الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

فری میسن کے بارہ میںحضرت مسیح موعودؑ کے چند ارشادات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 جولائی 2012ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی مجالس میں فری میسن کے ذکراور حضورؑ کے ارشادات کے حوالہ سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔

ز اخبار الحکم 16 نومبر 1901ء کی ڈائر ی میں لکھتا ہے: مفتی محمد صادق صاحب نے شکاگو کے مسٹر ڈوئی کے ایک لیکچر کا خلاصہ سنانا شروع کیا۔ مسٹر ڈوئی ایک عیسائی ریفارمر ہے جس نے الیاس ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس نے اپنے گردو پیش بہت سے مرید جمع کئے ہیں اور ہر ایک مرید سے اس کی آمدنی کا 1/10حصہ لیتا ہے۔ اس کا مذہب ہے کہ موجودہ عیسائی سب غلطی پر ہیں، صرف وہ راستی پر ہے۔ وہ امراض کا علاج کرنا گناہ سمجھتا ہے۔ اس کے ہفتہ وار دو اخبار بھی جاری ہیں۔ اُس نے اپنے ایک لیکچر میں فری میسن کے مضمون پر کلام کیا ہے جن کی حقیقت عام طور پر غیرفری میسنوں پر منکشف نہیں ہے۔ مگر ڈوئی کہتا ہے کہ میرے مریدوں میں بعض فری میسن تھے جو اَب نہیں اور انہوں نے ایسے حالات بتائے ہیں اور بعض کتابیں بھی فری میسنوں کی اُسے ملی ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ فری میسن جھوٹ بولتے ہیں اور قتل وغیرہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو انہیں بچالیا جاتا ہے وغیرہ۔ غرض مفتی صاحب یہ حالات سنا رہے تھے تو حضرت نے فرمایا:

ہم کو کبھی کبھی خیال پیدا ہوتا تھا کہ فری میسن کی حقیقت معلوم ہو جاوے مگر کبھی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ان حالات کو جو یہ اپنے لیکچر میں بیان کرتا ہے سن کر اس الہام کی جو مجھے ہو اتھا ایک عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اس الہام کا مضمون یہ ہے کہ ’’فری میسن اس کے قتل پر مسلّط نہیں کئے جائیں گے‘‘۔ اس الہام میں بھی گویا فری میسن کی حقیقت کی طرف شاید کوئی اشارہ ہو کہ وہ بعض ایسے امور میں جہاں کسی قانون سے کام نہ چلتا ہو اپنی سوسائٹی کے اثر سے کام لیتے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فری میسن کی مجلس میں ضرور بعض بڑے بڑے اہلکار اور عمائد سلطنت یہاں تک کہ بعض بڑے شاہزادے بھی داخل ہوں گے اور ان کا رعب داب ہی مانع ہوتا ہوگا کہ کوئی اس کے اسرار کھول سکے ورنہ یہ کوئی معجزہ یا کرامت تو ہے نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصالح سلطنت کے لئے کوئی ایسا مجمع ہوتا ہوگا۔

اس قسم کا ذکر ہوتا رہا۔ اسی اثناء میں فرمایا آج ایک منذر الہام ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک خوفناک رؤیا بھی ہے۔ وہ الہام یہ ہے: ’’محموم پھر نظرت الی المحموم‘‘۔ پھر دیکھا کہ بکرے کی ران کا ٹکڑا چھت سے لٹکایا ہوا ہے۔

ز اخبار الحکم 18 نومبر 1901ء کی ڈائری میں لکھتا ہے: مفتی محمد صادق صاحب نے حسب ارشاد ڈاکٹر ڈوئی کے لیکچر کا وہ حصہ جو فری میسنوں کے متعلق ہے ترجمہ کر کے سنانا شروع کیا۔ اُن کے جن منصوبوں اور چالوں کا ذکر کیا گیا تھا، اُن پر نظر کرکے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے کہا کہ فری میسن کا ترجمہ الدجّال ہے۔

حضرت اقدسؑ کے الہام ’’فری میسن اس کے قتل پر مسلّط نہیں کئے جائیں گے‘‘ کے بعد یہ کتاب امریکہ سے آئی اور اس کے پڑھنے سے فری میسنوں کے حالات کھلنے لگے۔ حضرت اقدسؑ اس ترجمہ کو سنتے رہے اور اسی اثناء میں کلام میں فرمایا: رات میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے یعنی 17 نومبر کی رات کو جس کی صبح کو 18 نومبر تھی۔ اور وہ رؤیا یہ ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک سپاہی وارنٹ لے کر آیا ہے اور اس نے میرے ہاتھ پر ایک رسی سی لپیٹی ہے تو مَیں اسے کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے مجھے تو اس سے ایک لذّت اور سرور آرہا ہے۔ وہ لذّت ایسی ہے کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا۔ پھر اسی اثناء میں میرے ہاتھ میں معاً ایک پروانہ دیا گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ اعلیٰ عدالت سے آیا ہے۔ وہ پروانہ بہت ہی خوشخط لکھا ہوا تھا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کا لکھا ہوا تھا۔ مَیں نے اس پروانہ کو جب پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا: عدالت عالیہ نے اسے بری کیا ہے۔

اس سے پہلے کئی دن ہوئے یہ الہام ہوا تھا: رَشَنَ الْخَبَر۔ رشن نا خواندہ مہمان کو کہتے ہیں۔

ز اخبار بدر 3 مارچ 1907ءکی ڈائری میں لکھتا ہے: امیر کابل کا ذکر تھا کہ اُس کے فری میسن ہونے کی سبب اس کی قوم اس پر ناراض ہے۔ فرمایا: اِس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے۔

…*…*…*…

مکرم طارق احمد صاحب شہید آف لیّہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 جون2012ء کی ایک خبر کے مطابق مکرم طارق احمد صاحب ابن مکرم مبارک احمد صاحب (مرحوم) آف لیّہ کو اغوا کرنے کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ آپ کی عمر 41سال تھی۔

مکرم طارق احمد صاحب 93/TDAضلع لیہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے دو ماہ قبل ہی وفات پا گئے تھے۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ میٹرک پاس تھے۔ذہین اور قابل انسان تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے زمیندار تھے اور ایک پولٹری فارم بھی بنا رکھا تھا۔ مرحوم کی ملکیتی اراضی 25ایکڑ تھی اور مالی طور پر کافی بہتر تھے۔

17مئی 2012ء کو مکرم طارق احمد صاحب کو لیّہ کے قریبی شہر کروڑؔ سے واپس آتے ہوئے نامعلوم افراد نے اغوا ء کر لیا اور کسی نامعلوم جگہ پر لے جاکر ہاتھ اور پائوں باندھ دئیے اور شدید تشد دکا نشانہ بنایا۔ تشدد کے دوران مرحوم کا ایک پائوں ، کندھا اور پسلیاں توڑ دیں۔ دونوں گھٹنوں پر کیلوں کے نشان تھے، ایک آنکھ پر کاری ضربیں لگائی گئی تھیں اور سر پر بھی بے انتہا تشدد کیا گیا تھا۔ بعد از تشدد اغواکاروں نے مرحوم کے سر میں فائر کرکے قتل کر دیااور ایک ڈرم میں ڈال کر شہر کے قریب واقع نہر میں پھینک دیا۔ نہر بند تھی ورنہ ہو سکتا ہے مرحوم کی نعش بھی ورثاء کو نہ ملتی ۔ پولیس کو ان کی گمشدگی کے بارہ میں رپورٹ درج کروائی گئی تھی۔ 18مئی کو پولیس نے بتایا کہ انہیںایک نعش ملی ہے۔ مرحوم کے لواحقین تشدّد زدہ نعش کو تو پہچان ہی نہ سکے لیکن کپڑوں سے نشاندہی کی گئی۔ آپ کی شہادت سے تقریباً بیس روز قبل آپ کے ہمزلف مکرم مجیب احمد صاحب کو بھی نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا تھا۔

مکرم طارق احمد صاحب شہید ایک خوش اخلاق انسان تھے۔ مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ محترمہ زاہدہ پروین صاحبہ، 6بیٹے اور 2بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ بڑے بیٹے کی عمر 18سال اور سب سے چھوٹے کی دو سال ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے 25مئی 2012ء کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کی شہادت کا دردناک واقعہ بیان فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

…*…*…*…

مکرم منظور احمد صاحب کوئٹہ شہید

روزنامہ الفضل ربوہ 13 نومبر2012 ء کی ایک خبر کے مطابق سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں مذہبی منافرت کی بِنا پر 11نومبر 2012ء کو ایک نوجوان احمدی تاجرمکرم منظور احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب کو دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ آپ کی پیشانی پر دو گولیاں لگیں جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی۔ آپ کی عمر 33 سال تھی اور آپ جماعت احمدیہ کوئٹہ کے نمایاں فرد تھے ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16نومبر 2012ء میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خانصاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھاگو صاحبہ کے ذریعہ ہوا جو ننگلؔ نزد قادیان کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ضلع ساہیوال میں مقیم رہا اور پھر 1965ء میں کوئٹہ چلاگیا۔ منظور احمد صاحب شہید 1978ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد 1996ء میں اپنا کام شروع کیا اور ہارڈویئر کی دکان بنائی۔ تھوڑے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں نمایاں برکت دی۔

مرحوم 11؍نومبر 2012ء کی صبح پیدل گھر سے دکان پر جارہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سوار افراد آئے جن میں سے ایک شخص موٹر سائیکل سے اتر کر آپ کی طرف بڑھا اور گولی چلانے کی کوشش کی لیکن قریب ہونے کی وجہ سے آپ کی اُس سے مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ چونکہ وہ دو تھے اس لئے آپ وہاں سے پیچھے گھر کی طرف بھاگے۔ لیکن گھر کے گیٹ کے ستون کے ساتھ گھٹنا ٹکرایا جس کی وجہ سے آپ نیچے گر گئے۔ اور حملہ آور نے آپ کے سر پر دو گولیاں چلائیں جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی۔

مرحوم کو کافی عرصہ سے مذہبی مخالفت کا سامنا تھا۔ ارد گرد کے دکاندار بھی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ علاقہ میں کچھ عرصہ سے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم منظّم انداز میں چلائی جا رہی تھی۔ نیز ایک مسجد میں ڈیرہ غازی خان سے ایک مولوی آکر احمدیوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتا رہتا تھا اور پورے علاقے میں اشتعال انگیز لٹریچر تقسیم کر رہا تھا۔

2011ء میں شہید مرحوم کی دوکان سے ملحقہ ایک معاند احمدی کی دکان میں آگ لگ گئی اور اُس کا تمام سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ شہید مرحوم کی دکان براہِ راست آگ کی لپیٹ میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں ہرلحاظ سے اُس کو محفوظ رکھا حتیٰ کہ باہر پڑے ہوئے پلاسٹک کے بورڈ بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس کو دیکھ کر سب حیران تھے لیکن یہ چیزیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔

شہید مرحوم کا اپنے پورے خاندان سے نہایت شفقت اور محبت کا سلوک تھا۔ خاندان میں کسی کو بھی کسی مالی معاونت کی ضرورت ہوتی تو آپ اُس کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ اگر مرکز سے جماعتی مہمان آتے تو اُن کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے۔ چالیس پچاس افراد کے پروگرام کا گھر پر انتظام کرلیتے اور خود اُن کے کھانے کا انتظام بھی کرتے۔

مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اس وقت نائب قائد حلقہ، سیکرٹری وقفِ جدید اور سیکرٹری تحریکِ جدید کے علاوہ حلقہ کے سیکیورٹی اور اصلاحی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ 2007ء سے نظامِ وصیت میں شامل تھے۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں والد مکرم نواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ شبانہ منظور صاحبہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عمر چھ سال نیز ایک بھائی مسعود احمد صاحب اور ہمشیرگان یادگار چھوڑے ہیں۔ شہید مرحوم کی والدہ وفات پا چکی ہیں، دوسری والدہ حیات ہیں۔

…*…*…*…

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 جولائی 2012ء میں شہدائے احمدیت کے حوالہ سے مکرم فاروق محمود صاحب کی ایک خوبصورت نظم شامل اشاعت ہے۔ اس طویل نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

کہتے ہو داستانِ وفا کو رقم کروں

یعنی مَیں جوشِ اشک کو شعروں سے کم کروں

شہداء کے واقعات ، سپردِ قلم کروں

قربانیوں کے باب مَیں کیسے رقم کروں

ہم وہ نہیں جو شکوۂ رنج و اَلم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

جو صبر کا پہاڑ ہے کوہِ وقار ہے

جس کو بلا کا آنسوؤں پہ اختیار ہے
اُس کا بشر کے آگے نہ رونا شِعار ہے

اشکوں کے بند توڑتی سجدوں کی زار ہے

نقشِ قدم پہ ہم چلیں ، شب زندہ ہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

چھینے کہیں پہ باپ ، کہیں پہ سہاگ بھی

میرا خدا لگائے گا اُن سب کو بھاگ بھی

اے قوم اُن کے واسطے راتوں کو جاگ بھی

ڈھل جائے اب دعا میں یہ سینے کی آگ بھی

خلوت میں اُن کے واسطے آنکھوں کو نَم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

اگلے الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

گزشتہ الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button