الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ براہ کرم ان منتخب مضامین سے استفادہ کی صورت میں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اس کالم کا حوالہ ضرور دیں۔
بابرکت دُوریاں جو خدا کی خاطر اختیار کی گئیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27 جون2012ء میں مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکر ٹری مجلس نصرت جہاں کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنے والد محترم کے بسلسلہ تبلیغ دیارغیر میں طویل قیام کے دوران پیش آنے والے چند واقعات اور مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم مولانا محمد منور صاحب (سابق امیر و مبلغ انچارج کینیا، تنزانیہ، فلسطین، نائیجیریا) کی وفات 18نومبر1995ء کو ربوہ میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ اُن کے بارہ میں لکھنا میرے لئے اس لئے مشکل ہے کہ ہم دونوں باپ بیٹے کی زندگی جدائیوں اور دُوریوں سے عبارت ہے۔ میری پیدائش سے چند ماہ پہلے ابّا جان بطور مبلغ اپریل 1948ء میں نیروبی (کینیا) چلے گئے تھے۔ جب وہ رخصت پر واپس آئے تو میری عمراُس وقت ساڑھے چار سال تھی۔ ابّا جان کی آمد پر میری دادی جان نے مجھے محلہ کے چند لڑکوں کے ساتھ کھڑا کر دیا اور ابّا جان سے کہا کہ اپنا بیٹا ان میں سے پہچان لو۔ ابّا جان نے مجھے پہچان لیا اور میرا ہاتھ پکڑکر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں مَیںنے پہلی دفعہ باپ کا محبت بھرا لمس محسوس کیا۔
کینیا سے واپس آنے کے جلد بعد ابّا جان کی دوسری شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور اُن کی خالہ زاد (اور چچازاد بھی) محترمہ امتیاز بیگم صاحبہ سے ان کی شادی ہو گئی۔ میری امّی جان بتایا کرتی تھیں کہ انہوں نے خو د اپنے ہاتھ سے میری دوسری والدہ کو دلہن بنا کر اس شادی کے لئے تیار کیا تھا۔
اس کے بعد جلد ہی ہم لوگ بذریعہ بحری جہاز کینیا چلے گئے ( یعنی ابا جان ، دو مائیں اور خاکسار)۔ پہلے نیروبی، پھر کسوموں اور پھر نیروبی ابا جان کی ڈیوٹی رہی۔ پھر آٹھ سال وہاں قیام کرنے کے بعد جولائی1960ء میں کراچی پہنچے۔ کینیا کا یہ جو آٹھ سال کا قیام تھا اس میں بھی ابا جان سے کم کم سامنا اور ملاقات ہوتی تھی۔ صبح سویرے مَیں سکول چلا جاتا تھا اور ابا جان مشن ہائوس چلے جاتے۔ صرف دوپہر کا کھانا کھانے کوئی ایک آدھ گھنٹے کے لئے آتے اور پھر واپس مشن ہائوس اور پھر رات نماز عشاء کے بعد گھر آتے۔ جب تک مَیں سو چکا ہوتا۔ اسی لئے ہم دونوں میں بے تکلّفی بلکہ ضروری قربت بھی نہ ہو سکی۔
1960ء میں رخصت گزارنے کے بعد اباجان اکیلے واپس نیروبی چلے گئے اور ہم دو مائیں اور دو بچے (خاکسار اور میری ہمشیرہ عزیزہ امتہ النور طاہرہ صاحبہ) ربوہ کے محلہ فیکٹری ایریا میں پانچ مرلہ کے ایک مکان میں رہنے لگے۔ اکیلے رہ کر جب ابّا جان کو میدان عمل میں کھانے اور دیکھ بھال وغیرہ کی مشکل ہوئی تو مرکز میں درخواست بھجوائی کہ فیملی بھی کینیا بھجوا دیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ارشاد فرمایا کہ بیوی ایک جائے گی، بچہ کوئی نہیں جائے گا۔ چنانچہ دفتر کے پوچھنے پر ابّاجان نے چھوٹی بیگم کو بھجوانے کی درخواست کی اور میں خود کراچی جاکر انہیں بذریعہ بحری جہاز الوداع کر کے آیا۔
محترم ابا جان اور دوسری والدہ کا میدان عمل سے آنا اور رخصت گزار کر واپس جانا سالہا سال جاری رہا۔ اسی دوران 1969ء میں میری شادی ہو گئی۔ شادی کے تین ماہ بعد میں نے بی اے کیا۔ 1971ء میں ایم اے کیا اور مجلس نصرت جہاں کے تحت اپنی خدمات پیش کردیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے احمدیہ سیکنڈری سکول، روکوپر (سیرالیون) کے لئے میرا تقرر فرمایا اور میں یکم نومبر 1975ء کو اکیلا سیرالیون پہنچ گیا۔ اکتوبر1978ء میں رخصت پر پاکستان آیا۔ اور پھر فیملی (اہلیہ اور تین بیٹیوں) کے ہمراہ واپس سیرالیون چلا گیا۔ راستہ میں ہم لوگ ابّاجان کے پاس تقریباً10دن نیروبی میں رُکے۔
بعدازاں جب بھی مَیں سیرالیون سے رخصت پر پاکستان آتا تو ابا جان کینیا میں ہوتے یا تنزانیہ میں اور جب وہ رخصت پر پاکستان آتے تو میں سیرالیون میں ہوتا۔ اس طرح آنا جانا لگا رہا۔ محترم ابا جان کی آخری تقرری بطور امیر و مبلغ انچارج نائیجیریا تھی اور وہاں سے آپ ایک وفد لے کر مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریب میں بھی شامل ہوئے۔ نائیجیریا میں آپ کا قیام 7 ماہ کے قریب تھا۔ پھر بیماری اور کمزوری صحت کے باعث حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شفقت سے مستقل پاکستا ن آگئے اور وفات تک ربوہ میں مقیم رہے۔ یہ1982ء کی بات ہے۔
میں جب 1981ء میں پاکستان رخصت گزار کر واپس سیرالیون گیا تو حالات کچھ ایسے بن گئے کہ مجھے مسلسل 9سال سیرالیون میں رہنا پڑا اور پھر رخصت پر 15؍اگست1990ء کو مع فیملی ربوہ پہنچا۔ جنوری 1979ء کے بچھڑے ہوئے ہم باپ بیٹا 15؍اگست 1990ء کو بارہ سال کی مسلسل جدائی کے بعد ربوہ میں ملے اور 1995ء میں اباجان اللہ کو پیارے ہو گئے۔
ہم کُل پانچ افراد خانہ تھے۔ ہم پر ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہم 5؍افراد خداتعالیٰ کے فضل سے چار ملکوں میں خدمت دین کے لئے بکھرے ہوئے تھے اور اپنی اپنی جگہ بہت خوش تھے۔ ابّا جان اور دوسری والدہ مشرقی افریقہ میں تھے۔ میری حقیقی والدہ ربوہ کا گھر سنبھالے ہوئے تھیں۔ بہن امۃالنور طاہرہ اہلیہ برادرم محترم عبدالرزاق بٹ صاحب مربی سلسلہ گھانا میں تھی اور خاکسار اپنی فیملی کے ساتھ سیرالیون میں تھا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی نے اداسیوں اور جدائیوں کا تذکرہ کرکے دوسروں کو پریشان کرنے کا نہیں سوچا۔ بلکہ ابّا جان نے تو مجھے لکھا کہ اِس وقت صحت ہے، خدمت کا موقع میسر ہے۔ کام میں لگے رہو، اگر ملنے آ بھی گئے تو جدائی کے سالوں کی گنتی پھر ایک دو سے شروع ہو جائے گی۔ اب اگر دس، گیارہ اور بارہ کی گنتی چل رہی ہے تو چلنے دو۔
ایک احسان خداتعالیٰ کا مجھ پر یہ ہوا کہ میرے 15سالہ قیام سیرالیون کے دوران اللہ تعالیٰ نے میرے والدین کو زندگی عطا کئے رکھی اور میرے سیرالیون سے واپس آنے کے بعد پہلے امی جان جون1992ء میں فوت ہوئیں اور پھر نومبر1995ء میں ابا جان نے رحلت فرمائی۔ جامع المتفرّقین نے آخر کار ہمیں باہم ملا دیا اور ملاقات کے آخری سال ہم نے ایک دوسرے کو جی بھر کر دیکھا اور اداسیاں دور کر لیں۔
…*…*…*…
مکرم چوہدری نعیم احمد گوندل شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 جولائی 2012ءکے مطابق مکرم چوہدری نعیم احمد گوندل صاحب آف کراچی کو 19 جولائی کو شہید کردیا گیا۔ آپ محترم چوہدری عبدالواحد صاحب اورنگی ٹاؤن ضلع کراچی کے بیٹے اور مکرم خورشید عالم صاحب مرحوم کے پوتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 21جولائی 2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور نماز کے بعد نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مرحوم کی تدفین ربوہ میں ہوئی۔
1914ء میں شہید مرحوم کی دادی نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور دادا نے پھر بعد میں بیعت کی۔ شہید مرحوم 13اپریل 1961ء کو چک 99شمالی سرگودھا میںپیدا ہوئے۔ آپ کُل چھ بھائی اور ایک بہن تھی۔ بہن آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ شہید مرحوم نے F.A. تک تعلیم سرگودہا سے حاصل کی۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے B.A. اور M.A. اکنامکس کیا۔ 1988ء میں سٹیٹ بینک میں سینئر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام شروع کیا اور کراچی منتقل ہوگئے۔ دورانِ ملازمت MBAبھی کرلیا۔1990ء میں آپ کی شادی مکرمہ فخرالنساء صاحبہ سے ہوئی۔
19 جولائی 2012ء کی صبح آپ حسب معمول دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلے۔ عموماً گھر کے سامنے ایک تنگ گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر جاتے تھے جہاں سے آپ کو بینک کی گاڑی آکر دفتر لے جایا کرتی تھی۔ جب گلی میں داخل ہوئے تو سامنے سے دو نوجوانوں نے آکر کنپٹی پر فائر کیا۔ گولی دائیں جانب سے لگی اور بائیں سے نکل گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔
شہید مرحوم گیارہ سال سے صدر حلقہ اورنگی ٹاؤن کی خدمت پر مامور تھے۔ اس سے قبل چار سال بطور قائد مجلس اورنگی ٹاؤن خدمت بجالائے اور اس سے قبل انہوں نے زعیم حلقہ، سیکرٹری وقفِ نو، مربی اطفال اور مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات سرانجام دیں۔ نہایت خوش اخلاق، ملنسار، حلیم الطبع تھے۔ اہلِ علاقہ بھی ان کے بارہ میں یہی رائے رکھتے تھے۔کچھ عرصہ سے اورنگی ٹاؤن کے حالات خراب تھے اور مخالفانہ وال چاکنگ وغیرہ کا سلسلہ جاری تھا لیکن ہمیشہ آپ بڑی بہادری سے ان سب چیزوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ آپ موصی بھی تھے۔ نماز باجماعت کے پابند اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے جسے سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ بعض غیراحمدی بھی تعزیت کے لئے آئے اور آپ کا ذکرخیر کیا۔
شہید مرحوم کئی سال سے جلسہ یُوکے پر بھی آرہے تھے اور جن کے گھر ٹھہرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ خود مہمان ہونے کے باوجود ہمارے گھر پر آنے والے جلسہ کے مہمانوں کے میزبان بن جایا کرتے تھے۔ بلکہ عاجزی یہاں تک تھی کہ جب اپنے بوٹ پالش کرنے لگے ہیں تو ساتھ مہمانوں کے بھی بوٹ پالش کر دیا کرتے تھے۔ ایک جلسہ پر جب بارشیں زیادہ تھیں تو گھر والوں نے کیچڑ سے لتھڑے ہوئے جو لمبے بُوٹ رات کو اُتارے تھے وہ شہید مرحوم نے صاف کرکے بڑے سلیقے سے اگلی صبح رکھے ہوئے تھے۔ انتہائی عاجز طبیعت تھی۔ آپ کی اولاد تو نہیں تھی لیکن اہلیہ کہتی ہیں کہ جس طرح آپ نے اُن کا خیال رکھا، اُنہیں یہ خیال آتا ہے کہ شاید اُن کے ماں باپ نے زندگی میں اتنا آرام اور پیار نہیں دیا جتنا اس شخص نے دیا۔
…*…*…*…
بوڈاپسٹ۔ ہنگری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14 جولائی 2012ءمیں دریائے ڈینیوب کے کنارے آباد دو شہروں کے حسین ملاپ ’بوڈاپسٹ‘ کا تعارف پیش کیا گیا ہے جو خوبصورتی میں یورپ کا دوسرا بڑا شہر قرار پاتا ہے۔
ہنگری کا دارالحکومت ’بوڈاپسٹ‘ دریا کے دونوں کناروں پر آباد دو شہروں بوڈاؔ اور پسٹؔ کے اتحاد سے وجود میں آیا۔ یہ اتحاد آسٹروہنگیرین شہنشاہ فرانزجوزف نے 1872ء میں کیا تھا۔ اس وقت بوڈاپسٹ کا رقبہ 525 مربع کلومیٹر ہے جبکہ آبادی 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن کی اکثریت سرمایہ کاری کی بدولت خوشحال ہے۔ بوڈاؔ سرسبز پہاڑیوں پر آباد ہے جبکہ پسٹؔ کا علاقہ ہموار میدان ہے۔ بوڈاپسٹ ایک صنعتی اور ثقافتی شہر ہونے کے علاوہ چونکہ کھلی بلیک مارکیٹ بھی ہے اس لئے بہت سے یورپی سرمایہ کار یہاں وسیع پیمانے پر نجی کاروبار کرتے ہیں۔
1980ء میں ہنگری مشرقی یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے کمیونسٹ بلاک سے علیحدگی اختیار کی اور کثیر جماعتی جمہوریت کی طرف سفر کا آغاز کیا۔
ایک پہاڑی کے دامن میں واقع بوڈاؔ کا قلعہ تیرھویں صدی کی ایک عظیم یادگار ہے اور شاہی محل سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے۔
1703ء کے بعد بوڈاؔ اور پسٹؔ کو آزاد شہروں کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ 1919ء میں یہاں اشتراکی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور 1920ء میں بوڈاپسٹ کو آزاد ہنگری کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944ء میں جرمن فوجوں نے اس پر قبضہ کرلیا لیکن صرف چار ماہ بعد ہی روسی فوجیں یہاں قابض ہوگئیں۔ پھر جنوری 1949ء میں یہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی لیکن صرف چند ماہ بعد اگست 1949ء میں کمیونسٹوں نے روسی فوج کی مدد سے اقتدار سنبھال لیا۔
…*…*…*…