الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
خلفاءِ احمدیت کی حسین یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ16مئی 2012ء میں مکرم انور احمد رشید صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے خلفائے احمدیت کے حوالہ سے اپنی حسین یادوں کو بیان کیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ:
٭ ہم سب بھائیوں کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے رکھے۔ ہمارے نانا جان مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان میرے بھائی انس کی پیدائش کے موقع پر جب نام رکھوانے گئے تو حضورؓ نے فرمایا کہ کیا بار بار آجاتے ہو!۔ اور پھر تین نام بتادئیے۔ ایک انس تھا دوسرا قمر اور تیسرا اختر۔ اس طرح قمر کو بھی جس کی پیدائش حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی وفات کے کافی عرصہ بعد ہوئی یہ اعزاز بفضل اللہ تعالیٰ حاصل ہو گیا۔
٭ ایک بار مَیں اور میرا بھائی انس حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ ہم میں سے ایک بھائی کیڈٹ کالج حسن ابدال اور دوسرا پبلک سکول ایبٹ آباد میںپڑھتا ہے۔ حضورؒ نے پوچھا کہ آپ کے پرنسپل کون ہیں؟ انس کے پرنسپل N.D.Hassan صاحب تھے اور خاکسار کے پرنسپل کا نام S.A.Rehman تھا۔ حضورؒ نے بتایا کہ وہ ان دونوں صاحبان کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ حضورؒ کا ذاتی دائرۂ واقفیت واقعی حیران کُن تھا۔
٭ ایک بار احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن لاہور کی حضورؒ سے ملاقات تھی۔ حضورؒ نے اس موقع پر طلباء سے سوال کیا کہ نئی ایجادات میں سب سے زیادہ نقصان ابھی تک انسان کو کس چیز سے پہنچا ہے؟ جس پر مختلف جوابات دئیے گئے۔
آخر میں حضورؒ نے فرمایا کہ مصنوعی کھاد نے اس وقت تک انسان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے دو ہفتہ بعد ہمارے نانا جان وفات پا گئے۔ خطبہ جمعہ میں ذکر خیر فرمایا اور بعدنماز جمعہ نمازجنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد پیشانی پر بوسہ دیا اور ماتھے پر حضرت مسیح موعودؑ کی انگوٹھی مبارک لگا کر مختصر دعا کی۔ اس کے بعد تدفین کا پروگرام پوچھا نیز فرمایا کہ میں خود آئوں گا۔ چنانچہ ازراہ شفقت تدفین پر تشریف لائے اور دعا کروائی اور معاً بعد گھر تشریف لا کر محترمہ نانی جان سے تعزیت کی۔
٭ حضور بہت احتیاط پسند تھے۔ مَیں نے دیکھا تھا کہ خلیفہ بننے سے قبل نماز جمعہ یا دیگر بڑے اجتماعات کے مواقع پر اپنا ایک جوتا ایک ستون کے پاس اور دوسرا دوسرے ستون کے پاس رکھتے تاکہ کوئی غلطی سے بھی نہ لے جائے اور پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔
اسی طرح ایک بار مَیں نے ایک شخص کا معروف نام لے کر حضورؒ سے پوچھا کہ آیا ہم فلاں کام کے سلسلہ میں اُن سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ حضورؒ اُس شخص کو اچھی طرح جانتے تھے لیکن حضورؒ نے میرے بولے ہوئے نام کو دُہرا کر پوچھاکون صاحب؟۔ جس پر خاکسار نے اُن کا مکمل نام لیا تو حضورؒنے جواب عطا فرمایا۔ اس امر سے بھی حضور کی احتیاط پسندی کا اظہار ہوتا ہے کہ کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہ رہے۔
٭ MTA کے ابتدائی ایام میں جب حضورؒ نے سویڈن کا دورہ فرمایا تو مالموؔ سے خطبہ جمعہ کی Live نشریات پیش کرنے کے سلسلہ میں کارروائی شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اخراجات بہت زیادہ تھے اور اُس وقت تک سرکاری TV کے ادارہ Teracom کی مکمل اجارہ داری تھی۔ مالمو میں اُنہی ایام میں ٹینس کے Davis cup کا فائنل ہو رہا تھا جو کہ پوری دنیا میں دکھایا جانا تھا اور اُن کا پورا سٹاف وہاں مصروف تھا۔ دوبارہ رابطہ کرنے پر اُن کا چیف کہنے لگا کہ سارا سٹاف مصروف ہے اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ مَیں خود ہی سٹاک ہولم سے مالمو آئوں۔ چلو میں ایسے کر لیتا ہوں کہ اس بہانے میں Davis cup کا فائنل بھی دیکھ لوں گا۔ ہم حیران تھے کہ اس Live ٹرانسمیشن کے جو اخراجات ادا کئے گئے وہ ایک ہزار پائونڈ سے کم تھے۔ نیز MTA کی تاریخ میں پہلی بار لندن سے سیٹلائٹ سے رابطہ منقطع کرکے مالمو سے براہ راست سگنل سیٹلائٹ کو بھیجا گیا۔
اُس روز حضور انور کی کوپن ہیگن سے آمد میں کچھ دیر ہو گئی اور جو خطبہ ایک بجے نشر ہونا تھا تقریباً دو گھنٹے لیٹ شروع ہوا۔ ہمیں یہ فکر تھی کہ کہیں Teracom کا سٹاف یہ نہ کہہ دے کہ آپ کا ایک گھنٹہ ختم ہوگیا ہے۔ خداکا فضل ہے کہ اُن کی طرف سے اس بات کا ذرا بھی اظہار نہ ہوا اور نہ ہی انہوں نے اس تاخیر کے کچھ چارجز لئے۔ اس خطبہ جمعہ میں حضورؒ نے آغاز میں پہلی بات یہی فرمائی کہ اس Live نشریات کے اخراجات جن نوجوانوں نے ادا کئے ہیں تمام احباب ان کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔
٭ ایک بار خاکسار نے ملاقات میں حضورؒ کی ایک تصویر پر دستخط فرمانے کے لئے درخواست کی۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت دستخط ثبت فرما دئیے اور پوچھا کہ تم نے یہ تصویر کیوں چُنی ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور نے اس تصویر میں حضرت مسیح موعودؑ کا کوٹ زیب تن کیا ہوا ہے۔ اس پر فرمایا کہ ’’مَیں بھی یہی سننا چاہتا تھا‘‘ ۔
اسی طرح ایک ملاقات کے دوران نصیحت فرمائی کہ سویڈن میں نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کریں۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ مغربی ممالک کے چرچز میں سے اسلام کے خلاف سب سے زیادہ متعصب سویڈش چرچ ہے۔
سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2012ء میں مکرم مقصود الحق صاحب (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی) کے محرّرہ ایک مضمون میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یادوں کے حوالہ سے متفرق مشاہدات بیان کئے ہیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جرمنی کے دوروں پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ حضورؒ عہدیداران کی تربیت اور اصلاح ساتھ ساتھ فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ کے ایک اجتماع کے دوران جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان کا وقت آیا تو حضورؒ نے نیشنل امیر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے جمعہ کی اذان دینے کے لئے کسی کو مقرر کردیا ہے؟ امیر صاحب نے عرض کیا کہ نہیں، میرا خیال ہے کہ خدام الاحمدیہ نے انتظام کر دیا ہوگا۔ تو مَیں چونکہ پاس ہی بیٹھا تھا اس لئے میں نے عرض کیا کہ جی حضور! مَیں نے انتظام کر دیا ہوا ہے۔ پہلے تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے حضورؒ نے میری بات نہیں سنی کیونکہ حضورؒ کی توجہ امیر صاحب کی طرف ہی رہی۔ مگر تھوڑی دیر بعد امیر صاحب کی طرف سے توجہ پھیر کر اپنا رُخ میری طرف کیا اور فرمایا کہ آپ کی بات بھی درست ہے، لیکن جہاں تک جمعہ کا تعلق ہے جب میرا دورہ ہو تو اس وقت اوّل ذمہ داری امیر ملک کی ہوتی ہے کہ وہ یہ انتظام کریں۔
٭ ایک اجتماع کے دوران عہدیداران کے مابین ایک فٹبال میچ ہوا۔ میچ کے بعد حضورؒ مجھ سے فرمانے لگے: وہ آپ ہی تھے ناں جو پہلے اٹیک کرنے کے لئے جاتے تھے اور پھر تیزی سے پیچھے دوڑتے تھے تاکہ جاکے دفاع کریں۔ انسان اگر ایسی سوچ کے ساتھ چلے تو کامیاب رہتا ہے۔ جب حملہ کرنے کا وقت آئے تو بھرپور حملہ کرے اور جب اس پر حملہ ہو تو وہ فوراً اپنا دفاع کرے۔
٭ جب رسالہ ’’نورالدین‘‘ کا اجراء ہوا تو ہمارے کاتب صاحب نے صفحوں کو پورا کرنے کے لئے کچھ ادبی مواد بھی رسالہ میں ڈال دیا اور اس طرح رسالہ میں ادبی مواد کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ جب یہ رسالہ حضور اقدس کی خدمت میں بھیجا گیا تو حضورؒ نے فوراً خط کے ذریعے ہماری اصلاح فرمائی کہ مجھے آپ کا رسالہ ملا ہے۔ لیکن مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہماری روایت ہے اس کے حوالے سے یہ نہ ادبی رسالہ بن سکا ہے اورنہ جماعتی رہ سکا ہے۔ تو اگر آپ نے ادبی رسالہ نکالنا ہے تو پھر علیحدہ سے نکالیں جس میں صرف اردو ادب ہو۔ اگر جماعتی رسالہ نکالنا ہے تو پھر اس میں جماعتی رنگ ہونا چاہئے۔ ہماری کچھ روایات ہیں، ہمارا انداز ہے۔ …
٭ پیار کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔ جب 1991ء میں حضورؒ قادیان تشریف لے گئے اور ابھی دہلی کے مشن ہاؤس میں ہی مقیم تھے تو اتفاقاً خاکسار بھی دہلی مشن ہاؤس پہنچا۔ جب حضورؒ دہلی کی سیر کے لئے نکلے تو ہم بھی مصافحہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ جب حضورؒ نے مصافحہ کا شرف بخشا تو فرمانے لگے کہ آپ بھی ساتھ چل رہے ہیں نا!۔ یہ حضرت صاحب کا اس ادنیٰ خادم سے پیار کا ایک نرالا سلوک تھا۔ خاکسار قافلہ کا ممبر نہیں تھا لیکن حضورؒ نے خود شامل فرمایا اور اس طرح اس تاریخی دورے میں تمام وقت خاکسار کو حضور کے ساتھ رہنے کا موقع مل گیا۔
٭ ایک دفعہ UK میں ہونے والے خدام کے یورپین اجتماع میں ہم اس طرح شامل ہوئے کہ ویزے وغیرہ کے بعض مسائل کی وجہ سے بمشکل کھلاڑی وہاں لے کر جاسکے۔ چنانچہ کبڈی کا میچ ہم ہار گئے۔ جب خاکسار نے حضورؒ سے اپنے مسائل کا ذکر کرکے عرض کیا کہ پوری کوشش کے باوجود ہم مکمل ٹیمیں نہیں لاسکے تو حضورؒ نے فرمایا کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ اِنہوں نے جو کبڈی کھیلنے کے لئے کپڑے اتارے ہیں یہ تو پھر آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے اتارے ہیں‘‘۔ اس میں ایک گہرا سبق تھا کہ صرف خانہ پوری نہ کی جائے بلکہ مکمل تیاری کے ساتھ گراؤنڈ میں اتر اجائے۔ نیز یہ کہ کھیل بھی عزت کا حصہ ہے اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اس وقت کھیل کے میدان میں اترا جائے جب ٹیم مکمل ہو اور پوری تیاری ہو۔
٭ حضورؒ جب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے تو آپؒ نے ہمارے محلہ کے ایک اجلاس میں یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بہت شرارتی بچہ تھا جو ہر روز نئی نئی شرارتیں سوچا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور باہر جوتے اتار کر مسجد کے اندر چلا گیا۔ لڑکا بہت خوش ہوا کہ چلو آج شرارت کا موقع ملے گا۔ اور اُس نے اس کے جوتوں میں کانٹے رکھ دیئے تاکہ جب وہ واپس آکر جوتے میں پاؤں ڈالے تو چیخے۔ پھر وہ اُس کے انتظار میں کافی دیر تک بیٹھا رہا مگر وہ شخص باہر نہ آیا۔ لڑکے نے اندر جا کر دیکھا تو وہ شخص سجدے میں گرا رورہا تھا۔ ایک تو اس بات کا اُس کے دل پر بہت اثر ہوا۔ دوسرے اِس واقعہ کو ایک بزرگ بھی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اِس لڑکے سے کہا کہ چلو آج ایک تجربہ کرتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ نیکی کا زیادہ مزا ہے یا شرارت کا! یہ وقت چونکہ فرض نماز کا وقت نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ اُسے مدد کی ضرورت ہو۔ ایسا کرتے ہیں کہ اُس کے جوتوں میں کانٹوں کی بجائے کچھ پیسے رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس شخص کو واقعی روپوں کی ضرورت تھی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوکر آیا اور جوتوں میں پاؤں ڈالے اور وہاں روپے دیکھے تو وہ واپس بھاگا اور جا کر دوبارہ سجدہ میں گرگیا۔ اس واقعہ کا اس لڑکے کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ وہ آئندہ سے شرارتیں چھوڑ کر نیک کام کرے گا۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31مئی 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم انوراحمد خان صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار جلسہ سالانہ یُوکے پر ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے پوچھا کہ آپ ہر سال ایک ہی بیٹی کو لے کر آ جاتے ہیں، کیا بات ہے؟ عرض کی کہ حضور کی دعا کی ضرورت ہے۔ فرمایا: اچھا یہ بات ہے۔ پھر اُسی وقت حضورؒ نے عینک لگائی اور کافی دیر تک ایک کتاب دیکھتے رہے اور پھر ایک دوائی لکھ کر دی اور فرمایا کہ مَیں دعا بھی کروں گا۔ انشاء اللہ ، اللہ فضل فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک سال بعد مجھے ایک بیٹی سے نوازا جس کا بڑی بہن سے دس سال کا فرق ہے۔ اب میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔
٭ کبڈی کے معروف کھلاڑی مکرم محمد افضل گل صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے جب بیعت کی تو اس کے بعد اطفال کی ٹیم کے ساتھ کبڈی کھیلا اور مجھے حضورؒ سے انعام بھی ملا۔ جرمنی میں میری حضورؒ سے پہلی ملاقات 1993ء میں ہوئی۔ حضور ؒ کھیل کے معاملات میں ہماری تربیت بھی فرماتے۔ ایک بار انتظامیہ کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے مجھے غصّہ آگیا اور ہم نے اگلا میچ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر حضورؒ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میچ کھیلو۔ پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھایا کہ جن کے لئے ہم کھیل رہے ہیں اگر وہی ناراض ہوگئے تو پھر کیا فائدہ۔
1995ء میں ملاقات کے دوران حضورؒ نے مجھ سے پوچھا کہ شادی نہیں کرنی؟ عرض کیا کہ کچھ رکاوٹیں ہیں۔ فرمایا: لکھ کر مجھے دو۔ چنانچہ ساری تفصیل لکھ کر دے دی۔ اُسی سال انگلینڈ گیا تو میچ کے لئے مصافحہ کے دوران حضورؒ نے پوچھا کہ کام ہوا یا نہیں؟ عرض کیا کہ ابھی تک تو نہیں ہوا۔ تب حضورؒ نے مجھے دفتر میں آنے کا ارشاد فرمایا۔ جب مَیں دفتر میں حاضر ہوا تو حضورؒ نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بلاکر خصوصی ارشاد فرمایا اور اس طرح صرف تین دن میں حضورؒ کی خاص توجہ سے میرا رشتہ ہوگیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔
حضورؒ کو کبڈی کا بہت شوق تھا۔ بعض دفعہ اسی وجہ سے میچ دیر تک جاری رہتا۔ جب آپؒ کی نظر اسکوربورڈ پر پڑتی تو فرماتے کہ پوائنٹ چینج نہیں ہورہے۔ تب عرض کیا جاتا کہ میچ تو ختم ہوگیا لیکن حضورؒ کی وجہ سے کبڈی ابھی تک چل رہی ہے۔
٭ مکرم میاں محمد محمود صاحب (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اجتماع کے موقع پر اس قدر شدید بارش ہوئی کہ واقعتاً مارکی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے نیچے سے بھی پانی گزر گیا۔ اس وقت طلباء کے ساتھ حضورؒ کی مجلس سوال و جواب جاری تھی۔ ورزشی فائنل مقابلے ابھی ہونا تھے لیکن بارش جاری تھی اور پانی اس قدر تھا کہ حضور کی گاڑی کے ٹائر بھی ڈوب گئے تھے۔ گراؤنڈ میں تالاب بنا ہوا تھا۔ حضورؒ بار بار پوچھتے کہ کیا پروگرام ہے؟ ہم جواب دیتے کہ میچز کا ہونا مشکل ہے۔ فرمایا: فٹ بال کا فیصلہ کس طرح کریں گے؟ عرض کیا کہ جرمن قانون کے مطابق میچ اُس وقت تک کھیلا جاسکتا ہے جب تک فٹبال پانی پر تیرنا شروع نہ کردے۔ اس پر حضورؒ نے دعا شروع کردی۔ ایک خاص نُور آپؒ کے چہرہ سے ٹپک رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بارش تھم گئی اور حضورؒ فٹبال کا میچ دیکھنے کے لئے گراؤنڈ میں تشریف لے گئے۔ جب حضورؒ وہاں تشریف لائے تو گراؤنڈ میں پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ حضورؒ کی خدمت میں کرسی پیش کی گئی لیکن آپؒ نے کھڑا ہونا پسند فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے مقابلے اپنے وقت پر ہوئے۔
اسی طرح 1998ء کے اجتماع سے قبل اس قدر گہرے بادل چھاگئے کہ شدید بارش کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر کیا گیا تو قبولیتِ دعا کا یہ نشان دیکھا کہ اجتماع کے تینوں دن بارش نہیں ہوئی۔ مگر آخری دعا کے ختم ہوتے ہی ایسی شدید بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا.