اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج (تیسری قسط)
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے
10؍ جون 1988ء کودیا گیااَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج
جنرل ضیاء الحق سے متعلق نشان
حکومتِ پاکستان کےصدر جنرل ضیاء الحق نے برسرِ اقتدار آنے کے چند ہفتے بعد ہی احمدیت کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ اس نے فخریہ بیان دیا کہ ’’ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے ہیں۔‘‘
(نوائے وقت 13؍ ستمبر1977ء صفحہ 4)
6تا8اکتوبر 1978ء کو ضیاء حکومت کے زیرِ اہتمام پہلی ایشیائی کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی جس میں احمدیوں کے غیر مسلم ہونے اور ان کے بائیکاٹ کرنے کی قرار داد منظور کی گئی۔
(مطبوعہ رپورٹ کانفرنس صفحہ 69 تا 71)
24؍ مارچ 1981ء کو جنرل ضیاء نے عبوری آئین کے لئے ایک نئی شِق کا اضافہ کر کے وضاحت کی کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔
30؍ مئی 1981ء کو ضیاء حکومت نے تفسیر صغیر کو ضبط کر لیا جس کے بعد مخالف احمدیت سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا۔
18؍ نومبر 1983ء کو جنرل ضیاء نے بیان دیا کہ میں قادیانیوں کو کافر سے بھی بد تر سمجھتا ہوں۔
(روزنامہ جنگ 18 دسمبر 1983ء)
اس پسِ منظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ (دسمبر 1983ء) کے موقع پر اپنی ایک پُر شوکت نظم میں جو اِنذار فرمایا وہ بعد میں حیرت انگیز طور پر ایک نشان کی صورت میں پورا ہوا۔ آپ نے فرمایا:
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفتِ ظلمت و جَور ٹَل جائے گی
آہِ مومن سے ٹکرا کے طُوفان کا، رُخ پَلٹ جائے گا، رُت بدل جائے گی
تُم دعائیں کرو یہ دُعا ہی تو تھی، جِس نے توڑا تھا سَر کِبر نَمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیرِ نمرودیت، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا، ساحِروں کے مقابِل بنا اَژدھا
آج بھی دیکھنا مردِ حق کی دعا، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی
ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا، ساتھ میرے ہے تائیدِ ربّ الوریٰ
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغِ دعا، آج بھی اِذن ہو گا تو چل جائے گی
دیر اگر ہو تو اندھیر ہر گز نہیں، قولِ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن
سُنّت اللہ ہے، لَا جَرَم بِالْیَقِیں، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی
19؍ دسمبر1983ء کو جنرل ضیاء نے ایک غضب آلود بیان میں احمدیوں کو منافقین اور مشرکین قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ انہیں ختم نبوّت یا نظریہ اسلام سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
(روزنامہ جنگ لاہور 20؍ دسمبر1983ء)
اگلے سال 17؍ فروری 1983ء کو ایک خاص سازش کے تحت اسلم قریشی کی پُراسرار گمشدگی کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس کے اغوا اور قتل کی تہمت جماعتِ احمدیہ کے مقدس امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ پر لگائی گئی۔ (یہ شخص 12؍ جولائی 1988ء کو ڈرامائی انداز میں و اپس آ گیا۔ اس کی تفصیل الگ بیان ہو چکی ہے۔)
15؍ اپریل 1984ء کو جنرل ضیاء الحق نے لاہور میں ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو اپنے عقائد کی تشہیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر انہوں نے اپنی تبلیغ بند نہ کی تو ان کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کے اخبارو رسائل اور کتب ضبط کر لی جائیں گی۔
(ڈان کراچی، نوائے وقت لاہور، جنگ لاہور، مشرق لاہور 15؍ اپریل1984ء)
26؍اپریل 1984ء کو جنرل ضیاء نے جماعت احمدیہ کے خلاف بدنامِ زمانہ صدارتی آرڈیننس نمبر20نافذ کر دیا جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
ضیاء حکومت کی وسیع اور خطرناک سازش کو پاش پاش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خداتعالیٰ کے فرشتوں کے جلو میں بخیریت 30؍ اپریل 1984ء کو انگلستان پہنچ گئے.
اس رُسوائے عالَم آرڈیننس کے بعد جنرل ضیاء کے دَور میں پاکستان کے احمدیوں پر قافیۂ حیات مزید تنگ کر دیا گیا ۔ اذانیں بند کر دی گئیں۔ کلمہ طیبہ پڑھنے، لکھنے اور اس کے بَیج اپنے سینوں پر آویزاں کرنے کی پاداش میں بہت سے مظلوم احمدی جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے۔ جماعت کی متعدد کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ضیاء الاسلام پریس ربوہ کو سربمہر کر دیا گیا۔ روزنامہ الفضل کو بند کر دیا گیا۔ جلسہ سالانہ اور دوسرے اجتماعات بھی ختم کر دیئے گئے۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ کیا گیا۔
جنرل ضیاء کی ہرزہ سرائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی زبردست پیشگوئی
جنرل ضیاء نے 8؍ دسمبر1984ء کو قومی سیرت کانفرنس میں جماعت احمدیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’مَیں ان تمام لوگوں کو جو غلط راستے پر ہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ کلمہ پڑھیں۔ اسلام کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ ختم نبوت پر ایمان لے آئیں۔ اور قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب سمجھیں۔ اگر یہ لوگ ایسا کر لیں تو مَیں انہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
نیز کہا ’’ملک میں اقلیتیں محفوظ ہیں لیکن مشرکین کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
(روزنامہ مشرقِ ایوننگ اسپیشل کراچی 8؍ دسمبر1984ء)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس کے جواب میں14؍ دسمبر1984ء کو مسجد مبارک ہالینڈ میں ایک باطل شکن اور جلالی خطبہ ارشاد فرمایا اور بتایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت احمدیہ پر یہ الزام کہ (نعوذ باللہ من ذالک) وہ گستاخ رسول ہیں اس سے زیادہ جھوٹا، بہیمانہ اور ظالمانہ الزام اور کوئی نہیں لگایا جا سکتا۔ نیز یہ پُر شوکت پیشگوئی فرمائی کہ :۔
’’خداتعالیٰ کی عظمت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں، خدا کے جتنے بھی مقدّس نام ہیں ان سب ناموں کی قسم کھا کر کہتے ہیں ، ان ناموں کی بھی جو دنیا کو معلوم ہیں اوران مقدّس ناموں کی بھی جن کی کُنہ اور جن کی انتہا کا کسی کو کوئی علم نہیں کہ ہم حضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پائوں تک عاشق ہیں۔ آپ ؐ کے قدموں کی خاک کے بھی عاشق ہیں۔ اس زندگی پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے عاری ہو۔اگر یہ الزام سچ ہے تو اے خدا! ہم پر بھی لعنتیں نازل فرما اور ہماری نسلوں پر قیامت تک لعنتیں کرتا چلا جا کیونکہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُوری کا ہم کوئی تصوّر نہیں کرسکتے۔یہی وہ لعنت ہے، اس لعنت کو ہم کسی قیمت پر قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں۔ اور اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر قرآن کریم کی زبان سے زیادہ مَیں اور کوئی زبان استعمال نہیں کرتا کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن َ۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ اب یہ آسمان کا خدا بتائے گااور آنے والی تاریخ بتائے گی کہ آسمان کس پر لعنتیں برسا رہاہے اور کس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے؟کس کو عزت اور شرف سے یاد رکھا جاتا ہے اور کس کو ذلّت اور نامرادی کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے؟…‘‘
اسی طرح فرمایا:
’’جماعت احمدیہ تو خداتعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے ،ایک ولی رکھتی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین وآسمان کا خدا ہمارا مولا ہے۔ لیکن مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں ۔خدا کی قسم جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔خدا کی تقدیر جب تمہیںٹکڑے ٹکڑے کرے گی توتمہارے نام ونشان مٹادیئے جائیں گے اور ہمیشہ دنیا تمہیںذلّت اور رُسوائی کے ساتھ یاد کرے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عاشقِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبت اور عشق کے ساتھ یادکیا جایا کرے گا۔‘‘
جہاں تک صدر پاکستان کی طرف منسوب بیان کے اس حصہ کا تعلق تھا کہ احمدیوں کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو ملک چھوڑ جاؤ یا پھر سیدھی طرح کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤ تو ہم تمہیں چھاتی سے لگا لیں گے۔ اس کا بھی حضور رحمہ اللہ نے بہت پُر زور ، مدلّل اور باطل شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’احمدیوں کوکہا جارہا ہے کہ وطن چھوڑ دو۔ اور پھر اگلی بات ورنہ کلمہ پڑھ لو۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں تو مارے جارہے ہیںابھی تک بے چارے، اس جرم میں تووہ سزائیں دیئے جارہے ہیں کہ کلمہ کیوں پڑھتے ہیں؟اسی جرم کی پاداش میںجیلیں بھر رہے ہو تم کہ احمدی کلمہ کیوں پڑھتے ہیں اور سیاہیاں پھِر وا رہے ہو۔یہ وہ اسلامی حکومت ہے جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی اور اب اسلام ہی کے نام پر کلمے مٹانے پر لگی ہوئی ہے ۔… کلمہ مٹانے والے تو تم ہو، کلمہ کو سینے سے لگانے والے تو ہم ہیں اور ہمیں کون سا کلمہ پڑھوانا چاہتے ہو؟تمہارا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے۔ تمہارے مُلّائوں کا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے ۔ ہماری زبانیں گُدّی سے کھنچوادواگر کھنچوانے کی طاقت ہے۔ ہماری گردنیں کاٹ دو اگر کاٹنے کی طاقت ہے۔ ہمارے اموال تلف کردو اگرتلف کرنے کی طاقت ہے۔ مگر خدا کی قسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھیں گے اور تمہارا کلمہ نہیں پڑھیں گے۔ایک بھی احمدی ماں یا بیٹا نہیں ہے،ایک جوان یا بوڑھا نہیں ہے جومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کو چھوڑ کرکسی صدر مملکت، کسی سربراہِ حکومت کا کلمہ پڑھ لے۔اس لئے اُن سے کلمے پڑھوائو، اُن کو چھاتیوں سے لگائو جن کوتمہاری چھاتیوں سے لگنے کی پروا ہے ۔جو مرتے ہیں کہ کسی طرح تمہاری چوکھٹ تک پہنچیں اور سجدے کریں تمہاری حکومت کو۔ہمیں تو اِن چھاتیوں کی کوئی پروا ہ نہیں جن چھاتیوں میںجھوٹ ہے ،جن چھاتیوں میں بُغض ہے، جن چھاتیوں میں کوئی انسانی قدر باقی نہیں رہی۔ہم کیسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی چھاتی کو چھوڑ کر تمہاری چھاتی سے لگنا گوارا کریں؟
کیسی دھمکی ہے! کیا لالچ ہے! اس قوم کوتو چھاتی سے لگاتے نہیں جو تمہارے نزدیک وہی کلمہ پڑھ رہی ہے جو تم پڑھ رہے ہو۔ اس قوم کی عزت سے توکھیل رہے ہو جس قوم سے تمہارا کوئی مذہبی اختلاف نہیں ہے ۔وہ کونسی چھاتیا ں تھیں جن کو تم نے چھلنی کیا سند ھ میں ،جن کو بلوچستان میں چھلنی کیا ، جن کو پنجاب اور صوبہ سرحد میں چھلنی کیا ؟کیوں کیا ؟کیا وہ ،وہ کلمہ نہیں پڑھتی تھیں جو تم سمجھتے ہو کہ تم پڑھتے ہو؟پھر کس جرم اور کس کی سزا میں تم نے ان پر یہ مظا لم روا رکھے اور بعض گلیوں کو خون سے بھر دیا ؟ بڑوں کے خون لئے ،بچوں کے خون لئے، جوانوں کے خون لئے، عورتوںکو شدید اذیت ناک مصیبتوں قیدوں میں مبتلا رکھا اور ان کی بے عزتیاں کروائی گئیں ۔اس اسلامی حکومت میں تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہماری چھاتی سے لگو کلمہ پڑھ کر۔کلمہ پڑھ کر تو ہم چھا تی سے لگنے کے اہل نہیں رہتے ، ہم تو جیلوں کے قابل ہو جا تے ہیں ۔لیکن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں ہے،ایک ہی کلمہ ہے ،ایک ہی زبان ہے ،ان کی چھاتیوں سے کیوں نہیں لگتے ؟ان کو کیوں اپنی چھاتیوں سے نہیں لگاتے۔ ان کو کیو ں پائوں تلے روند تے ہی روندتے چلے جا رہے ہو؟‘‘
حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فراعین کے مظالم اور بڑے بڑے بد کر دار اور متکبرین کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کئی قسم کی آفات کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو گھیرلیاجو زمینی بھی تھیں اور سماوی بھی تھیں۔ کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا دخل نہیں تھا۔ محض وہ آسمان سے نازل ہوئیں یا زمین سے پھو ٹیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا بھی دخل تھا اور بندوں کو استعمال کیا گیا۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم آئندہ کے بارہ میں ایک ایسی پیشگوئی فرماتا ہے جو بعینہٖ ان حالات پرپوری لگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کہنے والے کی زبان سے قرآن کریم یہ کہلواتا ہے وَیَاقَوْمِ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ ۔ (المؤمن33)کہ اے میری قوم میں تم پر ایک ایسے عذاب سے بھی ڈرتا ہوں جو تمہیں آلے گا جس کی شکل صورت یہ ہو گی کہ اہل وطن ایک دوسرے کو تمہارے خلاف مدد کے لئے پکاریں گے۔ اَلتَّنَاد اس کو کہتے ہیں جب شور پڑجائے اور واویلا شروع ہوجائے اوروہ لوگ جو پنجاب کے دیہات سے خصوصاً واقف ہیں ان کوعلم ہے خصوصاًجھنگ وغیرہ کے علاقے میں اگر رات کوکوئی چوری ہو جائے یا کوئی اور آفت پڑجائے تولوگ ،زمیندار چھتوں پر نکل جاتے ہیں اور واویلا شروع کر دیتے ہیںاورسارے ملک کو اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں ظالم کے خلاف۔ چنانچہ وہ آواز جہاں پہنچتی ہے پھر وہ آگے آواز چل پڑتی ہے۔ پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے۔ پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے۔ اور جہاں جہاں وہ آواز پہنچتی ہے لوگ گھروں سے نکل کر جواُن کے ہاتھ میں آتا ہے وہ لے کر نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک مظلوم کی مدد کے لئے چلیں۔ تو اس کو کہتے ہیں یَوْمَ التَّنَاد۔… خدا کی اس تقدیر سے ڈرو جب کہ زمین میں تمہارے خلاف یَوْمَ التَّنَادِکی سی کیفیت پیدا ہو جا ئے اور سارا ملک ایک دوسرے کو تمہارے ظلم اور جبر کے خلاف آواز دینے لگے کہ ا ٹھو اور اس ظالم کو چکنا چُور کر کے رکھ دو۔ اس کو ملیا میٹ کر کے رکھ دو۔ اور اگر یہ بس نہ جائے تو قومیں دوسری قوموں کو اپنی طرف بلائیں ۔ یہ تقدیر ا لٰہی ہے تو لازماً پوری ہو کر رہے گی۔
آج نہیں تو کل تم اس کا نمو نہ دیکھو گے کیو نکہ خدا تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے اند ھیر کو ئی نہیں ۔وہ ڈھیل تو دیا کرتا ہے مگر جب اس کی پکڑ آیا کرتی ہے تو وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ (ص 4)کوئی بھا گنے کی جگہ با قی نہیں رہتی ۔ایسا کامل گھیرا پڑجاتا ہے کہ سوائے حسرت و نا مرادی کے اور کچھ بھی انسان کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتا۔ اس وقت وہ یاد کرتا ہے کہ کاش !مَیں اس سے پہلے اس دائرے سے باہر نکل چکا ہوتا مگر نکلنے کی کوئی راہ با قی نہیں۔
لیکن افسوس ہے ان قوموںپر جو ایسے وقت تک انتظار کریں کہ جب خدا کی تقدیر ایسی غضبناک ہو چکی ہو تو ان سربراہوں کے ساتھ قوموںپر بھی خدا کی ناراضگی کا عذاب ٹوٹ پڑے ۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد3صفحہ723تا739)
جنرل ضیاء الحق نے لندن میں مجلس تحفظ ختم نبوّت کی ایک کانفرنس منعقدہ 1985ء کے لئے ایک خصوصی پیغام میں جماعت احمدیہ کو ایک کینسر قرار دیتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اپنے اس پیغام میں اس نے کہا:
"In the last few years, in particular, the Government of Pakistan has taken several stringent administrative and legal measures to prevent the Qadianis from masquerading as Muslims, and from practising various Shaure-Islami. We will Insha’Allah, persevere in our effort to ensure that the cancer of Qadianism is exterminated.”
(Message from General M. Zia-Ul-Haq President Islamic Republic of Pakistan to International Khatm-e-Nabuwwat Conference, London, August, 4-6, 1985)
جنرل ضیاء اور تمام مکذّبین کو دعوتِ مباہلہ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 10؍ جون 1988ء کو نہایت پُر شوکت انداز میں جنرل ضیاء، شریعت کورٹ کے ججوں اور سب مُکفّرین اور مکذّبین کو دعوتِ مباہلہ کے لئے للکارا۔ جنرل ضیاء الحق کومباہلہ کا چیلنج 11؍ جولائی کو ڈاک کے ذریعہ بھجوایا گیا۔
جنرل ضیاء کو آخری تنبیہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ہر گز اس بات سے خوشی نہیں تھی کہ جنرل ضیاء اپنے مظالم کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے انہیں بار بار تنبیہ فرمائی، نجات کے رستے بتائے اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر دنیوی وجاہت کھل کر توبہ کرنے میں مانع ہے تو کم از کم ظلم سے ہاتھ روک لیں اور خاموش رہیں۔ ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ظلم سے باز آ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یکم جولائی 1988ء کے خطبہ جمعہ میں انہیں بتایا کہ چونکہ وہ ائمۃ التکفیر کے سردار ہیں اور معصوم احمدیوں پر ظلم کر کے لذّت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے خواہ چیلنج قبول کریں یا نہ کریں اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا یہ فعل چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہو گا۔آپ نے فرمایا:۔
’’جہاںتک صدرپاکستان ضیاء صاحب کا تعلق ہے ان کے متعلق ہمیں ابھی ان کو کچھ وقت دینا چاہئے۔ ابھی ابھی انہوں نے کچھ سیاسی کارروائیاں کی ہیںاوراگرچہ وہ اسلام کے نام پر کی ہیں مگر بہرحال سیاسی کارروائیاں ہیں اوران میں و ہ مصروف بہت ہیں۔ ابھی تک ان کو یہ بھی قطعی طورپر علم نہیں کہ آئندہ چند روز میں کیا واقعات رونما ہوجائیں گے۔اس لئے ہوسکتا ہے وہ تردّد محسوس کرتے ہوں کہ یہ نہ ہوکہ ِادھر مَیں چیلنج قبول کروں اُدھر کچھ اورواقعہ ہوجائے۔اس لئے جب تک ان کی کرسی مضبوط نہ ہوجائے ،جب تک وہ اپنے منصوبوں پر کاربند نہ ہوجائیں اورمحسوس نہ کریں کہ ہاں اب وہ اس مقام پہ پہنچ گئے ہیں جہاں جس کو چاہیں چیلنج دیں، جس قسم کی عقوبت سے ڈرایا جائے اس کووہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے قبول کریں۔اس مرتبے ومقام تک ابھی و ہ پہنچے نہیں ہیں۔ اس لئے ہم انتظار کرتے ہیں کہ خدا کی تقدیر دیکھیں کیا ظاہر کرے۔ لیکن چیلنج قبو ل کریں یا نہ کریں چونکہ تمام ائمۃالمکفّرین کے امام ہیں اورتمام اذیّت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کئے ہیں اوراس ظلم کے پیچھے پڑ کر جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ جو مَیں نے حکم جاری کیا تھا وہ جاری ہوبھی گیا ہے کہ نہیں اورایک معصوم احمدی کیسے تکلیف محسوس کررہا ہے۔ جب تک یہ پتا نہ چلے، اُن کو لذّت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا۔ اس کا اپنے ظلم وستم میں اسی طرح جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج کو قبول کرلیا ہے۔ اس لئے اس پہلو سے بھی وقت بتائے گا کہ کس حد تک ان کوجرأت ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے کی اور انصاف کا خون کرنے کی۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد7 صفحہ461تا462)
ازاں بعد حضور نے قریبًا ڈیڑھ ماہ تک انہیں مہلت دی کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کر کے جبروتشدّد سے دستکش ہو جائیں لیکن ان کے ظالمانہ رویّہ میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دل میں القائے ربّانی کے تحت ایک زبردست جوش پیدا ہوا اور حضور نے 12؍ اگست 1988ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی ایک انذاری رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ جس قوم کو آج ہم مخاطب کر رہے ہیں، جس کو ہم نے مباہلہ کی دعوت دی ہے بدقسمتی سے ان کے مقدر میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا دن دیکھنا ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا
’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا ایک قسم کا مقدّر بن گئی ہے اور لازمًا ان میں سے ایک طبقہ، مَیں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ سب نہیں، ایک طبقہ عبرت کا نشان بنے گا۔‘‘
چنانچہ آپ نے نہایت پُر جلال لب و لہجہ میں انہیں آخری بار انتباہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اس مو قع پر جبکہ مبا ہلہ کی دعوت غیروںکو دی گئی ہے اس وجہ سے خصو صیت سے کہ یہ استہزاءمیں بڑھ رہے ہیںاور اپنے گزشتہ کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر رہے ۔ استہزاء میں بھی بڑھ رہے ہیں، ظلم میں بھی بڑھ رہے ہیں اور حکو مت کا جہاں تک تعلق ہے وہ معصوم احمدیوں پر قانونی حربے استعمال کر کے طرح طرح کے ستم ڈھارہی ہے۔ اور آپ کو یاد ہوگاکہ مَیں نے آغاز ہی میں حکومت کو متنبہ کیاتھاکہ آپ اگر اپنی شان کے خلاف بھی سمجھتے ہوں چیلنج کو قبول کرنا،اگر آپ زیادتیوں سے باز نہ آئے اور ظلم و ستم کی یہ راہ نہ چھوڑی تو جہاں تک مَیں سمجھتا ہوںخدا کی تقدیر اسے مباہلہ کا چیلنج قبول کر نے کے مترادف بنائے گی اورآپ سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ تو یہ حالات جس طرف اشارہ کر رہے تھے وہاں تک ہمارے ظن کا تعلق تھا۔اندازہ ہو رہا تھا کہ بہت سے ایسے مکذّبین ہیں جو شرارت سے باز نہیں آ رہے بلکہ تمسخر اور استہزاء میں اور ظلم و ستم میں بڑھ رہے ہیں ۔چنانچہ سارے پاکستان میں بار بار یہ کو شش کی گئی ہے علماء کی طرف سے کہ اس مباہلے کو ابتہال کی بجائے اشتعال کاذریعہ بنایا جائے اور کثرت کے ساتھ احمدیوں کے خلاف عوام النّاس کے جذبات مشتعل کرکے اُنہیں ان کو مارنے پیٹنے ،قتل کرنے، لُوٹنے اوران کے گھر جلانے پر آمادہ کیا جائے۔وہ سمجھتے ہیں اس طرح ہم ایک اپنی تقدیر ظاہر کریں گے۔… ہم اپنے ہاتھوں سے ان کوسزا دے سکتے ہیں اور ہم ا ن کو بتائیں گے کہ خدا کون ہے۔چنانچہ اس عزم کے ساتھ وہ اُٹھے ہیں کہ دنیا سے خدا کی خدائی کی بجائے اپنی خدائی منوائیں اور یہ بتائیں کہ ہم میںطاقت ہے ان کو مٹانے کی۔ … اور یہی انہوں نے مبا ہلے کا مطلب سمجھا ہے۔ اس لیے اگر چہ بار ہا کثرت کے ساتھ احمدیوں کی تکلیفوں کی خبر یں مل رہی ہیں۔ لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ یہ مقابلہ خدا سے ہے ان لوگوں کا اوراس میں جماعت احمدیہ نہ کچھ کر سکتی ہے نہ اُس کے کرنے کا کوئی محل اورمقام ہے، صرف انتظار ہے۔خدا کی تقدیر لازمََا ان کوپکڑے گی اور لازمََا اِن کو سزا دے گی جو ان شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ معصوم احمدی جن کو اب سزا دی جا رہی ہے اُن کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ ہم خدا کی طرف اپنے مقدمے کو لے جاتے ہیں۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد7 صفحہ553تا555)
ضیاء نمرودیت کی آگ میں
آخر خدا کے مقدّس خلیفہ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جنرل محمد ضیاء الحق جس نے احمدیت کو کینسر قرار دے کر مٹا دینے کی دھمکی دی تھی 17 ؍ اگست1988ء کو C-130 طیارہ میں حادثہ کا شکار ہو گیا اور خدائے ذوالجلال نے اس کے پرخچے اڑا دیے اور ان جرنیلوں کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جو اس کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق صدر ضیاء الحق کے تابوت میں مرحوم صدر کے صرف جبڑے کی ہڈی تھی کیونکہ ان کی لاش میں صرف یہی ایک جزو تھا جس کی شناخت کی جا سکی۔
( روزنامہ ملّت لندن27،28، اگست1988ء)
چنانچہ فنانشل ٹائمزلندن اپنی سوموار 22؍ اگست 1988ءکی اشاعت میں اسلام آباد پاکستان میں موجود اپنی رپورٹر کرسٹینا لیمب کے حوالہ سے تحریر کرتا ہے:
"The President was burried on the lawn outside Pakistan’s Faisal Mosque, which resembles a spaceship. As the coffin containing only his jaw (nothing else of him could be found) was lowered into the grave, a 21-gun salute sounded.”
(Financial Times 22 August 1988)
تحقیقاتی ٹیم اپنے سائنسی تجزیہ اور تحقیقات کے باوجود آج تک اس راز سربستہ سے پردہ نہیں اٹھا سکی کہ وہ حادثہ کیسے رونما ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جولائی 1986ء میں فرمایا تھا ؎
تمہیں مٹانے کا زُعم لے کر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے
خدا اڑا دے گا خاک ان کی کرے گا رُسوائے عام کہنا
ضیاء کی ہلاکت کے اس نشان سے ایک مردِ خدا کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بڑی شان کے ساتھ پورے ہوئے۔
خدا کی نصرت کے دو نشان – ایک دشمن کی زندگی کااور ایک دشمن کی موت کا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مباہلہ کے نتیجہ میں مبینہ ’مقتول‘ اسلم قریشی کی زندہ سلامت واپسی اور جنرل ضیاء الحق کی عبرتناک ہلاکت کے اعجازی نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ اگست 1988ء میں فرمایا:
’’ خدا نے حال ہی میںدونشان دکھائے ہیں ۔ایک دشمن کی زندگی کا اور ایک دشمن کی موت کا ۔جب ہم نے خدا کی طرف سے دشمن کی زندگی کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے اور جب ہم نے اپنے مولیٰ کی طرف سے دشمن کی موت کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے ۔اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نشان پر ہم خوش ہیں۔ کسی کی موت اورزندگی سے ہماری خوشیوں کا کوئی تعلق نہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جن کے ذاتی تعلقات تھے گمشدہ مولوی سے، جو شور مچا رہے تھے کہ اُس کی موت کا غم ہمیں ہلاک کر رہا ہے۔ جب تک ہم اُس کے خون کا بدلہ نہ لے لیں ہمیں چین نہیں آئے گا ۔اُس کی زندگی کی خوشی کی خبر سُنتے ہی اُن پر موت طاری ہو گئی ۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر طرف سوگ کا عالم ہو ، جھوٹے کی یہ پہچان ہوا کرتی ہے اور اس طرح خدا سچوںاور جھوٹوں میں امتیاز کر کے دکھا دیا کرتا ہے ۔
آج جنرل ضیاء الحق صاحب کی موت پر جو یہ علماء صدمے کا اظہار کر رہے ہیں یہ وہی ہیں جو کل تک اُن کو گالیاں دے رہے تھے ۔اس لیے اُن کے اس ردّعمل نے بتادیا کہ موت کا صدمہ نہیں ان کو اس بات کا صدمہ ہے کہ خدا کا ایک نشان احمدیت کے حق میں ظاہر ہو گیا ۔ اُس کی سیاہی ان کے چہروں پر پھر گئی ہے ۔‘‘
(خطبات ِ طاہر جلد 7۔ صفحہ 560-561)
اسی طرح آپؒ نے فرمایا:
’’بہرحال یہ ایک ایسا عظیم الشان تاریخی نوعیت کا نشان ہے جس کے اوپر ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہونے کے نتیجہ میں شکر واجب ہو گیا ہے اور یہ شکر خداتعالیٰ کی حمد کے ذریعہ ظاہر ہونا چاہئے۔‘‘
(خطبات ِ طاہر جلد 7۔ صفحہ 563)
(باقی آئندہ)