شادی بیاہ اور رسومات
جب بھی کسی بچی یا بچے کے بارے میں اطلاع ملتی ہے کہ وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہورہے ہیں تو بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نئے جوڑے کو بے شمار خوشیوں سے نوازے۔ دین و دنیا کی بھلائی عطا کرے۔پیار اور محبت کی زندگی بسر کریں اور دونوں خاندانوں کے لیے بابرکت کرے۔نیز ہر قسم کے مسائل سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
یہ ایسا خوشی کا موقع ہوتا ہے جو روز روز تو انسان کی زندگی میں آتا نہیں۔اس لیے اس خوشی کے موقع پر ایک حد میں رہتے ہوئے خوشی کا اظہار بھی ہونا چاہیےتاکہ خوشی اور غمی میں کچھ تو فرق ہو۔لیکن حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
اس خوشی کے موقع پر ایک حد میں رہتے ہوئے گھر کو سجانا، اچھے کپڑے پہننا، اور مہمانوں کی اچھی مہمان نوازی کرنا، یہ سب خوشیوں کا حصّہ ہے۔اس موقع پر ہم لوگ اگر رسومات کواہمیت دینے لگ جائیں تو معاشرے میں بہت سے بگاڑ پیدا ہونے لگ جاتے ہیں۔بعض لوگ اس خوشی کے موقع پر ہلکی پھلکی تفریح کو بھی رسم میں شامل کر دیتے ہیں۔مثلاً اگر شادی پر دولہا اور دلہن کیک ہی کاٹ لیں تو بعض دفعہ اس پر برا منا لیا جاتا ہے۔
اصل میں جو رسومات ہوتی ہیں ان پر غور کرنے اور اپنے آپ کو روکنے کی ضرورت ہے مثلاً جہیز یا بری کی نمائش، لڑکے والوں کا لڑکی کے گھر مہندی کی رونق والے دن مہندی کےتھال سجائے چلے جانا، جس کی وجہ سے خوامخواہ لڑکی کے والدین پر مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔اس سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔جوتی چھپائی کی رسم وغیرہ۔بعض لوگ مہندی کی رونق والے دن کے لیے خاص طور پر دعوت نامہ چھپواتے ہیں جب کہ اس کا کوئی مقصد نہیں سوائے اس کے کہ پیسے کا ضیاع ہو۔اور اس کے علاوہ دودھ پلائی کی رسم بھی کافی مشہور ہے۔لیکن یہ رسم بنتی کیسے ہے؟
یہ رسم تب بنتی ہے اگر دلہن کی بہنیں یا سہیلیاں دلہے کو دودھ کا گلاس پیش کریں اور پھر اس کے بدلے میں رقم کا مطالبہ کریں ورنہ صرف دودھ یا جوس پیش کرنے یا مٹھائی کھلادینے کو رسم میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ بہت کم مگر ایسے بھی ہوتا ہے کہ جب دلہن رخصت ہو کر سسرال جاتی ہے تو دلہے کا کوئی عزیز دلہن کا گھٹنا پکڑ کر بیٹھ جائے گا اور پھر رقم کا مطالبہ ہوگا۔یہ سب لغویات اور فضول رسومات ہیں جن سے ہمیں ہر حال میں بچنا چاہیے۔ اس طرح کی رسم کی بجائے دلہن کو سسرال میں اچھے الفاظ میں خوش آمدید کہنا چاہیے۔
ہمیں خلافت احمدیہ جیسے انعام ملنے پر ہمیشہ شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ہر خلیفہ وقت نے تربیت کے ہر پہلو پر ہماری اصلاح فرمائی ہے
اور اُن لوگوں کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے جو ابھی تک خلافت کے سایہ سے محروم ہیں اور شادی بیاہ کی رسومات کے بوجھ تلے اتنا دَب چکے ہیں کہ اِن سے نکل ہی نہیں پاتے۔یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے ؟
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۲۵؍نومبر ۲۰۰۵ء میں اِرشاد فرمایا:’’ اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے موقع پر بعض باتیں کر لو مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضور ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا ؟ حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں۔ایک موقع پر آپ نے فرمایا نکاح کا اچھی طرح اعلان کرو اور اس موقع پر چھاننی بجاؤ۔یہ دف کی ایک قسم ہے۔لیکن اس میں بھی آپ نے ہماری رہنمائی فرمادی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا۔بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے کہ شریفانہ اہتمام ہو ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا۔ایک موقع پر آپ نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ ترتیب فرمائے کہ اس طرح گایا کرو کہ اَتیَنَا کُم اَتَینَا کُم فَحَیّا نَا فَحَیّاکُم یعنی ہم تمہارے پاس آئے ہیں خوش آمدید کہو۔تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو شادی کا موقع کوئی حرج نہیں،اِن کی غلط سوچ ہے بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقع پر لغو اور گندےگانے لگائے جاتے ہیں کہ اُن کو سن کر شرم آتی ہے ایسے بہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں۔خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے ‘‘
اگر ہم اپنے پاکستان کے دیہات کے ماحول کا جائزہ لیں تو دیہات کے رہنے والے احمدی جانتے ہوںگےکہ کس طرح دیہاتی معاشرہ میں شادی بیاہ کے موقع پرگندے گانےلگائےجاتے ہیں ‘ہمارے ربوہ میں احمدی ماحول میں پلنے والی جو نسل ہے وہ تو اس چیز کو جانتی ہی نہیں ہے بلکہ تصور بھی نہیں کہ غیر احمدی معاشرے میں شادی بیاہ پر گانوں کے نام پر کس قسم کا گند بولا جاتا ہے۔
اللہ تعالےٰ کا بےحد فضل و احسان اور خلفاء کی تربیت کا اثر ہے کہ احمدی معاشرہ اس گند سے بچا ہوا ہے۔الحمدللہ۔لیکن ہمیں پھر بھی احتیاط کرنی چاہیے۔
دینی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اس خوشی کے موقع پراچھے، سلجھے ہوئے اور دعائیہ گانے لگائے جاسکتے ہیں کیونکہ جو گانے ہم مہندی کی رونق والے دن ڈھولک پر گاتے ہیں وہ زیادہ تر وہی گانے ہوتے ہیں جو کیسٹ پر سنے ہوتے ہیں۔گانے لگاتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آواز اتنی اونچی نہ ہو کہ جس سے ہمسائے ڈسٹرب ہوں اور نہ ہی ڈیک کا استعمال ہونا چاہیے۔
یہ بات تو سب کے ہی مشاہدے میں ہے کہ اکثر لوگوں کی گاڑیوں میں بھی گانے لگے ہوتے ہیں چاہے وہ اردو میں ہوں یا انگلش میں یا جرمن زبان میں۔آج کل بچے بھی اکثر ہیڈ فون لگا کر گانے سن رہے ہوتے ہیں تو اس لیے اگرخوشی کے موقع پر بھی سلجھے ہوئے اور دعائیہ گانے لگ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔سب خلفاء نے بھی بیہودہ گانوں سے بہر حال منع کیا ہوا ہے اور اس کی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔
مجھے یاد ہے بچپن سے سنا ہوا ایک گانا جو اکثر شادیوں پر بچیوں کی رخصتی پر لگایا جاتا تھا اور اُس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ
تم اپنے باپ کی دعائیں لیتی ہوئی اس گھر سے رخصت ہو تمہیں اچھے لوگ ملیں اور سسرال میں اتنا پیار ملے کہ میکے کی یاد ہی نہ آئے۔تو اس طرح کے دعائیہ گانے خوشی کے موقع پر لگائے جاسکتے ہیں
اب تو کافی عرصہ سے گانوںکی بجائے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچیوں کی رخصتی پر اکثر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ کی ایک دعائیہ نظم بچیاں مل کر پڑھتی ہیں جو اُنہوں نے اپنی صاحبزادی محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ کےلیے اُن کی رخصتی پر لکھی تھی۔جس کے ابتدائی اشعار کچھ اس طرح سے ہیں
لو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو
بڑھتی ہوئی خدا کی محبت نصیب ہو
ہر ایک زندگی کی حلاوت نصیب ہو
ہر ایک دو جہاں کی نعمت نصیب ہو
اور اس نظم کا آخری شعر اس طرح ہے کہ
حافظ خدا رہا میں رہی آج تک امیں
جس کی تھی اب اسے یہ امانت نصیب ہو
(درّعدن )
یہ دعاؤں سے بھر پور نظم ہے جس کو سُن کر اور پڑھ کرایک دلی سکون ملتا ہے۔الحمدللہ۔اس کے علاوہ شادی بیاہ کے موقع پر بے مقصد فضول خرچی اور رسومات میں پڑنے کی بجائے بہتر ہے کہ شادی بیاہ سے پہلے ہی والدین بچیوں اور بچوں کو نیا رشتہ نبھانے اور اپنے گھروں کو جنّتِ نظیر بنانے کی طرف توجہ دیںکیونکہ زندگی میں اُتار چڑھاؤ تو آتا ہی رہتا ہے۔
اس سلسلے میں کتاب ’’سیرت و سوانحِ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ‘‘میں جو بچیوں کےلیے شادی سے پہلےکی نصائح تحریر ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اُن میں سے چند ایک یہاں بیان کرتی ہوں۔
٭ بچیوں کو بچپن سے یہ دعا کرنی سکھائی کہ اللہ میاں میرا نصیب اچھا کردے۔ (صفحہ ۲۵۳)
٭ میاں بیوی کی پرائیویٹ باتیں کبھی کسی سے نہ کرو۔ عورتیں اپنی سہیلیوں سے اور مرد اپنے دوستوں سے ایسی باتیں کرتے اور شیخی بگھارتے ہیں جو نہایت برا اور نامناسب ہے۔
٭ خاوند کو خوش رکھنا ہر لحاظ سے عورت پر فرض ہے۔
٭ میاں جب باہر سے آئے تو تیار رہو جب باہر جائے تو بھی تمہارا حلیہ درست ہوتاکہ جب وہ تمہارا تصور کرے تو خوشکن ہو نہ کہ بال پھلائے ہوئے ایک بدبودار عورت کا۔
٭ غصّے کے وقت میاں سے زبان نہ چلاؤ۔بعد میں غصّہ ٹھنڈا ہونے پر اس کی زیادتی پر آرام سے شرمندہ کرو۔
٭ باہر سے آنے پر کبھی لڑائی نہ کرو۔خواہ تمہیں کتنا ہی غصّہ ہو۔ہر لحاظ سے آرام پہنچا کر بےشک بھڑاس نکال لو۔
٭ میاں بیوی جب کمرے میں ہوں تو کبھی کسی بات پر چیخ نہ مارو سننے والے کچھ کا کچھ سوچیں گے۔
٭ میاں بیوی کے رشتے میں جھوٹی انا نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اپنی غلطی ہے تو بیوی میاں کو منالے اس میں کوئی بےعزتی نہیں ہے۔(سیرت وسوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا )شائع کردہ لجنہ اماء اللہ بھارت۔طبع اوّل اگست ۲۰۰۷ء۔صفحہ نمبر۲۵۴
یہاں چند نصائح کا ذکر کیا گیا ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ خود بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اپنی بچیوں میں بھی اس کتاب کے پڑھنے کا شوق پیدا کریں۔کیونکہ اس میں صرف شادی بیاہ کے بارے میں ہی نصائح نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی اس میں نمایاں ہیں۔
ہم سب والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچیوں اور بچوں کی شادی بیاہ کے موقع پر اُن کی خواہشات کو پورا کرسکیں لیکن ایسے موقعوں پر ہمیں غریب بچیوں اور بچوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
ویسے تو ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد غرباء کا خیال رکھتی ہے۔بعض دفعہ اپنے ہی خاندان میں غریب بچیاں ہوتی ہیں جن کی مدد کرنی چاہیے اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحریک ’’مریم شادی فنڈ ‘‘میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا چاہیے۔ اگر انسان نیکی کے کاموں میں ذوق و شوق سے حصّہ لے تو اُسے بدیوں سے بچنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔اسی طرح اگر احمدی معاشرہ یہ اپنالے کہ جب بھی گھروں میں شادی بیاہ کا موقع آئے تو ’’ مریم شادی فنڈ ‘‘میں زیادہ سے زیادہ حصّہ لے تو وہ اللہ کے فضل سے اِن فضول رسومات سے خود بخود بچ جائے گا۔یہ ایک فطرتی بات ہے کہ بچی چاہے خوشحال گھرانے کی ہو یا غریب گھرانے کی سجنے سنورنے کا شوق ہر ایک کو ہوتا ہے۔ خواہشات ہر بچی کی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی کا نصیب اچھا کرے اورہر بچی اپنے گھر میں خوش وخرم اور آباد رہے۔آمین ثم آمین
٭…٭…٭