اسماء النبیﷺ فی القرآن : قسط نمبر 6 (آخری)
19۔ طٰہٰﷺ
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو سورة طٰہٰ کے آغاز میں اس نام سے یاد فرمایا۔ طٰهٰ ۔ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی۔ إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشٰى (طٰهٰ2:-4) یعنی اے کامل قوتوں والے مرد۔ ہم نے تجھ پر (یہ) قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تو دکھ میں پڑ جائے۔ (یہ تو) صرف (خدا سے) ڈرنے والے انسان کے لئے راہنمائی اور ہدایت (کے لئے) ہے۔(تفسیرصغیر)
حضرت خلیفة المسح الثانی رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ طٰہٰ حروف مقطعات میں سے نہیں ہے۔ بلکہ عرب کے مختلف قبائل میں اس کے معنے یَا رَجُلُ کے ہیں یعنی اے مرد کامل القویٰ (فتح البیان)۔ کامل قوتوں والے مرد سے اس طرف اشارہ ہے کہ مردانگی کی صفات شجاعت، سخاوت اور بدی کا مقابلہ کامل طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں۔ آپؐ کی بیوی حضرت خدیجہؓ نے جب آپؐ پر پہلا الہام نازل ہوا اور آپؐ کچھ گھبرا سے گئے تو الہام سن کر اور آپؐ کی یہ حالت دیکھ کر یہ شہادت دی کہ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا یعنی آپؐ کے اندیشے غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّکیونکہ آپؐ ہمیشہ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے مٹ گئے ہیں ان کو پھر سے قائم کر رہے ہیں اور اگر کوئی شخص بغیر کسی شرارت کے پھنس جاتا ہے تو آپ اس کی مدد کرتے ہیں (بخاری) انسان کی سب سے بڑی گواہ اس کی بیوی ہی ہو سکتی ہے جو ہر وقت اس کے حالات کو دیکھتی ہے پس یہ گواہی سب سے معتبر گواہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں طٰہٰ تھے یعنی ایک کامل مرد میں جو فضائل پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپؐ میں بدرجۂ اتمّ پائے جاتے تھے۔‘‘
(تفسیر صغیر از حضرت مصلح موعودؓ فٹ نوٹ زیر آیت ھٰذا)
اللہ تعالیٰ نے اپنا پاک اور کامل کلام اس مرد کامل پر نازل فرمایا۔ ہر دَور اور امت کے بہترین اور قویٰ کے لحاظ سے طاقتور ترین انسانوں( ان اقوام کے انبیاء) پر یہ کلام پیش کیا گیا لیکن اِس کامل قوتوں والے مرد ِخدا کے سوا کوئی بھی اسے اٹھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ ربُ العالمین اس حقیقت کا اظہاراس طرح فرماتا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الأحزاب 73:) یعنی ىقىناً ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمىن اور پہاڑوں کے سامنے پىش کىا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دىا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اٹھا لىاىقىناً وہ (اپنى ذات پر) بہت ظلم کرنے والا (اور اس ذمہ دارى کے عواقب کى) بالکل پروا نہ کرنے والا تھا ۔
آنحضرت ﷺ کے عاشقِ کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس سے مراد عشق و محبت الٰہی اور مورد ابتلا ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو ان سب چیزوں نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اُس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھا لیا کیونکہ انسان میں یہ دو خوبیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا۔ دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیراللہ کو بکلی فراموش کر دے‘‘
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ75-76)
آپ علیہ السلام رسول کریم ﷺ کی مدح میں بیان فرماتے ہیں:
’’ امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلٰى أَهْلِهَا (النساء59:) اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کردیتا ہے۔ جیسا کہ ہم مضمون حقیقتِ اسلام میں بیان کرچکے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ لَا شَرِيكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۔ (الانعام 163:-164) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(الانعام 154:) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (آل عمران 32:) فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلهِ (آل عمران 21:) وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (المومن67:) یعنی ان کو کہدے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہوجو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 161-163)
اس جگہ ایک سوال اٹھتا ہے کہ سورہ طٰہٰ میں فرمایا کہ یہ قرآن کریم اس لئے نہیں نازل کیا گیا کہ آپ ﷺ تکلیف میں پڑیں۔ لیکن دوسری جگہ فرمایا انسان کامل اپنے نفس پرسب سے بڑھ کر ظلم کرنے والا تھا، سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والا تھا اس لئے اس پر اس امانت کی ذمہ داری ڈالی گئی۔
اس سوال کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ سورہ طٰہٰ میں قرآن کریم کی نزول کا مقصد اور اس کا نتیجہ بیان فرمایا ہے کہ نزول قرآن سے مراد تکلیف میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَخْشٰى (طٰهٰ 4:) رہنمائی ہدایت اور شرف قائم کرنے کے لئے ہے۔ نزول قرآن کریم صفت رحمانیت کے تحت ہے یعنی اس کے لئے انسان کی اپنی کوئی کوشش، خواہش اور افعال و اعمال کا دخل نہیں۔ لیکن نزول کتاب کے بعد صفت رحیمیت کا مورَد بننے کے لئے عملی اقدامات یعنی پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی اور اس کے لئے تکالیف اٹھانی پڑیں گی۔ جتنی عظیم کتاب اور تعلیم ہے اسی قدربوجھ ذمہ داریوں کا بھی ہوگا۔ اتنا ہی اپنی ذات کو تکلیف میں ڈالنا ہوگا۔ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ (هود 113:) پس جىسے تجھے حکم دىا جاتا ہے (اس پر) مضبوطى سے قائم ہو جا۔ اس جگہ بھی انہیں ذمہ داریوں کا ذکر ہے جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : شَيَّبَتْنِي هُودٌ (سنن ترمذی ابواب تفسیر القرآن باب من سورة الواقعة) کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا۔ آسمانوں اور پہاڑوں کی وسعت سے بڑھ کر یہ ذمہ داری تھی جسے انسان کامل نے اٹھایا اور حجة الوداع کے موقعہ پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کا گواہ اللہ تعالیٰ کو بنایا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نہ صرف روحانی قوت اور تاثیر میں سب سے بڑھ کر تھے بلکہ آپ ؐانبیائے کرام کی دوسری خوبیوں کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن میں بھی کمال رکھتے تھے۔
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہ بھی اکمال کا ایک پہلو ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رَأَيْتُهٗ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو سرخ لباس میں دیکھا، میں نے آپ ﷺ سے خوبصورت کبھی کسی اور کو نہ دیکھا ۔
(صحیح بخاری کتاب المناقب، باب صفة النبی ﷺ)
شاعر النبی ﷺ حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے حسنِ سیرت و حسن صورت کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
وَأَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني
وَأَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ
خُلِقتَ مُبَرَّءً مِن كُلِّ عَيبٍ
كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاءُ
کہ آپ ﷺ جیسا حسین میری آنکھوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، آپﷺ سے خوبصورت کبھی کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ آپ ﷺ ہر عیب سے پاک تخلیق کئے گئے ہیں، گویا کہ جیسا آپ ﷺ نے چاہا ویسے ہی تخلیق کئے گئے۔
جسمانی قویٰ کے لحاظ سے بھی آپ ﷺ دیگر افراد سے بالا نظر آتے ہیں۔ غزوۂ احزاب کے ایام میں خندق کی تیاری کے وقت بھوک کی شدت سے بعض اصحاب النبیؐ نے اپنے پیٹ سے ایک ایک پتھر باندھ رکھا تھا لیکن آپ ﷺ نے زیادہ مشقت اور غالباً فاقہ کے طوالت کی وجہ سے دو پتھر باندھ رکھے تھے۔ انہیں ایام میں جب صحابہ سے ایک پتھر نہ ٹوٹ سکا تو آپ ﷺ کو اطلاع کی گئی۔ آپ ﷺ تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے کدال مارکر اسے توڑ دیا۔ اسی پتھر کو کدال مارتے وقت اللہ تعالیٰ نے ایران و شام کی فتوحات کی خوشخبری عطا فرمائی۔
صحابہ کرام کی روایات کے مطابق غزوات میں لڑائی کا سب سے زیادہ زور آپ ﷺ کے اردگر د ہی ہوتا تھا۔ غزوۂ احد میں بھی کفار کے نرغہ میں ثابت قدم رہے حتیٰ کہ ٖضربات کی شدت کی وجہ سے گر پڑے۔ غزوۂ حنین میں ساتھیوں کے قدم اکھڑنے کے بعد بھی تن تنہا دشمن کی طرف بڑھتے رہے اور علی الاعلان اپنا تعار ف کرواتے رہے تاکہ دشمن آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہو اور صحابہ پھر سے سنبھل سکیں۔ غزوۂ ذات الرقاع سے واپسی پر ایک شخص نے آپ ؐکو نہتا دیکھ کر آپؐ پر تلوار سونت لی تو گھبرانے کی بجائے اپنے اللہ پر توکل کا اظہار ایسے طریق سے فرمایا کہ رعب سے اس شخص کے ہاتھ تلوار چھوٹ گئی۔
جسمانی مشقت کا ایک رنگ راتوں کی عبادت میں بھی نمایا ں ہے۔ آپ ؐکی راتوں کی عبادات اس قدر طویل ہوتیں کہ پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کی عبادت کروں۔ آپﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میں نے تھک کر ایک برا ارادہ کرلیا ۔ یہ کہ میں بیٹھ جاؤں۔
(بخاری کتاب الجمعہ باب طول القیام فی صلاة اللیل)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 301)
آپ علیہ السلام ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’مگر اس میں شک نہیں کہ وہ سچا نبی اور خداتعالیٰ کے مقربوں میں سے تھا۔ مگر وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مَرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘
(اتمام الحجة، روحانی خزائن جلد نمبر8 صفحہ308:)
20۔ طیبﷺ
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے طٰہٰ کے معانی ’’ طَیِّب ھَادِىّ: اے پاک (رسول) اور ہادىٔ کامل!‘‘ کئے ہیں۔
طیب کے معانی پاک کئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کی معروف لغت المفردات فی غریب القرآن کے مصنف امام راغب تحریر کرتے ہیں کہ اصل میں طیب اس چیز کو کہتے ہیں جس سے حواس اور نفس لذت حاصل کریں… طیب انسان وہ ہے جو نجاست اور گناہ سے پاک اور برے اعمال سے مبرا ہو۔ علم، ایمان اور اچھے اعمال کا حامل ہو۔ طیب کے معانی پاک بھی ہیں۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ان تمام خوبیوں کے حامل تھے۔ نہ صرف خود پاک تھے بلکہ امت کو پاکیزگی اور طہارت کی جو تعلیم آپ ﷺ نے دی اس کی مثال کسی اور شریعت میں نہیں ملتی۔ روزانہ پنجوقتہ نماز کے وقت وضو، کم از کم ہر جمعہ کے روز غسل کرنا، صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہر کام کرتے وقت صفائی کا خیال رکھنا، کھانا کھاتے وقت ہاتھ دھونا، دعا کرنا، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، حتیٰ کہ بیت الخلاء کی دعا بھی سکھائی گئی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو ایک یہودی نے طنزًا کہا کہ تمہارا رسول کیسا ہےجو پیشاب وغیرہ کی دعا بھی سکھاتا ہے۔ یہودی کے اس قول کو حضرت سلمان فارسی فخریہ طور پر بیان کرتے تھے۔
(ترمذی کتاب الطہارت باب الاستنجاء بالحجارة)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک کا حکم دیتا۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعہ ،باب السواک یوم الجمعہ)
ناخن صاف کرنا، جسم کے پوشیدہ حصوں کی صفائی، صاف کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، ان سب امور کے احکام صرف شریعت محمدیہ ﷺ میں ہی ملتےہیں۔
21۔ ھادی
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول محمد مصطفی ﷺ کو تمام بنی نوع کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کو جو کتاب دی گئی اس کی علّتِ غائی ہی هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة3:) ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’علت رابعہ یعنے علّت غائی نزول قرآن شریف کو جو رہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کردیا اور فرمایا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن یعنے یہ کتاب صرف ان جواہر قابلہ کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و فہم مستقیم و شوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجہ ایمان و خداشناسی و تقویٰ کامل پر پہنچ جائیں گے۔ یعنے جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے۔ اور وہ معارف حقانی میں ترقی کرسکتے ہیں۔ وہ بالآخر اس کتاب سے ہدایت پاجائیں گے اور بہرحال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی۔ اور قبل اس کے جو وہ مریں۔ خدا ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم ، حاشیہ نمبر 11، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ201)
آپ ﷺ کے دل میں تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے درد تھا۔ آپ ﷺ کی پوری کوشش ہوتی کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوار لے۔ قرآن کریم میں بارہا رسول کریم ﷺ کی اس خواہش اور اس کے لئے کوشش کا ذکر ملتا ہے۔ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلٰى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف 7:) کہ (کیا) اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو تُو ان کے غم میں شدّت افسوس کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْیِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (النمل 82:) ترجمہ: اور ىقىناً تو اندھوں کو ان کى گمراہى سے ہداىت کى طرف نہىں لا سکتا تُو تو محض ان کو سنا سکتا ہے جو ہمارے نشانات پر اىمان لاتے ہىں اور وہ فرمانبردار ہىں۔
قُمْ فَأَنْذِرْ (المدثر 3:) کہ ’اُٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر‘۔ کے حکم پر آخری سانسوں تک عمل کرتے رہے۔
22۔ یٰس
اس کے معانی ’’یا سید! اے سردار‘‘ کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قوم کے سردار کے لئے تین شرائط بیان فرمائی ہیں: إِنَّ اللہَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ(البقرة 248:) یعنی یقىناً اللہ نے اسے تم پر ترجىح دى ہے اور اُسے زىادہ کردىا ہے علمى اور جسمانى فراخى کے لحاظ سے۔
آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس میں یہ تینوں خوبیاں کامل طورپر پائی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو چنا۔ آپ ﷺ کی علمی وسعت کا اندازہ قرآن کریم کے علمی معجزات دیکھ کر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء 114:) اور تجھے وہ کچھ سکھاىا ہے جو تو نہىں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔ اسی طرح جسمانی فراخی میں بھی آپ ﷺ سب سے بڑھ کر تھے۔ آپ ﷺ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں جسم مبارک نے ہر میدان میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ اسم گرامی طٰہٰ کے تحت بھی اس کی جھلک پیش کی جاچکی ہے۔
آپ ﷺ کانظام حکومت اور آپ ﷺ کی حکمرانی دنیا کے بادشاہوں کے لئے بھی باعث تقلید ہے۔ بطور حکمران عوام کی جان و مال کی حفاظت کی جاتی تھی جس کے لئے غزوات بھی کئے گئے اور ہروقت صحابہ کی جاسوسی ٹولیاں پورے عرب سے خبریں لاتی تھیں، عوام کی عزت و آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی۔ یہود کے بازار میں خاتون سے بدتمیزی پر رد عمل دکھانا اس کی ایک مثال ہے۔ لوگوں کے کسب معاش کے لئے کوششیں اور راہنمائی بھی کی جاتی تھی۔ ایک سوالی کی چادر فروخت کرکے کلہاڑی اور رسی لے دینا اور اسے جنگل سے لکڑیاں لاکربیچنے کی ترغیب اس کی مثال ہے۔ ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو پہچاننا اور انہیں پورا کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوال کی اصل غرض جان لینا اور تمام اصحاب الصفہ کو بلاکر دودھ پلانا اس کی مثال ہے۔
اسی طرح مدینہ میں ایسے نظام عدل کا قیام کہ جس میں اگر یہودی حق پرہو تو اس کے حق میں بھی فیصلہ کردیا جاتا تھا۔ عبادات میں آزادی ایسی کہ نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں نہ صرف ٹھہرایا بلکہ انہیں مسجد میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی بھی اجازت دی۔ مالیہ کا نظام، فوجی نظام، جاسوسی نظام، سفارت کا نظام، سماجی نظام، تعلیمی و تربیتی نظام۔ یہ سبھی آپ ﷺ کے عظیم الشان نظام حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بطور بادشاہ آپ ﷺ کے ان گنت فیصلے آپﷺ کے لئے الٰہی راہنمائی اور آپؐ کی بصیرت کو روز روشن کی طرح عیاں کردیتے ہیں۔ غزوۂ احد میں میدان جنگ اس طرح چننا کہ اپنا شہر مدینہ دشمن کے عقبی طرف ہو، غزوۂ احد کے اگلے ہی دن کوتاہیوں سے شرمندہ لشکر کو اپنے زخمیوں سمیت کفار کے لشکر کے تعاقب میں لے جانا، غزوہ احزاب میں صرف ایک صحابی کے مشورہ پر خندق کھودنا اور اس عظیم ’وقار عمل‘ میں تمام صحابہ سے بڑھ کر شامل ہونا۔ حدیبیہ کے موقع پر ایسی شرائط پر صلح کرنا کہ کِبار صحابہ ؓبھی اس حکمت کو فوری طور پر نہ سمجھ سکے۔ فتح مکہ کے موقع پر سب سے بڑے اور سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے دشمن کو غیر مشروط طور پر معاف فرما دینا۔ غزوۂ طائف میں تقریباً 25 روز محاصر ہ کے بعد جبکہ اہل طائف تنگ آکر دروازہ کھولنے ہی والے ہوں، غیر مشروط طور پر واپس تشریف لےآنا۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جو ایک الٰہی تائید و راہنمائی یافتہ سردار ہی کرسکتا ہے۔ ان فیصلوں کے ایسے دور رس نتائج حاصل ہوئے جن پر اپنے اور غیر آج تک انگشت بدنداں ہیں۔ آپ ﷺ کے نظام حکمرانی کی بنیاد نظام عدل تھا۔
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی ایک تحریر کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں:
پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا۔ اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا۔ کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے۔ اور چونکہ ان کے لئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا۔ اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے۔ پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی، فوجداری، مالی سب ہدایتیں ہیں۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے۔
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعویٰ کی ڈگری کی۔ اس کا ذکر مَیں کر چکا ہوں۔ پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں۔ یعنی یہ حکومت کا کام ہے۔
پھر فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۔ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ (سورة آل عمران21:) اور اے پیغمبر! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے۔ اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے۔ اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت۔ یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(سورة البقرة191:) کہ تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ243-242)
23۔ نورﷺ
خالق کائنات نے اپنے محبوب کو نور کے نام سے بھی پکارا ہے۔ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (المائدة16:) ىقىناً تمہارے پاس اللہ کى طرف سے اىک نور آچکا ہے اور اىک روشن کتاب بھى۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (النساء 175:) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کى طرف سے اىک بڑى حجت آ چکى ہے اور ہم نے تمہارى طرف اىک روشن کر دىنے والا نُور اُتارا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’وجودِ مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اَور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے۔ تاریکی پر وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے۔ اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں۔ بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے‘‘
(براھین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 195 حاشیہ نمبر 11)
اللہ تعالیٰ جو آسمانوں اور زمین کانور ہے، اس لطیف اور دقیق مضمون کو سمجھانے کے لئے آپ ﷺ کی ذات مبارک اور آپﷺ کے اخلاق طیبہ اور استعدادات لطیفہ کو بطور مثال پیش فرمایا ہے۔ سورة نورکی آیت اللَّهُ نُورُالسَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللّهُ لِنُورِهٖ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (النور 36:) میں یہ لطیف مضمون بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
’’خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ یعنے ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے۔ خواہ وہ ارواح میں ہے۔ خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔ اسی کے فیض کا عطیہ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔ وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔ اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر و زبر کی پناہ ہے۔ وہی ہے جس نے ہریک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا۔ بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو۔ یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں۔ … اس نور کی مثال (فرد کامل میں جو پیغمبر ہے) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنے سینہ مشروح حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم) اور طاق میں ایک چراغ (یعنے وحی اللہ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفّی ہے۔ (یعنے نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہریک طور کی کثافت اور کدورت سے مُنز ّہ اور مطہر ہے۔ اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النور ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کوکو کب دری کہتے ہیں (یعنے حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے) وہ چراغ زیتون کے شجرئہ مبارکہ سے (یعنی زیتون کے روغن سے) روشن کیا گیا ہے (شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجودِ مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں۔ بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علیٰ سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا) اور شجرئہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنے طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ بلکہ نہایت توسط و اعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس شجرہ مبارکہ کے روغن سے چراغِ وحی روشن کیا گیا ہے۔ سو روغن سے مراد عقل لطیف نورانی محمدی معہ جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے جو اس عقل کامل کے چشمۂ صافی سے پروردہ ہیں۔ اور وحی کا چراغ لطائف محمدیہ سے روشن ہونا ان معنوں کرکے ہے کہ ان لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرے۔ اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضانِ وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا۔ اور انہیں اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی… خدا اپنے نور کی طرف (یعنے قرآن شریف کی طرف) جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہریک چیز کو بخوبی جانتا ہے (یعنے ہدایت ایک امر منجانب اللہ ہے۔ اسی کو ہوتی ہے جس کو عنایت ازلی سے توفیق حاصل ہو۔ دوسرے کو نہیں ہوتی۔ اور خدا مسائل دقیقہ کو مثالوں کے پیرایہ میں بیان فرماتا ہے تا حقائق عمیقہ قریب بہ افہام ہوجائیں۔ مگر وہ اپنے علم قدیم سے خوب جانتا ہے کہ کون ان مثالوں کو سمجھے گا اور حق کو اختیار کرے گا اور کون محروم و مخذول رہے گا) پس اس مثال میں جس کا یہاں تک جلی قلم سے ترجمہ کیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے دل کو شیشہ مصفیٰ سے تشبیہ دی جس میں کسی نوع کی کدورت نہیں۔ یہ نورِ قلب ہے۔ پھر آنحضرت کے فہم و ادراک و عقل سلیم اور جمیع اخلاق فاضلہ جبلی و فطرتی کو ایک لطیف تیل سے تشبیہ دی جس میں بہت سی چمک ہے اور جو ذریعہ روشنی چراغ ہے یہ نور عقل ہے کیونکہ منبع و منشاء جمیع لطائفِ اندرونی کا قوت عقلیہ ہے۔ پھر ان تمام نوروں پر ایک نور آسمانی کا جو وحی ہے نازل ہونا بیان فرمایا۔ یہ نور وحی ہے۔ اور انوار ثلاثہ مل کر لوگوں کی ہدایت کا موجب ٹھہرے۔ یہی حقانی اصول ہے جو وحی کے بارہ میں قدوس قدیم کی طرف سے قانون قدیم ہے اور اس کی ذات پاک کے مناسب۔ پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل درجہ پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہرگز نہیں پاتا اور پہلے اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کمالِ عقل اور کمالِ نورانیت قلب صرف بعض افراد بشریہ میں ہوتا ہے کل میں نہیں ہوتا۔ اب ان دونوں ثبوتوں کے ملانے سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ وحی اور رسالت فقط بعض افراد کاملہ کو ملتی ہے نہ ہریک فردِ بشر کو۔ پس اس قطعی ثبوت سے برہم سماج والوں کا خیال فاسد بکلی درہم برہم ہوگیا اور یہی مطلب تھا۔
(براھین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 192-196 حاشیہ نمبر 11)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر کے حوالہ سے بیان فرماتےہیں:
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت اور مشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الٰہی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ انوار و برکات الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے۔ اور جو شخص آنحضرت ﷺ کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کرلے۔یعنی یہ پیروی اور محبت مومن بندے کو اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ اس کوباقی سب چیزوں سے بے نیاز کر دے، کسی غیر کے آگے جھکنے والے نہ ہوں۔ جیسے بھی حالات ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے آستانے پر ہی جھکنے والے ہوں۔ اب یہی شان ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے۔ فرمایا کہ آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے۔ اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتاہے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَاالْحَاشِرُالَّذِیْ یُحْشَرُالنَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ۔ یعنی مَیں مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں۔
(الحکم جلد 5 نمبر 3 مورخہ 24/ جنوری 1901 صفحہ 2)
( خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 2004ء خطبات مسرور جلد 2 صفحہ887)
حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے عاشق صادق حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰة والسلام اس عظیم الشان نور کی بابت فرماتے ہیں:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ ا ور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ160-161)
٭…٭…٭