فتحِ اسلام
سو اس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لیے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پرامر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا ہے
تعارف
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے1890ءکے آخر میں رسالہ فتح اسلام لکھا جو1891ءکے اوائل میں چھپ کر شائع ہوا۔ اس میں آپ نے اعلان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ’’مسیح‘‘ جو آنے والا تھا، یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ نیز فرمایا ’’مسیح‘‘کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
مضامین کا خلاصہ
اس کتاب فتح اسلام کے ٹائٹل پیج پر درج ذیل الہامی اشعار درج ہیں۔
کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تم نے مسیحا بنا دیا
اس کتاب کے مضامین کا خلاصہ اس کتاب کے پورے نام یا ٹائٹل میں یوں درج ہے کہ فتح اسلام اور خدا تعالیٰ کی تجلی خاص کی بشارت اور اس کی پیروی کی راہوں اور اس کی تائید کے طریقوں کی طرف دعوت۔اس کتاب کی غرض یوں بیان فرمائی کہ یہ عاجز ایک مدت مدید کے بعد اس الٰہی کارخانہ کے بارےمیں جو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی حمایت کے لیےمیرے سپرد کیا ہے ایک ضروری مضمون کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہے۔ فرمایا :اے حق کے طالبواور اسلام کے سچے محبو! وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں، اس کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے اور وہ امور جن کا نام اعمال صالحہ ہے ان کا مصداق چند رسوم یا اسراف یا ریاکاری کے کام سمجھے گئے ہیں….۔ جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایساہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے علوم ضروریہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستغنی ہو چکتے ہیں۔ امانت اور دیانت ایسی اٹھ گئی ہے کہ گویا بکلی مفقودہو گئی ہے۔ دنیا کمانے کے لیے مکر اور فریب حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ طرح طرح کی ناراستی(جھوٹ)، بد دیانتی، حرام کاری، دغابازی اور لالچ سے بھری ہوئی خصلتیں پھیلتی جاتی ہیں۔
پھر عیسائیوں کی تعلیم بھی سچائی اور ایمانداری کے اڑانے کے لیے کئی قسم کی سرنگیں تیار کر رہی ہے۔ عیسائی لوگ اسلام کے مٹا دینے کے لیے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتوں کو کام میں لا رہے ہیں اور اس انسان کامل کی سخت توہین کر رہے ہیں جو تمام مقدسوں کا فخر اور تمام مقربوں کا سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کا سردار تھا۔اب اے مسلمانو! سنو کہ یہ کرسچن قوم اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک ان کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پر زور ہاتھ نہ دکھلاوے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کا مخلصی پانا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے…. سو اے مسلمانو! اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے۔ کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا۔ اے دانشمندو! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے ضرورت کے وقت میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحت عام کے لیے بغرض اعلائےکلمہ اسلام و اشاعت نور حضرت خیرالانام دنیا میں بھیجا۔ تعجب تو اس بات میں ہوتا کہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا وہ اس تاریکی کو دیکھ کر چپ رہتا اور رسول پاک ﷺکی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندے کو پیدا کرتا رہے گاکہ جو اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
تجدید دین کی حقیقت
فرمایا: تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اول عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الٰہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو۔ پھر دوسروں میں جلد یا دیر سے اس کی سرایت ہوتی ہے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔
نیز فرمایا:اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اورشکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئےوہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے میں رک نہیں سکتا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح وہ شخص بعد کلیم اللہ مردِ خدا کے بھیجا گیا تھا۔ جس کی روح ہیرو دیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔
مسیح ابن مریم کے ظہور کا زمانہ
ہمارا زمانہ ایسا ہے جیسے حضرت مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت ظاہر پرستی، دیانت اور امانت سے محرومی، لالچ، بخل اور حب دنیا یہودیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہمارے اکثر علماء بھی اس وقت کے فقیہوں اور فریسیوں سے کم نہیں اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ حضرت عالی جناب سیدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطور پیشگوئی فرما چکے تھے کہ اس امت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کر لے گی۔ تب فارس کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہو گا۔ مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ کھول دیا کہ حضرت مسیح ابن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا۔ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع اور خاصیت اور استعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے۔ جو ابراہیم کے دل کے موافق دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم ہے، اور جو عمر فاروق کا دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عمر فاروق ہے۔ چنانچہ اس عاجز کو بھی ایک مرتبہ اس بارے میں الہام ہوا تھا کہ فِیْکَ مَادَۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔ سو اس عاجز کو اور بزرگوں کی فطرتی مشابہت سے علاوہ جس کی تفصیل براہین احمدیہ میں مندرج ہےحضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اور اسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تاصلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔فرشتوں کا نزول عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدث اصلاح خلق اللہ کے لیے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترتے ہیں جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت ڈالتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےتَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ سَلٰمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ سو ملائکہ اور روح القدوس کا نزول یعنی آسمان سے اترنا اسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلام الٰہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے۔چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لیے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف سے پاؤ گے۔ وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے۔ سو تم اس نشان کے منتظر رہو۔اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور ان کے اترنے کی نمایاں تاثیریں تم نے نہ دیکھیں تو تم یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا۔
دوسرا نشان یہ ہے کہ خدا نے اس عاجز کو ان نوروں سے خاص کیا ہے جو برگزیدہ بندوں کو ملتے ہیں۔ جن کا دوسرے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پس اگر تم کو شک ہو تو مقابلہ کے لیے آؤاور یقیناً سمجھو کہ تم ہرگز مقابلہ نہیں کر سکو گے۔
تیسرا نشان یہ ہے کہ وہ برگزیدہ نبی جس پر تم ایمان لانے کا دعوی کرتے ہو اس پاک نبی نے اس عاجز کے بارے میں لکھا ہے جو تمہاری صحاح میں موجود ہے مگر تم غور نہیں کرتے ۔سو تم دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نہانی دشمن ہو کہ ان کی تصدیق کے لیے نہیں بلکہ تکذیب کے لیے فکر کر رہے ہو۔ پھر فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں۔ مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اترے گی…سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لیے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چھڑنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لیے نہ کھو دیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے ۔وہ کیا ہے۔ ہمارا اس راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔
سو اس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لیے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پرامر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا ہے۔پہلی شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے۔ جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے۔ جو بحکم الٰہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے۔ تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لیے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں…تمام نبی اس طریق کو ملحوظ رکھتے رہے ہیں جس قدر مقالات انبیاء ہیں وہ اپنے اپنے محل پر تقریروں کی طرح پھیلتے رہے ہیں۔ عام قاعدہ نبیوں کا یہی تھا کہ ایک محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقت میں مختلف مجالس اور محافل میں ان کے حال کے مطابق روح سے قوت پا کر تقریریں کرتے تھے۔ سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور واردین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور ان کی ضرورتوں کے لحاظ سے اور ان کے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ باب تقریر کھلا رہتا ہے۔سو کسی بنا پر یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لیے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لیے شوق رکھتے ہوں…تا اسلام کی روشنی عام طور پر دنیا میں پھیل جائے…۔ اسی کی بشارت دے کر خداوند خدا نے مجھے بھیجا اور کہا کہ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیان برمینار بلند تر محکم افتاد۔چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ اب تک عرصہ مذکورہ بالا میں نوے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا۔ بجز بعض خطوط کے جو فضول یا غیر ضروری سمجھے گئے اور یہ سلسلہ بھی بدستور جاری ہے اور ہر ایک مہینے میں غالباً تین سو سے سات سو یا ہزار تک خطوط کی آمدورفت کی نوبت پہنچتی ہے۔ پانچویں شاخ اس کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص وحی اور الہام سے قائم کی مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ہے۔ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفان ضلالت برپا ہے۔ تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر جو شخص اس کشتی میں سوار ہوگا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گااور جو انکار میں رہے گا اس کے لیے موت درپیش ہے۔ نیزفرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس خداوند خدا نے مجھے بشارت دی کہ میں تجھےوفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا مگر تیرے سچے متبعین اور محبین قیامت کے دن تک رہیں گے اور ہمیشہ منکرین پر انہیں غلبہ رہے گا۔یہ پانچ دور کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا…. خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں…اسی کے حکم اور تحریک سے مسلمانوں کو امداد کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ سو اسی توجہ دہی کی غرض سے کہتا ہوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ان پنجگانہ شاخوں کے احسن طریق اور وسیع طور پر جاری رہنے کے لیے کسی قدر مسلمانوں کی جمہوری امداد درکار ہے۔
علیگڑھ کا ایک عجیب قصہ
فرمایا: ایک دفعہ مجھے علیگڑھ جانے کا اتفاق ہوا اور مرض ضعف دماغ کی وجہ سے میں اس لائق نہ تھا کہ زیادہ گفتگو اور کوئی دماغی کام کر سکتا۔ ایسی حالت میں علیگڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسماعیل نام مجھ سے ملے اور نہایت انکساری سے وعظ کرنے کی درخواست کی اور میں نے اس درخواست کو بشوق دل قبول کیا۔ لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغز خواری کر کے کسی جسمانی بلا میں پڑوں۔ اس لیے اس نے وعظ کرنے سےروک دیا۔ ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گزشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھے ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو اس سے تم بیمار ہو جاؤ گے۔بہرحال خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک روک تھی جس کا مولوی صاحب کی خدمت میں عذر کر دیا گیا اور یہ عذر واقعی سچا تھا۔ مگر افسوس کے باوجود یکہ ہر ایک مومن حسن ظن کےلیے مامور ہے مولوی صاحب نے میرے اس عذر کو نیک ظنی سے دل میں جگہ نہیں دی۔ چنانچہ ان کی ساری وہ تقریر جس کو ایک ڈاکٹر جمال الدین نے ان کی اجازت سے لوگوں میں پھیلایا ذیل میں مع جواب تحریر کرتا ہوں ۔قولہ: میں نے ان سے یعنی اس عاجز سے کہا کہ کل جمعہ ہے وعظ فرمائیے ۔انہوں نے وعدہ بھی کیا مگر صبح کو رقعہ آیا کہ میں بذریعہ الہام وعظ کہنے سے منع کیا گیا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ بہ سبب عجز بیانی و خوف امتحانی انکار کر دیا۔ اقول: مولوی صاحب کا یہ خیال بجز بدگمانی کے جو سخت ممنوعات شریعہ میں سے ہے کوئی اصلیت نہیں رکھتا۔ اگر میں اس موقع پر الہام کا مدعی بنتا تو بے شک بد ظنی کرنے کی ایک وجہ ہو سکتی تھی مگر میں اس دعویٰ الہام کو علی گڑھ کے سفر سے چھ سال پہلے تمام ملک میں شائع کر چکا ہوں۔ اگر میں تقریر کرنے سے عاجز ہوتا تو وہ کتابیں جو میری طرف سے تقریری طور پر عین مجلس میں اور ہزار ہا موافقین اور مخالفین کے جلسہ میں قلم بند ہو کر شائع ہوئی ہیں وہ کیونکر میری ایسی ضعیف قوت ناطقہ سے نکل سکتی تھیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کسی ملہم بندہ کو کسی مصلحت کی وجہ سے یہ کام کرنے سے روک دیوے اور شاید اس روک کا دوسرا سبب یہ بھی ہوگا کہ آپ کی اندرونی خاصیتوں کا امتحان ہو جائے۔قولہ: یہ شخص محض نالائق ہے علمی لیاقت نہیں رکھتا۔اقول: اے حضرت مجھے دنیا کی کسی حکمت اور دانائی کا دعویٰ نہیں۔ میرے لیے یہ بس ہے کہ عنایت الٰہی نے میری دستگیری کی اور وہ علم بخشا کہ مدارس سے نہیں بلکہ آسمانی معلم سے ملتا ہے۔ اگر مجھے امی کہا جائے تو اس میں میری کیا کسر شان ہے بلکہ جائے فخر۔قولہ: میں نے الہام کے بارہ میں اس سے(اس عاجز سے) چند سوال کئے کسی قدر بے معنی جواب دے کر سکوت اختیار کیا۔اقول: مجھے یاد ہے کہ بہت پرمعانی جواب دیا گیا تھا اور ایسے شخص کے لیے جو کسی قدر عقل اور انصاف رکھتا ہو کافی تھا مگر آپ نے نہ سمجھا اس میں کس کی پردہ دری ہے آپ کی یا کسی اور کی۔قولہ: ہرگز یقین نہیں ہو سکتا کہ ایسی عمدہ تصانیف کے یہی حضرت مصنف ہیں۔اقول: آپ کیا یقین کریں گے۔ یہ یقین تو ان کفار کو بھی میسر نہ آیا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بچشم خود دیکھا تھا اور بباعث سخت محجوب ہونے کے کمالات نبوی ان پر نہ کھل سکے۔ ایسا ہی وہ کتابیں جو اس عاجز نے تالیف کی ہیں درحقیقت یہ تمام غیبی مدد کا نتیجہ ہیں۔قولہ: مجھے فقرات الہام پر غور کرنے سے ہرگز یقین نہیں آتا کہ وہ الہام ہیں۔اقول: ان لوگوں کو بھی یقین نہیں آیا جن کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا۔فرعون کو یقین نہ آیا۔ یہودیوں کے فقیہوں اور فریسیوں کو یقین نہ آیا، ابو جہل،ابو لہب کو یقین نہ آیا۔ مگر ان کو آیا جو دل کے غریب اور نفس کے پاک تھے۔پھرمکتوبات کی شاخ کے متعلق فرمایا کہ بلا شبہ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ جس طرح ہم ایک لاکھ کتاب کو مفت تقسیم کرنے کی حالت میں صرف بیس روز میں وہ کتابیں دور دور ملکوں میں پہنچا سکتے ہیں اور ایسی اعلی درجہ کی کاروائی قیمت پر دینے کی حالت میں شاید بیس برس کی مدت میں بھی ہم نہیں کر سکیں گے۔ حاشیہ میں تحریر فرمایا کہ برٹش اور فارن بائیبل سوسائٹی نے ابتدا ءقیام سے یعنی گزشتہ اکیس سال کے عرصہ میں عیسائی مذہب کی تائید میں سات کروڑ سے کچھ زیادہ اپنی مذہبی کتابیں تقسیم کر کے دنیا میں پھیلائی ہیں۔نیز فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی تمام شاخوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا ہے اور بنظر مساوات ان سب کی تکمیل اور ان سب کا قیام چاہتا ہے۔ لیکن ان پنجگانہ شاخوں کے معارف اس قدر ہیں کہ جن کے لیے مخلصین کی خاص توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہے ۔مگر اے بھائیو! تم نمونہ کے طور پر صرف واردین اور صادرین کے ہی سلسلہ پر ہی نظر ڈال کر دیکھ لو کہ اب تک سال سال کے عرصہ میں ساٹھ ہزار کے قریب یا اس سے کچھ زیادہ مہمان آیا ہے۔ایسا ہی وہ بیس ہزار اشتہار جو انگریزی اور اردو میں چھاپے گئے پھر بارہ ہزار سے کچھ زائد مخالفین کے سرگرہوں کے نام رجسٹری کرا کر بھیجے گئے۔ بلکہ یورپ اور امریکہ کے ممالک میں بھی یہ اشتہارات بذریعہ رجسٹری بھیج کر حجت کو تمام کر دیا گیا۔ نیز فرمایا اے ملک ہند! کیا تجھ میں کوئی ایسا باہمت امیر نہیں کہ اگر اور نہیں تو فقط اسی شاخ کے اخراجات کا متحمل ہو سکے۔ اگر پانچ مومن ذی مقدرت اس وقت کو پہچان لیں تو ان پانچ شاخوں کا اہتمام اپنے اپنے ذمہ لے سکتے ہیں۔ اے خداوند خدا تو آپ ان دلوں کو جگا… فرمایا مسلمان بننا آسان نہیں۔ مومن کا لقب پانا سہل نہیں۔ سو اے لوگو! اگر تم میں وہ راستی کی روح ہے جو مومن دل کو دی جاتی ہے تو اس میری دعوت کو سرسری نگاہ سے مت دیکھو ۔نیکی حاصل کرنے کی فکر کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں آسمان پر دیکھ رہا ہے کہ تم اس پیغام کو سن کر کیا جواب دیتے ہو۔
لیلۃ القدر کیا چیز ہے
خدا تعالیٰ لیلۃ القدر کے متعلق فرماتا ہے کہ اس کا کلام اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اور ہر ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے۔ لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہےکہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کر دے۔ اس زمانے کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ اسی طرف اللہ جلشانہ اشارہ فرماتا ہے لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡر یعنی اس لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اَسی برس کے بڈھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا۔سواے اسلام کےذی مقدرت لوگو دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اورساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہیے۔ اور اس کے سارے پہلوؤں کو بہ نظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہیے۔اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے ۔لیکن میں اس خدمت کے لیے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تاکہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں۔ فرمایا: اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہ رہے گی ۔مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا ہے اور راستی پر قدم مارتا ہےاور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں۔اس جگہ میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر رہ نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لیے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نوردین ہے۔ میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لیے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نمونہ کے طور پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓکے خطوط کی چند پر اخلاص سطوردرج فرمائی ہیں۔ نیز فرمایا: اس جگہ میں اپنے چند اور ولی دوستوں کا بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو اس الٰہی سلسلہ میں داخل اور میرے ساتھ سرگرمی سےدلی محبت رکھتے ہیں۔ان میں اخویم مولوی شیخ محمد حسین مراد آبادی ہیں۔ پھر اخویم حکیم فضل دین بھیروی ہیں۔ فرمایا: میں ان کی فراست ایمانی سے متعجب ہوں کہ ان کے ارادے کو خدا تعالیٰ کے ارادے سے توارد ہو گیا۔پھر میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سامانہ علاقہ پٹیالہ ہیں۔ میرزا صاحب مرحوم جس قدر مجھ سے محض للہ محبت رکھتے اور جس قدر مجھ میں فنا ہو رہے تھے میں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں تا اس عشقی مرتبہ کو بیان کر سکوں۔ میں نے بطور نمونہ اس جگہ چند دوستوں کا ذکر کیا ہے اور اسی رنگ میں اور اسی شان کے میرے اور دوست بھی ہیں جن کا مفصل ذکر انشاءاللہ ایک مستقل رسالے میں کروں گا۔ اور میں اس جگہ اس بات کا اظہار بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہیں وہ سب کے سب ابھی اس بات کے لائق نہیں کہ میں ان کی نسبت کوئی عمدہ رائے ظاہر کر سکوں بلکہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ اول ان میں دلسوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب ان پر سخت قبض وارد ہے….میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دیے جائیں گے بجز اس شخص کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل نئے سرے اس کا ہاتھ پکڑ لیوے۔ ایسے بھی بہت ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے مجھے دے دیا ہے اور میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں۔اس تصنیف لطیف کے آخر پر فرمایا کہ میں ان لوگوں کا وسوسہ بھی دور کرنا چاہتا ہوں جو ذی مقدرت لوگ ہیں اور اپنے تئیں بڑا فیاض اور دین کی راہ میں فدا شدہ خیال کرتے ہیں لیکن اپنے مالوں کو محل پر خرچ کرنے سے بکلی منحرف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی صادق مؤید من اللہ کا زمانہ پاتے جو دین کی تائید کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوتا تو ہم اس کی نصرت کی راہ میں ایسے جھکتے کہ قربان ہی ہو جاتے ۔مگر اے لوگو !تم پر واضح رہے کہ دین کی تائید کے لیے ایک شخص بھیجا گیا لیکن تم نے اسے شناخت نہیں کیا۔ وہ تمہارے درمیان ہے اور یہی ہے جو بول رہا ہے پر تمہاری آنکھوں پر پردے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا یہی تائید دین کے لیے کافی ہےمگر وہ نہیں جانتے کہ دین کس چیز کا نام ہے۔ سو انہیں جاننا چاہیے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے۔ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتا ہے اور جو آسمان سے اترا وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے۔ اے وےلوگو! جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک و شبہات کے پنجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اِسمی اور رَسمی اسلام پر ناز مت کرو…مبادہ سفر آخرت ایسی صورت میں پیش آوے جو در حقیقت الحاد اور بے ایمانی کی صورت ہو…کیا بدقسمتی ہے کہ بڑےاہم امرسے تم قطعا ًغافل اور آنکھیں بند کئے بیٹھے ہو۔ تمہیں خوب خبر ہے کہ بلا شبہ وہ وقت تم پر آنے والا ہے جو ایک دم میں تمہاری زندگی اور تمہاری ساری آرزوؤں کا خاتمہ کر دے گا۔ تم نے خدا تعالیٰ کے آسمانی سلسلہ کو بہت ہلکا سمجھ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ذکر کرنے میں بھی تمہاری زبانیں کراہت سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ ہجو کا حق ادا کرتی ہیں اور تم بار بار کہتے ہو کہ ہمیں کیونکر یقین آوے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے۔ میں ابھی اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کروگے۔ میں نے ایک دفعہ یہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے اب تمہارے اختیارمیں ہے کہ اسے قبول کرو یا نہ کرو۔
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارو
یاد آئیں گے تمہیں میرے سخن میرے بعد
اس کتاب کا تتمہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے منظوم فارسی کلام پر فرمایا ہے۔
٭…٭…٭