مضامین

جلسہ سالانہ۔ بلیک اینڈ وائٹ سے سمارٹ ٹی وی اور ڈش سے انٹرنیٹ تک

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

ایم ٹی اے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر دیکھنے کے زمانے سے کلر ٹی وی پھر سمارٹ ٹی وی اور پھر ریڈیو، ڈش انٹینا سے انٹرنیٹ تک کا سفر ہماری زندگیوں میں جلسے کے حوالے سے ایک اہم باب لئے ہوئے ہے

ایک اور عالمی جلسہ گزرا ۔ نئی یادوں، جذبات کا تلاطم اور ترقیات کی منازل کا سنگ میل چھوڑ گیا۔ گو ابھی تک کسی مرکزی جلسہ کو بنفس نفیس دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن ایم ٹی اے نے ہمیشہ کی طرح یہ احساس ضرور دے دیا کہ گویا ہم جلسے میں موجود ہیں۔جلسہ یوکے کے پس پردہ سنگ ہائے میل پر تو بےشمار مضامین لکھے گئے ہیں۔ لیکن چند یادوں کے دریچے انفرادی بھی ہیں۔ جو ہر ایک الگ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی صفات سمیع و بصیر ہوں یا سمعھم و ابصارھم غشاوۃ کے الفاظ ہوں یا صم بکم عمی کے۔ سماعت کا ذکر بصارت سے قبل ہے۔ شاید ایک بھید ریڈیو کی ٹی وی سے قبل کی ایجاد میں بھی یہی ہو کہ سماعت کا بصارت سے پہلے درجہ ہے۔ہمارے گھر میں جلسہ سالانہ کی چند تقاریر، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات و خطابات پر مشتمل کیسٹس اور خصوصاً ثاقب زیروی صاحب کی نظموں کی کیسٹیں ریڈیو کے ساتھ پڑے ریک میں کافی عرصہ تک موجود رہیں۔ پھرمرور زمانہ کےسبب یا mp3 ڈیوائسز اور ٹی وی کی ایجاد کے باعث وہ کیسٹیں بھلا دی گئیں۔ابتدائی عمر میں جلسہ کا لفظ سنا کرتے تھے پھر جب ویڈیو کیسٹس پر جلسہ دیکھنا شروع کیا تو مکمل شعور اور اس کی اصل اہمیت کا اندازہ نہ تھا۔ پھر اچانک ایم ٹی اے کی ایجاد ہوئی۔ جس نے جلسہ سے روشناس کروایا۔پھر یوکے تو کیا ایم ٹی اے کی بدولت جرمنی، امریکہ، آسٹریلیا، بھارت، گھاناسب براعظموں کے جلسوں میں شامل ہو گئے۔

ہمارے کر گیا ہے وصل کے سامان ایم ٹی اے

پاکستان میں رہتے ہوئے جلسہ یوکے اور ایم ٹی اے کے حوالے سے کئی یادیں وابستہ ہیں۔پہلا دور بچپن سے جامعہ تک کاہے۔ ایم ٹی اے نیا نیا شروع ہوا تو ہماری پانچ سالہ عمر کے بھی ایسے ایام تھے کہ سب کچھ یاد کا حصہ بنتا گیا۔ اکّادکّا گھروں میں ڈش انٹینا تھا۔ اس وقت واقعی ڈش انٹینا اور ریسیور لگانا نہایت قیمتی تھا اور ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ حلقہ کورنگی کریک،کراچی بعض لحاظ سے جماعت ڈیفنس کے تحت تھا۔ سو ہمارا سنٹر گیسٹ ہاؤس بنا۔ گیسٹ ہاؤس کے صحن کے درمیان میں مردو خواتین کی نشست و برخاست کے لیے قنات، ترتیب سے بچھی صفیں یا دریاں اور سامنے ٹیبل پر پڑا وہ ٹی وی کا دھندلا سا عکس اب بھی ذہن کے کسی گوشے میں ابھرتا ہے۔

جمعہ کے روز کبھی والد صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر یا کبھی ایک انکل کی نارنجی فوکسی کار میں ہم سب گیسٹ ہاؤس جاتے۔ یا بعد میں ایک سفیدرنگ کی کھلی سوزوکی وین میں بیٹھ کر ہم سب وہاں جاتے اور خطبہ جمعہ سن کر واپس آجاتے۔ وہاں ایک جلسہ سننا بھی یاد کا حصہ ہے۔ بلکہ ایک بار تو ڈش کی خرابی کی بنا پر واپس آنا پڑا تھا۔ سوزوکی اس لیے یاد ہے کہ ایک بار واپسی پر اندھیرے کے باعث کورنگی کازوے کی سڑ ک سے بہتے نالے میں گرنے لگے تھے،یہ سڑک پچھلے ماہ شدید برسات میں بہ گئی۔پھر شاید ڈش عام ہوگئی تھی یا ایم ٹی اے چھوٹی ڈش پر آنے لگا تھا۔ حلقہ میں ہی کئی احباب نے ڈش انٹینا لگوا لیا۔ وقف نو میں ہونے کے سبب ہم اکٹھے ہو کر کبھی سیکرٹری صاحب وقف نو کے گھریا کبھی صدر صاحب کے گھر خطبہ سنتے۔ اس کے فوراً بعد وقف نو کی کلاس بھی ہوجاتی۔ لجنہ خطبہ کے ساتھ ہی کوئی پروگرام بنا لیتیں۔کبھی والدہ کے ساتھ ہم خطبہ سننے وہاں بھی چلے جاتے۔ اور جلسہ پر سابق صدر جماعت مکرم نعیم احمد صاحب حال مقیم لندن کے گھر کی بیٹھک یا سابق صدر جماعت مکرم سکندر ججہ صاحب حال مقیم کینیڈا کے گھر کی بالائی چھت پر ساری جماعت کارروائی میں شامل ہوتی۔ ایم ٹی اے کے سبب جلسہ پہلے سے ہی اس طرح بھی اجتماعیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔پاکستان میں کلر ٹی وی تو 1976ء کا شروع ہو چکا تھا اور چند احباب کو اس دوران کلر ٹی وی میسر آ چکا تھا۔ ایم ٹی اے کے سگنلز کی خرابی تھی یا اس زمانے کے ریسیور ہی ایسے تھے۔ دائیں سے بائیں جاتی لائنیں یا عمودی ترچھی لکیریں گننے میں ہمارا وقت صرف ہو جاتا۔ بلکہ ایک بار تو ایک ٹی وی سکرین کے پکسلزکی ایک قطار تک گن ڈالی تھی۔کبھی کسی کے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا جس پر ایم ٹی اے قدرے صاف نظر آتا۔اس زمانہ میں مختلف مسائل کا سامنا رہتا۔ کبھی پکچر ٹیوب کی سیٹنگ ہل جاتی تو سکرین اوپر نیچے جاتی رہتی۔اس وقت اگر کسی کا ڈش انٹینا ہل جاتا تو اسے ٹھیک کرنے والا نہیں ملتا تھا اورٹھیک کرنے میں کئی ایام صرف ہو جاتے۔لوہے کی بڑی ڈش تو ہوا سے بھی نہ ہلتی لیکن چار فٹ والی ڈش آئے دن ہوا سے ہلی رہتی۔ مارکر سے زمین پر تکون کا نشان بنایا جاتا، سٹینڈ کو ویلڈ کروا لیا جاتا۔ سٹینڈ کے نیچے بلاکس یا اینٹیں رکھی جاتیں۔ لیکن پھر بھی روحانی مائدہ کی یہ ڈش ہوا کےدوش پر ہی رہتی۔شروع شروع میں جلسے کے آخری دن مٹھائی سے تواضع ہوتی یا روزانہ سب کو چائے پیش کی جاتی۔کھانا گھر سے کھا کر جاتے یا واپس آکر والدہ پیش کرتیں۔ اختتامی خطاب اگر لمبا ہو جاتا تو اگلے روز گھر پر ہی آنکھ کھلتی۔ایک بار صدر صاحب نے اپنی بیٹھک میں قریباً آٹھ سے نو فٹ کی بلندی پر ٹی وی کارنر لگوا لیا۔ بڑوں کو اس طرح دیکھنے میں شاید آسانی تھی۔ ہمیں بہرحال بہت مشکل ہوتی۔ لیٹ کر دیکھنے میں آسانی تھی لیکن نیند آ لیتی۔سب بڑے ٹی وی سکرین کی جانب ٹکٹکی باندھ کر بیٹھے رہتے اور ہماری ہلکی سی جنبش یا کھلبلی پر ان سب کی تیز نظریں یا آنکھیں نکال کر دیکھنا اور ہونٹوں پر لگی انگلی ہمیں ساکت کر دیتی۔ پھر سال 2000ء کے لگ بھگ ہمیں مستقل نماز سینٹر بھی میسر آگیا۔نماز سینٹر کو آہستہ آہستہ آباد کیا گیا۔ ابتدا میں تین نمازیں شروع ہوئیں۔پھر نمازِ جمعہ کا انتظام بھی ہونے لگا۔ پھر وہاں ہی سارا انتظام ہونے لگا۔ایم ٹی اے کی سہولت بھی گھر گھر میسر آ گئی۔ نماز سینٹر میں بھی ایک بڑا سا رنگین ٹی وی تھا۔ لیکن اس کی سکرین اتنی واضح نہیں تھی۔ جتنا دور بیٹھتے اتنا صاف نظر آتا۔ گھر گھر ایم ٹی اے میسر آنے سے جلسے کا وہ اجتماعی رنگ ایک دو سال کچھ کھٹا پڑا۔ لیکن سابق صدر جماعت محترم رشید احمد قریشی صاحب مرحوم نے جماعتی نظام میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے سب فیملیز کی جلسہ کی کارروائی میں شمولیت نماز سینٹر میں ہی یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جلسے کے ایام میں تینوں روز نمازوں اور عشائیہ کا خصوصی اہتمام ہوتا۔ عالمی بیعت کے بعد خاکی لفافہ میں بالو شاہی بطور شیرینی تقسیم ہوتی یا کبھی جلیبی ہوتی۔جلسے کے ایام میں خطابات سے قبل نمازوں کی ادائیگی اور کھانا تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اطفال ہم چند ہی تھے۔ کھانے کی تقسیم سے برتن دھونے تک کے مراحل خدام کے ساتھ ہمیں ہی طے کرنے پڑتے۔ جلسہ کے ایام پر تو یہ کام آسانی سے ہو جاتا۔ لیکن رمضان کے دوران افطار پر ٹھنڈ میں کچھ مشکل پیش آتی۔جلسہ کی روٹین کے سبب رمضان میں اجتماعی خطبہ جمعہ سننے اور اجتماعی افطار کی روایت زندہ ہو گئی۔ جمعہ کے روز خطبہ دیکھتے دیکھتے افطار کا وقت ہو جاتا۔ افطار اور نماز کے بعد طعام پیش کیا جاتا۔ پھر تراویح پڑھ کر گھر کی راہ لیتے۔ حلقہ میں سات سے آٹھ گھر تھے۔ پھر مزید احمدی ہجرت کرکے آتے رہے تو تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ پہلے ایک کمرہ میں ہی صوفوں یا کرسیوں پر بیٹھ جاتے کہ ہنوز کمرہ خالی ہوتا۔ کجا یہ کہ نماز سینٹر کا وسیع ہال بھی کم پڑنے لگا۔ پھر ڈش کے ساتھ عام رسیور کے بجائے ڈیجیٹل ریسیور ضروری ہو گیا۔ اس سارے زمانہ میں عمر کے لحاظ سے جلسے سے علمی فائدہ سے زیادہ عملی ٹریننگ کا فائدہ ہوا۔

دوسرا دور جامعہ اور ربوہ میں رہائش کا ہے۔ جامعہ میں ٹی وی اچھے تھے اور اس سے قبل ربوہ میں کیبل سسٹم شروع ہو چکا تھا جس کے سبب ایم ٹی اے پورے ربوہ میں بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔قبل ازیں ایک بوسٹر نامی چیز بھی انٹینا پر لگانے سے ربوہ میں ایم ٹی اے دیکھا جاتا تھا۔ جامعہ کے دوران تو جلسے رخصت کے دوران ہی آئے۔ جلسہ قادیان جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن میں دیکھا۔ ساری کارروائی دیکھنے کے لیے میس ہال میں بیٹھے رہے۔ جلسے کے حوالے سے ایک اہم یاد یہ ہے کہ 2011ء میں ہمارا شاہد کا نتیجہ بھی جلسے کے دوسرے روز ہی جامعہ میں آویزاں ہوا تھا۔ خاکسار کو جامعہ پاس کرنے کے بعد جب پہلا الاؤنس ملا تو اس سے گھر میں نیا ڈش انٹینا اور ڈیجیٹل ریسیور لگوا کر دیا۔

دس سال قبل کا یہ زمانہ ایل سی ڈی اور سمارٹ فون کے یکدم عام ہونے کا زمانہ تھا۔ٹی وی کی جگہ ایل سی ڈیز اور پھر ایل ای ڈیز لینے لگیں۔ پھر یکایک ہر ایک کے پاس سمارٹ فون آگئے۔ اور آہستہ آہستہ ایم ٹی اے کا مائدہ ڈش کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعہ انفرادی طور پربھی میسر آگیا۔ موبائل پر جب مرضی ایم ٹی اے ٹیون (tune) کر لیا۔ اسی طرح ڈش کے بعد کیبل اور پھر سمارٹ ٹی وی کی ایجاد سے بظاہر ربوہ میں ڈش کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ لیکن پھر حکومتی انتظامیہ کے کیبل قوانین، کبھی یو ٹیوب یا کبھی جماعتی ویب سائٹس کو بین کرنے کے سبب اکثر لوگ پھر ڈش انٹینا کی طرف لوٹ گئے۔ اب اس بڑی جمبو سائز ڈش کی بجائے چار فٹ یا دو فٹ کی ڈش پر بھی بآسانی ایم ٹی اے میسر ہو گیا۔ جامعہ کے بعد سارے جلسے ربوہ میں ہی دیکھے۔ دفاتر میں جلسے کے دوسرے اور تیسرے روز جلد چھٹی ہو جاتی۔ دکانوں پرموجود ٹی وی پر بھی ایم ٹی اے چلتا رہتا۔پھر بازار سرِ شام ہی بند ہو جاتے۔ جلسے کے کامیاب انعقاد، عالمی بیعت اور جماعت احمدیہ کی ایک سالہ کارکردگی اور ترقیات کی خوشی میں اگلے روز ہر یک کارکن کو مٹھائی کا ڈبہ بطور شیرینی تقسیم ہوتا۔ عالمی بیعت کےمعاً بعد بھی مساجد و محلہ جات میں شیرینی تقسیم ہوتی یا بعض محلے کھانے کا انتظام بھی کرتے۔ یا تنظیمی سطح پر مساجد میں کھانے کا انتظام کیا جاتا۔

گزشتہ سالوں میں حکومتی قوانین کے سبب ایم ٹی اے کیبل پر بند ہوا تو جلسہ دیکھنے میں کافی مشکل رہی۔ اس وقت انٹرنیٹ اور سمارٹ ٹی وی کے موجدوں نے احمدیوں سے بھرپور دعاؤں پر دعائیں سمیٹیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی بوڑھی والدہ نے سمارٹ ٹی وی کے سبب سائنسی ترقی کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دی تھیں۔

تیسرا دور افریقہ کاہے۔ یہاں ایم ٹی اے کے حوالے سے وہی پرانا دور ایک جدت کے ساتھ جاری ہے۔ یہاں عمومی طور پر مساجد اور مشن ہاؤسز میں ایم ٹی اے کی سہولت ہے۔ جہاں بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین اکٹھے ہو کر ایم ٹی اے سے مستفیض ہوتے ہیں۔ ایم ٹی اے لگا کر میوٹ کر دیا جاتا ہے اوراحمدیہ ریڈیو سے مقامی زبان میں ترجمہ سنایا جاتا ہے۔ بعض احمدیوں نے اپنا انتظام بھی کیا ہوا ہے۔ روکوپر جماعت کے ایک احمدی نے اپنے گھر پر صرف ایم ٹی اے افریقہ سیٹ کیا ہوا ہے اور کسی کو چینل بدلنے کی اجازت نہیں بے شک کسی اجنبی زبان کا پروگرام نشر ہو رہا ہو۔

پسماندہ خیال کیے جانے والے اس بر اعظم میں چھوٹی ڈشوں پر ایم ٹی اے افریقہ ہمہ وقت میسر ہے۔ بلٹ اِن ریسیور والےسمارٹ LED میسر ہیں۔ پھر انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی کئی زبانوں میں ایم ٹی اے کے آٹھوں چینل ہمہ وقت میسر ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ ایک بڑے ایونٹ میں سمارٹ ٹی وی پر انٹرنیٹ کے ذریعہ احمدی و غیر از جماعت احبا ب کو حضور انور کا خطبہ جمعہ دکھایاگیا۔ نہ ڈش کی، نہ ریسیور کی اور نہ تار کی ضرورت! صرف ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ!

ابھی جلسہ یوکے گزرا۔تینوں دن خوب بارش برسی۔ جلسہ شروع ہوتا تو ساتھ ہی بارش کی شدت بڑھتی جاتی۔ اور سگنلز آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ۔ پھر انٹرنیٹ پر چلے جاتے ۔ ٹی وی بند کر کے موبائل پر ایم ٹی اے دیکھ لیتے۔ غرض اشاعت احمدیت کی آواز کا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو چاہے جلسہ ہو یا کوئی اور پروگرام۔ جدید ایجادات مسیح الزمانؑ کے مشن کی تکمیل کے لیے ہر طرح سے سہولت دیتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ:

’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ ورابطہ رہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح معودؑ از حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ24)

امسال جلسہ سالانہ یوکے پر دنیا بھر کے احمدیوں نے چاروں جانب سے اپنی جماعتوں کی کھڑکیاں جلسہ سالانہ یوکے کے پنڈال میں کھول لیں اور جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر خلافت احمدیہ کے گھر کی کھڑکی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جرمنی کے پنڈال میں کھلی اور دنیا بھر نے اپنے پیارے امام کو دیکھا اور سنا۔

جس مکاں کی آرزو مہدی کو تھی

ہو بہو ویسا مکاں ہے ایم ٹی اے

ایم ٹی اے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر دیکھنے کے زمانے سے کلر ٹی وی پھر سمارٹ ٹی وی اور پھر ریڈیو، ڈش انٹینا سے انٹرنیٹ تک کا سفر ہماری زندگیوں میں جلسے کے حوالے سے ایک اہم باب لیے ہوئے ہے۔ وہ دن بعید نہیں کہ کسی اور جدید نظام کے ذریعہ کوئی اور ایسی کھڑکی(window) بھی کھل جائے کہ ہم اپنی جگہ رہتے ہوئے کسی اور طور سےجلسے میں شامل ہو سکیں گے۔ان شاء اللہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button