اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج (چوتھی قسط)
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے
10؍ جون 1988ء کودیا گیا اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج
مباہلہ سے متعلق ایک نئی صورت حال
13نومبر1988ء کو اہل سنّت والجماعت برطانیہ نے ’’کُل یورپ ختمِ نبوّت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں ایک پمفلٹ بعنوان ’’مرکزی جماعت اہلسنّت یُوکے کی طرف سے دنیا بھر کے منکرین ختم نبوت، مرزائیوں، قادیانیوں، اور غلام احمدیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد کا چیلنج مباہلہ (محض اتمام حجت کے لئے ) قبول ‘‘ شائع کیا اور کثیر تعداد میں برطانیہ کے شمالی علاقوں میں تقسیم کیا گیامگر جماعت احمدیہ کو اس کی کاپی نہ بھجوائی گئی۔
مولوی احمد نثار بیگ صاحب قادری خطیب جامع مسجد مانچسٹر نے اس پمفلٹ میں اعلان کیا کہ:۔
’’ہم آپ کو اس سنہری موقع کے لئے پورا مہینہ دیتے ہیں۔ آپ ہمارا پمفلٹ ملتے ہی خود یا اپنے چوہدری رشید کے ذریعے مقام و تاریخ کا اعلان کریں۔ اور اس کا خوب خوب چرچا اور پروپیگنڈہ کریں۔ اخبارات میں اعلانات اور اشتہارات دیں۔ پمفلٹ نکالیں تا کہ ہمارے تمام علماء اہلسنّت و عوام اہلِ سنّت کو بھی معلوم ہو جائے۔ ادھر ہم بھی آپ کی مقرر کردہ تاریخ و مقام پر حاضر ہونے کا خوب خوب اعلان و چرچا کریں گے۔ تا کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس موقع پر جمع ہو سکیں۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائید ربانی سے حق و باطل میں فیصلہ ہو جائے۔
اور اگر آپ کو یہ بھی منظور نہیں جس میں اگرچہ کوئی راہ فرار باقی نہیں رہتی۔ تو ہم آپ کو مکانی مشارکت کی بجائے زمانی مشارکت کا موقع دینے کے لئے بھی تیار ہیں، تا کہ آپ کسی بھی طرح کا کوئی بھی عذر پیش کرنے کے قابل ہی نہ رہیں اور آنکھ والے عبرت پکڑیں… وہ اس طرح کہ ہم آج سے پانچ ہفتے بعد کی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں، یعنی 23؍ دسمبر بروز جمعہ… حق و باطل میں فیصلے کا دن آپ اپنی جگہ پر ہی دُعا میں مشارکت کر سکتے ہیں۔ تمام علمائے اسلام جمعۃ المبارک کے خطبوں میں قادیانیت کے کفریات پر اظہار فرمائیں گے۔
آپ علماء اسلام کے خلاف اپنی تقریر میں اپنا نکتۂ نظر پیش کریں۔ اس کے بعد ایک مقررہ وقت پر مثلًا دن کے ڈیڑھ( 1:30)بجے یا 2بجے جس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ادھر پوری ملّت اسلامیہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں بوسیلہ حضرت محمد مصطفی ؐ علیہ التحیّۃ والثناء فتنۂ قادیانیت سے نجات کے لئے دعا مانگے گی۔ ادھر آپ ہمارے خلاف دعائیں مانگیں۔ اور احکم الحاکمین اہل حق کے بارے میں فیصلہ فرما دے گا۔ یقینًا یہ تجویز تو آپ کو ضرور منظور ہو گی۔
بہر حال پہلی تجویز ہو یا دوسری! جو بھی منظور ہو اس کا آپ اعلان کریں۔ اور اعلان میں جلدی کریں۔ چیلنج آپ نے دیا ہے اور ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید سے قبول کیا ہے! آپ جتنا جلدی جواب دیں گے۔ اتنا زیادہ چرچا کیا جا سکے گا۔ نشر و اشاعت کی جا سکے گی۔
فریق اوّل مباہلہ | فریق ثانی مباہلہ |
جماعت احمدیہ قادیانیہ، مرزاعیہ کے دنیا بھر کے مردوزن اور چھوٹے بڑے کے نمائندہ، مرزا طاہر احمد | مرکزی جماعت اہلسنّت یُو۔ کے۔ (مسلمانان عالم کی نمائندگی میں) |
نوٹ: فریق ثانی میں علماء کرام کے نام اس لئے نہیں لکھے کہ سینکڑوں ہزاروں علماء حق اس کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ یہاں اتنی جگہ نہیں ہے۔ مرتب۔ احمد نثار بیگ، قادری ایم اے خادم اہلسنت والجماعت
(مؤرخہ 13؍ نومبر1988ء بمقام مہر الملّت جامع مسجد 21شیکسپیئر سٹریٹ، برمنگھم زیرِ اہتمام مرکزی جماعت اہلسنّت یُو کے، کُل یورپ ختم نبوّت کانفرنس کے موقع پر جماعت اہلسنّت کی طرف سے شائع کیا گیا۔)
جماعت احمدیہ کے پریس ڈیسک کو اس پمفلٹ کا علم مانچسٹر کے دو دوستوں کے ذریعہ مؤرخہ16؍ دسمبر کو ہوا۔ معاملہ کی نزاکت کے باعث جماعت احمدیہ کے پریس ڈیسک کی طرف سے فوری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ضروری ہدایات لے کر مولوی نثار بیگ صاحب کو اپنی اپنی مساجد میں جمعہ 23؍ دسمبر کو ایک بجے سے ڈیڑھ بجے تک دعائے مباہلہ میں شرکت کی اطلاع دے دی گئی۔ اس جوابی خط کے ہمراہ حضورؒ کے ارشاد کے ماتحت قادری صاحب کو ’’حقیقۃ الوحی‘‘ بھی بھجوا دی گئی تا کہ وہ جماعت احمدیہ کے عقائد اور تعلیم سے بخوبی آگاہی حاصل کر سکیں۔ اور اسی مضمون کی خبریں اخبارات کو ارسال کر دی گئیں۔ نیز یورپ کی جماعتوں کو بالخصوص اور دیگر جماعتوں کو بالعموم اطلاع کر دی کہ وہ مقررہ دن اپنے طور پر خصوصیت سے مباہلہ کی کامیابی اور مزید واضح اور روشن نشانوں کے ظہور کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔
برطانیہ کے اخبارات میں ’’مباہلہ‘‘ سے متعلق جلی حروف میں اس بارہ میں خبریں شائع ہوئیں۔
(ملاحظہ ہوں اخبار روزنامہ ملّت لندن 22؍، 24؍اور 25؍ سمبر1988ء۔ روزنامہ جنگ لندن لندن 22؍، 24؍اور 25؍ سمبر1988ء)
23؍دسمبر1988ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مسجد فضل لندن میں اپنے خطبہ جمعہ میں اس بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’ایک تازہ صورتحال مباہلے کی یہ پیدا ہوئی ہے کہ کم و بیش چھ ماہ کے بعد یہاں انگلستان کے ایک مولوی نے جماعت احمدیہ کو یا مجھے خصوصیّت کے ساتھ یہ چیلنج دیا کہ آپ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ اجتماع ضروری نہیں۔ یعنی مشارکت مکانی ضروری نہیں۔ مکان یعنی جگہ کے اعتبار سے ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری نہیں۔ تو ہم آپ کے لئے ایک اَور صورت پیش کرتے ہیں۔ گویا کہ نعوذ باللہ وہ ہماری پیروی کر رہے ہیں اور ہم بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم ان کے پیچھے جا رہے ہیں۔ ہم تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے حضور کہہ چکے ہیں جو کہنا ہے، لعنت ڈال چکے ہیں جھوٹوں پر۔ تمہیں جرأت ہے! تم بھی ڈال کے دکھا دو۔ صرف یہ بات تھی۔ لیکن دنیا کو دھوکہ دینے کی خاطر اور شاید اس خیال سے کہ ہم اس بات کو نہیں مانیں گے انہوں نے یہ ایک مضمون شائع کر کے سب جگہ بھجوایا، صرف ہمیں نہیں بھجوایا۔ اِس سے یہ شبہ اور قوی ہوتا ہے کہ ان کی نیت یہ تھی کہ ان کو پتہ ہی نہ لگے۔ غیر احمدیوں میں مضمون تقسیم ہو گیا۔ ہمیں نہیں بھجوایا گیا۔ اور مضمون یہ تھا کہ ہم 23؍دسمبر کو جمعہ ہے اس میں آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ مشارکت مکانی نہیں تو مشارکتِ زمانی کر لیں۔ یہ مولویانہ محاورہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ آپ ایک جگہ اکٹھے ہونا نہیں چاہتے تو ایک وقت میں اکٹھے ہو جائیں اور کوئی وقت مقرر کر لیں۔… مَیں نے کہا فوراً ان سے رابطہ کرو۔ ان کو کہو ہمیںمنظور ہے۔ اگرچہ ہمارا موقف یہی ہے کہ اس قسم کی انہوں نے جو مشارکتیںبنائی ہوئی ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس اتفاق کی ضرورت ہے ذہنی طور پر کہ ہم خد اکے حضور اپنا سب کچھ اپنے مال و دولت، اپنی عزتیں ،اپنے بچے ، اپنے مرد ، اپنی عورتیں لے کر حاضر ہو جاتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ کسی خاص جگہ پر ان سب کو سمیٹ کر گلّوں کی طرح حاضر ہو رہے ہیں بلکہ خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا !اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت کر اور اگر ہمارے دشمن جھوٹ بول رہے ہیں اورو ہ ظلم سے باز نہیں آرہے تو ان پر لعنت کر۔ یہ مضمون ہے جس کی رُو سے ہم تو مباہلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ کا اصرار ہے اور آپ ہی اس کو تماشا بنانا چاہتے تھے… ہم اس کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور اس مشارکت زمانی کے ساتھ اب وقت مقرر کر لو اور ہم بھی آتے ہیں میدان میں ،تم بھی میدان میں نکلو۔ اب ان کے لئے بھاگنے کی راہ کوئی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ جو شرائط پیش کر چکے تھے ہم مان گئے۔ لیکن آخری وقت میں ایک چالاکی انہوں نے کر لی ہے۔ جنگ اخبارمیں جو خبر شائع ہوئی ہے اگر وہ درست ہے تو اس کی رُو سے انہوں نے آخری چالاکی بچنے کے لئے یہ کی ہے کہ ہم چونکہ ہیں ہی سچے اس لئے ہم اپنے اوپر لعنت نہیں ڈالیں گے بلکہ صرف احمدیوں پر لعنت ڈالیں گے۔ یعنی قادیانیوں کے خلا ف لعنتیں ڈالیں گے کہ اللہ ان کو ساری دنیا میں برباد کر دے، ذلیل و رسوا کر دے ، کچھ نہ ان کاچھوڑ، ان کے گھر بار کو آگیں لگا دے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی کوسنے کوسیں گے لیکن قرآن کی زبان میں لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیٰ الْکَاذِبِیْنَ (آل عمران62)نہیں کہیں گے چونکہ ہم تو ہیں ہی سچے۔‘‘
حضوررحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ عجیب بات ہے کہ اگر سچے ہیں تو کاذبین کی لعنت کس طرح تم پر پڑ جائے گی۔ تمہیں یہ یقین کیوں نہیں ہے کہ جب ہم کہیں گے کہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ تو خدا تمہیں معاف کر دے گا کیونکہ تم جھوٹے نہیں ہو۔ دل بتا رہے ہیں کہ جھوٹے ہیں اور اس لئے اس سے فرار کی یہ راہ اختیار کی ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے اوپر لعنت ہی نہیں ڈالی تھی کہ اے خدا! یہ کیا بات ہے۔ ہم نے تو قادیانیوںپر لعنت ڈالی تھی۔ ان پر لعنت ڈال۔ ہم پر نہ ڈالنا ہمیں جھوٹ کی اجازت ہے۔
دوسرا ایک عجیب تمسخر ہے مباہلے سے بلکہ ظلم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہٖ وسلم کی شدیدہتک ہے اور خدا کی شدید گستاخی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہٖ وسلم کو فرمایا کہ اپنے مقابل جھوٹوں کے پاس جائو اور ان کو یہ کہو کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن مَیں بھی کہتا ہوں تم بھی کہوتا کہ جو شخص جھوٹا ہے خدا اس پر لعنت ڈالے۔ کیا نعوذ باللہ من ذالک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہٖ وسلم کو اپنی صداقت کا یقین نہیں تھا؟ اس یقین کے باوجود کیا خدا کو علم نہیں تھا کہ کائنات میںسب سے بڑا سچا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تو پھر آپ ؐ کو کیوں کہا کہ اس لعنت کی طرف دعوت دو کہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن جو بھی فریق جھوٹا ہے خدا کی لعنت اس پر پڑے۔
تو ایسے جاہل ہیں اپنی نجات کے لئے اگر ان کو خدا اور رسول پر بھی حملے کرنے پڑیں تو اپنی فرار کی راہیںیہ ضرور نکالیں گے اور دنیا کے سامنے اپنی عزت بچانے کی کوشش کریں گے۔ مگر چونکہ یہ فرار کی راہ نکالنا بذات خود ایک ملعون فعل ہے۔ ایسی ذلیل قیمت ان کو دینی پڑی ہے اس نجات کی راہ کے نکالنے کی خاطر کہ یہ خود اپنی ذا ت میں خدا کے نزدیک ایک کبیر گناہ ہے۔ اس طرح مباہلہ کے مضمون کو توڑمروڑکے خواہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آئے ، خواہ خدا کی آپ سے محبت اور غیرت پر حرف آئے انہوں نے اپنی فرار کی راہ ضرور نکال لینی ہے۔ اس لئے میں امید رکھتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے یہ ساری لعنتیں اُلٹ کر ان پر پڑیں گی۔ اور جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے وہ ساری رحمتوں کے پھول بن کر جماعت پر برسیں گی۔اس لئے میری تو یہ دعا رہی ہے، خواہش رہی ہے کہ کثرت سے لوگ ان کے ساتھ مل کر لعنتیں ڈالیں۔ لیکن مَیں نے نہ خود یہ دعا کی ہے، نہ جماعت کو ایسی دعا کے لئے کہا ہے کہ نعوذُباللہ من ذالک تمام غیر احمدی مسلمانوں پر لعنت ڈالیں۔ ہر گز نہیں… بلکہ یہ دعا کرنی ہے کہ ان لعنت ڈالنے والوں پر ان کی لعنتیں پڑیں اور یہ دعا جو ہے کسی انتقامی کارروائی کی وجہ سے نہیں۔ ایک مجبوری ہے ، اس سے ایک خیر کی راہ نکلتی ہے۔
مباہلہ کا ایک پہلو یہ ہے جس کی طرف مَیں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ دشمن ہیں جو معاندین کے سرکردہ امراء اور بڑے بڑے لیڈر جو دراصل ہدایت کی راہ روکے کھڑے ہیں اور تمام عوام النّاس بیچارے دنیا میں ہر جگہ، اس لئے احمدیت میں داخل نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے آگے دروازے بند کئے ہوئے ہیں۔ احمدیت جو ہے ،جس قسم کی حقیقت ہے،جو سچائی ہے،جو پیغام ہے اگر بعینہٖ اسی طرح بغیر مبالغہ کے اور بغیر اس کو توڑے مروڑے آج عوام النّاس کے سامنے آپ رکھ دیں تو آپ دیکھیں کتنا عظیم الشان اس کا نتیجہ اور اثر ظاہر ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ جن کو مباہلہ کا اشتہار دیا گیایہ پڑھ کر احمدی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج پتہ لگ رہا ہے کہ سچے عقیدے آپ کے کیا ہیں اور جس طرح جرأت کے ساتھ یہ خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا گیا ہے کہ اے خدا! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت ڈال، سچوں کو تو یہ توفیق مل سکتی ہے جھوٹوں کو نہیں مل سکتی۔اس لئے بہت سے لوگ مباہلہ کی اس تحریر کو پڑھ کر احمدی ہو گئے ہیں…‘‘۔
آپ ؒ نے فرمایا :
’’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نیا Impetus مل گیا ہے اس سے مباہلے کو ۔ تقریباً چھ ماہ گزرے تھے اور اگلے چھ ماہ کے لئے دوبارہ متوجہ کرنے کے لئے جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرما دیا ہے اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ جس طرح پہلے چھ ماہ میں خدا تعالیٰ نے عظیم الشان نشان دکھائے ہیں اور حیرت انگیز تاریخی نوعیت کے نشان دکھائے ہیں۔ اسی طرح انشاء اللہ یہ باقی چھ ماہ بھی بلکہ اس کے بعد بھی اگلا سارا سال اور اگلی صدی، پوری کی پوری صدی بھی اس مباہلہ کی برکتوں کے پھل کھاتی رہے گی۔ پھر آئندہ اگلی صدی کے لئے خدا جن کو مباہلوں کے لئے کھڑا کرے گاپھر اللہ، انشاء اللہ ان کی دعائوں کے پھل اگلی صدی کو بھی عطا کرے گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ مباہلہ ایک سال کا یا دو سال کا یا تین سال کا مباہلہ نہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے ایسے موقع پر بنایا ہے کہ اس کی رحمتیں اور اس کی برکتیںاور اس کے پھل اگلی صدی میں آنے والی ساری مخلوق کو عطا ہوتے چلے جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ صداقت کو قبول کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعائوں کو قبول فرمائے اور ان کی سب لعنتوں کو اُن پر لعنتیں بنا کر برسائے جو لعنت ڈال رہے ہیں۔ اُن پر نہ کہ باقی غریبوں اور مظلوموں او ر بیچاروں پر جن کو کچھ پتہ نہیں کہ احمدیت کیا ہے۔ اور اُن کی ہر لعنت ہم پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے پھول بن کر آج بھی برسے ،کل بھی برسے اور آئندہ ہمیشہ برستی رہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد7 صفحہ867تا870)
…………………………
چنانچہ جماعت احمدیہ پر لعنتیں ڈالنے والوں پر خدا کی لعنتیں کچھ اس طرح سے برسیں کہ ان لوگوں میں باہم افتراق اور فرقہ واریت اور ایک دوسرے کی مسجدوں پر حملے اور دہشتگردی اور قتل و غارتگری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اغواء برائے تاوان اور ڈکیتی اور منشیات کے استعمال کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ خود مُلّاؤں نے اور بہت سے دانشوروں نے اور لکھنے والوں نے یہ لکھا اور کہا اور تسلیم کیا کہ ہم ایک لعنتی قوم ہو گئے ہیں۔اور یہ سلسلہ اُس وقت سے آج تک مسلسل جاری ہے۔
دوسری طرف جماعت احمدیہ کے خلاف ان کی ہر لعنت جماعت پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے پھول بن کر برسی اور برستی چلی جا رہی ہے۔ جماعت احمدیہ خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ کے زیر سیادت دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت اور تمکنتِ دین، اشاعتِ قرآن کریم اور خدمت بنی نوع انسان کی مختلف عظیم الشان مہمات میں مصروف ہے اور شاہراہِ غلبۂ اسلام پر تیزی سے گامزن ہے۔
…………………………
بعض متفرق عبرت انگیز واقعات
مباہلہ کے نتیجہ میں عالمی طور پر جماعت احمدیہ کی ترقی و استحکام کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر بعض نہایت عبرت انگیز واقعات بھی ظاہر ہوئے۔ ان میں سے چند ایک ہدیۂ قارئین ہیں۔
۹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک قصبہ شاہ کوٹ میں احمدیوں کے چند گھرانے تھے۔ وہاں ایک صاحب عاشق حسین نامی جو زرگر کا کام کرتے تھے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اور جماعت پر گند اچھالنے میں اتنا پیش پیش تھے کہ انہیں جماعت کے مخالف ٹولے میں ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا اور مولوی نہ ہونے کے باوجود بھی یہ گویا مخالف علماء کے سربراہ بن گئے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا مباہلہ کا چیلنج وہاں تقسیم ہوا تو عاشق حسین صاحب نے ایک جلوس اکٹھا کیا۔ جماعت کے خلاف نہایت اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور اس جلوس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ احمدیوں کی دکانیں لُوٹو، جلاؤ اور ان کو اپنے گھروں میں زندہ جلادو یا قتل کر دو تا کہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ احمدی جھوٹے ہیں اور ان کا مباہلہ ان کو پڑ گیا ہے۔ یہ ارادہ باندھ کر جلوس کو تیار کر کے انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں مَیں ابھی دکان سے ایک چھوٹا سا کام کر کے آتا ہوں۔ وہ دکان میں پہنچے، پنکھا چلایا مگر وہی پنکھا جو روز چلایا کرتے تھے الٰہی تقدیر سے اس میں بجلی کا کرنٹ آ چکا تھا اور وہ وہیں بجلی کے جھٹکے سے مر گئے۔ یہ بجلی سے مرنا بھی اپنے اندر ایک قہری نشان رکھتا ہے۔ اس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں تھا۔ اور وہ جلوس جو احمدیوں کے گھراور ان کی دکانیں جلانے یا ان کو مارنے لوٹنے کے لئے بنایا گیا تھا وہ ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گیا اور ان کے جنازے کا جلوس بن گیا۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ 5؍ اگست1988ء خطباتِ طاہر جلد 7)
…………………………
۹ ایک اور شدید معانداحمدیت کے متعلق مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ 1984ء میں شریعت کورٹ میں ایک شخص قاضی مجیب الرحمان پشاوری نے جماعت کے خلاف انتہائی شر انگیزبیان دئیے۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن پر جماعت کے خلاف ارتداد کی بنا پر واجب القتل ہو نے کا فتویٰ دیا۔اس مباہلے کے چیلنج کے کچھ عرصے کے بعد اچانک یہ صاحب دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ اگست 1988ء میں فرمایا:
’’چونکہ یہ وہ صاحب ہیں جن کے متعلق جب مجھے اطلاع ملی تھی اُس وقت بھی دل سے ایک لعنت نکلی تھی ۔اس لیے مَیں نہیں جا نتا کہ انہوں نے کھلم کھلا مباہلے کا چیلنج قبول کیا تھا یا نہیں کیا ۔ لیکن اس بات میں شک نہیں کہ چو نکہ انہوں نے احمدیوں کے قتل کا فتوی دیا تھا ۔اس لیے مباہلے کے چیلنج کے بعد ان کا مر جا نا خود یہ بھی ایک نشان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔‘‘
آپؒ نے مزید فرمایا:
’’مَیں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ خدا کی چکّی حرکت میں آچکی ہے اور جب خدا کی تقدیر کی چکّی حرکت میں آجائے تو کو ئی نہیں جو اس کو روک سکے اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے کہ جب خدا چاہے کہ کوئی اُس چکّی میں پیسا جائے تو اُس چکّی کے عذاب سے بچا سکے ۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد7 صفحہ542تا543)
…………………………
مولانا محمود احمد میر پوری کی ہلاکت
برطانیہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے شدید معاند اہلحدیث لیڈر مولانا محمود احمد میر پوری خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ بن گئے۔ مولانا محمود احمد میر پوری کے مرنے پر اخبار ’حیدر‘ (راولپنڈی) اپنی 27؍ اکتوبر1988ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’ریاست جمّوں و کشمیر کے مایہ ناز سپوتِ اعظم ، مذہبی سکالر، مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، عالم دین، اسلامک شریعت کونسل برطانیہ کے سیکرٹری جنرل، مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے ناظم اعلیٰ، ماہنامہ صراطِ مستقیم برطانیہ کے ایڈیٹر اور تحریکِ آزادی کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے۔ مولوی میر پوری تحریراور تقریر دونوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور اپنے رسالہ صراط مستقیم اور دیگر اخبارات میں اکثر سلسلہ احمدیہ کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے۔ چنانچہ 7؍مارچ 1985ء کو جماعت کے خلاف ان کا ایک طویل خط روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہوا جس میں انہوں نے عوام النّاس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی وفات سے ایک سال قبل ایک اشتہار شائع کیا جس میں انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے لکھا کہ:
’’اگر مَیں ایسا ہی کذّاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ ’’اہلحدیث‘‘ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو مَیں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔‘‘
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے مباہلہ کا چیلنج 1897ء میں دیا تھا مگر مولوی ثناء اللہ امرتسری دس سال تک اس کے جواب میں خاموش رہے۔ لیکن مولانا میرپوری اس تحریر سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ گویا حضرت مرزا صاحب کی وفات مباہلہ کے اس چیلنج کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اسی طرح مولوی صاحب نے ان تمام تحریرات کو جو مولوی ثناء اللہ امرتسری نے حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مباہلے کے چیلنج کے جواب میں لکھیں اور جن سے واضح طور پر اُن کا مباہلہ سے فرار اور خوف ثابت ہوتا ہے پردۂ اخفاء میں رکھ کر عوام الناس کو صریح دھوکے میں مبتلا کیا اور جانتے بوجھتے ہوئے یہ مؤقف پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (نعوذباللہ) مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مباہلہ کے نتیجہ میں فوت ہوئے تھے اور ترنگ میں آ کر اسی اخبار کے ذریعہ مولانا میر پوری نے حضرت امام جماعت احمدیہ کو درج ذیل الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا:
’’مَیں مرزا طاہر احمد کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں کہ مرزا غلام احمد سچا نبی تھایا جھوٹا، ہمارا دعویٰ اور ایمان ہے کہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں… ان کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی نبوّت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا اور کذّاب ہو گا۔ وہ حضرات جو بیچارے کسی لالچ و طمع کی بناء پر قادیانیت قبول کر لیتے ہیں انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے مرزا صاحب سامنے آئیں تا کہ ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے۔‘‘
(روزنامہ جنگ لندن7؍ مارچ 1985ء)
10؍ جون 1988ء کو جب حضر ت امام جماعت احمدیہ نے تمام مکفّرین اور مکذّبین کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو اتمام حجت کی غرض سے اس کی ایک کاپی بذریعہ ریکارڈڈ ڈیلوری 15؍ جولائی 1988ء کو مولوی محمود احمدمیرپوری صاحب کو بھی بھجوا دی گئی۔ لیکن اپنے اسلاف کی طرح انہوں نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا اور حجت بازی سے کام لیتے ہوئے اپنے رسالہ صراطِ مستقیم میں لکھا:
’’جہاں تک مباہلے کا تعلق ہے تو وہ تو نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہی دعوت دے سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب اللہ کی طرف سے اُسے اس امر کا حکم ہو۔‘‘
مزید لکھا کہ:
’’اس لئے اب مرزا طاہر احمد کو مرزا صاحب کی نمائندگی کرنے یا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس نے نبوّت کا دعویٰ کیا تھا وہ اپنے اعلان دعا کے انجام سے دوچار ہو چکا ہے۔‘‘
(صراط مستقیم جولائی 1988ء)
یہ تو اب مولوی محمود میر پوری صاحب کا کوئی معتقد ہی بتا سکتا ہے کہ 1985ء میں جب انہوں نے امام جماعت احمدیہ کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا تو کیا وہ نبوت کے مقام پر فائز تھے؟ اور انہوں نے خدائی حکم سے ایسا کیا تھا یا جھوٹ بولا تھا؟
صرف اسی پر بس نہیں مولانا میر پوری صاحب نے مباہلہ 10؍ جون 1988ء کے جواب میں ایک مضمون بعنوان ’’قادیانیوں کی طرف سے مباہلے کا چیلنج‘‘ لکھا اور اس میں بعض ایسے الفاظ بھی تحریر کر ڈالے جو خدا تعالیٰ کے غیظ و غضب کو بھڑکانے والے اور مباہلہ جیسے قرآنی طریق فیصلہ کی کھلی بے ادبی کرنے والے الفاظ تھے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:۔
’’نئے چیلنج اور دعوے محض چکّر اور فراڈ ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ انہیں ذرّہ برابر اہمیت نہ دیں۔‘‘
(صراطِ مستقیم جولائی 1988ء صفحہ9)
اسی اخبار کے ذریعہ انہوں نے
’’(قادیانیوں کی موجودہ مہم کو شر انگیز قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے اس پراپیگنڈے سے متأثر نہ ہوں اور ان کا بائیکاٹ جاری رکھیں)‘‘
ابھی مولانا کے اس مضمون پر ایک ماہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے صداقتِ احمدیت کے اظہار کے لئے ایک زور دار نشان دکھایا اور دشمن احمدیت جنرل ضیاء الحق ایک عبرتناک موت کا شکار ہوگئے۔ مگر افسوس کہ مولانا محمود میرپوری نے اس سے سبق نہ لیا بلکہ الٹا یہ بیان بازی شروع کر دی کہ:۔
’’قادیانیوں نے شاہ فیصل اور بھٹو کی موت کو بھی اپنی بد دعاؤں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ جنرل ضیاء کی موت کو مباہلے کا چیلنج قرار دینا مضحکہ خیز ہے… فیصلے کا معیار یہ حادثاتی موتیں نہیں ہیں بلکہ اس مسئلہ کا فیصلہ تو 1908ء میں ہو چکا ہے…‘‘
(روزنامہ ملّت لندن 7؍ستمبر1988ء)
ان تحریرات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا محمود میر پوری صاحب شوخی شرارت اور بے باکی میں شرافت کی تمام حدیں پھلانگ چکے تھے۔ لہٰذا آیت مباہلہ کی شرائط کے مطابق اللہ تعالیٰ کی لعنت نے ان کا پیچھا اسی طرح کیا جس طرح انہوں نے قرآنی آیت کے مقابلہ پر گستاخی دکھائی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ بن گئے۔
10؍ اکتوبر1988ء کو جب مولانا میر پوری بمعہ افرادِ خاندان نیو کاسل (Newcastle)سے واپس آ رہے تھے تو راستہ میں اچانک ان کی کار جام(jam) ہو گئی اور پیچھے سے آنے والا تیز رفتار ٹرک ان کی کار کے اوپر چڑھ گیا اور آناً فاناً پانچ کاریں آپس میں متصادم ہو گئیں۔ جس کے نتیجہ میں مولوی محمود میر پوری، ان کا آٹھ سالہ بیٹا اور خوشدامن موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور ان کی اہلیہ اور ایک چھوٹے بچے کو زخمی حالت میں ہسپتال جانا پڑا۔
ممکن ہے مولوی میر پوری کے ہم خیال اس واقعہ کو بھی فقط ’’حادثاتی موت‘‘ قرار دیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کی پہلی چمکار کے بعد ایک اور واضح نشان رونما ہوا کہ جب مولانا کی تعزیت پر ان کے ہمنوا اور اقارب اس مکان پر جمع ہوئے جہاں ان کی میّت رکھی تھی تو یکایک کمرے کے فرش نے جواب دے دیا اور وہاں موجود مرد و زن اور بچے دھڑام سے نیچے تہ خانہ میں جا گرے۔ اس حادثہ میں مولانا کی بیوی دوبارہ زخمی ہو گئیں جو ہسپتال سے محض جنازے کی خاطر گھر آئی تھیں۔ دوبارہ پھر ہسپتال جا پڑیں۔
(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو برمنگھم کا انگریزی اخبار Daily News، 12؍ اکتوبر1988ء)
…………………………
کوڈیا تھور(کیرلہ) میں مباہلہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خاص اجازت سے کوڈیا تھور(کیرلہ) میں انجمن اشاعت اسلام اور جماعت احمدیہ کے مابین مورخہ28؍ مئی 1989ء کو شام کے پانچ بجے ایک مباہلہ ہوا۔ ہر دو جماعتوں میں چالیس چالیس افراد اس مباہلہ میں شریک ہوئے۔ انجمن اشاعت اسلام، جماعت اسلامی، اہلِ حدیث، تبلیغی جماعت کا مرکب تھا۔ دس ہزار افراد دعائے مباہلہ کا نظارہ کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ کوڈیا تھور میں منعقدہ اس دعائے مباہلہ کا موضوع ’مقامِ نبوّت‘ تھا۔
سب سے پہلے احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے کیرلہ احمدیہ مسلم جماعت کے چیف مشنری مولوی محمد ابوالوفا صاحب نے مندرجہ ذیل دعا کی:
’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس کا ہم اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسلمانوں کے لئے وعدہ کیے گئے مسیح و مہدی اور مسیح ابنِ مریم ہیں۔ آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع اور غیر تشریعی اُمّتی نبی رسول ہیں۔ اے قادرِ مطلق خدا!اگر ہم اپنے ایمان اور دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو ہم پر سخت عذاب نازل فرما۔ اگر ہم سچے ہیں تو ہم پر اپنا فضل نازل فرما۔‘‘ اس وقت تمام احمدیوں نے آمین کہا۔
اس کے بعدانجمن اشاعت اسلام کی طرف سے ایم۔ محمد مدنی نے مندرجہ ذیل دعا کی:
’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس کا ہم اعلان کرتے ہیں کہ مرزا احمدقادیانی نہ خدا کے مامور تھے اور نہ ہی نبی یا رسول یا اُمّتی نبی تھے۔ محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبوت ہو گی اور کوئی رسالت ہو گی۔ اگر ہم اپنے ایمان اور دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو خدایا تیری لعنت ہم پر نازل ہو۔ اگر ہم سچے ہیں تو ہم پر اپنا فضل نازل فرما۔‘‘
اس وقت ان کے ساتھ والوں نے آمین کہا۔
اس کے بعد فریقین کی طرف سے مشترکہ دعا کی گئی کہ ’’خدایا ہم میں جو فریق حق و صداقت پر قائم ہے لوگوں پر اس کے اظہارکے لئے اور جھوٹوں کی نشان دہی کے لئے توچھ ماہ کے اندر اندر واضح نشان ظاہر فرما۔‘‘
انجمن اشاعت اسلام کے سیکرٹری نے اس مباہلہ کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ ’’انجمن کی ایک واضح خصوصیت یہ ہے کہ کیرلہ میں کام کرنے والے تمام اسلامی فرقے اپنے فروعی اختلاف کو بھول کر قادیانیت کے خلاف متحد ہوئے ہیں۔‘‘
(خروج ہند 2؍ جولائی 1989ء)
اس تحریرمیں درحقیقت جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری زمانہ میں میری امّت 73؍ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب جہنم میں جانے والے ہوں گے سوائے ایک کے۔
مباہلہ کیرلہ کے بعد یہ اطلاع ملی کہ کیرلہ کے اسلامی فرقوں کو پھر اپنے فروعی اختلاف یاد آ گئے ہیں۔ انہوں نے مباہلہ کرنے کی وجہ سے انجمن اشاعت اسلام کی سخت مذمت کی ہے۔ جماعت احمدیہ اور انجمن اشاعت اسلام کے مابین ہوئے مباہلہ کے دوسرے دن جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے وہیں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں تمام مقررین نے انجمن اشاعت اسلام کی شدید طور پر مذمت کی۔ گویا یہ پہلی لعنت ہے جو انجمن اشاعت اسلام پر پڑی۔
دوسری لعنت
انجمن اشاعت اسلام نے ایک اخباری نوٹ میں کہا کہ مباہلہ کے دوسرے دن ہی جماعت احمدیہ کے صوبائی امیر محترم ڈاکٹر منصور احمد صاحب اور چیف مشنری مولانا محمد ابوالوفا صاحب وفات پا گئے ہیں۔حالانکہ یہ دونوں بزرگ ایک عرصہ تک زندہ رہے۔
احمدی مبلغ مکرم مولانا محمد عمر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ قادیان میں(دسمبر 1989ء میں) منعقدہ جماعت کے جلسہ سالانہ میں مباہلہ کے بارے میں خاکسار کی تقریر تھی۔ انجمن اشاعت اسلام کے اس صریح جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے جلسہ سالانہ کے اسٹیج پر دونوں بزرگوں نے کھڑے ہوکر اوراپنے آپ کو پیش کر کے انجمن اشاعت اسلام کا جھوٹ ثابت کیا۔یہ دوسری لعنت ہے جو مباہلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی۔ یعنی دعائے مباہلہ میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت اللہ علیٰ الکاذبین عائد ہوتی ہے۔
تیسری لعنت
جماعت احمدیہ کے دو شدید مخالف عبداللطیف اور حارث سےنشہ آور Ampuleپکڑے گئے۔ عبداللطیف کے پاس 1680 اور حارث کے پاس 1667 Ampulesفروخت کرنے کے لئے رکھے ہوئے تھے جس کی قیمت سترہ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہ دونوں اشخاص انجمن اشاعت اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ پولیس ایک عرصہ ان کا تعاقب کرتی رہی بالآخر پکڑے گئے۔ یہ بات انجمن اشاعت اسلام کے لئے ایک اور لعنت کا موجب بنی۔
دوسری طرف مباہلہ کے بعد وسیع پیمانے پر جن لوگوں کے اندر سعادت تھی سینکڑوں کی تعداد میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔
مباہلہ کے بعد جماعت اسلامی کا ایک شعبہSIMI (Student Islamic Movement of India) کے ایک سرگرم ممبر مولوی محمد سلیم صاحب کو مؤرخہ 30؍ ستمبر1989ء کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت کرنے کے بعد موصوف قادیان تشریف لے گئے۔ وہاں معلم کورس مکمل کر کے آندھرا پردیش میں بطور مبلغ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد موصوف کیرلہ میں کوڈنگلور بطور مبلغ مقرر ہوئے۔مکرم مولوی محمد سلیم صاحب جو کوڈنگلور کے رہنے والے تھے اس بستی کے اردگرد موصوف کی تبلیغ کے نتیجہ میں 78؍ افراد کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ وہاں ایک شاندار مسجد تعمیر ہوئی جس کا نام خلیفۂ وقت نے ’دارالعافیت‘ رکھا۔
مباہلہ کے بعد کوڈیا تھور کے مضافات مُلکم، چنیدہ منگلم وغیرہ کے لوگوں نے بیعت کی اس میں جماعت اسلامی کے سرگرم ممبران بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد کوڑونگلور کے ہی رہنے والے اور جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن مکرم مولوی محمد یوسف صاحب کو بھی بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ ممبران پی۔کے۔ شمس الدین صاحب، پی۔ پی بیران صاحب وغیرہ افراد قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں بارہ خاندان بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔
الغرض مباہلہ کے بعد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے والے سینکڑوں افراد کا اس وقت نام لینا ممکن نہیں۔ ان بیعت کنندگان میں زیادہ تر جماعت اسلامی کے سرکردہ ممبران اور ان کے عہدیداران تھے۔ انجمن اشاعت اسلام کے صدر کاکیری عبداللہ نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا۔ ’’جماعت احمدیہ کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کے اب دو خلیفہ ہو گئے ہیں۔ ایک خلیفۃ المسیح پنجم، دوسرا ایم ۔ٹی۔اے کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
مباہلہ کے وقت کیرلہ میں 33؍ جماعتیں تھیں۔ مباہلہ کے بعد18؍ جماعتوں کا اضافہ ہوا۔
مباہلہ سے قبل کیرلہ میں 34؍مساجد تھیں۔ مباہلہ کے بعد 8؍ مزید مساجد کی تعمیر ہوئی۔ کئی مساجد کی renovationکی گئی ۔ کوڈیا تھور مباہلہ سے قبل ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ اب یہ مسجد بھی دو منزلہ نہایت خوبصورت اور پُروقار مسجد میں تبدیل ہو چکی ہے۔
مباہلہ کے بعد انجمن اشاعت اسلام منتشر ہو گئی۔ اب اس کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔ اس کا سیکرٹری عبدالرحمٰن اب خاموش ہے۔
خدا تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ مباہلہ کے بعد کیرلہ کے احباب و مستورات میں مالی قربانی اور لازمی چندہ جات، حصہ آمد، چندہ عام، چندہ تحریک جدید اور چندہ وقف جدید میں ہندوستان کی دیگر جماعتوں کی نسبت بہت اونچا مقام حاصل ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
الغرض اس مباہلہ کے نتیجہ میں بھی جماعت احمدیہ نے خدا کے فضل سے ترقی کی نئی منزلیں سر کیں اور جو جھوٹے اور مفتری تھے وہ مزید افتراق و انتشار کا شکار ہوئے۔
(باقی آئندہ)