اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج (پانچویں وآخری قسط )
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے 10؍ جون 1988ء کودیا گیا
اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج
مباہلہ کا سال مکمل ہونے پر احمدیت کے حق میں ظاہر ہونے والے عظیم الشان نشانوں کا ذکر
اس مباہلہ کے موضوع پر آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ سے بعض اقتباسات کا پیش کرنا نہایت موزوں اور مناسب ہو گا جو حضور رحمہ اللہ نے مباہلہ کے چیلنج پر ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے پر 9؍ جون 1989ء کو مسجد فضل لندن میں ارشاد فرمایا۔ حضور رحمہ اللہ نے اس خطبہ جمعہ میں مباہلہ کے سال میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے متعدد نہایت روشن اور درخشاں نشانات میں سے چند کا تذکرہ بھی فرمایا۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’آج سے ایک سال پہلے 10 ؍جون 1988ء کو جماعت احمدیہ عالمگیر کی نمائندگی میں جو مباہلے کا چیلنج میں نے دشمنان احمدیت کے سربراہوں اور مکفّرین اور مکذّین کے امراء کو دیا تھا اس پر آج ایک سال گزرتا ہے۔ اس دوران میں جو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانات ظاہر ہوئے ان میں سے چند کا تذکرہ آج میں کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنی ضروری سمجھتا ہوں۔
مباہلے کی تاریخ کا آغاز 10 ؍جون سے ہوتا ہے اور 9؍جون کو ایک سال یعنی آج وہ سال پورا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ مباہلے اس دوران پیدا ہوئے ہیں۔ چونکہ ایک سال کی مدت مَیں نے مکذّبین، مکفّرین کے امراء کو دے رکھی تھی اس لئے اس سال کے دوران ہی جب انہوں نے قبول کرنے کا اقرار کیا تو مَیں نے اسے تسلیم کر لیا اس لئے جہاں تک احمدیہ جماعت کی طرف سے اﷲ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چیلنج دینے کا تعلق ہے ہمارا یہ سال آج پورا ہو رہا ہے۔ جہاں تک دشمنان احمدیت کے اس چیلنج کو قبول کرنے کا تعلق ہے بعض نے عمومی طور پر اسی وقت قبول کیا اور اخبارات میں اس کا اظہار کیا لیکن ساتھ شرطیں ایسی لگائیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے فرار کی راہ کھلی تھی اور یہ کہنے کا موقع باقی تھا کہ ہم نے تو یہ کہا تھا کہ فلاں جگہ پہنچو تو مباہلہ ہو گا اور فلاں جگہ پہنچو تو نہیں ہوگا۔ اُن مباہلوں کو مَیں مباہلوں میں شمار نہیں کرتا۔ لیکن اس کے علاوہ جن لوگوں نے مثلاً انگلستان کے بعض علماء نے مشارکت زمانی کہہ کر یعنی یہ کہہ کر کہ اگرچہ ایک جگہ ہم اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن زمانے میں مشترک ہو سکتے ہیں اس لئے فلاں تاریخ کو آپ بھی دعائیں کریں، ہم بھی دعائیں کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہ مباہلہ ہو جائے گا۔ تو اس کو مَیں مباہلہ تسلیم کرتا ہوں ان معنوں میں کہ دونوں طرف سے برابر کا مباہلہ ہے اور دونوں کی طرف سے خوب وضاحت کے بعد اس ذمہ داری کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں ابھی چند دن پہلے ایک مباہلہ میری اجازت سے ہوا اور وہ بھی چونکہ اس سال کے اندر ہوا اس لئے اسے بھی بطور مباہلہ کے ہم تسلیم کر چکے ہیں۔
…اس دوران بعض انفرادی واقعات بھی ہوئے ہیں جن کا جماعت کی طرف سے اجتماعی مباہلے سے تعلق نہیں تھا لیکن اس مباہلے کے سائے میں اس سے جرأت اور حوصلہ پاکر بعض احمدیوں نے انفرادی طور پر بعض دوسرے غیر احمدی مخالفین کو انفرادی طور پر چیلنج دیا اور وہ انہوں نے قبول کیا۔ اس کی تاریخ بھی ہم باقاعدہ منضبط کر رہے ہیں، محفوظ کر رہے ہیں اور بہت سے ایسے نشانات ظاہر ہو چکے ہیں جو حیرت انگیز ہیں، کچھ اور انشاءاﷲ ہوں گے پھر اس بارے میں بھی میں علیحدہ بعد ازاں کسی وقت جماعت کو مطلع کروں گا۔
آج جو گفتگو کر رہا ہوں اس کا اس سال کے عمومی حالات سے تعلق ہے اور مباہلے کی دعا سے تعلق ہے۔ مباہلے کی دعا میں مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس عرصے میں کوئی احمدی نہیں مرے گا اور سارے دشمنان احمدیت مر جائیں گے۔ ایسی لغو بات میں کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ خدا کی تقدیر میں دخل دینے والی بات ہے اور مباہلے کے مضمون کو حد سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ سوائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ کسی دشمن کی موت کی معیّن خبر دے، مباہلے کو معیّن کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس لئے جیسے کہ میں آپ کے سامنے اب عبارت پڑھ کے سناؤں گا آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو دعا میں نے تجویز کی تھی اور جس کو ملحوظ رکھ کر دشمنوں نے مباہلے کو قبول کیا ہے وہ دعا یہ تھی:
’’اے قادر و توانا عالم الغیب والشہادۃ خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت، تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو اُبھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما، اس کی ساری مصیبتیں دور کر، اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے، اس کو برکت پر برکت دے اور اس کے معاشرہ سے ہر فساد اور ہر شر کو دور کر دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے مرد و عورت کو نیک چلنی اور پاکبازی عطا کر اور سچا تقویٰ نصیب فرما اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تاکہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو اُن کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی میں کھڑا ہے اور ان کے اعمال ، ان کی خصلتوں اور اُٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے ۔
اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلّت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کی نشانی بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے۔ اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی فریق کے مکر و فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہو، تاکہ سچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں جُدا جُدا کر کے دکھائی جائیں اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا بیج اپنے سینے میں رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ مُشتبہ نہ رہے اور ہر اہل بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے۔(آمین یا رب العالمین) ‘‘
(مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج صفحہ 14،15)
اس ضمن میں مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ دعا میں انسان کبھی کوئی کمی نہیں رکھتا اور دعا مانگتے ہوئے خدا تعالیٰ پر حدیں قائم نہیں کیا کرتا۔ اسی لئے جب میں یہ دعا تحریر کر رہا تھا تو باوجود اس کے کہ میرا ذہن بار بار اس طرف گیا کہ ایسی دعا مانگنا کہ ہر احمدی کے ساتھ یہ سلوک ہو، ہر احمدی بچہ ، بوڑھا، جوان نیک ہو جائے اور تمام مصیبتیں دور ہو جائیں یہ میں اپنے آپ کو باندھ رہا ہوں اور دشمن کو اعتراض کا موقع مہیا کر رہا ہوں اور خدا کی تقدیر کو بظاہر گویا مجبور کر رہا ہوں کہ وہ ہم سے ایسا سلوک کرے جو اس سے پہلے کبھی دنیا میں کسی سے سلوک نہیں ہوا۔ اس کے باوجود میں نے یہ عبارت تحریر کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے مجھ پر یہ بات روشن تھی کہ انبیاء نے دعاؤں میں کنجوسی نہیں کی اور کمی نہیں کی اور خدا نے قبولیت کے وقت اپنی قدرت کا نشان دکھایا ہے، اپنی مالکیت کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دیکھیں اور خصوصیت سے وہی دعا میرے پیش نظر تھی کہ اپنی اولاد کے لئے قیامت تک کے لئے یہ دعا کی کہ وہ سارے نیک اور پارسا ہوں کوئی بھی ان میں بد نہ نکلے اور پھر ان کو آئمہ بنا اور پھر ان کے ساتھ یہ سلوک فرما۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا لَا یَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمِیْنَ(البقرہ125) اے ابراہیم تو مجھے بہت پیارا سہی، ساری کائنات کا آج تو خلاصہ ہے اور یہ فقرہ میں نہیں کہہ رہا خدا تعالیٰ نے آپ کو اُمّت کہہ کر یہی بیان فرمایا کہ تو ایک ہوتے ہوئے اُمّت ہے۔ یعنی اس وقت ساری کائنات کا خلاصہ تُو ہے۔ پھر بھی میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔ چنانچہ اسی لئے میں جماعت کو اس سال کے دوران اس دعا کے باوجود یہ نصیحت کرتا رہا کہ ہوش سے قدم اٹھائیں۔ اگر اس سال میں انہوں نے اپنی برائیاں دور کرنے کی کوشش نہ کی اور بدیوں پر قائم رہے تو خدا کی تقدیر ان کو معاف نہیں کرے گی۔ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں، چونکہ مباہلے کی دعا سب پر حاوی دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ جو چاہیں کریں اُن سے کوئی باز پُرس نہیں کی جائے گی۔ یہ وجہ تھی جو میں نے دعا میں بظاہر اپنے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کیونکہ میرا توکّل خدا پر تھا اور دعا خدا سے مانگ رہا تھا اور سنت انبیاء مجھے یہی دکھا رہی تھی کہ دُعا میں کامل ہو جاؤ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کا فضل جتنا بھی نازل ہو اس کو خوشی سے قبول کرو اور تسلیم ورضا کے ساتھ اس پر راضی ہو جاؤ۔ پس یہ ہے اس کا پس منظر۔ لیکن جہاں تک حالات کے فرق ہو نے کا تعلق ہے۔ حالات کے جدا جدا ہونے کا تعلق ہے یا جدا جدا کر دکھانے کا تعلق ہے ، یہ ایسا مضمون ہے جس میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رکھا کرتا اور کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا۔
جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اتنی حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اتنی برکتیں نازل ہوئی ہیں اس دور میں کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں احمدیوں کو نمایاں طور پر یہ احساس نہیں ہوا کہ ہاں ہم ایک نئے وجود کے طور پر اُبھر رہے ہیں اور جہاں غیروں نے ان کے ساتھ پہلے سے بہت بڑھ کر محبت اور تعظیم کا سلوک نہیں کیا۔ اور وہ ممالک جہاں ان کو پوچھتا بھی کوئی نہیں تھا، وہاں بڑے بڑے لوگوں کی ، اخبارات کی، ٹیلی ویژنزکی، ریڈیوز کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی اور حالات پلٹ گئے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے مشرقی افریقہ سے ایک دوست تشریف لائے جو آج خطبے میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں قریشی عبدالمنان صاحب وہ اخبارات کے تراشے لائے اور کچھ اصل اخبارات لائے اور مجھے بتایا کہ ہمارے آنے سے قبل یعنی اسی سال جو اس ملک کے حالات تھے ، جو احمدیوں کی وہاں عزت تھی یا احمدیوں سے تعارف تھا لوگوں کو کہتے ہیں اس کا حال آپ نے خود دیکھ لیا تھا۔ ایک مجلس میں جب ایک بہت ہی معزز اور معروف جج نے، منصف نے آپ کو یہ کہا کہ میں نے تو پہلے احمدیت کا کوئی ذکر نہیں سنا اور آج یہ حال ہے کہ ملک کا بچہ بچہ احمدیت کو جانتا ہے۔ اخبارات میں تشہیر ہوئی اور ایسی زبردست، اتنی خوبصورت۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصاویر، خلفاء کی تصاویر نہایت ہی عمدہ رنگ میں دے کر اور بہت بڑے بڑے پوسٹرز کی صورت میں اخبارات میں احمدیت کے متعلق یہ اعلانات شائع ہوئے اور پھر ریڈیو نے بھی وہ باتیں سنائیں دنیا کو اور ٹیلی ویژن نے بھی بلکہ پورا پیغام جو میں نے دیا تھا وہ بھی پڑھ کے سنایا۔ تو یہ عجیب اﷲ کی شان ہے کہ مباہلے کا سال وہی مقرر فرمایا جو جماعت احمدیہ کا نئی صدی میں داخل ہونے کا سال تھا اور اس کے نتیجے میں محض تمام دنیا میں حیرت انگیز تائید کے کرشمے ہی نہیں دکھائے بلکہ اس کے نتیجے میں احمدیوں کو خاص طور پر اپنی حالت سُدھارنے کی طرف متوجہ فرما دیا۔ کیونکہ یہ احساس صدی کے اختتام کے ساتھ ساتھ احمدیوں میں بڑھتا چلا گیا کہ ہم نے اگلی صدی میں اپنی پہلی برائیوں کے ساتھ داخل نہیں ہونا اور احمدی بڑوں نے بھی اور بچوں نے بھی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ مجھے مسلسل دعا کے بھی خط لکھتے رہے کہ ہم نے فیصلے کئے ہیں جو بعض برائیاں ہیں ان کو لے کر ہم نے اگلی صدی میں سانس نہیں لینا۔ بعض ایسی برائیاں ہیں جو ہم پر قابض ہو چکی ہیں ، ہماری زندگی کا ساتھ تھیں ان کو جدا کرنا آسان کام نہیں اس لئے ہم بھی دعا کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں ، آپ بھی دعائیں کریں۔مجھے بار بار اس سے یہ محسوس ہوتا رہا کہ یہ عجیب اﷲ کی شان ہے کہ اس نے مباہلے کی دعا ایسے سال میں کروائی جب کہ تمام حالات کا رُخ احمدیوں کی اصلاح کی جانب تھا اور وہ اس مباہلے کی کامیابی میں ممد ثابت ہوئے۔
… پس آج ہم بالعموم تمام دنیا کی جماعتوں کی نمائندگی میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ مباہلے کے اس سال میں جماعت احمدیہ کے اکثر افراد کو اس توجہ اور غیر معمولی انہماک کے ساتھ اپنی برائیاں چھوڑنے اور نیکیاں اختیار کرنے کی توفیق ملی ہے کہ اس سے پہلے شاذ کے طور پر بھی کبھی ایسا واقعہ ہوا ہو۔
مختلف وقتوں میں خلفاء کی تحریک پر جماعتیں اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہیں مگر ایک عالمگیر حیثیت سے کہ تمام دنیا میں ہر ملک میں ، ایک سو بیس ممالک میں یہ توجہ بڑی نمایاں شان کے ساتھ بیدار ہوئی ہو اور اس کا گہرا اثر دور دور تک مردوں ، عورتوں اور بچوں پر پڑا ہو۔ یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور خدا کی غیر معمولی توفیق کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں نے کئی دفعہ ان علماء کو چیلنج کیا ہے کہ بھئی! اگر تم نیکی کے علمبردار ہو اور واقعی اسلام سے محبت رکھتے ہو تو ایک شہر کو چن لو پاکستان میں، چنیوٹ لے لو، فیصل آباد لے لو اور ساری قوتیں وہاں مجتمع کر لو اور وہاں سے برائیاں دور کرنے کی کوشش کرو۔ یہ مقابلہ ہے، یہ مسابقت کی روح ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ پھر دیکھو کہ خدا تمہیں توفیق عطا فرماتا ہے یا ہمیں توفیق عطا فرماتا ہے۔ کہاں یہ کہ ساری دنیامیں ایک سو بیس ممالک میں پھیلی ہوئی ہزار ہا بلکہ لاکھوں بستیوں میں پھیلی ہوئی جماعت کو خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ ہر جگہ خدا اصلاح کے کرشمے دکھائے، اصلاح کے معجزے دکھائے۔
پس خدا کا یہ بہت عظیم الشان احسان ہے مگر میں جماعت احمدیہ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اصل معجزہ اصلاح کا معجزہ ہی ہوا کرتا ہے۔ مَیں دوسری قسم کے معجزے کا بھی ذکر کروں گا لیکن آپ یا د رکھیں کہ سب سے بڑا معجزہ دنیا میں صداقت کے ثبوت کے لئے اصلاح کا معجزہ ہوا کرتا ہے۔ باقی ساری باتیں آنے جانے والی ہیں، باقی ساری باتیں وقت کے تماشے ہیں یا ایک وقت میں ایمان افروز باتیں ہی ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک وقتی ہے، ایک عارضی حیثیت ہے۔ وہ آتی ہیں دل پر نیک اثر چھوڑ کر چلی جایا کرتی ہیں۔ لیکن نیکیوں کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیشہ اَلْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ (الکہف47)کے طور پر پیش فرماتا ہے۔ جو نیکیاں آپ نے اختیار کر لیں وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نہ صرف آپ کے وجود کو سنوارگئیں بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہونی شروع ہو جائیں گی اور اگر نسلاً بعد نسلٍ کسی قوم کو نیکیاں اختیار کرنے کی توفیق ملے تو وہ عادتوں کا حصہ بن جایا کرتی ہیں اور پھر وہی ہیں جو Genetic Symbols میں منتقل ہو جاتی ہیں اور خدا نے جو نظام وراثت کا قانون بدن کے اندر جاری فرمایا ہے اس نظامِ وراثت کا حصہ بن جایا کرتی ہیں۔
اس لئے اس سال کی نیکیوں کو اس سال کے آخر پر بھُلانا نیکی نہیں ہے بلکہ سارے ماحصل کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ آپ یہ کوشش کریں کہ ان نیکیوں کو جن کو آپ نے اختیار کیا ہے نہ صرف ان کو صبر کے ساتھ پکڑ کر بیٹھیں اور ہر گز ضائع نہ ہونے دیں بلکہ ان نیکیوں کا ایک اور فائدہ اٹھائیں کیونکہ کہا جاتا ہے اور تجربہ یہی ہے اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیکیاں دوسری نیکیوں کو پیدا بھی کرتی ہیں۔ …آپ کے خون میں نیکیاں آجانی چاہئیں۔ وہ نیکیاں جو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے خاندانوں کا حصہ اور طرّۂ امتیاز بن جائیں۔ وہ احمدیت کا نشان بن جائیں اور امتیازی شان احمدیت ان نیکیوں کے ذریعے دنیا میں ظاہر ہونے لگے۔ یہی میری دعاتھی، اس دعا کو خدا نے بڑی شان کے ساتھ، بڑے وسیع پیمانے پر قبول فرمایا ہے۔ لیکن ابھی بہت سفر باقی ہے اور ابھی بہت سی کمزوریاں ایسی ہیں جنہیں ہمیں گرانا ہے اپنے وجود سے اور بہت سی نیکیاں ہیں جنہیں داخل کرنا ہے اور سینے کے ساتھ لگانا ہے اس لئے میں جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مباہلے کے سال کی برکتوں کو دائمی کرنے کی کوشش کریں۔
اس عرصے میں خصوصاً ان علاقوں میں جو ہماری مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں اور ان علماء کے دائروں میں جہاں احمدیت پر بے حد گند اچھالے گئے، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب میں ہر حد اعتدال سے تجاوز کیا گیا اور انتہائی بے باکی سے آپ پر ناپاک حملے کئے گئے۔اتنی بدیاں پھیلی ہیں اس عرصے میں، اتنی بد امنی ہوئی ہے، اتنے فساد بڑھے ہیں، اس طرح گھر گھر کا، گلی گلی کا امن اُٹھ گیا ہے کہ جو پاکستان جاتا ہے وہ اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہتا اور خوفزدہ ہو کر واپس آتا ہے۔ بعض لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ جس پاکستان کو آپ چھوڑ کر آئے تھے اس کا خیال بھول جائیں۔ اب ایک اور جگہ ہے وہاں۔ جہاں درندگی ہے ، جہاں وحشت ہے، جہاں خود غرضی ہے، جہاں مستقبل پر اعتماد اُٹھ چکا ہے اور اخبارات میں ایسے روز مرہ واقعات چھپتے رہتے ہیں جن کو پڑھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ وہ ملک جو ساری دنیا میں اپنے اسلام کا ڈنکا بجا رہا ہےاور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہم اسلام کے مجاہد ہیں ، ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں وہاں اس قسم کی بدیاں اس کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہوں۔ڈرگز ہیں تو وہ ہاتھ سے بے قابو ہوتی جارہی ہیں اور دوسری بدیاں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ خبر بھی شائع ہوئی اخبارات میں جس کی کوئی تردید شائع نہیں ہوئی کہ ستائیسویں رات رمضان المبارک کو انڈین ایمبیسی کی دعوت پر بہت سے پاکستانی عمائدین تشریف لے گئے اور ساری رات شراب پیتے گزاری۔ یہاں تک کہ بعض کو جس طرح لاشوں کو اُٹھا کر ڈھیریوں کے طور پر منتقل کیا جاتا ہے اس طرح اٹھا اٹھا کر ان کی ڈھیریاں موٹروں میں ڈالی گئیں ۔ ان میں یہ بھی طاقت نہیں تھی کہ وہ خود ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ ہی اپنی موٹر تک پہنچ سکیں۔ لیکن صرف یہی نہیں بے انتہا دردناک حالات ہیں۔ ان کی تفصیل میں بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ دکھ کی باتیں ہیں اور اس ضمن میں مَیں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جو دعا تھی اس میں فرق ظاہر کرنے کے لئے مجبوراً یہ بددعا بھی دینی پڑی۔ مگر خدا گواہ ہے کہ ہمیں اس میں کوئی خوشی نہیں ہے۔ صرف ایک تفریق کی خاطر ، ایک امتیاز کی خاطر، دشمن کے دکھوں سے تنگ آکر بعض دفعہ انسان ایسی بات کر دیتا ہے۔ جب میں نے دوبارہ اس کو پڑھا تو ہمیشہ مجھے تکلیف ہوئی اور بعض دفعہ میں نے کہا کاش یہ میں نے نہ کہا ہوتا، صرف یک طرفہ بات ہی کہہ دیتا۔ اس لئے اس پر آپ خوش نہ ہوں ورنہ یہ خوشی آپ کے دلوں کو زنگ لگائے گی۔ اُمّت مصطفی ﷺ میں برائیاں کسی رنگ میں بھی بڑھیں وہ ہمارے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئیں، ہمارےلئے تکلیف کا موجب ہونی چاہئیں۔ اس کے ذمہ دار یہ علماء ہوں یا دیگر محرکات یا واقعات ہوں لیکن ایک سچے اسلام سے محبت کرنے والے کے لئے اس میں خوشی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ ہاں استغفار کا مقام ہے۔ پس جہاں تک خدا کی تقدیر کا تعلق ہے اس نے بڑے وسیع پیمانے پر اس معاملے کو کھول کر رکھ دیا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ بعض انفرادی نشانات بھی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ ایسے نشانات ہیں جن کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ بعض لوگ ان وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے نشانات کے مطالعہ کی بصیرت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں یہ توفیق نہیں ہوتی ، نگاہیں محدود ہوتی ہیں۔یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس عالمی حیثیت سے ان نشانات کا مطالعہ کریں اور موازنہ کریں اور اس طرح صداقت اور جھوٹ میں تفریق کر کے دیکھ سکیں۔ پس ان کے لئے پھر خدا تعالیٰ بعض نشانات کی انفرادی چوٹیاں قائم کرتا ہے۔ ایسے لوگ جن پر ان کی نظر ہوتی ہے ان کے ساتھ خاص سلوک کرتاہے اور وہ سلوک دیکھ کر پھر بعض دفعہ وہ عبرت کا نشان بنتے ہیں، بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جاتے ہیں کہ اس طرح خدا تعالیٰ کی برکتیں عطاکی جاتی ہیں۔
ضیاء الحق کی ہلاکت
اس پہلو سے سب سے زیادہ اہم ذکر ضیاء الحق صاحب سابق صدر پاکستان اور سابق ڈکٹیٹر پاکستان کا ہے۔ اس کی تفاصیل میں اب دوبارہ جانا مناسب نہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ مباہلے کا چیلنج جو دراصل جس کا آغاز رمضان مبارک 1988ء مئی میں ہوا تھا غالباً 14؍ مئی یا 17؍مئی کو یہ پہلی دفعہ درس میں مَیں نے اس کا ذکر کیا تھا۔ لیکن چیلنج باقاعدہ 10؍جون کے خطبے میں یعنی بروز جمعہ دیا گیا۔ اس کے بعد بار بار مرحوم صدر کو یہ توجہ دلائی جاتی رہی کہ آپ اگر چیلنج قبول کرنے میں سبکی محسوس کرتے ہیں، کسی قسم کی خفّت محسوس کرتے ہیں اس خیال سے کہ آپ بہت بڑے آدمی ہیں اور میں بالکل بے حیثیت اور چھوٹا انسان ہوں یا جماعت کی آپ کی نظر میں کوئی بھی قدر و قیمت نہیں ہے تو کم سے کم ظلم سے باز آجائیں ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میری دعا یہ ہے کہ خدا کی نظر میں یہ مباہلہ قبول سمجھا جائے۔ یعنی خدا کی نظر میں آپ کی حیثیت مباہلہ قبول کرنے والے کی شمار ہو اور پھر خدا کا عذاب آپ پر نازل ہو۔ اس لئے میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں۔ ہاں اگر آپ ان چیزوں سے باز آجائیں تو آپ کا پیغام ہمیں یہی ہو گا کہ ہاں میں مباہلہ قبول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتایعنی مباہلہ قبول کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے میں اپنے ظلموں سے توبہ کر رہا ہوں۔ ایسی صورت میں ہم یہ دعا کریں گے کہ اﷲ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے، آپ کو مزید ہدایت عطا کرے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس نصیحت پر عمل نہیں کیا بلکہ مخالفانہ عمل کیا اور شرارت میں بڑھنا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ مرنے سے چند دن پہلے ایک مبہم سا ذکر بھی کیا کہ میں عنقریب ایک خوشخبری اور سناؤں گا۔ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ کیا خباثت پنپ رہی تھی جس کو پایۂ تکمیل پر پہنچنے سے پہلے ہی خدا نے نوچ کر پھینک دیا۔ مگر بہرحال وہاں سے جو اطلاعات مل رہی تھیں اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ جو انہوں نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے علماء کی کانفرنس بلائی تھی جس میں یہ وعدہ کیا تھا خوشخبری کا اس میں کچھ احمدیوں کے خلاف سازشیں ہوئی تھیں اور انہیں پھر مزید قوانین کی صورت میںڈھال کر احمدیوں کا عرصہ حیات مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یعنی گیارہ اور بارہ کی درمیانی رات۔ میں نے اس سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس خطبے میں مَیں یہ ذکر کروں گا کہ ضیاء الحق صاحب نے عملاً یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مباہلے کو تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں، حقارت سے دیکھ رہے ہیں اور چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مخالفانہ کوششوں میں بڑھ رہے ہیں اس لئے اﷲ تعالیٰ ان کو لازماً بد انجام تک پہنچائے گا۔ لیکن اسی رات یہ عجیب رؤیا میں نے دیکھی کہ وہ تفصیل آپ جانتے ہیں، صرف خلاصہ اس کا یہ ہے کہ خدا کے غضب کی چکی جس طرح پہلے دشمنوں کو پیستی رہی ہے اس طرح لازماً اب بھی چلے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اس قانون کو روک نہیں سکتی۔ جو دشمنوں کے ساتھ خدا کے سلوک کی تاریخ آپ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں وہ آج بھی دہرائی جائے گی۔ چنانچہ اس رؤیا سے جرأت پاتے ہوئے اور یقینی طور پر اس کی یہی تعبیر سمجھتے ہوئے کہ چونکہ ضیاء صاحب میرے ذہن میں تھے اور خطبے کا موضوع بننے والے تھے اس لئے ان کے متعلق ہی ہے۔ مَیں نے کھل کر آپ کے سامنے ذکر کیا کہ اب خدا کی تقدیر سے یہ شخص بچ نہیں سکتا اور لازماً وہ جاری ہو گی۔ چنانچہ دیکھئے کہ اﷲ تعالیٰ نے حیرت انگیز یہ نشان دکھایا ۔ 12؍اگست کا یہ خطبہ ہے اور سترہ تاریخ کو وہ ایک دھماکے کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔
بعد ازاں مَیں نے پرانے احمدیوں کی بھیجی ہوئی رؤیا کے رجسٹر کامطالعہ کیا اور وہ مضمون بہت ہی دلچسپ ہے وہ انشاء اﷲ بعد میں کسی وقت یا بیان کروں گا یا وہ شائع کر دیا جائے گا۔ حیرت انگیز طور پر اﷲ تعالیٰ نے احمدیوں کو اسی انجام کے متعلق پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ ایک خاتون نے لکھا کہ میں نے دیکھا کہ ضیاء صاحب آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں اور ایک غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ اب ایک آدمی کے عام تصور میں یہ بات نہیں آتی کہ آسمان کی طرف اٹھے اور غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جائے اور بالکل ایسا ہی واقعہ ہوا ہے۔ ایک شخص نے رؤیا میں دیکھا کہ شیخ مبارک احمد صاحب امریکہ والے جو آج کل امریکہ میں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ضیاء کا جہاز ہوا میں تباہ ہو جائے گا اور یہ ساری رؤیاء پہلے لکھ کر انہوں نے بھیجی ہوئی ہیں۔ ایک شخص نے لکھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے واضح طور پر خبر دی ہے کہ 1988ء کا سال ضیاء کے انجام کا سال ہے۔ پس اور بھی اب میں مطالعہ کروا رہا ہوں رجسٹروں کا۔ ان کی تاریخیں، خط کس تاریخ کو ملے، کون کون صاحب ہیں… جماعت کے ازدیاد ایمان کے لئے اور دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنانے کی خاطر انشاء اﷲ ان چیزوں کو شائع کر دیا جائے گا۔
اب میں ایک ایسے شخص کا ذکر کرتا ہوں جس کے انجام کی جماعت احمدیہ انگلستان گواہ ہے اور یہ بھی ایسا انجام ہے جو اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا گہرا مباہلے سے تعلق ہے۔ ضمناً میں آپ کو یہ بتا دوں کہ دنیا میں لوگ مرتے ہی رہتے ہیں، احمدی بھی فوت ہوئے اس عرصے میں، غیراحمدی بھی کثرت کے ساتھ فوت ہوئے۔ سینکڑوں احمدی ہوئے تو لکھوکھہا غیر احمدی بھی فوت ہوئے۔ نہ کبھی میں نے سوچا نہ آپ کو سوچنا چاہئے کہ مباہلے کے نتیجے میں لوگ مر رہے ہیں۔ اس معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر جتنا نشان دکھائے اُسی کو قبول کرنا چاہئے اور اپنی طرف سے نشان بنا بنا کر خدا کی طرف منسوب نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ ایک بہت ہی جاہلانہ طریق ہے کہ ہم سوچ سوچ کے آپ ہی خدا نے نشان نہیں دیئے ہم بنا لیتے ہیں۔ جس طرح مولویوں نے کیا کہ خدا نے ان کو نہیں مارا، ہم مارتے ہیں۔ اس کو تو ہم ایک جہالت کے طور پر ردّ کرتے ہیں۔ نہایت ہی بیوقوفوں والا طریق ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ اتنی بات کریں جس کے متعلق آپ کامل یقین کے ساتھ شواہد پر قائم ہوتے ہوئے دنیا کو بتا سکیں ، خود یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے۔ پس ان میں سے ایک میں نے چنا ہے۔
مولوی محمود احمد میرپوری کی وفات
… ایک مولوی محمود احمد صاحب میر پوری یہاں ہوا کرتے تھے۔ سیکرٹری جنرل اسلامک شریعت کونسل برطانیہ ، ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ، ایڈیٹر صراط مستقیم برمنگھم برطانیہ۔ مباہلے کے کچھ عرصہ بعدانہوں نے یہ اعلان شائع کیا کہ مباہلہ تو یونہی فضول بات ہے لوگ مر بھی جاتے ہیں خوامخواہ پھر احمدیوں کو عادت پڑتی ہے بتانے کی کہ یہ اس کی وجہ سے مر گیا۔ ضیاء بھی اسی طرح اتفاقاً مرا ہے اور دیکھ لو احمدیوں نے کیا کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے یہ لغو بات ہے۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ مباہلہ کے چیلنج دینا تو صرف نبیوں کا کام ہے اور مرزا طاہر احمد کا دعویٰ ہی نہیں نبوت کا اس لئے اس کو کیا حق ہے مباہلے کا چیلنج دینے کا۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا جو بظاہر حیرت انگیز تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی ہے کہ ایک ایسا حادثہ ہوا جس کے متعلق سب کو تعجب ہے کہ حادثہ ہونا چاہئے ہی نہیں تھا۔ اس کی تفاصیل اخبارات میں بڑی دردناک چھپی اور جب ان کی لاش گھر لائی گئی اور ان کے ساتھ ان کے عزیزوں کی ساس کی اور بچے وغیرہ کی تو جس جگہ وہ لاش رکھی گئی تھی وہ صحن ہی گر کر نیچے گر پڑا اور اس کے نتیجے میں پھر کثرت سے لوگ زخمی ہوئے، واویلا پڑ گیا ، کہرام مچ گیا۔ تو یہ واقعہ ایسا تھا جس سے مجھے خیال ہوا کہ اس کی تحقیق کروانی چاہئے کہ اگر ایک شخص مباہلے کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے تو اس کے اوپر خدا تعالیٰ کیوں ایسا ایک دم غضبناک ہوا۔ اس کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہئے، اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔ چنانچہ جب میں نے تحقیق کی تو ایک حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی کہ انہی مولوی صاحب نے 7؍مارچ 1985ء کو مجھے چیلنج دیا تھا اور وہ چیلنج چھپا ہوا روزنامہ جنگ میں موجود ہے۔ وہی شخص جو کہتا ہے کہ نبوت کے دعویٰ کے سوا کوئی چیلنج دے ہی نہیں سکتا، وہی شخص جو کہتا ہے کہ یہ بہانہ خوریاں ہیں اور یہ کوئی نشان نہیں وہ اس سے پہلے مجھے چیلنج دے چکا تھا۔ پس جب میں نے وہ چیلنج دیا معاً دونوں فریق میں مقبولیت ہو گئی اس کی۔ کیونکہ وہ پہلے ہی چیلنج دے چکا تھا اس میں ذکر کرتا ہے کہ جب وہ قبول کرے گا اسی وقت مباہلہ ہو جائے گا۔ پس یہ وجہ تھی، خدا کی تقدیر یونہی بے وجہ کوئی کام نہیں کیا کرتی۔ اب میں اس پس منظر میں ان کا یہ چیلنج پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح خدا کی تقدیر باریک نظر سے فیصلے فرماتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں:’’میں مرزا طاہر احمد کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں کہ مرزا غلام احمد سچا نبی تھا یا جھوٹا۔ ہمارا دعویٰ اور ایمان ہے کہ سروردوعالم ﷺ آخری نبی ہیں اُن کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا اور کذاب ہو گا۔ وہ حضرات جو بیچارے کسی لالچ و طمع کی بناء پر قادیانیت قبول کر لیتے ہیں انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے مرزا صاحب سامنے آجائیں تاکہ ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے۔ ‘‘
یہ 7؍مارچ 1985ء کو ان کا چیلنج شائع ہوا ہوا تھا اور قطعاً میرے علم میں نہیں تھا۔ لیکن جب میں نے تحقیق کروائی، اس وجہ سے کروائی کہ یہ جس قسم کے واقعات ہیں یہ کوئی اتفاقی حادثات نظر ہی نہیں آتے۔ صاف پتہ چل رہا ہے کہ مباہلے کا کوئی اثر ہے۔ تب پتہ چلا کہ وہ اس بدبختی کی وجہ سے مارا گیا ہے۔ مجھے کہتا ہے کہ جماعت کو قربانی کا بکرا نہ بناؤ خود کیوں نہیں بنتے تاکہ ایک دفعہ قصہ پاک ہو جائے۔ پس خدا تعالیٰ نے اس کو قربانی کا بکرا بنا دیا اور وہ قصہ ہمیشہ کے لئے پاک کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر اس کی یہ ہلاکت ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق بن کر ثبت ہو چکی ہے۔ کوئی طاقت اب دنیا میں نہیں جو اس صداقت کی گواہی کو مٹا سکے۔
جو دوسرے حوالے جن سے مجھے تعجب ہوا تھا جس میںاس نے انکار کیا ہوا ہے وہ ہیں ’’صراطِ مستقیم‘‘ برمنگھم جولائی 1988ء ۔ اس میں لکھتا ہے:
’’ اس لئے اب مرزا طاہر احمد کو مرزا صاحب کی نمائندگی کرنے یا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ اپنے اعلان یا دعا کے انجام سے دوچار ہو چکا ہے۔‘‘
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب پر اس نے تلبیس کی تھی یعنی تضحیک کی خاطر حق کی تلبیس کی تھی، حق کو چھپایا تھا اور پہلے خود چیلنج دے بیٹھا تھا اس لئے خدا کی سزا سے بچ نہیںسکا۔
اس میں ایک بات اور لکھی جہاں تک مباہلہ کا تعلق ہے وہ تو نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہی دے سکتا ہے۔ گویا پہلا مباہلہ جب اس کا چیلنج دیا تھا وہ نبوت کا دعویٰ کر رہے تھے اس وقت اور جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والا ویسے ہی ہلاک ہو جایا کرتا ہے۔ 10؍اکتوبر 1988ء کو اس کار کے حادثے کی خبر چھپی ہے۔ واقعۃً یہ بھی ایک دردناک خبر ہے۔ اس پر ہمیں خوشی نہیں ہے۔ پھر برمنگھم کے Daily News میں جو واقعہ شائع ہوا ہے غم زدہ بیوہ کو ایک اور حادثہ سے دوچار ہونا پڑا اور اس طرح سوگواروں کا ہجوم (یہ انگریزی اخبار میں شائع ہوا اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔) ہجوم کا ہجوم تہہ خانے میں جاپڑا اور پھر اس سے بہت سے زخمی ہوئے۔ قریباً پچیس کے قریب اور واویلا پڑ گیا۔ اس پر ہمیں کوئی خوشی نہیں، حقیقت ہے اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ تکلیف دہ واقعہ ہے اور کسی کی تکلیف پر مومن خوش نہیں ہوا کرتا لیکن خدا کے نشان پر ضرور خوش ہوا کرتا ہے۔
مولوی منظور احمد چنیوٹی کی ذلّت و رسوائی
اب میں آپ کے سامنے ایک دوسرے شخص کا ذکر کرتا ہوں جو دریدہ دہنی میں آج اپنی مثال آپ ہے اور ان صاحب کا نام ہے منظور احمد چنیوٹی۔
انہوں نے ایک اعلان شائع کیا مباہلے کے جواب میں اور اخبار جنگ لندن میں ایک سرخی لگی 21؍اکتوبر 1988ء کو ’’اگلے سال 15؍ ستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی، مولانا منظور احمد چنیوٹی کا جوابی چیلنج‘‘۔
جب یہ بات شائع ہوئی تو اس کے جواب میں مَیں نے ایک خطبہ پڑھا اور خطبے میں اس کا ذکر کیا اور میں نے کہا منظور چنیوٹی صاحب ہمیشہ بہانے سے کسی نہ کسی طرح اپنے فرار کی راہ اختیار کر لیا کرتے تھے اب قابو آگئے ہیں ۔ کھلم کھلا انہوں نے یہ کہہ دیا ، اعلان یہ کیا، جماعت احمدیہ نہیں رہے گی اور اس اعلان کی مماثلت کے طور پر مجھے لیکھرام یا دآیا اور اُس کا بھی میں نے ذکر کیا کہ اس نے بھی اسی قسم کا ایک اعلان کیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب تو جھوٹے نکلیں گے اور میں اس طرح سچا نکلوں گا کہ جس عرصے میں یہ کہتے ہیں کہ میں مٹنے والا ہوں، جماعت احمدیہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ تو میں نے کہا ایک وہ لیکھرام تھا ایک آج لیکھرام پیدا ہوا ہے جس نے یہ چیلنج کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بعد میں ان کو بڑی سخت گھبراہٹ ہوئی کہ یہ تو میں ایسے چیلنج کر بیٹھا ہوں کہ جو بظاہر پورا ہوتے دکھائی نہیں دیتا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں شائد یا ویسے ہی کسی جگہ اعلان کیا اور روزنامہ جنگ لاہور میں 30؍جنوری 1989ء کی اشاعت میں یہ آپ اس کو پڑھ سکتے ہیں ۔ منظور احمد چنیوٹی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 15؍ستمبر 1989ء تک صرف مرزا طاہر احمد کے ختم ہو جانے کی بات کی تھی ساری جماعت احمدیہ کی نہیں۔چلیں ایک یہ بھی اُن کو وقت کے اوپر توبہ کی، وضاحت کی توفیق مل گئی۔
اب مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ منظور احمد صاحب چنیوٹی کے ساتھ جو خدا کا سلوک ہوا اور جو ان کے متعلق میں نے کہا تھا وہ کیا تھا؟ انہوں نے بعد میں بہت واویلا کیا کہ جماعت احمدیہ کے امام نے میرے متعلق قتل کی پیشگوئی کی ہے اور جس طرح ضیاء کو انہوں نے قتل کروایا ہے اس طرح میرے قتل کے بھی درپے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اعلان کیا اپنے خطبات میں کہ میں اس کا نوٹس صدر پاکستان کو بھی دے چکا ہوں، پرائم منسٹر کو بھی دے چکا ہوں باقی پولیس کے سب افسران کو بھی دے چکا ہوں کہ اگر میں قتل ہوا تو میرا قاتل مرزا طاہر احمد ہو گا کیونکہ اس نے یہ اعلان کروا دیا ہے۔ یعنی مباہلہ تو جھوٹ اور سچ پر تھا اور جواب میں جھوٹ بولا جارہا ہے وہ بھی کھلا کھلا اور ـ’’چہ دلاور است دُز دے کہ بکف چراغ دارد‘‘ بھی کہا کہ میرے کف میں ان کی وہ کیسٹ ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا اور آپ سب سن چکے ہیں اس خطبے کو وہاں ہر گز یہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ کھلم کھلا جھوٹ۔ وہ اعلان کیا تھا میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں ۔پھر دیکھیں آپ کہ خدا تعالیٰ نے وہ باتیں سچی کر دکھائیں یا نہیں جو ان کے متعلق میں نے کہی تھیں۔
میں نے یہ کہا تھا کہ’’یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے۔ (یہ ہے پیشگوئی) یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے کوئی دنیا کی طاقت اب اس کو اس ذلت اور رسوائی سے بچا نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ مباہلہ میںجھوٹ بولنے والے باغیوں کے لئے مقدر کر چکا ہے اور لَعْنَتُ اللہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ (آل عمران62) کے اثر سے اور اس کی پکڑ سے اب کوئی دنیا کی طاقت اسے بچا نہیں سکتی۔ پس انشاء اﷲ ستمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے۔ ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے۔ اگر مولوی منظور چنیوٹی زندہ رہا(یہ الفاظ ہیں) تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مر گئی ہو۔ ‘‘
اس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ میرے قتل کے متعلق دھمکی دی گئی ہے۔
’’اگر منظور چنیوٹی زندہ رہا تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مر گئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے جہاں پر احمدیت از سر نَو زندہ ہوئی ہے یا احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مُردوں کو زندہ کر رہی ہے۔
پس ایک وہ اعلان تھا جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا۔ ایک یہ اعلان ہے جو مَیں آج آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور مَیں جھوٹا نکلوں۔ منظورچنیوٹی جن خیالات و عقائد کا قائل ہے وہ سچے ثابت ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں، آپ اور مَیں جن کے علمبردار ہیں، یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے یہ شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھاگتا رہا۔ اب اس کی فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اوراس کی ذلّت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے۔ انشاء اﷲ۔‘‘
(خطبہ جمعہ 25؍ نومبر1988ء)
اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ۔ روزنامہ ملّت 6 ؍مارچ 1989ء لندن میں یہ خبر شائع ہوئی۔ پنجاب اسمبلی میں بحث کے دوران خواجہ یوسف نے کہا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ بازیاب ہوئے تو مَیں پھانسی چڑھ جاؤں گا۔ ایک اور نشان کی طرف بھی اشارہ کر دیا ایک غیر احمدی اسمبلی کے ممبر نے۔ اب یہ خدا نے اس کے دل میں ڈالی ہے بات ورنہ کسی کو اس ماحول میں کیسے جرأت ہو ئی کہ احمدیوں کی تائید میں ایسی بات، ایسی جرأت سے کرے۔ کہتا ہے کہ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ باز یاب ہوئے تو مَیں پھانسی پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ اس وعدے پر پورا نہ اُترے اسی لئے زیر بحث معاملہ میں بھی ان کے دعویٰ کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ یہ زیر بحث معاملہ کیا تھا؟ سنیے! وہ کہتے ہیں قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے ایک من گھڑت خبر کو بنیاد بنا کر اپنے خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہوئے 15؍ستمبر 1989ء سے قبل میرے قتل کی پیشگوئی کی ہے اور مَیں تحریک استحقاق پیش کرتا ہوں۔ تو وہ ہے تو جھوٹا ہی آپ جانتے ہیں۔ یعنی خدا نے اسمبلی کے ممبروں سے اس کا جھوٹ ہونا ثابت کروایا حالانکہ ان کو علم نہیں تھا کہ یہ جھوٹا ہے۔ لیکن کیسا عمدہ استدلال کیا اس نے کہ یہ شخص اتنا جھوٹا ہے کہ کہتا تھا اسلم قریشی کو مرزا طاہر احمد نے قتل کروا دیا اور اگر وہ زندہ ثابت ہو جائے ، نکل آئے دوبارہ، تو برسرعام مَیں پھانسی چڑھ جاؤں گا۔ پھر ابھی تک زندہ ہے سامنے بیٹھا ہواہے۔ اتنا جھوٹا شخص۔ اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے؟تو لَعْنَتُ اللہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ تو پڑ گئی۔
پھر ان کے متعلق ایک مولوی صاحب نے بیان دیا علامہ سیّد زبیر شاہ صاحب بخاری 29؍اپریل 1989ء کو مساوات میں یہ اعلان شائع ہوا ان کی طرف سے کہ منظور چنیوٹی عملاً اسمبلی کی رکنیت کھو چکے ہیں اب وہ صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ جو اپنی عزتوں کے اتنے دعوے کیا کرتا تھا کہ میں سارے پاکستان کا مولوی ہوں اور درباروں تک میری رسائی ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ پھر جو کہتا تھا کہ مَیں حملہ کرواؤں گاخود اس کو تسلیم ہے کہ مَیں نے نہیں کروایا مگر خدا کی تقدیر نے حملہ ضرور کروا دیا اس پر۔ اور روزنامہ جنگ لاہور 22؍نومبر 1988ء کی خبر ہے ۔ منظور چنیوٹی پر قاتلانہ حملہ بیٹا اور بھتیجا زخمی۔ مولانا کے اظہارِ دعوت ارشاد پر مخالفین کی فائرنگ اور پتھراؤ۔ چنیوٹی کے لڑکے ثناء اﷲ اور بھتیجے امیر حمزہ کو قاضی صفدر علی کے حامیوں نے کافی مارا پیٹا۔ کوئی اشتباہ بھی کسی کے ذہن میں پیدا ہوا، نہ مقدمہ میرے خلاف درج کروانے کی اس کو توفیق ملی اور واقعۃً جو اس کے منہ سے بات نکلی تھی وہ خدا نے اس طرح پوری کی کہ اس کو جھوٹا کرتے ہوئے پوری کی۔ اس کو سچا کرتے ہوئے نہیں کہ قتل کا ارادہ تو ہوا ، قتل کی کوشش بھی کی گئی لیکن مَیں نے نہیں کروائی۔ خدا نے وہیں بعض لوگوں سے کوشش کروائی۔
جنگ لندن 22؍دسمبر کو یہ خبر شائع ہوئی ایک اسمبلی کی روئداد کے متعلق ایک صاحب نے یہ اعلان کیا۔ پنجاب اسمبلی کے اندر ہونے والا واقعہ ہے یہ بھی۔ وہاں ایک ممبر نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں انہیں بے گناہ طور پر پکڑا گیا تھا اور انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔اس پراپوزیشن (Opposition) کے رکن محمود الحسن ڈار نے کہا کہ میں ان کا ہمسایہ ہوں یہ اخلاقی جرم میں اندر گئے تھے۔ یہ اسمبلی کی گواہی ، مہر لگ گئی اس کے اوپر۔
ہنگامی اجلاس چنیوٹ بارایسوسی ایشن روزنامہ حیدر راولپنڈی 13؍جنوری 1989ء ۔ منظور چنیوٹی اُوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں اور انہوں نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے ۔ مقامی انتظامیہ اور پولیس منظور چنیوٹی کی نازیبا الفاظ پر مبنی تقاریر سے خوفزدہ ہو کر جان بوجھ کر بے گناہ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر رہی ہے۔ متفقہ قرارداد بار ایسوسی ایشن چنیوٹ۔ یعنی جس جگہ کے یہ ہیں اور جس فخر کے ساتھ جس کے نمائندہ بنتے ہیں وہاں کی بار ایسوسی ایشن کی متفقہ قرار داد ہے۔ منظور چنیوٹی اور اس کے بیٹے کے خلاف 182۔ ت پ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور منظور چنیوٹی کو تحفظ امن عامہ کے تحت فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
…جہاں تک عمومی طور پر ان علماء کا تعلق ہے جو بڑے کرّ وفرّ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ایسے ایسے مقامات سے حصہ لے رہے تھے جہاں تاریخی طور پر وہ پہلے منتخب ہوتے چلے آئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مقامات ان کی جاگیریں ہیں مثلاً کراچی، حیدر آباد اور بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پہ مسلسل پاکستان کے بننے کے بعد مولویوں کا اثر بڑھتا رہا اور بعض ایسی سیٹیں تھیں جن پر وہ ہمیشہ سے قابض ہوئے چلے آرہے تھے۔ انتخابات کے بعد روزنامہ حیدر راولپنڈی 27؍نومبر 1988ء کو یہ خبر شائع ہوئی۔ پاکستان کے عام انتخابات میں مولویوں کی اکثریت کی ناکامی۔ انجمن سادات جعفریہ اسلام آباد کے سیکرٹری نشرواشاعت ملک اختر جعفری اور جنرل سیکرٹری سیّد نقی حسین کاظمی نے عام انتخابات میں مذہبی سیاستدانوں کی شکستِ فاش کو ضیاء ازم کے خاتمے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی قرار دیا ہے۔
…تو مَیں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مباہلے کا جو پہلا راؤنڈ ہے یعنی وہ سال جو آج ختم ہو رہا ہے اور وہ چیلنج جو ہم نے دیا تھا وہ عظیم الشان کامیابی کے ساتھ روز روشن کی طرح ظاہر ہو کر تمام دنیا پر احمدیت کی سچائی کو روشن کر رہا ہے۔ اس سچائی کے نور کو بڑھانے میں آپ نے بھی کچھ کام کرنا ہے اور وہ ہے آپ کی نیکی، آپ کا تقویٰ، آپ کی دعائیں۔ یہ وہ سورج نہیں ہے جو نکلنے کے بعد پھر ایک وقت کے بعد مدھم پڑا کرتے ہیں۔ جو سچائی کے نشان کے طور پر خدا کی طرف سے سورج اُبھرا کرتے ہیں وقت کے ساتھ ان کی روشنی بڑھتی رہتی ہے اور ان کا نور پھیلتا چلا جاتا ہے۔ وہ نشانات جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں کور باطن دشمن نزدیک سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور جن کی شہرت زیادہ سے زیادہ مکّہ کے ارد گرد تک پہنچی تھی آج دنیا کے کناروں تک وہ شہرت پاچکے ہیں اور دنیا کی عظیم قوموں تک بھی وہ نشان اپنی روشنی پہنچا رہے ہیں اور دن بدن اپنی چمک میں بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس لئے مباہلے کا یہ جو نشان ہے یہ بھی آج اور کل تک کا نشان نہیں۔ نہ پرسوں تک کا نشان ہے۔ یہ ہمیشہ ہمیش کا ایک نشان ہے جس کی روشنی بڑھ سکتی ہے۔ اور اس کا احمدیت کے کردار سے گہرا تعلق ہے۔ پس اپنے کردار کو جتنا روشن کریں گے، اپنے سینے کو جتنا منور کریں گے اتنا ہی احمدیت کی صداقت کا سورج روشن تر ہوتا چلا جائے گا۔ پس میری آپ سے یہی اپیل ہے کہ خدا کا شکر بھی کثرت سے کریں۔ اس نے بے انتہا ہم پر فضل نازل فرمائے۔ بے انتہا برکتیں دیں، جماعت کو اتنی ترقی دی اور جماعت کی تاریخ میں ایسے ایسے دن آئے جن کی کوئی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی۔ مثلاً اسی سال چند دن پہلے ایک ملک سے یہ اطلاع ملی جہاں صرف پانچ سو احمدی تھے کہ آج خدا تعالیٰ نے یہ ہمیں دن دکھایا ہے کہ تیرہ ہزار آٹھ سو کچھ احباب بیعت کر کے باقاعدہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے دس ہزار تک کی خبر تو ہم نے سنی ہوئی تھی غالباً پرانے زمانے میں کہیں، لیکن وہ بھی اس قسم کی تھی کہ ایک قبیلے میں جاکے اعلان کیااور اندازہ لگایا کہ وہ دس ہزار ہو گا لیکن یہ کہ دس ہزار باقاعدہ افراد ہوں یہ واضح نہیں تھا، اب پوری گنتی بتائی گئی ہے۔ تیرہ ہزار اتنے سو افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور ہر طرف یہی نظارہ ہے۔ خدیجہ نذیر صاحبہ جن کو میں نے بیعتوں کے اوپر مقرر کیا ہے جب آتی ہیں وہ ان کی بشاشت سے ان کا چہرہ کھل اُٹھتا ہے۔ کہتی ہیں اب تک خدا کے فضل سے وہ دگنا ہونے کا جو آپ نے کہا تھا وہ خدا تعالیٰ پورا کر کے دکھا رہا ہے۔ پچھلے سال اگر چودہ ہزار تھی تو آج اٹھائیس ہزار ہو چکی ہے ایک خطے میں اور کل کی پچاس ہزار ہونے کی توقعات بڑی نمایاں ابھی سے نظر آرہی ہیں۔ تو اس طرح خدا تعالیٰ نے اس سال جماعت پر فضل کثرت سے نازل فرمائے ہیں اور بعض ایسے ممالک میں جماعت کو از سر نو زندہ کیا ہے جہاں ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا۔
مَیں نے اس مباہلے کی دعا میں یہ بھی کہا تھا کہ تم دیکھو گے اگر تم زندہ رہو گے۔ میں نے منظور چنیوٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جماعت مرنے کی بجائے بعض ملکوں میں از سر نَو زندہ ہو جائے گی۔ چنانچہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں خدا کے فضل سے پچھلے چند دنوں میں از سر نو جماعت زندہ ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہ چین میں کئی جگہ جماعت قائم ہوئی ہے بلکہ چین سے باہر جو بعض علماء نکلے تھے انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا اور مجھے ان کے خط موصول ہوئے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس جائیں گے تو احمدیت کا بڑے زور سے پرچار کریں گے اور وہ اپنے علاقوں کے بڑے لوگ ہیں۔ عجیب اتفاق ہے اور یہ اتفاق نہیں، خدا کی تقدیر ہے کہ ہمارے عثمان چینی صاحب کے خسرچند دن ہوئے چین سے آئے وہ اپنے علاقے کے بڑے عالم ہیں اور اسمبلی کے ممبر ہیں وہاں کی پراونشل اسمبلی کے اور جماعت کے بڑے سخت مخالف۔ ان کی بیٹی مخلص احمدی ہو گئی لیکن خود مخالف۔جب یہاں تشریف لائے تو بیٹی تنگ آگئی تھی ان کی مخالفت سے۔ میرے پاس آکے رونے والی ہو گئی۔ باپ کو ساتھ لے کے آئی کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا مَیں کروں کیا؟ آپ میرے لئے خدا کے لئے دعا کریں مَیں تو بہت پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ مَیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں بات ان کے پلّے ہی نہیں پڑتی۔ ان کو میں نے کچھ سمجھایا، کچھ دعا کی اور عثمان چینی صاحب کو بھی بلا لیا کہ بقیہ کسر وہ پوری کریں۔ چنانچہ عجیب اتفاق، میں اسے اتفاق کہہ دیتا ہوں مگر اس کو کہنا چاہئے خدا کی تقدیر ہے ۔ ایک دوست ان دنوں میں میرے پاس تشریف لائے لاہور سے تھے انہوں نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ علماء بعض آپ کے پاس آرہے ہیں دوسرے ملکوں کے بڑے دور دور سے اور غالباً چین کا بھی اس کا ذکر تھا۔ … اور وہ ایسے علماء ہیں جو اپنے علاقے پر بڑا اثر کھتے ہیں اور آپ کے پاس چند دن ٹھہر کے احمدیت قبول کر کے واپس چلے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں پھر آگے احمدیت کے چرچے چل پڑتے ہیں۔ تو میں نے ان کو کہا کہ ایک عالم تو آج کل یہاں پہنچا ہوا ہے ۔ اب دیکھیں۔ چنانچہ جانے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ان کے سارے شکوک صاف ہوئے۔ انہوں نے بیعت کی، آکے مجھے دعا کے لئے تاکید کی اور ساتھ میں یہ وعدہ کیا کہ آپ دیکھیں گے کہ مَیں اپنے عہد پر پورا اُترنے والا انسان ہوں، مَیں جاکر اپنی ساری کوشش صَرف کروں گا کہ وہ سارا علاقہ عنقریب احمدیت کے نور سے منور ہو جائے۔ تو یہ مباہلے کا ایک یہ بھی پھل ہے۔ میں نے کہا تھا اگلی صدیاں اس کے پھل پائیں گی انشاء اﷲ۔ پس چین میں جو از سر نَو احمدیت زندہ ہوئی ہے اس کا پھل تو اگلی صدیاں کیا، قیامت تک انشاء اﷲ چین کے لوگ کھاتے رہیں گے اور استفادہ کرتے رہیں گے۔ پس الحمد ﷲ جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ لیکن ابھی دعائیں جاری رہنی چاہئیں اور نیک اعمال کے ساتھ مباہلے کے نشان کو روشن تر کرنے کی ضرورت باقی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍ جون 1989ء خطباتِ طاہر جلد 8 صفحہ 383 تا 404)
(مولوی منظور چنیوٹی کی ذلّت و رسوائی کی مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’فتح مباہلہ یا ذلّتوں کی مار‘‘۔ شائع کردہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)