درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ جنوری 2015ء)
درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبّیک کہنے والے ہوں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں۔ صرف نعروں اور جلوسوں سے یہ محبت کا حق ادا نہیں ہو گا جو غیر از جماعت مسلمان کرتے رہتے ہیں۔ اس محبّت کا حق ادا کرنے کے لئے آج ہر احمدی کروڑوں کروڑ درود اور سلام اپنے دل کے درد کے ساتھ ملا کر عرش پر پہنچائے۔ یہ درود بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ دشمن کے خاتمے میں کام آئے گا۔
پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ درود پڑھنے کا طریق کیا ہے آپ اپنے ایک خط میں جو آپ نے اپنے ایک مرید کو لکھا، فرماتے ہیں کہ ’’یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکلّی پاک ہو جائے۔‘‘ (جو عمل بھی ہے صرف رسم نہ ہو اور عادت نہ ہو) اور دلی محبّت کے پاک فوّارے سے جوش مارے۔’’ (اس کا رسم اور عادت کا گند جو ہے رسم اور عادت کا اس سے پاک کریں اور دل سے نکلنے والی محبت جو ہے وہ فوارے کی طرح پھوٹ رہی ہو۔ فرمایا) ’’مثلاً درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کے لئے برکات الٰہی مانگتے ہیں‘‘فرمایا کہ ’’بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجے تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا۔‘‘ (یہ محبت ایسی ہو کہ بہت سوچنے کے بعد بھی کبھی دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو سکے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایسا تھا جس سے ایسی محبت پیدا ہو سکے، نہ کبھی آئندہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے اس شدت سے محبت کی جا سکے یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا) ’’اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبّان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں گے جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔‘‘ (یہ صورت کس طرح پیدا ہو گی کہ جو کچھ مصیبتیں پہلے اٹھائی جا سکتی ہیں یا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ یہ مشکلیں پیدا ہو سکتی ہیں دلی سچائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں وہ مشکلات اور مصیبتیں اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ فرمایا) ’’اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوت واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے۔ اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو۔ اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو۔ اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا۔‘‘ (اس طرح ایمان ترقی کر گیا) ’’تو درود شریف جیسا کہ مَیں نے زبانی بھی سمجھایا ہے‘‘ (آپؑ اس مرید کو لکھ رہے ہیں ) ’’اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بناوے اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے۔‘‘ (بڑے دل کی گہرائی سے ہونی چاہئے، توجہ سے ہونی چاہئے) ’’جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرّع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہو گا یا یہ درجہ ملے گا۔‘‘ (اس سوچ میں نہیں درود بھیجنا، نہ دعا کرنی ہے کہ مجھے کوئی ثواب ہو گا یا درجہ ملے گا) ’’بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمّت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے۔ یہاں تک کہ کوئی مراد اپنی دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔‘‘ (مستقل مزاجی سے کام کریں۔ ) ’’پس جب اس طور یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے۔ اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشے میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 522-523مکتوب بنام میرعباس علی شاہ مکتوب نمبر10شائع کردہ نظارت اشاعت)
پھردعاؤں اور درود کے لئے کوشش کے بارے میں اپنے ایک مرید کو ایک خط میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’نماز تہجد اور اوراد معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔‘‘ پھر فرمایا ’’وَقَالَ اللّٰہ تعالیٰ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70)‘‘(کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو میرے رستے میں جہاد کرے گا اس کو ہم اپنے رستوں کی ہدایت دیں گے۔ فرمایا کہ) ’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔‘‘فرمایا: ’’جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیزگاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے۔ اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں‘‘ (یعنی یہ درود شریف کے الفاظ جو ابھی پڑھے گئے ہیں) ’’وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرد ہے۔‘‘ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس عاجز کا ورد ہے) ’’اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقّت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جاوے۔‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ526مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر13شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
اللہ تعالیٰ یہ روح ہم سب میں پیدا کرے۔ ہمارے دل سے ایسا درودنکلے جو عرش پر پہنچے اور ہمیں بھی اس سے سیراب کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو درود پڑھتے ہیں اور بڑے درد سے پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کے فیض کے نظارے بھی دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس طرح درود پڑھنے والوں کی جماعت میں تعداد بڑھتی چلی جائے جس کا فائدہ جماعتی طور پر بھی ہو گا، جماعتی ترقی میں بھی ہو گا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک درود کا انداز مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ گو ہم میں سے بعض اس کے قریب قریب پڑھتے ہیں لیکن یہ ایسا انداز ہے جو مَیں آپ کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں جس سے درود کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی محبّت میں ایک نئے رنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور جماعتی ترقی کے لئے بھی دعا کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
٭…٭…٭