائی جاتی رہی لیکن وہ پرواہ نہیں کرتے۔ میں اس لئے آیا ہوں تا ربّ العزت کے حکم سے لوگوں کو وجود سے عدم کی طرف لے جاؤں اور قیامت سے پہلے قیامت دکھاؤں۔٭[حاشیہ۔ ہم نے بارہا یہ کہا ہے کہ وجود سے عدم کی طرف منتقلی تلوار اور تیر سے نہ ہوگی بلکہ جزا سزا کے مالک خدا کے حکم سے ہوگی۔ اللہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کی علامت ہے کہ تم کئی اطراف اور کئی علاقوں میں جنگوں کی خبریں اور کئی شہروں میں وبا پھیل جانے کی خبریں سنو گے۔پھر مسیح کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تقویٰ کے نقطہء کمال کی طرف کھینچ لائے گا اور یہ موت کی ہی ایک قسم ہے ۔منہ ] تم دیکھ رہے ہو کہ بیماریاں پھیل رہی ہیں اور جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور عنقریب لوگ اس موت کا مزہ چکھیں گے جوغیراللہ کی خواہشات کی موت ہے۔ مَیں اس لئے آیا ہوں تا لوگوں کو کثرت سے وحدت کی طرف اور مخالفت سے اتفاق کی طرف اور تفرقہ سے اتحاد کی طرف لے آؤں۔ اور اسی کے لئے اسباب پیدا کر دیئے گئے ہیں اور ان کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ کیا تم راستوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے واضح کر دیئے گئے ہیں اور دخانی جہازوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے چلائے گئے ہیں اور دس ماہ کی گابھن اونٹنیاںکیسے بیکار چھوڑ دی گئی ہیں اور خبروں پر نگاہ نہیں کرتے کہ انہیں پہنچانا کیسے آسان بنا دیا گیا ہے اور کس طرح تبادلہ خیالات ہو رہا ہے اور نفوس کو کیسے ملا دیا گیا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ لوگ ان جنگوں کی وجہ سے جن کی آگ بادشاہوں کے درمیان بھڑکائی گئی ہے اور طرح طرح کی وباؤں کی وجہ سے اس دنیا سے دارفانی کی طرف منتقل کئے جا رہے ہیں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 205تا209۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)